غیر مشتبہ اخلاص


مولانا مودودیؒ ایک مدت تک لاہور میں مسجدمبارک میں باقاعدگی سے درسِ قرآن دیتے رہے۔ ان دروس میں تفہیم القرآن کے علاوہ بھی فہم قرآن کے نکات سموئے ہوئے ہیں۔ یہ درس کیسٹ میں محفوظ کر لیے گئے تھے لیکن کتابی صورت میں شائع نہ ہوپائے۔ سورئہ صف، رکوع اول کا درس     پیش ہے۔ جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن۔(ادارہ)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (الصف ۶۱:۱) اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔

یہ سورئہ صف کی ابتدائی آیت ہے اور یہی اس سورت کی مختصر تمہید ہے۔ فرمایا گیا: اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، یعنی زمین، آسمان کی تمام چیزیں اور دراصل پوری کائنات اس بات کا اظہار اور اعلان کرر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص، عیوب اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ کوئی عیب اور کمزوری اس کے اندر نہیں ہے، وہ منزہ ہے تمام نقائص سے___  اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔

وہ عزیز ہے___ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا زبردست ہے کہ کوئی چیز اس کے احکام کے نافذ ہونے میں مانع نہیں ہے۔ جو حکم وہ دے وہ نافذ ہوکر رہتا ہے، کوئی طاقت اس کے کسی حکم کی راہ میں مزاحم نہیں ہے___ اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی وہ جو کچھ فیصلہ کرتا ہے اور جو حکم بھی وہ دیتا ہے وہ حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کی فرماں روائی میں نادانی نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام جو وہ کرتا ہے سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اللہ کی صفت عزیز کے ساتھ حکیم یا علیم کی صفت آتی ہے۔ یہ اس بات کو ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ کسی شخص کا ایسا زبردست اور طاقت ور ہونا کہ اس کے احکام نافذ ہو کر رہیں، اگر نادانی یا بے علمی کے ساتھ ہو، تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ اگرچہ اس کا ہر حکم نافذ ہوکر رہتا ہے اور کسی مخلوق کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کے حکم کے آگے سر جھکا دے لیکن اس غیرمعمولی اختیار اور قدرت کے ساتھ ساتھ وہ حکیم بھی ہے۔ اپنی طاقت کو وہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں___  اور وہ علیم ہے، یعنی جو کچھ کرتا ہے علم کی بنا پر کرتا ہے، جہالت کی بنا پر نہیں کرتا۔

اس پوری سورت میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو نفاق سے پاک ہونا چاہیے اور جس چیز پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے معاملے میں ان کا اخلاص غیرمشتبہ ہونا چاہیے۔ انسان کے لیے اس سے بدتر اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی چیز کو ماننے کا دعویٰ کرے اور پھر اس کے معاملے میں مخلص نہ ہو۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی اس چیز کو ماننے سے انکار کر دے لیکن ماننا اور پھر خلوص کے ساتھ نہ ماننا، یہ بدترین صفت ہے اور یہی نفاق ہے۔

قول و فعل میں تضاد

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o (۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ (قابلِ غضب) حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔

ایک آدمی کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں مانتا، لیکن اس کے بعد اس کا اپنے نفس کو خدا بنانا، اپنی سوسائٹی اور برادری کو خدا بنانا، اپنی قوم کو خدا بنانا، حکومت کے بڑوں کو، مال داروں کو، اپنے پیرووں، پیشوائوں اور لیڈروں کو خدا بنانا___  یہ سب سراسر کفر کے مترادف ہے۔ جب ایک آدمی کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ اللہ ہی کو اپنا خدا اور معبود مانتا ہے تو اس کے بعد اسے دنیا میں کسی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، چاہے اس کی اپنی ذات کی ہو، یا خاندان، یا برادری یا وطن کی۔ کوئی فرد یا گروہ یا قوت اس کی اطاعت کی مرکز نہیں بننی چاہیے۔

اس طرح کسی آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ میں آپؐ  کو خدا کا رسولؐ مانتا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو ہدایت آپؐ اس کو دے رہے ہیں، اس کے بارے میں وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔حضوؐر جس چیز سے منع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع کر رہے ہیں۔ جس چیز کا حکم آپؐ  دے رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے دے رہے ہیں۔ اس طرح حضوؐر کو اللہ کا رسول ماننے کے بعد پھر آپؐ  کے احکام کی خلاف ورزی بھی کرنا اور آپؐ  کی ہدایات سے انحراف بھی کرنا اور جس چیز کو آپؐ  کہیں کہ یہ سخت ناپسندیدہ فعل ہے، اس کو بڑے اصرار کے ساتھ کرنا، اور جس چیز کا آپؐ  حکم دے رہے ہیں، اس سے فرار اختیار کرنا اور کہنا کہ یہ رجعت پسندی ہے، آج کل کی ثقافت کے خلاف ہے___  دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ آدمی سخت منافق اور جھوٹا اور بے ایمان ہے۔

کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں اللہ کے رسولؐ کو عزیز رکھتا ہوں، لیکن پھر وہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے مفاد کے خلاف کام کرتا ہے، کسی شخص کا اس دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کرنا اور اللہ اور رسولؐ کے دشمنوں کے ساتھ جاکر ملنا اور ان کے منشا کے مطابق کام کرنا ___  یہ سراسر منافقت ہے۔ یہ روش اختیار کرنے سے زیادہ اللہ کے غضب کے قابل کوئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ تم جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہو، اگر تم اس کے خلاف عمل کرتے ہو تو یہ نہایت ناپسندیدہ فعل ہے، اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔

اھلِ ایمان کی روش

اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

یہ دوسری بات ہے جو یہاں مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ کی راہ کے سوا کسی اور راہ میں لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں نہ لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور جب میدانِ جنگ میں دشمنوںسے سابقہ پیش آئے تو مضبوط صف باندھ کر لڑو۔ اس طرح یہاں طریق جنگ کے بارے میں بھی ہدایت کردی گئی۔

قدیم زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ قبائل ایک دوسرے پر مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ آور ہوتے تھے اور جواب میں دوسرے لوگ بھی منتشر گروہ کی شکل میں دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کو اپنی جنگ میں صف باندھ کر لڑنا چاہیے۔ اس طرح اس زمانے میں مسلمانوں کو جو طریق جنگ سکھایا گیا، بعد میں پھر ساری دنیا نے اس کی پیروی کی۔ عرب میں اور بیرونِ عرب لڑائیوں میں مسلمانوں کو جو کامیابی ہوئی ہے اس کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ عرب کے لوگ چونکہ صف بستہ ہوکر لڑنا نہیں جانتے تھے اور منتشر گروہوں کی شکل میں لڑتے تھے، اس وجہ سے جو گروہ صف بستہ ہوکر لڑتا تھا، وہ آسانی سے مخالف گروہ کو دبا لیتا تھا۔

یہ دراصل ایک ضمنی ہدایت ہے جو اس آیت کے اندر دی گئی ہے۔ لیکن اصل بات جو ذہن نشین کرانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ گروہ ہے جو اس کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو۔ اس کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگائے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو پیٹھ نہ دکھائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی راہ میں لڑتا ہے تو وہ ایک حرام فعل کرتا ہے، اور اگر اللہ کی راہ میں لڑائی کا مرحلہ پیش آجائے لیکن وہ میدان میں نہیں آتا، تب بھی وہ گناہِ عظیم کا ارتکاب کرتا ہے۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر کبھی دارالاسلام پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو اوّلین فرض اس بستی کے لوگوں کا ہے کہ وہ اس کی مدافعت کریں۔ اس کے بعد یہ فرض آس پاس کی بستیوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ بھی اس کی مدافعت کے قابل نہ رہیں، تو پورے ملک کے لوگوں پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ پوری دنیاے اسلام پر، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، سب کے اُوپر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ جب اس طرح کا کوئی مرحلہ درپیش ہو اور لوگوں کو لڑائی کے لیے پکارا جائے اور وہ نہ آئیں تو وہ ایسے ہی گناہ گار ہیں جیسے کہ نماز کی پکار بلند ہونے کے باوجود اس کے لیے نہ آنا، اور جیسے روزے کا حکم ماننے سے انکار کرنا۔ گویا فرضیت کے اعتبار سے ایسے مواقع پر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ، نماز اور روزے کی طرح فرض ہے۔ اس فرض سے منہ موڑنے والے سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور اس فرض کو ادا کرنے والوں سے بڑھ کر اللہ کو محبوب کوئی نہیں۔

یھود کا طرزِعمل

اب اس کے بعد تیسری بات ارشاد فرمائی گئی، یعنی ایک ہی سلسلے میں ایک ہی موضوع پر الگ الگ ہدایات مسلمانوں کو دی گئی ہیں۔ یہ تیسری ہدایت ایک خاص تاریخی حوالے سے ہے:

وَاِِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِی وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ ط فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶۱:۵) اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) کی وہ بات جو انھوں نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ ’’اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو، حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟‘‘ پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس ارشاد سے مقصود یہ ہے کہ تم اپنے رسول کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اپنے نبی ؑ کے ساتھ اختیار کی تھی۔ فرمایا گیاہے کہ حضرت موسٰی ؑ کی قوم اُن کو اذیت دیتی تھی۔ اس سلسلے میں بعض باتوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور بعض کا ذکر بائبل میں آیا ہے۔ بہرحال یہود خود اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنگ کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سلسلے میں بہت سی باتوں کی خبر دی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ان کا ذکر موجود ہے۔

قرآنِ مجید میں متعدد واقعات اس سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ جس زمانے میں مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور آلِ فرعون کو خدا کی بندگی اختیار کرنے کی طرف دعوت دے رہے تھے، اس زمانے میں بنی اسرائیل کے نوجوانوں نے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا لیکن باقی پوری قوم آپ کا ساتھ دینے سے کتراتی رہی، صرف اس خوف سے کہ کہیں ہم فرعون کے غضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو دیکھ کر اس امر میں  کسی شک کی کوئی گنجایش نہیں تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن صرف اس وجہ سے کہ کہیں فرعون کی حکومت کا غضب اُن کے اُوپر نازل نہ ہوجائے، انھوں نے اللہ کے رسول کا ساتھ نہیں دیا۔ نوجوانوں کی ایک مختصر تعداد جن کو یہ لوگ سرپھرے کہا کرتے تھے، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ پھرایک طویل کش مکش اور ابتلا کے بعد جب وہ مصر سے نکلے تو مصر سے نکلنے کے بعد جس پہلی منزل پر جاکر رُکے وہاں انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کر دیا کہ گردوپیش    کی بت پرست قوموں کے جس طرح کے معبود ہیں، ایسا ہی ایک معبود ہمارے لیے بھی بنا دیں۔ اس سے آپ اندازہ کیجیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انھوں نے کیسی اذیت پہنچائی ہوگی کہ جس قوم کو سالہا سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد مصر سے ظالموں کے چنگل سے بچاکر وہ لائے تھے، اور جس قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فرعون کو اور اس کے لشکروں کو غرق کیا اور ان سے ان کو نجات بخشی، اس کے بعد شاید ۲۴ گھنٹے سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے بت پرستوں کی طرح کا ایک مصنوعی خدا مانگ لیا اور کہا:

اجْعَلْ لَّنَـآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ(اعراف ۷:۱۳۸) ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔

اس کے بعد قرآن مجید میں کچھ اور نظیریں بیان کی گئی ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کا حکم دیا کہ تم حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں یہاں ٹھیرو اور میں جاکر   کوہِ طور سے تمھارے لیے اللہ کی ہدایات لے کر آتا ہوں تو یہ لوگ آپ ؑ کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنابیٹھے۔ اسی طرح آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب چلو تاکہ فلسطین کا علاقہ فتح کیا جائے تو انھوں نے کہا کہ وہاں تو بڑے بڑے جبار ہیں۔ ہمارے اندر ان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ تم اور تمھارا خدا جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جب تم اس ملک کو فتح کرلو گے تو پھر ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔

ان سارے واقعات کی طرف یہاں صرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بات کو یاد کرو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ کہا تھا کہ تم مجھے اس طرح کے افعال سے کیوں اذیت پہنچاتے ہو، جب کہ تم کو معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس طرح اس واقعے کا ذکر کرکے دراصل مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اختیار کی تھی۔

دلوں میں ٹیڑھ

فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(الصف ۶۱:۵) جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

دوسرے الفاظ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ تم اگر اپنے رسولؐ کی تکریم سے انکار کرو گے، اس کی اطاعت سے منہ موڑو گے اور غلط راستوں پر جانے کی کوشش کرو گے، تو اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا کردے گا۔

دلوں میں ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم پھر سیدھی بات سوچنے کے قابل نہیں  رہو گے۔ جب سوچو گے، ٹیڑھی بات سوچو گے۔ جب تم نے اللہ کے رسول سے منہ موڑ لیا تو پھر تمھیں کبھی صحت فکرونظر نصیب نہیں ہوگی۔ ہر معاملے کو اُلٹی نگاہ سے دیکھو گے۔ جب کرو گے  اُلٹے فیصلے کرو گے۔ کسی قوم کے اُوپر اس سے بڑا اللہ تعالیٰ کا کوئی غضب نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس کو سیدھی طرح سوچنے کی توفیق سے محروم کردے۔ ایسی قوم دشمنوں سے شکست کھاجانے کے بعد بھی اپنی ٹیڑھ پر قائم رہتی ہے۔ شکست کھا جائے، پٹ جائے، جوتے کھا لے لیکن اس کے بعد بھی وہ اُلٹی بات ہی سوچے گی، کبھی سیدھی بات سوچنا اس کو نصیب نہیں ہوگا۔ یہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہونے کی علامت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ یہ اللہ کا رسول ہمارے درمیان موجود ہے کوئی قوم اس کی اطاعت سے انحراف کرتی ہے تو پھر اللہ اس کو کبھی توفیق نہیں دیتا کہ وہ سیدھے طریقے سے سوچے، صحیح نگاہ سے کسی معاملے کو دیکھے اور سیدھے راستے پر قائم رہے۔

وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶۱:۵) اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ وہ فاسق لوگوں کو ہدایت دے۔

فاسق کہتے ہیں اطاعت سے نکل جانے والے کو۔ اگر کوئی شخص اطاعت کو چھوڑ کر نافرمانی کی راہ اختیار کرے تو وہ فاسق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر قبولِ حق کے تقاضے ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو میں کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ جس کو ہدایت نہ دے اس کو کہیں سے یہ ہدایت نہیں مل سکتی، اس کی تفسیر یہ آیت کرتی ہے۔ اللہ کا کسی کو ہدایت نہ دینا، کسی کو گمراہی میں ڈال دینا، یہ اس کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہے کہ وہ تو ہدایت اختیار کرنا چاہتا تھا لیکن   اللہ تعالیٰ نے اس کو زبردستی گمراہی میں مبتلا کردیا۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے، دینِ حق سے انحراف کرتا ہے، ہدایت کے دائرے سے نکل جاتا ہے تو اس کے بعد پھر اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ ہدایت لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے پھرے اور کہے کہ لے لے یہ ہدایت۔ نہیں، بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ اگر تمھیں ہدایت کی ضرورت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھاری خوشامد کر کے تمھیں ہدایت دے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص فسق اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ پھر اس کی رہنمائی کرنا شیطان کا، اس کے اپنے نفس کا کام ہے، یا دنیا کے دوسرے گمراہوں کا کام ہے۔ اس کی رہنمائی کرنا اللہ کا کام نہیں۔ اللہ کبھی ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

نصاریٰ کا رویـہ

وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ o (۶۱:۶) اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم ؑکی وہ بات جو اُس نے کہی تھی کہ ’’اے بنی اسرائیل ، میں تمھاری طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔ مگر جب وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا: یہ تو صریح دھوکا ہے۔

اُوپر یہ فرمایا گیا تھا کہ اہلِ کتاب کی سی روش اختیار نہ کرو، اب اس کی مزید توضیح میں یہ بات فرمائی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل کا رویہ اپنے رسول (حضرت موسٰی ؑ) کے ساتھ درست نہیں تھا اور انھوں نے صحیح رویہ چھوڑ کر اپنے رسول کو طرح طرح اذیتیں دیں، اس کے بعد ان کا یہی رویہ حضرت عیسٰی ؑ کے ساتھ رہا۔

وہ رویہ یہ تھا کہ جب حضرت عیسٰی ؑاُن کے پاس آئے اور انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا اور راہِ ہدایت اختیار کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ آپ کے کھلے دشمن بن گئے۔

پہلی چیز میں صرف بنی اسرائیل مجرم ہیں اور دوسری چیز میں یہود و نصاریٰ دونوں مجرم ہیں۔ گویا اہلِ کتاب کی اس ساری روش کو اس ایک آیت میں بیان کر دیا گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوکر آئے اور انھوں نے    بنی اسرائیل کو یہ دعوت دی کہ گمراہی کو چھوڑ کر راہِ راست اختیار کرو، اللہ تعالیٰ کی بندگی کو اپنا شعار بنائو، اور جن اخلاقی برائیوں میں تم مبتلا ہو، ان کو چھوڑ دو، تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسٰی ؑکو رسول ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان کی دشمنی پر اُتر آئے اور رومی حکومت سے کہہ کر ان کے اُوپر مقدمہ چلوایا اور رومی عدالت سے آپ کو سزا دلوائی۔ پھر سزاے موت دلوانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ جس روز حضرت عیسٰی ؑکو سزا دی جانے والی تھی اس روز رومی عدالت کی طرف سے ایک ڈاکو  کے لیے بھی موت کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ رومی حکومت کا قاعدہ یہ تھا کہ اگر سزا کا دن بنی اسرائیل کی عید کا دن ہوتا تو ان کو یہ پیش کش کی جاتی تھی کہ تم سزاے موت کے ملزموں میںسے جس کو چاہو چھڑوا لو۔ چنانچہ دستور کے مطابق رومی گورنر نے انھیں پیش کش کی کہ آج دو آدمیوں کی پھانسی کا دن ہے، جن میں ایک حضرت عیسٰی ؑ ہیں اور دوسرا بَرّ ابا ڈاکو، تم بتائو کہ تم کس کو چھڑوانا چاہتے ہو؟  اس پر انھوں نے کہا کہ ہم اس ڈاکو کو چھڑوائیں گے۔ اس طرح انھوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام جیسی شخصیت پر ایک ڈاکو کو ترجیح دی اور یہ چاہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام تو صلیب پر چڑھا دیے جائیں، لیکن بَرّابا ڈاکو کو چھوڑ دیا جائے۔

یہود کا یہ سارا غصہ کس بنا پر تھا؟ ان کا یہ سارا غصہ اس بنا پر تھا کہ بنی اسرائیل کے علما جن مکاریوں اور فریب کاریوں میں مبتلا تھے،اور جس طرح خدا کی شریعت کو تھوڑی قیمت پر بیچ رہے تھے اور اپنے مادی مفاد اور نفسانی خواہشات کی بنا پر بڑے لوگوں کے ہاتھ فتویٰ بیچتے تھے، ان کی اغراض کے مطابق خدا کی شریعت میں تحریف کرتے تھے، ان کی ان سب حرکات پر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو ٹوکا اور ان سے باز آنے کے لیے کہا تو ان کو خدا کا رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ ان کے جانی دشمن بن گئے۔ چونکہ تورات ان کے قبضے میں تھی اور وہ عام آدمی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے تھے، اس لیے اس کی من مانی تاویلات کرتے تھے۔ حد یہ تھی کہ بنی اسرائیل تورات کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی جو خاص علما کی جماعت (priest class) تھی، تورات صرف اس تک محدود تھی، اور وہ بھی غلافوں کے اندر لپٹی رہتی تھی۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کے عام لوگوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ تورات کے احکام کیا ہیں۔ جو کچھ ان کے مذہبی پیشوا ان کو بتاتے تھے کہ تورات کے احکام یہ ہیں وہ ان کو اسی طرح مان لیتے تھے۔ پھر وہ خاص یہودی علما تورات کے احکام کے اندر اپنی اغراض کے مطابق تغیر و تحریف کرتے رہتے تھے۔ جو حکم وہ چاہتے تھے اس کو بیان کرتے تھے اور بنی اسرائیل اس کو تسلیم کرتے تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے آکر ان لوگوں کو ان چیزوں پر ٹوکا اور ان سے یہ کہا کہ تم جس اخلاقی مرض میں مبتلا ہو، یہی تمھارے نفاق کا سبب ہے۔ اس کو چھوڑ دو، اس پر وہ سب آپ کے دشمن ہوگئے۔

بنی اسرائیل کے اندر، جو حضرت عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے پانچ چھے سو برس سے مارے کھدیڑے جا رہے تھے، عجیب توہمات رائج تھے۔ اسی زمانے سے ان کے ہاں پیشین گوئیاں چلی آرہی تھیں کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس عذاب سے نجات دلائے گا جس میں تم دنیا میں مبتلا ہو۔ بنی اسرائیل نے ان پیشین گوئیوں سے یہ سمجھا کہ وہ مسیح تلوار لے کر آئے گا اور جو قومیں ہم پر غالب اور حکمران ہیں ان کو مار کر ہمارا ملک ہمیں واپس دلائے گا اور ہم کو پھر حکمرانی کے تخت پر بٹھا دے گا۔ اس لیے جب انھوں نے حضرت عیسٰی ؑکو دیکھا کہ بجاے اس کے کہ یہ تلوار سے ہمیں ہمارے دشمنوں سے نجات دلائیں اور ہمیں پھر فلسطین کے اُوپر قابض ہونے کا موقع دیں، یہ تو اُلٹا ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم اپنے اخلاق درست کرو، حرام کو چھوڑو اور حلال کو اختیار کرو، یہ انھوں نے ہمیں کس چکر میں ڈال دیا۔ اس وجہ سے وہ حضرت عیسٰی ؑکے دشمن ہوگئے اور ان کو ماننے سے انکار کر دیا۔

یہ ان کا پہلا جرم تھا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ حضرت عیسٰی ؑنے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی جو بشارت دی تھی اس کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عیسٰی ؑ کی یہ بشارت عیسائیوں کی تمام تحریفات کے باوجود اب بھی انجیل کے اندر موجود ہے۔ اگرچہ سب انجیلوں میں اب یہ بشارت موجود نہیں ہے، لیکن بعض انجیلوں کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ صراحت موجود رہی ہے۔ اب ان کو عیسائیوں نے مستند انجیلوں سے خارج کر دیا ہے، تاہم اب بھی ان کے نزدیک جو مستند انجیلیں موجود ہیں، ان کے اندر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی بشارت موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بشارت کے صریح الفاظ میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ بہرکیف اس بشارت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہود و نصاریٰ نے آپؐ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس تکذیب کا الزام    بنی اسرائیل پر کم آتا ہے اور عیسائیوں پر زیادہ آتا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل نے تو حضرت عیسٰی ؑ کو سرے سے رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے انھوں نے ان کی دی ہوئی بشارت اور  پیش گوئی کو بھی ماننے سے انکار کر دیا لیکن عیسائی جو حضرت عیسٰی ؑ کو مانتے تھے، انھوں نے بھی ان کی بتائی ہوئی پیشین گوئی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

اس پیشین گوئی کے بارے میں موجود زمانے میں ہمارے اپنے ملک (متحدہ ہندستان و پاکستان) کے اندر ایک گروہ نے صریح تحریف کی ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکی پیش گوئی کے مصداق حضوؐر نہیں تھے بلکہ نعوذ باللہ ایک اور شخصیت ہے کیونکہ رسولؐ اللہ کا تو نام ہی احمدؐ نہیں تھا۔ ان کا نام تو محمدؐ تھا۔ اس لیے جس نبی کی آمد کی خوش خبری دی گئی تھی اس کا نام اب غلام احمد ہے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ ان کے باپ نے جب ان صاحب کا نام غلام احمد رکھا تھا تو کس احمد کے غلام کی حیثیت سے رکھا تھا؟ اگر رسولؐ اللہ کا اسم گرامی احمد نہیں تھا تو اس جعلی نبی کے والد نے ان کا نام کس احمد کے غلام کے طور پر رکھا تھا؟ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر بددیانت ہیں کہ ان کے اپنے تجویز کردہ نبی کا نام ہی جب غلام احمد ہے، احمد نہیں، تو اس کے باوجود وہ پھر انکار کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد نہیں تھا، اور یہ پیشین گوئی حضوؐر کے بارے میں نہیں تھی۔

صریح بھتان

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِِلَی الْاِِسْلاَمِط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، حالانکہ اُسے اسلام (اللہ کے آگے سرِاطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جارہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

یہ بات جو فرمائی گئی کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، اُس پر جھوٹ گھڑے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو جو یہ جان لینے کے بعد کہ فلاں صاحب اللہ کے نبی ہیں، خواہ پچھلے انبیا کی پیشین گوئی کے مطابق، خواہ اپنی تعلیم کے مطابق، وہ ان کی نبوت کا انکار کرے، ان پر الزام رکھے کہ وہ جادوگر ہیں اور خود ایک کتاب تصنیف کر کے اس کو خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں، اس سے بڑا افترا کوئی نہیں اور اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ اس کے برعکس اگر دعوت دینے والا لوگوں سے یہ کہتا ہے کہ تم میری بندگی کرو تو آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کے خلاف لڑیں لیکن اگر دعوت دینے والا یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور آپ اس سے لڑنے جارہے ہیں تو اس کے کیا معنی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی بندگی کی دعوت دینے والے کے خلاف لڑنا اللہ کی بندگی سے لڑنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ خدا کے رسول سے تمھاری دشمنی اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے کھڑا ہوا ہے، اس لیے تم اس کے مخالف ہو۔ نہیں، بلکہ تمھاری دشمنی اس بنا پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے اور تم اللہ کی بندگی کی طرف آنا نہیں چاہتے۔ اور پھر صرف یہی نہیں کہ  تم اسے خدا کا نبی ماننے سے انکار کررہے ہو بلکہ اس کے اُوپر جھوٹے الزام لگا رہے ہو، بیہودہ بہتان گھڑ رہے ہو، اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) ’’اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا، یہاں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی فسق اور ظلم سے بچے۔ اگر کوئی شخص فسق اختیار کرتا ہے، یعنی جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اس کے پیچھے پیچھے ہدایت لے کر پھرے کہ تو اس کو قبول کرلے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظلم پر اُتر آتا ہے___  اور ظلم کے معنی یہاں صداقت پر ظلم کرنا ہے___  ان معنوں میں کہ آدمی کے سامنے صداقت پیش کی جائے لیکن پھر وہ اس کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ انکار کا راستہ اختیار کرے بلکہ اُلٹا صداقت پیش کرنے والے کادشمن ہوجائے اور اس پر الزام اور بہتان لگانا شروع کر دے، تو یہ ظلم ہے اور جو لوگ اس طرح کا ظلم اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پھر کبھی ان کو ہدایت نہیں دیتا۔ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف ظلم کی روش اختیار کی تو پھر اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے پیچھے ہدایت لیے لیے پھرے۔

باطل کی حقیقت

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلاکر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

یہ مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ سورئہ توبہ میں بھی آیا ہے۔ یہاں پھر اسی کو دُہرایا گیا ہے۔ گویا یہ لوگ اگر باتیں بناکر، الزامات لگاکر، بہتان گھڑ کر اور جھوٹے پروپیگنڈے کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، اللہ کا نور بجھنے والا نہیں ہے۔ ہمیشہ دنیا میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی خود سیدھی راہ پر چل رہا ہو، اور دوسرے لوگوں کو بھی سیدھا راستہ دکھا رہا ہو اور ایمان داری کے ساتھ اپنے طریقے کو معقول انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہو، لیکن دوسرا شخص اس کے مقابلے میں طرح طرح کی غلط کارروائیاں کرتا ہے، اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتا ہے، اس پر الزامات رکھتا ہے، بہتان لگاتا ہے، آخرکار وہ ناکام ہوکر رہتا ہے اور راست باز آدمی کو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کا جھوٹا پروپیگنڈا، اس کے الزامات، اس کے بہتانات اس آدمی کو زک پہنچا دیںگے جو سیدھے سیدھے طریقے سے اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے، لیکن یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں، اور وہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مار لیا، میں نے ہزاروں آدمیوں میں غلط فہمیاں پھیلا دیں اور داعی الی اللہ کو بدنام کردیا، لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ جب ایک آدمی کسی پر جھوٹا الزام رکھتا ہے تو اس کا جھوٹ کبھی نہ کبھی کھل کر رہتا ہے، اور جس وقت دنیا کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا تھا اور اس نے جھوٹے الزامات لگائے اور بے بنیاد بہتان گھڑے تھے تو اس کے بعد اس شخص کی صرف اسی بات کا اعتبار نہیں جاتا بلکہ اس کی ساری باتوں کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔ دوسری طرف جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ جس شخص کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس سے دشمنی کی جارہی ہے لیکن وہ ان حرکتوں کے مقابلے میں شرافت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کسی نازیبا بات کا جواب نہیں دیتا، جھوٹ کے جواب میں جھوٹ نہیں بولتا اور الزامات کے جواب میں الزام نہیں لگاتا تو لوگوں کے دلوں میں اس آدمی کی عزت خود بخود قائم ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ہے۔   اللہ تعالیٰ اس طریقے سے جھوٹ کو نیچا دکھاتا ہے اور سچائی کو سربلند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اپنے منہ سے جھوٹ کا جو طوفان اُٹھاتے ہیں، اُلٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اللہ کے نور کو بجھا دیںگے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، خدا کے دین کی روشنی پھیل کر رہے گی اور جھوٹے پروپیگنڈے آخرکار بالکل ناکام ہوکر رہیںگے۔ جھوٹ پر مدار رکھنے والوں کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی۔

وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (۶۱:۸) خواہ انکار کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

دین غالب ھونے کے لیے آیا ھے!

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت میںاُوپر والے مضمون کو دوسرے الفاظ میں مزید زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے، ایک سورئہ فتح میں اور دوسرے سورئہ توبہ میں۔ فرمایا یہ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے، ایک ہدایت اور دوسرے دینِ حق۔ درحقیقت یہ دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی چیز کے  دو phase (مراحل) ہیں۔

دین حق سے مراد وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو انسانی زندگی کے لیے دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ حلال و حرام کیا ہے، کس چیز میں انسان کی بھلائی اور کس چیز میں خرابی ہے۔ اور کیا چیزیں ہیں جوانسان کی ہلاکت اور تباہی و بربادی کی موجب ہوتی ہیں اور کیا چیزیں فلاح کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے فرائض کیا ہیں، ان کو کس طرح انجام دینا چاہیے۔ اس طرح زندگی کے مختلف دائروں میں جو قوانین اور احکام دیے گئے ہیں، خواہ وہ انسان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہوں، خواہ خاندانی اور قومی زندگی کے متعلق ہوں، وہ سب کے سب خدا کا دین ہیں۔ معاشرہ، معیشت، قانونِ جنگ، سیاست، غرض زندگی کے ہرشعبے کے متعلق جو ضابطے اور اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ سب دین ہیں۔ ایک ایسا دین جو سراسر حق کے مطابق ہے۔

دوسری چیز ہدایت ہے، یعنی ان احکام و فرامین پر عمل درآمد کے طریقوں کی طرف رہنمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ رہنمائی دے کر بھیجا کہ وہ دین حق کو غالب کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے۔ یہ بتایا کہ اس دین کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتائیں تاکہ وہ اس کے مطابق کام کرے۔ اس طرح   اللہ تعالیٰ نے یہ دو چیزیں دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ وہ دنیا کو سیدھے راستے پر چلائے اور دینِ حق کو پورے دین پر غالب کردے۔دوسرے الفاظ میں دنیا جس طریقے پر چل رہی ہے، ان کے مجموعے کا نام دین ہے۔ پورے کے پورے دین سے مراد یہ ہے کہ جس جس شکل میں کوئی اپنی زندگی گزار رہا ہے، وہ اس کا دین ہے۔ اگر کوئی یہودیت پر چل رہا ہے تو یہودیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی نصرانیت پر چل رہا ہے تو نصرانیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی دہریت پر چل رہا ہے تو دہریت اس کا دین ہے۔ اگر کسی نے اپنے ہاں سیکولر نظام قائم کیا ہے تو وہ نظام اس کا دین ہے، اور اگر کسی نے کسی طرح کا مذہبی نظام قائم کیا ہے تو وہ مذہبی نظام اس کا دین ہے۔ یہ سارے کے سارے دین جو دنیا میں چل رہے ہیں ان سب کے لیے اَلدِّیْن کُلِّہٖ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

رسول کے آنے کا جو منشا اور جس غرض کے لیے اللہ نے رسول کو اپنا دین دے کر اور اس کے ساتھ اپنی ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے دین چل رہے ہیں، وہ ان سب کے اُوپر اللہ کے دین کو غالب کردے۔

یہ بات واضح رہے کہ دنیا میں کوئی بھی رسول کبھی اس لیے نہیں آیا ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں اور خدا کے رسولؐ کا لایا ہوا دین ان کے تابع بن کر رہے۔ اگر کوئی احمق    یہ سمجھتا ہے کہ رسول بھی اس کام کے لیے آتا ہے کہ دنیا میں کفر اور کفار کا غلبہ رہے اور اسلام ان کے تابع بن کر رہے اور وہ بھی وہی طریقے اختیار کرے جو دنیا کے طریقے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتا کہ خدا کیا ہے، اس کا دین کیا ہے، اور اس کا رسول کیا ہے۔ خدا اس ساری کائنات کا مالک ہے تو اُسی کے دین کو یہاں غالب ہوکر رہنا چاہیے۔ دنیا کے کسی اور دین کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ رب کائنات کی اس سلطنت کے اندر جاری اور قائم رہے۔

اللہ جب اپنے رسول کو بھیجتا ہے تووہ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے دین کو غالب کرے گا، نہ اس لیے کہ دوسرے دین غالب ہوں اور اللہ کا دین مغلوب بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات اور سلطنت کے اس حصے کا، جس کا نام زمین ہے، تنہا مالک ہے، اور مالک اپنے رسول کو اس لیے نہیں بھیجے گا کہ وہ دوسروں کی مرضی کے مطابق چلے اور جو لوگ خدا کی زمین پر مالک بن بیٹھے ہیں، وہ جاکر ان کا ماتحت بن جائے۔ نہیں، بلکہ وہ اللہ کا نمایندہ بن کر آئے گا اور ان کو اس بات کی دعوت دے گا کہ وہ اللہ کے مطیع بن کر رہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق دنیا میں کام کریں۔ اس کو ہدایت ہی اس غرض کے لیے دی گئی ہے کہ وہ دنیا سے یہ کہے کہ جن طریقوں پر تم چل رہے ہو، وہ غلط ہیں اور جو ہدایات میں اپنے رب کی طرف سے تمھیں دے رہا ہوں، وہ صحیح ہیں اور انھی کی پابندی کرنا تمھارا فرض ہے۔

قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نبی کسی قوم میں مبعوث ہوکر آیا تو اس نے لوگوں سے خطاب کرکے کہا: فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(الشعرا ۲۶:۱۵۰) ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ کوئی نبی کبھی یہ بات لے کر نہیں آیا کہ تم حکومت کرو اور میں تمھاری اطاعت کروں گا۔ نہیں، بلکہ اس نے یہی کہا کہ میں خدا کی طرف سے اس کا نمایندہ بن کر آیا ہوں،    اس لیے تم میری اطاعت کرو۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے رسولؐ کو اس غرض سے بھیجا کہ  وہ اس دین کو پورے کے پورے دین پر غالب کر دے۔

وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) خواہ یہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

ظاہر بات ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کسی دوسرے دین کو ملائے بیٹھے ہوں گے اور خدا کے احکام چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی اطاعت کر رہے ہوں گے، ان کو یہ بات سخت ناگوار ہوگی کہ باقی سب کی اطاعت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی اطاعت کی جائے۔ لیکن قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ بات ان کو ناگوار ہو تو ہوا کرے،اللہ کے رسولؐ کا کام یہ ہے کہ ان کی تمام ناگواری کے باوجود اور ان کی ساری مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔