امام حسن البنا شہیدؒ


ترجمہ: عبدالغفارعزیز

میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا :مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔

اس نے کہا :اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمھیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا ۔

وقت کے قافلے کے ساتھ چلتا مردِ ناداں، زندگی کے ایک دوراہے پر کھڑا کبھی پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا،تاکہ اس سفر میں پیش آنے والی تکالیف اور تھکن کو ذہن میں تازہ کرسکے--- پھر ایک نظر آگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتا، تاکہ اندازہ لگائے کہ ابھی اور کتنے مراحل طے کرنے ہیں۔

اے صحراے زندگی میں حیران و سرگرداں بھٹکنے والے دوست !کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہو گے، حالانکہ تمھارے اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ موجود ہے :

رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں ، سلامتی کے طریقے بتاتاہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتاہے اور راہِ راست کی طرف  ان کی رہنمائی کرتاہے۔

اے حیرانی اور تھکن سے   ُ چور لوگوکہ جن کے سامنے راستے گڈمڈ ہوچکے ہیں!اے گم کردہ راہ انسانو! سنو خداے علیم و خبیر کیا کہہ رہاہے :

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ،   اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو ۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے ۔ وہ تو   غفورو رحیم ہے ۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اس کے۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۴)

آئو اس کی پکار پر لبیک کہو ، اور پھر اس کے بعد دلی اطمینان ،ضمیر و نفس کی راحت اور اللہ تعالیٰ سے نیک اجر کا نظارہ کرو :

اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتاہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتاہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوااور کون ہے جو معاف کرسکتاہو؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنے والو کے لیے ۔(اٰل عمرٰن ۳ : ۱۳۵۔۱۳۶)

اے مصیبت زدہ اور گناہوں کے بوجھ تلے دبے میرے بھائی!میں تمھی سے مخاطب ہوں کہ میرے رب کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں ۔گناہ گاروں کا روتے ہوئے اس کی طرف پلٹ آنا اسے اپنے گھر کے طواف کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہے ۔ کوئی نالۂ نیم شبی، اس سے مناجات کی کوئی گھڑی، ندامت اور افسوس کے چند آنسو، توبہ اوراستغفار کا کوئی کلمہ -اس سے تمھارے گناہ مٹادیے جائیں گے ، تمھارے درجات بلند کردیے جائیں گے اور اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجائو گے۔ یاد رکھو، ہر انسان بے حد خطاکار ہے اورخطاکاروں میں سب سے بہترین وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہو ۔

اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ (البقرہ ۲:۲۲۲)

دیکھو، اللہ تمھارے کتنا قریب ہے، عجب ہے کہ تمھیں اس کے قرب کا احساس ہی نہیں۔ چشمِ ہوش سے دیکھو، اسے تم سے کتنی محبت ہے لیکن تمھیں اس کی محبت کی قدر ہی نہیں ۔ تم پر اس کی رحمتیں کتنی زیادہ ہیں اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے جاگتے ہی نہیں، سنو، وہ حدیث قدسی میں کیا کہتا ہے:میرا بندہ مجھ سے جو بھی گمان کرے میں اسی کے مطابق اس سے معاملہ کرتاہوں، میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ وہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتاہوں اور اگر مجھے کسی جم غفیر میں یاد کرتاہے تو میں اس سے بہتر جمِ غفیر میں اس کاذکرکرتاہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے تومیں اس کی طزف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ بڑھتا ہوں ۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتاہوں ۔

دیکھو کیا فرمارہاہے :’’اے ابن آدم! میری طرف چل کر آمیں تیری طرف دوڑ کر آئوں گا‘‘۔ بے شک وہ رات کو ہاتھ پھیلا تا ہے تاکہ دن کے گنہگار توبہ کرلیں اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے گنہگار توبہ کرلیں۔وہ انسان پر اس کی مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔    ’’بے شک اللہ لوگوں کے اوپر مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔‘‘(الحج ۲۲:۶۵)

میرے پیارے بھائی! جس نے وقت کے حقوق پہچان لیے اس نے درحقیقت زندگی کی قیمت پہچان لی، کیونکہ وقت ہی تو زندگی ہے ۔ جب زندگی کا پہیہ ہماری زندگی کے سفر کا ایک سال طے کرلیتاہے اور ہم دوسرے سال کا استقبال کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ہم عملاً ایک دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں ہمیں اپنے ماضی کا بھی محاسبہ کرنا ہے اور مستقبل کا بھی حساب لگانا ہوتاہے تاکہ کہیں حساب کی اصل گھڑی اچانک سرپہ نہ آ جائے ۔ وہ گھڑی جو یقیناً آکر رہنی ہے ۔ ماضی کا محاسبہ اس لیے تاکہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہوں ، اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا تدارک اور اپنی کج روی کو درست کریں کیونکہ ابھی موقع بھی ہے اور فرصت بھی۔ اور ہمیں مستقبل کو بھی دیکھنا ہے، تاکہ اس کے لیے بھرپور تیار ی کریں۔

یہ تیاری کیا ہے؟ پاک ،صاف ، سچا دل ، عملِ صالح اور نیکی اور خیر کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کا عزمِ صادق۔ مومن ہمیشہ دونوں پہلوئوں سے فکر مند رہتاہے :ایک طرف تو اسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکا رہتاہے کہ پتا نہیں میرا یہ عمل اللہ کے ہاں کیا مقام پائے گا ۔ دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتا رہتاہے کہ نہ جانے اس کے بارے میں  اللہ کا فیصلہ کیا ہوگا ۔ لہٰذا، ہر بندے کو خود اپنے آپ ہی سے اپنے لیے توشہ حاصل کرنا ہے، اپنی دنیا سے اپنی آخرت تعمیر کرناہے ۔ بڑھاپے سے بھی پہلے اور موت سے بھی پہلے پہلے ۔ حبیبِ مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں:

کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوتا جو پکار پکار کر نہ کہہ رہا ہو کہ اے ابنِ آدم !میں لمحۂ تازہ ہوں اور میں تمھارے عمل پر گواہ ہوں، مجھ سے جو چاہو حاصل کرو میں چلا گیا تو پھر قیامت تک دوبارہ نہیں آئوں گا۔

میں نئے سال کی مناسبت سے کچھ لکھنے بیٹھا تھا، میرا خیال تھا کہ میں ہجرتِ نبوی کی یاد میں کچھ لکھوں، اس کے کچھ واقعات سے دلوں کو گرمائوں لیکن میں بالکل دوسری سمت جا نکلا ۔ میں اپنے ان بھائیوں کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگا جنھوں نے وقت کے حقوق ضائع کردیے ،جوزندگی کے اصل راز سے غافل رہے۔ صد افسوس کہ انھوں نے اس امتحان کو فراموش کردیا جس کے لیے    ہم سب کو وجود ملا ہے ۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (ملک۶۷: ۲) تمھارا رب وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتاہے ۔

میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا لیکن میں نے اچانک خود کو اپنے محترم اور عزیز بھائیوں سے مخاطب پایا۔ دل میں امید پیدا ہوئی کہ اس طرح شیطان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے رحمن کی پناہ میں آجائیں ، ہم سب رضاے خدا وندی کے اس قافلے میں شریک ہوجائیں ، جسے اس کی طرف سے مغفرت اور رضوان عطا ہوتی ہے ۔ ہماری زندگی کے رجسٹر میں نئے محرم الحرام کا آغاز ایک نئے اور صاف و سفید صفحے سے ہو۔ اگر پچھلے صفحات گناہوں کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے توبہ واستغفار کے ذریعے نیکیوں میں تبدیل فرمادے:

وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتاہے اور برائیوں سے درگزر فرماتاہے ۔ حالانکہ تم لوگوں کے سب اعمال کا اسے علم ہے ۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتاہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتاہے ۔ (الشورٰی: ۲۵،۲۶)

آئیے دیکھیں ہم پر پروردگار کی نگرانی کس قدر عظیم ہے :

ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں ، ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں اور (ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگر ان موجود نہ ہو۔

کیا انھوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں۔ ہم سب کچھ سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔ (الزخرف۴۳: ۸۰)

آئیے دیکھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حساب کتنا دقیق ہوگا ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ (مجلہ الاخوان المسلمون ،   محرم الحرام ۱۳۶۸ھ ، ۲ نومبر ۱۹۴۸ئ)

رمضان المبارک کی مناسبت سے امام حسن البنا شہیدؒ نے مختلف مواقع پر مضامین تحریر کیے جو جریدۃ الاخوان ،مصر میں شائع ہوئے۔ خواطر رمضانیۃ کے نام سے یہ مضامین کتابی شکل میں حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے چند منتخب مضامین پیش ہیں۔(ادارہ)

اے خیر کے طلب گار آگے بڑھ!

رمضان ایک نادرموقع ہے جو سال میںصرف ایک دفعہ میسر آتا ہے۔ اب ہمارے اور اس مبارک مہینے کے درمیان چند ہی دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پرمزید برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے شب وروز میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پرخصوصی نظر کرم فرماتا ہے، اُن کی دعائیں قبول فرماتا ہے ، اطاعت گزاروںکے ثواب کو دُگنا کرتا ہے، اور گنہگا روںاور خطاکاروں سے درگزر فرماتا ہے۔

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے : اے بدی کے طلب گار! رک جااور اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ۔ (بخاری)

ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں  جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اُس تائید ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے جس کااس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایاہے :

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

آج مسلمانوںکے سامنے وادیِ نیل کا مسئلہ ہے، فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے،  برعظیم میں پاکستان ، ریاست حیدرآباد اور ہندستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کو درپیش لا تعداد مسائل ہیں۔ان گمبھیر مسائل سے نکلنا تائیدِ خداوندی کے بغیرممکن نہیں، اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے، دل وجان سے رمضان کااستقبال کیجیے، کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اورہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگا تو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہو توکوئی آپ پر غلبہ نہیں پاسکتا۔(۲ جولائی ۱۹۴۸ء)

عبادت کی حکمت

اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں، ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پرخصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندوں کی کامیابی اورسعادت دارین کا موجب ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ ،خلوص نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کابنیادی محرک رضاے الٰہی نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ یہ فرائض محض عبادت براے عبادت نہیں ،بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ،جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہرنہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پراس کا براہ راست مثبت اثر ہوتاہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:

(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اُس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(اعراف ۷: ۱۵۷)

میں اسلامی حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوںکی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو اس ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جراء ت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کورمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ (۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء)

نیکیوں کا موسمِ بھار

اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یاجرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنا مقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامت ہوتی ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے،جو ان کے گناہوں ،وسوسوں اور اندیشوںکے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کی تکریم وعزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجودوہ ان عبادات کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کرسکتا ہے۔

رمضان کا مہینہ اطاعت و عبادات کا موسم بہار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوںکے شب وروز کو مزین فرماتاہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہروقت ایک مطلوب صفت ہے لیکن رمضان میں اس کی قدرو قیمت اور حسن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت کا ثواب اور قدر افزائی بہت زیادہ ہے لیکن اس مہینے میں تو اجر وعطابے حساب ہوجاتی ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ فقہی اعتبار سے اگریہ روزہ توڑنے والی چیزوں سے اجتناب کا نام ہے تو روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف    اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس، فکر، ارادہ اور اپنی سوچ وشعور کا محور بنانے کو کہتے ہیں۔

اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر حضور پاکؐسے قرآن سنتے تھے۔ زندگی کے آخری برس آپؐ نے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا۔ یہ وہی قرآن ہے جوصحابہ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ ہم بھی اسے اسی طرح پڑھتے اور سنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلا جس طرح صحابہ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا؟ اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟

یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کومضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا، تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا،اس کے احکام کو نافذ کیااور اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے سپرد کردیا۔ آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں اگر اس کتاب پر ان کی طرح ایمان لے آئیں۔ اُن کی طرح اس کے مطابق چلیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کونافذ کردیںاور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں۔تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کے امتیازی اعمال میں سے ہے۔ نبی پاکؐ جود وسخاکے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐ کی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی۔

اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے۔     یہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اس مہینے میں روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔     لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اُس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں۔

اس مشینی دور میں جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا۔ اس میںدن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اوررات کو اٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔ لہٰذا میرے عزیز بھائیو! اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدرسے میں داخل ہوجایئے۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے۔جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر میں وقت گزاریئے۔اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں۔ (۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء)