اخذو ترجمہ: امجد عباسی
امریکا میں اسلامی فکر کے احیا، اخلاقی اقدار کے فروغ، سماجی و فلاحی سرگرمیوں اور مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے مسلمانوں کی دو بڑی نمایندہ تنظیمیں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA) اور اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA) ہیں۔ ICNA بیش تر پاکستانی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جب کہ ISNA عرب مسلمانوں پر۔ دونوں تنظیمیں گذشتہ ۴۰ برس سے مصروف عمل ہیں۔ ان تنظیموں کی نمایاں سرگرمیوں میں سے ایک سالانہ کنونشن کا انعقاد ہے جس میں ہزاروںکی تعداد میں مسلمان امریکا بھر سے شریک ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوںاسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کا ۴۸ ویں سالانہ کنونشن شکاگو میں یکم تا چار جولائی ۲۰۱۱ء منعقد ہوا۔ کنونشن کا موضوع ’کثیرجہتی یا تکثیری معاشرے کا چیلنج‘ تھا۔ رو سمنٹ کنونشن سنٹر میں اس کنونشن کا آغاز امام محمد مجید، صدر اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کی اس دعوت سے ہوا کہ امریکی مسلمانوں کو امن کا سفیر ہونا چاہیے۔ ۱۰ ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کو خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے انھوں نے نصیحت کی کہ انھیں اسلام کا مجسم نمونہ بننا چاہیے جو اچھے اخلاق، مضبوط خاندانی روابط اور معاشرے کے دوسرے افراد سے محبت، ہمدردی اور باہمی تعاون پر مبنی برادرانہ تعلقات کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مذہب جو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ہمسایے بھوکے سوئیں، اس کا تشدد اور نفرت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
کنونشن کے مرکزی خیال کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید ایم سعید، سابق سیکرٹری جنرل ’اسنا‘ نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کا خاندان ہمارے لیے ہمدردی، اخوت و محبت اورایک دوسرے کے لیے احترام کے حوالے سے خاندانی روابط کی تعمیر کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ انھوں نے کہاکہ جب رسول ؐ اللہ نے فرمایا کہ عورت کو اونٹ چلانے کی تربیت دی جا سکتی ہے، تو پھر اس پر گاڑی چلانے کی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔انھوں نے کہا کہ امریکی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوم کی تعمیر کے عمل کے دوران بہت زیادہ تشدد اور خوں ریزی دیکھنے میں آئی اور خانہ جنگی کے دوران ۶لاکھ امریکی مارے گئے۔
پروفیسر امینا جندالی نے اس حدیث کا تذکرہ کیا کہ ایک مسلمان عورت جہنم میں اس لیے ڈال دی گئی کہ وہ اسلامی عبادات کی تو پابند تھی لیکن اس کے اخلاق اور رویے سے اس کے ہمسایے ناخوش تھے۔ ہمیں کثیرجہتی معاشروں میں’غیر مسلم‘ کی اصطلاح کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ منفی تاثر دیتی ہے۔ اس کے بجاے ہمیں ’’دوسرے مذاہب کے بہن بھائی‘‘ متبادل کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر جان ایسپوزیٹو نے بحث کا رخ اس سوال سے متعین کیا کہ مسلمانوں کو نہ صرف امریکی معاشرے میں تکثریت کا سامنا ہے، بلکہ خود مسلم معاشروں میں بھی اس مسئلے کومحسوس کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام فوبیا (اسلام کو ہوّا بنا کر پیش کرنے کا کلچر) مغرب کو اپنی گرفت میں لیتا جا رہا ہے۔ اس عمل کے اثرات کو صرف اسی صورت میںمثبت رخ دیا جا سکتا ہے کہ کثیر جہتی معاشرے کو قبول کیا جائے۔ مسلم معاشرے میں شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی شافعی کی تقسیم سے بالاتر ہو کر مسلمان ایک دوسرے کو قبول کریں۔اسلامی معاشرے میں ذمیوں کا تصور بھی ایک حقیقت ہے۔ کثیر جہتی معاشرے کی پرکھ کے لیے تمام مذاہب کو دوسرے مذاہب کا حق تسلیم کرنا ہوگا اور اس بات پر بھی لازماً یقین رکھنا ہوگا کہ مسئلے کا حل صرف اس بات میں نہیں ہے کہ ہم ایک مخصوص عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ اس بات میں ہے کہ صحیح رویہ کیاہے۔ آج حقائق پیچیدہ شکل اختیار کرچکے ہیں، جب کہ ہم کثیر جہتی معاشروں میں رہتے ہیں۔ ہمیں روایات کا آج کے تناظر میں ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔
ڈاکٹر مہر ہاتھوٹ نے کہا کہ تکثیریت کا تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کے مذہب کے احترام میں کسی کمی کے بغیراپنے مذہب پر ایمان رکھیں۔ سورۂ مائدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس وقت جنگ کریں جب انھیں ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اگران کو بے دخل نہ کیا جائے تو انھیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ نیکی کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کوا س وژن کو بڑھانا ہوگا، قیادت کو پروان چڑھانا ہوگا، ایک حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اوراپنے آپ کو ان رہنما خطوط کی بنیاد پر منظم کرنا ہوگا۔
پروفیسر ان گرڈ میٹسون، ’اسنا‘ کی پہلی نومسلم خاتون سربراہ نے کہا کہ مذہبی تنوع اللہ کوپسند ہے اور قومیں دنیا میں نیکی میں مسابقت سے عروج پاتی ہیں۔ مسلمانوں کو ان خصوصیات کو اپنے ذہنوں میں نقش کرنے کے لیے دوسروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر کسی قومیت کے تشخص کی بنیاد اس مفروضے پر رکھ لی جائے کہ ’’ہم دوسروں سے برتر ہیں‘‘ تو یہ سوچ مسائل کا باعث ہوگی۔ لبنان میں عرب تشخص کے باوجود عیسائیت کا غلبہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام مذاہب میں تنوع کو برداشت کرتا ہے۔ عراق اسلام میں تکثیریت کی مثال ہے، اس لیے کہ ملک میں ہمیشہ شیعہ سنی کی واضح تقسیم رہی ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو دور کیا کہ اسلام میں مرتد کی سزاموت ہے۔ غداری اور کسی دوسرے مذہب کے قبول کرنے میں امتیاز برتا جانا چاہیے۔
کانگریس کے رکن کیتھ الیوژن نے کہا کہ مسلمان امریکا میں مساجد پر تو بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن انھیں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ نوجوانوں کی عملی و اخلاقی تربیت کریں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ بات کر سکیں۔ رسول پاکؐ نے جن افراد کو تیار کیا اور تربیت دی وہ باکردار اور باصلاحیت انسان تھے۔
روز منٹ کنونش سنٹر کے نزدیک ہوٹل ہیسٹی میںایک دوسرے اجلاس سے معروف مسلمان اسکالر طارق رمضان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں اسلام فوبیا کو منظم انداز میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ ’عرب انقلاب‘ میں مغربی میڈیا آمریت اور مسلمان انتہا پسندوں کے درمیان منظرکشی اپنی خواہشات کے مطابق کر رہا تھا، جب کہ عربوں نے خود مسلمان انتہا پسندوں کے ساتھ کسی وابستگی کا اظہار نہیںکیا تھا۔ تاہم، مسلمان نوجوان خبردار رہیں اور اپنے اندر منفی ذہنیت کو پنپنے نہ دیں۔ وہ معاشی مقام و مرتبے کے لیے صلاحیتوں کو جھونک دینے، تن آسانی اور سٹیٹس کی دوڑ کو ترک کریں۔ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اس کام کا نقطۂ آغاز اللہ سے پیار اور لوگوں سے پیار سے ہو سکتا ہے۔ نبی کریمؐ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ان کی پہلی ہدایت یہی تھی کہ ایک دوسرے سے محبت کو فروغ دو۔
’اسنا‘ کا سالانہ کنونشن ہمیشہ ہی سے امریکا میں گہری دل چسپی کا باعث رہا ہے۔ اس میں مختلف تنظیموں کو تبادلۂ خیال کرنے اور باہمی تجربات سے استفادے کا موقع ملتا ہے۔ کاروباری حضرات کاروباری مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مختلف کمپنیاں اور انشورنس کمپنیاں سرمایہ کاروں اور گاہکوں کی تلاش میں ہوتی ہیں، والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے مناسب رشتوں کی تلاش میں مختلف خاندانوں سے رابطے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، کتب فروش اور اسلامی موضوعات پر فلم ساز اور علاقائی ملبوسات کی شائق خواتین بڑی تعداد میں ’اسنا‘ کے ممبران کے ساتھ شرکت کرکے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔۲۰۰ دکانوں پر مشتمل اسلامی بازار وسیع کنونشن سنٹر میں پروگرام کے مختلف وقفوں کے دوران اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
یہ اجتماع مختلف رنگ و نسل کے ___گورے، بھورے، سیاہ اور زرد ___انسانوں کا ایک ایسا نظارہ پیش کرتا ہے جو چٹ پٹے کھانے، پیزا، برگر، بریانی، سموسے اور شوارما ڈائننگ ہال میں کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔ بڑی تعداد میں جین پہنے بچیاں، اسکارف اوڑھے ہوئے نوجوان لڑکیاں، جب کہ برقعہ اور چادر میں ملبوس خواتین فخر کے ساتھ بازاروں میں، اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتی چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔’اسنا‘ کا اقامتی کلچر ان سب کو یکجا کر دیتا ہے تاکہ وہ اسلام کے آفاقی تصور سے آشنا ہو سکیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ سالانہ کنونشن میں شرکت کرتے ہیں تاکہ انھیں اسلام کے وسیع سماجی تصور سے روشناس کروا سکیں۔( ریڈینس ویوز ویکلی، دہلی، ۱۷۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۱ء)