۲۰۱۸ءکئی مسلم ممالک میں انتخابات کا سال ہے۔ ۲۴ جون کو ترکی میں اور گذشتہ مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے تیونس کے بلدیاتی انتخابات، تحریک نہضت کی واضح کامیابی کی خوش خبری لائے۔ عراق کے عام انتخابات میں حکمران اتحاد کے بجاے ایک دوسرے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر بڑی قوت بن کر اُبھرے۔ یہی عالم لبنان کے عام انتخابات کا ہے۔ وہاں حسب توقع حزب اللہ اور اس کے حلیفوں نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن شیعہ سُنّی اور مسیحی آبادی میں تقسیم اقتدار کے فارمولے پر عمل اب بھی مشکل تر دکھائی دیتا ہے۔
اب ۲۵ جولائی کو پاکستانی عام انتخابات کے علاوہ اسی سال کے اختتام پر بنگلہ دیش میں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ حسینہ واجد اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے، جب کہ خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کی پوری قیادت، ہزاروں بے گناہ کارکنوں کے ساتھ جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ تمام انتخابات اہم ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے، اس لیے یہاں ان دونوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اب ترکی میں پارلیمانی نظام کے بجاے براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات پر مبنی صدارتی نظام نافذ ہوگا۔ ۶۰۰ ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ یقینا ایک مؤثر دستور ساز ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گی، لیکن سربراہِ حکومت، حکومت سازی کے لیے ایوان میں کی جانے والی جو ڑ توڑ کی فکر سے آزاد ہوکر اُمور سلطنت انجام دے سکے گا۔ ضرورت ہوگی تو پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے باصلاحیت افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرسکے گا۔ عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہونے والا سربراہِ حکومت کسی فوجی انقلاب کے خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہے گا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہ کر تعمیر ملک و ملت میں شریک کرسکے گا۔ فوجی عدالتیں کالعدم قرار پائیں گی اور عدلیہ میں ججوں کا تعین مزید بہتر انداز سے ہوسکے گا۔
مخالفین کے لیے جب صدر طیب اردوان اور ان کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو طیب پر آمر بننے کا الزام لگایا جانے لگا۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً ساری مغربی دنیا کے علاوہ ہزاروں بے گناہوں کے خون کا پیاسا مصری جنرل سیسی بھی صدر اردوان پر آمر کا الزام لگاتے دکھائی دیا۔ ۲۴جون سے قبل تقریباً ہر اہم عالمی جریدے کے سرورق پر آمر کی سرخی کے ساتھ صدر اردوان کی تصاویر شائع کروائی گئیں۔ جرمنی کے سب سے معروف رسالے دیر شپیگل نے تو انتہا کردی۔ اس نے پورے صفحے پر اردوان کی تصویر کے پس منظر میں بڑی مسجد کی تصویر لگائی اور اس کے سربفلک میناروں میں سے دو میناروں کو میزائلوں میں ڈھالتے ہوئے، انھیںنامعلوم دشمن کے خلاف چلادیا۔ ترک وزیر خارجہ سمیت کئی ذمہ داران نے یہ واضح بیانات بھی دیے کہ بعض ممالک ترک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ جھونک رہے ہیں۔ کئی ملکوں کے سوشل میڈیا سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کی حکومتیں کسی بھی ’قیمت‘ پر اردوان کو ہرانا چاہتی ہیں۔
حالیہ ترک انتخابات، اتحادوں کے انتخابات تھے۔ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود میدان میں تنہا نہیں اُتری۔ اس نے ترک قومیت پر مبنی جماعت (MHP) کے ساتھ ’اتحاد جمہور‘ تشکیل دیا۔ یہ جماعت پہلے تقریباً ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کیا کرتی تھی، اب بھی اسے پارلیمانی سیٹوں کے لیے ۱۱فی صد ووٹ ملے۔ خود جسٹس پارٹی کے ووٹ بعض حلقوں میں کم ہوئے، لیکن دونوں جماعتوں کے اتحاد سے صدارتی انتخابات میں کامیابی ۶ء ۵۲ فی صد تک جاپہنچی۔ مقابل حزب مخالف نے بھی اتحاد ہی کی راہ اختیار کی۔ ’اتحاد ملت‘ کے نام سے قائم اس اتحاد میں باہم شدید نظریاتی مخالف جماعتیں یک جا تھیں۔ سب سے بڑی سیکولر جماعت CHP اور سعادت پارٹی کا اتحاد آگ اور پانی کے ملاپ کی صورت میں سامنے آیا۔ اردوان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب کے لیے حکمت عملی یہ بنائی گئی کہ سب اتحادی پارٹیاں اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتاریں گی، تاکہ ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہونے کے باعث طیب اردوان کو پہلے مرحلے میں جیت کے لیے مطلوب ۵۰ فی صد ووٹ حاصل نہ ہوسکیں۔البتہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں اتحاد کے نام سے حصہ لیا جائے۔ تاہم، کھلی بیرونی مداخلت و ’سرمایہ کاری‘ اورمختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد کے باوجود الحمدللہ، رجب طیب اردوان پہلے ہی مرحلے میں صدر منتخب ہوگئے۔ جیت کے بعد اردوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری جیت کسی ایک فرد یا جماعت کی جیت نہیں ہرترک شہری اور دنیا کے ہر مظلوم کی جیت ہے‘‘۔ یقینا اس جیت کے پیچھے ان لاکھوں مظلوموں اور اسلام کے چاہنے والوں کی دُعائیں بھی تھیں، اردوان حکومت نےجن کے زخموںپر مرہم رکھا۔ انتخابی مہم میں محرّم اینجے کہہ رہے تھے: ’’کامیاب ہوکر ۴۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو نکال باہر کروں گا‘‘، جب کہ اردوان کہہ رہے تھے: ’’یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے مہمان ہیں۔ ہم شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف مزید قوت سے لڑیں گے، تاکہ ہمارے یہ مہمان عزت سے اپنے گھر واپس جاسکیں‘‘۔بالآخر افلا ک سے ان تمام مظلوموں کے نالوں کا جواب آیا۔
طیب اردوان نے اپنے وطن عزیز کومعاشی طورپر مضبوط تر بنانے کے لیے وہ کارکردگی دکھائی ہے جو جدید ترکی کی تاریخ میں کبھی ممکن نہ ہوئی تھی۔ اردوان حکومت سے پہلے ترکی اقتصادی لحاظ سے دُنیا کا ایک سو گیارھواں ملک تھا، اب سولھواں ہے۔پہلے فی کس سالانہ آمدنی ۲ہزار ڈالر کے قریب تھی، اب ۱۱ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بے روزگاری کا تناسب ۳۸ فی صد سے کم ہوکر ۲فی صد رہ گیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں ۳۰۰ فی صد بڑھاتے ہوئے کم سے کم تنخواہ ۳۴۰ لیرے سے بڑھا کر ۹۵۷ لیرے (تقریباً ۲۴ہزار روپے) کردی گئی ہے۔ اردوان کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء تک ترکی کو دنیا کی پہلی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنا ہے۔
حالیہ انتخابات میں ترکی سے ملنے والا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ باہمی اختلافات کو کبھی اس انتہا پر نہیں لے جانا چاہیے کہ دوبارہ ملنا ممکن نہ رہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کی غالب اکثریت (بالخصوص فیصلہ ساز افراد) مرحوم اربکان ہی کے ساتھی اور ایک عالمی اسلامی فکر (جسے انھوں نے ’ملی گوروش‘ کا نام دیا ہوا ہے) کا حصہ ہیں۔ آج ترک ایوان صدر میں جائیں تو کئی دفاتر میں سجی ذاتی تصاویر میں صدر طیب اردوان کے ساتھ ساتھ پروفیسر نجم الدین اربکان اور سیّد مودودی کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف سعادت پارٹی اپنے کٹڑ نظریاتی مخالفین کے ساتھ اتحاد پر تو راضی ہوگئی، مگر حکمران پارٹی کے ہم خیال اپنے سابق ساتھیوں سے نہ مل سکی۔حالیہ انتخابات سے چند روز قبل سعادت پارٹی کے مزید کئی اہم ذمہ داران بھی جسٹس پارٹی میں شامل ہوگئے۔
ملائیشیا بظاہر ایک الگ تھلگ مسلم ریاست ہے، لیکن اپنی آبادی اور اپنے اقتصادی مقام کے باعث جنوبی ایشیا میں ملائیشیا انڈونیشیا، سنگاپور اور برونائی سمیت ان سب ممالک کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا وجود دنیا کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا عملی جواب ہے کہ دین اسلام بزور تلوار پھیلایا گیا۔ اس پورے علاقے میں اسلام کا تعارف مسلمان علماے کرام، مسلمان طلبہ اور تاجروں کے ذریعے پہنچا اور الحمدللہ مختلف اَدوار اور مختلف آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود عوام کے دلوں میں اسلام کی محبت ان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملائیشیا کی آزادی کا فیصلہ ہوا اور ۳۱؍اگست ۱۹۵۷ء کو گیارہ صوبوں پر مشتمل ریاست کو آزادی ملی۔ تاہم، ۱۹۶۵ میں سنگاپور الگ ہوگیا۔ آج کا ملائیشیا انھی ۱۳ صوبوں پر مشتمل ہے۔ملائیشیا میں مسلمان آبادی کا تناسب ۸۰ فی صد سے زائد تھا۔ برطانوی تسلط کے دوران ایک منصوبے کے تحت چین اور ہندستان سے ایک بڑی آبادی وہاں منتقل کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مالے نسل آبادی کا تناسب ۵۵ فی صد رہ گیا جو اَب ۶۰ فی صد ہے۔ سب کے سب مسلمان اور امام شافعی کے پیروکار ہیں۔ ۳۰فی صد آبادی چینی النسل ہے اور ۱۰ فی صد ہندستانی نسل کے لوگ ہیں۔ اصل باشندوں کی اکثریت کا پیشہ زراعت اور کھیتی باڑی تھا۔ چین سے آنے والے اکثر لوگ تجارت و صنعت میں جت گئے۔ اکثر ہندستانی جنگلات، تجارت اور مختلف کانوں سے معدنیات کے کام میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح مقامی آبادی کے مقابلے میں دیگر باشندوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر قرار پائی۔
۱۹۵۷ء ہی میں برطانوی سامراج کی اجازت سے ’مالے‘ نسل کی آبادی کے لیے ’یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن‘ (UMNO) تشکیل دی گئی۔ MCA کے نام سے چینی اور MIC کے نام سے ہندستانی آبادی کے لیے بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔
دوسری جانب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی ایک ملائیشین عالم دین ڈاکٹر برہان الدین حلمی کی صدارت میں ایک تنظیم مالاوین قومی پارٹی تشکیل پاچکی تھی۔ ڈاکٹر حلمی نے ہندستان میں تعلیم حاصل کی تھی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک نے آزادی کا پرچم بلند کیا اور اپنے پیش نظر ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام رکھا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے اس تحریک سمیت دیگر تمام تنظیموں پر پابندی لگادی تو ان کے ذمہ داران و کارکنان بھی UMNO میں شامل ہوکر اس پلیٹ فارم سے کام کرنے لگے۔اسی زمانے میں اسلامی تحریک کی شروعات علماے کرام کی ایک تنظیم سے ہوئی، جو بعد میں پاس (PAS) کے نام سے جماعت کی بنیاد بنی۔ ۱۹۵۵ء میں ملک کے پہلے انتخابات ہوئے تو ۵۲؍ارکان پر مشتمل اسمبلی میں ’پاس‘ کو ایک سیٹ ملی۔ آزادی کے بعد پہلے ہی انتخابات میں ’پاس‘ نے صوبہ کلنتان کی ۳۰ میں سے ۲۸ اور صوبہ ترنگانو کی ۲۴ میں سے ۱۳ نشستیں جیت کر دوصوبائی حکومتیں بنا لیں۔
۱۹۵۹ء کے بعد سے آج تک یہی چار بنیادی گروہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کبھی حلیف اور کبھی حریف بنتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوران کئی نئی جماعتیں اور اتحاد بھی وجود میں آتے رہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کے لیے ABIM نامی پلیٹ فارم بہت مؤثر ثابت ہوا۔ انورابراہیم جیسے فعال اور ذہین افراد اس کے کارکن اور پھر سربراہ بنے۔ اس میں بنیادی طور پہ ایک قومی اور اسلامی سوچ رکھنے والے باصلاحیت نوجوان جمع ہوتے آئے ہیں۔ انور ابراہیم نے ABIM کے ساتھ ساتھ ’امنو‘ میں بھی اہم مقام حاصل کیا۔ انھیں مہاتیر محمد کا اعتماد حاصل ہوا۔ وزیرخزانہ اور ڈپٹی وزیراعظم بنے۔ سب انھیں مہاتیر کا جانشین قرار دینے لگے۔ لیکن پھر ۱۹۹۸ء میں ایک اچانک ایسا لمحہ آیا کہ دونوں میں بداعتمادی جڑپکڑنے لگی۔ اسی وقت ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی جب وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان پر شرم ناک الزام لگاتے ہوئے انھیں جیل بھجوا دیا اور کرپشن کے الزامات پر ۶ سال کی سزا سنادی گئی۔ انورابراہیم نے نہ صرف ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا بلکہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۸ میں اپنی نئی سیاسی جماعت (جسٹس پارٹی) بناکے عوامی عدالت میں جانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے ’پاس‘ (PAS) اور چینی نسل کے گروہوں سے بھی رابطہ کیا۔ اس اتحاد کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر مقام حاصل ہوتا رہا۔ ایک وقت میں اس اتحاد کی چار صوبائی حکومتیں بنیں۔ ’پاس‘ کے سربراہ عبدالہادی اوانگ مرکز میں اپوزیشن لیڈر اور تیل سے مالامال صوبہ ترنگانو کے وزیراعلی بھی بنے۔
۲۰۰۳ء میں مہاتیر محمد نے اپنی ۲۲ سالہ وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت عبداللہ بداوی کے سپرد کردی۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۹ء میں نجیب عبدالرزاق وزیراعظم بنے۔ ان کے والد عبدالرزاق حسین ۱۹۷۰ء میں ملک کے دوسرے وزیراعظم بنے تھے۔ اب حالات نے ایک نیا پلٹا کھایا۔ ۹۳ سالہ مہاتیر محمد نے نجیب پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا شروع کردیے۔ ادھر ’پاس‘ اور انور ابراہیم کے مابین غلط فہمیاں جنم لینے لگیں۔ خود ’پاس‘ کے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ نظریاتی ارکان اسمبلی کا جھکاؤ بھی انور ابراہیم کی جانب ہونے لگا اور بالآخر انھوں نے الگ ہوکر ایک نئی جماعت ’امانۃ پارٹی‘ بنالی۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات سے پہلے ’پاس‘ اور’ امنو‘ دونوں تقسیم ہوچکی تھیں۔
وہی مہاتیر محمد جنھوں نے انور ابراہیم کے ساتھ انتقامی سلوک کیا تھا، ’امنو‘ کے بجاے جسٹس پارٹی کے قریب آنے لگے، جسے جیل میں قید انور ابراہیم کی اہلیہ و ان عزیزہ اور صاحبزادی نورالعزہ چلّا رہی تھیں۔ انھوںنے اعلان کیا کہ وہ انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ اب جسٹس پارٹی، مہاتیر کی نئی پارٹی اور ’پاس‘ سے الگ ہونے والی امانۃ پارٹی کا اتحاد بن گیا۔ چینی جماعت بھی ساتھ آن ملی اور اس اتحاد نے ۹ مئی ۲۰۱۸ء کو ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔اسے ۲۲۲ کے ایوان میں ۱۲۲ سیٹیں ملیں۔ ’امنو‘ کو ۱۹۵۹ء کے بعد پہلی بار شکست ہوئی لیکن اس نے پُرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا۔ کامیاب ہونے والے اتحاد کے مابین معاہدہ طے پایا کہ چارسالہ اقتدار کے پہلے دو سال مہاتیر وزیراعظم رہیں گے۔ ان کے ساتھ وان عزیزہ نائب وزیراعظم ہوں گی اور پھر باقی دو سال کے لیے انور ابراہیم وزیراعظم بنیں گے۔ ۹۳ سالہ مہاتیر نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی وسیع پیمانے پر اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ نجیب عبدالرزاق پر ملک سے باہر جانے کی پابندی ہے اور ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جارہے ہیں۔ ان کے گھر سے ۱۲۰ ملین رنگٹ کی نقد کرنسی اور قیمتی جواہرات ضبط کرلیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ’پاس‘ (PAS) نے تمام تر اندرونی تقسیم اور انتہائی کڑے مقابلے کے باوجود کلنتان اور ترنگانو میں واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کے ۱۸ ؍ارکان پہنچ گئے ہیں اور دو مزید صوبوں میں ان کے ارکان کا کردار اہم ترین ہے۔ مجموعی طور پر ۱۳ صوبائی اسمبلیوں میں اس کے ارکان کی تعداد ۹۰ سے متجاوز ہے، انھیں ۱۷ فی صد ووٹ ملے۔ نئی حکومتیں تشکیل پانے کے بعد پاس کے سربراہ نے صوبہ ترنگانو میں اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ وزیراعظم مہاتیر سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دی اور ہر مثبت اقدام میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
ملائیشیا کے حالیہ انتخابات اور حکومت سازی کا سب سے اُمید افزا پہلو حکومت میں انورابراہیم کو اہم مقام حاصل ہونا ہے،جو تحریک ِ اسلامی کے حلیف اور جانے پہچانے رہنما ہیں۔ اپوزیشن میں بھی ’پاس‘ جیسی فعال جماعت ہے جو دو صوبوں میں مکمل اور دو میں جزوی اختیار و نفوذ رکھتی ہے۔ انتخابات سے قبل پائے جانے والے اختلافات و تناؤ کی شدت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ترک انتخابات سے دو دن قبل ۲۲ جون کو انور ابراہیم ترکی گئے۔ نمازِ جمعہ صدر طیب اردوان کے ساتھ ادا کی اور دنیا کو دونوں اہم برادر ملکوں کے شانہ بشانہ ہونے کا پیغام دیا۔ پاکستان کے بارے میں بھی دونوں ملکوں کی قیادت کے جذبات یکساں طور پر مثبت ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک منصوبہ، فتنہ سازوں کا ہے جو مسلم اُمت کی تقسیم در تقسیم کا ہدف رکھتا ہے۔ مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنارہا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ اللہ کی توفیق سے مسلم اُمت کا ہے، جو اہم مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کا پشتیبان بنارہا ہے: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ (یوسف ۱۲:۲۱)’’اور اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے‘‘۔
ایک طویل عرصے بعد اقوام متحدہ کے ایک باوقار ادارے ’انسانی حقوق کونسل‘ نے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درداوران پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرائی میں جا کر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے اور کوتاہیوں کی تلافی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ زیرنظررپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں گذشتہ دو برسوں کے دوران کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بے حرمتی کی روح فرسا تصور پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ یہاں پر اس سے پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اور پاکستان پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے انتظام و اہتمام کریں، تا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ تیسرا یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو حل تجویز کرتی ہیں، وہی درست اور منصفانہ راہ عمل ہے، جس سے کسی کے لیے مفر ممکن نہیں ۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی برادری، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے علاقوں میں انسانی اور سیاسی حقوق کی صورتِ حال کو جاننے کے لیے وفود بھیجے ، جو غیر جانب دارانہ طور پر دُنیا کے سامنے حقائق کو پیش کریں۔
اس مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے مثبت طور پر حقائق پیش کرنے کے لیے سفارتی، ابلاغی سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لمحے بھر کی بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے اہل الراے کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ پہلے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آ ئیں اور پھر بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر جاکر حقائق کودیکھیں اور عالمی اداروں کے سامنے موازنہ پیش کرکے ڈیڑھ کروڑ عوام کے مستقبل کو محفوظ کریں، اور پونے دو ارب انسانوں کے خطّے جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کے خطرات سے بچائیں۔مدیر
o
انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۱۴جون ۲۰۱۸ء کو جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دُکھ درد محسوس کرےگی۔
اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۲۰۱۶ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔
رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔
بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اُبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے آخر میں،۲۰۰۸ء اور پھر۲۰۱۰ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانےاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو، تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اُس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔
بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے افراد کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔
اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔ دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۱۵ ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔
اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزّت و حُرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳ء میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتا کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔
رپورٹ میں بھارتی حکومت کو۱۷ سفارشات دی ہیں، تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے۔ جس کے مطابق: l فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ، ۱۹۹۰ کو منسوخ کیا جائے۔ lجولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔lبین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔
رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی، جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔
ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔[انگریزی سے ترجمہ: س م خ] ٭
٭ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر (۲۰۰۲ء-۲۰۰۸ء) اور سلامتی کونسل کے سابق صدر منیراکرم صاحب نے، اس رپورٹ کی مناسبت سے لکھتے ہوئے متوجہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ کمیشن مقرر کر کے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اگر بھارت اس سے انکار کرے تو پھر حسب ذیل اقدامات کیے جائیں:lبھارت کی سیکورٹی فورسزکے انفرادی ارکان کی شناخت کرتے ہوئے، انھیں انسانیت کے خلاف متعدد جرائم میں نامزد کیا جا سکتا ہے کہ جنھوں نے غیر مسلح مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ فائرنگ کی اور بے بس خواتین کو جنسی تشدد اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا ۔ انھیں جنیوا کنونشن اور [قتل عام ] سے متعلق معاہدات کے تحت مقدمات میں ماخوذ کیا جانا چاہیے۔ lبھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے بھارتی ہنگامی قوانین کے نفاذ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ lاقوام متحدہ کے معاہدات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پُر امن مظاہرین کو فائرنگ اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ l بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) اور دیگر فلاحی تنظیمیں کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ lبھارتی سماجی کارکنوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جا کر برسرِ زمین حالات دیکھنے، اور کشمیری شہریوں کو بھارت سے باہر دنیا میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ lبھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ، جنسی تشدد اور بے حرمتی کی شکار بے بس کشمیری خواتین کے لیے انصاف کے حصول اور ایسے گھنائونے جرائم کی روک تھام کے لیے پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے، خاص طور پر کنن پوش پور کے شرمناک واقعے (جس میں بھارتی فوجیوں نے ۲۳ عورتوں اور بچیوں کی اجتماعی بے حُرمتی کی تھی)کو عبرت ناک مثال بنانا چاہیے۔ lحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف (ICJ) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مناسبت سے بھارت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے۔
اگر پاکستان: انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں کو متحرک کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے اور دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے تو اس سے کشمیری عوام پر مظالم کی یلغار کم اور تشدد کے واقعات میں کمی آ سکے گی۔ اس طرح مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طے شدہ اصول کے تحت حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (روزنامہ Dawn، کراچی، ۲۴جون ۲۰۱۸ء)
جولائی ۲۰۱۶ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے،نیز بھارتی میڈیا آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا تھا، تب غالباً بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ایما اور جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی استدعا پر میڈیا کے چنیدہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ۱۷ طاقت ور مدیر اور چوٹی کے صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں پہنچے تو وہ بھارتی کابینہ کے نہایت مؤثر وزرا کی ایک ٹیم کے رُوبرو تھے۔ مودی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزرا کسی مسئلے پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اس کے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔
موجودہ بھارتی نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو کے پاس اُن دنوں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان تھا۔ انھوں نے نظامت سنبھالتے ہی فرمایا: ’’یہ ایک پس منظر بتانے والی بریفنگ ہے، اس لیے ہم سوالات کے علاوہ کھلی بحث اور پریس سے مشوروں کے بھی طالب ہیں‘‘۔ ایک سینئر وزیر نے گفتگو کے آغاز میں گزارش کی کہ:’ کشمیر میں اس شورش کی رپورٹنگ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جائے، اور کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس بات سے پریشان ہیں کہ میڈیا جس طرح کشمیر کی صورتِ حال کو رپورٹ کر رہا ہے‘ اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں۔ کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں۔ ان کے اور بھارتی عوام کے درمیان خلیج وسیع اور گہری ہو تی جارہی ہے‘‘۔
اس گفتگو سے جو میڈیا کو مفاہمت اور احتیاط پسندی کی تلقین پر مبنی تھی، اس پر فوراً ہی دوسرے ایک اہم تر وزیر نے پانی انڈیل دیا۔ یہ وزیر صاحب حکومتی حلقوں میں کشمیر پر حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں برپا پچھلی عوامی شورشوں کا موجودہ عوامی اُبھار کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا: ’’۱۹۸۹ء کا عوامی احتجاج اور عسکریت کا آغاز ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں بے حساب دھاند لیوں اور جمہوری عمل کی ناکامی سے منسلک تھا۔ ۲۰۰۸ء کی عوامی شورش اصل میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقے اور وادی کشمیر کے درمیان چلی آرہی مخاصمت کا شاخسانہ تھی۔ ۲۰۱۰ء میں مقامی حکومت کی نااہلی اور سلسلہ وار ہلاکتوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر تھے۔ موجودہ شورش کا تعلق جمہوری عمل کی ناکامی یا آزادی کی تحریک سے نہیں ہے، بلکہ اس کے تار عالمی دہشت گردی سے جڑے ہیں‘‘۔پھر انھوں نے کہا کہ: ــ’’القاعدہ ،آئی ایس آئی ایس اور طالبان جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اس لیے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے‘‘۔ غرض یہ کہ ان سینئر وزیر صاحب نے مبالغہ آمیزی سے کام لے کر کشمیر کی تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطے پر اس کے مضمرات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کانفرنس روم میں سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ: ’’کشمیر میں قومیت کے بجاے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتا جارہا ہے ، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔
سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے محترم وزیر صاحب کو یاد دلایا کہ: ’’درگاہ و منبر، کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کے مراکز رہے ہیں، کیوں کہ اس خطے میں جمہوری اور پُر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور اپنی بات بیان کرنے کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر لیڈر کو بھی عوام تک پہنچنے کے لیے درگاہ حضرت بل کا سہارا لینا پڑا۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں، یہ مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں‘‘، مگر وزیر صاحب نے یہ گزارش سنی اَن سنی کرتے ہوئے اپنی ہوش ربا تحقیق پر مبنی بریفنگ جاری رکھی۔ ان کا واحد مقصد یہی تھا کہ ہر محاذ پر ناکامی کے بعد بھارتی حکومت کشمیر میں ’وہابیت‘ کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی کا حصہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیاکہ:’’اگر’ وہابیت‘ اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر ۲۰۰۳ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصۂ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کے لیے بھارتی ایجنسیاں دارالعلوم دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں مہمان نوازی کرتی آئی ہیں۔ ان میں اب ایک نیا نام آسٹریلیا میں مقیم ایک خود ساختہ شیعہ عالم کا ہے، جنھوں نے حال ہی میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ایک نوجوان کو گاڑی سے کچلنے کی حمایت کی۔دہلی میں تو ایک اُردو اخبار کے مدیر نے بھی اس کا بیڑا اٹھارکھا ہے۔ چوں کہ تصور یہ ہے کہ جماعت اسلامی، کشمیر میں جاری تحریک کوکیڈر اور لیڈر شپ فراہم کرتی ہے، لہٰذا اس کا توڑ کرنے کے لیے اس کے مخالف علما کو استعمال کیا جائے‘‘۔
مزید عرض گزار ہوا: ’’ تھوڑی سی تحقیق ہی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروںکی نقل مکانی اور دیگر لیڈروں کی اجتماعی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی واحد ریاست گیر سیاسی جماعت میدان میں موجود تھی، جس نے خاصی چھان پھٹک کے بعد عسکری تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے پیش رفت کی تھی، جس کا خمیازہ بعد میں ان کو ۶۰۰سے زیادہ ارکانِ جماعت کے قتل کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ کشمیرکی سبھی دینی و سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں بھر پور شرکت کی، جن میں جمعیت اہلحدیث، بریلوی مکتب کی کاروان اسلام، امت اسلامی، شیعہ تنظیمیں، مقامی فکرکی نمایندگی کرنے والی انجمن تبلیغ الاسلام، سیکولر تنظیموں، جیسے لبریشن فرنٹ اور پیپلزکانفرنس سمیت سب نے بھر پور حصہ لیا۔ حتیٰ کہ جو لوگ انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس، نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں کھڑ ے نظر آتے ہیں، وہ بھی ایجی ٹیشن میں پیش پیش رہتے ہیں‘‘۔میں نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ: ’’شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے ،وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکے لیے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے جذبۂ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبۂ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے‘‘۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے مزید عرض کیا کہ: ’’ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونی ورسٹی میں ہندو قوم پرست آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جب کہ ۳۰۰کلومیٹر دُور کشمیر یونی ورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمے پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونی ورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلوما کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اس کی بساط لپیٹ دی گئی، کیوں کہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیریئر یا روزگار کی کمی ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ: ’’محترم منسٹرصاحب! متبادل جمہوری ذرائع کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے پانچ سو برسوں کی تاریخ ہے‘‘۔
وزیر صاحب نے جواب میں بتایا کہ: ’’حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں‘‘۔ دوسری طرف ان کو یہ غصّہ بھی تھا کہ: ’’حُریت کانفرنس نے کُل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا ہے، جس کا انھیں حساب دینا پڑے گا‘‘۔ میں نے سوال کیا کہ: ’’اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ وزیر موصوف کے بقول: ’’کشمیر کا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں ’وہابیت‘ وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیوں کہ موجودہ تحریک کی قیادت یہی نظریہ کر رہا ہے‘‘۔
کئی گھنٹوں پر پھیلی یہ بریفنگ جب ختم ہوئی تو دوبارہ بتایا گیا کہ: ’’یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ مگر اگلے دن صبح اُٹھے تو دیکھا کہ بھارت کے دوکثیر الاشاعت اخباروں ٹائمز آف انڈیا اور ہندستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے اس نشست کی معلومات شہ سرخی کے طور پر شائع ہوگئی تھیں اور پھر کئی ماہ تک ٹی وی چینلوں کے لیے کشمیر پر یہ رپورٹ بحث کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو رات دیرسے ہدایت دی گئی تھی کہ: ’’ان وزیر صاحب کی بریفنگ کی رپورٹنگ چھپنی چاہیے‘‘۔ جس سے ایک طرف تو اس بریفنگ کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا، مگر دوسرا مقصد یہ سمجھ میں آیا ،چوںکہ پاکستان دنیا بھر میں سفارتی مشن بھیج رہا ہے، تو اس کے بیانیے کو اس رپورٹ کے ذریعے سے سبوتاژ کیا جائے۔ اور یہ دیکھنے میں آیا کہ جہاں بھی پاکستانی مشن گئے وہاں ان کو کشمیر اور مبینہ طور پر اس کے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کی مناسبت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس نشست میں میری بے جا مداخلت اور سوال اُٹھانے کی گستاخی سے وزیر موصوف اتنے ناراض ہوئے کہ مجھے صحافت سے ہی چلتا کرنے کی انھوں نے کوشش کی۔
خیر، ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے نئی دہلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی تحقیقی رپورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ: ’’تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اور نہ یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی ایسے نظریے سے وابستہ ہے‘‘۔ پچھلے سال ایک ملاقات میں جموں و کشمیر کے ایک سینئر پولیس افسر ، جو اس وقت جنوبی کشمیر میں تعینات تھے اور بھارتی فوج کے ایک کمانڈر نے بھی کچھ اسی طرح کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ وہ بھارتی میڈیا کی اس روش سے خاصے نالا ں تھے، جس میں وہ بار بار کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کے عنصر کو زبردستی اُچھال کر حالات کو شام، عراق و افغانستان سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ جان بوجھ کر مزید ظلم و ستم کے لیے راہ ہموار کرنے اور عالمی برادری کو خوف زدہ کرنے کا حربہ قرار دیتے تھے۔ انھی پولیس افسر صاحب کے بقول: ’’ایک انگریزی میڈیا چینل کے ایک رپورٹر نے درزی سے آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا سلوا کر سرینگر کے پرانے شہر کے ایک کمرے میں چند نقاب پوش نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھمایا ، اور اس کی عکس بندی کی تھی۔اس ویڈیو کی بنیادپر اس چینل نے کئی روز تک پروگرام چلائے۔پولیس نے اس درزی کی نشان دہی پر جب مذکورہ رپورٹر کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی، تو نئی دہلی سے پیام آیا کہ معاملے کو دبا دیا جائے۔
اُوپر جن تحقیقی رپورٹوں کا ذکر ہوا ہے، ان کے مطابق برہان وانی کی شہادت کے بعد جن ۲۶۵نوجوانوں نے اس عرصے میں عسکریت سے وابستگی اختیار کی، ان میں محض ۲ فی صد کسی نہ کسی صورت میں مدرسوں یا کسی نظریے سے وابستہ تھے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عام طور پر کھاتے پیتے مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی اور سیاسی طور پر خاصے باشعور تھے۔ ۶۴فی صد کا کسی بھی شدت پسند نظریے سے تو دُور کاواسطہ نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر خاصے لبر ل خیالات کے قائل تھے۔ ان میں سے ۴۷فی صدعسکریت پسندوں کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا، جہاں ان کی رہایش گاہ کے ۱۰ کلومیٹر کے دائرے میں یا تو کوئی تصادم (انکاونٹر) ہوا تھا یا سکیورٹی فورسز نے سول آبادی پر شدید زیادتیاں کی تھیں۔
امریکی اور برطانوی تحقیق کاروں: گریگوری واٹرز اور رابرٹ پوسٹنگز کی اس زیربحث تحقیق The Spiders of the Caliphate (مئی ۲۰۱۸ء)کے مطابق: ’’عالمی دہشت گر د تنظیموں کے مطالعے سے پتا چلتاہے کسی فرد کی اس طرح کی تنظیم میں وابستگی سے قبل نفسیاتی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ دنیا اور اہل خانہ سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے، مگر اس طرح کا کوئی نفسیاتی رجحان کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ عسکریت میں شامل ہونے کے بعد بھی یہ نوجوان اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے معمول کے روابط میں متحرک نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ان میں سوسائٹی سے ایسی بے زاری دیکھنے کو نہیں ملی، جو القاعدہ وغیرہ کے ارکان میں عام رجحان ہے‘‘۔
مذکورہ بالا رپورٹ اور جموں و کشمیر پولیس کی تحقیق کا ماحاصل یہی ہے کہ نئی دہلی کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ کشمیر سیاسی مسئلے کے ساتھ ساتھ غصب شدہ انسانی حقوق کی بازیابی کا معاملہ بھی ہے۔ امن اور قانون کے نام پر اور تحریک کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے وقتی فائدہ تواٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیںہوسکتا۔ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ تمام تر ہلاکت خیز اسلحے کے انباروں ، سات لاکھ افواج کی تعیناتی، مظالم ومصائب کی گھٹائوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود مسئلۂ کشمیر ایک زندہ وجاوید حقیقت ہے اور اس کے منصفانہ حل سے ہی برعظیم پاک و ہند کی ہمہ گیر تعمیر و ترقی ، امن و سکون اور خوش گوار ہمسائیگی مشروط ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس ایام گزر جانے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے سیاسی ایوانوں میں اتھل پتھل اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ۱۹ جون کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور اُمورکشمیر کے انچارج رام مادھو نے دہلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ اُن کی جماعت، یعنی بی جے پی جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کے اس مشرق و مغرب کے غیرفطری اتحاد کا عبرت ناک خاتمہ ہوا۔ نسل پرستی ایک زہر ہے، اور نسل پرستی کے علَم برداروں کی حیثیت اُس زہریلے سانپ جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے ۲۰۱۴ء میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا، لیکن جب حکومت تشکیل دینے کی باری آئی، تو عوامی توقعات کے برعکس ایک ایسی جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جن کے ہاتھوں بھارت میں سیکڑوں فسادات کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا ہے۔ جنھوں نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔
حکومت سے الگ ہونے سے چند روز قبل بی جے پی نے نام نہاد سیز فائر ختم کرکے کشمیری عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا از سر نو آغاز کیا۔ عید الفطر سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی، جس میں کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی فوج کی زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد معروف کشمیری صحافی ودانش وَرڈاکٹر شجاعت بخاری کا نامعلوم افراد کے ذریعے سے قتل کروایا گیا، جس سے یو این رپورٹ بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر۱۵؍جون کو اپنے ہی نام نہاد سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پلوامہ میں ایک کمسن اور نہتے ۱۳ سال کے طالب علم وقاص احمد کو گولی مار کرشہید کردیاگیا۔ عید کے دن برکہ پورہ، اسلام آباد میں نماز عید ادا کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ کرکے ایک نوجوان شیراز احمد کو شہید کردیا گیا، جب کہ ۳۰ دیگر نوجوانوں کو بُری طرح زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں ۹؍ایسے نوجوان بھی شامل تھے، جن کو پیلٹ گن کے چھرّوں کا نشانہ بناکر بینائی سے ہی محروم کردیا گیا۔۱۸جون کو پھر سے ضلع کولگام کے نواؤ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دوبچوں کے باپ ۲۸سال کی عمر کے اعجاز احمد بٹ کو جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔جس نام نہاد سیز فائز کا بڑے پیمانے پر ڈھول پیٹا گیا، اُس دوران کیرن سیکٹر سے لے کر کولگام تک ۱۵لوگوں کی جان لے لی گئی۔
تقدس مآب رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو سری نگر کی مرکزی وتاریخی جامع مسجد نوہٹہ میں پولیس اور فورسز اہل کاروں نے مسجد کے اندر نہ صرف آنسوآورگیس کی شیلنگ کی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں کئی نمازی زخمی ہوگئے اور مسجد کے اندر افراتفری مچ گئی۔ مسجد کے اندر جہاں ربّ کے حضور سر جھکائے جاتے ہیں، وہاں سربسجود بندوںکا خون بکھیر دیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں، وہاں پر بھی شیلنگ کی گئی۔پھر کئی دن تک مسجد کو نمازاور نمازیوں کے لیے بند کرنا پڑا، تاکہ اندر انسانی خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے۔جو نوجوان رضاکارانہ طور پر مسجد کی صفائی میں پیش پیش تھے، اُن میں ایک۲۲سالہ قیصر احمد بھی تھے، جنھیں ایک ہفتے بعد، یعنی اگلے ہی جمعہ، یکم جون کو سی آر پی ایف کی ایک تیز رفتار جیپ نے ایک اور نوجوان کے ساتھ کچل ڈالا۔اُنھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چند ہی گھنٹوں بعد وہ حیا تِ جاودانی کا جام پی گئے۔
یہ دلدوزسانحہ اْس وقت پیش آیا جب نماز جمعہ کے بعد نوجوان نوہٹہ میں جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے تھے۔ سری نگر کے محلہ فتح کدل کے قیصر احمد کا المیہ یہ تھا کہ اُن کے والدین پہلے ہی اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے تھے۔ وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ نانیہال ڈلگیٹ میں رہتے تھے۔ ان دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی اور واحد سہارے کو بڑی بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا۔ یوں ا ن کوتاہ نصیبوں کو دیگر ہزاروں کشمیری بچوں اور بیٹیوں کی طرح حالات کے رحم وکرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، اُنھیں دیکھنے سے ہی چنگیزیت اور درندگی کا گھنائونا اور ’جدید رُوپ‘ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انجام دینے والی ان حیوانی حرکات کے لیے بھی طرح طرح کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ انھیں سنگ بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے یا پھر سڑک حادثہ کہہ کر ان المناک اور غم انگیز وارداتوں کو تاریخ کی بھولی بسری یادیں بنادیا جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ صفاکدل میں مئی کے مہینے میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے عادل احمد نامی جس نوجوان کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا تھا، اُس کے بارے میں ریاستی حکام نے پہلے کہا کہ وہ سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، لیکن جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے فورسز اہل کاروںکی اس سفاکیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی تو انتظامیہ نے ملوث فورسز اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے اس سانحے کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کو ہی گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا۔اسی طرح جامع مسجد میں قیصر احمد کو کچل دینے والے سی آر پی ایف ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے مقتول قیصر اور اُن کے ساتھ دیگر دو نوجوانوں کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
سری نگر کی یہ تاریخی جامع مسجد، کشمیری قوم کی روحانی توانائی اور سیاسی بیداری کے لیے بڑی ہی اہمیت کا حامل مرکز ہے۔ یہ مسجد اپنی مرکزیت کے پہلو بہ پہلو عام کشمیریو ں کی اس کے ساتھ دلی وابستگی ہر دور میں ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں اس کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے برتے گئے، لیکن کشمیری عوام کا تاریخی جامع مسجد سے والہانہ لگاؤ اور وابستگی قائم و دائم رہی ہے۔ ۲۰۰۸ءہی سے وقت کے حکمرانوں نے بالکل مسجد اقصیٰ کے طرز پر اس مرکزی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جن میں جمعہ کے موقعے پر مسجد کے اردگرد فورسز کے سخت حصار اور مسلح اہل کاروں کی تعیناتی کے علاوہ نماز کے بعد نوجوانوں کو اشتعال دلا کر اُنھیں سنگ بازی کے لیے مجبور کرنا، اور پھر اس کی آڑ میں نمازِجمعہ کے مواقع پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کرنا قابل ذکر ہے۔ ۲۰۰۸ءسے درجنوں مرتبہ اس تاریخی اہمیت کی حامل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، ان کی اسلام دشمنی اُنھیں ہر آن فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ رکھتی ہے، لیکن عالم اسلام کے اس بدترین دشمن نے کبھی مسجداقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد نہیں کی۔ جن کے زیر تسلط مسجد اقصیٰ ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے بجاے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو تالا بند کرنے والے لوگوں کی پہلی صف میں وہ ہند نواز ریاستی سابق حکمران شامل رہےہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرنے والے مقامی پولیس اہل کار بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔احتجاج کے دوران جان بوجھ کر وردی پوشوں کا جامع مسجد کے چپے چپے پر موجود رہنا اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے سے قبل ہی شیلنگ اور طاقت کا بے تحاشا استعمال بہرحال احتجاجی نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرکے اُنھیں سنگ بازی پر مجبور کرتا ہے ، اور بے گناہ و معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے۔کشمیر میں یہ بھارت کی مستقل پالیسی بنتی جارہی ہے کہ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طاقت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر اُسی کی آڑ میں بندوقوں کے دہانے کھول کر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے۔
تصویر کا یہ رُخ بھی قابلِ غور ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بڑے ہی طمطراق سے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، آل پارٹیز میٹنگ طلب کرکے یہ اعلان کرتی ہیں کہ ایک وفد وزیراعظم نریندر مودی کی خدمت میں جائے گا اور اُنھیں رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر خیرسگالی کے طور پر سیز فائر کرنے کی استدعا کرے گا۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ اس تجویز کی مخالفت کرتی ہے،کہ بعد میں یہ اُن کی سیاسی حلیف مجبوبہ مفتی کا سیاسی کارنامہ ثابت ہوجائے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ وزیراعلیٰ نے لڑکر کشمیری عوام کے لیے حکومت ہند کو سیز فائر کے لیے قائل کیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ نے رمضان اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ ریاستی سرکار میں شامل لوگوں نے اس پر ایسے خوشی کااظہار کیا کہ جیسے اُنھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔حالانکہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اِسے ’سیز فائر‘ کے بجاے’ حملہ بندی‘ قرار دیتے ہیں، کیوں کہ بھارتی فورسز اہل کار اور حکمران ہمیشہ اس قوم کے خلاف حالت جنگ میں تھے۔ یہ افواج سیز فائر کے دوران بھی حالت ِ جنگ میں رہیں اور آج بھی ہیں۔
ایسا نام نہاد سیز فائرکشمیریوں پر کسی احسان کے بجاے ریاست کی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ دہلی کی خوشنودی کے لیے اس ماہ شروع ہونے والی ’امرناتھ یاترا‘ کو پُرامن طریقے سے انجام تک پہنچائیں۔ یہ یاترا گذشتہ کئی برس سے ’مذہبی رسم‘کے بجاے ’سیاسی مہم‘ میں تبدیل ہوچکی ہے،جب کہ کشمیری عوام ’یاتر ا‘ اور یاتریوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی اور مہمان نوازی کے جذبے سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’یاترا‘ کی سیاسی مہم کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر جنگی پیمانے پرکام کیا جاتا ہے۔ریاستی بجٹ کی ایک کثیر رقم ’یاترا‘ کے انتظامات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی ہے۔ نام نہادجنگ بندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ جنوبی کشمیر کے پُرامن رہنے سے ہی یاتریوں کا آنا جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے بستیوں پر فوجی آپریشنوں کے ذریعے کی جانے والی یلغار کو فی الحال محدود پیمانے پرروک دیا گیا، تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ہر آن کھڑا ہوجانے والے جنوبی کشمیر کے عوام کو کچھ وقت تک کے لیے خاموش رکھا جاسکے، لیکن اب نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے ’سیز فائر‘ ختم کردیا اور ’امرناتھ یاترا‘ کی حفاظت کے لیے این ایس جی کے اسپیشل کمانڈوز کو طلب کیا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اہلِ کشمیر یاتریوں کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اُنھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے ہیں۔ دراصل ’امرناتھ یاترا‘ کی آڑ میں کوئی بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے، تاکہ بھارت میں ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔
بھارتی فورسز کی ’حملہ بندی‘ سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ عارضی طور پر رُک سا گیا، لیکن ظلم و زیادتیوں اور دیگر جنگی حربوںکوزمینی سطح پر بدستور استعمال میں لایا جاتارہا ہے۔یہ کہاں کی جنگ بندی ہوئی کہ جس میںرات کے دوران چھاپے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، دُور دراز کے علاقوں میں فوجی ناکوں پر عوام کی جامہ تلاشی اور ہراسگی جاری ہیں؟اور کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے کچل دیا جائے؟
حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہوتی تو پھر شوپیان کے دیہات میں فوج کی افطار پارٹی سے انکار کرنے پر عوام پر گولیاں نہ برسائی جاتیں اور چار معصوم بچیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب نہ کیا جاتا۔ جنگ بندی ہوتی تو عسکریت پسندوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی، اُن کے گھروں کی توڑ پھوڑ نہ کی جاتی، جیسا کہ شوپیان کے ایک گھر اور اْس کے پڑوس میں موجود دیگر درجنوں گھروں میں کیا گیا ہے۔ گھر کے ساز و سامان کو تہس نہس کرنا، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرنا، پیسے اور لیپ ٹاپ لوٹ کر لے جانا اور کھانے پینے کی اشیا کو ضائع کر نے یا ناقابلِ استعمال بنانے کی حرکتیں استعماریت اور رذالت کی بدترین شکلیں ہیں۔ پھر ٹھیک اُس وقت جب کشمیری لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، جنوبی کشمیر میں تین بے گناہ نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں شہادت کا جام نہ پلایا جاتا۔
یہ کہاں کی جنگ بندی تھی کہ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا جائے، میوہ باغات میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی جائیں کہ جس کی مثال موجودہ دور کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔فوجی او رنیم فوجی دستوں کے سامنے ریاستی حکومت کی بے بسی کس حد تک ہے اس کا اندازہ ڈپٹی کمشنر شوپیان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو انھوں نے گھروں کی توڑ پھوڑ اور میوہ باغات میں درختوں کو کاٹنے کے واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’فوج خصوصی اختیارات کی وجہ سے حدود پھلانگ رہی ہے۔ ہم نے اُنھیں بار بار کہا ہے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے کیمپوں سے باہر نہ آئیں، لیکن وہ سول انتظامیہ کے حکم ناموں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ہم اُن کی حرکتوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘… گویا بھارتی فوج کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے اس حد تک بدمست بنادیا کہ وہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کے بھی کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک جا کر من مانیاں کررہے ہیں۔
کشمیر میں بھارتی جنگ بندی ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ والی بات تھی۔ دنیا کو چکمہ دیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ افہام وتفہیم چاہتے ہیں اور اسی لیے نام نہاد جنگ بندی کی خوب تشہیر کی گئی اور دہلی سرکار کے مقامی تنخواہ خوار دن رات ان کے گن گاتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر عوام کے خلاف وہ تمام کارروائیاں ہورہی ہیں، جنھوں نے عام کشمیری کا جینا حرام کررکھا ہے۔ریاست عملاً ایک پولیس وفوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اگر بندوقوں کے دہانے دنیا کو دکھانے کے لیے عارضی طورپر تھوڑے وقت کے لیے بند کیے، تو دوسری جانب گاڑیوں کے نیچے معصوم کشمیری بچوں کو کچل کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
اب،جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے نئی دہلی نے حالات پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرلیا ہے، تمام اختیارات فوج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، بھارت بھر سے بدنامِ زمانہ پولیس افسران کو گورنر کے مشیروں کے طور پر تعینات کیا جارہا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں کسی بڑے خونیں کھیل کو کھیلنے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کا جموں وکشمیر میں حکومت سے علاحدگی اختیار کرنے سے جواہم مقصد حاصل کرنا مقصودہے وہ یہ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے اور یہاں نسل کشی کرنے کے لیے وہ گورنر کے ذریعے سے براہِ راست معاملات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ سے وابستہ لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں، جن میں حق خود ارادیت کے حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔بھارتی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے امکان کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اُن کے مطابق دونوں جماعتیں بی جے پی اور پی ڈی پی کشمیر کو آگ میں جھونک کر راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔اس سلسلے میں گجرات کے سابق آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کے اس ٹویٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ۲۰۱۸ء کی ’امرناتھ یاترا‘ ۲۰۰۲ء کی طرح کہیں دوسرا گودھرا نہ بن جائے‘‘…
یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے یہاں کوئی ایسا ڈراما رچایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے بھارت بھر میں فسادات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۲۱؍ جون کو بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول نے دومرتبہ بی جے پی چیف اُمت شاہ سے دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دونوں کی ملاقات کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں فوجی اور عسکری طاقت کے استعمال کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جانے کا خاصا امکان پایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تحریک حُریت کے قائدین کو پہلے ہی سے عوام کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنے نمایندوں کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ کشمیری عوام کے خلاف پردے کے پیچھے تیار ہونے والی سازشوں کا نہ صرف توڑ کیا جاسکے بلکہ اُنھیں ناکام بناکر انسانی جانوں کو بھی بچایا جاسکے۔
کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے لیے لازم ہے کہ ناانصافیوں اور زیادتیوں پر خاموش نہ رہے بلکہ ظلم و جبر کے اس آوارہ ہاتھی کی پیش قدمی روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ اہلِ کشمیر کا ظلم سہہ لینا اور ظلم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں پر صبر کرلینا ، ظالم کے لیے طاقت ور ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ وہ کشمیری قوم کے صبر کو اُن کی کمزوری سے تعبیر کرکے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یوں کشمیری نوجوان نسل کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مہذب دنیا حالات بد سے بدتر ہوجانے سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئے۔
بالخصوص پاکستان کو اپنے درون خانہ سیاسی اتھل پتھل سے باہر نکل کر بحیثیت قوم کشمیر کاز کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسئلے کا فریقِ اوّل ہے اور فریق ہونے کی حیثیت پاکستان، کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور تشدد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ پاکستانی عوام کشمیریوں سے آنکھیں موند سکتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بے شک پاکستانی دفاتر پر لہراتا ہوگا، لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کشمیری قوم اپنا گرم لہوپیش کررہی ہے ۔
کشمیری عوام کی اجتماعی تعذیب کے بد ترین مظاہروں کے باوجود قانونِ قدرت کے عین مطابق وہ وقت دُور نہیں ہے، جب یہ قوم ان تمام مصائب سے نجات حاصل کرلے گی کیوں کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، مگر اس کے لیے بنیادی اور ناقابل التوا شرط یہی ہے کہ اللہ سے رجوع کیا جائے اور حق کے لیے چٹان بن کر کھڑا ہوا جائے۔
غزہ میں ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی مظلوموں کے قتلِ عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایونیکا کی قیادت میں غاصب صہیونیوں نے یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی رسم ادا کی۔
درندگی کی بھی ایک تاریخ ہے:۲۹دسمبر ۱۸۹۰ء کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مقامی سرخ ہندی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا ’لکوٹا میں قتلِ عام‘ ، ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فوجیوں کے زیراقتدار قتلِ عام، پھر ۱۶مارچ ۱۹۶۸ء کو ویت نام میں امریکی حملہ آوروں کے ہاتھوں مائی لائی کے مقام پر مظلوم ویت نامی باشندوں کے قتلِ عام کی مثالوں کے ساتھ آیندہ ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کی اس وحشت ناکی کو بھی یاد رکھا جائے گا۔
اس دن کے اختتام پر غزہ میں وزارتِ صحت نے رپورٹ پیش کی کہ اسرائیلی فوج نے ۶۰فلسطینیوں کو قتل اور ۲۷۷۱ کو زخمی کیا، اور یہ سب ۲۴گھنٹوں سے کم عرصے میں کیا گیا۔ اسرائیلی ماہر نشانہ باز فوجیوں نے اپنے افسران کی براہِ راست کمان کے تحت اس وحشت کا ارتکاب کیا، جنھیں اسرائیلی وزیردفاع ایوگڈرلبرمین اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ وہی نیتن یاہو جسے انسانوں سے نہیں، آبادکار اور غاصب یہودیوں سے دل چسپی ہے۔
روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنی تفصیلی رپورٹ ’غیرمسلح فلسطینیوں کا غزہ میں قتلِ عام‘ میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر اور بے دریغ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی بے صبر ہوگئے کہ وہ نہتے مظاہرین، جو اپنےہی علاقے میں احتجاج کر رہے تھے، یہ ان نہتوں پر حملہ آور ہوکر انھیں سبق سکھانے پر تل گئے؟ ان فوجیوں کے نزدیک نیتن یاہو، اسرائیل ہے اور اسرائیل نیتن یاہو۔ نیتن یاہو اور جبری طور پر یہودی آبادکار ہی سامراجیت کے پردے میں زندگی کا حق رکھتے ہیں، اور یہاں سیکڑوں برسوں سے آباد فلسطینیوں کا مقدر تباہی ہے۔ وہ تباہی جسے ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کے روز سے آج تک روا رکھا جا رہا ہے۔
فلسطینی مظاہرین، جو غزہ میں اپنی ہی بستی میں مظاہرہ کر رہے تھے، اسرائیلیوں نے آتشیں اسلحے، آنسو گیس اور آگ لگانے والے بموں سے ان مظاہرین پر بے دریغ حملہ کر دیا جس سے ۶۰فلسطینی موقع پر شہید ہوگئے اور ۲۷۰۰ سے زائد زخمی ہوگئے۔
۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو ۱۳۰۰ فلسطینی براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنے۔ اس قتل و غارت کا نشانہ بنانے والا کچھ اسلحہ یقینی طور پر امریکی ساختہ تھا۔ جب امریکی صدر بارک اوباما کی سوانح عمری میں درج ہے کہ: ’’ہم نے ۳۸؍ارب ڈالر اسرائیل کو فوجی معاونت کے لیے دیے ہیں‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امریکا نے اسرائیلی فوج کو یہ اجازت نامہ عطا کیا ہے کہ وہ نہتے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنائیں۔
۳۰مارچ سے ۱۶مئی ۲۰۱۸ءکے درمیان اسرائیلی فوجیوں نے خون سرد کردینے والی بے رحمی سے ۱۱۰ سے زیادہ فلسطینی قتل کیے، جن میں ۱۲ بچے تھے اور دو صحافی،پھر علاج معالجے میں متحرک ایک ڈاکٹر بھی تھا کہ جسے موت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے میں مظاہرہ کرنے والے ۱۲۷۰۰ فلسطینی زخمی اور شدید مجروح کیے گئے۔ان زخمیوں کو طبّی امداد کی شدید ضرورت تھی، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث بنیادی ادویات اور جراحی کی سہولیات تاحال ناپید ہیں۔
اسرائیلیوں کی جانب سے پُرامن مظاہرین کے اس قتل عام کے جرم میں نیتن یاہو اور ہراسرائیلی لیڈر، جنگی ملزم کے طور پر عالمِ انسانیت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک، منتخب ہونے والا ہر امریکی صدر، چاہے وہ مقبولِ عام ہے یا سخت ترین نفرت کا نشانہ، زندہ ہے یا مُردہ، یقینی طور پر وہ بھی اسرائیلی جارحیت، ظلم اور انسانیت سوز جرائم کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سب کے سب، عشروں پر پھیلے درندگی کے اس کھیل کی مناسبت سے جنگی جرائم کی پاداش میں عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔
پھر دُنیا بھر کے ممالک کے سفیروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے مقابلے میں امریکی نمایندے نکی ہیلی کا اسرائیل نواز رویہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ مغربی میڈیا کے وسیع منظرنامے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ طور پر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، بُرا بھلا کہنے، بلکہ گالیاں تک دینے کی روایت برقرار ہے، جب کہ غاصب یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسی کارروائیوں کو درست، قانونی اور ناگزیر قرار دینے کا رویہ، ہر ذی شعور کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ پھر فلسطینیوں کی لاشوں پر گانے اور ناچنے والے اسرائیلیوں کے لیے تو یہ سب رنگ و نشاط کا بہانہ ہے۔
فلسطین کی قیادت جو ’حماس‘ اور ’الفتح‘ تنظیموں کی ستّرسالہ جدوجہد کا ثمر ہے، اس قیادت نے سات عشروں پر پھیلی شجاعت، ذہانت، والہانہ جذبوں سے سرشار اپنی اس جدوجہد میں لمحے بھر کے لیے شک، تھڑدلی اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ارضِ فلسطین کو غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کے اس مرحلے کو’واپسی کا عظیم سفر‘ کا نام دیا۔ حُریت کی اس لہر اور جوش کے دور میں صہیونیت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک عرب شہزادے نے فلسطینی سرفروشوں سے کہا: ’خاموش رہو‘ ، مگر انھوں نے اپنی جدوجہد سے اس مشورے کو مسترد کرنے کا پیغام دیا۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل اور اسرائیل کے پرچم کا مطلب کوئی ریاست یا ریاست کی علامت نہیں ہے، بلکہ ان کا مطلب ہے: مظلوم انسانوں کے لہو سے رنگی وحشت انگیزی، قتلِ عام، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ، بسنے والوں کی ظالمانہ بے دخلی، اور جنگی جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اسی لیے تمام فلسطینی مظاہرین اپنے مادرِ وطن کی واپسی، زندگی کی بحالی اور اختیار چاہتے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوجی جواب میں بے دریغ گولیوں کی بوچھاڑ کرتے اور وحشیانہ انداز سے انھیں کچلتے ہیں۔
۳۰مارچ ۲۰۱۸ء سے فلسطینیوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پُرامن سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، تو اسرائیل اور اس کے عالمی سیاسی سرپرستوں اور مغربی مددگاروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد کو سننے اور سمجھنے کے بجاے، اس پوری تحریک ہی کو بے وقار اور بدنام کرنا شروع کر دیا۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریوں میں نفرت انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ان مؤثر اخبارات کے صفحے مغربی حکومتوں کے شدید مخالفانہ بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں لبرل اور ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے سیاسی رہنما برنی سینڈرز تک نے اہلِ فلسطین کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔مراد یہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں اخلاقی اور انسانی قدریں موت کا شکار ہیں۔ یعنی برنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر ہیلری کلنٹن تک ایک ہی جیسے خیالات کے حامل ہیں کہ: ’’فلسطینیوں کے لیے موت اور صہیونیوں کے لیے شادمانی کے ہم طرف دار ہیں‘‘۔
فلسطینیوں کے خلاف نفرت، بدنہادی اور بدخواہی پر مبنی ان تمام امریکی اور مغربی کوششوں کے باوجود، اہلِ فلسطین کے موقف کی سچائی روشن اور سربلند ہے۔ ان کی انقلابی جدوجہد نے مہذب انسانوں اور دُنیا کے تمام ملکوں کو احترامِ آدمیت،بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور سامراجیت کے خلاف بے زاری و نفرت کا پیغام دیا ہے، اور یہ یاد دلایا ہے کہ مادرِ وطن کی آزادی اور خود اختیاری ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔
فلسطینیوں کے ۳۰مارچ ۲۰۱۸ء کی تحریک جیسے غیرمعمولی بہادرانہ اور جرأت آمیز سیاسی اقدام نے، اسرائیلیوں کے غیرانسانی، غیرقانونی ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی جبر کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔
۱۴مئی ۲۰۱۸ء کے قتلِ عام نے یہ سوال پیش کیا ہے کہ، دنیا بھر کے انسانو!یاد رکھو! شرفِ انسانیت، غزہ کے مظلوموں کی قسمت میں لکھا ہے۔ دُنیا کے ہرفرد کے سامنے یہی سوال ہے کہ تم اگر انسان ہو، اور تم اگر ضمیر رکھتے ہو، تو تم لازمی طور پر فلسطینیوں کے ہم قدم اور طرف دار ہو۔ اگر تم ضمیر سے محروم اور انسانیت سے تہی دامن ہو تو تم دوسری جانب درندگی کے ساتھ کھڑے ہو۔
۱۴مئی کے قتل عام کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ جیسے سوال کا جواب ہے: ’سب کچھ کرنا چاہیے‘۔ اس خون آلود دن کو فلسطینیوں نے ایک نہایت قیمتی سبق سکھایا ہے اور وہ ہے: ’مقابلے اور وقار کی طاقت‘۔ اس غیرمعمولی انقلابی تحریک کے ایک مربوط اور پُرامن عمل نے بتا دیا ہے کہ: اندھی، بہری قوت کے رکھوالو! فلسطینی کہیں نہیں جارہے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور وہی اپنی تقدیر اور اختیار کے مالک ہیں۔ نہ وہ کسی بددیانت قیادت کو قبول کریںگے اور نہ غاصب صہیونیت کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے۔
۱۴مئی کو فلسطینی حُریت پسندوں نے انسانیت کا وہ سبق یادداشت میں تازہ کر دیا، جسے ہم نے زمانہ طالب علمی میں ولیم ارنسٹ ہینلی (م: ۱۹۰۳ء) کی سدابہار نظم Invictus (شکست ِناپذیر) میں پڑھا تھا:
اس رات، جس نے مجھے ڈھانپ رکھا ہے
اُفق تا اُفق پھیلی اندھی گہری تاریک سرنگ میں،
میں دیوتائوں کا شکرگزار ہوں، وہ جیسے بھی ہوں،
میری روح ناقابلِ تسخیر ہے۔
حالات کی بے رحم گرفت
اور درد و کرب کی ناقابلِ برداشت شدت کے باوجود
نہ میں جھرجھرایا ہوں، نہ میرے ہونٹوں سے کوئی آہ بلند ہوئی ہے
اتفاقات و حوادث کے عصا کی بھاری ضربوں سے
میرا زخموں سے چُور اور لہولہان سر
ہرگز جھکنے کو تیار نہیں
غیظ و غضب کی تپش اور آنسوئوں کی برکھا سے پرے
زندگی یا موت کی سرحدوں کے پار، خو ف کے سایے منڈلا رہے ہیں
برسوں پر محیط موج دَر موج خطرات نے
مجھے بے خوف پایا ہے، اور بے خوف ہی پائیں گے!
وہ ناترسیدہ اور ناکام ہی رہیں گے۔
یہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کہ زندگی کا دروازہ کتنا سیدھا ہے
نہ یہ کوئی اہم ہے کہ زندگی کا طومار کتنی سزائوں سے بھرا پڑا ہے
تف، الزام و اتہام کی فردِ جرم پر،میری بلاسے!
میں اپنی قسمت کا خود مالک ہوں!
میں خود اپنی روح کا سالار ہوں!
[الجزیرہ، ٹیلی ویژن چینل،ویب،۲۲مئی ۲۰۱۸ء، انگریزی سے ترجمہ: س م خ ]
زخمیوں اور مقتولین پر گولیوں کے نشانے
۲مئی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں چند دن پہلے ہونے والی انڈین فورسز کی زیادتیوں کے خلاف ایک بے قابوہجوم نے مبینہ طور راہ چلتی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس کی زد میں ایک اسکول کی بس بھی آگئی، اور بس میں سوار چند معصوم طالب علم زخمی ہوئے۔ اس سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو قوم مسلسل غیروں کے نشانے پرہو، جس پر سرکاری فورسز کی زیادتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تین عشروں سے جاری ہو، اُسی قوم کے نونہال یا عام شہری اگر اپنوں کی غلطیوں کا بھی شکار ہوجائیں تواس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟اس افسوس ناک واقعے کی خبر ابھی سوشل میڈیا پر آہی رہی تھی کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے حسب عادت مذمتی ٹوئیٹ میں کہا: ’’انھیں یہ جان کر بہت دْکھ اور تکلیف پہنچی اور غصہ آیا کہ شوپیاں میں ایک اسکول بس پر حملہ کیا گیا۔ اس پاگل پن اور بزدلانہ کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔
سوشل میڈیا بالخصوص Twitter پرسرگرم رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھلا کیسے چپ رہتے۔ انھوں نے بھی پے در پے اس واردات پر بہت سے مذمتی ٹوئیٹ کرکے خوب خبریں گھڑیں۔ ایک ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھا :’’ اسکول کے بچوں اور سیاحوں کی بسوں پر پتھراؤ کرنے والوں کے ایجنڈے کو آگے لے جانے میں کیسے مدد ملے گی؟ یہ حملے سخت قابل مذمت ہیں‘‘۔ ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے سنگ بازی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے حق میں پولیس کیس واپس لینے کی وکالت کرنے والوں تک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ریاست جموں و کشمیر کی دوبڑی ہندنواز جماعتوں کے سربراہوں، یعنی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے مذمتی بیانات سامنے آنے کی دیر تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سوشل میڈیا ٹیم ، ان جماعتوں کے ترجمان اوربا تنخواہ یوتھ لیڈران میڈیا کی سرزمین پر حرکت میں آگئے اور تحریک ِحریت کشمیر کے لیڈران سے لے کر پاکستان تک، ہر آزادی پسند اور اصولوں کی بات کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کشمیریوں کو ’اُکسائی ہوئی قوم‘ قراردیا گیا، سنگ بازوں اور احتجاجیوں کو ’گمراہ ‘کہا گیا، حریت لیڈروں کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار گردانا گیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک ہی پَل میں سوشل میڈیا پر دہلی کے پروردہ اور حمایت یافتہ اس ٹولے نے ’فردِ جرم‘ بھی گھڑی، عدالتیں بھی سجائیں اور فیصلے بھی سنائے۔ جن میں حقِ خودارادیت اوراس جائز اور مبنی بر حق جدوجہد کی بات کرنے والوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔حالاںکہ اسکول بس میں زخمی بچے اُسی مظلوم قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں، جو سرکاری ظلم و جبر کی شکار ہے۔ اُن کے لیے ماں کی طرح تڑپنے والے اصل میں وہ عام لوگ ہی ہیں، جو جانتے ہیں کہ اپنوں اور معصوموں کا لہو گرجانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ حریت کے قائدین بھی بار بار ایسے واقعات پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود ’مذمت بریگیڈ‘ ایسے موقعوں پر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے تیر و تفنگ کا رُخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی جانب پھیر دیتا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ اینڈ کمپنی اور محبوبہ مفتی اور اُن کے تنظیمی درباریوں اور چیلوں کو ایسے سانحات پر اظہارِ مذمت کا حق نہیں۔اُنھیں ایسا کرنے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔ ہرکسی کو جہاں بھی انسانیت کا خون بہایا جارہا ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن عام کشمیریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انھیں پسند کے ظالم اور پسند کے مظلوم کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیںحالات وواقعات کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ مگرمچھ کے سے آنسو بہانے اور سرکاری مراعات کے حصول کے لیے منافقانہ رویہ چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
اصولی طورجن لوگوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، جن کے دوراقتدار میں روز بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہو، یا بہایا جارہا ہو، جو نونہالانِ کشمیرکو بم، بارود اور گولی سے اُڑا دینے کی منصوبہ بندی میں برابر کے شریک ہوں، جن کے کہنے پر یا پشت پناہی سے وردی پوش یہاں روز انسانی حقوق کی دھجیاںاُڑا رہے ہوں ،اُنھیںمظلوم عوام پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ اُنھیں پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے جموں و کشمیر کے بے بس اور مظلوم شہری کس عذاب اور عتاب کا شکار ہیں۔
شوپیاں میں اسکول بس ودیگرگاڑیوں پر مبینہ طور سنگ باری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب اسی ضلع کے ترکہ وانگام علاقے میں بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے تین درجن کے قریب معصوم نوجوانوں کے جسم گولیوں سے لہو لہان کردیے۔جب انکاؤنٹر والی جگہ سے ایک کلو میٹردُور اسکولی وردی میں ہی ملبوس نویںجماعت کے طالب علم محمد عمر کمہار(۱۴سال) ساکن پنجورہ کو سرکاری فورسز نے نزدیک سے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیاتھا،جب سری نگر کے نور باغ علاقے میں پولیس نے عادل احمد نامی ایک نوجوان کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا تھا۔ جب پولیس اور فوج نے شوپیاں کے علاوہ جنوبی کشمیر کی مختلف جگہوں پر پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ پانچ عام نوجوانوں کو بھی گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا تھا اور دیگر سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا،اُس وقت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ کی سربراہی میں کام کرنے والا یہ مذمتی ٹولہ سوشل میڈیا سے کیوں غائب ہوگیا تھا؟
پھر نہ مجبوبہ مفتی کی نظریں ان کم سن نوجوانوں کی معصومیت پر گئیں اور نہ عمر عبداللہ وغیرہ کو ان کی ماؤں کے چھلنی جگر نظر آئے۔ انھیں کمسن عمر کمہار کی والدہ کے ہاتھ میں نوحہ کناں وہ اسکولی یونیفارم بھی نظرنہیں آیا جو وہ لہرا لہرا کر دکھا رہی تھی کہ کس طرح اُس کے طالب علم بیٹے کو جرم بے گناہی میں جان بحق کیا گیا۔ کیامذمتی ٹولے کو اس معصوم بچے کا اسکولی وردی میں اُٹھنے والا وہ جنازہ بھی نظر نہیں آیا، جو سنگ دل سے سنگ دل افراد تک کے دلوں کو بھی پاش پاش کررہاتھا؟ سری نگر سے شوپیاں تک دو دن میں ۱۴لوگوں کی جانیں لینے کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ: ’’کیا اسلام اس عمر میں جان دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ حالاںکہ جان لینے والے اس کی سربراہی میں کام کرنے والے فورسز اہل کار ہیں۔
حا لات کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ان اقتدار پرست لوگوں کو اسکول بس پر برسنے والے چند پتھر تو نظر آگئے، لیکن انھیںجنوبی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ایک ماہ کے دوران ۶۰ سے زائداُٹھنے والے جنازے نظر نہیں آئے۔ اُنھیں اُن ۶۰ نوجوانوں کے لواحقین ، عزیز و اقارب کی وہ ذہنی کیفیت نظر نہیں آ ئی، جس نے اس پورے خطے کے لوگوں کو بے قابو بنادیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے والد بزرگوار ۸۰ سال کی بھر پور زندگی جینے کے بعد رحلت کرگئے تھے تو موصوفہ کئی ماہ تک اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ آج بھی بار بار سرکاری تقریبات کے دوران وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی اور آب دیدہ ہوجاتی ہیں۔ جب وہ اپنے بزرگ والد کی جدائی کو برداشت نہیں کرپاتیں تو اُن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیںاُنھیں روز موصول ہوتی رہتی ہیں،جو اپنے سامنے اپنے بچوں کو بھارتی فورسز کی گولیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ اُنھیں اُن بستیوں کا درد و کرب نظر کیوں نہیں آرہا ہے، جہاں روز صرف جنازے ہی اٹھتے ہیں؟ انھیں اُن والدین کی اذیت اور تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی، جن کے بچے زخمی ہیں اور وہ درد و کرب سے چیختے چلّاتے رہتے ہیں؟ اُنھیں اُن بوڑھے والدین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا ہے جو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے بچوں ہی کا سہارا بننے پر مجبور ہیں، کیوںکہ اُن کی آنکھوں کی بینائی فورسز اہل کاروں نے پیلٹ گنوں سے چھین لی ہے؟… خاتون ہونے کی حیثیت سے اُنھیں اُن ماؤں کے دُکھی دل نظر کیوں نہیں آتے، جو اپنے جواں سال بیٹیوں کی لاشوں کو دولہے کی طرح سجاتی سنوارتی اور اپنی دیوانگی بھری مامتاکا مظاہرہ کرتی ہیں؟
نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی بچوں کی چیخ پکار صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کیوںکہ اس کے ذریعے سے وہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے عوام کو ’گمراہ ‘ ثابت کرسکیں، حالاں کہ کشمیری مظلوموں کو معلوم ہے کہ ۲۰۱۰ءمیں ۱۲۸نہتے لوگوں کا خون اُن فورسز ایجنسیوں نے بہایا ہے جن کی یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہی عمر عبداللہ صاحب کررہے تھے۔ اِن کے دور اقتدار میں ہی بٹہ مالو سری نگر کے چھے سالہ سمیر احمد راہ کو جس بے دردی کے ساتھ جاں بحق کردیا گیا،اُس کی مثال چنگیزی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ انڈین سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہل کاروں نے ٹافی لانے کے لیے بازار گئے سمیر کو پیروں تلے روندکر بڑی اذیت ناک طریقے سے قتل کردیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں لاشوں تک کو بخشا نہ گیا۔ کشمیریوں کو یہ بھی یاد ہے کہ شوپیاں کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری اور قتل کوعمر عبداللہ نے کس بے تکلفی کے ساتھ بے تکی بات کہا تھا۔ اَن گنت معصوم انسانوں کاقتل عمد عمر عبداللہ اور اُن کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اَدوار ِحکومت میں ہوا تھا اور دونوں باپ بیٹوں نے کشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی اُف تک نہیں کیا۔
یہی حال پی ڈی پی کا بھی ہے۔ محبوبہ مفتی کے عہد ِاقتدار میں کشمیر کی سر زمین خون سے لالہ زار ہوگئی۔ ۲۰۱۶ءسے تاحال ہر ہفتے کسی نہ کسی عام شہری کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ صاحبہ ان المیوں کے ’جواز‘ بھی تراشتی ہیں اور آگے بڑھ کر سرکاری فورسز کو ’اچھی کارکردگی ‘ پر شاباشی بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی یک طرفہ مذمت کوئی معانی نہیں رکھتی ہے۔
جنوبی کشمیر ۸؍جولائی۲۰۱۶ءسے جن گھمبیر حالات کا شکار ہے، اُن میں عام لوگوں کی ذہنی حالت اور کیفیت کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ اقتدار کا مزہ لینے والوں اور اُن کے چیلوں کو بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس خطے میں آئے روز بھری جوانیاں لُٹ رہی ہیں، والدین اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سیکڑوں جسمانی طور پر ناکارہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سنگ باری کررہے ہیں اور یہ انکاؤنٹر والی جگہوں پر جاکر فوجی آپریشن میں بے خوف ہوکر رخنہ ڈالتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے کتنے ساتھی اور بھائی قبرستانوں میں پہنچا دیے گئے ہیں کہ جن معصوم نوجوانوں کے ساتھ یہ کھیلا کرتے تھے، اُنھیں جب وردی پوش ابدی نیند سلا نے کے بعد اپنی’ کامیابیوں‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں تو متاثرین میں غم وغصہ دوآتشہ ہونا ایک طے شدہ امر ہے۔ آئے روز یہاں جنازوں میں شریک ہونے والوںاورانسانی لاشوں کو کندھا دینے والے سوگواروں کے جذبات کس طرح کھلے عام مجروح کیے جاتے ہیں اس کا اندازہ مذمتی ٹولے کو نہ بھی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احساس بیگانگی اور انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکانے پر منتج ہوتا ہے۔ اگر اربابِ اقتدار امن پسنداور نبض شناس ہوتے تو یہ سنگ بازی کرنے والوں اور انکاونٹر والی جگہوں پر سینہ ٹھونک کے جانے والے مردوزن کے خلاف زبان درازی نہ کرتے بلکہ اُن کی نفسیاتی اُلجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی کو سمجھتے اور اُن کے دُکھ درد کا مداوا کریں۔
دوغلی سیاست کے بل پر جو لوگ کشمیریوں کے سروں پر سوار کیے گئے ہیں ،اُن کا ضمیر مرچکا ہے، وہ اپنے دہلوی آقائوں کو خوش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے عوامی جذبات کا ساتھ دیں ۔
۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (حال اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی نانوتویؒ (۱۷۸۸ء-۷؍اکتوبر۱۸۵۱ء) کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی۔ اگرچہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کے لیے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اس کے نظام اور طریق کار پر ان میں اختلاف راے تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما کے قتل عام سے پریشان مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۱۸۳۳ء- ۱۸۸۰ء) نے ۱۸۶۶ء میں سہارن پور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر انار کے ایک پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں اُم المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب و اقدار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نظریاتی حصار تیار کرنے کی لگن میں تھے۔ اس کے دس سال بعد مولانا مملوک علیؒ کے دوسرے شاگرد سرسیّد احمد خانؒ (۱۸۱۸ء-۱۸۹۸ء) نے دہلی کے جنوب میں ۲۵۰کلومیٹر دُور ۱۸۷۷ء میں برطانوی حکومت کی مدد سے اوکسفرڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی، جس کی پاداش میں انھیں کفر کے فتوؤں سے بھی نوازا گیا۔ اسی کالج کو بعد ازاں ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ سرسیّداحمد مذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرناچاہتے تھے، اور ساتھ ہی ان کو مغرب کے ساتھ مکالمے کے قابل بنانا چاہتے تھے۔ دینِ اسلام کی تعبیر کے حوالے سے سرسیّد کی اپروچ مضحکہ خیز مگر قومی تعمیر حوالے سے قابلِ فہم تھی۔ اسی لیے دینی حوالے سے سرسیّد کہیں دکھائی نہیں دیتے مگر قومی درد کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اپنی تاسیس سے لے کر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں درس گاہوں، یعنی دارالعلوم اسلامیہ دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا لائحہ عمل متضاد اور متحارب رہا ہے۔
مغربی علوم پر دسترس رکھنے والے علی گڑھ کے اسکالرز نے ۲۰ویں صدی کے اوائل ہی میں شراکت ِ اقتدار کا مطالبہ کیا اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اور تحریک پاکستان کے لیے راہ ہموار کی۔ دوسری طرف دیوبند کے بعض فارغ التحصیل اسکالرز نے پاور اسٹرکچر یا پاور پولیٹکس میں مرکزی کردار ڈھونڈنے کے بجاے انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولرازم پر بھروسا کرنے کو ترجیح دی۔ اگست ۱۹۴۷ء میں انگریز سے آزادی کے بعد دیوبندی علما کی تنظیم جمعیت العلماہند تو ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت تک ایک طرح سے کانگریس کی ذیلی تنظیم کی طرح کام کرتی رہی ہے۔ان کے اکابرین کو اس کے عوض اقتدار میں نہیں، مگر اقتدار کی راہداریوں میں کچھ وزن پایا، جیسے راجیہ سبھا میں کچھ مدت کے لیے نمایندگی وغیرہ۔ ان عہدوں کا کتنا فائدہ عام مسلمان کو ہوا ، اس کا پول ۲۰۰۶ء میں ’جسٹس راجندر سچر کمیٹی‘ نے کھول دیا۔
مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر ایک ہزار ایکڑ پر محیط علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں فی الوقت ۳۰ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ۱۱ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف ۳۵۰ مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونی ورسٹی کے نام سے موسوم ہے، جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید بھارت میں واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اس کی رینکنگ ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کا میڈیکل کالج نویں مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ برہمن نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارے کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ’یونی ورسٹی بھارتی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘۔
مجھے یہ بات اچھی یاد ہے کہ مسلم یونی ورسٹی رابط عامہ کے سابق افسر راحت ابرار کے کمرے میں صبح سویرے ہند ی اخبارات اور چینل کے نمایندے آدھمکتے تھے۔ چائے نوش کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ :’’ہمارے آفس سے دبائو ہے کہ یونی ورسٹی سے کوئی تڑپتی پھڑکتی خبر لانی ہے، جس کو نمک مرچ لگا کر مشتہر کرنا ہے‘‘۔ حالیہ قضیہ بھی کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۳۸ء سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آویزاں تصویر اچانک قابل اعتراض ہوگئی۔ فرقہ پرست تنظیموں نے مقامی ممبر پارلیمنٹ کی شہ پر تشدد اور ہنگامے کیے ، حتیٰ کہ یونی ورسٹی میں گھس کر بے دردی سے مسلم طلبہ کو نشانہ بنایا اور ڈیوٹی پر موجود پولیس تماشا دیکھتی رہ گئی۔
چند سال قبل میں شملہ کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میںمدعو تھا۔ وائسراے ہائوس میں بنائے گئے اس ادارے کے ایک ہال میں بھی قائد اعظم کی ایسی ہی ایک تصویرآویزاں ہے۔ پارلیمنٹ اور دہلی کے تین مورتی ہائوس میں بھی جنگ آزادی کے رہنمائوں کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر آویزاں ہے۔ علی گڑھ کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ نریندر مودی کی دوسری اننگ کے لیے فضا تیار کی جائے۔ بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحول کو مسلم دشمنی پر مبنی فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوئوں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
بعض معروف مسلمان شخصیات اس یلغار سے بوکھلا کر یونی ورسٹی کے ذمہ داران کو مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ حالات کی بہتری اور ادارے کے مفاد کی خاطر اس تصویر کو ہٹادیں۔ صحافی شمس تبریز قاسمی سوال کرتے ہیں کہ: ’’کیا تصویر ہٹادینے سے تنازع ختم ہوجائے گا؟ کیا نسل پرست برہمنوں کی جانب سے مستقبل میں کسی اور معاملے کو لے کرادارے پر حملہ نہیں کیا جائے گا؟ اسی لیے یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ بی جے پی کو تکلیف محمدعلی جناح کی تصویر سے ہے یا اے ایم یو کے وجودسے؟ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ سے یا مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی سے؟‘‘ یہ امرِواقعہ ہے کہ ان کا اگلا اعتراض یونی ورسٹی کے نام میں شامل لفظ ’مسلم ‘پر ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتا،جس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔ آیندہ جلد یا بدیر ان کا اعتراض کیمپس میں موجود مساجد پر ہوگا۔
۲۰۱۵ء میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اپنا زعفرانی نظریاتی رنگ دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ: ’’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے‘‘۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ اسکولوں میں داخل ہونے والے ۱۰۰بچوں میں سے صرف گیارہ اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں،جب کہ ہندوئوں میں یہ تعداد ۲۰ فی صد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت علی گڑھ اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۵۰ فی صد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں۔مزید دل چسپ پہلو یہ دیکھیے کہ بھارتی اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا: ’’ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے؟‘‘
گویا جو ’سیکولرازم‘ بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی ’قابل نفرت‘ اصطلاح کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ چند برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر صبغت اللہ فاروقی نے مجھے بتایا تھا کہ: گذشتہ کانگریس حکومت نے بھی اس ادارے کو کافی نقصان پہنچایا ۔ ان کے مطابق ۵۳۵ کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ میں سے ۹۵فی صد تنخواہوں وغیرہ پرصرف ہو جاتی ہے اور ایک قلیل رقم ریسرچ اور دوسرے کاموں کے لیے بچتی ہے۔ اور تو اور گذشتہ حکومت نے کیرالا، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے کیمپس بنانے کا اعلان کیا، جن کے اخراجات اسی گرانٹ سے پورے کرنے ہیں۔
بہرحال، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے میںاس وقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے پارلیمنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا، جس کو ۱۹۶۷ء میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جدوجہد کے بعد ۱۹۸۱ء میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ پھر اسی پارلیمانی ایکٹ میں ایک نقص تلاش کرکے ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونی ورسٹی اور تب من موہن سنگھ حکومت نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ مقدمہ زیرسماعت ہے۔ اس تنازعے میں بھارتی مسلمانوں کے لیے خیر کا ایک پہلو بھی چھپا ہے۔ پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت میں مسلم طبقے کو ایک طرح سے تقسیم کا ذمہ دار ٹھیرا کر دائمی ’احساسِ جرم‘ میں مبتلا کیے رکھا گیا ہے۔ اس معاملے میں سیکولر کانگریس اور ہندو نسل پرست آر ایس ایس کا موقف یکسا ں ہے۔ جہاں تقسیم اور اس کے محرکات پر کہیں بحث چھڑ گئی ، دونوں تنظیمیں اکٹھا ہوکر اس کو دبانے میں لگ جاتی ہیں۔ بی جے پی کے معتدل مزاج لیڈر جسونت سنگھ نے جب: Jinnah: India, Partition, Independenceکتا ب لکھ کر تقسیم کے محرکات سے پردہ اٹھایا تو آر ایس ایس اور کانگریس دونوں نے یک جاہوکر ان کو سیاست سے ہی کنارہ کشی پر مجبور کر دیا۔ پھر بی جے پی کے سابق صدر لال کشن ایڈوانی کا حال بھی ایسا ہی کیا۔
وقت آگیا ہے کہ مسلمان اور مسلم قائدین، تاریخ کے دریچے کھول کر تقسیمِ ہند اور انگریز سے آزادی کے دوران ہندو کردار پر کھل کر بحث کریں اور ان سبھی ہندو لیڈروں کو بے نقاب کریں، جنھوں نے مسلمانوں کو بے وقعت کرنے کی قسم کھارکھی تھی اور جن کی ہٹ دھرمی نے تقسیم کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے ، جو انھوں نے بدھ مت، جین مت اور سکھوں وغیرہ کے ساتھ کیا ہے۔ اسی برہمنی ذہنیت نے ہر اس انقلابی، مذہبی یا روحانی تحریک کو نگلا ہے، جس نے بھی زعفرانی جارحیت کو چیلنج کرنے کی ہمت کی ہو۔ ان کی نیت صرف یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر سے وہ جوہر کھینچ لیا جائے، جو انھیں زندہ اور بے باک رکھتا ہے۔بس یہی ایک چیز ہے، جس سے ہندو نسل پرست عفریت (Monster) پیچ و تاب کھا رہا ہے اور شکار پھانسنے کے نئے نئے منصوبے بناتا رہا ہے۔مسلمانوں کو معتوب بنانے کے لیے انھیں بھارت میں دائمی احساس جرم میں مبتلا رکھا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرسکیں۔ سیکولر کانگریس کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بحث چھڑ گئی تو نہ صرف اس کے کھوکھلے سیکولرزم کا جامہ اُتر جائے گا، بلکہ اس کے لیڈروں کا پول بھی کھل جائے گا۔
چند روز قبل بھارتی صوبہ گجرات کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر سنجیو بھٹ نے برقی پیغام میں سوال کرتے ہوئے، زیادتی کا شکار پاکستان کی معصوم بچی زینب اور مقبوضہ کشمیر کی آصفہ پر ہونے والی اس درندگی کے واقعے پر ردعمل کا موازنہ کیا اور کہا تھا:’’کیا بھارت ناکام ریاست کی طرف لڑھک رہاہے کہ پاکستان نے تو یک آواز ہو کر زینب کو انصاف دلا کر ہی دم لیا، حتیٰ کہ فاسٹ ٹریک کورٹ نے ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی‘‘۔
اس کے مقابلے میں انصاف تو دور کی بات،ہندو انتہا پسندوں بشمول سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگرس کے لیڈروں نے جموں میں بھارت کے قومی پرچم لے کر، ملزموں کے حق میں جلوس نکالے۔ حد تو یہ تھی کہ مقامی وکیلوں کی تنظیموں نے نہ صرف ملزموں کی حمایت کر کے جموں بند کروایا بلکہ کھٹوعہ کی عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے چارج شیٹ ہی دائر نہیں ہونے دی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آٹھ سالہ آصفہ مسلمان خانہ بدوش گوجر بکر وال قبیلے کی بیٹی تھی اور ملزم ہندو ڈوگرہ راجپوت تھے، جنھوں نے ۱۰۰ سال تک کشمیر پر حکومت کی ہے اور اسی جاگیر دارانہ ذہنیت سے نہیں نکل رہے۔ سنجیو بھٹ نے آخر میں لکھا: ’بھارت ناکارہ یا ناکام ریاست بننے تو نہیں جا رہا ہے ؟‘
یہ بچی ۱۰ جنوری ۲۰۱۸ءکی دوپہر گھر سے گھوڑوں کو چرانے کے لیے نکلی تھی اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹ پائی۔ گھر والوں نے جب ہیرانگر پولیس سے لڑکی کے غائب ہونے کی شکایت درج کروائی تو پولیس نے لڑکی کو تلاش کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ پھر ایک ہفتے بعد ۱۷جنوری کو جنگل میںاس معصوم کی لاش ملی۔ میڈیکل رپورٹ میں پتا چلا کہ لڑکی کے ساتھ کئی بار، کئی دنوں تک گینگ ریپ کیا گیا اور آخر پتھروں سے مار مارکر قتل کر دیا گیا۔ خاصی لیت ولعل کے بعد جموں وکشمیر کی محبوبہ مفتی حکومت نے ۲۳ جنوری کو یہ کیس ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کو سونپ دیا، جس نے اس گھنائونے جرم اور قتل میں سات افراد کو گرفتار کیا جن میں ایک اسپیشل پولیس افسر (ایس پی او) دیپک کھجوریا، پولیس آفسر سر یندر کمار ، رسانا گائوں کا پرویش کمار، اسسٹنٹ انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹبل تلک راج ، سابق ریونیو افسر سانجی رام، اس کا بیٹا وشال اور چچا زاد بھائی شامل ہیں۔
’ہندو ایکتا منچ‘ کے پلیٹ فارم سے صوبائی حکومت میں شامل بی جے پی کے دو وزیروں لال سنگھ اور چندر پراکاش گنگا، نیز وزیر اعظم نریندرا مودی کی وزارتی ٹیم میںشامل جیتندر سنگھ نے ان تین ماہ کے دوران اس ایشو کو لے کر جموں وکشمیر پولیس کی تفتیش پر ’عدم اعتماد‘ ظاہر کر کے ’کشمیر بنام جموں ‘ کا ہوّا کھڑا کیا اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک وزیر نے تو ڈوگرہ فرقہ کی حمایت کا حوالہ دے کر ملزموں کی پشت پناہی کر کے اس کو ’’کشمیری مسلمانوں کی طرف سے رچی سازش قرار دیا‘‘، کیوںکہ کرائم برانچ کی جس سات رکنی ٹیم نے اس کیس کی تفتیش کی اس میں دو کشمیری مسلمان تھے۔ ان سیاسی رہنمائوں کے علاوہ جموں بار ایسوسی ایشن نے بھی ایسا واویلا مچایا۔ لگتا تھا کی کشمیر کے ان گنت کیسوں کی طرح یہ بھی فائلوں میں گم ہو جائے گا۔
لیکن بھلا ہو ان کشمیر ی صحافیوں کا ، خاص طورپر نذیر مسعودی ، ظفر اقبال اور مفتی اصلاح کا جو متواتر رپورٹنگ کرتے رہے اور پھر مزمل جلیل، انورادھا بھسین ، ندھی رازدان اور دیپکا راجوات ایڈووکیٹ کا، کہ جن کی اَن تھک محنت کی وجہ سے نہ صرف بھارت کی سول سوسائٹی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گئی، بلکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر بھی دبائو رکھا۔ جس کے نتیجے میں دو وزرا کو مستعفی ہونا پڑا اور انھوں نے نام لے کر کشمیری صحافیوں اور کشمیری میڈیا کو غنڈا بھی قرار دیا۔ ان کی یہ دشنام طرازی ان صحافیوں کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس سے قبل جب جنوری میں سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ طالب حسین نے آصفہ کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھائی تھی تو اس کو پہلے گرفتار کرلیا گیا۔
جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی ) اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے درمیان وسیع اختلافات ہونے کے باعث تضادات اپنی انتہا پر تھے، لیکن اس دوران دہلی اور ہندو انتہا پسندوں کہ شہ پر اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچا دکھانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں، چاہے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ (کشمیرکی خصوصی پوزیشن ) ختم کرنے کا مطالبہ ہو یا کشمیر کے قلب میں مخصوص ہندو بستیاں بسانے کا معاملہ ۔ پھر بی جے پی اور اس کے لیڈر اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے مسلم آبادی کے سینوں میں خنجر گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
پچھلے کئی برسوں سے جموں خطے میں جنگلاتی اراضی سے قبضہ چھڑانے کی آڑ میں مسلمانوں کو جبراً اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی، گول گجرال، سدھر ا، ریکا، گروڑا، اور اس کے گرد ونواح سے ہٹایا گیا ہے۔ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر، جنگلاتی اراضی پر ہی قائم ہے۔ یہاں پر صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب ، مسلمانوں کو اس خطے سے بے دخل کرنا ہے، جہاں پر وہ پچھلے ۶۰ برسوں سے بس رہے ہیں۔
پورے جموں کی آبادی دیکھیے: مسلمان ۲۹ فی صد ، دلت ۲۰فی صد ، اور برہمن ۲۳ فی صد ہیں، جب کہ کشمیر پر دوبارہ حکمرانی کے خواب دیکھنے والی ڈوگرہ، راجپوت قوم آبادی کا محض ۱۲ فی صد ہیں۔ ویشیہ یا بنیا قوم ۵ فی صد ہے اور سکھ ۷ فی صد کے آس پاس ہیں اور جموں کے دو حصوں میں آبادی کی تقسیم اس طرح ہے:
ادھم پور ، ڈوڈہ، پارلیمانی حلقہجموں،
پونچھ، پارلیمانی حلقہ
مسلمان
۲۸
۳۱
برہمن
۲۱
۲۵
راجپوت
۱۲
۱۲
شیڈول کاسٹ[دلت]
۲۲
۱۸
سکھ
۶
-
ویشیہ
۶
۵
دیگر
۵
۹
معصوم آصفہ کو قتل کرنے اور اس پر درندگی کا مظاہرہ کرنے اور پردہ ڈالنے کا گھنائونا فعل دراصل اس سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے کہ مقامی مسلمانوں میں خوف ودہشت پیدا کر کے ان کو ہجرت پر مجبور کرایا جائے۔ ۲۰۰۶ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے فارسٹ رائٹس ایکٹ (Forest Rights Act 2006) پاس کیا تھا، مگر بی جے پی اور کانگریس جموں کے لیڈر مل کر اس کو ریاست میں نافذ نہیں کرنے دینا چاہتے ہیں۔ یہاں پر وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا حوالہ دیتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ کے قانون کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا ہے، مگر جب پارلیمنٹ فوجی اور سیکورٹی قوانین پاس کرتی ہے تو یہی رہنما بغیر کسی بحث ومباحثے کے، اسے ریاست میں لاگو کرتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان غریب اور بے کس مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کی آباد کاری اور وادی میں پنڈتوں کی علیحدہ کالونیوں کے قیام کے لیے خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔
جموں خطے کے موجودہ حالات وکوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کاخدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نومبر ۱۹۴۷ء کا بد ترین خونیں واقعہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے ، جیسا کہ کابینہ سے مستعفی رکن چودھری لال سنگھ نے پچھلے سال ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد دلایا تھا۔ اس خطے کے دو مسلم اکثریتی علاقے وادی چناب ، جس میں ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑ کے اضلاع شامل ہیں اور پیر پنچال جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل ہیں، ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک منصوبہ بند طریقے سے راجوڑی، کشتواڑ، بھدر واہ کے دیہاتی علاقوں میں فرقہ جاتی منافرت کا ما حول پیدا کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے طاقت ور لیڈر اندریش کمار تو تقریباً اس خطے میں ہمہ وقت ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں، جو ’سمجھوتہ ایکسپریس کیس‘ کے سلسلے میں پوچھ گچھ سے گزر چکے ہیں۔ ڈوڈہ میں پچھلے سال ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے کارکنوں نے اپنی روایتی خاکی نیکر، سفید قمیص اور سیاہ ٹوپی، جسے ’گنویش ‘ کہا جاتا ہے، میں ملبوس ہوکر مارچ کیا۔ اس موقعے پر اسلحہ اور تلواروں کو کھلے عام لہرانے کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو انگیخت کرنے والی نعرہ بازی بھی کی گئی ۔
عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر دو عشرے قبل جموں سے، وادی چناب اور پیرپنچال میں ہندو دیہاتوں کو ویلج ڈیفینس کمیٹی کا نام دے کر مسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب بھی آئے دن دیہاتوں میں گھس کر مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ یہ فورس نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کو جواب دہ، اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیاہے۔ اس فورس کے ذریعے ، اغوا، تاوان ، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں، اور ظاہر ہے کہ خمیازہ صرف مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے، تا کہ آیندہ کسی وقت ۱۹۴۷ء کے سانحے کو دہرا کر اس خوف زدہ آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور اور جموں کو مسلم آبادی سے خالی کرایا جائے۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات آتش چنار میں لکھا ہے: ’’جموں میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے بعد مہاراجا ہری سنگھ اور مہارانی تارا دیوی کی نظریں وادی چناب پر لگی ہوئی تھیں، مگر کرنل عدالت خان اور اس کی ملیشیا نے بہادری اور دانشمندی سے وہاں آگ کے شعلے بجھا دیے۔ جب کشمیری مسلمان اس دورِ پُرآشوب میں پنڈتوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا رہے تھے، تو مہاراجا جموں میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ سرینگر سے بھاگ کر جب وہ سفر کی تکان اُتارنے کے لیے شاہراہ کے کنارے رام بن کے قریب ایک ریسٹ ہائوس میں پہنچا ، تو بدقسمتی سے چائے پیش کرنے والا بیرا مسلمان تھا اور اس کے سر پر رومی ٹوپی تھی جسے دیکھ کر اس نے چائے پینے سے ہی انکار کردیا۔ شیخ عبداللہ کو جب انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا جا چکا تھا تو اس نے مہاراجا کے اعزہ واقارب اور سری نگر میں موجود چند سکھ خاندانوں کو جموں پہنچانے کے لیے جنوبی کشمیر کے بائیس تانگہ بانوں کو آمادہ کیا، مگر واپسی پر نگروٹہ کے مقام پر ہندو انتہا پسند ٹولی نے ان کے تانگے چھین کر انھیں بے دردی سے قتل کر ڈالا‘‘۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت جو گاندھی کی تعلیمات کو استعمال کر کے بھارت کو دنیا بھر میں ایک ’اعتدال پسند‘ اور ’امن پسند ملک ‘ کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے کو اسی گاندھی کا ایک قول یاد رکھنا چاہیے: ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوارا بن سکتا ہے۔یہاں کے بہادر لوگ ظلم وستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کر سکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ ہندستان مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہو گا جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔ اگر ہندستان کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا تو ساری دنیا میں اس کی تصویر مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔
بقول شیخ محمد عبداللہ ،گاندھی نے کہا تھا: ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اور بس !
یہاں بھارت سے ۴۹چوٹی کے سابق اعلیٰ افسروں [جن میں مسلمان صرف تین ہیں]کا مشترکہ خط پیش ہے۔ یہ خط انھوں نے کٹھوعہ (جموں) اور اناؤ (یوپی) میں جنسی زیادتی کے ہولناک اور گھنائونے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی بے حسی کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو لکھا۔ اس خط کے تین پہلو ہیں: lپہلا یہ کہ بدترین جبری ماحول، نام نہاد جمہوریت اور برہمنی فسطائیت کے باوجود ایسے باضمیر لوگ موجودہ ہیں، جو اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے ہم آواز کھڑے ہیں۔
ہم سرکاری خدمات سے سبک دوش افسروں کا ایک گروپ ہیں، جو ’انڈین دستور‘ میں موجود سیکولر اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ (decline)پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گذشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان آوازوں کے ہم آواز ہیں، جو سرکاری نظام کی سرپرستی میں نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوف ناک ماحول کے خلاف اُٹھ رہی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، نہ کسی سیاسی نظریے کے پیروکار ہیں، سواے ان قدروں کے جو ہمارے آئین میں موجود ہیں۔
آپ نے بھی چوں کہ آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، اس لیے ہم امید رکھتے تھے کہ آپ کی حکومت اور وہ سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان سے باخبر ہونے کی کوشش کریں گے ، اس پھیلتی سڑاند کو روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے اور سب کو اعتماد دلائیں گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کے حوالے سے بے خوف رہیں۔ مگر افسوس کہ یہ اُمید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجاے، کٹھوعہ اور اناؤ کے حادثات میں پائی جانے والی ناقابل بیان دہشت اہلِ وطن کو یہ بتاتی ہے کہ [آپ کی] حکومت اپنے بنیادی فرائض سرانجام دینے میں بالکل ناکام رہی ہے۔
ایک ایسا ملک کہ جس کو اپنی اخلاقی، روحانی اور ثقافتی وراثت پر بڑا ناز رہا ہے اور جس نے مدتوں تک اپنی تہذیبی رواداری اور ہمدردی جیسی قدروں کو سنبھال کر رکھا، افسوس کہ اسے برقرار رکھنے میں ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ’ہندوؤں کی عظمت قائم کرنے‘ کے نام پر ایک انسان کے حق میں، جب کہ دوسرے انسانوں کے لیے جانوروں جیسی بےرحمی پالنے کی روش اپنانے کا ہرلمحہ ہماری انسانیت کو شرمسارکر رہا ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی سے وحشیانہ طور پر جنسی درندگی اور قتل کا اندوہ ناک واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیر ہے، جس میں ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کا رد عمل ناکافی اور مُردنی و بے حسی لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی کی کرن نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں۔
ہماری شرمندگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی، جو ابھی حکومتی و ریاستی مشینری میں خدمات انجام دے رہے ہیں، بالخصوص وہ جو اضلاع میں کام کر رہے ہیں اور قانونی طور پر دلتوں (شیڈیول کاسٹ) اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں، وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم کرنے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں، بلکہ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصّے کا اظہار کرنے کے لیے، معاشرے کی خوف ناک تقسیم اور نفرت کو بڑھاوا دینے کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کے بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں نے ہمارے سیاسی قواعد میں، ہماری ثقافتی و سماجی زندگی اور روز مرہ میں شامل کر دیا ہے۔
یہی ہے نفرت کی وہ آگ اور اسی کے نتیجے میں کٹھوعہ اور اناؤ جیسے گھنائونے واقعات کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوعہ میں، ’سنگھ پریوار‘ کے ذریعے پُرجوش اکثریت کی جارحیت اور ان کی بداخلاقی نے نسل پرست وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ ان کی بداخلاقی کوان سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہے گی، جنھوں نے خود ہندو مسلم تفریق کو گہرا کر کے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اپنی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسے مافیا اور غنڈوں کے سہارے پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کو طول دینے کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ان کے کارندوں کو ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی آزادی حاصل ہوئی ہے اور انھیں اپنی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لیے شہ ملی ہے۔
لیکن، اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات، [جموں کی] ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ فیملی کے بجاے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب اور گل سڑچکا ہے۔ انائو کے شرم ناک واقعے پر یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا، جب عدالت نے اس کو مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا فعل ہے، جس سے [یوپی] حکومت کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں اندوہ ناک واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں، وزیراعظم! جہاں آپ کی پارٹی حکمراں ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری اور آپ کے مرکزی کنٹرول کی وجہ سے، اس خوف ناک صورتِ حال کے لیے کسی اور سے زیادہ آپ ہی کو ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
ان واقعات کی سچائی تسلیم کرنے اور متاثرین کے آنسو پونچھنے کے بجاے آپ مسلسل خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب ملک اور غیرممالک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا کہ جس کو آپ کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار تو کیا ہے، مگر آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا نسلی فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے، نہ آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل دینے کا عزم کیا ہے کہ جن کے زیرسایہ نسل پرستانہ فسطائیت پھلتی پھولتی ہے۔
ہم محض ڈانٹ، پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جب کہ ’سنگھ پریوار‘ کی سرپرستی میں پلنے والے رنگ دار کارندے،نسل پرستانہ نفرت کی ہانڈی کو لگاتار اُبال رہے ہیں۔وزیر اعظم صاحب، یہ دوحادثے محض معمولی جرائم نہیں ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ جس سے ہماری سماجی چادر کے داغ دُھل جائیں گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں گے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے گی بلکہ یہ ہمارے وجود پر اُمڈ آنے والے بحران کا ایک موڑ ہے۔ اس میں [آپ کی] حکومت کا رد عمل طے کرے گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر ٹوٹ پڑنے والے بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ فوری طور پر ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :
ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، مگر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور کچھ تو بھروسا ملے گا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پُرامید ہیں۔ [The Deccan Chronicle، حیدرآباد، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، The Outllook India، نئی دہلی، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، اُردو ترجمہ: سلیم منصور خالد]
۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کے خونیں برسوں کے بعد ۲۰۱۸ء میں یہ اُمیدیں باندھی جارہی تھیں کہ امسال مقبوضہ کشمیر میں کشت و خون اور انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ رُک جائے گا، لیکن گذشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی پہلے ہی تین ماہ کے دوران مظلوم کشمیریوں کی تمام تر اُمیدوں، تمناؤں اور آرزوؤں پرپانی پھیر دیا گیا۔ ریاست میں موجود ۱۰لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘ کی صورت میں حاصل شدہ خصوصی قوانین کی آڑ لیے، بے تحاشا اندا ز میں کشمیریوں کی نوجوان نسل کا لہو بہاتے رہے اور انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کو باجواز بنانے کے لیے، ملوث ایجنسیاں ناقابل قبول بہانے گھڑتی رہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۸ء سے لے کر ۱۱؍اپریل تک ۲۹ عام اور نہتے کشمیری نوجوانوں کو مختلف جگہوں پر گولیوں کا نشانہ بناکرشہید کردیا گیا۔ اس دوران ۴۸ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جنھوں نے مجبوراً ظلم وجبر کے خلاف ہتھیار اُٹھالیے ہیں۔۱۲پولیس اہلکاروں اور ۱۳بھارتی فوجیوں سمیت سال کے پہلے سو دن میں ۱۰۲؍انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں۔
تازہ ترین خونیں ’سانحہ کھڈونی‘ کولگام میں پیش آیا، جہاں۱۱؍اپریل کو فوج کے ساتھ ایک معرکہ آرائی میں اگر چہ عسکریت پسند محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے، تاہم بھارتی فوجی اہلکاروں نے مختلف جگہوں پر عام اور نہتے احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ کر کے چار معصوم نوجوانوں کو جاں بحق اور ۶۵دیگر افراد کو زخمی کردیا۔ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت نازک ہے اور وہ مختلف ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کش مکش میں ہیں۔ کھڈونی کے اس خوں ریز معرکے میں فوج کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں مظاہرین کو اندھا دھند انداز سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحے میں جن نوجوانوں کی شہادت ہوئی، اُن میںشرجیل احمد شیخ ولد عبدالحمید شیخ ساکن کھڈونی(عمر ۲۸سال) ، بلال احمد تانترے و لد نذیر احمد تانترے ساکن کجر (عمر۱۶سال)، فیصل الائی ولد غلام رسول الائی ساکن ملہورہ شوپیان(عمر۱۴سال) اور اعجاز احمد پالہ ساکن تل خان بجبہاڑہ شامل ہیں۔اہالیانِ کشمیرکی بدقسمتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ۲۸سال کی عمر کا شرجیل احمد جنھیں اپنے گھر کے صحن میں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا ،کی صرف چار روز بعد ۱۵؍اپریل کو شادی ہونے والی تھی اور اس کے والدین نے شادی کی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں ، دعوت نامے بھی تقسیم ہوچکے تھے۔ والدین خوشیوں کے انتظار میں دن گن رہے تھے کہ اُن کے بیٹے کو خون میں نہلا دیا گیا۔ جن والدین نے اپنے بیٹے کے دلہا بننے کے خواب سجا رکھے تھے، اُنھیں اُن کی لاش کا بناؤ سنگھار کرنا پڑا۔ ماہِ جبین کو ایک طرح سے رخصتی سے قبل ہی بیوہ بنادیا ۔
۱۴برس کے نوعمر فیصل الائی کو جب صبح سویرے فوجی محاصرے اور تصادم کی اطلاع ملی تووہ فوراً گھر سے نکلے اور روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں سے کہا: ’’آپ میری آخری رسومات کی تیاریاں کریں‘‘۔ پھر دوپہر سے قبل ہی اُن کی لاش گھر پہنچ گئی۔عام شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ریاستی پولیس چیف نے مرحومین ہی کو اپنی موت کا ذمہ دار اور ’مجرم‘ ٹھیرایا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ کشمیر میں جولائی ۲۰۱۶ء حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعدسے نوجوانوں میں ایک نیا چلن شروع ہواہے۔ جوں ہی کسی بھی عسکری تنظیم سے وابستہ کوئی بھی ہتھیار بند نوجوان بھارتی فوج کے محاصرے میں آجاتا ہے، تو آس پاس کے درجنوں دیہات کے لوگ، بالخصوص نوجوان ’انکاونٹر‘ (تصادم) والی جگہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ہزاروں بھارتی فوجیوں کے محاصرے میں ایک یا دو عسکریت پسندوں کو محاصرے سے نکالنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ، یہ اُن ہتھیار بند کشمیری نوجوانوں کے ساتھ یک جہتی کا کھلم کھلا اظہار بھی ہوتا ہے۔ پوری آبادی گنتی کے مجاہدین کے لیے دیوانہ وار اپنی جان خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بھارتی فوجی افسران اور ادارے اس نئے رجحان سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ علانیہ کہہ چکے ہیں کہ ’انکاونٹر‘ والی جگہ پر جوبھی فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ گویا عملاً بھارتی تربیت یافتہ ریگولر آرمی کے سامنے نہتے کشمیری سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یکم اپریل کو شوپیان ، اسلام آباد اور گاندربل میں ۱۷کشمیری نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دینے کے سانحے سے ابھی اہالیانِ کشمیر سنبھل نہ پائے تھے کہ ضلع کولگام میں ایک اور مقتل گاہ سجا دی گئی۔ یکم اپریل کے ان خونیں تصادموں میںبھارتی فوج نے یاور احمد ایتوولد عبدالمجیدا یتو ساکن صف نگری، عبید شفیع ملہ ولد محمد شفیع ملہ ساکن ترنج زینہ پورہ، زبیر احمد تُرے ولد بشیر احمد ساکن شوپیان خاص، نازم نذیر ڈار ولد نذیر احمد ساکن ار پورہ ناگہ بل ، رئیس احمد ٹھوکر ولد علی محمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ملک ولد غلام نبی ساکن پنجورہ، عادل احمد ٹھوکر ولد عبدالغنی ساکن ہومہونہ ، غیاث الاسلام ولد بشیر احمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ٹھوکر ولد عبدالمجید ساکن پڈر پورہ، عاقب اقبال ملک ولد محمداقبال ساکن رنگت دمحال ہانجی پورہ، اعتماد احمد ملک ولد فیاض احمد ملک ساکن امشی پورہ، رؤف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دہرنہ ڈورو اور سمیر احمد لون ولد غلام نبی ساکن ہیلو امام، زبیر احمد بٹ ساکن گوپال پورہ کولگام، مشتاق احمد ٹھوکر ساکن درگڈ سگن، محمد اقبال ساکن خاری پورہ شوپیان اور معراج الدین ساکن اوکے کولگام اور گوہر احمدراتھرساکن کنگن گاندربل کو تین مختلف مقامات پر ایک ہی دن میں شہید کردیا۔ان تمام شہدا کی عمر ۱۶سال سے ۳۰ سال کے درمیان تھی۔
ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر جو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس میں ’امن و قانون‘ کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے روز کشمیرکے طول و عرض میں بالعموم اور جنوبی کشمیر میں بالخصوص کریک ڈاون، تلاشی کارروائیاں اور چھاپے مارے جاتے ہیں۔ شہر سرینگر میں جگہ جگہ ناکے اور بندشیںلگائی جاتی ہیں ، نوجوانوں کی گرفتاریاں تو روز کا معمول بن چکا ہے۔عام شہریوں کو مسلسل خوف و دہشت کے ماحول میں سانس لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ شہری ہلاکتوں کے بعد بے بس عوام اپنی ناراضی کا اظہار ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے سے کرتے ہیں۔ طلبہ و طالبات، اسکولوں او رکالجوں میں پُرامن طریقے پر جب اپنا احتجاج درج کرنے نکلتے ہیں تو پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر درندوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حالاںکہ پُرامن احتجاج دُنیا کا تسلیم شدہ جمہوری حق ہے۔ لیکن یہاں احتجاج کو اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور احتجاجی لوگوں کو دشمن قرار دے کر اُن پر طاقت کے وہ تمام حربے ا ور ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں جودشمن ملک کی فوج کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔عام لوگ جن سیاست دانوں کی بات سنتے اور مانتے ہیں اُن لیڈران کی سرگرمیوں پر ۲۰۰۸ء سے مکمل طور پر قدغن عائد ہے۔
حریت کانفرنس جو حقیقی معنوں میں عوامی جذبات کی نمایندگی کرتی ہے، اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کو یا تو جیلوں میں بند کردیا گیا ہے، یا پھر اُنھیںاپنے گھروں تک محدودرکھاگیا ہے۔بزرگ قائد محترم سیّد علی گیلانی۲۰۱۰ء سے اپنے گھر کے اندر قید ہیں۔ اُنھیں نماز جمعہ جیسے دینی فریضہ کو ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ان حالات سے نوجوان مشتعل ہوکر آخری چارۂ کار کے طور پر یا تو ہتھیار اُٹھالیتے ہیں یا پھر ان میں سنگ باری کرنے اور انکاونٹر والی جگہوں پر جاکر فوج کے محاصروں کو توڑنے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں نوجوانوں کے اس بڑھتے ہوئے جنون اور سنگ باری کے رحجان کے تانے بانے نہ جانے کہاں کہاں جوڑتے ہوئے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب پاکستانی فنڈنگ سے ہوتا ہے اور کبھی سرحدپار کی مختلف تنظیموں کے ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد کو جوڑا جاتا ہے۔ آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں پرکیا کیا حربے استعمال نہیں کیے گئے؟ ان پر جیلوں میں ہولناک تشدد کیا گیا۔لیکن آئے روزسنگ باری کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔کشمیری نوجوان گولیوں کی پروا نہیں کرتے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں کے اس شدید رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اُنھیں جمہوری طریقوںپر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور جب اُن کے جذبات کی نمایندگی کرنے والے سیاست دانوں کو اُن کے درمیان نہیں آنے دیا جاتا، تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق، اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے یہ نوجوان دوسرے طریقے استعمال کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ یہ نوجوان کوئی ان پڑھ، جاہل اور گنوار نہیں ہیں، جو اکیسویں صدی کے اس دور میں مرعوبیت کا شکار ہوکر گھٹن کی زندگی قبول کرلیں گے۔ یہ وہ نسل ہے جو میڈیائی دور میں رہتی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نوجوان نسل سے جڑی ہوئی ہے،جنھیں اپنے حقوق اور زندہ رہنے کا حاصل شدہ حق معلوم ہے۔ بھلا یہ کیسے بندوق کے سایے میں جینے پر راضی ہوسکتے ہیں؟ منفی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے بھلے ہی کشمیریوں کی اس نئی نسل کو شدت پسند، سرحد پار سے اُکسائے اور دہشت گرد،ہی ثابت کرنے کی کیوں نہ بھونڈی کوشش کی جائے، لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ: یہ سب ریاستی دہشت گردی کا شکار بنائے جا چکے ہیں، اِن کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے، اِنھیں اپنے مفادات اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جاچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیریوں کی یہ نسلیں اس قدر جری اور نڈر بن چکی ہیں کہ یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں، اور یہ نوخیز نوجوان گولیوں کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتے۔
یکم اپریل کو اسلام آباد کے ڈورو علاقے میں جو کم سن عسکریت پسند رؤف احمد ٹھوکرفورسز کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوگیا ، تو دوران انکاونٹر آخری لمحات میں انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کہا: ’’ فوج مجھے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہہ رہی ہے لیکن میں ہر حال میں ذلت کی زندگی پر عزت کی شہادت کو ترجیح دوں گا‘‘۔ انھوں نے اپنے والد سے درخواست کی: ’’اباجان، میری نمازِ جنازہ کی امامت خود کرنا‘‘۔ اُن کے والد جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے رکن اور علاقے کے پُرخلوص داعیانِ دین میں سرِفہرست ہیں۔والدین بھی کیسے حوصلہ مند کہ اُن کی ماں اپنے بیٹے کو ہمت اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتی ہیں :’’ بیٹے میرے دودھ کی لاج رکھنا، کسی بھی حال میں بھارتی فوج کے سامنے کمزور نہ پڑنا۔ آپ کی شہادت سے ہماری دنیا عزت اور اُخروی کامیابی کی ضامن بن جائے گی‘‘۔ یوں یہ نوعمر رؤف احمد رات بھر کی لڑائی میں جام شہادت نوش کرگیا۔
ایک اور جنگجو نوجوان اعتماد احمد ملک، جو ایک ریسرچ اسکالر تھے، اور اُنھوں نے کئی اکیڈمک ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے، انھوں نے بھی اسی روز، دوران لڑائی آخری بار اپنے والدگرامی کو فون کرتے ہوئے اپنی ثابت قدمی کی دعا کے لیے درخواست کی۔ جواب میں اُن کے والد نے اپنے اس لاڈلے بیٹے سے کہا کہ :’’بیٹا پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگنا، کل جب میں آپ کی لاش کو دیکھوں تو مجھے گولی آپ کے سینے میں دکھنی چاہیے‘‘۔ اسماعیل ؑ کی یاد تازہ کرنے والے اس بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ: ’’ابو! آپ اگر مجھ سے راضی ہیں تو میرا اللہ بھی مجھ سے راضی ہوگا۔ آپ اطمینان رکھیں میں ان شاء اللہ سینے پر ہی گولیاں کھاؤں گا۔‘‘ اگلے دن جب ہزاروں لوگوں کے جلوس میں اس معصوم مجاہد کی لاش کو اُن کے گھر لے جایا گیا تو والد نے سب سے پہلے اپنے لاڈلے بیٹے کا سینہ دیکھا اور تشکر سے لبریز لہجے میں بلندآواز سے کہا: ’الحمد للہ‘۔ کیوںکہ اُن کے بیٹے نے لڑتے ہوئے گولیاں اپنے سینے پر ہی لی تھیں۔اپنے مجاہد بیٹوں کے ساتھ آخری مرتبہ فون پر ہونے والی یہ یہ گفتگوئیں سوشل میڈیا پر وائرل [عام] ہوگئیں ہیں اور نوجوان ان آڈیو کلپس کو عقیدت کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ اس چیز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل جس جدوجہد میں مگن ہے، وہ اس کے لیے ذہنی اور فکری طور پر کس حد تک جذبۂ آزادی سے سرشار (motivated ) ہے۔
کشمیر کے اہلِ دانش طبقے کے لیے یہ صورتِ حال کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ ہماری نسلیں زندگی پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں۔ بھلا کوئی قوم کیسے یہ گوارا کرے گی کہ اُس کی باصلاحیت نوجوان نسل گاجر مولی کی طرح کٹتی رہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمارے یہ نونہال خطرناک راہ پر گامزن ہورہے ہیں؟ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسیاں ہماری نوجوان نسل کو مایوسیوں میں دھکیل رہی ہیں۔ اُنھیں اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے جب چاروں طرف اندھیرا چھایا دکھائی دیتا ہے اور اُنھیں جب یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی بات سننے اور اُن کے حقوق کی بازیابی کے لیے کسی بھی طرح نئی دہلی تیار نہیں ہے، تو ایسے میں وہ خطرناک راہوں کے مسافر بن جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریک کے دوران جلسے اور جلوسوں میں عوام از خود فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کی حفاظت کیا کرتے تھے ۔جب بھی کسی کیمپ یا پختہ فوجی مورچے [بینکر] کے قریب سے جلوس گزرتا تھا، تواحتجاج میں شامل رضاکار پہلے ہی کیمپ کے سمت کھڑے ہوکر جلوس کو پُر امن طریقے سے آگے بڑھا دیتے تھے۔ لیکن بعد کے برسوں میں جب پُرامن عوامی احتجاجوں پر سختیاں کی گئی، طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا،تو یہی نوجوان جو شہری ہلاکتوں کے باوجود ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کے عوامی احتجاج میں پُر امن رہا کرتے تھے، وہ ۲۰۱۶ء میں ظلم و زیادتیوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے بھارتی حکمرانوںکویہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ کشمیرکی گلیوں میں طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کا خواب اس طرح کبھی سچ ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس طرز عمل سے ہر آنے والا دن بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔
۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءکی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران آزادی پسند لیڈران کا مورال گرانے کے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ سرکاری سطح پر پروپیگنڈاکے ذریعے ایشو بنایا گیا، وہ ابتر حالات کی وجہ سے یہاں نظامِ تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات تھے۔ ایجی ٹیشن کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کے بند رہنے سے بچوں کا تعلیمی کیرئیر برباد ہونے کی باتیں کی گئیں، حالانکہ ان برسوں میں ہڑتالی کال کے بجاے کرفیواور بندشوں کے باعث زیادہ تر دنوں میں تعلیمی ادارے بند رہے تھے۔اب ۲۰۱۸ء سے ایک اورطریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے ،کہ جوں ہی کہیں حالات خراب ہوجاتے ہیں، کسی جگہ بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے ، تو حکومت فوراً تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ گذشتہ برس وزیر تعلیم نے ایک مرتبہ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اسکولوں میں تدریسی عمل جاری رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ، حالانکہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم سرکار اور متعلقہ فورسز ایجنسیوں کا جاری کردہ ہوتا ہے۔گذشتہ برس کے دوران بھی حکومت کی خراب پالیسی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی ہی وجہ سے سال کے اکثر دنوں میںکشمیر کے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل متاثر رہا۔ رواں سال میں بھی سرمائی تعطیلات کے بعد، جب سے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، زیادہ تر دنوں میں سرکاری احکامات کے نتیجے میں تدریسی عمل ٹھپ رہا۔
۱۱؍اپریل ۲۰۱۸ء کو شوپیاں سانحہ کے پس منظر میں کئی دنوں بعد تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا، لیکن جوں ہی کولگام میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی خبریں موصول ہوئیں ، طلبہ کو زبردستی تعلیمی اداروں سے بھگا دیا گیا، حتیٰ کہ سرینگر کے زنانہ تعلیمی اداروں سے طالبات کو بھگانے کے لیے پولیس اُن کے پیچھے ایسے پڑگئی، جیسے وہ بچیاں انسان ہی نہیں۔ جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میںتعلیمی سال مسلسل ضائع کیے جارہے ہیںاور اس کشمیر دشمن پالیسی کے دور رس مضر اثرات بہرحال آنے والے وقت میں ظاہر ہوں گے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ اس لیے کیا جارہا ہے، تاکہ کشمیریوں کی نسلیں تعلیم سے محروم ہوجائیں۔ناخواندگی کے اس بڑھاوے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔عام شہریوں پر ظلم و زیادتیاں نہ ہوتیں، نوجوانوں کی نسل کشی نہ ہوتی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں نہ ہوتیں تو طلبہ اور طالبات سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور نہ ہوتے۔ دنیا بھر میں ظلم و زیادتیوں پر طلبہ کے احتجاج کا چلن عام ہے۔ یہاں کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ زیادتیوں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر پُرامن احتجاج کریں۔ اگر طلبہ کو اپنا احتجاج کرنے کا حق دیا جاتا تو وہ اپنی ناراضی کے اظہار کے بعد کلاسوں میں جاتے اور تدریسی عمل میں مصروف ہوجاتے۔ لیکن اُن کے جمع ہونے سے قبل ہی پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلبہ بھی مشتعل ہوجاتے ہیں اور اس طرح بہانہ بناکر حکومت تعلیمی اداروں کو بند کر کے اہل کشمیر کی نئی نسل کے معاشی و معاشرتی مستقبل اور کیرئیر کو تباہ کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔
صوبہ جموں (کٹھوعہ ضلع) میں ۱۰جنوری ۲۰۱۸ء کو آٹھ سال کی ایک معصوم بچی آصفہ کے لاپتا ہونے اور پھرایک ہفتے کے بعد اس کی لاش جنگل سے برآمد ہونے کی واردات نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا کی۔عوامی دباؤ پر جب ریاستی پولیس کی خصوصی کرائم برانچ نے تحقیقات کے بعدکورٹ میں رپورٹ پیش کی تو اس سانحے کی رُوداد نے پوری انسانیت کو شرمسار کردیا۔ جموں کے بی جے پی سے وابستہ فرقہ پرست لوگوں نے کٹھوعہ کے رسانہ علاقے سے گجر طبقے سے وابستہ مسلمانوں کو بھگانے کے لیے ایک سازش تیار کی۔ یہ سازش مندر کے نگران کی سربراہی میں ترتیب دی گئی۔ علاقے کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے آٹھ سال کی معصوم آصفہ کو اغوا کیا گیا، اسے سات روز تک مندر میں قید رکھا گیا، اس دوران چار درندہ صفت ہندو فرقہ پرست اس معصوم مسلم لڑکی کی عزت تار تار کرتے رہے، اور ساتویں دن آصفہ کو قتل کردیا گیا۔ قتل کرنے سے قبل سازش میں شامل ایک پولیس اہلکار اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ: قتل سے قبل میں آخری بار اس کی عصمت تار تار کرنا چاہتا ہوں، اور وہ اپنا منہ کالا کرکے اس معصوم کلی کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ پھر دوسرا شخص یہ یقین کرنے کے لیے کہ آصفہ واقعی مرگئی ہے؟ اس کے سر پر پتھر کے پے در پے وار کرتا ہے۔جب پولیس ان ملزمان کو گرفتار کرتی ہے تو اُنھیں رہائی دلانے کے لیے بی جے پی سے وابستہ دو لیڈران ایک ریلی نکالتے ہیں، جس میں کھلے عام جموں کے مسلمانوں کو دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء جیسے حالات کے لیے تیار رہیں۔ جموں اور کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن سے وابستہ وکیل کرائم برانچ کوعدالت میں چالان پیش کرنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ بارایسوسی ایشن جموں تین روز تک کورٹ کا بائیکاٹ کرتی ہے اور جموں کا کاروبار زندگی بند کرنے کی کال دیتی ہے۔ یوں بی جے پی سے وابستہ برہمن عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث اپنے کارکنوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیر سویر یہ درندے آزاد ہوکر پھر سے مسلم دشمنی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں گے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں پہاڑ کے سامنے چیونٹی کھڑی ہے۔ کشمیری، ہندستانی طاقت، ظلم او رجبر کا نہتے ہوکر بھی مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، البتہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر مغرور بھارت کا کچھ ہونے والا نہیں۔ پاکستان، مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے، مگر ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی اس ۷۰ سالہ غلامی میں کئی مواقعے ایسے آئے جب آزادی کی منزل بالکل قریب تھی لیکن پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور بے عملی نے اُن سنہری موقعوں کو گنوادیا۔اس وقت بھی پاکستانی حکومت زبانی جمع خرچ کررہی ہے۔ کشمیرکمیٹی کے سربراہ چند بیانات اور حکومت یومِ یک جہتی کے اعلان سے آگے کچھ بھی نہیں کرپاتی ہے۔ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور ابلاغی مدد کرنا اور اُن کی آزادی کو یقینی بنانا پاکستانی حکومت، عوام اور اداروں کی دینی اور قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ اگر پاکستانی حکمران اس نازک ترین موقعے پر بھی کشمیر کے تئیں سردمہری کا اظہار کریں گے، تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پاکستانی سبز ہلالی پرچم کی حفاظت کشمیری نوجوان کررہے ہیں۔ یہاں کے شہدا کا کفن پاکستانی پرچم بن رہا ہے۔ نظریہ پاکستان اور پاکستانی پرچم کی حفاظت کشمیری نونہال اپنا خون دے کررہے ہیں اور اگرپھربھی پاکستانی ریاست اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا نہیں کرے گی، تو اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی عوام اور وہاں کے اداروں کو کشمیر پالیسی کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غوو فکر کرنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جامع مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، مگر پانی کے مسائل پر گذشتہ دنوں ’سندھ طاس مشترکہ کمیشن‘ کا نئی دہلی میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے چند روز قبل بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نیتن گڈکری نے ہریانہ کے کسانوں کو پانی کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا: ’’اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر راوی، بیاس اور ستلج دریائوں کے پانی کو بھارت میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے گا ‘‘۔
دو سال قبل بھارت نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پاکستان کی طرف جانے والے دریائی پانی کی تقسیم کے معاملے پر خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: ’’پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ ۱۹۶۰ء میں طے شدہ ’سندھ طاس آبی معاہدہ‘ ماضی میں کئی جنگوں اور انتہائی کشیدگی کے باوجود سانس لے رہا ہے، اس کی ازسرِنو تشریح کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ اس معاہدے کی رُو سے بھارتی پنجاب سے بہہ کر پاکستان جانے والے دریائوں: بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا، اور کشمیر سے بہنے والے دریا، یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ضروریات کے لیے وقف کردیے گئے تھے۔ ایسے منصوبے جن سے ان دریائوں کی روانی میں خلل نہ پڑے، اس کی اجازت معاہدے میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
۱۹۵۰ء سے قبل پانی کے حصول کے حوالے سے پاکستان خاصی بہتر حالت میں تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق فی کس ۵۲۶۰ کیوبک میٹر پانی پاکستان میں دستیاب تھا، جو ۲۰۱۳ء میں گھٹ کر فی کس ۹۶۴کیوبک میٹر تک رہ گیا۔ یعنی صرف ۶۶برسوں کے اندر اندر ہی پانی کی دولت سے مالامال یہ ملک شدید آبی قلت کے زمرے میں آگیا۔ اس کی وجوہ آبادی میں اضافہ، غیر حکیمانہ منصوبہ بندی، پانی کے وسائل کا بے دریغ استعمال، قلیل سرمایہ کاری، موجودہ ذخیروں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی بروقت صفائی میں کوتاہی اور اندازے سے بڑھ کر سلٹنگ، کے علاوہ ریاست جموں و کشمیر میں پانی کے مرکزی مآخذ پر ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ وادیِ کشمیر کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس سال برف کی صرف ایک ہلکی سی تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ موسمِ سرما میں معمول کی سطح سے نہایت ہی کم برف باری کا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے، جسے کشمیر کے نشیبی علاقوں بشمول پاکستان کے کسانوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے۔ کشمیر کے ندی نالوں میں اس سال پانی کی سطح بہت ہی کم ہوچکی ہے۔ بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر کے محکمہ آب پاشی نے حال ہی میں ایک باضابطہ ایڈوائزری جاری کر کے شمالی کشمیر کے کسانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’اس سال دھان کی کاشت کے لیے محکمہ پانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا‘‘۔اس لیے کسان ’’دھان کی جگہ کوئی اور متبادل فصل اُگائیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ سندھ طاس کمیشن کی میٹنگ میں یہ ایڈوائزری پاکستان کوبھی دی گئی ہوگی۔ محکمہ آب پاشی کے چیف انجینیر شاہ نواز احمد کے بقول: ’’دریاے جہلم میں پانی کی سطح ریکارڈ لیول تک گرچکی ہے۔ سری نگر کے پاس سنگم کے مقام پر جہاں دریا کی سطح اس وقت چھے فٹ ہونی چاہیے تھی، محض ۱ء۴ فٹ ہے۔ ضلع کپواڑہ کے ندی نالوں میں ۱۰ فی صد پانی کی کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔
وادیِ کشمیر میںآنے والے مہینوں میں خشک سالی کا پاکستان کے کسانوں پر اثرانداز ہونا لازمی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے مراکز، یعنی جموں و کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے ۶۰برسوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سری نگر کے نواح میں بڑی نمبل، میرگنڈ، شالہ بوگ، ہوکرسر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہوچکے ہیں۔ ان کے بیش تر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، اس پر اب ایک پُررونق شاپنگ مال کھڑا ہے۔ کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالہ نہیں ہے، جس میں پچھلے ۷۰برسوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چندسال قبل ایکشن ایڈ کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ: ’’اکثر جگہ پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہائو فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ کوہِ ہمالیہ میں گلیشیروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دُنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی اور جنگی فضا کے باعث ان پر سرکاری رازداری کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق محدود ہوجاتی ہے۔ چین کے علاقے تبت، نیپال، بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور اتراکھنڈ، نیز جموں و کشمیر وغیرہ، جو ہمالیائی خطے میں آتے ہیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق ۱۵ہزار گلیشیرزہیں،جو دُنیا کے عظیم دریائی سلسلوں، میکانگ، برہم پترا، گنگا اور سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ۳۱۳۶ گلیشیر کشمیر کے کوہساروں کی پناہ میں ہیں۔ بھارت میں دریاے گنگا اور اس کے گلیشیرز کو بچانے کے لیے بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پُرعزم ہیں ۔
دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ: ’سندھ طاس‘ گلیشیرز کی حفاظت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاترائوں کے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے ایک کھرب ۲۰ ارب روپے مختص کیے۔ ۲۰۰۸ء میں اتراکھنڈمیں بی جے پی حکومت نے دریاے گنگا کے منبع پر ہندوئوں کے مقدس استھان گومکھ گلیشیر کو بچانے کے لیے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کردیں، جس کی رُو سے اب ہر روز صرف ۲۵۰یاتری اور سیاح گومکھ کا درشن کرپاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہرسال روزانہ تقریباً ۲۰ہزار یاتری کشمیر میں سندھ طاس ندیوں کے منبع کولاہی اور تھجواسن گلیشیر کو روندتے ہیں۔
۵۰سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً ۸ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا، وہ آج گھٹ کر صرف ۴ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال پہاڑی سلسلے میں تو شاید ہی کوئی گلیشیر باقی بچا ہے۔ اسی طرح اب بی جے پی حکومت ایک اور روایت قائم کرکے پیرپنچال کے پہاڑوں میں واقع ’کوثر ناگ‘ کی یاترا کی بھی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پھر ایک گروہ تو آزاد کشمیر میں واقع شاردا کو بھی اس یاترا سرکٹ میں شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفاف اور آلودگی سے پاک ’کوثر ناگ‘ پانی کا چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریاے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض عاقبت نااندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوموں، نیز حکومت نے ’امرناتھ یاترا‘ کی طرح ’کوثر ناگ‘ یاترا چلانے کا اعلان کر ڈالا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ: ’’اگر امرناتھ کے مقدس گپھا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔ لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے دہلی حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی سے امرناتھ بھیج رہی ہے۔ نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کو ایک ماہ اور زائرین کی تعداد ایک لاکھ تک محدود کی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دی اور اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔ آیندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا ، اب ایک مذہبی سبھا کے بجاے ’ہندوتوا‘ غلبے کا پرچم اُٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے۔ کولہائی گلیشیر ۱۱ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلومیٹر تک سکڑ گیا ہے اور چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہوگا۔ ’امرناتھ گپھا‘ اسی گلیشیر کی کوکھ میں واقع ہے۔
ایک اور حیرت ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پچھلے ۳۰برسوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پراجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت اور تحفظ پر غوروخوض ہوا ہے۔ سوپور اور بانڈی پورہ کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقوں کے کسانوں کے لیے یہ ایک طرح کا واٹر بنک ہے۔ جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریاے جہلم پوری طرح وولر میں جذب ہوجاتا ہے، اور سوپور کے نواح میں ایک بار پھر سے تازہ دم ہوکر بارہ مولا سے ہوتے ہوئے، اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ بھارتی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمایش ۱۸۹ مربع کلومیٹر درج ہے، ’سروے آف انڈیا‘ کے نقشے میں اس کا رقبہ ۵۸ء۷ مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے اور کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمایش ۱۳۰مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں ۶۰مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یا زرعی زمین ہے۔ ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول: ’’اس کا رقبہ اب صرف ۲۴مربع کلومیٹر تک محیط ہے‘‘۔ سیٹلائٹ تصاویر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی ہے۔ پانی اور ماحولیاتی بربادی کی اس تصویر سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش کن صورت پیدا ہوسکتی ہے، مگر اور بھی زیادہ حیرت ناک صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ابھی تک قدرتی وسائل کی حفاظت کی سمت میں بات چیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ چارسال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی، اور اس کے بعد گہری نیند کا سماں ہے۔
کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں اور کارخانوں کو ملتا ہے، اور انھی کی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔ اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظوں کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔ دونوں ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ’سندھ طاس معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی خاطر باہم مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔ کشمیر کے بعد اس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے۔ اس خطے میں ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرے گی اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ ضیاع ہوگا۔ اس لیے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہےکہ اتنے اہم معاملے پر بھارت اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطرخواہ دل چسپی کیوں نہیں لی جارہی؟ دونوں ممالک کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ’سندھ طاس آبی معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر کوئی پاے دار نظامِ کار وضع کریں، تاکہ کنٹرول لائن کے دونوںطرف رہنے والوںکو سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچایا جاسکے، جب کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت جیسے اُمور بین الاقوامی سفارتی گفت و شنید کا لازمی جز بن چکے ہیں۔
مسلمانوں کو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مسائل و حالات سے واقف رہنے کاپورا اہتمام کریں۔ یہاں تک کہ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اُمور سے واقف نہ ہو اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں کے مصائب کے بارے میں جانیں اور جو ممکن ہو اس سے دریغ نہ کریں۔ملک شام سے وابستگی کا حکم بھی ہے۔ حدیث میں حکم ہے: عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ (صحیح ابن حبان، مناقب الصحابۃ، حدیث ۷۴۱۳) یعنی شام سے تمھارا خصوصی تعلق ہونا چاہیے۔ پھر شام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یَجْتَبِی اِلَیْہَا خِیْرَتُہٗ مِنْ عِبَادِہِ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث ۲۱۳۷) یعنی اللہ کے بہترین بندے اس سرزمین کے لیے چنے جاتے ہیں۔آج اگر احساس کی شدت موجود ہے تو ہزاروں کلومیٹر کی دُوری سے مظلومین شام کا یہ نوحۂ غم جو کبھی بیوہ کی زبان سے اور کبھی یتیم کی زبان سے یا کسی غم نصیب کی صد ابن کر بلند ہوتا ہے، ہمارے کانوں تک پہنچ سکتا ہے۔
شام بحیرہ روم کی مشرقی کنارے پر واقع ایک بے حد خوب صورت اور شاداب ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان اور شمال میں ترکی ہے اور مشرق میں عراق ہے اور جنوب میں اُردن واقع ہے۔ یہ ۲کروڑ کی آبادی کا ملک ہے۔ اس میں ۹۰ فی صدسے زیادہ مسلمان ہیں۔ غالب اکثریت سنیوں کی ہے۔ یہاں خلیجی ملکوں کی طرح دولت کی فراوانی نہیں ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں میں شرافت ہے اور دل جوئی اور دل نوازی بھی۔
۱۹۷۱ء میں حافظ الاسد نے شام کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اسد علوی تھا اور فوج میں ملازم۔ چوںکہ فوج میں علویوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اس لیے اس نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دینی ذہن رکھنے والوںاور اخوان کو کچلنا شروع کیا۔ ۲۰۰۰ء میں اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد تخت اقتدار پر بیٹھا اور اس نے باپ سے زیادہ ظلم کیے۔ کسی کو تحریر وتقریر کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سیرت النبیؐ کے جلسے بھی بندمکانوں میں منعقد ہوتے تھے۔ بشار الاسد کے مظالم کے خلاف ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ ء کوشام میں مظاہرے شروع ہوئے،جن کو اس نے کچل دیا۔پھر پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور طاقت سے ان پُرامن مظاہروں کوروکنے کی وجہ سے بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ملک کی سرزمین کا ۸۰ فی صد حصہ بشار کے قبضے سے نکل کر ’باغیوں‘ کے قبضے میں چلا گیا، جن کی قیادت کرنے والوں میں دینی ذہن کے لوگ اور اخوان المسلمون کے لیڈر تھے۔
بشار کے ہٹنے کے بعد اخوان کا برسرِاقتدار آنا اسرائیل کے لیے شہ مات کے مترادف تھا۔ چنانچہ مذاکرات کی میز سے ان چہروں کو ہٹایا گیا جن پر دینی رنگ تھا۔ لہٰذا دینی ذہن کے مجاہدین نے جبہۃ النتصرۃ، جیش الاسلام اور فیلق الشام وغیرہ کے نام سے اپنی تنظیمیں قائم کرکے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور پھراسرائیل، ر وس اور امریکا دونوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا، جب کہ شامی فوج کے نشانے پر وہ پہلے سے تھیں۔ ان جماعتوں نے نام نہاد مذاکرات سے خود کو الگ رکھا اور مذاکرات کا منصوبہ بنانے والوں نے بھی ان سے زیادہ دل چسپی نہیں لی۔
آج شامی مسلمانوں کی تکلیف اور غم سے سارے مسلمان غم زدہ ہیں۔ دنیا میں بہت سے خطۂ ارض ہیں جہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن پھر یہ قتل وغارت گری ایک دن رُک جاتی ہے، البتہ ایک سرزمین ایسی ہے جہاں خوں ریزی رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔ دن،ہفتے، مہینے اور برس گزر جاتے ہیں لیکن خون کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔ قاتل کا دست سفاک قتل سے بازنہیں آتا ہے۔ پہلے درعا، پھر دیر الزور، پھر حلب اور اب غوطہ دمشق۔ پہلے بھی جان بچانے کے لیے لوگ سمندروں میں کود گئے تھے اور کشتیاں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ ایلان کردی جیسے بچوں کی لاشیں انسانیت کو پکارتی رہیں ،اور حلب میں ملبے کے نیچے دبا ہوا بچہ احمد اپنی معصومیت کے ساتھ آوازیں دیتا رہا ۔پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ معصوم بچے مارے گئے۔ اب پھر وہی شام ہے ، وہی شب ِخون ہے اور وہی خون آشامی ہے۔غوطہ میں ظلم وتشدد کے طوفان سے ہرشخص لہولہان ہے۔ سکونتی عمارتیں مسمار ہو گئی ہیں، مسجدیں شہید ہوگئی ہیں، اسپتال منہدم ہوگئے ہیں۔ اس بار غوطہ میں خون کی ندی میں مظلوم شامی مسلمان غوطہ زن ہیں۔ شام کے کماندار ناوک فگن ہیں اور حاکمِ شام کے فوجی کھلے آسمان سے بمباری کرکے سیکڑوںمعصوم انسانوں کی زندگی کا چراغ بجھارہے ہیں۔ یہ سلسلہ۲۰۱۱ء سے شروع ہوا جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ گذشتہ چند روز کے اندر غوطہ میں ۱۸۰۰ اشخاص کی زندگی کا چراغ گل ہوچکا ہے۔ ۸لاکھ افراد شام میں ظالم بشار الاسد اور اس کے حلیفوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ ۴۰لاکھ سے زیادہ ہجرت کرچکے ہیں۔ اب تک لاکھوں زندگیاں ایک حکمران کی ضد اور رعونت کے آگے قربان ہوچکی ہیں اور لاکھوں انسان اپنا گھر بار، اپنی تجارت اور ملازمت چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ اب نہ ان کا کوئی گھر ہے، نہ دَر ہے۔بس سر کے اُوپر خیموں کا سائبان ہے جو پڑوسی ملک ترکی نے اپنے یہاںمہیا کردیا ہے۔
دنیا میںبدی اور خباثت کی ایک بڑی علامت بشار الاسد ہے، جس کی فوج ہر طرف ملک میں رقص بسمل کا تماشا دکھا کر اب غوطہ میں عمارت شکن اور زمین شگاف بمباری میں مصروف ہے۔ جس میں ہر روز سیکڑوں مرد اور عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔ دھماکوں اور شل باری سے زمین پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بموں کا دھواں آسمان تک بلند ہورہا ہے۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہورہی ہیں۔غوطہ ایک ملبے سے تبدیل ہورہا ہے اور اس کے بڑے حصے پر اب شامی فوج کا قبضہ ہے۔روسی مشیرکار بھی بشار کی رہنمائی اور کمک کے لیے بر سرِ موقع موجود ہیں۔دنیا میں مختلف تنظیمیں اس ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کررہی ہیں لیکن مسلم دُنیا کی طرف سے احتجاج کی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ہے، جیسے شامی ان کے بھائی نہ ہوں دشمن ہوں۔ اقوام متحدہ نے ایک ماہ کی جنگ بلندی کی قرار داد منظورکی ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہ دارد۔ بعض طاقتیں روس سے مداخلت کی اپیل کررہی ہیں۔
شام اس وقت ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے اعضا کٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں اور اس کے جسم کو مثلہ کرنے میں تمام چھوٹی بڑی طاقتیں شریک ہیں۔شام کے مزاحمتی گروپ جس میں اسلام پسند بھی شامل ہیں، اس کو توڑنے میں سب متحد ہیں۔ حلب ہو یا درعا، حمص ہو یا دیر، الزور ہو یا غوطہ، ہر جگہ زمین خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔سقوط شام پر عرب اسلامی دنیا میں سکوت طاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان عرب مسلم ملکوں پر مرگِ غیرت اور مرگِ حمیت اورمرگِ دوام طاری ہے۔ اگر شام میں آبادی بجاے مسلمانوں کے عیسائیوں پر مشتمل ہوتی اور ان کے ساتھ یہ خوں ریزی اور خون آشامی کا معاملہ ہوتا تو دنیا چیخ اُٹھتی۔ شام کی جنگ کے تمام فریق، مسلمان مجاہدین مزاحمتی گروپ اور ترکی کو چھوڑ کر،سب خوش ہیں کہ اسلام کا نام لیے بغیر مسلمانوں کے جسم کی تکابوٹی کی جارہی ہے،اور ان بڑی طاقتوں کوخوب معلوم ہے کہ پڑوس کے عرب ملک بے طاقت اور بے حیثیت ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ عشرت کدوں میں داد عیش دینے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔
شام وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ظلم وستم کے بہت سے خونیں پنجے پیوست ہیں۔ داعش کو ختم کرنے کے نام پر روس اور امریکا دونوں مسلسل شہری علاقوں پر بم باری کرکے عمارتوں کو منہدم کرتے رہے ہیں۔ مسجدوںاور اسپتالوں تک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان دونوں آقائوں کی فضائی سرپرستی میں بشار الاسد کی فوج فتح کا جھنڈا بلند کرتی رہی ہے۔ یہ سب طاقتیں مل کر خون کی ہولی کھیلتی رہی ہیں۔بالکل ابتدا میں جب یہ بیرونی طاقتیں میدان میں نہیں کودی تھیں، شام کے مجاہدین نے جنھیں ’باغی‘ کہا جاتا ہے، ملک کے ۸۰ فی صدی علاقوں پر زمینی قبضہ کرلیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پورے ملک شام پر ان کا قبضہ اب چند روز کی بات ہے۔ یہ اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت بات تھی اور اسرائیل کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا تھا۔۔ بشار الاسد کے ظالمانہ رویے کے باوجود دنیا کی طاقتیں اسی پیکرِ ظلم حاکم کو برسرِاقتدار دیکھنا چاہتی ہیں اور ایران کے نزدیک بشار کا اقتدار خواہ وہ کیسا ہی بُرا ہو، سُنّی اقتدار سے بہتر ہے۔
شام میں جن لوگوںکے ہاتھ میں انقلاب کی قیادت تھی ان کی ذہنی اور فکری وابستگی اخوان المسلمون کے ساتھ تھی اور خلیج کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انھیں لفظ اخوان کے ’الف‘ سے بھی ڈر لگتا ہے، اور اسی لیے انھوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں بڑی طاقتوںکی پوری مدد کی۔ خلیجی حاکموں کے بعض کفش بردار مفتی حضرات اخوان پر اور ان تمام علما پر جو اخوان کے طرف دار تھے دہشت گردی کا الزام لگاتے رہے۔علم دین اور افتا کی ایسی رُسوائی چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوگی۔
مصر ہو یا تیونس، لیبیا ہو یا شام، ہر جگہ انقلابات کی اصل وجہ وہ شدید ظلم ہے جو ان ملکوں میں حاکم اپنے عوام پر ڈھاتے تھے اور کسی کو شکایت کرنے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آزادیِ تحریر وتقریردنیا میں تمام ملکوں میں ہر انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کی جمہوریت کے نقطۂ نظر سے بھی اور اسلامی شریعت کے اعتبار سے بھی شکایت، احتجاج اور تنقید ہرشہری کا بنیادی حق ہے، لیکن شام میںاور بہت سے ملکوں میں انسانیت کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون رائج ہے۔ وہاں ہر طاقت ور حکمران کمزور پر ظلم کرنے کا عادی ہے۔
بعض دانش وروں کا کہنا ہے کہ دینی ذہن اور تحریک کے لوگوں کوشام میں اور کئی ملکوں میں شکست کا سامنا ہوا، کیوںکہ جب تک طاقت کا توازن نہ ہو اور حکومت سے مقابلے کی طاقت نہ ہو، انقلاب کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بشار کی ظالمانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے شام میں کامیابی کی دہلیز تک پہنچ گئے تھے، مگر یہ بیرونی طاقتیں تھیں جو بشارحکومت کی کمک پر آگئیں۔ حزب اللہ کے رضاکار، بشار حکومت کو بچانے کے لیے شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے سامنے آگئے۔ اس پر بھی انقلاب بردار مجاہدین اور باغیوں کا پلڑا بھاری ہورہا تھا۔ اب شامی حکومت نے روس کو دعوت دی کہ وہ آئے اور گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دے۔ روس ایک عالمی طاقت ہے، اسے اپنے روایتی حلیف شام کی مدد بھی کرنی تھی اور افغانستان میں شکست کا بدلہ بھی لینا تھا، اور ملک شام میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت بھی کرنی تھی۔
’داعش‘ کے نام پر روس نے شام کی مزاحمتی فوج پر خوب بمباری کی اور یہ مزاحمتی فوج وہ ہے جو بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔روسی طیارے آسمان سے مجاہدین اور مزاحمتی فوج پر جنھیں ’فری سیریین آرمی‘ بھی کہا جاتا ہے آگ برسانے لگے اور پھر حلب انقلابیوں یا باغیوں یا ’فری سیریین آرمی‘ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ شام میں جو جنگ کا منظرنامہ ہے وہ چھوٹے پیمانے پر عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے۔ یہاں روس بھی بشار کی حمایت میں بمباری کر رہا ہے اور داعش سے کہیں زیادہ مزاحمتی گروپ کو نشانہ بنارہا ہے، اور امریکا نے بھی اپنی فضائی فوج ملک کی ویرانی میں اضافہ کرنے کے لیے لگا دی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شام میں آزادی اور انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والوں نے بشار الاسد سے شکست کھائی ہے۔ انھوں نے تو بشار الاسد کو زمین کے بڑے حصے سے بے دخل کردیا تھا۔ انھوں نے دراصل روس اور امریکا اور حزب اللہ کی متحدہ فوج سے شکست کھائی ہے۔ محدود پیمانے پر ترکی کی فوجی مداخلت بھی سرحد پر کردوں پر کنٹرول کرنے کے لیے موجود ہے۔ یہ کرد وہ ہیں جو ترکی میں بھی خلفشار پیدا کرتے ہیں اور امریکا کی ہمدردیاں کردوں کے ساتھ ہیں۔ مرنے والے سب شام کے مسلمان ہیں۔ رات دن مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہےاور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سقوطِ شام پر اسلامی عرب دنیا میں مرگِ دوام اور سکوت کی کیفیت ہے۔
مسلم دنیا کے خلاف عالمی سازش ہے۔ مغربی ملکوں نے مسلم ملکوںکو اپنا آلۂ کار بنایا ہے۔ خلیجی ملکوں کی مدد سے جمہوری اور دستوری حکومت کا مصرمیں تختہ اُلٹا گیا۔ سعودی عرب کے ذریعے قطر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے لیے ہندستان کو فضائی راہ داری بھی دے دی ہے اور پھر’معتدل اسلام‘ کا نعرہ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کا جال کس قدر جکڑچکا ہے اس پورے خطے کو! ایک زمانے میں یہاں پر اخوان المسلمون کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوا کرتے تھے اوراب اخوان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کہ امریکی آقا یہی چاہتے ہیں۔
اسلام اور مسلمانوںکا درد ترکی کو ضرور ہے، لیکن امریکا نے ترکی میں انقلاب کی سازش کرکے طیب اردگان کو محتاط کردیا ہے۔ شام اس کے لیے پل صراط ہے اور اسے سنبھل کرکے چلنا ہے اور اس نے اپنی جنگ کرد ملیشیا تک محدود رکھی ہے۔ تاہم، اس نے لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دے کر نیکی اور شرافت اور وسیع القلبی اوردینی حمیت کا سب سے بڑا ثبوت فراہم کیا ہے۔
شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود عملی طور پر بم باری جاری ہے۔آزادانہ انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کا وقت کب آئے گا، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ امریکا کی فوجی مداخلت بھی روس کی جارحیت کو روک نہیں سکی ہے۔ترکی کی زیادہ پیش قدمی ایران کے لیے دعوت مبازرت بن جائے گی۔ بظاہرابھی اُفق پر اندھیرا ہے۔ سفینہ ساحلِ نجات تک کب پہنچے گا،کسی کونہیں معلوم۔ جب ہر ’ناخدا‘ سے اُمید کا سر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تب غیب سے خدا کی کارسازی کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ(ھود۱۱:۱۰۷) ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۰ۭ (الفتح۴۸:۴) ’’آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں‘‘۔