ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جس عبادت کو بھی اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا، عابد کے سامنے وہ اپنا یہ مطالبہ رکھے گی۔ نماز کا سب سے پہلا مطالبہ نمازی سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ہروقت اللہ کو یاد رکھے، ہرقدم پر اس کے حکموں پر نگاہ رکھے، اور ہرحکم پر نماز کے رکوع و سجود کی مشق کا اعادہ کرتا چلا جائے۔ اگر نمازی نماز کے پورے حقوق کی رعایت اور اس کے مطالبہ کے شعور ساتھ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے تو نماز اُس سے اپنا مطالبہ پورا کرلیتی ہے اور اس کی زندگی میں ایک عظیم تغیر رونما ہوجاتا ہے۔ روزہ، روزہ دار میں صبر وتقویٰ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر پورے رمضان کے روزے اس مطالبہ کے گہرے دھیان کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ادا کیے جائیں تو روزہ داران اعلیٰ صفات کا حامل ہوسکتا ہے۔
حج، جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز، روزے کے مقابلے میں مشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز روزے کی طرح اگر اس کے اعمال و ارکان کو بھی اس کی اصلی روح، یعنی عشق و محبت کی والہانہ کیفیات، اور اس کے تقاضوں اور مطالبات کے پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجانا لازمی ہے۔ لیکن جس طرح ہماری دوسری عبادات کا حال یہ ہے کہ وہ ان دو اہم شرطوں کے مفقود ہونے کی وجہ سے شجر بے ثمر بنی ہوئی ہیں، عام طور پر حج کا حال بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ حج و زیارت سے مشرف ہونے کے بعد بھی ہمارے حجاج کی زندگی میں کوئی خاص تغیر اور انقلاب رونما نہیں ہوتا، الا ماشاء اللّٰہ۔
حج کے ایک ایک عمل کو دیکھیے اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈال جایئے۔ پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ ادائوں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس، لبیک لبیک کا مجنونانہ شور، کعبہ کے اردگرد والہانہ طواف، حجرِ اسود کو بڑھ بڑھ کے چومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف، بال بکھرے ہوئے، جسم غبارِ راہ سے اَٹا ہوا، اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ___ گویا یہ عبادت عبد و معبود کے درمیان علاقۂ عشق کا مظہرِاتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائز ہیں، اور خود احادیث سے اس عبادت کی یہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: الحج ، الحج، والحج ، حج (تلبیہ کے مجنونانہ اور والہانہ) شور، اور قربانیوں کا خون بہانے کا نام ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: الحاجُّ الشَعِثُ التَفِل، سچا حاجی وہ مست ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو، بال بکھرے ہوئے، اور لباس و جسم پر میل چڑھا ہوا۔ حاجی کے اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر باری تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اُنظروا الٰی زوار بیتی قد جاء نی شُعثًا غُبرًا ___ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ، نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کے گردوغبار کا ہوش!
اگران عاشقانہ افعال اور مجنونانہ وضع کے ساتھ حاجی کے دل میں کسی قدر گرمیِ عشق بھی موجود ہو اور ساتھ ہی دماغ کو کچھ بیدار رکھ کر وہ اس پر بھی غور کرتا جائے کہ حج کا ہرہر عمل اُس سے کیا مطالبہ کر رہا ہے، تو بہت واضح طور پر چند مطالبات اس کے سامنے آئیں گے۔ گھربار اور اہل و عیال کو چھوڑ کے اس کا اللہ کے لیے نکل پڑنا، اور پھر جسم سے کپڑے تک اُتار کے کفن جیسا لباس پہن لینا، اور اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے مطلق عبدیت کا اعلان کرنا، اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی طرح اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرے، کہ:
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، میری نماز اور میری قربانی میری موت اور میری زندگانی سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے، مجھے یہی حکم ملا ہے، اور میرا کام تعمیلِ حکم ہے۔
اگر یہ فیصلہ نہیں ہے تو پھر اس احرام اور اس تلبیہ کے کیا معنی ہیں جس میں اللہ کی لاشریک اُلوہیت، ربوبیت اور حاکمیت کا اقرار اور اس کی مطلق طاعت و بندگی کے لیے عاجزانہ اور نیازمندانہ حاضری کا اعلان ہے۔
پھر مکۂ معظمہ پہنچ کر ’اللہ کے گھر‘ کا طواف کرتے وقت وہ اگر سوچے گا تو وہ صاف طور پر اس عمل کایہ تقاضا محسوس کرے گا کہ اس گھروالے کی محبت اور اطاعت کو ہر دوسری چیز کی محبت اور اطاعت پر غالب ہوجانا چاہیے، اور اس کی رضاطلبی کی فکر دوسری ہر چیز کی رضاطلبی سے مقدم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس کا گھربار، مال و اولاد اور اقارب و احباب کو چھوڑ کر اتنی دُور آنا اور بلاکسی دنیوی مقصد و منفعت کے آنا، پھر سر سے پائوں تک مجنونوں اور سائلوں کی سی صورت بنانا، پھر مستانہ وار وحدہٗ لاشریک کے نام کا راگ الاپنا، پھر اس کے گھر کو دیکھ کر دیوانہ وار اس کے اردگرد چکر لگانا، ایک نہیں دو نہیں، ایک ایک مرتبہ میں سات سات چکر لگانا، پھر ایک دن نہیں روز روز اور ہر روز باربار کا یہی مشغلہ، اس کی دیواروں سے لپٹنا، رونا، گڑگڑانا، اور مجسم صورتِ سوال بن جانا___ یہ تو اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گھر جس کی تجلّی گاہ ہے، وہ سب سے بڑا محبوب اور سب سے برتر مطاع ہے، اور اسی کی رضا اس قابل ہے کہ اس کی جستجو میں بندے کے پاے فکروعمل کو ہر دم سرگرداں اور طواف کناں رہنا چاہیے۔
طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کا نمبر آتا ہے، اس کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے سے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑکے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی تھیں اور پھر صاحبزادے کی تنہائی کے خیال سے واپس ہوجاتی تھیں۔ ان کی یہ سعی اسی جگہ ہوئی تھی، بس ان کی سعی کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حجاج کے لیے یہ سعی مقرر فرما دی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو اس عمل کا تعلق عشقِ خداوندی سے ہے، اور نہ بظاہر کوئی خاص رُوحانی فائدہ ہی اس سے متوقع ہے، بلکہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بندے کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ اس فعل سے کیا فائدہ ہے، لہٰذا اس عمل کا خاص مطالبہ حاجی سے یہ ہے کہ اس میں بلاچون و چرا اطاعت کی شان پیدا ہونی چاہیے، خدا اور رسولؐ کے ہرحکم اور ہرفرمان کے آگے اس کا سر جھک جانا چاہیے، خواہ کسی حکم کی حکمت اور اس کا فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ علاوہ ازیں حج کے اس عمل سے چونکہ ایک ایسے واقعے کی یاد وابستہ ہے جس میں اُمت ِ مسلمہ کے لیے دو بڑے اہم اور قیمتی سبق موجود ہیں، اس لیے اس عمل میں دو اور تقاضے اور مطالبے مضمر نظر آتے ہیں۔ صفا و مروہ کی سعی سے جس واقعے کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے حکم کی تعمیل فرمائی اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو اس غیرآباد اور بنجر سرزمین میں چھوڑ کر چلے آئے، ان کے پاس جو دانہ پانی کا مختصر سا ذخیرہ تھا چند دن میں ختم ہوگیا۔ حضرت اسماعیل ؑپیاس سے بے چین ہوئے، بولنے کی عمر نہ تھی، شدتِ تکلیف سے ایڑیاں رگڑتے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتی تھیں، جب کچھ دُور نکل جاتیں صاحبزادے کی تنہائی کا خیال آتا تو لوٹ آتیں۔ تنہا اللہ کی ذات ان کا سہارا تھی، اس سے دعا بھی جاری تھی اور اپنی سی کوشش بھی، آخرکار ایک دفعہ جو پلٹ کر آئیں تو یہ منظر دیکھا کہ صاحبزادے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی پھوٹ رہا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ واقعہ صفا و مروہ کی سعی جس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کے اس واقعے میں اُمتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اُوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں اور بس اللہ نگہبان.... ایسا کیوں کیا گیا؟___ صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کرتا ہے:
رَبَّنَـآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (ابراھیم ۱۴:۳۷) میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسا دی ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز کو قائم کریں۔
یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات و ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہٗ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔
اس بے آب وگیاہ سرزمین میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن حضرت ہاجرہؓ کی سعی اور دُعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کا دھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی اُمّی: فدہ ابی و اُمّی۔
لا مانع لما اعطیت، داتا تیری دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرکے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں انھوں نے اگر غوروفکر کی قوت کو معطل نہیں کر رکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے:
۱- اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت و عبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضروری ہو تو اُسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس و پیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد و خطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔
۲- دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی، اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت اور استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اُٹھانہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اُس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔ بالفاظِ دیگر اسبابی کوشش اور جدوجہد اس طرح کریں کہ مسبب الاسباب کے منکر اور تنہا اسباب کے پرستار اُن سے پیچھے نظر آئیں، لیکن جب کوئی دعا کے وقت انھیں دیکھے تو یہ سمجھے کہ انھیں اسباب پر بالکل یقین اور اعتماد نہیں ہے، اسباب ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر اور ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہ اللہ جس نے ظاہری حالات کے علی الرغم حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو صرف یہی نہیں کہ زندہ رکھا بلکہ اُن سے ایک ایسی نسل چلائی جو اُس وقت سے آج تک عزت کے ساتھ زندہ ہے اور جس کی عزت کبھی ذلّت سے نہیں بدلی ہے۔
الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہرسال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔
حج کے اعمال و اشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہرسال اُمت مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد و ضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اللہ کی ذاتی و صفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہرصورت و بہرنوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا (یعنی صرف اسی کو یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دے، اور جس چیز کو چاہے حرام قرار دے۔ موت کا دھیان، آخرت کی یاد، میدانِ حشر کا استحضار، دعا اور اس میں الحاح و تضرع کی کیفیت، اللہ سے بے انتہا محبت، ہردم اس کی یاد اور ذوق و شوق کے ساتھ اس کی اطاعت، زہد و توکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفاکشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل و جدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائراللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزا و عناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرا دی جاتی ہے کہ اگر حجاج اس کو اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر مضبوطی سے پکڑ لیں تو وہ کام (یعنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب) جو اس وقت دنیا کے ہرکام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے، اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔ پھراس مکمل دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں:
۱- حجراسود کا استلام: حجراسود کو احادیث میں یمین اللہ (اللہ تعالیٰ کا دست مبارک) قرار دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا استلام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے قائم مقام ہے۔ گویا یہ عمل عہداطاعت، اور اس بات کا پیمان ہے کہ وہ جس ذات کی کبریائی اور آقائی کا زبانِ حال و قال سے کلمہ پڑھ چکا ہے اس سے بیوفائی نہ کرے گا، گویا ٹریننگ کے درمیان میں ہی اس بات کا عہد لے لیا گیا ہے کہ اب ساری بقیہ عمر کو اسی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور اب باقی زندگی ویسی ہی گزرے گی جیسی زندگی کی یہاں مشق کرائی گئی ہے۔
یوں تو اس عہد کے بغیر خود وہ ٹریننگ ہی اس بات کی متقاضی تھی کہ اب تک اگر زندگی اس تربیتی نقشۂ زندگی سے مختلف رہی ہے تو اب یہ اختلاف مٹ جانا چاہیے، لیکن استلام کے وقت جو لطیف الحس انسان واقعی ایسا محسوس کرے کہ گویا وہ اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے رہا ہے تو اُس کے لیے کوئی گنجایش ہی اس بات کی نہیں رہ جاتی کہ اب بھی اس کی زندگی اس تربیتی نقشہ کے مطابق نہ بنے۔
۲- ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ہے کہ:
جس نے محض اللہ کی رضامندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، توو ہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری و مسلم)
تربیت اور عہدِوفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجائو‘‘۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص حج کو پوری پابندیوں اور اس کے حقوق کے ساتھ صحیح صحیح اداکرے اُس کو ایک نئی زندگی بخش دی جاتی ہے، گویا گناہوں سے پاک صاف کرکے اور پچھلی زندگی کا معاملہ ہلکا کر کے اُسے موقع دیا جاتا ہے کہ اب اپنی زندگی اللہ کے پسندیدہ نقشے اور اس کے رسولوں کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق گزارے اور اپنے پروردگار کے اس زبردست انعام کی قدر کرتے ہوئے اپنی حیات کے ایک عہدِ جدید کا آغاز کرے اور گزری ہوئی زندگی کے وہ تمام رُسوا کن ابواب بند کر کے جن سے رحمت ِ حق نے خود چشم پوشی کا مژدہ سنادیا ہے، ایک نئے باب کی ابتدا کرے جس کا عنوان ہو: ’اسلامی زندگی‘۔
پورے حج میں اسی کی ٹریننگ ہے، اسی نئے رنگ کے لیے اُورہالنگ ہے اور قدم قدم پر اسی کا تقاضا ہے اور حج کے بعد کی زندگی میں یہی دینی انقلاب اس ’سفرِعشق‘ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ بارگاہِ عشق میں جانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر مقبول ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے اسیرِزلف یار ہوجائیں، وہ تادمِ مرگ اس قید سے کبھی چھٹی نہیں پاتے، اور نہ رہائی چاہتے ہیں۔