ترجمہ: اویس احمد
افغان جنگ کی اصل بنیاد بھارت، پاکستان اور کشمیر میں ہے۔ کشمیر کو نظر انداز کر دیا جائے، جیسے امریکا کر رہا ہے، تو تنازعہ ناقابل فہم ہو جاتا ہے، کشمیر کو شامل کر لیں تو ہرچیز واضح ہو جاتی ہے۔۔۔واشنگٹن پوسٹ
کشمیر کے عوام ظلم اور ’سٹیٹس کو‘ (جوں کی توں صورت حال) سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ گذشتہ تین سال سے سڑکوں اور گلیوں میں نکلے ہوئے ظالمانہ بھارتی تسلط کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ وہ بھارت سے آزادی مانگتے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام بالکل نہتے ہیں، تاہم کشمیر میں بھارتی افواج کی موجودگی کے خلاف ان کا غم و غصہ ان کا ہتھیار ہے جس کا جواب بھارت کی طرف سے گولی، کرفیو، طرح طرح کی پابندیوں، گرفتاریوں، معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل اور انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دینے کی شکل میں دیاجاتا ہے۔
کشمیر میں نہتے عوام اور گولی چلا کر تحفظ حاصل کرنے والے فوجیوںکے درمیان گلیوں میں ہونے والی جنگوں نے لوگوں کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دی ہیں اور معاشرتی زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد پاک بھارت کشیدگی اور ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح حریفوں کے درمیان ہونے والی تین جنگوں میں سے دو کا بنیادی سبب بھی کشمیر ہی رہا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیری عوام اس ہلاکت خیز رسہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۸۹ء سے کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بن گیا ہے، جہاں بھارت نے ۷ لاکھ سے زاید فوج تعینات کررکھی ہے۔ ان ۲۲برسوں میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زاید کشمیری شہید اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ مظالم اس لیے کیے گئے تاکہ حق رائے دہی، انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کے مطالبات کو دبایا جا سکے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی گرفتاریاں، عدالتی قتل، حراستی قتل، ماوراے عدالت قتل، گمشدگی، عصمت دری، تشدد اور جعلی مقابلے آج بھی جاری ہیں۔ کشمیریوں کی کئی نسلیں بندوق کے سائے میں پل کر جوان ہو چکی ہیں؛ کوئی گھرانہ محفوظ نہیں، اربوں روپے کی جایدادیں تباہ کر دی گئی ہیں، عوام کی مشکلات جاری ہیں، بڑے پیمانے پر قتل عام اور تباہی جاری ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ کشمیر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
علاوہ از ایں، بھارتی فوج افسپا (Armed Forces Special Powers Act) نامی قانون کے تحت کام کر رہی ہے، جسے عرف عام میں ’کالا قانون‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قانون حکام کو بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تلاشیوں اور گولی مارنے کا اختیار دیتا ہے۔ سزا کا خوف نہ ہونے نے قابض بھارتی فوج کو کشمیریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کا لائسنس دے دیا ہے۔ جان بوجھ کر اور بلا اشتعال حملے اور مظالم کے دوسرے طریقے عام ہیں۔ ان مظالم کی بنیاد پر آج تک کسی کے خلاف بھی صحیح معنوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا، باوجود اس کے کہ ایسے بے شمار واقعات عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائیٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ کے ذریعے سامنے لائے جاتے رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ میں کہا ہے: ’’۱۹۸۹ء کے مسلح تصادم کے بعد سے کشمیر میں ماضی میں ہزاروں لوگوں کی گمشدگی سمیت ہونے والی زیادتیوںسے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ چند ایک مظالم پر ہونے والی سرکاری تحقیقات میں بہت آہستہ یا بہت کم پیش رفت ہوئی۔ جون اور ستمبر(۲۰۱۰ء) کے درمیان پولیس اور فوج نے نہتے عوام پر فائرنگ کی جب وہ آزادی کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ماضی کی زیادتیوںکا حساب مانگ رہے تھے۔ تشدد، بدسلوکی، ماوراے عدالت قتل، حراستی قتل اور انتظامی گرفتاریاں کی گئیں۔ اداراتی نظام کا مقصد انسانی حقوق اور حقوق کے علَم برداروں کا تحفظ ہوتا ہے، عوام ظلم کے سامنے عاجز رہے اور عدالتی نظام ماضی کی زیادتیوں کا شکار لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ثابت ہوا‘‘۔
۱۲ مارچ ۲۰۱۱ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا: ’’ہر سال ہزاروں لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔ یہ رپورٹ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہونے والی انتظامی گرفتاریوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک فہرست سامنے لائی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بھارت عالمی انسانی حقوق کے حوالے سے فرائض سے کیسے رُوگردانی کررہاہے۔ اگر بھارت اپنے ان فرائض کو نبھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کی واپسی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ قیدیوں کو فوراً رہاکیا جائے یا ان کے خلاف عدالتی مقدمات شروع کیے جائیں۔
نیویارک میں قائم’ہیومن رائیٹس واچ ‘نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا: ’’کشمیر میں سیکورٹی فورسز نے کئی موقعوں پر غصیلے مظاہرین کو دبانے کے لیے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں سو سے زاید افرادمارے گئے اور دونوں اطراف سے ہزاروں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے مظاہرین اور زخمیوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی تھی، اس سے غم و غصہ اور بڑھا اورمظاہروں میں شدت آئی اور یوں تشدد کا ایک دور چل پڑا‘‘۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کشمیری عوام سے ایک وعدہ کیا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی رورعایت نہیں کی جائے گی، تاہم اب تک یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔
۳ جون ۲۰۱۱ء کو لکھے گئے ایک خط میں ہیومن رائیٹس واچ نے من موہن سنگھ کو ان کا وعدہ ان الفاظ میں یاد دلایا: ’’بھارت نے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور رضاکارانہ کمٹ منٹ کے حوالے سے عالمی برادری سے قابل ذکر وعدے کر رکھے ہیں۔ ان وعدوں کی تکمیل کے باب میں ہیومن رائیٹس واچ آپ (بھارت) کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ بھارتی قانون اور نظام پولیس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی جائیں تاکہ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ممکن بنایا جا سکے: افسپا کو واپس لیا جائے جس نے جموں کشمیر میں بے تحاشا تشدد اور مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔۔۔اور وہ فوجی جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اس قانون کے تحت باز پرس سے مستثنیٰ ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ جموں کشمیر کی حکومت کو تحریک دے کہ وہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو واپس لے، کیوں کہ یہ قانون سیکڑوں لوگوں کو بلا وجہ حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔۔۔‘‘
بھارت کو جان لینا چاہیے کہ انصاف، آزادی اور حق خود ارادیت کے عوامی مطالبے کا جواب تشدد نہیںہوتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اور اقوام متحدہ ہی کے زیر انتظام ہونے والی راے شماری اس کا واحد حل ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں بھارتی تسلط کے خلاف اچانک بڑے بڑے پُرامن مظاہرے ہوئے، جہاں کشمیری نوجوانوں، مائوں، بہنوں اور بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وقفے وقفے سے ہونے والے ان مظاہروں نے کشمیر کی تحریک کو ایک روایتی عوامی تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ آواز جسے بھارت نے کشمیر میں بزور بازو دبانے کی کوشش کی وہ ایک گونج دار کڑک میں تبدیل ہو گئی۔ کشمیر کی نوجوان نسل جو ۲۰ برس سے معصوم شہریوں کے خلاف بھارتی درندگی کا مظاہرہ دیکھتی آ رہی تھی، صبر کا دامن چھوڑ بیٹھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خوف سے بھی بے نیاز ہوگئی۔ پاگل پن کی حد تک بہادر کشمیری نوجوانوں نے مسلح بھارتی فوجیوں کو پچھاڑ کر اپنی گلیاں واپس لے لیں اور بھارتی ایوا ن ہلا کے رکھ دیے۔
بھارت کو یہ حقیقت سمجھ لینا چاہیے کہ زمین کے ایک ٹکڑے پر تسلط ہو جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیںہوتاکہ اس علاقے پر آپ کو مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔ عوام مل کر ایک قوم بناتے ہیں اوراگر وہ الگ ہونا چاہیں تو ظالمانہ طاقت سے حاصل کیا ہوا اقتدار مستقل امن کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ سرے سے غلط ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے۔ کشمیر کسی خطہ زمین یا دوملکوں کا مسئلہ نہیں۔ اس سے ایک کروڑ پچاس لاکھ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے جن کی آزادی کی اپنی ایک تاریخ ہے، وہ اپنی زبان اور روایات کے حامل ہیں۔ گذشتہ ۶۴ سال سے وقفے وقفے سے جاری پاک بھارت مذاکرات کی ناکامی کی واضح دلیل یہی ہے۔ کشمیری عوام اس نہ ختم ہونے والے عمل سے تنگ آچکے ہیں جس کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس کے علاوہ پاک بھارت امن مذاکرات پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ انھیں دونوں ممالک کی قیادتوں پر اعتبار ہی نہیں رہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کی اہلیت رکھتے ہیں۔ عالمی برادری پر امید نظر آتی ہے کہ پاک بھارت باہمی امن کے امکانات آج گذشتہ دہائیوں سے کہیں زیادہ ہیں، تاہم یہاں کچھ احتیاط بھی ضروری ہے کیوں کہ دونوں حریف ایٹمی طاقتیں کئی بار پہلے بھی اس مقام تک آ چکی ہیں: ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے، امن کے وعدے کرتے ہیں تاکہ دوسرے فریق کو اگلے دن سے پھر دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس سارے عمل میں نقصان پہنچا تو کشمیر کے مسئلے کو جو گذشتہ ۶۴ برس سے جاری کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے یا پھردونوں ہمسائیوں کے مابین امن معرضِ خطر میں پڑا۔ یہ دونوں مسئلے باہم مربوط ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے (مسئلہ کشمیر) کو حل کیا جائے تاکہ دوسرے(پاک بھارت امن) کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔
کشمیری عوام کے پیغام کی گونج بلند اور واضح ہے: سٹیٹس کو اب کوئی آپشن نہیں رہا۔ انھوں نے مسئلے کے حل کے لیے چار نکاتی سفارشات کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ امن اور آزادی چاہتے ہیں اور باقی دنیا کی طرح عزت سے رہنا چاہتے ہیں۔ حق خود ارادیت کے لیے ان کی جدوجہد ہر گز ختم نہیں ہوگی جب تک بھارت اور پاکستان ان کے اس حق کو تسلیم نہیں کر لیتے۔ ایک ایسا پُرامن حل ہی خطے میں قیام امن کی ضمانت دے سکتا ہے جو انصاف پر مبنی ہو اور کشمیریوں کے لیے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کرے۔ عالمی برادری خطے میںمسئلہ کشمیر کے حل اورمستقل امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور آج اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
۸؍اگست کے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: ’’افغان جنگ کی اصل بنیاد بھارت، پاکستان اور کشمیر میں ہے۔ اس خطے میں امن کے لیے زمین پر امریکی فوجوں کی موجودگی ضروری نہیں، بلکہ ایک متفقہ کوشش کی ضرورت ہے جو پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میزپر لے آئے جہاں وہ عالمی برادری کی نگرانی میں کشمیر پر اپنے کثیرجہتی تنازعے حل کر سکیں۔۔۔ دہشت گردوں سے جنگ، طالبان سے جنگ، بلکہ افغانستان کی جنگ دراصل علامات کے خلاف جنگ ہے نہ کہ چھے دہائیوں پر محیط جنوبی ایشیا کی اصل بیماری کے خلاف؛جوخوف ناک، نقصان دہ، الم ناک اور خطرناک پاک بھارت تنازعہ کشمیرہے۔ کشمیر کو نظر انداز کر دیں، جیسا کہ امریکا کر تا ہے، تو تنازعہ ناقابل فہم نظر آتا ہے، لیکن اگرکشمیر کو شامل کر لیا جائے تو ہر چیز نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ وقت آن پہنچا ہے کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دے کہ وہ کسی قسم کا روڈ میپ پیش کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کا ایک مستقل سیاسی حل نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ دونوں کو یہ بھی باور کرایا جائے کہ ’سٹیٹس کو‘ اب کوئی آپشن نہیں رہا۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف پاک بھارت امن اور استحکام امن خطرے میںہے ، بلکہ کشمیریوں کے لیے حق خود ادادیت کا حصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔
حق ِخود ادادیت۔۔۔جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر ایک میں درج ہے، وہ اصول ہے جس پر تعلقات عامہ کا سارا نظام قائم ہے۔ یہ ساری اقوام اور افراد کا سب سے بنیادی اجتماعی حق ہے اور تمام انفرادی انسانی حقوق کا جزو لا ینفک ہے۔ عالمی سول اور سیاسی حقوق کا معاہدہ (International Covenant on Civil and Political Rights) تمام اقوام پر چند ذمے داریاں عاید کرتا ہے جو نہ صرف ان کی اپنی رعایا کے حوالے سے ہیں بلکہ تمام افراد کے لیے ہیں جو اپنے حق خود ارادیت سے محروم رہے ہوں یا محروم کر دیے گئے ہوں۔ یہ اقوام پر زور دیتا ہے کہ وہ مثبت اقدام اٹھائیں تاکہ لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کا حصول ممکن بنایا جا سکے اور اس کا احترام کیا جائے۔ ۱۹۹۳ء کی ویانا میں ہونے والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس ۱۹۹۴ء کا کوپن ہیگن کا سوشل سمٹ، ۲۰۰۰ کا ملینیم سمٹ اور ۲۰۰۵ء کا اقوام متحدہ کا عالمی سمٹ سب نے لوگوں کے لیے ایسے حالات میں کہ جہاں غیر ملکی قبضہ یا برتری ہو، حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ اگر مشرقی تیمور، ایریٹیریا، کوسوو، جنوبی سوڈان اور کئی دوسری جگہوں کے لوگ آزادی حاصل کر سکتے ہیں تو پھر حق خود ارادیت کا وہی اصول کشمیری عوام کے لیے بھی ہو تاکہ وہ غیرملکی جبر و تسلط سے مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔
عالمی برادری اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی معاہدوں کے تحت اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے مثبت کردار ادا کرے تاکہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلایا جا سکے اور ان کی مشکلات اور محرومیوں کا خاتمہ ہو سکے۔ قضیہ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی المیہ ہے اور اقوام متحدہ، عالمی برادری اور خصوصیت سے بھارت نے مسئلے کے اس بے حد اہم انسانی پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے۔
کشمیریوں کا مطالبہ بہت ہی سادہ اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، یعنی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیر میں راے شماری کے ذریعے اس تصفیہ طلب علاقے کے مستقبل کا پرامن اور جمہوری فیصلہ۔ نتیجہ جو بھی ہو گا، تینوں پارٹیوں کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت کا اسے تسلیم کرنا ضروری ہو گا۔ اس سے بھی اہم معاملہ یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت کی مدد کرے تاکہ مسئلہ کشمیر کو ایک جھگڑے سے ایک پُل میں تبدیل کر دیا جائے کہ خطے کے ایک ارب سے زائد عوام کے لیے مستقل امن کی راہ نکالی جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل افغانستان سمیت جنوبی ایشیا میں سلامتی کا ذریعہ بنے گا اور ایک ممکنہ بڑی جنگ کے خطرات کو ٹال دے گا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان بقاے باہمی کے دور کا آغاز ہو گا۔
êمقالہ نگار ٹورانٹو میں قائم ایک غیرسرکاری اور غیر منافع بخش ادارے’امن و انصاف فورم‘ کے ایگزیکٹو ڈائرکٹرہیں۔ای میل: mj@peaceforum.ca