قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی جانب سے عالم انسانیت پربے شمار احسانات میں سے نہ صرف ایک عظیم احسان ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے لیے اپنی بے پایاں محبت و رحمت کا اظہار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس سے مکمل رہنمائی حاصل کریں، اپنے مقصد وجود کو پہچانیں اور اپنی منزل کا تعین کریں اور اس کے حصول کے لیے وہ طریقۂ کار اختیار کریں جس سے اس کا حصول یقینی ہو۔ جس کے نتیجے میں ہمارا رب ہم سے راضی ہو اور ہم اس کی ابدی اور دائمی جنت کے مستحق ٹھیریں جس کا اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے انسان نے بحیثیت مجموعی جو رویہ اور طرز عمل اختیار کیا اور کر رہے ہیںوہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ قہر و غضب اور ذلت و رسوائی کا شکار ہے اور دیگر اقوامِ عالم وحشت و سفاکیت اور دہشت و درندگی کا نمونہ پیش کر رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے سخت روـیے اور برے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے دلو ں پر مہر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے کہ ایسے لوگ خود ہی اپنے لیے ہدایت کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا رویہ اور طرزِعمل ہے اور وہ کون لوگ ہیںکہ جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ ٹھپہ لگا دیتے اور جس کے بعد ان سے بہت ہی کم خیر کی توقع اور ہدایت کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ط وَ لَئِنْ جِئْتَھُمْ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ o کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۵۸-۵۹)، اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے تم خواہ ان کے پاس کوئی نشانی لے کر آئو جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے (یعنی ہٹ دھرمی اور ضد پر اتر آئے ہیں)وہ یہی کہیں گے کہ تم ہی باطل پر ہو۔ اس طرح اللہ ٹھپہ لگا دیتا ہے ان لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں۔
آیات قرآنی کو جھٹلانے اور حد سے گزر جانے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِھَا وَ لَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ o وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ وَ اِنْ وَّجَدْنَـآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَo (الاعراف ۷: ۱۰۱-۱۰۲)، یہ قومیں جن کے قصے ہم تمھیں سنا رہے ہیں (تمھارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے۔دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہدنہ پایابلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ o (یونس ۱۰:۷۴)، پھر(نوحؐ) کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اـن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر جس چیز کو انھوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اسی طرح ہم حدسے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔
کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ نِ o الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰھُمْ ط کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ o (المؤمن۴۰:۳۴-۳۵)، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکّی ہوتے ہیںاور اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیںبغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو ۔یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔ اسی طرح اللہ ہرمتکبر و جبّار کے دل پر مہر (ٹھپّہ) لگا دیتا ہے۔
واضح رہے کہ
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ وَکُفْرِھِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتْلِھِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا o وَّ بِکُفْرِھِمْ وَ قَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًاo (النساء۴:۱۵۵ تا۱۵۶)، آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے۔اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایااور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیااور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں۔ اور پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم ؑپرسخت بہتان لگا دیا حالانکہ درحقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔
ایسے ہی منکرینِ حق کے سلسلے میںاللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ o خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (البقرہ ۲:۶-۷)، بے شک جن لوگوں نے انکار کیا (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے ) ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم انھیں خبردار کرو یا نہ کرو۔ بہر حال وہ ماننے ولے نہیں ہیں۔اللہ نے ان کے دلوں اوران کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔
وَ اِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ جَاھِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْتَاْذَنَکَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْھُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَo رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِـــعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ o (التوبہ ۹: ۸۶-۸۷)، جب کبھی کوئی سورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسولؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو آپؐ نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انھوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑدیجیے ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہیں۔ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا۔ اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا،اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ وَ ھُمْ اَغْنِیَآئُ رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo (التوبہ۹:۹۳)، البتہ اعتراض تو ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیںاور پھر بھی آپؐ سے درخواست کررہے ہیں کہ انھیں شرکت جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انھوں نے گھر بیٹھنے والیوں میںشامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیااس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ سَمْعِھِمْ وَ اَبْصَارِھِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ o (النحل۱۶:۱۰۶ تا ۱۰۸)، جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر ہے)۔ مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میںدنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں، کانوں اورآنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔اور یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں۔
اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَھُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لاَ یَفْقَہُوْنَ o (المنافقون۶۳:۲-۳)، انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود رُکتے اور دوسرں کو روکتے ہیںکیسی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ط فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِ ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۲۳)، پھر کیا آپؐ نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنامعبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیااور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اوراس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ حَتّٰی۔ٓ اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبَعُوٓااَہْوَآئَ ھُمْ o (محمدؐ ۴۷:۱۶)،ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیںجو کان لگاکر آپؐ کی بات سنتے ہیں اور پھر جب آپؐ کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنھیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انھوں نے کیا کہا تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپّہ لگا دیا اور یہ اپنی خواہشات کے پیروبنے ہوئے ہیں۔
یہ ہے دراصل ان لوگوں کی سوچ وفکر،روّیہ اورطرزِ عمل جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دلوں پر مہر ثبت کر دیتے ہیں۔اورپھر انسان کے لیے ہدایت و ضلالت،خیروشر اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں پاکیزہ سوچ و فکر،صحیح رویہ اپنانے اور درست طرزِعمل اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اس سے بھی محفوظ رکھے کہ ہم کوئی ایسا رویہ اختیار کریں، یا ہمارے اندر کوئی ایسی صفت پیدا ہوجائے کہ خدانخواستہ اُن لوگوں کے مشابہ ہوجائیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگائی ہے۔ اللہ ہمیں اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین!
مقالہ نگار ریڈ فاؤنڈیشن، باغ، آزاد کشمیر کے شعبہ فہم دین سے بطور مربی وابستہ ہیں