پروفیسر سدید ازہر


عالمِ عرب کے عظیم اسلامی مفکر ڈاکٹر محمدعمارہ علمی و فکری کارناموں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ۲۸ فروری ۲۰۲۰ء کی شام ۸۹سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر محمد عمارہ ۸دسمبر ۱۹۳۱ء کو مصر کے کفر الشیخ نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے اسلامیات میں گریجوایشن اور ایم اے کیا۔ وہیں سے ۱۹۷۵ میں اسلامی فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی علمی اداروں سے بحیثیت رکن وابستہ تھے، جن میں مصرکی مجلس اعلیٰ براے اسلامی امور، ہیئت کبار علما ازہر، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT)، اور مجمع البحوث الاسلامیۃ، جامعہ ازہر نمایاں ہیں۔ آپ نے مجلۃ الازھر کی ادارت کی خدمات بھی انجام دیں۔

 ڈاکٹر محمد عمارہ نے تقریباً ایک سو کتابیں لکھیں اور علمی، تحقیقی اور فکری مجلات کے لیے متعدد مضامین سپردِ قلم کیے۔ بہت سی علمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور علمی و فکری کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ وہ روزانہ ۱۸ گھنٹے مطالعہ و تحریر میں صرف کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اگر عالم اسلام کے صرف سو علما و مفکرین بھی اپنے آپ کو علمی و فکری کاموں کے لیے وقف کردیں تو اس دور کا فکری منظرنامہ بالکل تبدیل ہوجائے گا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کی پرورش اور تربیت اگرچہ ازہر کے دینی پس منظر میں ہوئی، لیکن چونکہ شروع ہی سے وہ سماجی انصاف اور مصر پر غیر ملکی تسلط سے آزادی کے بڑے علَم بردار تھے، اس لیے کمیونسٹ تحریک اور مارکسی فکر سے متاثرہوئے اور اس تحریک کی نمایاں شخصیت بن گئے۔ اسی بنیاد پر تقریباً چھے سال تک جیل میں رہے۔ جیل کی زندگی میں انھوں نے اپنے افکار کاتنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’سماجی مسائل کا صحیح حل مارکسیت اورطبقاتی کش مکش میں نہیں بلکہ اسلام میں ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی مارکسی فکر و تحریک سے وابستگی نے انھیں اس بات کا موقع دیا کہ وہ مغرب کے مادی افکار کوگہرائی کے ساتھ سمجھیں اور ان پر مضبوط تنقیدکرسکیں۔ وہ خود اسے مشیت ِ خداوندی سمجھتے تھے کہ ’’اس طرح وہ مارکسی فکر کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کا تریاق بھی سوچ سکے‘‘۔یہی وجہ ہے سیکولر اور مارکسی حضرات نے ڈاکٹر صاحب کو شدید دشمنی کا ہدف بنایا۔ ڈاکٹر عمارہ خِیَارُھُمْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ  [ان میں سے جاہلیت کے زمانے میں جو بہتر تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہتر ہے] کے مصداق سیکولرزم کے کیمپ سے نکلنے کے بعد اسلام کے بہترین داعی اور ترجمان ثابت ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں نمایاں فکری تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ وہ اپنی فکری لغزشوں کو تسلیم کرنے اور اپنے افکار سے رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتےتھے۔ یہ علمی جرأت آج بہت سے علما و مفکرین میں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ان تبدیلیوں کو فکری پختگی اور ارتقا سے موسوم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمارہ کے نزدیک ’’فکری ارتقا انسانی زندگی کی علامت ہے اور جو لوگ فکری جمود کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں، وہ مُردہ اور بے جان جسم ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے ایک مرحلے پر امام حسن البنا اور مولانا مودودی پر بھی تنقید کی اور پھر اپنے موقف سے رجوع بھی کیا۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ پر تنقید کے بعد انھوں نے اپنی پوزیشن پر نظرثانی کی اور کہا کہ ’’اگر ان کے تجدیدی کاموں کو حکومت کی مدد حاصل ہوتی تو آج امت کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی‘‘۔ عرب قومیت سے مارکسیت اور مارکسیت سے اسلام تک کا سفر اسی کشادہ ذہنی کی وجہ سے ان کے لیے ممکن ہوسکا۔ اس دوران وہ ہمیشہ آزادیِ وطن اور سماجی انصاف کے علَم بردار رہے۔

 علامہ محمد غزالی [۹۶-۱۹۱۷ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلام کا عظیم داعی اوراسلامی تعلیمات کا پاسبان‘ ' بتاتے ہیں۔ علامہ محمد یوسف قرضاوی [پ:۹ستمبر ۱۹۲۶ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلامی سرحدوں کا نگہبان‘ قرار دیتے ہیں۔ اس سے جہاں ڈاکٹر عمارہ کی فکری عظمت کا احساس ہوتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ علما اپنے معاصرین کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں کس قدر فیاض ہیں۔

ڈاکٹر محمد عمارہ نے فکری محاذ پر کئی کارنامے سرانجام دیے۔ انھوں نے اسلام پر اٹھائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا۔ مغربی افکار کے حملوں کا جواب بھی دیا۔ فکر اسلامی کے قدیم و جدید دھاروں پر لکھا۔ کئی کتابیں لکھ کر اسلام کے روشن پہلووں کو واضح کیا۔ محمد غزالی، حسن البنا اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسی تجدیدو احیاے دین کی علَم بردار شخصیات اور ان کے کام کو بھی موضوع بنایا۔

ڈاکٹر عمارہ نے کئی ایسے مفکرین کی اسلامی خدمات پر روشنی ڈالی، جنھیں عموماً ’مغرب زدہ‘ تصور کیا جاتا ہے اور بتایا کہ ’’وہ فی نفسہٖ فکر اسلامی سے وابستہ ہیں۔ مشہور عرب ادیب طہٰ حسین کو سیکولر اور مغربیت زدہ لوگ اپنے لیے نمونہ مانتے ہیں اور اسلام پسندحلقہ انھیں مغربیت کا داعی سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر عمارہ نے طہٰ حسین کی پوری زندگی کا جائزہ لے کر بتایا کہ کس طرح وہ فکری ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آخرکاراسلام کی طرف لوٹ آئے۔ اسی طرح جمال الدین افغانی، محمدعبدہٗ، رفاعۃ طہطاوی، قاسم امین، عبد الرحمن کواکبی جیسی شخصیات کی تحریروں کو الاعمال الکاملہ کے عنوان سے جمع کیا اور ان پر تحقیقی کام کرکے ان کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو دور کیا اور فکراسلامی میں ان کی خدمات کو واضح کیا۔ یہ بڑا نازک اور مشکل کام تھا، لیکن کمالِ احتیاط کے ساتھ ڈاکٹر عمارہ نے سرانجام دیا۔ انھوں نے تصنیف و تالیف سے ہٹ کر فکری موضوعات پر فرج فودہ اور نصرحامد ابوزید جیسے سیکولر دانش وروں سے مکالمے اور مباحثے بھی کیے۔

ڈاکٹر عمارہ کے طرزِ فکرو تحقیق میں اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ فکر اسلامی میں أصالت (اسلام کے جوہر اور ثوابت سے وابستگی)اور معاصرت (عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی) دونوں کو ضروری سمجھتے تھے۔ وہ امت کے مکاتب فکر میں تقلیدی سوچ کے مخالف اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی کے بھی خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’امت کے دانشورقطبیت (polarization)کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ صرف اسلامیات کے ماہر ہیں، لیکن مغربی افکار کوسمجھنے اور ان کا جواب دینے پر قادر نہیں ہیں اورکچھ لوگ مغربی افکار سے واقف ہیں، لیکن اسلام سے ناواقف ہیں۔ اس چیز نے اسلامی فکر کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ ڈاکٹر عمارہ نے اپنے علمی کام کے ذریعے اسی بات کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مغربی افکار دونوں کا مطالعہ کریں اور مغربی افکار کے مقابلے میں بجاطور پر اسلام کی بالادستی کو واضح کریں۔

ڈاکٹر عمارہ نے اپنی کتاب تحریر المرأۃ بین الاسلام و الغرب میں عورت کی آزادی کے سلسلے میں معتدل موقف اختیار کیا ہے۔ وہ مغربی سماج کے طرز پر عورت کی بلاحدود و ضوابط آزادی کے بھی خلاف تھے اور دین داری کے نام پر اسے مکمل طور پر محبوس کردینے کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر عمارہ کہتے ہیں کہ سدِّ ذرائع کے اصول میں غیر ضروری توسع حلال کو حرام کرنے کا موجب بنتا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اوقات سماجی وسیاسی سرگرمیوں عورتوں کی شرکت، معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلام کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے عورت کی گواہی، میراث میں عورتوں کا حصہ، مرد کی قوامیت جیسے نازک مسائل پر بحث کرکے، اشکالات کے تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی ہمیشہ آدھی نہیں ہوتی۔ وہ شھادۃ(قاضی کی عدالت میں عورت کے گواہ بننے) اوراشھاد( لین دین کے معاملے میں عورت کو گواہ بنانے )میں فرق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عورت کی گواہی سے متعلق سورۂ بقرہ کی آیت کا تعلق لین دین کے معاملے میں گواہ بنانے سے ہے۔ رہا عدالت میں گواہی کا معاملہ تو اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ بعض حالات میں عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، بعض حالات میں صرف عورت کی گواہی قبول کی جائے گی اور بعض حالات میں صرف مرد کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ اسی طرح میراث کے معاملے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’میراث کی تقسیم میں ایک بنیاد قرابت داری ہے۔ قرآن کی رُو سے بعض حالات میں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا ہے اوربعض حالات میں عورت کو مرد کا نصف حصہ ملتاہے‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے اسلامی تحریکات کے مسائل، طریق کار اور مستقبل پربھی لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی تحریکات سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ الجھ کر رہ گئی ہیں، جس سے اصلاحی کام اور سماجی انصاف کے مسائل و معاملات اور چیلنج متاثر ہوئے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے اسلام میں فنون لطیفہ کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام جمالیاتی قدروں کو پسند کرتا ہے اور فنون لطیفہ کا دشمن نہیں ہے‘‘۔ ان کے نزدیک ’’غنائیت اصلاًحرام نہیں بلکہ اس وقت حرام ہوتی ہے، جب وہ حرام کاموں کے ارتکاب کا وسیلہ بنے‘‘۔  ڈاکٹر عمارہ اپنے پیچھے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی وفات سے علمی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی فکری خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔