ڈاکٹر میر ولی الدین


حج زیارت کر دن خانہ بود
حج رب البیت مردانہ بود

(رومیؔ)

(خانہ کعبہ کی زیارت ہی حج ہے اور رب کعبہ کا مردانہ وار طواف ہی حج ہے۔)

صوفیاے کرام نے ہمیشہ مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ زور اس کی باطنی روح پر دیا ہے۔ دین محمدیؐ کی یہی دو حیثیتیں ہیں: ظاہریؔ و باطنیؔ!۔ بقول شاہ ولی اللہ  ؒ:

نیکی و طاعت کے ظاہری افعال سے قلب پر جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کے احوال و کوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت یا تصوف کا مقصود اور نصب العین ہے۔ (ہمعات)

قرآنی تعلیمات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز ظاہری رسوم نہیں بلکہ باطنی روح ہے۔ دیکھو قربانی کے سلسلے میں حق تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، کہ:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط (الحج ۲۲:۳۷)نہ قربانی کا گوشت حق تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تقویٰ یا پارسائی۔

یعنی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی محض قربانی کر دینے یا خون بہا دینے سے نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ اس قربانی کا مدار حق تعالیٰ کی محبت، اُن کی رضا جوئی اور اُن کی قرب طلبی نہ ہو۔ اسی طرح دوسری جگہ واضح طور پرفرمایا گیا ہے، کہ:

لَیْسَ الْبِرَّاَنْ تُوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرۃ ۲:۱۷۷)نیکی اس کا نام نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، بلکہ نیکی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین سے حاصل ہوتی ہے۔

یعنی محض کسی سمت کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ پھیر لینے سے انسان کے اندر نیکی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک کہ اس کی بنیاد اللہ اور آخرت کے یقین و ایمان پر نہ ہو!

اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھول نہ جانا چاہیے کہ قرآنی تعلیمات اور اسلامی تصوف کی رو سے دنیا میں جس طرح انسانی روح بغیر انسانی جسم کے نہیں پائی جاتی اور اس کے روحانی افعال کا اعتبار بغیر جسمانی افعال کے نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا میں خاص خاص افعال یا جسمانی حرکات اور احوال کے بغیر روح کا ارتقا اور اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے صوفیاے کرام نے باطن کے ساتھ ظاہر کی حفاظت پر پورا زور دیا ہے اور متقدمین صوفیا نے تصوف کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ ع

وہ نام ہے تعمیر ظاہر و باطن کا

بالفاظ دیگر دونوں کی اصلاح و درستی ضروری ہے، نہ ظاہر بغیر باطن کے اور نہ باطن بغیر ظاہر کے درست ہوسکتا ہے۔ ظاہر عنوان ہے باطن کا۔ جب کسی کے ظاہری افعال شرع محمدیؐ کے خلاف ہوں تو اس کو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا باطن موافق و مطیع ہوگا۔ ظاہر تو تابع ہوتا ہے باطن کا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ باطن درست ہو اور اس کا اثر ظاہر پر نہ پڑے، یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح ظاہری افعال کا اثر باطن پر پڑتا ہے بلکہ ہر ظاہری عمل باطن کو متاثر کرتا ہے۔ ولیم جیمس جیسے ماہرِ نفسیات نے تو اس حد تک زور دیا ہے کہ: ’’اگر تم باطن میں کوئی کیفیت یا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کی ظاہری صورت پیدا کرلو، تمھارا باطن متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔‘‘

حج کے تمام اعمال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن جس کا طرۂ امتیاز حق تعالیٰ کی شدید محبت ہے (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط۔البقرۃ۲:۱۶۵)، اپنے عشق و محبت کے جذبے کو جو اس کے قلب کی گہرائیوں میں نہاں ہے، ظاہری اعمال و اشکال میں ہویدا کرتا ہے تاکہ: ’’اس کے اس حال کا چرچا دنیا میں پھیلے، وہ بلند آواز سے لبیک کہتے ہوئے نعرے لگاتا ہے اور ان نعروں سے محبت کی چھپی دبی آگ کو بھڑکاتا ہے!۔‘‘ چنانچہ شاہ عبدالعزیزؒ اپنی تفسیر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ:

حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ و شیدا بنا کر دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے محبوب کے گھر کے گردننگے سر ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حالی کے ساتھ گرد میں اَٹے ہوئے سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر محبوب کے اسی گھر کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوں…… اسی تجلی خانے کے ارد گرد گھومیں اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔

حج کے مناسک سے عشق و محبت کا یہی جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر طواف کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مزدلفہ کی آمد و رفت، عرفات میں قیام، منیٰ میں ذبح و قربانی، وتلبیہ و احرام وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے۔

اعمال حج کے انھی باطنی اسرار کو ہم یہاں امام الصوفیہ حجۃ الاسلام حضرت غزالیؒ کے اشارات کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں:

زیں شہدیک انگشت رسانم بلبت
از لذت اگر محو نگردی تف کن!

(آپ کے ہونٹوں سے اس شہد کی ایک انگلی لگا دی ہے، اگر تو اس سے لذت اندوز نہیں ہوتا تو افسوس ہے۔)

حق تعالیٰ کے گھر کی زیارت کا شوق عاشق کے قلب میں بھڑک اُٹھتا ہے! جس قلب میں اس ’شاہ خوباں‘ کا عشق نہیں وہ مردہ ہے، یا یوں کہئے:

دل کہ فارغ شدز عشق آں نگار
سنگ استنجائے شیطانش شمار!

(اس محبوب کی محبت سے دل فارغ ہو جائے تو ایسا دل شیطان کے استنجے کا ڈھیلا ہے۔)

عاشق کی نگاہ میں اب دنیا کی ساری لذتیں ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ مال و دولت، جاہ و عزت، دوست و احباب اپنی دل فریبیاں کھو دیتے ہیں! ’زندے‘ کا عشق اس کو مُردوں کی محبت سے بیزار کردیتا ہے اور وہ چیخ اُٹھتا ہے:

عشق بامردہ نبا شد پایدار
عشق رابا حئی جاں افزائے دار!

عشق زندہ در روان و دربصر
ہر دمے باشدز غنچہ تازہ تر!

عشق آں زندہ گزیں کو باقیست
وز شرابِ جاں فزایت ساقیست

عشق آں بگزیں کہ جملہ انبیا
یا فتند از عشق او کار و کیا!

غرق عشق شوکہ غرق است اندریں
عشقہائے اولین و آخریں!

(رومیؔ)

(مُردوں سے عشق پایدار نہیں ہوتا، زندوں سے لگائو ہی روح پرور ہوتا ہے۔زندہ عشق روح میں اور آنکھوں میں رہتا ہے اور ہر لمحے ترو تازہ غنچے سے بھی زیادہ تازگی رکھتا ہے۔ایسے زندہ سے عشق ہونا چاہیے جو باقی رہنے والا ہے، وہ جان فزا شراب کا ساقی ہوتا ہے۔عشق ایسی ہستی سے ہونا چاہیے کہ انبیا نے بھی اس کے تعلق سے بالیدگی حاصل کی ہو۔عشق میں غرق ہو جا اور یہی اولین و آخری عشق ہو۔)

اہل و عیال، دوست و احباب سے رخصت ہوکر جب وہ سوار ہوتا ہے تو اس کی نظر میں دارِآخرت کی سواری آ جاتی ہے، وہ اپنے جنازے کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے جس پر سوار ہوکر اس کو ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا، اور وہ جانتا ہے کہ یہ دن کچھ زیادہ دور تو نہیں ہوسکتا۔ع

کیں عمر بیک چشم زدن نقش برآب است!

(یہ عمر پانی پر کسی نقش کی مانند آنکھ جھپکنے میں ختم ہوجاتی ہے۔)

جب احرام کے لیے چادر خریدتا ہے تو اس کو وہ دن یاد آتا ہے جب اس کا تن بے جاں کفن میں لپیٹا جائے گا اور وہ بے حس و حرکت پڑا ہوگا! اب اس کا ساتھ دینے والے نہ دوست و احباب ہوں گے اور نہ اہل و عیال، صرف ایمان و عمل صالح ہی اس کے ساتھ جائیں گے! وہ اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:   ؎

یا من بدنیاہ اشتغل
قد غرک طول الامل

الموت یاتی بغتۃ
والقبر صندوق العمل

(حضرت علیؓ)

(اے وہ جو اپنی دنیا میں مشغول ہوگیا، تجھے طویل تمنائوں نے دھوکے میں ڈال دیا۔ موت تو اچانک آئے گی اور قبر تمھارے عمل کا صندوق ہوگا)

سوچتا ہے کہ احرام کی چادر تو خانۂ کعبہ کے قریب پہنچ کر باندھنی پڑے گی، ممکن ہے کہ یہ سفر پورا نہ ہوسکے اور راہ ہی میں موت آ جائے لیکن حق تعالیٰ سے ملاقات تو کفن میں لپٹے ہوئے ہی ہوگی! کفن کی اس چادر پر نظر کرکے شکستہ دلی کے ساتھ حق تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:

’’اَللّٰھُمِّ اَغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآء الثَّلِجْ وَالْبَرْدِوَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْب الْاَ بْیَض مِنَ الدَّنسِ وَبَاعِدْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَاَے کَمَا بَاعَدتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ۔‘‘ (عن عائشہ ؓ، بخاری)

اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور مجھ میں اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ مشرق و مغرب میں تو نے فاصلہ رکھا ہے۔

جب اپنے شہر سے باہر نکل آتا ہے تو سوچتا ہے کہ اُس نے اپنے اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر ایسا سفر اختیار کیا ہے جو کسی طرح دنیا کے اور سفروں کے بالکل مشابہ نہیں! اس سفر سے اس کا مقصود حق تعالیٰ ہیں، ان کے گھر کی زیارت ہے، ان کی رضا و خوشنودی ہے۔ حق تعالیٰ ہی کی پکار پر، انھی کی توفیق سے، انھی کے شوق دلانے سے، انھی کے حکم پر وہ قطعِ علائق و ترکِ خلائق کرکے ان کے دربار کی طرف دیوانہ وار چل پڑا ہے، اس کی زبان پر ہے:

بِسْمِ اللّٰہِ، مَاشَاء اللّٰہ، حَسْبِی اللّٰہُ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

اللھم الیک خرجت وَانت اخرجتنی!

(اے اللہ، میں تیری طرف ہی نکلا ہوں اور تو نے ہی مجھے نکالا ہے)

من کہ باشم کہ براں خاطر عاطر گذرم
لطفہامی کنی اے خاک درت تاج سرم

(حافظ شیرازیؒ)

(میں کون ہوتا ہوںکہ اس کے خاطر عاطر میں میرا گزر ہو، تیرا لطف و کرم ہو توتیرے در کی خاک ہی میرے سر کا تاج ہے۔)

اس کو حق تعالیٰ سے پوری اُمید ہوتی ہے کہ وہ اس سفر شوق میں اس کے ساتھ ہوں گے، اس کے نگہبان اور مددگار ہوں گے۔ وہ حق تعالیٰ ہی کی دستگیری و رہبری سے اپنی منتہاے آرزو کو پائے گا، اپنے مولیٰ کے دیدار سے اپنی مراد کو پائے گا! ؎

من ایں دستے کہ افشاندم زکونین
بد امانِ تمنائے تو باشد!

(حزیںؔ)

(جی کو میں نے کونین سے الگ کر لیا ہے، تیری تمنا کے دامن میں آجائے۔)

سوچتا ہے کہ اگر وہ منزل مقصود کو پہنچنے بھی نہ پایا اور راستے ہی میں طعمۂ اجل مسمٰی ہوگیا، پھر بھی وہ’نثارِ رہ یار‘ ہوگا! کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:

’’وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘ (النسآء ۴:۱۰۰)جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا، پھر اس کو موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ کے ذمے!

ہاں، اس راہ میں موت بھی اچھی! کہہ سکے گا! ؎

حاصل عمر نثار رہ یارے کردم!
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم

(اپنی عمر کا حاصل اپنے دوست کی راہ میں نثار کر دیا ہے۔ میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ میں نے کوئی کام تو کیا ہے۔)

اسی فکر و ذکر، اسی ولولہ و جنون میں وہ میقات پر پہنچ جاتا ہے، کپڑے اُتارتا ہے اور احرام کی چادریں باندھتا اور اوڑھتا ہے، ماسوا سے آزاد ہوکر چیخ اٹھتا ہے:

لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ

آنکھوں سے اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، دل سے سرد آہیں نکلتی ہیں اور زبان سے یہ چیخ:

ما را ز خاک کویت پیراہن است برتن!
آنہم زآب دیدہ صد چاک تابدامن

(جمالیؔ)

(تیرے کوچے کی خاک ہمارے جسم کا لباس ہے، اور اس لباس کو بھی ہمارے آنسوئوں نے دامن تک چاک کررکھا ہے۔)

جانتا ہے کہ لبیک کی یہ پکار حق تعالیٰ کی اس پکار کے جواب میں ہے، کہ: وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (الحج ۲۲:۲۷)’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔‘‘اور اس کا خیال عرصۂ قیامت کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اسی طرح پکارے جائیں گے اور وہ اپنی قبروں سے نکل کر میدانِ قیامت میں جمع ہوں گے اور حق تعالیٰ کی پکار کا جواب دیں گے۔ پھر ان میں سے بعض مقبول ہوں گے اور بعض مردود! ابتدا میں تردد ہر ایک کو ہوگا، خوف و رجا ہر ایک کے سینے میں ہوگی! دل ہی دل میں حق تعالیٰ سے کہتا ہے، کہ

کارے بجز گناہ نداریم یا حفیظ
عذرے بغیر آہ نداریم یاحفیظ!

ہر چند رو سیاہ و گنہ گار و مجرمیم
جز رحمتت پناہ نداریم یاحفیظ!

(مجذوبؔ)

اے حفیظ! سواے گناہ کے اور کچھ کام ہم سے نہ ہو سکا۔ ہمارے پاس سواے آہوں کے کوئی عذر نہیں۔ ہر چند کہ ہم گنہگار اور روسیاہ اور مجرم ہیں، سواے تیری رحمت کے پناہ میں آنے کے اور کچھ نہیں رکھتے۔)

توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، ندامت و شوق، رجا و خوف میں اس کی ہر ساعت بسر ہوتی ہے، دل میں حسرتوں کا ہجوم ہوتا ہے، اور وہ راہ کی صعوبتیں برداشت کیے بڑھتا جاتا ہے! کبھی کہتا ہے:

اللہ! کس قدر رہِ مقصود دور ہے
پیک خیال راہ میں تھک تھک کے رہ گیا

جدہ کا قیام، ساتھیوں کی پریشانی اس کو متاثر نہیں کرتی، وہ تو ’محو خیالِ یار‘ ہے:

وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل پڑے
یہ مری جبینِ نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی

انتظار کی ساعتیں گزرتی جاتی ہیں اور وہ بے تابی میں گنگناتا جاتا ہے:

نظر ہے وقفِ غمِ انتظار کیا کہنا
کھنچی ہے سامنے تصویرِ یار کیا کہنا

(جگر مراد آبادی)

اب قافلہ مکہ معظمہ میں داخل ہو رہا ہے! ’حرم مامون‘ میں پہنچ رہا ہے! مَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمنا، کی نوید اس کے کانوں میں گونجتی ہے۔ ’بلد امین‘ میں داخل ہوکر وہ چیخ اُٹھتا ہے:

ذرئہ خاکم و درکوئے توام وقت خوش است
ترسم اے دوست کہ بادے نہ بردناگاہم!

(حافظؔ)

(میںذرہ خاک ہوں اور خوش ہوں کہ تیرے کوچے میں پڑا ہوا ہوں، اور اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ہوا کا جھونکا مجھے اڑا کے یہاں سے کہیں دور نہ لے جائے۔)

آگے بڑھ کر جب اس کی نظر بیت اللہ پر پڑتی ہے تو رب البیت کی تجلی سے اس کے ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں:

آمد خبرے زآمد او
من بعد خبر نماند مارا!

(اس کی آمد سے ہی کچھ خبر معلوم ہوتی ہے، اس کے آنے کے بعد تو ہم خود ہی اپنے آپ میں نہیں رہتے۔)

وہ ’بیت‘ کو نہیں، گویا ’رب البیت‘ کو دیکھ رہا ہے!

آنکھوں میں روے یار ہے، آنکھیں ہیں روے یار پر
ذرہ ہے آفتاب میں، ذرے میں آفتاب ہے

اسی ذوق و شوق کو لیے ہوئے وہ طواف کے لیے بڑھتا ہے، اس کے قلب میں تعظیم،  خوف ورجا، عشق و محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اس کا جسم خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف ہوتا ہے لیکن اس کی روح رب البیت کے گرد گھومتی ہے، اس کا دل حضرت ربوبیت کا طواف کرتا ہے، ان پر فدا ہوتا ہے، نثار ہوتا ہے، چیختا ہے     ؎

یک جاں چہ متاعیست کہ سازیم فدایت
اماچہ تواں کرد کہ موجود ہمین است!

(فقط ایک جان ہی تو ہے اسے آپ پر فدا کریں، تو (کیا کمال ہو)، مگر افسوس کہ اس جان کے سوا  تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہی جان ہی تو ہے۔)

جب حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے، اطاعت و فرماںبرداری، عبدیت و عبودیت کا اقرار کر رہا ہے، حجر اسود ’’یَمِیْنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَل فِی الْاَرْضِ‘‘ ہے، حق تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے زمیں پر، ’’یُصَافِحُ بِھَا خَلْقَہٗ کَمَا یُصَافِحْ الرَّجُلُ اَخَاہُ‘‘ جس سے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح مصافحہ کرتے ہیں جیسے انسان اپنے بھائی سے، ( عن عبداللہ بن عمرؓ، مسلم)۔ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کرتا ہے:

یا رب منم و دست تہی چشم برآب
جاں دادہ و دل سوختہ و سینہ کباب

نامہ سیہ، و عمر تبہ، کار خراب
از روئے کرم بفضل خوشیم دریاب

(اے اللہ میں ہوں اور تہی دست ہوں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ میں سوختہ دل ہوں اور محبت سے سینہ جلا ہوا ہے میرا نامہ اعمال سیاہ ہے۔ عمر برباد ہو گئی اور ہر کام خراب ہوا، اب رب کریم اپنے لطف و کرم سے نوازیں تو خوشی مل سکتی ہے۔)

پھر کعبۃ اللہ کے پردے کو پکڑتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ کے دامن کو پکڑ رہا ہے، اور ملتزم سے چمٹتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ سے قریب ہو رہا ہے، رو رو کر عرض کرتا ہے:

تو کریم مطلق و من گداچہ کنی جزاینکہ نخوانیم
در دیگرے بنما کہ من بہ کجا روم چو برانیم
ہمہ عمر ہر زہ دویدہ ام خجلم کنوں کہ خمیدہ ام
من اگر بحلقہ تنیدہ ام تو برون درمنشانیم

(بیدلؔ)

(تو کریم ہے اور میں فقیر، کیا کیا جا سکتا ہے کہ تجھے نہ پکاریں۔ کوئی دوسرا دروازہ نہ کھلا، کہ میں کہاں جائوں اگر یہاں سے زندہ جائوں۔ ساری عمر اب خجل خوار ہو کر تیری طرف جھک آیا ہوں۔ اب اس حلقے پر آیا ہوں تو باہر نہ پھینکا جائوں۔)

گویا پکار اٹھتا ہے کہ آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑلوں؟ میری پناہ گاہ آپ ہیں، میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کون ہے؟ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ نہیں! آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا جب تک کہ آپ اپنی رحمت سے میری سیہ کاریوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ دامن امن میں پرورش نہ فرمائیں! حق تعالیٰ آپ کریم ہیں، در کریم پر عجز و نیاز کے ساتھ آیا ہوں، دیدئہ اشک بار کے ساتھ آیا ہوں، دردِ دل، نالۂ جاں آزار کے ساتھ آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں!                 ؎

یا رب دلم از بار گنہ محزون است
جاں زارو دل افگار و جگر پر خون است

ہر چند گناہ من زحد بیرون است
عفوت زگناہِ من بے افزون است

(دردؔ)

(اے اللہ میرا دل گناہ کے بوجھ سے حزن و ملال میں مبتلا ہے، میری روح زارو نزار ہے اور دل زخمی ہے اور جگر چھلنی ہے ہر چند کہ میرے گناہ حد سے زیادہ ہیں لیکن تیرا عفوو درگزر کرنے کا شیوہ اس سے بہت زیادہ ہے۔)

صفا و مروہ کے درمیان جب وہ سعی کرتا ہے تو یہ احساس قلب میں لیے ہوئے کہ ایک فقیر، مسکین، حقیر و ذلیل غلام اپنے آقا، مالک، بادشاہ کے محل کے صحن میں بار بار چکر لگا رہا ہے، نظر کرم کا ملتجی ہے، زباں پر سوال ہے کہ:

’’رَبِّ اغْفِرْوَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اَنَّکَ اَنْتَ الْاَ عَزَّالْاَکْرَمُ‘‘

بار بار گھومتا ہے اور آواز لگاتا ہے، کہ:

اِلٰہِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فقیرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ

میرے معبود تیرا بندہ تیرے درپر ہے،تیرا فقیر تیرے در پر ہے،تیرا مسکین تیرے در پر ہے، تیراسائل تیرے در پر ہے،تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے،تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے،تیرا مہمان تیرے در پر ہے،اے رب العالمین!

جانتا ہے کہ کوئی سائل اس در سے محروم نہیں جاتا، یہ کریم کا دروازہ ہے، اس کو جو کھٹکھٹاتا ہے وہ اپنی مراد کو پاتا ہے:

گفت پیغمبر کہ چوں کو بی درے
عاقبت زاں در بروں آید سرے

سایۂ حق برسر بندہ بود
عاقبت جویندہ یا بندہ بود

چوں نشینی بر سر کوئے کسے
عاقبت بینی تو ہم روئے کسے

چوں زچا ہے میکنی ہر روز خاک
عاقبت اندر رسی در آب پاک

(پیغمبر نے فرمایا کہ دروازے کو کھٹکھٹاتے رہیے آخر کار اس دروازے سے کوئی باہر آہی جائے گا۔ حق کا سایہ اپنے بندے کے سر پر رہتا ہے، آخر کار تلاش کرنے والا کچھ نہ کچھ پاہی لیتا ہے۔ جب تو کسی دروازے پر پڑا رہے گا تو آخر کسی نہ کسی کا دیدار کر ہی لے گا۔ جب کوئی کسی کنویں کی مٹی نکالتا رہے گا تو آخر کسی روز اس کی تہہ سے پانی حاصل کر ہی لے گا۔)

عرفات کے میدان میں جب وہ قدم رکھتا ہے اور لوگوں کا اژدحام اور آوازوں کا بلند ہونا اور زبانوں کا اختلاف جب اس کو نظر آتا ہے، تو اس کو میدانِ قیامت کا منظر یاد آتا ہے کہ اس روز بھی ہر امت اپنے نبی کے ساتھ اسی طرح جمع ہوگی اور اس کی پیروی کرے گی اور اس کی شفاعت کی اُمید کرے گی! اب وہ اضطرار کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور چیختا ہے:

’’یَامَنْ لَّا یَشْغَلُہُ شَأْنٌ عَنْ شَأْنٍ وَلَا سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَلَا تَشْتَبِہُ عَلَیْہِ الْاَصْوَاتُ، یَا مَنْ لَّا تَغْلطُہَ الْمَسَائِلَ وَ لَا تَخْتَلِفُ عَلَیْہِ اللّٰغَاتُ! یَا مَنْ لَّا یَبْرِمَہٗ اِلْحَاحُ الْمُلْحِیْن وَلَا تَضْجُرُہُ مَسْئَلَۃُ السَّائِلِیْنَ! اَذَقْنَا بَرْدِ عَفُوِکَ وَ حِلَاوَۃَ رَحْمَتِکَ!!‘‘

اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو ایک حال دوسرے حال سے نہیں روکتا اور نہ ایک عرض کا سننا دوسرے عرض کے سننے سے باز رکھتا ہے، اور نہ مشتبہ ہوتی ہیں اس پر آوازیں! اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو بہت سے سوال مغالطے میں نہیں ڈال سکتے اور نہ مختلف ہیں، اس کے نزدیک بہت سی زبانیں! اے وہ ذات پاک جس کو ہٹ کرنے والوں کا اصرار تھکا نہیں دیتا اور مانگنے والوں کا سوال تنگ نہیں کرتا، ہم کو اپنے عفو کی ٹھنک اور رحمت کی حلاوت سے آشنا کر!۔ (دعاے خضر علیہ السلام)

پھر رو رو کر کہتا ہے:

’’اَلٰھِیْ! اَنْتَ اَنْتَ وَ اَنَا اَنَا، اَنَا الْعَوَّادُ اِلَی الذَّنُوْبِ وَاَنْتَ اِلَی الْمَغْفِرَۃِ! اِلٰھِیْ اِنْ کُنْتَ لاَ تَرْحَمُ اِلَّا اَھْلَ طَاعَتِکَ فَالِیَ مَنْ یَّفْزَعُ الْمُذْنِبُوْنَ!‘‘

حق تعالیٰ آپ آپ ہیں اور میں میں ہوں! میں گناہوں کی طرف بار بار پلٹتا ہوں اور آپ مغفرت کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں! حق تعالیٰ اگر آپ اپنے طاعت والوں ہی پر رحم کریں، تو گنہ گار کس طرف ملتجی ہوں؟

حق تعالیٰ میں آپ کی اطاعت سے قصداً علیحدہ رہا اور آپ کی نافرمانی پر دانستہ متوجہ ہوا، آپ پاک ہیں! آپ کی حجت مجھ پر کتنی بڑی ہے اور آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑاکرم ہے۔ پس جس صورت میں کہ آپ کی حجت مجھ پر ضروری ہوئی، میری حجت آپ کے ہاں جاتی رہی، میں آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے پروا و بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے! اے اُن سے بہتر ذات جن کو کوئی دعا مانگنے والا پکارے، اورافضل ان سے جن سے کوئی توقع رکھنے والا توقع رکھے! اسلام کی حرمت اور محمد   صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں، میرے سارے گناہ بخش دیجیے اور مجھے اس موقف سے حاجتیں پوری کرکے لوٹایئے اور جو کچھ میں نے مانگا مجھے دلا دیجیے اور جس چیز کی میں نے تمنا کی اس میں میری توقع پوری کیجیے!

پھر چلاتا ہے درد بھرے دل سے:

الٰہی! جو تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے نفس کو ملامت کرتا ہوں!   الٰہی گناہوں نے میری زبان گونگی کر دی، پس مجھ کو اپنے عمل کا وسیلہ نہ رہا اور نہ سوا اُمید کے اور کوئی سفارش کرنے والا! الٰہی مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری قدر کچھ باقی نہ رکھی اور نہ عذر کرنے کی کوئی صورت چھوڑی لیکن تو تمام کریموں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی اگر میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں توتیری رحمت تو شایاں ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی تیری رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور میں بھی ایک چیز ہوں! الٰہی اگرچہ میرے گناہ بڑے ہیں لیکن ترے عفو کے مقابلے میں چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر اے کریم!!۔

جانتا ہے کہ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں حق تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان رحمتوں کو وہ قلوب جذب کرتے ہیں جو اس میدان میں موجود ہوتے ہیں، یہ ابدال و اوتاد کے قلوب ہیں، ان صالحین کے قلوب ہیں جو حق تعالیٰ کے آگے سربسجود ہیں، ان کے حضور میں دست بستہ     ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑا رہے ہیں! رحمت الٰہی کے جذب کا اس سے زیادہ قوی و موثر کوئی طریقہ نہیں کہ:’’ان ابرار کی ہمتیں اکٹھی ہوں اور ایک وقت میں ایک زمین پر قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں!‘‘اس ادراک کے ساتھ ہی اس کی زبان سے یہ چیخ نکلتی ہے:

غم ناکم وازدر تو باغم نروم
جز شاد و اُمید و اروخرم نروم

از درگہ ہمچو تو کریمے ہرگز
نومید کے نرفت ومن ہم نروم

(ابو سعید)

(میں غم زدہ ہوں، تاہم تیرے در سے غم ہی میں نہ جائوں گا۔ تیرے در سے سواے خوشی اور اُمید کے کوئی اور چیز لے کر نہیں جائوں گا۔ تیرے جیسے کریم کی درگاہ سے کوئی نا اُمید نہیں گیا، میں کیوں نااُمید جائوں۔)

اسی لیے کہا گیا ہے، کہ:’’عرفات کے شریف میدان میں آکر یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ نے میری مغفرت نہیں کی، سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘                  ؎

رحمت اینجا کہ کند وسعتِ خودرا ظاہر
ہر کہ تقصیر نہ کرداست گنہ گار ترست!

(اس جگہ تیری رحمت اپنی پوری وسعت کے ساتھ جلوہ گر ہے، جو کوئی تقصیر نہ کرے وہ زیادہ گنہ گار ہے۔)

رمی جمار کے موقع پر احرام باندھتے وقت اپنے اس قول کو یاد کرتا ہے کہ:

’’لَبَّیْکَ لِحَجَّۃٍ حَقًّا تَعَبُّدً اوَّرِقًّا‘‘ (عن انسؓ، دارقطنی)میں حاضر ہوں حج کے واسطے حقیقت میں بندگی اور غلامی کی راہ سے۔

اور محض اپنی غلامی و بندگی کے اظہار کے لیے امر کی اطاعت کا قصد کرتا ہے اور محض تعمیل ارشاد و امتثال امر الٰہی کے لیے رمی کرتا ہے، جانتا ہے کہ اس فعل میں نہ تو نفس کو کوئی حظ ہے اور نہ عقل کو! اپنی عقل اور نفس کو حق تعالیٰ کے حکم پر قربان کرتا ہے، اور دیوانہ وار ’اقامت ذکر اللہ‘ کے لیے شیطان پر کنکر مارتا ہے اور زبان سے کہتا جاتا ہے:

اَللّٰہُ اَکْبَرُ عَلٰی طَاعَۃِ الرَّحْمٰنِ وَ رغم الشَّیْطَانِ تَصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَ اِتّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ

جب قربانی کرتا ہے تو جانتا ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم پر وہ اپنی جان بھی، قربانی کے جانور کی طرح فدا کرنے کو تیار ہوگا بلکہ عاشق کی زندگی تو ہر’زماں مردنی‘ ہے، وہ اپنی جان کو ہر دم فدا کر ہی رہا ہے:

اے حیاتِ عاشقاں در مردگی
دل نیابی جز کہ در دل بردگی

مابہا و خوں بہارا یا فتیم
جانب جاں باختن بشتافتیم

(تیری محبت میں فنا ہونے والوں کو بھی زندگی ملتی ہے، دل دے دینے ہی میں حاصل ہو جاتا ہے محبت ہوتی ہے۔ ہم نے قیمت اور خون بہا حاصل کر لیا، ہم جان کی بازی لگا گئے اورچلے گئے)

عاشقاں راہر زمانے مرد نیست
مرونِ عشاق خودیک نوع نیست

اود و صد جاں دار داز نورِ ہدیٰ
واں دو صدرامی کند ہر دم فدا

ہر یکے جاں راستانددہ بہا
از بنی خواں عشرۃ امثالہا

(رومیؔ)

(عاشقوں کے لیے موت نہیں، عاشقوں کی موت کوئی ایک ہی نوع پر مشتمل نہیں ہوتی۔ وہ دو سو جانیں رکھتا ہے اور ہدایت کی روشنی بھی، وہ یہ دو سو جانیں بھی قربان کر دیتا ہے۔وہ ہر جان پر قیمت حاصل کرتا ہے جیسے کہ نبی نے فرمایا کہ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا ط ( الانعام ۶:۱۶۰) ’’اور جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس لیے دس گنا اجر ہے۔‘‘)

غرض حج کے اعمال میں دل کا وظیفہ یہ ہے جس کا اجمالاً اوپر ذکر ہوا۔ قلب کی یاد کے ساتھ حج کے اعمال وہی ادا کرتا ہے جس کے دل پر حق تعالیٰ کی محبت و غلامی کا داغ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس غلام کو خود بادشاہ خریدتا ہے اس کا مرتبہ سوا ہوتا ہے    ؎

داغِ غلامیت کرد پایۂ خسرو بلند
صدر ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید

(خسرو کا مرتبہ تیری غلامی کے باعث بڑھ گیا ہے ،جسے سلطان خریدے وہ مملکت کا صدر نشین ہوجاتا ہے۔) (الفرقان، لکھنو، حج نمبر، شوال ۱۳۷۰ھ)


 کتابچہ دستیاب ہے،منشورات، منصورہ لاہور۔ قیمت:۷ روپے، سیکڑہ پر خصوصی رعایت