’’الزام لگایا جا رہا ہے کہ طیب اردوان آمر بننا چاہتا ہے۔ اردوان ایک فانی انسان ہے، اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ۱۶؍اپریل تک زندہ بھی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم ملکی نظام میں دُور رس اصلاح لانا چاہتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آمر ووٹ کی پرچیوں اور عوام کی حقیقی راے کے ذریعے نہیں آیا کرتے‘‘___ ترک صدر رجب طیب اردوان ۱۶؍اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا جواب دے رہے تھے۔ یہ دن اب ترک تاریخ کے اہم ترین دنوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اس روز ۸۰ فی صد سے زائد عوام نے دستوری ترامیم کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے بالآخر پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان ترامیم کی تفصیل سے پہلے آیئے ذرا اس جوہری تبدیلی کا پس منظر تازہ کرلیں۔
۹۳سال قبل مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نے اذان، نماز اور قرآنِ کریم سمیت تمام دینی شعائر پر پابندی عائد کر دی۔ اس نے اپنی پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت بنانے پر بھی پابندی لگادی۔ اتاترک کے اس نظام اور پالیسیوں کے خلاف سب سے پہلی بغاوت اس کی اپنی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی عدنان مندریس اور اس کے ساتھیوں نے کی۔ انھوں نے اتاترک کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں اپنی الگ ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ (DP)بنا لی۔ ۱۹۵۰ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے اذان، نماز اور قرآن کی تلاوت پر لگی پابندی ختم کر دی اور ملکی تعمیروترقی کے سفر میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے ۱۰سالہ دورِاقتدار کے بعد ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ۳۸ فوجی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ۲۳۵ جرنیلوں سمیت ساڑھے پانچ ہزار فوجی افسر ملازمت سے فارغ کر دیے۔ صدر جلال بایار کو عمرقید اور وزیراعظم عدنان مندریس کو تین ساتھیوں سمیت دُوردراز جزیرے میں لے جاکر ۱۶ستمبر ۱۹۶۰ء کو پھانسی دے کر وہیں دفن کر دیا (۱۷؍اپریل ۱۹۹۰ء کو وزیراعظم ترگت اوزال نے ان کا جسد ِ خاکی وہاں سے لاکر استنبول میں دفن کیا۔ اسمبلی نے باقاعدہ قانون سازی کرتے ہوئے انھیں شہید ِ وطن قرار دیا اور انھیں دی گئی سزاے موت کو غلط قرار دیا)۔
ظلم و جبر، محلاتی سازشوں، پے درپے فوجی انقلابات اور اتاترک ذہنیت کے ہرمخالف پر رجعت پسندی و شخصی اقتدار کے الزامات پر مشتمل ترک تاریخ کے مزید کئی ابواب رقم کیے جانے لگے۔ اتاترک سے لے کر آج تک کے ۹۳سالہ عرصے میں ۶۵ حکومتیں بنائیں اور ختم کی گئیں، یعنی ہرحکومت کی اوسط عمر تقریباً ۱۷مہینے رہی۔ عدنان مندریس، ترگت اوزال اور طیب اردوان کے عہد ِ حکومت نکال دیے جائیں تو، فی حکومت یہ عرصہ ایک سال سے بھی کم رہ جائے۔ کئی بار دستوری ترامیم کی گئیں۔ ۱۹۶۱ء اور ۱۹۸۲ء میں ان ترامیم کے لیے عوامی ریفرنڈم بھی کروائے گئے لیکن ملک کو ہمیشہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا رہا۔ مختلف قائدین نے اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش و کوشش کی لیکن کسی کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ خود صدر طیب اردوان کو گذشتہ سال جولائی میں خونیں فوجی انقلاب کا نشانہ بنایا گیا۔ ۲۴۰ بے گناہ ترک شہری شہید اور سیکڑوں زخمی کر دیے گئے۔ ربِ ذوالجلال کی حفاظت نہ ہوتی تو اردوان بھی کسی صورت بچ نہ سکتے۔
اس تناظر میں صدر طیب اردوان نے اعلان کیا کہ وہ ترک جمہوریہ کے ۱۰۰سال پورے ہونے تک ترکی کو پھر سے دنیا کی کامیاب ریاست بنادیں گے۔ ان کے عہد ِ اقتدار میں ہونے والی بے پناہ ترقی اور حالیہ دستوری ترامیم ان کے اسی خواب کا حصہ ہیں۔ ان ترامیم میں ۱۸شقیں شامل ہیں۔ اس کا اہم ترین پہلو عوام کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے صدرِ مملکت کو سربراہِ حکومت بنانا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کے اصل کام، یعنی حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے اور قانون سازی کرنے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یہ جوہری تبدیلی ترکی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی تاریخی ربط کو واضح کرتے ہوئے ریفرنڈم کے اگلے روز صدر اردوان نے استنبول میں مدفون صحابیِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری کی روشنی میں فتح قسطنطنیہ کی کوششوں میں شریک ہوکر شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے۔ ان کے بعد وہ فاتح قسطنطنیہ اور خلافت عثمانیہ کے بانی محمد الفاتح کی قبر پر گئے۔ پھر پھانسی پانےوالے سابق وزیراعظم عدنان مندریس، سابق صدر ترگت اوزال اور سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قبر پر گئے۔ ان کی یہ فاتحہ خوانی اس بات کی علامت تھی کہ جس تبدیلی کے لیے آپ سب کوشاں رہے، آج ہم اس کا عملی آغاز کرچکے ہیں۔
حالیہ ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد ۵۵۰ سے بڑھا کر ۶۰۰ کردی گئی ہے۔ اس طرح ارکان اسمبلی کا حلقۂ انتخاب مختصر کرتے ہوئے انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ چوں کہ اب پارلیمنٹ کو تمام تر سیاسی جوڑتوڑ سے پاک کر دیا گیا ہے، اس لیے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بہتر کارکردگی کا موجب بنیں گی۔پارلیمنٹ صدر، اس کے نائبین اور وزرا کا احتساب کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے صدر کے مواخذے کے اعلان کے بعد صدرِ مملکت نئے انتخابات کا اعلان بھی نہیں کرسکے گا۔ انتہائی ناگزیر حالات میں اگر صدر اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہے گا، تو اسے صرف پارلیمانی انتخابات ہی نہیں، صدارتی انتخابات بھی دوبارہ کروانا ہوں گے، یعنی خود بھی جانا ہوگا۔ حالیہ ترامیم کے مطابق صدر اور پارلیمنٹ ایک ہی روز ہونے والے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوا کریں گے۔ واضح رہے کہ حالیہ پارلیمانی اور صدارتی مدت کو ۲۰۱۹ء میں ختم ہونا ہے اور ابھی سے آیندہ انتخابات کی تاریخ طے کردی گئی ہے جو ۳نومبر ۲۰۱۹ء کو ہوں گے۔ ان ترامیم کے ذریعے تمام فوجی عدالتیں ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسی عارضی عدالتوں کا قیام صرف حالت ِ جنگ میں کیا جاسکے گا۔
حالیہ ترامیم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی ۱۸ شقوں میں سے ۱۶شقیں ۳نومبر ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نافذالعمل ہوں گی۔ فی الحال صرف دو شقوں پر عمل درآمد ہوگا۔ ایک تو یہ کہ صدرِ مملکت اگر چاہے تو وہ کسی سیاسی پارٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ گویا یہ منافقت ختم کر دی گئی کہ صدرِ مملکت عملاً تو اپنی پارٹی کا مدار المہام تک رہتا ہے، لیکن بظاہر یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں۔ سیاسی وابستگی کی اجازت کا مطلب ہے کہ اب صدر اردوان اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رکن بلکہ سربراہ بھی بن سکیں گے۔ دوسری شق جس پر فوری عمل درآمد ہوگا وہ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ اس وقت بھی تمام ججوں کا تعین صدرِمملکت کی منظوری ہی سے ہوتا ہے، لیکن آیندہ صدر کو ۱۰ میں سے ۴ جج اپنی صواب دید پر مقررکرنے کا اختیار ہوگا۔
ایک طرف طیب اردوان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں ایک فانی انسان ہوں جسے اپنے کل کی خبر نہیں، دوسری طرف ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ اردوان نے ۲۰۲۹ء تک اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ حقیقت دیکھیں تو الزام لگانے والوں کی فہم و فراست پر شک ہونے لگتا ہے۔ صدرِمملکت کا عہدہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ حالیہ ترامیم کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ الزام لگانے والے گویا ابھی سے اعترافِ شکست کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ۳نومبر۲۰۱۹ء کو ہونے والے انتخابات میں طیب اردوان جیت جائیں گے اور پھر پانچ سال بعد ۲۰۲۴ء میں بھی وہی صدر منتخب ہوں گے، اور اس طرح ۲۰۲۹ء تک وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے۔
طیب اردوان فرشتہ نہیں، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے۔ غلطیاں کرتا بھی ہے اور کربھی سکتا ہے لیکن ان پر آمریت کا الزام لگانے والے مغرب کا حال ملاحظہ ہو۔ ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار اب بھی امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں براجمان ہیں۔ ترک حکومت کے مطابق فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد اب اندرونی خلفشار کی لہر کے پیچھے بھی ان کا واضح کردار ہے۔ مغرب جو خود کو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کا ہیرو سمجھتا ہے، حالیہ دستوری ریفرنڈم کے موقعے پر یورپ میں مقیم ترک عوام کو اس کے حق میں بات کرنے سے روک دیا گیا۔ خود ترک وزیرخارجہ کا جہاز ہالینڈ میں اُترنے سے روک دیا گیا تاکہ وہ اپنے شہریوں سے ریفرنڈم کے بارے میں بات نہ کرسکیں۔ ترک خاتون وزیر کار کے ذریعے ہالینڈ جانے میں کامیاب ہوگئیں، تو ترک قونصل خانے سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر انھیں روک کر زبردستی واپس بھجوا دیا گیا۔ یورپ میں تقریباً ۴۰لاکھ ترک شہری رہتے ہیں۔ خدا کی شان دیکھیے کہ یورپ کے تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بیرونِ ملک مقیم ترک شہریوں کی غالب اکثریت نے دستوری ترامیم کے حق میں راے دی۔
اب ایک بار پھر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت پر بحث کی جارہی ہے۔ ترکی ہی نہیں خود اسلام اور مسلمانوں کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یورپ کے کئی اہم ممالک میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے۔ تقریباً ہر جگہ انتہاپسند سیاسی جماعتیں شدومد سے اسلام پر الزام تراشی کرر ہی ہیں۔
جرمنی میں اپنے آپ کو ’متبادل‘ کے طور پر پیش کرنے والی جماعت کے رہنما بیاٹریکس فون شڑوگ کا فرمانا ہے کہ’’اسلام کوئی مسیحت کی طرح کا باقاعدہ دین نہیں بلکہ چند افکاروخیالات کا مجموعہ ہے جو ریاست کو زبردستی مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ اسلام جرمنی کے لیے ایک سنگین خطرہ اور جرمنی کے دستور سے متصادم ہے۔ فرانس کے سابق صدر نیکولا سرکوزی کا ارشاد ہے کہ ’’یورپ کسی طرح ایسے ملک کو اپنا حصہ نہیں بناسکتا جو ۷۰ملین مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘۔ جرمن چانسلر میرکل، گاہے مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کرتی دکھائی دیتی ہیں، یورپی یونین میں ترک رکنیت کے بارے فرماتی ہیں کہ ’’ہم ترکی کو رکنیت نہیں دیں گے لیکن اس سے مذاکرات بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔ گویا وہی پالیسی جو مقبوضہ فلسطین میں نیتن یاہو یا اس کے پیش رو صہیونی رہنمائوں کی رہی کہ فلسطینیوں کو لاحاصل مذاکرات میں اُلجھائے رکھو اور ان کا قتل عام بھی جاری رکھو۔
اپنے عوام کی تائید اور ملک میں ایک مستحکم و مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے کے بعد صدر طیب اردوان نے بھی دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی راے معلوم کرنے کے بعد ہم یورپی یونین کے ساتھ ان مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔ اس صورتِ حال پر کئی یورپی دانش وروں نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فرانس کے انسٹی ٹیوٹ براے عالمی تعلقات کے نائب صدر دیدیہ پیلیون کا کہنا ہے کہ ’’یورپی یونین ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے، کوئی مسیحی پلیٹ فارم نہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے ایسی آوازیں اُٹھنا کہ ہمیں ترکی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا چاہیے، یورپی ریاستوں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت ترکی نہیں بلکہ یورپ ایک ’مرد بیمار‘ کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ ایک مضبوط ترکی کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا یورپ کی سنگین سیاسی حماقت ہوگی‘‘۔
اسی تناظر میں صدر طیب اردوان کا یہ بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’معاہدۂ لوزان پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘‘۔واضح رہے کہ ۲۴جولائی ۱۹۲۳ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہونے والے اس معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا ترکہ تقسیم کرتے ہوئے ترکی کو اس کے بہت سارے اعصابی مراکز سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں ایک طرف ترکی تھا اور دوسری جانب برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یونان سمیت کئی ممالک۔ ۱۴۳ شقوں پر مشتمل معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا عملاً خاتمہ کرتے ہوئے اسے اس کی حالیہ سرحدوں میں مقید کر دیا گیا۔ اس کے اہم بحری راستوں اور سمندری علاقوں پر عملاً اس کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔ باسفورس اور مرمرہ جیسی انتہائی اہم بحری گزرگاہوں کو بہرصورت اور مفت کھلا رکھنے کا عہد کروا لیا گیا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا میں گردش کرنے والے ان دعوئوں کی تو کوئی تاریخی سند نہیں کہ معاہدۂ لوزان میں ترکی پر تیل کی تلاش اور کھدائی پر ۱۰۰سال کے لیے پابندی لگادی گئی تھی جو ۲۰۲۳ء میں ختم ہوجائے گی۔ لیکن صدر اردوان کے الفاظ میں ہمیں ۱۹۲۰ء کے معاہدہ ’سیفر‘ کی موت دکھلا کر ۱۹۲۳ء کے معاہدۂ لوزان کے دائمی اپاہج پن پر راضی کرلیا گیا۔ اردوان کی طرف سے اس معاہدے کا ذکر بنیادی طور پر اندرون و بیرون کے لیے ایک پیغام ہے کہ اس وقت ایک بار پھر خطے میں جو نئے ’معاہدہ ہاے لوزان‘ تیار اور نافذ کیے جارہے ہیں، عراق اور شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ترکی سے بھی کئی علاقے کاٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں، ہمیں خود کو مضبوط تر کرتے ہوئے، ایک مستحکم نظامِ حکومت تشکیل دیتے ہوئے اور اپنے دورِعروج کو یاد رکھتے ہوئے انھیں ناکام بنانا ہے۔ آخر میں ترک دستوری ریفرنڈم پر ایک عوامی تبصرہ جو خود ترکی میں بھی بہت معروف ہوا ہے اور عالمِ عرب میں بھی کہ ’’اتاترک کا انتقال تو ۷۹سال قبل ہوگیا تھا، لیکن اس کی تدفین اب ہوسکی‘‘۔
یہ امر بھی البتہ ایک حقیقت ہے کہ خود اتاترک کے بہت سے حامیوں نے بھی ’ہاں‘ میں ووٹ دیا۔ ترک قوم پرست جماعت نے تو باقاعدہ ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا، جب کہ دوسری جانب پروفیسر نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی نے کھل کر ان ترامیم کا ساتھ نہیں دیا۔ سعادت پارٹی کے صدر تمل کرم اللہ اوغلو کا ایک ملاقات میں کہنا ہے کہ کئی ترامیم اچھی ہیں، کچھ پر تحفظات بھی ہیں، لیکن اصل تشویش اس بات پر ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کررہے ہیں۔ ایک فریق ’ناں‘ کہنے والوں کو غدار کہتا ہے تو دوسرا ’ہاں‘ کہنے والوں کو۔ یہ خلیج خطرناک ہے۔ تاہم، اصل ضرورت ملک کا جمہوری نظام مضبوط کرنا ہے۔
مملکت ِخداداد پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے لو گوں کی محبت و عقیدت کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اُنس اور لگاؤ کا تعلق اُ س دن سے چلا آرہا ہے، جب سے یہ مملکت معرضِ وجود میں آئی ہے۔
یہ محبت دلوں میں لیے کشمیری قوم کی دو نسلیںرخصت ہو چکی ہیں۔ اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے یہ قوم بر صغیر کے تقسیم کے دن ہی سے جدوجہد میںمصروف ہے اور اسے قدم قدم پر مصائب اور صعوبتوں کا سامنا رہا ہے۔آزادی کی یہ تحریک اب با ضا بطہ طور پر تیسری نسل تک منتقل ہوچکی ہے ۔ بھارت کے وحشت ناک مظالم کشمیریوں کے صبرو اسقامت اور قربانیوں سے مزین اس تحریک آزادی کی راہ کھو ٹی نہ کر سکے ا ور نہ اپنوں کی بے رُخی اس جذبۂ حُریت کو کمزور کر سکی ہے۔ بلامبالغہ آج کی تاریخ میں، یہ حقیقت علی الاعلان کہی جاسکتی ہے کہ کشمیریوں کے جذبۂ آزادی اور پاکستان سے محبت کو ہر کٹھن اور مشکل حالات سے مہمیز ملی ہے۔
کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کو ئی جز وقتی یا مادی فوائد کے حصول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک روحانی اور نظریاتی رشتہ ہے، جس کی بنیادیں بہت ہی راست و پیو ست ہیں ۔ یہ رشتہ حرص و طمع کے کسی مفروضے پر استوار نہیں ہے، بلکہ یہ مادی قدروں سے ماورا ایک ایسا لافانی تعلق ہے، جو ایمان و ایقان سے تعلق رکھتاہے ۔ اس رشتے کا تعلق لاالہ الا اللہ سے ہے، جس کی بنیاد پر یہ مملکت خداداد قائم کی گئی ہے۔ پاکستان محض متعین جغرافیائی حدود کا نا م نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریہ اور فکر ہے، جس کی اپنی ایک ایسی شان دار تہذیب اور درخشاں تاریخ ہے جس نے عالمِ انسانیت کو ظلمت کدوں سے نکال کر خیر اور روشنیوں سے منور کر دیا ہے۔
اسی نظریے اور تہذیب و تاریخ سے وابستگی کشمیریوں کی پاکستان سے محبت اور عقیدت کا مظہر ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں بھارتی فورسز کی ناک کے نیچے کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔کھلے سینوں کے ساتھ، اُگلتی گولیوں بندوقوں کے دہانوں کے سامنے ’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہما را ہے‘ کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ۔ نہ صرف کشمیر میں، حتیٰ کہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں نتائج کی پروا کیے بغیر کشمیری پاکستان کے حق میں اپنے جذبا ت کا اظہار کرتے ہیں۔
پاکستان میں پیش آئے کسی ناخوش گوار واقعے پر کشمیریوں کے دل مضطرب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے لیے دعائوں اور نیک تمناؤں سے یہاں کی مسجدیں گونج اُٹھتی ہیں ۔ خود غلامی کی ذلت میں جکڑے ہونے کے با وجود ہمیشہ کشمیریوںکو پاکستان کی نظریاتی بقا اور جغرافیائی سالمیت اور وہاں کے عوام الناس کی سلامتی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بعد کشمیریوں کی تمام تر نظریں پاکستان پر مرکوزہیں ۔اسے اپنا محسن قرار دیتے ہیں، اُمیدوں اور تمنائوں کا مر کز مانتے ہیں۔
بھارت کے ظالمانہ جبری قبضے سے نجات حا صل کر نے کے لیے وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کو پاکستان کی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔کیو نکہ پاکستان نہ صرف تنازعہ کشمیر کا فریق بلکہ مغلوب و مجبور قوم کا خیرخواہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی ہے۔ اس حوالے سے وہ پاکستان سے کسی غیرمستعدی کی اُمید نہیں رکھتے۔کسی ایسے اقدام اور لاپروائی سے پاکستان کے ساتھ بے پناہ عقیدت رکھنے والے کشمیریوں کی د ل آزاری ہوتی ہے جس سے مسئلۂ کشمیر کو زک پہنچتی ہو، جو کشمیریوں کے جذبات سے ہم آہنگ نہ ہو، بے مثال قربا نیوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو،اور زمینی حقائق کے بر عکس ہو۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دینے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو اس میں دخل اندازی کی دعوت دینے میں بھارت نے پہل کی تھی۔ پاک بھارت کے مابین کشمیر پر تنازع اُٹھ کھڑا ہو نے اور آج تک حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انگریز سامراج کی بھارت کے ساتھ ملی بھگت اور جموں و کشمیر کے فرقہ پرست ڈوگرہ مہاراجا کا سازشیں رچانا ہے، وہاں پاکستان کی سیاسی عدم حساسیت اور لَیت ولعل پر مبنی پالیسی بھی بنیادی وجہ ہے۔
چو نکہ اصولِ تقسیم کے فارمولے کی رُو سے جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا یقینی تھا اور یہاں کے لوگوں کی غالب اکثریت اس کے حق میں تھی لیکن اس کے با وجود ایسا ہونے نہیں دیا گیا اور بھارت، جموں و کشمیر کا زبردستی ’الحاق‘ اپنے ساتھ کر نے اور اسے اپنی ریاستوں کی فہرست میں شامل کر نے میں کامیاب ہوگیا۔ قائد اعظم نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جس کے بغیر پاکستان کا وجود نا مکمل ہے۔
کشمیر کو پاکستان کے لیے ’کورا چیک‘(Blank Cheque) کہا گیا تھا، جسے پاکستان جب چاہے وصول کر سکتا ہے اور بھارت چاہے کچھ بھی کرے، زمینی حقائق بہرحال ہر لحا ظ سے پاکستان کے حق میں ہیں ۔ پاکستان اسی زعم میں مبتلا رہ کر کوئی خا طر خو اہ اقدام کر نے سے پس وپیش کر تا رہا اور نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ آسان اور قابل فہم کشمیر کا معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا۔ بھارت نت نئے فرضی بہانوں سے وقت گزاری کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہا ۔ پاکستان مسئلے کی حساسیت سے بے پروا رہ کر محض زبا نی بیانات پر قانع رہا، مگر دوسری جانب بھارت جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جان توڑ کو ششوں میں منہمک ہو گیا۔
ایک طرف بھارت نے جموں و کشمیر کے قد آور سیاسی شخصیات کو اپنی جھولی میں ڈالنے کی کامیاب کو ششیں کر ڈالیں، تو وہیں دوسری طرف بھارتی آئین کی توسیع جموں و کشمیر تک کر نے کا باقاعدہ عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ پُرفریب انداز سے بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰ کی تخلیق کرکے چپکے سے ایسے داؤ کھیلتا رہاکہ ریاست کو بھارتی یو نین کے ساتھ غیر محسوس انداز سے ضم کرنے کی راہیں کھول کر رکھ دیںاور آہستہ آہستہ یہ منصوبہ ا ب اپنے تکمیل کے قریب پہنچتا دکھا ئی دینے لگا ہے۔ بھارتی آئین کی مذکورہ دفعہ بھارت کی طرف سے جمو ں و کشمیر کے لوگوں پرکوئی با رِ احسان یا کوئی فراخ دلانہ تحفہ نہیں تھا، بلکہ یہ بھارت کی طرف سے ایک منصوبہ بنداقدام تھا، جس کی رُو سے بھارت آئینی طور پر جموں وکشمیر کے معاملات میں دخل اندازی کر نے کی پو زیشن میں آگیا ۔ وگر نہ بھارت کے پاس ریاست جمو ں و کشمیر میں کسی بھی قسم کی سیاسی یا اقتصادی دخل اندازی کا کوئی آئینی اور قانونی جوا ز مو جو د نہیں تھا۔ پھر یہاں سے اپنے ہم نوا طالع آزما سیاسی لیڈروں کی وساطت سے جموں و کشمیر کے عوام کو یہ بات باور کرانے میں بھی ایک حد تک کا میاب رہا کہ یہاں کے لوگوں کا پشتی بان اور عزت و وقار کا ضامن بھارتی آئین ہے۔اسی لبادے کی آڑ میں بھارت ریاست کے وسائل اورذخائر پر قابض ہو کر دودوہاتھوںلوٹنے میں لگا ہواہے۔ بھارت کی جانب سے ایک سے بڑھ کر ایک ترکیب اور سازشیں پروان چڑھانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
جموں و کشمیر میں یہ احساس موجود ہے کہ بھارتی جارحانہ عزائم اور وقوع پذیر حالات کے علی الرغم پاکستان محض تما شائی بن کر اس صورتِ حا ل کا مشاہدہ کر تا رہا اور اس نے مدافعانہ پالیسی کے بجاے چپ سادھ لینے میں عافیت جانی۔ زبانی جمع خرچ اور خواب و خیالات کی دھن میں اس مستی کے جواب میں بھارت فائدہ اُٹھا کر تنازعے کی ہیئت بگا ڑنے میں مصروف عمل رہا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھتا چلاگیا۔ پاکستان مناسب جوابی اقدام کے بجاے حالات دیکھتا رہا۔
پاکستانی حکمرانوں کی نیم دلانہ پالیسی کا یہ نتیجہ برآمد ہو ا کہ بھارت تنازعہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عام مسئلے کی سطح پرلاکر اسے باہمی مسئلہ قرار دینے کے اپنے دعوے میں جری ہو تا گیا۔ وہ ببانگ دہل اقوام متحدہ یا دیگر کسی غیر جانب دار ادارے یا ملک کی مداخلت کو گوارا نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ جمو ں وکشمیر کے عوام کے پیدایشی حق خودارادیت کے مطالبے کی ادایگی پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر وعدہ کرنے کے باوجود بھارت اپنے وعدے سے علانیہ مکر گیا ہے ۔ تنازعہ کشمیر پرسلامتی کو نسل کی منظور کردہ قراردادوں کی نفی کرکے انھیں نا قابل عمل قرار دے رہا ہے۔ مقامی انتظا می اُمور کی بجا آوری کے لیے گذشتہ عرصے کے دوران اسمبلی انتخابات کواستصواب راے کا متبادل کہہ کر اسے اپنے حق میں فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ ا سی پر اکتفا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اب تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازعہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے کشمیرکے مسئلے پر بات کرنے پر اپنے اندرونی معاملے میں دخل اندازی کرنے کا الزام صادر کر دیتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کشمیر کے حوالے سے غیر مستقل پالیسی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گذشتہ سات دہائیو ں کے عرصے کے دوران بین الاقوامی تسلیم شدہ تنازعہ کشمیر کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کئی دوطرفہ معاہدوں میں شامل ہو گیا، جس سے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی نوعیت پر حرف آنے کے دریچے وَا ہوئے ہیں۔ معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھو تہ نامی با ہمی معاہدوں پر دستخط ثبت کرکے پاکستان نے جو پسپائی اختیار کی، اس سے تنازعہ کشمیر متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہا۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے کئی بار ایسے بیانات سامنے آئے جن سے پاکستانی حکومت کی مسئلہ کشمیر کے تئیں سرد مہری کے واضح آثار دکھائی دیتے تھے۔ کبھی اس کا حل نکالنا آنے والی نسل پرچھوڑنے کی بات کی گئی اور کبھی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کو اس پر فوقیت دی گئی۔
اس کے بعد بچی کھچی کسر پاکستا نی فو جی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکو مت میں نکال کر رکھ دی گئی۔ پرویز مشرف نے پاکستان کی زمام کار ہاتھ میں لیتے ہی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کر نے اور پینگیں بڑھانے کے فراق میں پاکستان کی تاریخی پس منظر کی روشنی میں مرتب کی ہوئی کشمیر پالیسی سے منحرف اور پاکستان کے تاریخی اور روایتی موقف سے دست بردار ہوگیا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے خود ساختہ اور غیر منطقی آوٹ آف بکس چار نکاتی فارمو لہ پیش کیا ۔ مذکورہ فارمولا جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگو ں اور جذبات پر شب خو ن کے مترادف تھا۔
ایک طرف یہ ’جنرل مشرف فارمولا‘ پاکستان کی دیرینہ کشمیر پالیسی سے متصادم تھا، وہیں دوسری طرف اس نا م نہاد فارمولے نے آزادی پسند کشمیریوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ نتیجتاً ریاست کی آزادی پسند قیادت انتشار کا شکار ہو گئی۔جموں وکشمیرکے ہند نوازسیاسی لیڈروں کو پاکستان مدعو کر کے ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائے گئے۔حالاںکہ پاکستانی حکومت اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ ریاست کا یہ ہند نواز طبقہ بھارتی مقبوضہ مشینری کا آلۂ کار ہے جو جموں و کشمیر میںبھارتی قبضے کو مستحکم کر نے اور دوام بخشنے میں ہراول دستے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ یہ طبقہ جموں وکشمیرکے لوگوں پر مصائب اورجبر وستم ڈھانے میں بھارتی فورسز کے ساتھ برابر کا شریک رہاہے۔ ریاست میںبھارتی مظالم کا دفاع اور انھیںجواز بخشنے میں پیش پیش چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اس کا والہانہ اسقبال کیا گیاجو آزادی پسند کشمیری قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔
بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کرکے جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر دیوار تعمیر کرنے اور تاربندی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس طرح سے بھارت، جموں وکشمیر کو منقسم کرنے والی خو نیں عبوری لائن کو نا قابلِ عبور بنا نے میں کا میاب ہو گیا، تاکہ منقسم کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ سکیں، مشکل اور مجبوری کے حا لات میںمقبوضہ کشمیر کے لوگ آزاد کشمیر میں پناہ نہ لے سکیں ۔ یہ سب کچھ پاکستانی حکو مت کی اجازت سے ہی یقینی ہوسکا ہے۔ بصورت دیگر ایسا کر نا بھارت کے لیے نہ ممکن تھا اور نہ حقوق انسانی اور بین الاقوامی قانون ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ ما ہر قانون و اعلیٰ پایے کے دانش ور حضرات او ر تجزیہ نگاروں کے مطابق ’مشرف فارمولا‘ مسئلے کے حل کے لیے نہیں، بلکہ اس مسئلے کو مٹانے کی کوشش تھی۔
بھارتی ظالموں کا ظلم اپنی جگہ ننگا ناچ، ناچ رہا ہے، لیکن پاکستانی حکمرانوں کی اس متلون مزاجی سے مسئلۂ کشمیر کی قانونی اور اخلاقی بنیادوںکی بیخ کنی ہوتی رہی ہے۔ یوں پاکستان کو مسئلے کے ایک فریق اور مظلوم کشمیریوں کے وکیل ہونے کے اعتبار سے مقدمہ پیش کرنے میں کمزوری در آئی۔ پاکستان کی جانب سے ایسی بے جا لچک دکھانے سے یہاں کشمیر میں یہ تاثر اخذ کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان اب مسئلہ کشمیر سے چھٹکارا حا صل کر نے کی کو ششیں کر رہا ہے۔ درآں حالاںکہ وہ اپنے بیانات میں کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنے کا دعویٰ بھی کررہا ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے موقف کے اندر سخت شدت لا تا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہمہ جہت نو عیت کے منصوبے تشکیل دے رہا ہے۔
پچھلے ۷۰ برسوں سے با لعموم اور گذشتہ ۲۷ برسوں سے با لخصوص محوِ جدوجہد کشمیریوں کو تختۂ مشق بنا یا ہواہے ۔ راے عامہ اور عالمی برادری کے سامنے منفی پروپیگنڈا کر کے جموں و کشمیر کی تحریک خو د ارادیت کو بھارت ’دہشت گردی‘ سے منسوب کر نے کی کو ششیں کر رہاہے۔ ایسی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کس قدر متفکر ہے اور بھارتی منصوبوں اور پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے کیا کاوشیں کی جارہی ہیں؟ کوئی مناسب، مؤثر اور خیرخواہ اقدام کشمیری ہنوز دیکھنے سے قاصر ہیں۔پھر پاکستان کی کشمیر کمیٹی کا رُخِ کردار’تو ایک ’معمّہ ہے سمجھنے اور سمجھانے کا‘۔
پاکستان کی جانب سے دی گئی ان یک طرفہ رعایتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ محوِ جدو جہد کشمیری قوم پر عذاب و عتاب ڈھانے میں بھارتی حکو مت اور بھارتی فورسز تیز سے تیزتر اور بد سے بدترین ہوتے گئے ۔۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد نہتے کشمیریوں کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا ہے۔ یتیموں ، بیواؤںاور نیم بیواؤں کی ایک بڑی تعدا د سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گمنام قبریں جموں و کشمیر میں اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ عزت و عصمت اور جان و مال کی بے مثال قربانی اس عرصے کے دوران اس قوم نے پیش کی ہے۔ اس قوم کے جیالے تختۂ دار کو چوم رہے ہیں اور آج کی تاریخ میں اب بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والے کشمیرکی نو خیز نسل کو بے رحمی سے بینائی سے محروم کیا جارہا ہے۔ کمسن بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگ بلا نا غہ جیلوں کے اندر پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔ بندوق اور توپ تفنگ کا مقابلہ اب نہتے کشمیری درختوں کی ٹہنیاں اور سنگ ریزے اُٹھا اُٹھا کر کررہے ہیں۔ سینوں پر گو لیاں کھاکھاکر بھارتی جبری قبضے کو للکار رہے ہیں۔
جب ایک طرف کشمیری قوم تحریک آزادی کو منزل مقصود سے ہمکنار کرنے کا عزم لیے میدانِ کارزار میں کو دپڑی ہو ئی ہے اورتحریک آزادی سے کسی بھی حال میں دست بردار ہو نے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، تو پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی ہرممکن مدد کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سامنے آئے۔ کشمیریوں کو بھارت کی جانب سے درپیش مظا لم اورجارحیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرے، بلکہ ایک محسن اور لائق وکیل ہو نے کے ناتے مؤثر اقدام کرے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ سے کشمیریوں کی پشت پر رہے ہیں اور بیش بہا قربا نیاں پیش کرتے آرہے ہیں۔
پاکستانی عوام اور کشمیریوں کے مابین پیار و عقیدت کا یہ رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت پاکستان، تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار نہ کرے۔ پاکستانی عوام اور کشمیری قوم کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے حکومت پاکستان منظم اور مربوط انداز سے کشمیر کی تحریک آزادی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدام کرے۔ عصرِ حا ضر کے تقاضوں کا ادراک کر کے ہر اُس سعی کو عملی جا مہ پہنایا جا ئے، جو اس سمت میں ممد و معاون ثابت ہو۔ کشمیر کے خونیں میدانِ کارزار سے یہی فلک شگاف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ یہاں کی عزت مآب مائیں اور بہنیں پاکستان سے یہی امید لگائے ہوئے اپنے لخت ہاے جگر اس راہ میں قربانی کے لیے پیش کر رہی ہیں۔
پاکستانی حکومت کے ایوانوں میں ہے کوئی یہ پکار سننے والا؟
۲۰کروڑ آبادی کے ساتھ اُتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اورتاریخی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ریاست ہے۔ رانی جھانسی کا قلعہ اور تاج محل (آگرہ) کی پُرشکوہ عمارت بھی اسی ریاست میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جس کی بنیاد جناب سرسیّداحمد خاں نے رکھی تھی، اسی صوبے کا معروف نام ہے۔ وارنسی(بنارس) شہر ،جسے برہمنوں کا ’مذہبی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے، اُترپردیش کا حصہ ہے۔ فیض آباد (جہاں مبینہ طور پر رام دیوتا کی پیدایش ہُوئی) اور گورکھ پور جیسے خالصتاً ہندو شہر اسی صوبے کے جزو ہیں جن پر کٹر ہندو قوم پرست فخر کرتے ہیں۔
اب یہ برہمنی رنگ، گورکھ پور کے بڑے مندر کے مہنت یوگی ادیتا ناتھ کی شکل میں بطور وزیراعلیٰ اُترپردیش، سیاسی اور اقتداری لحاظ سے غالب آ چکا ہے۔ ادیتا ناتھ اور اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو بھارت بھر کا ہروہ شہر جو کسی مسلمان نام سے معروف ہے، اُس کا نام تبدیل کر کے ہندو شکل دے دیں گے۔ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے مشہور علمی شہر، دیوبند، کا نیانام ’دیوربند‘ رکھنے کی تجویز اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔ وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کے عزم کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے حالیہ صوبائی انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر جگہ جگہ اعلان کیا تھا کہ: ’’اگر مَیں وزیر اعلیٰ بن گیا تو ہمایوں پور کا نام’ہنومان پور‘ اور اسلام پور قصبے کا نام ’ایشور پور‘ رکھ دوں گا‘‘۔ اب اس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اُتر پردیش کے مسلمانوںکے نام سے منسوب تمام شہروں کے نام تبدیل کرے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا؟
اُترپردیش ایسی بڑی ریاست کے بڑے شہروں کی تعداد ۶۵ہے۔ اِن میں مسلمانوں کے نام سےمنسوب ۱۶ بڑے شہر آباد ہیں جن میں: غازی آباد، الٰہ آباد، علی گڑھ،مراد آباد،فیض آباد، مظفر نگر، شاہجہان پور، فرخ آباد، فتح گڑھ، فتح پور، مغل سراے،غازی پور،سلطان پور،اعظم گڑھ، اکبر پوراورشکوہ آباد شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان، جو اُترپردیش ریاست کی کُل آبادی کا ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیں، کیا یہ زیادتی برداشت کریں گے؟ ایک معروف بھارتی نجی ٹی وی کے ٹاک شو’آپ کی عدالت‘ میں ادیتا ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اقتدار میں آکر مسلمانوں کے ناموں سے منسوب بھارتی شہروں کے نام تبدیل کردیں، کیوں کہ اب تاریخ بدلنے کاوقت آگیا ہے‘‘۔
اُترپردیش کے یہ زعفرانی وزیر اعلیٰ، بی جے پی اور انتہاپسند آر ایس ایس کے اُن مقتدر ہندو سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جو بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کرنے کے حامی ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرلینا چاہیے‘‘۔ اس کوشش اور’اپیل‘ کو وہ ’گھر واپسی‘ کا نام دیتے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے اَب تک بھارت کے ۱۸۰۰ عیسائیوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔مسلمانوں سے نفرت اور دنگے کے بیوپاری اُترپردیش کے یہ نئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو اپنا حق سمجھتے اور ایسا کہتے اور کرتے ہُوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتے ، حالاںکہ وہ خود کو ’سنیاسی‘ بھی کہتے ہیں۔
ایک بھارتی نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب ادیتاناتھ سے پوچھا گیا کہ: ’’سنیاسی ہو کر خوں ریزی، تشدداور مسلمانوں کے خلاف فساد کی بات کیوں کرتے ہو؟ تو تُرت جواب دیا: ’’مَیں سنیاسی ہو کر ہروقت مالا بھی رکھتا ہُوں اور بھالا(خنجر)بھی‘‘۔ موصوف نے زعفرانی لباس پہننے والے سیکڑوں جوگیوں کی ایک نجی فوج بھی بنا رکھی ہے، جن کے پاس ہمیشہ تیز دھار بھالے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بن کر بھی ادیتا ناتھ کو اپنے اُن نفرت آگیں بیانات پر کچھ شرم محسوس نہیں ہوتی، جب اس نے کہا تھا:’’ اگر کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو ہم ۱۰۰مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا لائیں گے۔ اگر کسی ایک بھارتی مسلمان نے کسی ہندو کا قتل کیا تو ہم قتل کا مقدمہ نہیں درج کروائیں گے بلکہ خود بدلہ لینے کے لیے ایک ہندو کے بدلے میں ۱۰ مسلمانوں کا قتل کریں گے‘‘۔ نئے وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ: ’’اقتدار میں آکر ہم اُترپردیش کی تمام مساجد میں اپنی دیوی اور دیوتاؤں کے بُت بھی رکھیں گے‘‘۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف ادیتا ناتھ کی نفرت انگیز مہم کو بی جے پی کے صدر امِت شا کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ دونوں کے گٹھ جوڑ ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ اُترپردیش(یوپی) کے انتخابات میںکسی ایک بھی مسلمان امیدوار کو بی جے پی نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ اور جب اس بارے امِت شا سے پوچھا گیا تو جواب میں کہا:’’ اُتر پردیش میں ہمیں کوئی موزوں مسلمان امیدوار ملا ہی نہیں‘‘۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’آل انڈیا مجلسِ مشاورت‘ کے سابق صدر، ظفرالاسلام خان [ملّی گزٹ کے ایڈیٹر]، نے ٹھیک ہی کہا :’’ بی جے پی نے یو پی میں مسلمان امیدواروں کی نفی کی ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے نفرت کی فتح حاصل کی ہے‘‘۔
اُتر پردیش اسمبلی میں کُل ۴۰۳نشستوں میں سے بی جے پی نے ۳۱۲جیتی ہیں، جب کہ مجموعی طور پر کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد۲۴ہے۔ یو پی میںمسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اصولی طور پر۱۰۰ہونی چاہیے تھی (یاد رہے ۲۰۱۲ء میں جیتنے والے مسلمان اُمیدواروں کی تعداد۶۹تھی)۔ ان ۲۴ کامیاب مسلمان اُمیدواروں میں ۱۷سماج وادی پارٹی، ۵ کانگرس اور ۲ بھوجن سماج پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد بھی نریندر مودی، اِمت شا اور ادیتاناتھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے؛ چنانچہ چند روز قبل راجیہ سبھا(بھارتی سینٹ) میں ایک کٹر ہندو رکن، ایم رامیش نے کہا ہے کہ: ’’بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہورہاہے، ہمیں آن دی ریکارڈ بتایا جائے کہ ہر بھارتی صوبے میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘اور جب رامیش کو بتایا گیا: ’’بھارت کے کُل ۶۷۵ضلعوں میں۸۶ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۰فی صد سے زائد، اور ان ۸۶ضلعوں میں ۱۹ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد۵۰فی صد سے زائد ہے‘‘ تو رامیش کے منہ سے بے اختیار نکلا:’’ اوہ، یہ تو بہت بڑھ گئے ہیں‘‘۔
حالیہ انتخابات سے قبل عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت کی پیش گوئی تھی کہ نریندر مودی نے بھارت میں جن خطرناک معاشی پالیسیوں کا اجرا کر رکھا ہے، اِن کی بنیاد پر وہ یہ انتخابات جیت نہیں سکیں گے لیکن بی جے پی ۴۷ سیٹوں سے اُٹھ کر ۳۱۲ سیٹوں پر آگئی۔
آخر ہوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیش گوئیاں کرنے والے سارے تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟ دراصل نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے ایک خاص انتخابی حکمت عملی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ انھی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔ یہ محض ہمارا الزام یا تعصب نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہوئے نشان دہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی سٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی، وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کار ی ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں، بلکہ اُن میں سے بیش تر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔
ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں،جو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنھیں خصوصی طور پر پیرول پر رہا کیا گیا، تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔ قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیانے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔ ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ کو شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈا گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہربڑے شہر میں ہیں، یہ بھی ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن، سنجو دیوی، قتل کے الزام میں جیل میں ہے، وہ بھی جیت گئی ہیں۔ بی جے پی کی ایک اور مشہور لیڈر نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہیں۔
بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تو اُن کی بیویوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیشواڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں، اُن کی جگہ اُن کی بیویوں نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔
اتنے بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کا ایک سبب انڈین ایکسپریس کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ بی جے پی نے دولت مند اور طاقت ور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یو پی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں ۸۰فی صد کروڑ پتی ہیں‘‘۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مغرب کی ’مہذب دنیا‘ میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے! حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ کامیابی کو ’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید‘ قرار دے ڈالا ہے۔ ہم توحیران ہُوئے ہی ہیں، خود بھارتی غیرجانب دار میڈیانے بھی سی این این کے اس تبصرے پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے!
مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور خاکستری (Grey) کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communication) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور درست تناسب میں دیکھنا چاہیے۔ یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکے سے دُور رکھا۔ یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے، لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دی۔
ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی انتخابی پوزیشن کا اندازہ نہیں بتا سکتا تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟
رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت، تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی، اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔
کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی ۱۰گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعدد فیصلے بھی ۱۰برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔
مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخاری طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور گرے کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communicate) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ ،اتنی باتیں۔
شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور صحیح تناسب میں دیکھنا چاہیے، یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکہ سے دُور رکھا، یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے۔ لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دیں۔
ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی پوزیشن یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟
رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے اس ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔
کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی دس گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے، اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعلق متعدد فیصلے بھی دس برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو اور نوجوانو! اللہ کی رحمتیں آپ پر ہوں جودو جہانوں کامالک ہے۔ وہ خداے ذوالجلال! جس نے نہتے کشمیریوں کو دُنیا کی بہت بڑی فوجی طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کاحوصلہ دیا۔ وہ فوجی طاقت،بھارت جس نے ظلم و وحشت اور درندگی کو ہتھیار بنا کر ہماری مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ یہ خداے مہربان کا فضل وکرم ہے جس نے نہتے، بہادر کشمیر ی عوام کی جرأت اور دلیری کے سامنے دشمن کے ہیبت ناک ہتھیاروں کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے اورآج کشمیری، متکبرہندوبادشاہت کی آہنی زنجیریں توڑ کر حصول آزادی کے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہماری جدوجہدِ آزادی کا یہ مرحلہ مکمل ہوا ہے ۔اس تاریخی مرحلے پر میں آپ کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے لازوال عزم وہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی ہیبت ناک فوج کو نہتے ،خالی ہاتھوں عظیم شکست سے دوچار کردیا ہے۔ آج بھارت کے چہرے سے تمام نقاب اُترچکے ہیں۔ جمہوریت کا خوش نما نقاب،ترقی اور قانون کی حکمرانی کا نقاب بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندے جارہے ہیں۔
میرے جوانو! آج ہمارے اورآزادی کے درمیان واحد رکاوٹ یہ بندوق بردار بھارتی فوجی ہیں، جواپنے محفوظ بنکروں میں خودکشیاں کررہے ہیں، جب کہ بھارتی ریاست ہمارے عزم وہمت کے سامنے لرز رہی ہے۔ اگرچہ ان کے پاس لاکھوں بندوقیں ہیں لیکن وہ ہمارے سچ کامقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ کبھی بھی بندوقوں سے سچ کو قتل نہیں کیاجا سکا۔
اس دوران میں ہم نے اپنے لہو سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سچائی کابول بالا ہوتا ہے اور آزادی ہر بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے اورہم بھی آزادی کی منزل پا کر رہیں گے۔ ہرکشمیری مردوزن اورہمارے معصوم بچوں نے پوری دُنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ ہم سے زیادہ آزادی کا مستحق کوئی نہیںکہ آزادی کی منزل کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔بھارت فوجی محاذ پر اپنی شکست کوچھپانے کے لیے کٹھ پتلی کشمیریوں کومیدان میں لایا ہے جو یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ تحریک آزادی کے جاری باب کاانجام مایوسی اورشکست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی روح بھارتی شیطانوں کے ہاتھ فروخت کردی ہے، جوہمیں بے حوصلہ اورکم ہمت بنانے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ۱۰۰ دنوں سے جاری تازہ ترین جدوجہد میں کچھ حاصل نہیں کرپائے۔
موجودہ مرحلہ کئی عشروں سے جاری لازوال تحریک حریت کا تسلسل ہے ۔ان بھارتی کٹھ پتلیوں کے پاس کہنے کوکچھ بھی نہیں کہ انھوں نے ادنیٰ مالی مفادات کے لیے اپنی روحیں دشمن کے پاس گروی رکھی ہوئیں ہیں۔انھوں نے کشمیر کی خود مختاری کو قسطوں میں ادنیٰ مفادات کے لیے بھارت کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس طرح کا بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ کیوںکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں وہ رہی سہی عزت و تکریم اور عوامی حمایت سے بھی بالکل محروم ہوچکے ہیں ۔
اب وہ بھارت کے اشارے پر اقوام عالم کی توجہ کشمیریوں کی تاریخی جدوجہدِ آزادی سے ہٹانے کے لیے علاقے میں جنگی جنون پیدا کررہے ہیں۔ یہ عناصر اپنے آپ کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن وہ اقوام عالم اورحریت پسند کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں اپنی روح کا سوداکرنے والے مختلف ناموں سے حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوکر اب متحد ہورہے ہیں لیکن بھارت کا یہ پتلی تماشا بھی ناکام ونامراد ٹھیرے گا۔
غاصب ہندوفوج نے کشمیر کے صدیوں سے رائج تعلیمی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن ان ہتھکنڈوں سے ہماری نوجوان نسل کو جہالت کے اندھیروں میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ آج کشمیر کا گھر گھر علم کے نوراورحریتِ فکر کے چراغوں سے روشن ہے۔ تعلیم بُرے بھلے ،حق اورباطل میں تمیز سکھاتی ہے۔تعلیم حق کی راہ پر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔تعلیم انصاف اورناانصافی کے درمیان تمیز سکھاتی ہے اور انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہونے کا سبق دیتی ہے۔تعلیم محض خواندگی نہیں، بے جان حروف کی پہچان اور شناخت نہیں۔ یہ تو ایسا نور ہے جو قلب و ذہن کومنور کرتا ہے، جو سچائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتا ہے، جو انسانی ضمیر کو زندہ وبیدار کرتا ہے، جوغلامی کی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ علم کا یہ نور اورجذبوں کی یہ شمعیں مایوسی کے اندھیروں کو تار تار کرکے رکھ دیتی ہیں۔ یہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی یادوں کے وہ روشن چراغ ہیں جنھوں نے ہماری راہیں منور کررکھی ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تاریک آنکھوں سے پھوٹ رہی ہے،جنھیں چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بناکر اندھا کردیا گیا تھا ۔
یہ ہے وہ روشنی جو ان تاریک عقوبت خانوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے کشمیری نوجوان قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ یہ روشنی جنت کے ان باغوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے شہدا خداے مہربان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گذشتہ ۱۰۰ دنوں کے دوران ہم نے کئی نئے سبق سیکھے ہیں، جب کہ ہمارے بچوں نے عملاً یہ دیکھا ہے کہ بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری کس قدر کھوکھلے ہیں کہ ان پر ان کے اہل خانہ بھی اعتبار کرنے کوتیار نہیں ۔
میرے عزیزو! تعلیم، جارح ہندو فاشسٹ کی غلامی کا نام نہیں اورنہ تعلیم مردہ ضمیری ہی کا سبق دیتی ہے۔ تعلیم تو نوجوانوں کو مصائب والم میں مبتلا کشمیری قوم کے لیے کھڑاہونے کا سبق دے رہی ہے ۔لعنت ہے ان لوگوں پر جو ہمیں تعلیم کے بہانے آداب غلامی سکھانا چاہتے ہیں لیکن ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ یہ سب کٹھ پتلی ضمیر فروش آج کیوں حریت فکر کے پروانوں، سنگ بدست جوانوں کو سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوںکہ وہ بھی اس حقیقت کو پاگئے ہیں کہ بچوں اورنہتے نوجوانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر ان کا راج سنگھاسن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اب وہ زیادہ دیر معصوم کشمیریوں کے خون سے آلودہ تاج پہن کر سری نگر کے تخت پر بیٹھ کر بھارت کے ناجائز فوجی قبضے کی وکالت نہیں کر سکتے۔ ان کا کھیل تماشا اور ناٹک ختم ہونے کو ہے۔
کشمیر کے طول وعرض میں جاری طالب علموں کے مظاہرے بھارتی کٹھ پتلی سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہے ،جو نوجوان نسل کو ہتھیار بناکر جدوجہدِ آزادی کو کچلنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔ آزادی کے نعروں پر مشتمل پلے کارڈ اُٹھائے طالب علم بھارتی فوج کو گلی کوچوںمیںکھلے بندوں چیلنج کررہے ہیں جس کے بعد بھارت کے ان یاروں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ آج کا طالب علم نعرہ زن ہے کہ ہم آزادی کے لیے اپنا مستقبل قربان کردیں گے۔ اب کوئی بھی نوجوان کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتا کہ وہ آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے امتحان دینے کے لیے چلے جائیں۔ملتِ کشمیر کی پیشانی پر یہ عبارت دمک رہی ہے کہ خون شہدااور قلم دوات اکٹھے نہیں چل سکتے۔ملتِ کشمیر اپنے نہتے اورمعصوم بچوں کو، ان کے دوستوں کو، ان کے اہل خانہ کو بھارتی فوج کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے دیکھ رہی ہے۔ انھیں اندھا کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے ،بندی خانوں میں ڈالا جا رہا ہے لیکن کسی کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔
۲۰۱۶ء کے۱۰۰ دنوں میں ۹۰ سے زیادہ نوجوان شہید، ۱۶ ہزار شدید زخمی اور ۱۰ہزار نوجوانوں کو گرفتارکیاگیا ہے۔ ایک ہزار نوجوانوں کو اندھا کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بنایاگیا ہے، یہ سب طالب علم ہیں۔ کشمیریوں پر بدترین وحشیانہ جنگ مسلط کردی گئی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس ظلم ودرندگی کے کھیل کے عروج پر بھارت کے کٹھ پتلی سیاسست دان امتحانات لینے کا ڈراما رچا رہے ہیں۔ یہ بھی گھروں کو تباہ وبرباد کرنے ،بجلی کے ٹرانسفارموں کو تباہ کرنے، سرسبزوشاداب باغات کو اُجاڑنے کے مکروہ اوروحشیانہ ہتھکنڈوں کا تسلسل ہے۔
تعلیم کے بعد جارح فوج اور اس کے کٹھ پتلی سیاست دان ہماری معیشت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلسل کرفیو نے کاروبارِزندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب وہ ہمارے شہداکے انمول لہو کاتقابل معاشی نقصانات سے کررہے ہیں لیکن سلام، صد سلام کشمیری تاجروں کو، سوداگروں کو جنھوں نے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں اپنی عظمت اوروقار پر سودے بازی نہیں کی۔ انھوں نے بند دکانیں نہیں کھولیں۔ ہمارے ٹرانسپورٹروں نے جو گاڑیاں، رکشے، بسیں اور ٹیکسیاں چلاکر رزق حلال کماتے ہیں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر نہیں آئے۔ وہ محنت کش کشمیری جو سبزیاں اور پھل، گلی کوچوں میں گھر گھر جاکر بیچتے ہیں، بھارتی انتظامیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود باہر نہیں نکلے۔ وہ لوگ جن کا تمام تر دارومدار سیاحت اور سیاحتی گرمیوں پر تھا___ یہ ہوٹل والے، یہ شکار والے ،یہ خوب صورت آرایشی گھوڑوں کے مالکان، یہ ٹورز اینڈ ٹریولز ___انھوں نے اپنے بند کواڑوں کونہیں کھولا اوراپنے کاروباری مفادات کو جدوجہدِ آزادی پر قربان کردیا ۔
آج ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ محکوم اقوام کو آزادی حاصل کرنے کے لیے جانی و مالی قربانیاں دینا پڑتی ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی ترقی آزادی کی منزل کا حصول ہے۔کشمیر کی ترقی کا بھارتی ماڈل کشمیریوں کو خوش حال بنانے کی بجاے بھارت کے غاصابہ فوجی قبضے کو مستحکم بنانے کا مکروہ منصوبہ ہے۔ بھارتی قبضہ دراصل ہمارے وجود کو اورحریت فکر کو مٹانے کا کھیل ہے۔
جدوجہدِ آزادی کے تازہ مرحلے نے تمام بھارتی منصوبوں اورچالوں کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ جو اسرائیلی طرز پر انتہا پسند ہندوؤں کی بستیاں بسانے کے خواب دیکھ رہے تھے، جوآبادی کا توازن بگاڑنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کی آبادیاں تعمیر کررہے تھے، ان کے سارے خواب پریشان ہوچکے ہیں۔ ان نام نہاد جدید بستیوں میں بسنے کے لیے آج کوئی تیار نہیں۔
میرے عزیزو!موجودہ بغاوت نے بھارتی کٹھ پتلی حکمرانوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اوراب یہ بے ضمیر لوگ کشمیری قوم کےخلاف اپنے تمام سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہورہے ہیں۔ آج کشمیر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ کشمیریوں کے عوامی اتحاد نے دشمن کو شکستِ فاش دے دی ہے ۔ہمارا اتحاد ہی ہماری فتح ہے۔
بھارتی نیتا ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم آزادی حاصل کرکے کشمیر کا انتظام چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ تمام غاصبوں نے محکوم عوام کو اسی طرح گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بیت المال، چھوٹے چھوٹے سکول،محلہ جاتی اجتماعی باورچی خانے،امدادی اور طبی مراکز قائم کرکے انھیں کامیابی سے چلانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے، اور یہ سب کامیابیاں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے حاصل کی گئی ہیں۔ کشمیریوں کا اجتماعی ایثار اور قربانی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ہماری مزاحمت توانا درخت بن کر برگ وبار لارہی ہے۔ تحریک مزاحمت کے دوران تشکیل کردہ یہ عوامی اورسماجی ڈھانچہ اورہمارے ادارے بھارتی فوج اوراس کی کٹھ پتلیوں کے نظام سے کہیں زیادہ مؤثر اورمعتبر ہے۔
جدوجہدِ آزادی کے اس مرحلے نے مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے درمیان روشن وتاباں کرکے رکھ دیا ہے ۔آج اقوام عالم بھارت کے مکروفریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ ہائی کمیشن براے مہاجرین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین اور دیگر اَن گنت عالمی ادارے بھارتی مکروفریب کےخلاف نہتے کشمیری عوام کے لیے کھل کر اپنی حمایت کا اظہارکررہے ہیں۔
جدوجہدِ آزادی کی یہ تمام کامیابیاں ہمیں بھارت نے خیرات میں نہیں دیں۔ یہ ہم نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی استبداد سے چھینی ہیں۔کچھ سادہ لوح بھائی ۱۹۵۳ء سے پہلے کی داخلی خودمختاری، ازخود حکمرانی یاحق راے دہی اور مکمل آزادی بارے استفسار کرتے ہیں۔یاد رکھو! بھارت ہمیں کچھ نہیں دے گا۔اقوامِ عالم کی تاریخ میں غاصبوں نے محکوموں کو قتل عام ،ظلم اور سفاکیت اور تذلیل کے سواکچھ نہیں دیا۔یاد رکھو! بھارت جارح اورغاصب قوت ہے۔بھارت ہمیں روشن ضمیری اورآزادی دینے کے بجاے گمراہ کرتا رہے گا۔فوجی میدان میں اپنی شکست دیکھ کر اپنے کٹھ پتلی کشمیری حکمرانو ں کو متحد کرکے سامنے لا رہاہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج کوئی سچا کشمیری بھارت کی طرف نہیں دیکھ رہا۔ کشمیری قوم کی تمام اُمیدیں جدوجہدِ آزادی سے جڑ چکی ہیں۔
بھارتی جرنیل ڈی ایس ہوڈا اور بھارتی وزیراعظم کے سابق مشیر قومی سلامتی نارائن اعتراف کررہے ہیں کہ کشمیر میں ہمارے تمام ہتھکنڈے اورجھوٹے دعوے ناکام ہوچکے ہیں۔ نارائن نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ ہم مذاکرات کی میز پر مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ آج کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوگیا۔ ہم نے کئی دہائیوں کے سفرکے بعد حق اور سچ کی یہ منزل پائی ہے۔ اس سفر میں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن جدوجہدِ آزادی کے لیے ہمارے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ کشمیری قوم نے کبھی سر نہیں جھکایا۔ یاد رکھو!بھارت نہیں ،آزادی ہماری منزل ہے۔ ہم شانہ بشانہ، بانہوں میں بانہیں ڈال کر آزادی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ غلامی کی سیاہ رات ختم ہورہی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ۲۰۱۶ء کا انتفاضہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس کے ذریعے سے پوری دنیا تک پیغام گیا ہے کہ کشمیری اپنے مطالبۂ حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ’دہشت گردی‘ کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ خالصتاً ایک عوامی تحریک ہے اور کشمیر کی پوری آبادی مردوزن اور بچے بوڑھے اس کے ساتھ والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔
اس انتفاضہ سے بھارت کے اس پروپیگنڈے کی بھی پوری طرح سے نفی ہوگئی ہے کہ کشمیر میں حالات کی ابتری کے لیے پاکستان ذمہ دار ہے اور اسی کی شہہ پر یہاں اتھل پتھل اور بے چینی کا ماحول قائم ہے۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح سے کشمیر کی پوری آبادی اُبل پڑی اور یہاں کے گلی کوچوں نے جو لاثانی منظر پیش کیا، اس سے یہ حقیقت مبرہن صورت میں سامنے آگئی کہ اس طرح کے عوامی سیلاب کسی کی شہ اور کسی کی ایما پر نہیں آسکتے، بلکہ پرواز کرنے کا یہ ہے ایسا فطری جذبہ ،جو جبری طور پر قید کیے گئے انسان تو انسان پرندے کے دل میں بھی موجزن ہوتا ہے۔
۲۰۱۶ء کی عوامی تحریک نے بھارت کے اس منفی پروپیگنڈے کو غلط اور باطل ثابت کردیا، جو وہ کشمیر اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں کرتا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی حکمران اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیر سے متعلق حقائق کو قبول کرتے اور نوشتۂ دیوار پڑھ کر اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرتے، کیونکہ بھارت، دنیا کی بڑی جمہوریہ ہونے کا دعوے دار ہے اور اس ملک کا آئین بھی لوگوں کی راے کا احترام کرنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور دلی والے دل ودماغ سے کام لینے کے بجاے اپنی اکڑ پر اَڑے رہے اور انھوں نے ۲۰۱۶ء کے عوامی ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا۔ لوگوں کوخاموش کرانے کے لیے فوج اور نیم فوجی فورسز کی نئی کمک کشمیر روانہ کردی گئی۔ سیکڑوں افراد کالے قوانین کے تحت آج بھی مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور نئی گرفتاریوں کا سلسلہ شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ کریک ڈاؤن اور تلاشیوں کے بہانے عام شہریوں کو ہر روز ہراساں کیا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔
الغرض بھارت کے حکمران اپنی ملٹری مائیٹ کے ذریعے سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر کاربند ہیں اور وہ ہر اس فرد کو تہہ تیغ کرنا چاہتے ہیں جو سراٹھاکر جینے کی تمنا دل میں رکھتا ہو۔ اس سامراجی پالیسی نے جموں کشمیر کی صورت حال کو دھماکا خیز بنایا ہوا ہے اور حالات روز بروز بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیر کی نوجوان نسل ’پُرامن سیاسی تحریک‘ سے بددل ہورہی ہے اور وہ اس کو وقت کے زیاں سے تعبیر کرنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لخت ہاے جگر کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو خیرباد کہہ کر سرفروشی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور سرہتھیلی پر رکھ کر بھارت کے نشۂ قوت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس نئے رحجان نے لوگوں کے روزمرہ کے معاملات میں بھی ہل چل مچادی ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں۔
بھارتی قابض افواج اور ان کی معاون فورسز عام شہریوں کو سافٹ ٹارگٹ کے طور نشانہ بناتی ہیں اور وہ سرفروشی کے راستے پر گامزن جوانوں کا انتقام نہتے لوگوں سے لینا چاہتی ہیں۔ انھیں انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تہس نہس اور مسمار کیا جاتا ہے۔ قیمتی انسانی زندگیوں کا اتلاف ایک معمول بن گیا ہے اور کشمیری قوم کی ایک پوری نسل پکی ہوئی فصل کی طرح کاٹی جارہی ہے۔
میرا یقین، بلکہ ایمان ہے کہ اس خون خرابے کے لیے صرف اور صرف بھارتی حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی والی پالیسی ذمہ دار ہے اور وہ ہی ریاست کی سیاسی غیر یقینیت اور عدمِ استحکام کی صورتِ حال میں اضافے کے اصل مجرم ہیں۔ وہ ۲۰۱۶ء کے انتفاضہ اور ۱۰۰دنوں کی عوامی تحریک کو سنجیدگی سے لیتے اور لوگوں کی امنگوں اور آرزوؤں کا احترام کرتے تو آج حالات کا یہ رُخ نہ ہوتا۔
یہ ایک آفاقی اور کائناتی (Universal Truth)حقیقت ہے کہ لوگوں کی اُمنگوں اور خواہشات کو زور زبردستی کے ذریعے دبایا جائے تو وہ باہر نکلنے کے لیے دوسرے آپشن اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔جہاں بھی پُرامن اور سیاسی جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، وہاں لوگ دوسرے انتہائی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت کے اظہار میں بھی مجھے کوئی باک نہیں ہے کہ اس طرح سے تنازعہ کشمیر حل کرانے کے حوالے سے ماضی میں کوئی پیش رفت ممکن ہوسکی ہے اور نہ مستقبل میں اس سے کوئی مثبت نتیجے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے اور اس کو ایک بامعنیٰ سیاسی عمل کے ذریعے ہی سے حل کرایا جانا ممکن ہے۔
بھارتی حکمرانوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر اصرار کرنا ترک کریں، جو ہر سطح پر ناکام ثابت ہوچکی ہے اور جس کی وجہ سے پورے جنوب ایشیائی خطے کے کروڑوں عوام مصائب جھیل رہے ہیں اور ان کی ترقی کا راستہ مسدود ہوگیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کا عوامی خواہشات کے مطابق حل نکالا جاتا ہے، تو یہ نہ صرف کشمیریوں کے لیے بلکہ پورے برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور وہ ایک پُرامن اور خوش گوار ماحول میں سانس لینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
لاہور اور سیہون شریف میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد جس میں ۱۰۰سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان کی جانب سے یک طرفہ طور پر طورخم اور چمن پاک افغان سرحدی راہداری کو بند کرنے کا جو فیصلہ ہوا تھا اس پر عمل درآمد گذشتہ ماہ سے جاری رہا۔ اس دوران میں صرف دودن کے لیے سرحدیں پیدل آنے جانے والوں کے لیے کھولی گئیں تھیں جس کے نتیجے میں ۱۱ہزار ۵۰۰ افغانوں کو پاکستان سے واپس اپنے وطن جانے کا موقع ملا، جب کہ ۳۵۰ پاکستانی واپس آئے۔ اس ماہ کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں تجارتی اجناس سے لدی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی رہیں اور تاجروں کا نقصان ہوا۔ اجناس کی ترسیل میں تعطل کی وجہ سے افغانستان کی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا جب کہ پاکستان کی طرف کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افغانستان اس وقت پاکستانی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے، جو اس دوران بند رہی جس سے پاکستانی برآمدات کو سخت دھچکا پہنچے گا۔ بظاہر سرکاری سطح پر بھی اس اہم مسئلے پر کوئی پیش رفت یا مذاکرات کا سلسلہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ECOکانفرنس کے موقعے پر افغان سفیر عمر زخیلوال نے پاکستان سے سرحدیں کھولنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس طرف سے خاموشی تھی۔ البتہ پاکستانی اور افغان میڈیا میں اس مسئلے پر گفتگو ہوتی رہی۔
افغان میڈیا میں حسب معمول پاکستان کو مورد الزام قرار دیا جاتا رہا۔ ویسے بھی افغانستان میں ہر چھوٹے بڑے واقعے کا الزام پاکستان بالخصوص اس کی خفیہ ایجنسیوں پر دھرا جاتا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں جب میں کابل میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے گیا تھا تو وہاں افغان میڈیا کے سوالات پر اسی پروپیگنڈے کاگہرا رنگ چڑھا دکھائی دیا جو بہت حد تک بھارتی لابی کے زیراثر ہے کیوںکہ اس کے تمام چینلز بھارتی سیٹلائیٹ دور درشن کے ذریعے اپنی نشریات چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکنیکی اسٹاف میں بھی بھارتی عملہ موجود ہے۔ ویسے بھی وہ ممالک کہ جن کا بحری راستہ کسی ہمسایہ ملک کے مرہون منت ہوتا ہے، اس میں اس ہمسایہ ملک کے خلاف جذبات کا پایا جاناایک فطری امر ہوتا ہے۔ یہ معاملہ میں نے نیپال میں بھی دیکھا ہے جو ہندو ریاست ہے لیکن وہاں کے لوگ بالعموم بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ہیں۔ وہ تین اطراف سے ہندستان میں گھر ا ہوا ہے، اس لیے یہ جذبات فطری ہیں۔
بہرکیف اس پابندی سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات کو مزید تقویت ملتی رہی، جب کہ افغان حکومت متبادل راستے ڈھونڈ تی رہی ہے۔ دوسری طرف ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو بھارتی حکومت کی اعانت سے ترقی دے دی گئی ہے اور بھارتی بحری جہاز وہاں یہ لنگر انداز ہوتے ہیں اور ایک بڑی شاہراہ بھی وہاں سے افغانستان کے شہروں کو منسلک کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ممالک سے غذائی اجناس بشمول گندم منگوائی جارہی ہے۔ ان تمام ذرائع سے ضروری اشیا کی ترسیل کے باجود پاکستان پر انحصار ختم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت ِ پاکستان نے بالآخر پابندی ختم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت بحال کردی ہے، جس سے دونوں طرف کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔
افغانستان کے اندر کی صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ۸مارچ کو کابل میں ملٹری ہسپتال پر داعش کا حملہ اور اس کے نتیجے میں۳۸ قیمتی جانوں کا نقصان قابل افسوس ہے۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملے سے مستقبل میں داعش کے مزید ہلاکت خیز حملوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان بھی افغانستان کے طول و عرض میں اپنی پوزیشن مستحکم کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ایک امریکی ادارے کے حالیہ سروے میں افغان حکومت کی عمل داری ۴۳فی صد ملک پر بتائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ۵۷ فی صد پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اسی ماہ افغانستان کے ایک صوبے مغربی ہرات میں ایک نوجوان کو طالبان کی عدالت سے ڈاکا زنی میں ملوث ہونے پر ایک ہاتھ اور پائوں کاٹنے کی سزا پر عملد رآمد کی بازگشت سنائی دی۔ اس سے پہلے شمالی صوبے بدخشاں میں ایک لڑکی کو مبینہ طور پر زنا کے الزام میں سنگسار کیا گیا تھا۔ یہ سخت سزائیں طالبان کی قائم کردہ شرعی عدالتیں سنا رہی ہیں۔ پورے افغانستان میں یہ نظام قائم ہے اور عوام ان سے رجوع کرتے ہیں اور ان کو فوری طور پر انصاف مل جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری عدالتوں کا نظام بُری طرح بد عنوانی کاشکار ہے اور فیصلوں میں کئی سال لگ جاتے ہیں ایک عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول بہت مشکل ہے۔ طالبان نے صرف عدالتی نظام قائم نہیں کر رکھا، بلکہ ہرصوبے اور ضلع کے لیے اپنے عہدے دار بھی مقرر کیے ہیں، جو ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ اثر و رسوخ دیہی علاقوں میں ہے مگر بڑے شہر ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ چوں کہ ناٹو فضائی افواج افغانستان کے تمام اہم ہوائی اڈوں میں موجود ہیں، اس لیے طالبان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کھل کر حرکت کر سکیں یا شہری علاقوں پر اپنا قبضہ جماسکیں۔ اس طرح کا توازن کافی عرصے سے قائم ہے جو آیندہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔ یہی توازن دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے جس کے لیے زمینی حقائق کی بنیاد پر مشترکہ نکات ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر گذشتہ کچھ عرصے میں تحریک طالبان کو کئی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن جو عالمی سطح پر روسی کردار کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں، ان کے رابطے طالبان سے قائم ہو چکے ہیں۔ روسی کمیونسٹوں نے افغانستان کو جس طرح تباہ و برباد کیا تھا۔ ایسے میں ان روابط کی بحالی بظاہر عجیب بات لگتی ہے لیکن عالمی تعلقات کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ آج کے دشمن کل کے حلیف بن سکتے ہیں اور اس لیے یہ انوکھا ملاپ انہونی بات نہیں ہے۔ روس طالبان تحریک کو کس صورت میں امریکا کے خلاف جنگ میں مدد دے سکتا ہے، ابھی تک اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن شنید ہے کہ مادی اور سیاسی دونوں قسم کی اعانت ممکن ہے۔ روسی حکومت نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے افغانستان میں امن کے قیام کے عنوان سے ۱۴؍اپریل کو ماسکو میں ایک علاقائی کانفرنس طلب کرلی ہے، جس میں چین ، بھارت ، پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک بھی شریک ہوں گے۔
اسی طرح چینی حکومت نے بھی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک اہم قدم اُٹھایا ہے اور قطر میں مقیم طالبان مذاکراتی وفد نے چین کا دورہ کیا ہے۔ چین افغانستان کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے لیے وہاں امن کا قیام ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا آغاز لازم ہے۔ گذشتہ عرصے میں قطر میں مقیم افغان مذاکراتی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ طیب آغا جو کئی برسوں سے وہاں نمایندگی کر رہے تھے، طالبان قیادت کے ساتھ اختلافات کی بنا پر مستعفی ہوگئے تھے اور ان کی جگہ شیر محمد ستانکزئی نے لی ہے جو طالبان حکومت میں وزیر صحت رہ چکے ہیں۔
افغانستان میں چینی حکومت کی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہم ہے کہ ناٹو افواج کے بتدریج اخراج کے عمل کے بعد افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں خاصی کمی آئی ہے، جس کا اثر افغان معیشت پر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو چینی سرمایہ کاری پُر کر سکتی ہے، جو انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ذرائع مواصلات پر خاص طور پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ اس طرح بیک وقت دو سپر طاقتیں یعنی روس اور چین، طالبان سے روابط بڑھاکر افغانستان کے مستقبل کی نقشے گری ظاہر کرتے آتے ہیں لیکن ان روابط سے طالبان قیادت صرف اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتی ہے جب وہ اپنی پالیسیوں میں نرمی پیدا کرے۔ اس بارے میں بھی طالبان قیادت کی حکمت عملی میں چند تبدیلیاں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اب وہ اس سختی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور وہ افغان حکومت سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے آمادگی کا عندیہ دے چکی ہے۔
افغانستان میں ایک اہم پیش رفت حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پایا جانے والا معاہدہ ہے۔ صدر حامد کرزئی کے دور حکومت سے شروع ہونے والا مذاکراتی عمل ایک ۲۵نکاتی معاہدے پر اتفاق سے مکمل ہواجس پر ڈاکٹر اشرف غنی صدر افغانستان اور انجینیر گل بدین حکمت یار صدر حزب اسلامی افغانستان نے دستخط ثبت کیے اور کابل کے صدارتی محل ارک میں ۲۹ستمبر۲۰۱۶ء کو ایک شان دار تقریب میں اس کا اعلان ہوا، جس میں افغانستان کی تمام اہم سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ اس معاہدے کی ایک اہم شق اقوام متحدہ کی جانب سے گل بدین حکمت یار سے پابندیاں ہٹانے کا معاملہ تھاجو اَب مکمل ہو چکا ہے اور دومارچ ۲۰۱۷ء کو انجینیر صاحب کو کلیرنس مل گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں ان کی کابل آمد ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں، البتہ اس راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے جو کام تھے ان میں گلبدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ، ان کے لیے اور حزب کے دیگر رہنمائو ں کے لیے عام معافی کا اعلان، ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ ، حزب اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سکیورٹی اداروں میں ملازمتیں فراہم کرنا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا،جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔ انجینیر حکمت یار کو افغانستان میں قیام کی تمام سہولتیں فراہم کرنا اور ان کو جہاد افغانستان اور ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد پر ان کا جائز مقام دینا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزب اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاسداری ہے۔ وہ کسی اور گروپ کو بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے۔ مکمل اور دیرپاسیز فائر کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
معاہدے کے فوراً بعد اس سوال کا پیداہونا لازمی تھا کہ انجینیر حکمت یار کب کابل آئیں گے۔ امریکا نے ان کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر رکھی تھی اور اقوام متحدہ نے حزب اسلامی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے کئی یورپی ممالک نے بھی ان کے خلاف ہر قسم کی پابندیاں لگارکھی تھیں جن کی موجودگی میں ان کا منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔
اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گل بدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح اب ان کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ منظر عام پر آسکیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ ماہِ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے اور ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا جائے۔ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
بھارت میں شہریانِ کشمیر پہ ڈھائے جانے والے مظالم پر، مظلوموں کی اَشک شوئی اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چاروناچار کمیشن بنتے ہیں۔ مگر کمیشنوں کا کھیل دیکھنے کے لیے تاریخ کا یہ ورق ملاحظہ فرمایئے۔ ادارہ
یوں تو پچھلے کئی عشروں سے کشمیر کی ہرگلی میں آگ اور خون کی داستانیں رقم ہورہی ہیں، مگر ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا دن ریاست کے تجارتی مرکز سوپور کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ بھارت کی نیم فوجی تنظیم بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کی ۹۴ویں بٹالین جو قصبے میں تعینات تھی، اس نے شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل کر ۶۰معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا، کئی افراد کو زندہ جلایا، جب کہ ۳۰۰ سے زائد رہایشی اور تجارتی عمارات کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
کشمیر کے لیے سوپور کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لیے ممبئی یا پاکستان کے لیے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لیے راہداری ہے، بلکہ ریاست کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبہ سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا لازمی تھا۔ اسی لیے سوپور کو ’چھوٹا لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔
۱۹۸۹ء کے اواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگ موہن کو گورنر بنا کر بھیجا تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام دی جاسکے۔ جگ موہن کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک ِ کشمیر کو ملنے والی مالی اعانت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جگ موہن جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، انھوں نے اس سلسلے میں خاص طور پر سوپور کی نشان دہی کی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگ موہن نے بھارتی وزارتِ داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی میں آزادپور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کردیں۔
چندماہ گزرے تو میرواعظ مولوی محمد فاروق کی ہلاکت اور ان کے جنازے پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکومت نے جگ موہن کو معزول کرکے ان کی جگہ انٹیلی جنس کے ایک گھاگ افسر گریش چندر سکسینہ کو بطور گورنر بھیجا۔ مگر حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نئے گورنر نے کم و بیش اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ دہلی میں پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویز کی ہوئی پالیسی: سام (گفتگو)، دھام (لالچ)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کرلیا جائے ، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہوسکتا ہے۔ ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا قتل عام اسی کی ایک کڑی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان اَبرآلود تھا، گویا کسی غیریقینی صورتِ حال کی عکاسی کر رہا تھا۔ صبح ساڑھے دس بجے مرکزی چوک کی ایک گلی میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکار پر جنگجوئوں نے حملہ کرکے اسے ہلاک کر دیا اور اس کی رائفل بھی چھین لی۔ بس پھر کیا تھا، قصبے میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکاروں کی بندوقوں نے ہرگلی، ہرنکڑ، ہر چوراہے اور ہرسڑک پر آگ برسانی شروع کی۔ دکان دار اپنی دکانوں میں پھنس کر رہ گئے۔ پورے قصبے میں اتھل پتھل مچ گئی اور لوگ چیخ پکار کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔
اس وقت بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس وہاں سے گزر رہی تھی۔ یہ بس مسافروں کے لیے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق ، اس واقعے سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبدالاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کرجائیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتلِ عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ فقط ایک سپاہی کی ہلاکت سے پیدا شدہ وقتی اشتعال نہیں تھا۔
پورے قصبے میں آگ لگانے کی یہ ہولناک کارروائی پورے چار گھنٹے جاری رہی۔ بانڈی پورہ سے آنے والی موٹرکار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی، ایک اہلکار نے ان کے شیرخوار بچے کو ہوا میں لہرا کر آگ کے حوالے کر دیا، بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے نشانہ بنا کر تڑپتے ہوئے آگ میں دھکیل دیا۔ اس خونیں رقص کے بعد معلوم ہوا کہ کئی سو دکانیں ، عمارتیں اور مال سے بھرے ہوئے سیکڑوں گودام اور زنانہ کالج مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
آگ اور خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبہ میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہلکاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری کسر نکال دی ہے؟‘‘۔ ایک اوباش لڑکے نے فخراً بتایا کہ میں نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرونِ وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدان کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے انبار اور کھوپڑیوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباشی دیتا تھا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ پرکاش سنگھ آج بھارت میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیداری لانے کے بڑے نقیب ہیں۔
کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار، غلام نبی آزاد، مرحوم غلام رسول کی معیت میں وارد ہوئے اور ہرممکن امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح پر جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا۔ جس کے بعد ا س وقت کے مرکزی وزیرخزانہ اور سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا، تاہم یہ وعدہ بھی کبھی ایفا نہ ہوسکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کرکے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر اس میدان میں چند ہی دکان دار خوش نصیب نکلے۔
عوامی دبائو کے تحت حکومت نے ۹۴بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ ۹جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے اور ۳۰جنوری کو جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا، بلکہ دو سال گزرجانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سری نگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ جن میں سینیرافسران شامل ہیں، ان کے بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ مگر کمیشن سری نگر آنے سے گریزاں رہا، تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے ۱۵سے۱۷دسمبر ۱۹۹۳ء کا وقت دیا۔ کمیشن کی میعاد جو پہلےہی ختم ہوچکی تھی، ۳۰جنوری ۱۹۹۴ء تک بڑھادی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کر دیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیا جائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی ۲۱ سے ۲۵مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سیکورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے گا، لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ ۱۹۹۴ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل ۱۹۹۴ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔
ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ’’ہمیں یہ ڈراما ختم کرنا چاہیے، گذشتہ ۱۵ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی ا ور ۱۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکز کے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ’’کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبار کو شدید صدمہ پہنچا ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھا کہ کمیشن کے قیام کا چوں کہ مقصد ہی فوت ہوچکا ہے اس لیے اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے‘‘۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کر دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دواسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جب کہ ۹۴بٹالین کو سوپور سے تبدیل کرکے پلوامہ تعینات کیا گیا، جہاں انھوں نے پہنچتے ہی لوگوں کو سوپور سانحے جیسے انجام کی دھمکیاں دیں، جس کے کچھ عرصے بعد انھیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحے سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے ۲۳جنوری کو انھیں تحقیقات کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق: دورانِ تحقیقات عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی ازخود کوشش کی، تاہم کسی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ مطلوبہ معلومات فراہم کیں، جس کے نتیجے میں اس سانحے میں ملوث لوگوں کی نشان دہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتش زدگی کے لیے کون ذمہ دار ہے‘‘۔ مزید لکھا: ۹۴بٹالین بی ایس ایف کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کی تحقیقات کے سلسلے میں بھی حملہ آوروں کی شناخت نہ ہوسکی کہ جس سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس سانحہ کے دوران کس نے پہلے فائرنگ کی تھی‘‘۔
یوں کیس لٹکتا ہی رہا اور انصاف کا خون ہوتا رہا۔ حکومت کے اس رویے کی وجہ سے سوپور کے مکین ۲۴برس بعد انصاف کی تمام اُمیدیں کھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً چوتھائی صدی بیت گئی ہے، مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک بھارت اور پاکستان وجۂ نزاع معاملات کا حل تلاش نہیں کرتے، اور خطے میں پاے دار امن و خوش حالی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرتے، تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیں گے۔
یہ حقیقت بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام اَلمیوں کا ماخذ کشمیر کا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔ کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاکہ برعظیم میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوں کے لیے بھی یہ ایک طرح سے خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس حیات پرور اور زندہ دلوں کی بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی۔
ایک مظلوم، بے گناہ اور بے بس کشمیری مسلمان نوجوان سے وابستہ یادوں سے دل مغموم ہے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو کشمیری محمد افضل گورو کو بھارتی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے دہلی کی تہاڑجیل میں نہایت ظالمانہ طریقے سے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ اس پر مزید ستم یہ ڈھایا گیا کہ شہید کی میت بھی اُن کے والدین، بیوہ (تبسم) اور نہایت کمسن اکلوتے بیٹے غالب کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ شہید افضل گورو کا جسد ِ خاکی تہاڑجیل کے اندر ہی مدفون ہے۔ ظلم اور جبر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے!
بھارت نے الزام لگایا تھا کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر جو فائرنگ ہوئی تھی، اس کا ماسٹرمائنڈ افضل گورو تھا۔ ۱۲سال تک مقدمہ چلا۔ اس دوران تمام شواہد نے ثابت کردیا کہ افضل کسی بھی سطح پر اس کے ذمے دار نہیں ہیں، لیکن اس کے باوصف بھارتی عدالت نے اُنھیں موت کی سزا سنادی۔ ہندو ججوں کے سفاک الفاظ ملاحظہ کیجیے:
بھارت کے اجتماعی ضمیر کا تقاضا ہے کہ افضل گورو کو موت کی سزا دے کراُس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
۹فروری کو ۴۴سالہ گورو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت کی ممتاز دانش ور اور معروف ادیب ارون دھتی رائے نے اس موقعے پر برطانوی اخبار گارڈین میں طویل مذمتی مضمون میں لکھا تھا: ’’افضل گورو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایسا سیاہ دھبہ ہے، جو کبھی نہیں دُھل سکے گا‘‘۔
افضل گورو کا خون ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گا، لیکن دوسری طرف بھارت نے بھی مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ وہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کو کچلنے کے لیے ہرغلیظ ہتھکنڈا بروے کار لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ، مجاہدین کشمیر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کشمیر میں عفت مآب مسلم خواتین کی عصمتیں پامال کرنے سے بھی باز نہیں آرہی۔
اس ضمن میں ہولناک حقائق سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲فروری ۲۰۱۷ء کو سری نگر سے شائع ہونے والے ممتاز انگریزی روزنامے The Rising Kashmir کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اخبارمذکور میں یاورحسین نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے ایک رکن، ایم وائی تریگامی نے اسپیکر سے ریاست میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے حالیہ عصمت دری (ریپ) کے سانحات سے متعلق بار بار سوال پوچھا تو اسمبلی کی طرف سے اُنھیں تحریری جواب میں بتایا گیا کہ:
گذشتہ دو برسوں (۱۶-۲۰۱۵ء) کے دوران میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۹۵ خواتین کی عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
یہ تعداد تو وہ ہے جس کا پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ اندراج کیا گیا، مگر واقعہ یہ ہے کہ ریپ کے لاتعداد ایسے سانحات ہیں، جو وقوع پذیر تو ہوئے لیکن مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے اُنھیں ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا۔
اس قبیح جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں بھارتی فوجی افسر اور بارڈر سیکورٹی فورسز کے وہ اہل کار شامل ہیں، جنھیں دہلی اسٹیبلشمنٹ نے خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو اضلاع، کپواڑہ اور اَننت ناگ میں کشمیری مسلمان خواتین کی سب سے زیادہ بے حُرمتی کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ دردناک سوال یہ ہے کہ عالمی ضمیر بھارت کے اِن قاہرانہ اقدامات پر کب جاگے گا؟
واشنگٹن سے ممتاز کشمیری دانش وَر ڈاکٹر غلام نبی فائی، اِن بھارتی مظالم کے بارے میں باربار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت کو خط لکھ کر بیدار اور آگاہ کرنے کی اپنی سی مساعی تو کر رہے ہیں، لیکن بھارت کی طرف جھکا امریکی پلڑا فائی صاحب کی چیخوں پر کان دھرنے سے انکاری ہے۔ بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے عرب مسلمان ممالک بھی (مثلاً متحدہ عرب امارات کا پچھلے ہی ماہ بھارت سے ۷۵؍ارب ڈالر کا سرمایہ کاری معاہدہ) اس ضمن میں کم درجہ بے حس نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کی تسبیح پڑھنے والے سب خاموش ہیں اور مہر بہ لب۔ ظلم اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بھارت کے اندر انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والوں میں سے ایک نمایاں دانش ور ، امیت سین گپتا نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے:
بھارت نے نہایت ہی وحشت سے مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے، اور اب بھارتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مکالمے سے کشمیریوں کے مسائل و مصائب کا ذکر ہی دانستہ غائب کر دیا گیا ہے۔
کیا ایسا ہوگا کہ افضل گورو کے پھانسی لگنے کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے باقی نوجوانوں سے صرفِ نظر کرلے گی؟
نظر تو یہی آرہا ہے کہ بھارتی ستم گر ،کشمیری نوجوانوں کو مختلف الزامات کے تحت موت کی سزائیں دیتے رہیںگے۔ یہ سلسلہ رُکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارت دنیا میں کسی کی بھی پروا کیے بغیر حُریت پسند کشمیریوں کی گردن توڑ دینا چاہتا ہے۔ بھارتی استبداد کی ایک نئی مثال بھی سامنے آگئی ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و جَور کا یہ سانحہ سری نگر سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دُور مغربی بنگال کے مرکز، کلکتہ میں پیش آیا ہے۔ ایک ۲۲سالہ کشمیری معصوم نوجوان، مظفراحمد راتھر کو کلکتہ کے جج بی کے پاٹھک نے چند دن پہلے ہی سزاے موت سنائی ہے۔ مظفرراتھر کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے کلگام سے ہے۔ وہ ایک غریب خاندان کا بیٹا ہے۔ جج نے یہ کہتے ہوئے راتھر کو پھانسی کا حکم سنایا ہے: ’’وہ بھارت کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا‘‘۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مظفر۱۰سال کا تھا کہ ۲۰۰۲ء میں ایک روز وہ سکول سے آتا ہوا غائب ہوگیا۔ اُس کی گمشدگی اور اغوا کی رپورٹ درج کروا دی گئی تھی، لیکن پھر برسوں اُس کا کوئی اَتا پتا معلوم نہ ہوسکا۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۷ء میں ہمارے گائوں کے نمبردار نے میرے والد، عبدالمجید راتھر کو بتایا کہ پولیس آئی تھی اور بتارہی تھی کہ مظفرراتھر زندہ ہے، مغربی بنگال سے دہشت گردی کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہے اور اب کلکتہ جیل میں ہے۔ یہ سن کر ہمارے تو پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ مظفر جب غائب ہوا تھا، ۱۰ سال کا تھا۔ ۱۰سالہ بچہ بھلا کیا اور کیسی دہشت گردی کرسکتا ہے؟ اب، جب کہ وہ ۲۲برس کا ہوچکا ہے، اور گذشتہ ۱۲برسوں سے جیلوں کی سختیاں اور تشدد بھی مسلسل سہتا آرہا ہے، اچانک اُسے سزاے موت سنا دی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اب یہ کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کے کم سن لڑکوں کو اغوا کرتی ہیں، اُنھیں برسوں غائب رکھا جاتا ہے، اور ایک روز ان پر قتل، ڈاکے اور دہشت گردی کے مقدمات ڈال کر انھیں ذرائع ابلاغ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر بھارتی میڈیا میں اُن کے (ناکردہ) گناہوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور آخرکار یہ خبر بھی آجاتی ہےکہ فلاں کشمیری نوجوان کو عمرقید یا سزاے موت سنا دی گئی ہے۔ کلگام کے مظفرراتھر کے ساتھ بھی یہی اندوہناک کھیل کھیلا گیا ہے۔
ممتاز اور بزرگ کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ: بے گناہ مظفر راتھر کو سزاے موت سنا کر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ۳فروری ۲۰۱۷ء کو حُریت قائدین کی متحدہ قیادت میں پورے مقبوضہ کشمیر میں مظفراحمد راتھر کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ ایسے احتجاج تو بے گناہ افضل گورو کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف بھی بہت ہوئے تھے،لیکن بھارت افضل گوروکو پھانسی دینےسے باز نہ آیا۔ تو کیا مظفرراتھر کی شکل میں ایک اور افضل گورو کی شہادت کا خوں رنگ منظر اُبھرنے والا ہے؟ ابھی تو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیری بُرہان مظفروانی کی شہادت کا دُکھ نہیں بھولا تھا کہ اب مظفرراتھر کی غم ناک داستان سامنے آگئی ہے۔ میرے اللہ، تو کشمیری بھائیوں پر رحم فرما!
ایک طرف ۲۳ ستمبر ۲۰۱۶ء کو افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں فروری کے دوران پانچ دن میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات نے غم و اندوہ کی فضا طاری کردی۔ یوں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی نشان دہی سے پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پید اہوگئی۔ چوں کہ حزبِ اسلامی (حکمت یار) اور کابل حکومت کے درمیان امن معاہد ہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کی تمام امن پسند قوتوں اور پاکستان اور افغانستان کے بہی خواہوں نے تعریف کی ہے۔ اس لیے بجاطور پر یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اسی طرح افغانستان کے ایک اہم اور بنیادی فریق افغان طالبان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔ لیکن عین اسی وقت پاکستان میں خوں ریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بارے میں یقینی شواہد موجود ہیں کہ اس کو افغانستان میں موجود ’پاکستانی طالبان‘ کی قیادت کنٹرول کر رہی ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں مخصوص ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے، جس سے ایک بار پھر سرحدوں پر جنگی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
اس افسوس ناک فضا میں مثبت خبر یہ ہے کہ گذشتہ سال افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزب اسلامی افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل د رآمد شروع ہو گیا ہے اور ایک بڑی پیش رفت کے طور پر حکمت یار اور ان کی پارٹی کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا۔
چھے سال کے طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ ۲۵نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان کئی عشروں سے جنگ کا شکار ہے۔ ۱۹۷۳ء میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے اور سردار دائود کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں جنگ و جِدل کا دور شروع ہوا ۔ ۱۹۷۸ء کے اوائل میں کمیونسٹوں کی باہمی جنگ ِ اقتدار نے افغانستان کو خونیں دلدل میں پھنسا دیا۔ تب اشتراکی روسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ: ’’کمیونسٹ نظام افغانستان کے لیے ناگزیر ہے کوئی اس کو نہیں بدل سکتا‘‘۔ لیکن پھر دنیا نے ان کمیونسٹ افواج کی رخصتی کا منظر بھی دیکھا۔ افغان مجاہدین کی قربانیوں سے کمیونسٹ نظام زمین بوس ہوا۔ مشرقی یورپ اشتراکی روسی سلطنت کی گرفت سے آزاد ہوا، دیوارِ برلن ٹوٹ گئی ، جرمنی یک جا ہوگیا، لیکن اس کا ثمر خود افغانستان کو نہ مل سکا اور ان کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر طالبان کی آمد سے وقتی طور پر ملک میں امن قائم ہوا۔ لیکن نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد افغانستان کے لیے ایک اور تباہی و بربادی کا سامان تیار ہوا، اور وحشیانہ امریکی بم باری نے افغانستان کے طول و عرض میں بربادی مسلط کردی۔ افغانستان کے چپے چپے پر افغان طالبان نے مزاحمت جاری رکھی، جب کہ بعض مقامات پر حزب اسلامی کے حُریت پسند بھی نبرد آزما تھے۔ ان کے برعکس ایک خطرناک تنظیم داعش نے حال ہی میں افغانستان میں قدم جمانے شروع کیے، جس سے افغانستان کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا تھا ۔ اس تناظر میں کابل حکومت اور حزبِ اسلامی کا معاہدہ خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جس پر افغان عوام نے بجاطور پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف الخیال افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں: سابقہ کمیونسٹ ، خلقی ، پرچمی، شعلی ،ملتی ،پختون قوم پرست ، تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، سبھی شامل ہیں۔ ان سب نے اس معاہدے کا خیر مقدم اور اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ کامیاب ہو۔ افغانستان میں امن قائم کرنا اور عوام کو ترقی و سلامتی سے ہم کنار کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات اور امن معاہدہ چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح استاد عبدالرب رسول سیاف نے کہا: ’’ہم کابل میں امن کی خاطر غیرملکیوں کی موجودگی برداشت کررہے ہیں۔ حکمت یار تو ہمارے بھائی ہیں، ان پر بھلاکون اعتراض کرسکتا ہے‘‘۔ پختون قوم پرست جو ایک طویل عرصے سے حکمت یار کے مخالف رہے ہیں، وہ بھی قومی وحدت اور تعمیر کی خاطر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیوںکہ ان کے خیال میں موجودہ کش مکش میں زیادہ نقصان پختون آبادی کا ہی ہو رہا ہے۔ تاہم، بعض مغرب زدہ این جی اوز کے افراد اور اسی فکر کی حامل چند خواتین نے کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہر ے بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے مارچ ۲۰۱۶ء سے کابل میں باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کابل حکومت کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ کہ ’غیر ملکی افواج کا حتمی اخراج‘ میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدہ کی بنیادی شرائط میں رکھنے کے بجاے معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا ۔ مئی ۲۰۱۶ء میں بالآخر معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق کر لیا گیا، جو حزبِ اسلامی کے نمایندے کریم امین اور حکومت کے نمایندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کرکے دونوں اطراف کے قائدین کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ یاد رہے کہ سیّداحمد گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے ۔
۲۲ستمبر ۲۰۱۶ء کو کابل میں ایک تقریب کے دوران ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے کے حتمی مسودے کو انجینیر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا، جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں۔ بالآخر ۲۹ستمبر کو کابل کے صدارتی محل میں تقریب منعقد ہوئی ۔ اس تقریب سے گلبدین حکمت یار نے ویڈیو لنک کے ذریعے ۳۶منٹ خطاب کرتے ہوئے اس امن معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے طالبان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔ ساتھ اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی طور پر امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے، اور ملک میں نمایندہ جمہوری حکومت کے قیام کی اہمیت اور عمل پر کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی اور افغان دستور اور آئین کا تقاضا قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ: ’’یہ پورا مذاکراتی عمل دوافغان گروپوں کے درمیان افغانستان کے اندر ہوا ہے، جس میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہوا، جو افغانوں کا ایک بڑا کارنامہ ہے، جس سے ملک میں امن قائم ہوگا‘‘۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے یہ کام ہے کہ گلبدین حکمت یار اور حزبِ اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ،ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ، حزبِ اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سلامتی کے اداروں میں مقام دینا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزبِ اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں، ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاس داری ہے ۔ وہ کسی اور گروپ کی بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے ۔ مکمل اور دیرپا جنگ بندی پر عمل کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کردیں گے اور اپنے طور پر کسی بھی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ملک میں موجود جمہوری اداروں کا احترام کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
امریکا نے تو حکمت یار کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر لگا رکھی تھی، لیکن اس دوران روس اور فرانس نے حکمت یار کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اس عرصے میں اقوام متحدہ کا ایک وفد کابل آیا اور اس نے افغان انتظامیہ اور حزبِ اسلامی کے نمایندوں سے معلومات حاصل کیں ۔ پھر حزبِ اسلامی نے مؤثر سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، خود روسی اور فرانسیسی حکومتوں پر اپنا موقف واضح کیا، جس کے نتیجے میں ان کے تحفظات دُو ر ہوئے اور اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گلبدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے۔ جس طرح ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں اور سرزمینِ افغانستان پر بھارت کی بڑھتی ہوئی تزویراتی پیش رفت میں بھی رکاوٹ پیدا کی جاسکے گی۔
محترم وزیر اعظم صاحب، میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ ضروری لگا کہ آپ کو وہاں کے حالات سے واقف کراؤں۔ حالانکہ آپ کے یہاںسے خط کا جواب آنے کا رواج ختم ہوگیا ہے،ایسا آپ کے ساتھیوںکا کہنا ہے، لیکن پھر بھی اس امیدپر یہ خط بھیج رہا ہوں کہ آپ مجھے جواب دیںیا نہ دیں، لیکن خط کو پڑھیںگے ضرور اور پڑھنے کے بعد آپ کو اس میںذرا بھی حقیقت نظر آئے، تو آپ اس میں اٹھائے ہوئے نکات پر دھیان دیں گے۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر لے کر خاص طور سے وادیِ کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعے ارسال کردہ خبریںہوتی ہیں اور ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا نظامِ کار (میکانزم) ہو، جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو مجھے یقین ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔
ہماری سیکورٹی فورسز اور ہماری فوج میںیہ خطرناک جذبہ پنپ رہا ہے کہ: ’’کشمیر میں جو بھی بھارتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اگر اسے ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے‘‘۔ ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر ۸۰سال کے ضعیف سے لے کر چھے سال کے بچے تک آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گذشتہ ۷۰برسوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ غلطیاں انجانے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر ہوئی ہیں۔ آج تاریخ اور وقت نے ان غلطیوں کو سدھارنے کا کام آپ کو سونپا ہے۔ امید ہے کہ آپ کشمیر کے حالات کو فوری طور پر اور نئے سرے سے سمجھ کر اپنی حکومت کے اقدامات کا تعین کریںگے۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر ، وہاں کے تاجر، وہاں کے طلبہ، وہاں کی سول سوسائٹی کے لوگ، ہاں کے قلم کار، وہاں کے صحافی، وہاںکی سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور وہاں کے سرکاری افسر، وہ چاہے کشمیر کے رہنے والے ہوں یا کشمیر کے باہر کے لوگ، جو بھی کشمیر میںکام کررہے ہیں، وہ سب کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی نظام سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے اور اسی لیے کشمیر کا ہر آدمی ہندستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ان میں سے اگرچہ ہرفرد کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے، مگر اس کے دل میں پتھر ضرور ہے‘‘۔ آج یہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، ٹھیک ویسی ہی جیسی ہندستان کی ۱۹۴۲ء میں تحریک [آزادی] تھی، یا پھر ’جے پی‘ تحریک تھی کہ جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھیے کہ > کشمیر میں اس بار قربانی والی عید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی نے قربانی نہیں کی اور کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ کیا یہ ہندستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ نہیں ہے، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ کشمیر کے لوگوںنے تہوار تک منانا بند کر دیے، عیدالفطر اور بقرعید منانی بند کردیں۔ عملاً یہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جس کشمیر میں ۲۰۱۴ء میں انتخابات ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندستانی نظام کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ میںآپ کو حالات اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پورے ہندستان کے وزیر اعظم ہیں اور آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔
کشمیر کے گھروں میں شام کے وقت لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسر کرتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، ۱۰ہزار سے زیادہ پیلیٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں۔ ایسے سوگوار ماحول میں ہم گھر میں چار بلب روشن کرکے خوشی کا کیسے اظہار کرسکتے ہیں، اس لیے ہم ایک بلب جلاکر رہیںگے۔ وزیر اعظم صاحب، میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے یہ بھی کشمیر میںدیکھا ہے کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگادیے جاتے ہیں او ر وہی لڑکے جنھوں نے صبح کے وقت پتھر لگائے ہیںشام کو چھے بجے اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے اور احساس سے مغلوب ہوکر سوتے ہیں کہ معلوم نہیں سیکورٹی فورسز کے کارندے کب انھیں اٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھر کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں؟ ایسی حالت تو انگریزوں کے دورِحکومت میں بھی نہیں ہوئی تھی ۔ تب بھی یہ ذہنیت نہیں تھی اور عام لوگوں میںاتناڈر نہیںتھا۔ لیکن آج کشمیر کا رہنے والا ہر آدمی، وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سرکاری ملازم ہو یا نہ ہو، بیکار ہو، تاجر ہو، سبزی والا ہو، ٹھیلے والا ہو، ٹیکسی والا ہو، غرض یہ کہ ہر آدمی ڈرا ہوا ہے۔ کیا ہم انھیں اور ڈرانے کی یاانھیںاور زیادہ پریشان کرنے کی حکمت عملی پر تو نہیںچل رہے ہیں؟
۱۹۸۲ء میں پہلی بار شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کانگریس کے خلاف انتخاب لڑے اور وہاں انھیں [۸ستمبر ۱۹۸۲ء] اکثریت حاصل ہوئی۔ شاید دہلی میں بیٹھی کانگریس پارٹی، کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی تھی اور اس نے [۲جولائی ۱۹۸۴ء] ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت گرادی۔ اس طرح فاروق عبداللہ کی جیت ہار میں بدل گئی اور یہاںسے کشمیریوں کے دل میں ہندستانی نظام کے لیے نفرت کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک دہلی میں بیٹھی تمام حکومتوں نے کشمیر میں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں دلایا کہ وہ بھی ہندستانی نظام کے ویسے ہی عضو ہیں جیسے ہمارے ملک کی دوسری ریاستیں۔
کشمیر میں ایک پوری نسل جو ۱۹۵۲ء کے بعد پیدا ہوئی، اس نے آج تک جمہوریت کا نام ہی نہیں سنا ،اس نے آج تک جمہوریت کا ذائقہ نہیںچکھا۔ اس نے اپنے ہاں فوج دیکھی، پیراملٹری فورسز دیکھیں، گولیاں دیکھیں، بارود کی بُو سونگھی اور لاشیں دیکھیں۔ اس نسل کو یہ نہیں اندازہ ہے کہ ہم دہلی میں، اترپردیش میں، بنگال میں، مہاراشٹر میں، گجرات میں کس طرح جیتے ہیں اور کس طرح ہم جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے جمہوریت کے نام پر نظام کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا ذائقہ چکھیں، جمہوریت کی اچھائیوں کے سمندر میں تیریں یا ان کے حصے میں بندوقیں، ٹینک، پیلیٹ گنس اور پھر ممکنہ قتل عام ہی آئے گا۔
کشمیر کے لوگ، ہندستان کے نظام اور اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں۔ وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے اور خوش نہیں ہوتے بلکہ اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، بلکہ اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ یہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہم ہندستانی نظام کی کسی بھی خوشی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب، کیا یہ نفسیات ہندستان کی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے۔ کشمیرکے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔ کشمیر کی زمین میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر وہاں پر نہ ٹورزم ہوگا، نہ وہاں محبت ہوگی، صرف ایک سرکار ہوگی اور ہماری فوج ہوگی۔ وزیراعظم صاحب کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کرنے کا حق چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ ہم سے یہ ضرور پوچھیے کہ ہم ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںیا ہم پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں یا ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس میںصرف ہندستان کے ساتھ والا کشمیر شامل نہیںہے۔ اس میں وہ پاکستان کے کنٹرول میں رہنے والے کشمیر ، گلگت، بلتستان کے لیے بھی ریفرنڈم چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے کہ اگر ہندستان یہاں یہ حق دینے کو تیار ہے، تو وہ بھی یہ اختیار دیں۔
جموںو کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق راے سے ایک قر ارداد منظور کی کہ انھیںکیا حق چاہیے، مگر اس قرارداد کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کشمیر کے لوگوںکو یہ احساس ہے کہ: ’’ہماری حکومت ہم نہیںچلاتے بلکہ دہلی میں بیٹھے کچھ افسر چلاتے ہیں، انٹیلی جنس بیورو چلاتی ہے، فوج کے لوگ چلاتے ہیں، ہم نہیں چلاتے۔ ہم تو یہاں پر غلاموں کی طرح سے جی رہے ہیں، جنھیں روٹی دینے کی کوشش تو ہوتی ہے، لیکن جن کے لیے جینے کا کوئی راستہ کھلا نہیںہے‘‘۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر کے لیے جو پیسہ الاٹ ہوتا ہے وہ وہاں نہیں پہنچتا ، پنچایتوں کے پاس پیسہ نہیں پہنچتا، کشمیر کے لیے جتنے پیکیج اعلان کیے گئے، وہ ان کو نہیںملے اور شاید آپ نے ۲۰۱۴ءکی دیوالی کشمیر کے لوگوں کے بیچ گزاری تھی، آ پ نے کہا تھا کہ وہاں اتنا سیلاب آیا ہے، اتنا نقصان ہوا ہے، اتنے ہزار کروڑ روپے کا پیکیج کشمیر کو دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب، وہ پیکیج نہیںملا ہے، اس کا کچھ حصہ مرحوم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جب محبوبہ مفتی نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا، تو کچھ پیسہ ریلیز ہوا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ سب مذاق لگتا ہے، انھیں اپنی توہین لگتی ہے۔
> وزیر ا عظم صاحب !کیا یہ ممکن نہیں کہ جتنے بھی اب تک پارلیمانی وفود کشمیر میں گئے، ’ہم سخن رپورٹ‘ ، کے سی پنت اور رام جیٹھ ملانی کی تجویز اور ابھی جن لوگوں نے کشمیر کے بارے میں آپ کو راے دی ہے، آپ سے مطلب آپ کے دفتر کو اب تک رائے دی ہو۔ کیا ان آرا کو لے کر ہمارے سابق آٹھ یا دس چیف جسٹسوں کا ایک گروپ بناکر ان کے سامنے وہ رپورٹ نہیں سونپی جاسکتی کہ اس میں فوری طور پر کیا کیا نافذ کرنا ہے۔
چوںکہ یہ ساری چیزیں نہیںہوئیں، اس لیے کشمیر کے لوگ اب آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کا یہ جذبہ اتنا بڑھ گیا ہے وزیر اعظم صاحب، میں پھر دہراتا ہوں، مجھے پولیس سے لے کر، ۸۰سال کے ضعیف تک، پھر قلم کار، صحافی، تاجر، ٹیکسی چلانے والے، ہاؤس بوٹ کے لوگ اور چھے سال کا بچہ، یہ سب آزادی کی بات کرتے دکھائی دیے۔ ایک بھی شخص، پھرسے دہراتا ہوں، مجھے نہیں ملا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس لیے غور کرنا چاہیے کہ جن ہاتھوں میںپتھر ہیں، ان ہاتھوںکو یہ پتھر پکڑنے کی طاقت اگر کسی نے دی ہے، تو یہ ہمارے نظام نے دی ہے۔
وزیر اعظم صاحب ان لوگوں کو کب سمجھ میں آئے گا، یا نہیں سمجھ میں آئے گا، مجھے اس پر تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندستان کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو لے کر ہے۔ نریندرا مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندستان کے ساتھ جوڑے رکھا، تو وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوس ناک تاریخ ہوگی۔ تاریخ نریندرا مودی کو اس شکل میں پہچانے کہ نریندرا مودی نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں ان سارے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی، جنھیں ۶۰سال سے کشمیریوں کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے، ہیرے نہیںمانگتے، کشمیر کے لوگ عزت مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، میں نے جتنے طبقوںکی بات کی یہ سب متعلقین (اسٹیک ہولڈر) ہیں۔
فوج کے اس جذبے کو تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف نظم و نسق بنائے رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسز پیلیٹ گن چلاتے ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیراعظم صاحب، میں کشمیر کے دورے میں ہسپتالوں میں گیا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے وہ لوگ پتھروں سے زخمی تو دکھائی دیے،مگر ان کی تعداد کافی کم تھی۔ مگر یہ ’ہزاروں کی تعداد میں زخمی‘ ہونے کے پرچار پرکوئی یقین نہیں کرتا، اور اگر ایسا ہے تو ہم صحافیوں کو ان فوجی جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اپنی آنکھوں سے زمین پر ایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے لوگ دیکھے جو زخمی تھے۔ ہم نے وہاں ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو اَب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا، میں یہ خط اس یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کے پاس اگر یہ خط پہنچے گا تو آپ اسے ضرور پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ اچھا بھی کریں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے کہ یہ خط آپ کے پاس پہنچے گا،اس لیے میں اسے اپنے اخبار چھوٹی دنیا اخبار میں چھاپ رہا ہوں، تاکہ کوئی تو آپ کو بتائے کہ سچائی یہ ہے۔
وزیراعظم صاحب، کیا کشمیر کے لوگوں کو ممبئی، پٹنہ، احمدآباد اور دہلی کے لوگوں کی طرح جینے یا رہنے کا حق نہیں مل سکتا۔ ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ختم کریں گے‘‘۔ اس کا پرچار پورے ملک میں کر رہے ہیں۔ ہم کشمیریوںکو غیر انسانی رُوپ میں یعنی ظالم اور دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔ لیکن ہم ملک کے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ حکومت ہند ہی کا ایک فیصلہ تھا کشمیر ہمارا کبھی حصہ نہیں رہا اور کشمیر کو جب ہم نے ۱۹۴۷ء میں اپنے ساتھ ملایا ، توہم نے دوفریقوں کے درمیان معاہدہ کیا تھا۔ کشمیر ہمارا آئینی حصہ نہیں ہے، لیکن ہمارے آئینی نظام میں، یہ حق خودارادی (Plebiscite) سے پہلے تک کے لیے آرٹیکل ۳۷۰دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم صاحب، کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہم کبھی آرٹیکل ۳۷۰کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کریں گے اور ۳۷۰کیا ہے؟ ۳۷۰ یہ ہے کہ کشمیر پر امورخارجہ، فوج اور کرنسی کے علاوہ ہم کشمیر کی حکومت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔
لیکن گذشتہ۶۵برس اس کی مثال ہیں کہ ہم، یعنی دہلی حکومت نے وہاں مسلسل ناجائز مداخلت کی۔ فوج سے کہیے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ جو سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا ایک دہشت گرد یا دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو دشمن مت خیال کیجیے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج اور دُکھ ہے کہ ہندستان میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ گوجر احتجاج ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی کرناٹک میں کاویری اور بنگلور میں اتنا بڑا احتجاج ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔مگر ایسا کیوں ہے کہ کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور وہ کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں؟اور کیوں چھے سال کے بچوں کے اُوپر گولی چلتی ہیں؟ وزیراعظم صاحب، چھے سال کا بچہ کیوں ہمارے خلاف ہوگیا؟ وہاں کی پولیس ہمارے خلاف ہے؟
مجھے پوری امید ہے کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے فوراً اقدام کریں گے اور بغیر وقت ضائع کیے اپنی پارٹی کے لوگوں کو، اپنی حکومت کے لوگوں کو سمجھائیں گے کہ کشمیر کے بارے میں کیسا برتائو کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہمیں جواب دیں یا نہ دیں، لیکن کشمیر کے لوگوں کے دُکھ درد اور آنسو کیسے پونچھ سکتے ہیں، اس کے لیے قدم ضرور اٹھائیے۔
یہ سطور ۲۵ جنوری کو سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ آج سے ٹھیک چھے سال قبل مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے ۳۰ سال سے جبر کی علامت بنے بیٹھے حسنی مبارک سے نجات کا سفر شروع کیا تھا۔ ۳۰ سال تک مصر اور مصری عوام کی قسمت کا تنہا مالک بنا بیٹھا ڈکٹیٹر ۱۸دن کے ملک گیر دھرنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اس دوران میں ۸۴۰بے گناہ شہری شہید کردیے،۶ہزار شہری زخمی ہوئے، لیکن عوام کے صبر و ثبات نے بالآخر اس کے تکبر کابت پاش پاش کردیا۔ وہی مصری ٹی وی جو دن رات ڈکٹیٹر کی عظمت کے گن گا رہے تھے، اسے ’مصر کا آخری فرعون‘قرار دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب یہاں کسی کو بے گناہ انسانوں کی کھوپڑیوں پر تخت اقتدار سجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس سے تین ہفتے پہلے تیونس کا اکلوتا حکمران زین العابدین بن علی بھی اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آٹھ ماہ بعد لیبیا کا کرنل معمر القذافی اور ایک سال بعد یمن کا کیپٹن علی صالح بھی عوامی طوفان کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ قریب تھا کہ۱۹۶۴ء سے شام میں برسرِاقتدار اسد خاندان کی آخری بدترین نشانی بشار الاسد بھی انھی کی طرح عبرت کی مثال اور کوڑے کے اسی ڈھیر کا حصہ بن جاتا، لیکن اسی دوران میں ’بہار‘ کا خواب دیکھنے والے مصری عوام کو ان کے اس جرم کا مزا چکھاتے ہوئے ان پر ایک اور ننگ انسانیت جنرل سیسی مسلط کردیا گیا۔
خونی حکمرانوں سے نجات کے بعد اورخزاں کے اس مسموم طوفان سے پہلے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام نے ایک نیا اور پُرامن نظام تشکیل دینے کا آغاز کردیا تھا۔ پہلی بار آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے، انتخابات کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنا شروع کردیا تھا۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد ہوئے۔ تیونس اور لیبیا میں دو (دستور ساز اور پھر مستقل اسمبلی) الیکشن ہوئے، جب کہ مصر میں پانچ بار عام چنائو ہوا۔ چشم عالم نے دیکھا کہ ان تمام انتخابات میں اسلامی تحریک ’الاخوان المسلمون‘ پورے عالمِ عرب کی سب سے بڑی قوت قرار پائی۔
اخوان کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہی خطرے کی وہ گھنٹی تھی کہ جس کے بعد ساری عالمی قوتیں اور کئی نادان دوست اس نوخیز بہار کو خوفناک خزاں میں بدلنے پر تل گئے۔ مصری پارلیمنٹ، منتخب صدر، قومی اتفاق راے اور ریفرنڈم کے ذریعے منظور دستور سب کچھ، ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق کے دریا میں غرق کردیا گیا۔ امریکا میں مقیم لیبیا کے ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر کو واپس بلاکر، منتخب حکومت پر فوج کشی کروادی گئی۔ تیونس میں ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرتے ہوئے اور کئی سیاسی رہنماؤں کا قتل کرکے نومنتخب حکومت کو مفلوج کردیا گیا۔ یمن میں سابق ڈکٹیٹر اور باغی حوثی قبائل کو ڈھیروں اسلحہ اور دولت دے کر دارالحکومت پر چڑھائی کروادی گئی۔ اسلامی تحریک کی کامیابی بظاہر ناکامی میں بدل گئی۔ صرف ان چار ممالک میں۶ ہزار سے زائد فرشتہ صفت کارکنان اور قائدین شہید کردیے گئے۔۵۰ ہزار سے زائد بے گناہ اس وقت بھی جیلوں میں بدترین تشدد کا شکار کیے جارہے ہیں۔ انصاف، حقیقت پسندی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو صرف اخوان یا عالم اسلام ہی نہیں، پوری دنیا کو اس مکروہ پالیسی کی قیمت مسلسل چکانا پڑرہی ہے۔
آئے روز عوام کو صبر کی تلقین اور اقتصادی خوشحالی کے سبز باغ دکھانے والے جنرل سیسی کے دور میں مصری عوام کو بد ترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اربوں ڈالر کی امداد چند مخصوص تجوریوں کی نذر ہو گئی۔ صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس وقت ملکی خزانے میں ۳۳ ؍ارب ڈالر تھے۔ جنرل سیسی کو ۴۰ ؍ارب ڈالر کی مزید امداد دی گئی۔ اس وقت خزانے میں ۱۳؍ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے ۱۲ ؍ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ۲ کروڑ ۱۰ لاکھ میں سے ایک کروڑ ۲۰لاکھ راشن کارڈ ختم کیے جارہے ہیں۔ ادویات کو حاصل سب سڈی ختم کی جارہی ہے۔ صدر مرسی کے دورِ اقتدار میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پائونڈ کا تھا اب ۱۹ پائونڈ سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ معروف مصری ماہر اقتصاد وائل النحاس نے خبر دار کیا ہے کہ ۲۰۱۷ء میں امریکی ڈالر ۲۴ اور ۲۰۱۸ء میں ۴۱ پائونڈ تک گر سکتا ہے۔ کرنسی کی اس بے وقعتی کے باعث ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات بالخصوص ادویات اور چینی ناپید ہو گئی ہے۔
اخوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دیں اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ جنرل سیسی کے ’عہد آزادی‘ میں مخالف ذرائع ابلاغ تو کجا وہ نمایاں ترین صحافی بھی قتل ، قید یا فارغ کر دیے گئے جنھوں نے اخوان پر الزامات کے طومار باندھتے ہوئے جنرل سیسی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ باسم یوسف ، ریم ماجد ، جابرالقرموطی، محمود سعد اور توفیق عکاشہ وہ چند نام ہیں، جن کی شکل ہی سے اخوان دشمنی ٹپکتی ہے۔ آج ان سب پر پابندیاں عائد ہیں۔ توفیق عکاشہ کو تو جنرل سیسی نے اپنی نام نہاد اسمبلی کا رکن بھی منتخب کروایا تھا، گذشتہ مارچ میں اس کی رکنیت بھی ارکان پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے ختم کروا دی گئی ۔ ایک اور نمایاں خاتون اینکر لمیس الحدیدی کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ اتنے دبائو کا سامناہے کہ صحافت چھوڑ کر سلائی شروع کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں‘‘۔ ان حضرات وخواتین کو ملنے والی اب تک کی سزا تو پھر عارضی و معمولی ہے۔ اپنے ملک وقوم اور خود اپنی ذات پر انھوں نے جو ظلم ڈھائے، اللہ کرے کہ انھیں آخرت میں اس کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔
ظلم وجبر ، معاشی بدحالی اور عمداً پھیلائی جانے والی اخلاقی تباہی کے جو گہرے اثرات معاشرتی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود جنرل سیسی کے اس خطاب سے لگا لیجیے کہ: ’’مصر میں ہر سال تقریباً ۹لاکھ افراد شادی کرتے ہیں۔ پانچ سال کے بعد ان میں سے ۴۰ فی صد جوڑوں میں طلاق ہو جاتی ہے ‘‘۔ پھر خرابی کی اصل جڑ اور اسباب دُور کرنے کے بجاے عبقری علاج تجویز کرتے ہوئے اور سامنے بیٹھے شیخ الازھر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم قانون بنا رہے ہیں کہ عقد نکاح کی طرح طلاق دینے کے لیے بھی نکاح خواں کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے‘‘۔ سبحان اللہ ... وہ بات جس کے بار ے میں صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اسے بھی بے لگام کیا اور مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل جنرل کو جواز بغاوت فراہم کرنے والے شیخ الازہر نے اس توہین شریعت پر بھی حسب توقع چپ سادھے رکھی۔
جنرل سیسی ، بشارالاسد ، باغی حوثی قبائل، فرقہ واریت یا دین کی قاتلانہ تعبیر کی بنیاد پر تشکیل دینے والے مسلح گروہوں کی سرپرست قوتیں خدارا اب تو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلیں۔ کیا صرف اخوان دشمنی اور تعصبات و مفادات کے نتیجے میں تشکیل پانے والا آج کا یہ منظرنامہ بہتر ہے یا ایک ایسی دنیا کہ جس میں تمام انسان حریتِ فکر، برابری اور انصاف کے سائے میں مل کر زندگی بسر کرسکتے ہوں؟ کیا بشار اور اس کا خاندان ہمیشہ حکمران اورباقی پوری قوم ان کی غلام رہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے ؟ کیا جنرل سیسی مصری فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے عوام کے منتخب نظام کے تحت عزت وکامیابی کی منزلیں طے کرتا، تو صرف مصر ہی نہیں پورے خطے کا مستقبل روشن نہ ہو جاتا؟ کیا ۳۳سالہ مکمل اقتدار کے بعد علی صالح اپنے ہی نائب صدر عبد ربہ منصور کی سربراہی میں بننے والی قومی حکومت کو اقتدار سونپ کر ، حوثیوں سمیت پوری قوم کے ساتھ امن وخوش حالی کی زندگی بسر کرتا، تو خود ان سب کی الگ الگ سرپرستی کرنے والے تمام ممالک کے لیے بھی خیر وبرکت کا سبب نہ بنتا؟
کہا جاتا ہے کہ اس ساری تباہی کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے۔ یقینا اغیار کا ہاتھ تو ہے، لیکن ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ توپوری دنیا پر اپنے غلام مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ صرف اخوان یا امت مسلمہ ہی نہیں، خود اسلام کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیسی ، بشاراور حوثی کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیسی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں امریکی کانگریس میں بحث ہوئی تو مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن (پاکستان میں بھی سفیر رہ چکی ) نے ۱۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو کانگریس میں بیان دیا کہ ’’جنرل سیسی پوری طرح امریکی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ پروٹسٹنٹ مسیحی مشنریزکے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ’’جنرل سیسی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ان کے لیے سب سے بہتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ مصری تجزیہ نگار محمدالہامی کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل مصر میں سعید پاشا نامی وہ حکمران آیا تھا کہ جسے انگریز نے براہ راست اپنی تربیت میں لے کر مصر کے حکمران کے طور پر تیار کیا تھا۔ اس نے وزارت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نمایاں پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بند کردیے۔ تمام تر وسائل پرائیویٹ مغربی تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیے ۔ اس کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’عوام پر حکمرانی کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے جاہل رکھا جائے ‘‘۔ اسی نے نہرسویز پر مغربی اجارہ داری کی راہ کھولی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ آج ۲۱ویں صدی میں جنرل سیسی کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ینفع بایہ التعلیم فی وطن ضائع ، ’’اس تباہ حال ملک میں حصول تعلیم بھلا کیا فائدہ دے گا‘‘ ۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کی عالمی رپورٹ براے معیار تعلیم میں شامل ۱۴۰ ممالک کی فہرست میں جنرل سیسی کا مصر ۱۳۹ ویں نمبر پر آیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں نئی یہودی بستیوں کی مذمت کے لیے لائی گئی قرار داد کو مصر کی جانب سے واپس لے لیے جانے کے بعد ہی نہیں ، اس سے پہلے بھی صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو، تمام اپوزیشن رہنما اور عسکری وفکری قیادت، جنرل سیسی کی تعریف میں درجنوں بیانات دے چکی ہے۔ ان کے بقول اس سورما نے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرے کا ازالہ کرتے ہوئے اخوان حکومت کا خاتمہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی حلف اُٹھاتے ہی جن پانچ عالمی سربراہان کو فون کیا ان میں جنرل سیسی اور بھارتی وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔ اس پر مصری سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں کہا گیا کہ’’جنرل سیسی نے دنیا کو اخوان کے خطرے سے بچانے کے لیے جو کام شروع کیا تھا، اللہ نے اب اس کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کو بھیجا ہے‘‘۔ ایک طرف اغیار کی طرف سے تعریف و ستایش کے ڈونگرے اور دوسری جانب اربوں ڈالر کے ڈھیر کیا اب بھی کسی کے لیے اصل حقائق جاننا مشکل ہے ؟۔
چھے طویل برس قربانیوں اور اذیت وابتلا میں گزر گئے ، لیکن کیا اسلامی تحریک اور اُمت مسلمہ کی منزل اس سے ہمیشہ کے لیے چھینی جا سکی؟ کیا ۲۰۰۷ء میں معروف امریکی فکری مرکز (RAND)کی یہ سفارشات کہ ’ سیاسی اسلام ‘ کا خاتمہ دنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے، خود ان پالیسی سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو راہِ نجات فراہم کر سکیں ؟ اور کیا اب صدر ٹرمپ کی طرف سے ’انتہاپسند اسلام‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ’بڑ ‘ دنیا کو امن وترقی سے ہم کنار کر سکے گی ؟ ان اور ان جیسے تمام سوالات کا جواب دو ٹوک نفی میں ہے۔ اکانومسٹ کا یہی اعتراف دیکھ لیجیے کہ’’ ان چھے سال میں عالمِ عرب مزید بدتر ہو گیا لیکن وہاں کے عوام اپنی تباہی کے اصل اسباب سے زیادہ بہتر طور پر باخبر ہو گئے ہیں‘‘۔ ۲۵ جنوری کو شروع ہونے والی تحریک کے چھے برس پورے ہونے پر بلجیم کا ’پولیٹیکو ‘ اعتراف کرتا ہے کہ عوامی انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ مصری عوام کی جدوجہد بھی منزل تک پہنچ کررہے گی۔ پھر وہ فرانسیسی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ۱۷۸۹ء میں شروع ہونے والا یہ انقلاب ۱۷۹۹ء میں نپولین کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا ۸۰ سال بعد ۱۸۷۰ ء میں ایک مستحکم جمہوری فرانس تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔
ذرا قرآن کریم کے ارشادات پر غور فرمائیے تمام ظالموں اور مظلوموں کا مستقبل واضح ہوجائے گا:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۴۲) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ(القصص ۲۸:۵) اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ جو لوگ زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے ان پر مہربانی کریں اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں۔
وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔
۱۱نومبر ۲۰۰۹ءکی دوپہر ،شعبۂ اُردو ،کشمیر یونی ورسٹی سے کلاسیں لینے کے بعد نمازِظہر کے لیے یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں جاکر وضو کے لیے پانی سے ہاتھ بھگوئے ہی تھے کہ یہ خبر گوش گزارہوئی :’’محسنِ ملّت سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیر یونی ورسٹی پہنچے ہیںاوربابِ سرسیّد سے اندرآنے کے لیے کھڑے ہیں‘‘۔ شوقِ دیدار تھا،اس لیے تیزی سے وضوکیا اورسرسیّد گیٹ کی طرف تیز تیز چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایسے مخلص قائد تک پہنچنے کے لیے یونی ورسٹی کے طلبہ برق رفتاری سے جارہے تھے۔ طالبات بھی تیزقدموں سے اپنے مُرشد کے دیدارکے لیے جوق درجوق آرہی تھیں۔جوں ہی میںگیٹ پرپہنچا توخوشی اورمسرت کی جگہ حیرت نے لے لی۔ کیمپس میں تعینات پولیس عملے نے سرسیّد گیٹ پرتالا چڑھا رکھاتھا اورقائدانقلاب گیٹ کے دوسری جانب کھڑے تھے۔ اُس روز یونی ورسٹی کا سرسیّد گیٹ بھی لائن آف کنٹرول لگ رہاتھا۔
پولیس سے استفسارکرنے پرمعلوم ہواکہ: ’’یونی ورسٹی انتظامیہ نے گیلانی صاحب کے داخلے پرپابندی لگادی ہے‘‘۔ غم وغصہ فطری تھا۔وہ شخص جوبے لوث قربانیوں کی علامت ہے۔ وہ عظیم ہستی جس نے ہمارے کل کے لیے اپنے آج کوقربان کیا ،غیرت جس کی پہچان ہے، اُس بزرگ ہستی کو نفس کے غلام اپنی ہی مادرعلمی میںآنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ وہ ہستی کہ جن کے لیے صرف کشمیرہی نہیں بلکہ برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں دل دھڑکتے ہیں۔ جو نہ جھکا،نہ بکا، نہ ۸۰برس سے زیادہ عمرمیں تھکا،بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کشمیر کے جائز حق کے لیے ہمالہ کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ اُسے قوم کے مستقبل سے ملنے سے روکاجارہا تھا۔ آخرکار صبرکاپیمانہ لبریزہوا اورطلبہ کے غصّے کو دیکھ کر پولیس ہٹ گئی۔ طلبہ نے آگے بڑھ کر بابِ سرسید کوبزورِبازو اس شدت سے ہلایا کہ تالا ٹوٹا اور قائدانقلاب سیّد علی شاہ گیلانی کیمپس میںداخل ہوگئے۔ قائد کے قدموں نے جیسے ہی بابِ سرسیّد عبور کیا، طلبہ کے مضطرب اور پریشان چہروں پرخوشی کی لہردوڑ گئی۔ کوئی ان کے ہاتھوں کوچُوم رہاتھا اورکوئی ان شانوںپر بازو ڈال کے گلے مل رہاتھا، جنھوں نے کئی عشروں سےملّت مظلوم کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔
’کون کرے گا ترجمانی،سیّدعلی شاہ گیلانی‘کے فلک شگاف نعروں سے کیمپس گونج اُٹھا اور چانکیائی سیاست کے آلۂ کارسہم کررہ گئے۔طلبہ وطالبات کاسیل رواںتھا،جو قائد کے استقبال میں سڑک کے دونوںاطراف آزادی کے حق میں اور بھارت کے جبری تسلط کے خلاف پُرجوش نعرے بازی میںمصروف تھا۔نمازِظہر ادا ہوچکی تھی، اس لیے استقبال میںموجودطلبہ نے مسجد کے باہرہی کھلے لان میں محسنِ ملّت کی امامت میںنمازظہراداکی۔نماز اداہوتے ہی جلوس کی صورت میںاقبال لائبریری کے سامنے پہنچے تو طلبہ کے اصرار پہ گیلانی صاحب نے خطاب فرمایا۔ تب سے اس جگہ کو ’گیلانی اسکوائر‘ (Geelani Square) کہا جانے لگا۔جہاں انھوں نے حق خود ارادیت، اسلام، انسانیت اورحصولِ تعلیم پرزور دیا۔
تقریرکے دوران جناب سیّد علی گیلانی نے ریاستی حکومت کی اُردوزبان سے بے توجہی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اقبال لائبریری کی بلندوبالا عمارت پریونی ورسٹی مونوگرام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:’’میرے بیٹو اور بیٹیو! یہ مونوگرام تین زبانوں میں ہے: عربی ،انگریزی اور دیوناگری، مگراس میں اُردو شامل نہیں ہے، حالاںکہ اُردوریاست میںسرکاری زبان ہے۔ یہ کیسا سنگین مذاق ہے کہ سرکاری دفاتر میںاس زبان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سائنس اور ٹکنالوجی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے لاتعلقی کسی بھی درجے میںقابل قبول نہیں، لیکن ہماری تہذیب ہمارے دینی اُمور کی تشریح،تعمیراخلاق کے اسباق اورہماری تاریخ اُردوزبان ہی میں محفوظ ہیں،مگر غاصب قوتوں کے ریاستی آلۂ کاراُردوزبان کے ساتھ سوتیلی ماں کاسلوک کررہے ہیں۔ اُردوزبان کے ساتھ ان سامراجی قوتوں کایہ رویہ کوئی حیران کن عمل نہیں ہے۔جولوگ اسلاف کے مدفن بیچ کھائیں، اپنے عہدوں کاناجائز فائدہ اُٹھاکر رشوت کے ’کاروبار‘کوفروغ دیں، سبزباغ دکھاکر ریاست کے عوام کااستحصال کریں، ان کے لیے تو اُردو بس ایک زبان ہے۔لیکن وہ یہ بھول رہے ہیںکہ میرؔ کی جگرسوزی، غالبؔ کی رعنائی کلام،سرسیّدکی مساعیِ جلیلہ ، اقبال کاپیغام حُریت و عمل،جوشؔ کا ولولہ انقلاب، فیض کی انقلابی رومانویت اورمولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کا حُسنِ کلام، اُردوزبان کی پشت پرہیں۔یہ زبان سازشوں کی نذرہوگی اورنہ اسے مٹانا آسان ہے‘‘۔
خیال رہے کہ سروسز سلیکشن بورڈ کشمیر(ایس ایس بی) کا اُردو زبان کے حوالے سے مخالفانہ فیصلہ افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہےجو اسی استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ریاست کے محبان اُردوکی کارروائی اور سیّد علی شاہ گیلانی کے بیان نے ایس ایس بی کے اس گمراہ کن اورظالمانہ فیصلے کوردکر دیا۔ ریاستی ادارے گاہے گاہے اُردوزبان کی دُکھتی رگ پرہاتھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اُردوزبان کی ترویج وترقی کے لیے متعدد انجمنیں بھی کام کررہی ہیں،لیکن افسوس کہ ان کاوزن یہ لوگ محسوس نہیںکرتے۔ ان انجمنوں کاکام صرف سیمی ناراور مشاعروں کا انعقاد رہ گیاہے اور قومی اداروںسے اس کے عوض بھاری رقمیں بٹور کر لذت کام ودہن حاصل کرناہے ۔یہ لوگ اُردو سے فائدہ تواُٹھاتے ہیں،لیکن اُردو کی حقیقی ترقی کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ ’محبان اُردو، کی روش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرممکن طریقے سے تعلیمی اداروں میں اُردو کی تدریس کویقینی بنائیں۔ معاشرے میں اُردو کی تعلیم کے لیے بیداری مہم کو بھرپور تحریک کی شکل دی جائے۔ نئی نسل کے والدین کو حق کی گواہی کے لیے تیار کیا جائے، تاکہ وہ اپنے بچوںکواُردوکی تعلیم لازمی طورپردیں۔ دستوری طورپرہی اُردوکوریاست جموںوکشمیر میںصحیح مقام مل سکتاہے۔ اہل علم کو اس مقصد کے لیے سرجوڑ کر بیٹھناچاہیے، تاکہ اُردو کے حق کوبحال کرنے کے لیے فی الفور سنجیدہ کوششوں کاآغاز کیاجاسکے اورلائحۂ عمل تیارکرکے، اخلاص کے ساتھ اُردو کے حق کی بحالی کی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بلاتفریق مذہب وملت مقصدکے حصول کے لیے احتجاج کی تمام مثبت صورت اختیارکی جائے۔
اُردوغیرمنقسم ہندستان کی واحدایسی زبان تھی جس میںقانون، فلسفہ،سماجی علوم، سائنس کے مضامین میںاعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔آج دنیابھر میںاُردو کی نئی نئی بستیاںآبادہورہی ہیں۔ یونیسکو کے ایک جائزے کے مطابق اُردو دنیامیں بولی جانے والی دوسری اورپڑھی جانے والی تیسری زبان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اُردوکے تحفظ اورفروغ کی ضرورت اوراس کے آئینی حق کے بارے میںحکومتیںغیرسنجیدہ ہیں۔ریاست جموںوکشمیرمیںاُردو کی آئینی حیثیت ایک عرصے سے محض خوش فہمی کا سامان ہے اوربعض کے لیے واویلا مچانے کابہانہ۔
بات سیّد علی گیلانی کی یونی ورسٹی آمد کی ہورہی تھی۔پُرسوزاورمؤثر خطاب کے بعد موصوف اپنی کار میں بیٹھ کر اقبال لائبریری کے گیٹ تک گئے۔منظرقابل دیدتھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ یونی ورسٹی کی تاریخ میں جب کسی لیڈر کی گاڑی لائبریری کے گیٹ تک گئی ہو، جب کہ طلبہ واسکالرز اور لائبریری کا عملہ سڑک کے دونوں اطراف ہاتھ اُٹھائے بآواز بلند ہردل عزیز قائد کے حق میں قصیدے گارہا تھا۔ پُرجوش منظر،آبدیدہ چشم،ایساسماں کہ قلم عکس بندی سے قاصر ہے!
گیلانی صاحب لائبریری میں داخل ہوئے۔ لائبریرین سے مختصر گفتگو کے بعد اپنی تصانیف لائبریری کو پیش کیں۔ طلبہ کا جمِ غفیرلائبریری کے باہرلان میں قائد کا منتظر تھا۔ جیسے ہی وہ باہرآئے تو نعرۂ تکبیر کی صدائیں دوبارہ گونجنے لگیں۔گاڑی کوہرطرف سے گھیرا لیا گیا۔ قائد گاڑی کے اندرسے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کوالوداع کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے رومی گیٹ تک گاڑی پہنچی۔ باہر ستم گر خاکی وردی میں ملبوس گاڑی میںمنتظر تھے، اورگیلانی صاحب کوپکڑ کے حسبِ روایت جرمِ بے گناہی میں نامعلوم جگہ پر حبسِ بے جا میں ڈال دیا۔
گیلانی صاحب ایک کثیرالجہات شخصیت ہیں۔تحریک اسلامی کے صف اول کے رہنما، برعظیم کے مؤثر خطیب وشعلہ بیان مقرر، قائد بے بدل ،تاریخ کشمیر کے امین اورمجاہد ملت۔ علاوہ ازیں موصوف فارسی واُردوادب کے شناسابھی ہیں۔ فارسی واُردو اشعار ازبر ہیں۔ان کے کلام کی چاشنی اور اُردوزبان کی حلاوت سامعین کے دلوں کومحظوظ کرتی ہے۔
انھوں نے اپنی کتابوںمیں اُردوادب کی مختلف اصناف کو محفوظ کیا ہے جن میں آپ بیتی، خاکہ، سوانح حیات،خودنوشت سوانح حیات، انشائیہ ،مضمون ،مکتوب نگاری اورسفرنامہ شامل ہیں۔ ادب فنون لطیفہ کی اہم ترین شاخ ہے۔ حُسنِ خیال، موادکی ترتیب اورالفاظ کے موزوںوحسین استعمال کے ذریعے ادب وجود میں آتا ہے۔ غیرافسانوی ادب کی بنیادحقیقت پسندی پررکھی جاتی ہے۔ دنیا کی حقیقتوں، مسائل، تجربات، مشاہدات اوراحساسات کوکہانی کے رنگ کے بغیرپیش کرنا غیرافسانوی ادب کی علامت ہے اورسیّد علی گیلانی کی تحریرات بھی انھی اصولوں پر پورااُترتی ہیں۔