مطیع الرحمن نظامی


ترجمہ: سمیع الحق شیرپائو

جغرافیائی اعتبارسے بنگلہ دیش وہ اسلامی ملک ہے جس کی سرحدیں کسی اسلامی ملک سے نہیں ملتیں ۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام سے روشناس ہونے والا یہ ملک جنوب اور جنوب مشرق ایشیائی ممالک کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انڈونیشیا اورپاکستان کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے، جہاں ۱۳کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔

بنگلہ دیش کی اسلامی جماعتیں، دینی ادارے اور علما ومشائخ ملک میں اسلامی اقدار و ثقافت کے فروغ میں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش چونکہ اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے، اس لیے مغربی ممالک اور غیر ملکی این جی اوزاسے اپنی محفوظ شکارگاہ سمجھتے ہیں۔ عوامی لیگ کی سیکولر حکومت ان ممالک اور این جی اوز کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اسلام سے وابستگان کو دیوار سے لگانے اور اسلامی اقدار کا قلع قمع کرنے پر عمل پیرا ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت کو بائیں بازو کی تنظیموں کے علاوہ ملکی و غیر ملکی ہندئوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کوسمجھنے کے لیے گذشتہ ۴۰ برس پر محیط اس ملک کے تاریخی واقعات پرمختصر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء میںنو ماہ کی خوں ریز جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہوا۔اس جنگ میں بنگالی اورانڈین آرمی نے حصہ لیا تھا۔ آزادی کے فورا بعد متحدہ پاکستان کی حمایت کی پاداش میں اسلامی جماعتوں اور علما ومشائخ کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ بنگلہ دیش کے پہلے حکمران شیخ مجیب ابتدا میںجمہوریت پسند تھے اور انھوں نے ملک [یعنی متحدہ پاکستان] میںجمہوریت کے فروغ کے لیے   بہت تگ ودو کی، لیکن اقتدار سنبھالتے ہی وہ ایک جابر حکمران کے روپ میں نمودار ہوئے۔ تب یک جماعتی نظام نافذ کرتے ہوئے انھوںنے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی اور عدلیہ اورمیڈیا کی آزادی کو ختم کردی۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت نے متعدد بار قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں نافذ کریں گے۔لیکن انھوں نے وعدہ خلافی کی اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد سیکولرزم اور اشترکیت کو ملک کے دستور کا بنیادی حصہ قرار دیا، اسلامی جماعتوں اور دینی اداروں کے خلاف کریک ڈائون کیااور سیکڑوں علما ومشائخ کو پابند سلاسل کردیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بعد میں عام معافی کا اعلان کیااور تمام گرفتارشدگان کو رہا کردیا۔   عام معافی کے اس اعلان کے بعد مذہبی رہنما مطمئن ہوگئے کہ اب انھیں مزید سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب قتل کردیے گئے تو جنرل ضیاء الرحمن نے حکومت سنبھالی۔ انھوں نے مسلمانوں کے پُرزور مطالبے پر دستور میں بنیادی تبدیلی کی اور پانچویں ترمیم کے ذریعے دستور کے آغاز میں بسم اللہ کا اضافہ کیا اور سیکولرزم اور اشتراکیت کی جگہ ایمان باللہ ، یقین محکم اور عدل کو دستور کا حصہ بنادیا۔ انھوںنے جمہوریت کو بحال کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی۔ اس طرح دینی جماعتوں کو بھی کام کرنے کا موقع مل گیا، اور بنگلہ دیش کے ایک دفعہ پھر عالم اسلام کے ساتھ تعلقات استوار ہونے لگے۔

۲۰۰۶ء میں چار جماعتی اتحاد نے محترمہ خالدہ ضیا کی قیادت میں کامیابی کے ساتھ پانچ سالہ حکومت مکمل کی اوراقتدار نگران حکومت کے سپرد کیا، تاکہ غیر جانب داری کے ساتھ انتخابات کرائے جاسکیں۔ عوامی لیگ اور ان کے حلیف، ملک میں دینی جماعتوں کی پذیرائی نہیں چاہتے، اس لیے انھوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر حملہ کیا، تاکہ ملک میں خوف ہراس کی فضا پیدا کی جائے اور انتخابات ملتوی ہوں۔ تاہم، نگران حکومت نے انتخابات کرانے کے وعدے کی پاس داری کا عہد کیا۔ اس دوران میں آزاد ذرائع سے متعددد فعہ سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر چارجماعتی اتحاد برقرار رہا تو آیندہ حکومت بھی وہی بنائیں گے۔

اس دوران دینی اور ان کے اتحادی جماعتوں کو پیچھے ہٹانے کی اندرونی اور بیرونی سازشیں جاری رہیں، جس کے نتیجے میں نگران حکومت کی کوششیں ناکام ہوئیں اور انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ ۲۰۰۷ء کے آغاز سے ایمرجنسی نافذ ہوئی، جو دو سال تک جاری رہی۔ ۲۰۰۸ء میں انتخابات کرائے گئے جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے نتیجے میں عوامی لیگ برسر اقتدار آگئی ۔ عوامی لیگ نے آتے ہی جماعت اسلامی اوراس کی اتحادی جماعتوں پر تشدد شروع کیا اور اسی حکومت نے پانچویں ترمیم ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت حاصل کی ہے اور اگر پانچویں ترمیم ختم ہوتی ہے تو دستور میں درج ذیل تبدیلیاں رونما ہوں گی:

__ اسلام مخالف سیکولر نظریات کی واپسی ہوجائے گی۔

__ دستور کے آغاز سے بسم اللہ ختم کردی جائے گی۔

__ تمام اسلامی جماعتوں پر پھر سے پابندی لگ جائے گی۔

__ جنرل ضیاء الرحمن کے تمام فیصلے کالعدم قرار دیے جائیں گے اور یوں ملک میں ایک طویل اورلاحاصل قانونی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔

__ اس دستور کی رو سے حکومت اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی پابند نہیں ہوگی۔

۱۹۹۶ء میں عوامی لیگ جب دوسری مرتبہ بر سر اقتدار آئی تو آئین میں بنیادی تبدیلی کی بھرپور کوشش کی گئی، لیکن پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اسے تب کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ اب وہ دسمبر ۲۰۰۸ء کے نام نہاد انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرچکی ہے اور اس کے بل بوتے پر ملک کو سیکولر بنانے کا موقع اس کے ہاتھ آیا ہے۔

جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے جماعت اسلامی اور دیگر قومی جماعتوںکے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے ان کے سربراہان کے ساتھ منفی بلکہ توہین آمیز رویہ اختیار کیا ہے، اور ان کے خلاف مختلف مقدمات دائر کیے ہیں۔ متعدد اعلیٰ ریٹائرڈ فوجیوں پر الزام عائد کیا گیاکہ ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ روابط ہیں۔ ان کو میڈیا کے سامنے پیش کرکے انھیں پورے ملک میں رسوا کیا۔ جنگی جرائم سے منسوب لوگوں کی ایک جعلی فہرست مرتب کی ،جس میں جماعت اسلامی کے قائدین کے نام بھی شامل کر دیے گئے اور ان کی ہر قسم کے نقل وحرکت پرمکمل پابندی لگادی۔

عوامی لیگ نے اپنے اس عمل کے نتیجے میں دینی مدارس کو بھی نہیں بخشا۔ حکومت میں آتے ہی اس کے وزرا اور خاص طور سے وزیر قانون نے مدرسوں کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیااور انھیں قدامت پسندی اور دہشت گردی کے مراکز قراردیے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت نے مدارس کے لیے سیکولر ایجنڈے پر مبنی تعلیمی پالیسی کا بھی اعلان کردیا۔

ملک میںجہاں کہیں بھی قتل وغارت یا خونریز جھڑپ کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو آنکھیں بند کرکے حکومت فوراً اسے اسلامی جماعتوں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کی بڑی اہم مثال فروری ۲۰۰۹ء میں سرحدی محافظین کی جانب سے فوجی افسروں کے خلاف بغاوت کی کوشش تھی، جس میں۵۷ فوجی افسر قتل ہوئے۔ حکومت نے اس واقعے کا الزام بھی جماعت پر لگادیا، تاہم بعد میں اس کا جھوٹ واضح ہوا اور فوجی تحقیقات سے پتا چلا کہ اس کے پیچھے خود بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ تھا۔ چونکہ الزام بھارت پر آرہا تھا، اس لیے حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا، بلکہ اس کے باوجود اپوزیشن کو اس کے لیے مورد الزام ٹھیرا رہی ہے۔لیکن عوام جانتی ہے کہ یہ ملکی دفاع کو کمزور کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔

حکمران عوامی لیگ اپنے مخالفین کا مکمل صفایا چاہتی ہے ۔ گذشتہ دنوں پارٹی قیادت کے سامنے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے برملا کہا کہ ہم اپوزیشن پارٹیوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر منظر سے نہیں ہٹانا چاہتے ہیں، بلکہ ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ سول سروس، فوج، تعلیم اور دیگر شعبوں میں ان کے حمایت یافتہ افراد کا خاتمہ کریںاور ان کی جگہ عوامی لیگ کے جوانوں کو بھرتی کریں۔

اس پالیسی کے تحت درجنوں اعلیٰ افسران کو اہم مناصب سے برطرف کیا گیااور ان کی جگہ عوامی لیگ کے حمایت یافتہ افراد کا تقرر کیا گیا،اور جہاں کہیں انھیں مناسب شخص نہ ملا، وہاں ریٹائرڈ افراد کو لگا دیا گیا۔ کئی ایسے افسران کو جبری ریٹائرمنٹ پر بھیج دیا، جو ان کے ہم خیال نہیں تھے، پھر ان کی جگہ بھی اپنے من پسند افراد کو مقرر کر دیا۔ حتیٰ کہ عدلیہ میں تقرریوں میں بھی بے قاعدگی سے کام لیا گیااور ہم خیال ججوں کو تعینات کیا گیا۔فروری ۲۰۰۹ء کے سرحدی محافظین کی جانب سے بغاوت کے واقعے کے بعد خفیہ طور پر فوج کے اسلام پسند اور محب وطن افسران کو نکال باہر کرنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا میں مقیم اور ایک یہودی خاتون سے شادی کرنے والے شیخ حسینہ کے برخوردار سجیب واجد نے عام انتخابات سے قبل ایک امریکی جریدے میں اپنے مضمون میں لکھا تھا:’’ بڑی تعداد میں اسلامی دہشت گردوں کو فوج میں بھرتی کیا گیاہے جس کا تناسب ۳۰ فی صد بنتا ہے‘‘۔

درحقیقت عوامی لیگ کی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت دین سے نابلد نسل تیار کرنا چاہتی ہے۔ اس نظام تعلیم کے تحت طلبہ کو دین کے بنیادی مسائل کے بارے میں اسکولوں کے اندر آگاہی حاصل نہیں ہوگی، کیوں کہ اسلامیات نام کا کوئی مضمون اسکولوں کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ دینی قیادت کو خدشہ ہے کہ اس تعلیمی پالیسی کی وجہ سے نئی نسل دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف رہے گی۔

دوسری جانب نئی تعلیمی پالیسی کے تحت حکومت دینی مدارس کے نصاب میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کا ارادہ رکھتی ہے۔مدارس کے نصاب میں دینی مضامین کوکم اور عصری علوم کے مضامین کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ بظاہر تو حکومت یہ سب کچھ دینی مدارس کی ترقی اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر کر رہی ہے۔ حالانکہ ان میں سے ہر قدم اس کے برعکس ہے۔ اسی لیے مدارس نے اس پالیسی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے: ’’یہ مدارس کو ختم کرنے کی سازش ہے، جس کے ذریعے حکومت ملک کو ایک لادینی ریاست بنانا چاہتی ہے‘‘۔ حکومت انھی مدارس کو اپنے سیکولر ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔

جماعت اسلامی کے حامی طلبہ کی تنظیم اسلامی چھاترو شبر کو بھی سخت عتاب کا نشانہ بنایا گیااور اس کے متعدد رہنما گرفتار کرلیے گئے ۔ گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ امن قائم کرنے والے ادارے گرفتارشدگان کو مسلسل جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سخت زدوکوب کے بعد انھیںمسلمان قائدین کے خلاف بیانات دینے پر مجبور کیاجارہا ہے، جسے حکومت بڑی دلیری کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرکے داد وصول کرتی ہے۔

عوامی لیگ کی اسلام دشمنی اور اسلامی اقدار سے نفرت ہر سطح پر عیاں ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے عورتوں کو مساوی حقوق دینے اور انھیں مردوں کے برابر کھڑا کرنے کے نام پر میراث میں مرد وزن کو مساوی حصہ دینے کی خواہش ظاہر کی جو کہ قرآن وسنت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور مرد کے لیے[میراث میں] دوعورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔( النسائ:۴:۱۱)

عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے ان رہنمائوں اور کارکنوں کو بچانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، جن کے خلاف ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۸ء تک مختلف مقدمات درج ہوئے تھے۔ عوامی لیگ کی موجودہ حکومت نے اب تک وزیر اعظم سمیت عوامی لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں پر ۲ہزار سے زائد مقدمات کو یہ کہہ کر خارج کردیے ہیں کہ یہ محض سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔ ان سنگین مقدمات میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے قتل کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ جنھیں ۲۸؍ اکتوبر کو دن دھاڑے عوام الناس کے سامنے قتل کیا اور لاشوں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ قتل کے یہ تمام مناظر متعدد ٹی وی چینلوں نے براہ راست نشر کیے۔

ان دگر گوں حالات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش درج ذیل تجاویز پیش کرتی ہے:

۱- بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیا جائے۔ حکومت کے اسلام دشمن اور معاندانہ رویے پر کڑی نظر رکھی جائے، اور اس بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی جائے۔

۲- اندرون و بیرون ملک سے حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ جنگی جرائم کے نام پر جماعت اسلامی اور دیگر قومی جماعتوں پر ظلم نہ کرے۔

۳- اسلامی تعلیمات اور قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی سے روکنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔

۴- دستور کے آغاز سے بسم اللہ کو حذف کرنے کی حکومتی کوشش کو ناکام بنایا جائے، اور ایمان باللہ اور یقین محکم کے بجاے دستور میں سیکولرازم اور اشتراکیت کے الفاظ کو شامل کرنے سے روکاجائے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۸۹۹، ۲۴؍ اپریل ۲۰۱۰ئ)