۲۸ستمبر۲۰۱۵ء کو قندوز پر طالبان کا قبضہ ایک طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ۔ یہ ۲۰۰۱ء کے بعد ان کی ایک بڑی جنگی کامیابی تھی ۔ قندوز افغانستان کے شمال میں ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ۵ئ۳ لاکھ ہے ۔ اگر چہ یہ قبضہ عارضی تھا اور محض چند روز تک محدود رہا، لیکن اس نے واشنگٹن میں پینٹاگان کے بزرجمہروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس کو ایک بڑی خبر کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا۔ سی این این کے بین الاقوامی تبصرہ نگار نک روبرٹسن نے اس کو طالبان کے لیے ایک بڑا انعام قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے تدریجی انخلا کے بعد ماہ جنوری میں صدر باراک اوباما نے امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کانگریس سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ: ’’اب ہم خود افغانستان کا گشت کرنے کے بجاے افغان سیکیورٹی فورس کو استعمال کریں گے، جن کی ہم نے خوب تربیت کی ہے‘‘۔ لیکن قندوز کی حد تک افغان فوج یہ ذمہ داری پورا نہ کر سکی، جب کہ شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایئرپورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لڑاکا امریکی فوج موجود تھی ۔نک روبرٹسن نے طالبان کی جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال ماہ اپریل سے اس کا م پر لگے ہوئے تھے اور عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے اور بڑا حملہ کر دیا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ خبر سنائی کہ: ’’طالبان نے ۱۰مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا اور گو رنر ہائوس اور پولیس ہیڈ کوارٹرپر پیرکی صبح ہی قبضہ کر لیا تھا۔ افغان آرمی کے جنرل مراد علی نے الزام لگایا کہ ان میں غیر ملکی ازبک بھی شامل تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں لکھا کہ: ’’طالبان قندوز میں افغان آرمی کا صفایا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں‘‘۔
l طالبان کی حکمت عملی: طالبان شمالی افغانستان کے کمانڈر حاجی قادر نے جن کا تعلق شمالی صوبے بدخشان سے ہے دعویٰ کیا کہ ہم نے گذشتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنوب کے بجاے شمال کی طرف جنگ پر توجہ دی جائے گی ۔ اس لیے ہم نے چار شمالی صوبوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ قندوز پر قبضہ ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ جب افغان آرمی نے قبضہ چھڑانے کے لیے نقل و حرکت شروع کی تو اس کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قندوز کی جانب رواں افغان فوجی کانوائے بغلان صوبے میں رکاوٹوں اور حملوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ سڑک پر پتھر اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئی تھیں۔ طالبان نے صرف قندوز شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قندوز صوبے کے ایک اہم ضلع چارد رہ پر بھی قبضہ کیا جہاں سے افغانستان کی ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے، جو مزار شریف کو قندوز سے ملاتی ہے۔
قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ عارضی تھا اورصرف تین دن تک رہا ۔ اس دوران طالبان شہراور بازار کے اہم مقامات پر موجود رہے ۔ ان کے جھنڈے عمارتوں پر لہراتے رہے اور وہ گھر گھر تلاشی لیتے رہے ۔ جمعرات کے دن افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں واپس داخل ہو چکی ہے اور اس نے طالبان کو وہاں سے نکال دیا ہے ۔ اس دوران ہزاروں لوگ قندوز سے نکل گئے۔ انھوں نے ایئر پورٹ کا رخ کیا، جہاں سیکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ۔ مقامی ٹی وی ا سٹیشن اور ریڈیو کی نشریات بند ہو گئیں تھیں۔ طالبان کی قابض فوجوں نے ایسے افراد کی فہرستیں تیار کیں، جو ان کو مطلوب تھے اور ان کی تلاش میں وہ گھروں پر چھاپے مارتے رہے۔ طالبان لائوڈ سپیکر وں پر دکان داروں کو ہدایات دیتے رہے کہ وہ دکانیں کھول دیں۔
طالبان نے قندوز کے اس عارضی قبضے سے کیا حاصل کیا ؟ ان کے کیا اہداف تھے اور وہ اس کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
ایک مقصد تو بڑا واضح طور پر نظر آیا کہ انھوں نے قندوز جیل میں بند اپنے ۶۰۰ساتھیوں کو چھڑا لیا جو کافی عرصے سے وہاں قید تھے۔دوسرا بڑا فائدہ ان کو بھاری تعداد میں اسلحے کی صورت میں ہوا جو انھوں نے سیکڑوں گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ٹھکانوں کو روانہ کیا ۔ ان میں وہ بکتر بند امریکی ساختہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھی جو افغان آرمی اور پولیس کے زیر استعمال رہتی ہیں۔ مال غنیمت میں ۱۵۰ گاڑیوں کے علاوہ بھاری مشین گنوں، مارٹر توپوں ،کلاشنکوف رائفلوں اور بارودی مواد کے بڑے ذخیرے طالبان کے ہاتھ لگے۔ تیسری ا ہم چیز جو طالبان کے ہاتھ آئی وہ بھاری رقوم اور غیر ملکی کرنسی ہے، جو قندوز شہر کے بنکوں اور خزانے میں موجود تھی۔ افغان آرمی نے جب قندوز پر دوبار قبضہ کیا تو انھوں نے ۲۰۰طالبان مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا لیکن طالبان اپنا نقصان بہت کم بتاتے ہیں۔
قندوز ہسپتال بین الاقوامی نوبل انعام یافتہ ادارہ Médecins Sans Frontières International (MSF) چلاتی ہے۔ سرحدی پابندیوں سے آزاد طبی امداد کا یہ ادارہ بنیادی طور پر فرانسیسی این جی او ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں کام کرتی ہے ۔ قندوز ہسپتال شمالی افغانستان میں اہم ترین طبی مرکز تھا جس سے کئی صوبوں کے عوام استفادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران بھی انھوں نے اپنی خدمات جاری رکھیںاور زخمی شہریوں ، بچوں ،عورتوں کو طبی امداد بہم پہنچاتے رہے ۔ ہسپتال میں عملے کی تعداد ۲۰۰تھی۔ امریکی حکام نے بعد میں یہ وضاحت پیش کی کہ ہم سے افغان آرمی نے درخواست کی تھی کہ ہسپتال کے احاطے میں طالبان چھپے ہوئے ہیں، اس کو ہدف بنایا جائے ۔ چنانچہ ہم نے فضائی کارروائی کی ۔ لیکن یہ معذرت بذات خود ایک بڑے جرم کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی سوچ سمجھ کر کی گئی اور اس دوران ہسپتال انتظامیہ بھی افغان حکومت سے اپیل کرتی رہی کہ میڈیکل عملے کے ارکان اور مریض مر رہے ہیں،لیکن پھر بھی حملہ جاری رہا ۔ یہ سفاکانہ حملہ مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی افواج نے کیا۔ امریکی صدر نے رسماً دوحرفی معذرت پیش کی۔ ایم ایس ایف نے احتجاجاً اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
قندوز میں افغان آرمی کی شکست کابل حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس نے امریکی معاونت سے ملک میں ایک اتحادی سیاسی حکومت تو بنالی ہے لیکن وہ افغانستان کو ایک مؤثر اور مضبوط قیادت فراہم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ طالبان کی اٹھان اور ان کی جنگی حکمت عملی کے مقابلے میں کابل کی افواج کی کمزوریاں اس حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج اور پولیس کی موجودگی میں ایک بڑے شہر پر قبضہ اس کے لیے ایک بڑا تازیانہ ہے، اور ملک میں حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے امکان کو بڑھاتا ہے ۔
مُلّا محمد عمر کے دوسال پہلے انتقال کی خبر نے بھی طالبان کی کمزور ی میں اضافہ کیا اور اب داعش افغان نوجوانوں کو جگہ جگہ بھرتی کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر طالبان تحریک سے مڈبھیڑ بھی ہو رہی ہے ۔غالباً طالبان کی نئی جنگی حکمت عملی اور مہم جوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑی سرگرمیاں دکھا کر افغانستان میں جہاد سے منسلک عنصر کو اپنے سے جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس طرح وہ نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرا ر رکھنا چاہتے ہیںبلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور امریکی دل چسپی کی کمی کی صورت میں ملکی اقتدار پر قبضے کی اپنی خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور چین کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، بدقسمتی سے اس کے دوبارہ احیا کے امکانات معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ افغان حکومت واضح طور پر پاکستان مخالف جذبات کی اسیر نظر آتی ہے ۔اس میں یقینا بھارتی لابی کا بھی کردار ہو گا جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور چین کی شرکت نہیں چاہتی۔ تاہم کابل کی قیادت کو یقینا یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان سے دُوری او ربگاڑ پیداکر کے وہ پاکستا ن سے زیادہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس کے دور رس نتائج ہو ںگے۔ بلاشبہہ طالبان تحریک اس وقت اتنی قوت نہیں رکھتی کہ وہ بڑے شہروں پر مستقل قبضہ کر سکے، لیکن وہ ایک مستقل مزاحمتی تحریک کی حیثیت سے بھی اگر اپنی حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو پھر افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
مصر میں فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں اخوان اور دیگر شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان کی مرکزی قیادت کے بیش تر افراد سزاے موت کے مستحق ٹھیرا دیے گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید یہ واحد واقعہ ہو کہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے لیے کوشاں کسی پُرامن سیاسی تنظیم کو اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں وقت کی آمر اور غاصب حکومت کے ہاتھوں تیسری بار اپنی اعلیٰ قیادت سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو۔ فوجی انقلاب کے ہاتھوں ہزاروں کارکن اور شہری وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور متعدد صحافیوں نے جیلوں میں بند ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کی صورت حال اور اعداد و شمار بیان کیے ہیں، وہ مختصراً یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:
اس فوجی انقلاب کے دو برس پورے ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کو اِعدام وطن (پورے ملک کے لیے پھانسی) کا عنوان دیا گیا اور کہا گیا کہ فوجی انقلاب کے دوسال پورے ہونے تک ۱۱۶۳ قیدیوں کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے سات کی سزا پر عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ ۴۹۶ کی نظرثانی کی اپیل منظور کرلی گئی اور اُن کی سزاے موت دیگر سزائوں میں بدل دی گئی۔ ۲۴۷ کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی سزاے موت ختم ہوگئی اور ۴۱۳ بدستور سزاے موت کے منتظر ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سزاے موت پانے والوں کی یہ تعداد ۱۶۹۳ تھی جو پھانسی کا حکم جاری کرنے کے لیے مفتی اعظم کے پاس بھجوائی گئی تھی۔ البتہ بعد میں اسے کم کر کے ۱۱۶۳ پر لایا گیا جن کے ’مجرموں‘ کو سزاے موت کے پروانے جاری کیے گئے ہیں اُن پر ایک کالعدم جماعت سے تعلق کا الزام تھا۔
سزاے موت کا حکم سننے والوں میں سرفہرست اخوان کی مرکزی قیادت اور معزول کیے گئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی ہیں۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کو پانچ بار سزاے موت سنائی گئی ہے۔ تحلیل شدہ پارلیمان کے صدر محمد سعد الکتاتنی، حزب الحریۃ والعدالۃ کے رہنما محمد بلتاجی، معروف مقرر اور داعی صفوت حجازی اور اخوانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔
سزاے موت کا حکم پانے والوں میں شمالی مصر کا ضلع مُنیا سب سے آگے ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سزاے موت کے قیدی ۱۲۱۱ ہیں۔ اسی طرح ضلع الجیزہ کے ۲۳۳، اور قاہرہ کے ۱۷۸ ہیں۔ سزاے موت کے احکام پر مہر تصدیق کے لیے مفتی اعظم مصر کو پیش کیے گئے ان ناموں میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مساجد کے ائمہ اور خطیب، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین، طلبہ، صحافیوں، انجینیروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین خانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ۲۶۸؍افراد تو جیلوں اور تفتیشی مراکز کے اندر ہی یا تو طبی امداد نہ مل سکنے پر یا تعذیب و تشدد کی بنا پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُن افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کو مظاہروں کے دوران یا دھرنوں کے دوران جبرو تشدد کے ذریعے بھگانے کے عمل میں ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو دورانِ گرفتاری بے پناہ تشدد کے باعث زندگی ہار بیٹھے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱۴۰۶ ہے مگر اس میں رابعہ اور نہضہ کے میدانوں میں دھرنے دینے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے جن کو ملٹری فورسز نے نمازِ فجر کے وقت عین حالت ِ نماز میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور وہ بھی ماہِ مقدس و ماہِ رحمت رمضان المبارک کے ایسے لمحات میں جب عادی مجرموں اور انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے رب کی عام معافی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ رابعہ اور نہضہ کے شہدا کی تعداد ۵ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔
طلبہ کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق جو یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی آزادی و حقوق کے لیے کوشاں ہے، ۳جولائی ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب سے ۱۱فروری ۲۰۱۵ء کے عرصے میں ماوراے قانون ہلاک کیے گئے طلبہ کی تعداد ۲۲۸ ہے۔ ان میں چھے طالبات بھی ہیں۔ ۱۶۴ کو ’ناگزیر وجوہ‘ کی بنا پر لاپتا رکھا گیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء تک گرفتار شدہ طلبہ و طالبات کی تعداد ۳ہزار ۲سو۴۲ ہے۔ ان میں سے ۱۸۹۸ طلبہ و طالبات بدستور گرفتار ہیں۔ ان میں سے ۱۶۰ کو جبری طور پر اعترافِ جرم کرانے کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے کارکن کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ تعداد ہے جو پرانے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل اور موجودہ تعداد تو اس سے بہت زیادہ ہے۔ بیش تر اضلاع میں روزانہ نئی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ اس طرح یہ تعداد ۶۰ ہزار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے مگر اُس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کمی روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پوری ہوجاتی ہے۔
اس کارکن کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدہ افراد کے لیے اپیل کرنے والے وکیلوں کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے۔ ایسے وکلا کی تعداد ۳ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور مزید ۲۸۰ کے بارے میں گرفتاری اور پیشی کے احکام جاری کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس وقت مصر کے اندر عدلیہ کی کوئی بنیاد باقی نہیں ہے۔
جیلوں کے اندر بند اِن قیدیوں کی صورت حال کو اُن کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ پربیان کرتی رہتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی قیدیوں کے مصائب و آلام اور تعذیب و تشدد کے علاوہ مختلف امراض میں مبتلا افراد کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جنوبی قاہرہ میں واقع کئی جیلوں کا مجموعہ عقرب جیل ہے۔ یہ جیل قیدیوں کے لیے کڑی حراست کے اعتبار سے بہت بُری شہرت رکھتی ہے۔ یہ اپنے قیام کے ۲۵ سال سے خوف ناک تعذیب و تشدد کی روایات کے باعث منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ اخوان کے نائب مرشدعام خیرت الشاطر اسی عقرب جیل میں قید ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انھیں ہفتوں دوا نہیں ملتی اور وہ بغیر دوا کے بیماری کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔
گذشتہ رمضان کے دوران قیدیوں کو قرآنِ پاک کے نسخوں سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ تلاوتِ قرآن نہ کرسکیں۔ جیل کی بیرکوں کی بجلی بند کردی گئی تاکہ انھیں دورانِ روزہ کوئی آسانی نہ پہنچ پائے۔ اُن کی کلائی گھڑیاں چھین لی گئیں تاکہ اُنھیں سحری و افطاری کے اوقات معلوم نہ ہوسکیں۔ پانی کی فراہمی بند رکھی گئی تاکہ وہ نماز کے لیے وضو نہ کرسکیں۔
قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب کے بعد مصر کی جیلیں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بدترین ذہنی و بدنی تعذیب اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کی اس پامالی کو نہ بند کراسکی ہیں اور نہ کم ہی کرانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ مرکز براے انسانی حقوق کی تعظیم کے ایک محقق احمد مفرح کا کہنا ہے کہ سیکڑوں لوگ جو طبی امداد کی عدم فراہمی اور غیرمعمولی تشدد کے باعث موت سے دوچار ہوگئے اُن میں اخوان کی مرکزی قیادت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان میں نمایاں نام قومی اسمبلی کی کمیٹی براے قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار فرید اسماعیل کا ہے۔ فرید اسماعیل حالیہ مئی کے مہینے میں قاہرہ کی عقرب جیل کے ہسپتال میں جگر کے مرض میں مبتلا رہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ضلع دمیاط سے رکن قومی اسمبلی محمد الفلاحجی بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر وفات پاگئے۔ گذشتہ برس نومبر میں عین شمس یونی ورسٹی میں امراضِ جلدکے استاد ڈاکٹر طارق الغندور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کو الجماعۃ الاسلامیۃ اسلامی مصر کی مجلس شوریٰ کے صدر عصام دربالہ شدید حراست کی جیل ’طرۃ‘ سے ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ اسی سال ۲۸؍اگست کو اخوان کے ایک رہنما خالد زہران وفات پاگئے جو تین برس سے جیل کی عقوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو ہسپتال لے جایا گیا مگر تب علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ امن فورسز کے تشدد اور تعذیب کے نتیجے میں کئی وکلا بھی جاں بحق ہوگئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کفرالشیخ ضلع کے سابق گورنر سعدالحسینی اپنی نازک صحت کی بنا پر ہروقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ انھیں ویل چیئر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی حکومت کے وزیر براے اُمورِ نوجواناں اُسامہ یاسین اور حزب الحریۃ والعدالۃ کے صدر ڈاکٹر محمدا لبلتاخی کی صحت کا مسئلہ ہے۔
مرکز براے تعظیم انسانی حقوق کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۵۰۰ قیدی ایسے ہیں جن کی نازک صحت کا تقاضا ہے کہ انھیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ان میں سے کثیرتعداد جان لیوا حالت سے دوچار ہے۔ سماجی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں محکمہ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تنظیموں کے ذریعے قیدیوں کا طبی معائنہ کرائیں۔ انھی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر ان حقوق کی پامالی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔
گرفتاریوں اور قیدوبند کی ان صعوبتوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ہے کہ سیکڑوں بچیوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ مصر میں بچیوں کی گرفتاری اور اسیری سرخ لائن تصور کی جاتی رہی ہے مگر فوجی انقلاب نے اس سرخ لائن کو بھی پامال کر کے آگے بڑھنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان قیدی بچیوں میں جامعہ ازہر کی طالبات کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس لیے کہ یونی ورسٹی کے صدر اُسامہ العبد نے کئی بار امن فورسز کو یونی ورسٹی میں چھاپہ مارنے اور طالبات کو گرفتار کر نے کی اجازت دی۔
قیدی خواتین میں ۵۰ برس سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ سامیہ شنن کو کرداسہ کے حادثات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں اُن پر پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام عائد کرکے انھیں سزاے موت سنا دی گئی۔ کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے انھیں پکڑا گیا تھا مگر پھر کرداسہ کے حادثات میں ملوث کردیا گیا۔[ماخذ: aljazeera.net]
تحریک طالبان افغانستان کے رہنما مُلّا محمد عمر کے انتقال کی خبر ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کے بہی خواہوںکے لیے یہ خبر یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کی رحلت کب، کہاں اور کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے اطلاعات میں نہ صرف کافی ابہام پایا جاتا ہے بلکہ کچھ تضاد بھی نظر آتاہے۔
مُلّامحمد عمر نے ان حالات میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جب افغان مجاہدین، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام میں ناکام ہوکر خانہ جنگی پر اتر آئے تھے ۔طالبان اس شدید بدامنی اور افراتفری کو جواز بناتے ہوئے مختصر مدت میں نہ صرف افغانستان کی مقبول ترین عسکری قوت کا روپ دھار گئے بلکہ کابل سمیت پورے افغانستان کے تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جمانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں قیامِ امن اورلوگوں کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی ایسے کارنامے تھے جس نے طالبان حکومت کے استحکام میں بنیادی کردار اداکیا۔ مُلّا محمد عمر اور ان کی حکومت کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکا کو ۴۸ ممالک کی ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج اور دنیا کی جدید ترین جنگی ٹکنالوجی کاسہارا لینا پڑا۔ پھر امریکا نے مُلّاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی۔ یہ مُلّاعمر کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا اپنی اندھی طاقت کے زور سے خاتمہ کیا، تو وہ مختصر عرصے میں طالبان کی منتشر صفوں کو امریکا کے خلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
آج افغانستان کے طول وعرض میں امریکی اور ناٹو فورسز سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جومنظم عسکری کارروائیاں ہورہی ہیں اور مختلف اضلاع سے طالبان کی فتوحات اورقبضوں کی جو خبریں آرہی ہیں، ان کے پیچھے جہاد کے بعد سب سے بڑا محرک اور عامل مُلّا محمد عمر کی قیادت رہی ہے۔ افغان قوم میں ان کی مقبولیت اور اثرپذیری کانتیجہ تھاکہ طالبان قیادت کو دوسال سے بھی زائد عرصے تک مُلّاعمر کے انتقال کی اہم ترین خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا پڑا ۔ دوسال تک طالبان قیادت ان کی موت کو چھپانے پر اس لیے مجبور رہی کہ اس بات کا کامل یقین تھاکہ مُلّاعمر کے انتقال کی خبرسامنے آنے سے نہ صرف طالبان جنگجوئوں کے حوصلے پر منفی اثرپڑے گا، بلکہ ا س خبرسے امریکا اور دیگر طالبان دشمن قوتیں بھی ہرممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ طالبان قیادت کے یہ خدشات مُلّاعمر کے انتقال کی تصدیق ہونے پر بعض طالبان گروپوں کی مخالفت اور تحفظات کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں۔
مُلّا محمد عمر مرحوم کے نائب مُلّا اختر منصور کے توسط سے یہ بات توسامنے آچکی ہے کہ انھوں نے مُلّاعمر کے انتقال کی خبر مبینہ طورپر ملا عمر کی وصیت کے مطابق جہاد کو جاری رکھنے کی حکمت کے تحت صیغہ راز میں رکھی تھی۔اس حد تک تو اخترمنصور کی بات پر یقین کا جواز اور گنجایش موجود ہے۔ لیکن جہاں تک مُلّامنصور کے امیر بننے اور ملا عمر کے انتقال کی تصدیق اور اعلان کے اوقات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مختلف سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ یہ سوال کہ اچانک ایسے کون سے عوامل پیدا ہو گئے تھے جن کے باعث ملا عمر کے انتقال کی خبر کو صیغۂ راز میںمزید رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ؟
اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر طالبان افغان حکومت مذاکرات سے محض ایک دن قبل افشا کرنے کااصل پس منظر کیا ہے؟ان دونوں سوالات کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق طرح طرح کے جوابات اور چہ میگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اور تحریک طالبان سمیت افغان حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں تک رسائی رکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کااستدلال ہے کہ مُلّاعمر کی وفات کی خبر کو مزید چھپا کر رکھنا ا س لیے ناممکن ہوگیاتھا کہ طالبان سمیت افغان حکومت کے بعض بارسوخ حلقوں کو یہ شک پڑگیاتھا کہ مُلّا محمد عمر زندہ نہیں رہے اور وفات پاچکے ہیں۔ ان کو یہ شک دو وجوہ کی بنا پرپڑا۔
اس کی پہلی اور فوری وجہ حالیہ عیدالفطر کے موقعے پر مُلّا محمد عمر کا امن مذاکرات کی حمایت پر مبنی پیغام کا سامنے آناتھا۔ واضح رہے کہ مُلّا محمد عمر شروع دن سے مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے عیدین پر جتنے بھی پیغامات جاری کیے تھے ان سب میں وہ طالبان کو جہاد جاری رکھنے اور مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ امن مذاکرات کی حمایت میں ان کابیان سامنے آنے سے طالبان کی صفوں میںان کے زندہ رہنے کے متعلق شکوک وشبہات نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح ان شکوک وشبہات کو تقویت ملنے کی دوسری بڑی وجہ ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصے سے مُلّا محمد عمر کی آواز میں کسی آڈیو پیغام کاسامنے نہ آناتھا۔ جہاں تک مُلّاعمر کی وفات کی خبر امن مذاکرات کے دوسرے دور سے محض ایک دن قبل افشا کیے جانے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے اس بات پر اتفاق راے پایاجاتاہے کہ ایساکرنا سب سے زیادہ خود طالبان اور بالخصوص نومنتخب امیر ملااختر منصورکے حق میں تھا۔اگرمذاکرات میں کسی ممکنہ پیش رفت کے بعد آگے جا کر یہ بات سامنے آجاتی کہ مُلّاعمر دوسال پہلے وفات پاچکے ہیں تو ایسی حالت میں مُلّااختر منصور سمیت کسی بھی طالبان رہنما کے لیے امن مذاکرات کے فیصلوں کو طالبان کمانڈروں اور جنگجوئوں سے منوانا تقریباً ناممکن ہوتا، لہٰذا اسی احساس نے انھیں یہ خبر جاری کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب ملامنصور کی امارت کے اعلان اوران کا اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے پر بعض طالبان راہنمائوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، وہ اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کی امارت پر ان لوگوں نے اعتراض اٹھایاہے، جو ملامنصور کی امارت کے لیے منعقدہ رہبری شوریٰ کے فیصلے میں شریک نہیں تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام مُلّا محمد عمر کے برادرخورد مُلّاعبدالمنان کا سامنے آیاہے، جنھوں نے ملامنصور کی امارت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے نئے امیر کے انتخاب کے لیے صرف رہبری شوریٰ پر انحصار کے بجاے تمام فیلڈ کمانڈروں، علماے کرام اور طالبان کی بااثر شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔ جس کے جواب میں ملامنصورگروپ کاکہناہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پورے افغانستان کے حالات طالبان کے حق میں سازگار تھے اور انھیں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات لاحق نہیں تھے، جب کہ آج پوری طالبان قیادت کا اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پرافغانستان کے اندر جمع ہوناتقریباً ناممکن ہے ۔
مُلّااختر منصور کی مخالفت میں طالبان کاجو گروپ سرگرم عمل ہے، وہ اپنی حمایت میں مُلّا محمد عمر کے ۲۶سالہ بڑے بیٹے مُلّا محمد یعقوب کو بھی استعمال کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہاہے جس کی مخالفت ان کی کم عمری اورکم تجربے کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس تمام صورت حال کانیانقشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے سے طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کے علاوہ طالبان کے نئے امیر مُلّا اختر منصور کاان مذاکرات سے انکار کرکے جہاد جاری رکھنے کے اعلان کی صور ت میں سامنے آیاہے۔اسی طرح قطر میں قائم طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر دفتر کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ طیب آغا اوران کی ٹیم کا مُلّا اختر منصور سے اختلافات کی بنیادپر مستعفی ہونے سے بھی جہاں امن مذاکرات کامستقبل مخدوش نظر آرہاہے، وہاں اس صورت حال کو تحریک طالبان کی صفوں کو منظم رکھنے کے لیے بھی نیک شگون قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر طالبان، امریکا اور افغان حکومت پراپنا دبائو برقراررکھ کر مُلّامحمدعمر کے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں تو اس کے لیے تحریک طالبان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اورمزید نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاداور اتفاق برقرار رکھنا ہوگا، بلکہ باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے نئے امیر کے قضیے، نیز امن مذاکرات کے مستقبل کابھی کوئی متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر طالبان مخالف قوتیں ان کو منتشر پا کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے تیار بیٹھی ہیں، جیسے دسترخوان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بھوکے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ موقع بلاشبہہ طالبان کی معاملہ فہمی،حسن تدبر اور ان کی بصیرت کا کڑا امتحان ہے جس کے لیے اُمت ِ مسلمہ کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
’’۹ مئی ۲۰۱۴ء کو ہماری نسبت طے ہوئی۔ شادی ہوئی تو میں نے پہلے ہی روز معاذ سے کہا کہ میں نے ایسے جیون ساتھی کے لیے دعا کی تھی جو مجھے اپنے ساتھ جنت لے جائے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے جنت لے کر جائیں گے۔ شہادت سے کئی ہفتے قبل انھوں نے مجھے کہا کہ ہم دونوں روزانہ قرآن کریم کے ۱۰صفحات تلاوت کیا کریں گے، تاکہ اکٹھے ختم قرآن کیا کریں۔ شہادت کے روز بھی فجر کے وقت معاذ نے مجھے جگایا اور کہا کہ آج مجھے ایک آپریشن کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ میں نے ابھی دو رکعت نماز شہادت بھی ادا کرلی ہے اور اللہ سے یہ دُعا بھی کی ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا خون میرے سر نہ آئے‘‘۔ یہ الفاظ اُردنی ایئر فورس کے اس پائلٹ معاذ الکساسبہ کی بیوہ کے ہیں، جسے چند ماہ پہلے داعش نے آہنی پنجرے میں کھڑا کرکے، زنجیروں سے جکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔ جلانے کے اس پورے عمل کو فلمایا اور وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں دکھایا گیا۔
عراق اور شام میں ’اسلامی ریاست‘ (داعش) کے قیام کا دعویٰ کرنے والے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کرنے کے واقعات تو اب ہزاروں میں ہیں۔ ان ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمایش کرنا بھی اب معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی زندہ انسان کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینک کر قتل کرنا، کسی کو پنجرے میں بند کر کے سمندر میں ڈبو دینا، کسی کی گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑا دینا… غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ پھر انتہائی مہارت سے اس کی فلم بنائی اور دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کو وہاں آنے کا حکم دیا جاتا اور قتل و تعذیب کے سارے مناظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ مارنے والے بھی ’اللہ اکبر‘ کہہ رہے ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی، اکثر لوگ کلمۂ شہادت ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض غیرمسلموں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں سے چند درجن ہی بنتی ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ارتداد کی وجہ اکثر وبیش تر ان کا بیعت سے انکار یا ’باطل نظام‘ کا حصہ دار اور دشمن کا ایجنٹ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اب تو اس کام کے لیے اعلانِ عام کردیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں داعش کا ایک نوجوان ہرمسلمان کو ترغیب دیتا ہے کہ:’’ اسلامی ریاست کے علاوہ تمام حکومتیں باطل پر مبنی ہیں۔ اس کے کارپردازان بالخصوص فوج اور پولیس کے ملازمین کو قتل کر کے ہمارے پاس آجائو ہم تمھیں پناہ دیں گے‘‘۔ اس طرح کے پیغامات سے متاثر ہوکر مختلف کارروائیاں کرنے والوں کی تعداد بھی اب کافی ہوچکی ہے۔ حالیہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہونے کے چند گھنٹے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملے سے پہلے حملہ آور نے اپنے سگے ماموں راشد ابراہیم الصفیان کو قتل کر دیا کیونکہ وہ سعودی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔
افسوس کہ والا شب ِ عید اپنے سگے بھانجے کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ پھر گذشتہ آٹھ برس سے صہیونی فوجوں اور جنرل سیسی کے ہاتھوں محصور اہلِ غزہ کے خلاف اعلانِ جنگ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عنقریب غزہ آرہے ہیں۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو وہاں خون کے دریا بہہ جائیںگے‘‘۔
ریاض شہر کے سابق الذکر واقعے کے بعد وہاں داعش یا دیگر مسلح تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں ۵۰۰ کے قریب افراد گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعے کی خبر اسرائیلی اخبارات میں ملاحظہ کیجیے: ’’غزہ میں موجود داعش کے ذمہ داران نے خبردار کیا ہے کہ ہم ریاض میں ہونے والی گرفتاریوں کا بدلہ لیں گے‘‘۔ یہ خبر ۱۹جولائی کو شائع ہوئی اور ۲۰جولائی کی صبح غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے ذمہ داروں کو نشانہ بناتے ہوئے پانچ بم دھماکے ہوگئے۔ ممکن ہے کہ یہ دھماکے داعش نے نہ کیے ہوں، لیکن ان کے بیان کے بعد ہرشخص کا ذہن سب سے پہلے ادھر ہی جاتا ہے۔
داعش کے بارے میں دنیا میں ہر طرف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ساری دنیا اس کی دشمن دکھائی دیتی ہے۔ امریکی سربراہی میں ۴۰ ممالک نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے۔ ۵۵۰؍ارب ڈالر اس جنگ کا بجٹ رکھا گیا ہے، لیکن شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں اچانک عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے، اور اپنی ریاست کا اعلان کرنے سے لے کر اب تک اس کے علاقوں، افرادی قوت اور اسلحے میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جدید ترین اسلحے اور گاڑیوں کی نمایش کئی کئی فرلانگ لمبے جلوسوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک ایک گاڑی اور ایک ایک جھونپڑی کو ڈرون حملوں سے اُڑا دینے والے امریکا کو دشمن کا یہ طویل جلوس اور نمایش کبھی دکھائی نہیں دیے۔
اس بارے میں، میں مزید حقائق تلاش کر رہا تھا کہ عراق سے الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ اور مرکزی رہنما نے ہاتھ سے لکھا، اپنا تجزیہ مطالعے کے لیے ارسال کیا۔ اس تجزیے کے اہم نکات اور خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’سوویت یونین کے خاتمے (اکتوبر ۱۹۱۷ئ- دسمبر ۱۹۹۱ئ) کے بعد امریکی پالیسی ساز اداروں کے لیے اپنا کوئی نیا دشمن ایجاد کرنا ضروری تھا۔ واشنگٹن نے ’اسلامی بنیاد پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر دشمن ایجاد کرلیا۔ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، خلیجی ریاستوں اور تمام اہم عرب ممالک سے لے کر ترکی تک سب ممالک شامل تھے، اس نئے دشمن کے خلاف جنگ میں ناکامی یا کامیابی کا اصل پیمانہ قرار پایا۔ بعض اہم ممالک میں عرب بہار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اسلام (یعنی اسلامی تحریکوں) کی کامیابی سے امریکا کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں سایکس پیکو (۱۹۱۶ئ)، سان ریمو (۱۹۲۰ئ) اور لوزان (۱۹۲۳ئ) معاہدوں کے مطابق خطے کی تقسیم میں مزید ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ اب اس نقشے میں رنگ بھرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کا نیا مرحلہ شروع کر دیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شروع کی جانے والی جنگ افغانستان ابھی عروج پر تھی کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق میں بھی فوجیں اُتار دی گئیں۔ تمام تر مذہبی اور نسلی فتنہ پردازیوں اور ۲۰۰۶ئ،۲۰۰۷ء میں بدترین خانہ جنگی کے بعد امریکا نے اس جنگ کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس عرصے میں تمام عالمی رپورٹوں کے مطابق عراق دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں سرفہرست آگیا‘‘۔
عراقی رہنما مزید لکھتے ہیں: ’’داعش مختلف مواقع اور واقعات کی روشنی میں مسلسل توانا ہوتی چلی گئی۔ عراق میں امریکی فوجوں کی آمد کے بعد اصل مزاحمت وہاں کی اہلِ سنت آبادی کر رہی تھی۔ امریکا اور عراق کی شیعہ حکومتوں نے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینے کے لیے ’القاعدہ‘ کا نام استعمال کیا۔ لیکن پھر جب اہلِ سنت آبادی نے اکثر علاقوں سے ’القاعدہ‘ کا تقریباً صفایا کردیا تو اس موقعے پر مختلف فرضی کارروائیوں کے ذریعے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا، مثلاً ابوغریب اور تکریت جیل سے قیدیوں کو رہا کروا کر لے جانا۔ پھر اچانک بغداد کے بعد عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بآسانی داعش کا قبضہ ہوگیا۔ اتنا بآسانی کہ خود داعش کو بھی اس پر حیرت ہوئی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس کی حکومت داعش کے اس قبضے کے ذریعے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ داعش نے کسی مزاحمت کے بغیر تین سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیا۔ اہلِ سنت اکثریتی آبادی کے شہر انبار کے گورنر کا کہنا ہے کہ میں عراقی وزیردفاع، فضائیہ کے سربراہ اور فوجی آپریشنز کے انچارج سے رابطہ کر کے انھیں داعش کا راستہ روکنے اور کوئی کارروائی کرنے کا کہتا رہا، لیکن انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ موصل شہر کے سیکورٹی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا کہ داعش کے سامنے مزاحمت کیے بغیر پسپا ہوجانے اور اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ جانے کا حکم براہِ راست عراقی وزیراعظم کی طرف سے ملا ہے‘‘۔ عراقی اخوان رہنما نے اس تجزیے میں مستقبل کی ممکنہ صورتوں پر بھی تفصیلی بات کی ہے جن سب کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے میں یہ سب شروفساد ’منظم انتشار‘ نامی امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ طے شدہ اہداف اور ضروریات کے مطابق مختلف مہروں کو استعمال میں لایا جاتا رہے گا۔ ان کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے گی اور انھیں باقی بھی رکھا جائے گا اور بالآخر پورے خطے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اس موقعے پر ایک صہیونی مضمون نگار عوفرہ بانجو کی تحریر بعنوان: ’کردستان اور داعش نئے علاقائی نقشہ گر‘ کا حوالہ بھی اہم ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے’ العربی ۲۱‘ میں اس کا مکمل ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کی تحریر کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ: ’’عراق اور شام اب کبھی ماضی کے عراق اور شام نہیں بن سکیں گے۔ اب بغداد حکومت، کردستان اور داعش کی ایک گنجلک تکون مستقبل کا نقشہ تشکیل دے گی‘‘۔ عوفرہ اس امرپر بھی اظہار اطمینان کرتا ہے کہ داعش اور اس کی شدت پسندی نے عراق، کردستان اور شام میں سیاسی اسلام (یعنی الاخوان المسلمون ) کے اثرونفوذ میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق کردستان کو موجودہ صورت حال میں جو اہم نقصان ہوا، وہ یہ ہے کہ اس کی آزادی (یعنی علیحدگی) کے لیے مجوزہ ریفرنڈم میں تاخیر ہو رہی ہے، لیکن اس کے مقابل اسے دو اہم فوائد ملے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی ہنگامے کے دوران اس نے تیل کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو بغداد کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ داعش کی سفاک شناخت کے مقابل کردستان ایک مہذب اور انسان دوست ریاست کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ داعش لوگوں کو غلام اور ان کی خواتین کو باندیاں بنارہا ہے اور کردستان لاکھوں مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار اس امر پر بھی اطمینان آمیز حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بہت سے کام جو ملکوں کی باقاعدہ افواج انجام نہیں دے سکیں، مسلح ملیشیا انجام دے رہی ہیں۔ اس موضوع پر گذشتہ مارچ کے ماہنامہ المجتمع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ استعماری اور جارح افواج کس طرح اپنے مقبوضہ علاقوں میں خود وہیں سے ایسی عوامی تحریکیں کھڑی کرتی ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب افراد کو دشمن افواج سے بھی زیادہ سفاکیت سے تہِ تیغ کرتی ہیں۔ فرانسیسی فاتح نپولین نے مصر پر قبضہ کیا تو ’یعقوب المصری‘ نامی غدارِ ملّت اور اس کی تحریک کی سرپرستی کی۔ الجزائر پر فرانسیسی قبضہ کرتے ہوئے ’الحرکیون‘ نامی تحریک شروع کروائی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر آزاد ہوا تو فرانسیسی جنرل ڈیگال نے ان کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہتک آمیز جملہ کہا: ’’یہ لوگ تاریخ کا ایک کھلونا تھے، محض ایک کھلونا‘‘۔ ویت نام میں امریکیوں نے ’اسٹرے ٹیجک بستیوں‘ کے نام سے ۱۶ہزار خائن بستیاں تیار کیں۔
عراق اور شام ہی نہیں خطے کے کئی ممالک میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہرجگہ تقریباً ایک ہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے اور ہم دیکھتے بھالتے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں ہر ملک یا گروہ اپنے اپنے دشمنوں پر وہی لیبل لگانا شروع کر دیتا ہے جس کے خلاف راے عامہ تیار کی گئی ہو۔ اس وقت اخوان کو شام اور عراق میں داعش نے اپنی سنگین کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے لیکن جنرل سیسی، بشارالاسد اور حوثی قبائل سمیت بہت سے لوگ کمال بددیانتی سے اخوان ہی کو داعش کا سرپرست قرار دے رہے ہیں۔ عیدالفطر کے تین روز بعد ترکی کے سرحدی شہر سروج میں خودکش حملہ کرکے داعش نے۳۱شہری شہید کردیے اور دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان کے مخالفین انھیں مسلسل داعش کا مددگار قرار دے رہے ہیں۔دشمن ایجاد کرنے کی جو بات آغاز میںگزری، وہ طویل عرصے تک عالمِ اسلام میں اپنے زہرآلود پھل دیتی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل اور آمر حکمرانوں کو اپنے لیے یہی صورت حال مثالی اور مطلوب دکھائی دیتی ہے۔ جابر حکمران چونکہ خود بھی ایک عارضی مہرہ ہوتے ہیں، اس لیے انھیں حتماً اور جلد اس ظلم کا انجام دیکھنا ہوگا، لیکن امریکا اور اسرائیل جو اس پوری فتنہ گری میں خود کو محفوظ و مامون سمجھ رہے ہیں، خود بھی یقینا اپنے انجام کو پہنچیں گے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل راہِ نجات قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ آپؐ کی اُمت کو رب ذوالجلال نے اُمت ِ وسط، یعنی راہِ اعتدال پر چلنے والی اُمت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انتہا کا شکار ہو جانا اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ آج اگر ایک طرف اسلام کی تمام بنیادی اصطلاحات: جہاد، اسلامی ریاست، اسلامی خلافت، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، حتیٰ کہ قرآن کریم اور رسولِؐ رحمت کو مذاق و استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف جہاد، شریعت، اسلامی حدود اور قوانین کو اپنے ہرمخالف کا صفایاکردینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بزعم خود امیرالمومنین کی بیعت سے انکار کو ارتداد اور ہرمرتد کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔خود یہ امر بھی انتہائی باعث ِ حیرت ہے کہ اس کے تمام تر ظلم و ستم کا اصل نشانہ خود مظلوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ شامی آمر بشارالاسد جیسا درندہ اور اس کی فوج ان سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس سفاک درندے سے برسرِپیکار مظلوم عوام اور ان کی مزاحمتی تحریک کو وہ چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ غزہ کے محصور و بے کس عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں، صہیونی ناجائز ریاست کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے۔
انبیاے کرام ؑ کے بعد محترم ترین ہستیوں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی کچھ لوگ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ایسی ہی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔ اُمت انھیں ’خوارج‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲:۴۰)جیسی لازوال حقیقت سے روشنی حاصل کرنے کے بجاے، اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دینے جیسی ہلاکت کا شکار ہوگئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے الفاظ میں کلمۂ حق کہہ کر اس سے مراد باطل لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ان کی تلاوت، ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے سامنے تمھیں اپنی تلاوت، اپنی نمازیں اور اپنے روزے کم تر دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترا ہوگا۔ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے اور اہلِ اوثان کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ بالآخر ان کی کج فہمی اور ’زعم تقویٰ‘ نے انھیں ایک ہی شب حضرت معاویہ ، حضرت علی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیوں تک کو شہید کرنے پر آمادہ کر دیا۔
اُمت کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فتنے کو جس کے پیچھے سراسر منافقین اور یہودیوں کی دسیسہ کاری شامل تھی، آج بھی اپنی تباہی کا ذریعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شیعہ سُنّی یا خوارج کی اصطلاحیں صرف کسی مخصوص گروہ ہی کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور طریق کار کا نام بھی ہے۔ آج کا عالمِ اسلام بُری طرح اس تقسیم کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام نسلی، لسانی، علاقائی اور سیاسی تعصبات سے لیا جا رہا ہے۔ عراق اور شام کا خونی نقشہ اب یمن تک پھیل چکا ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش اور بعض مغربی دستاویزات کے مطابق داعش کے بعد کوئی اور ایسی تنظیم سامنے لائی جانا ہے، جس کے سامنے داعش کا نام بھی ہلکا لگنے لگے۔ کاش! کہ ہم سب کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوکر خود کو دھوکا دینے کے بجاے صرف اور صرف حق و انصاف کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ ظلم کرنے والا خواہ بشارالاسد ہو یا جنرل سیسی، داعش ہو یا باغی حوثی قبائل، ہم میں سے کوئی ان کی حمایت یا دفاع نہ کرے۔ مظلوم خواہ کویت یا سعودی عرب کی کسی امام بارگاہ میں مارا جائے یا عراق و یمن کی کسی مسجد میں، اللہ ہمیں ہمیشہ اس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھے۔ بے گناہ قیدی مصر کی جیلوں میں ہوں یا فلسطین، بنگلہ دیش، کشمیر،اراکان اور افغانستان کے زندان خانوں میں ہمیں ان کی آزادی کے لیے ہر دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ ایک روز سب ہی کو ایسے روزِ بد دیکھنا پڑ سکتے ہیں والعیاذ باللّٰہ۔
۷جون ۲۰۱۵ء کو ترکی میں ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ حسب سابق حکمران جسٹس پارٹی(AKP) ہی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسے ۵۵۰ میں سے ۲۵۸ نشستیں حاصل ہوئیں، لیکن یہ نشستیں تنہا حکومت بنانے کے لیے درکار تعداد سے ۱۶ نشستیں کم ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کے لیے بس یہی بات شادیانوں کا پیغام لائی ہے۔ وگرنہ پارلیمنٹ میں آنے والی باقی تین پارٹیاں اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہیں۔ کمال اتاترک کی جماعت CHP صرف ۱۳۲، جب کہ ترک نیشنلسٹ(MHP)اور کرد نیشنلسٹ(HDP) صرف ۸۰،۸۰سیٹیں حاصل کرسکی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سازی کے لیے درکار تعداد سے ۱۶نشستیں کم ہونے پر بغلیں بجانے والے جانتے ہیں کہ اس کامطلب ملک میں مخلوط حکومت کا قیام ہے۔
حالیہ نتائج آنے کے اگلے ہی روز سے ترکی میں سٹاک مارکیٹ بیٹھنا اور کرنسی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ۲۰۰۲ء میں طیب اردوان کی پہلی بار جیت سے پہلے، ملک میں لوٹ مار کا جو طویل سفر جاری رہا، اس کا ایک اہم سبب یہ مخلوط حکومتیں ہی ہوتی تھیں۔ ترک تاریخ میں تقریباً ۶۰ مخلوط حکومتوں کا سارا عرصہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور کرپشن ہی میں ختم ہوجاتا۔ یہ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو ان دونوںلعنتوں سے نجات دلائی اور ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہوا۔ ترکی جہاں طیب حکومت آنے سے پہلے ترقی کی شرح منفی ۹تک گر چکی تھی، اب اسی ترکی میں ترقی کی شرح ۹ فی صد سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی اب دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک بار وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے اس کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر دو لفظی جواب دیا:’’امانت و دیانت‘‘۔ طیب اردوان اور ان کے استاد پروفیسر نجم الدین اربکان نے اللہ کی توفیق سے ہمیشہ امانت اور محنت ہی کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترکی کو دوبارہ اسی سیاست کی دلدل میں دھنس جانے پر جہاں اسرائیلی اور صہیونی لابی نے جشن منایا، وہاں بعض مسلم ممالک کے حاکموں نے بھی خوب بغلیں بجائیں۔ ایران اور متعدد عرب ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا کے اخبارات، تقریباً سب کی سرخیاں یکساں تھیں:’عثمانی خلافت کا خواب بکھر گیا‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں بھی کسی پر ظلم ڈھایا گیا طیب حکومت وہاں پہنچی۔ میانمار برما سے جان بچاکر نکلنے والے ہزاروں افراد کو پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش نے تو گولیاں برساکر شہید کردیا یا واپس دھکیل دیا لیکن ترک بحری جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ طیب اردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کئی ترک اداروں کو لے کر خود برما پہنچے اور زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ صومالیہ تقریباً نصف صدی سے خانہ جنگی اور قتل و غارت کا شکار ہے، وہاں نہ صرف ترک حکومت کی رفاہی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بلکہ وہ وہاں مصالحتی کاوشوں کے علاوہ ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر بنانے کی دوررس کوششیں کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر چڑھائے جانے والے بے گناہ ہوں یا مصر میں منتخب حکومت کے خلاف برپا ہونے والا بدترین خونی فوجی انقلاب، صرف ترکی ہی ان کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر صداے احتجاج بلند کررہا ہے۔
گذشتہ آٹھ برس سے محصور غزہ کے لیے فریڈم فلوٹیلا ترک تنظیمیں ہی لے کر نکلی تھیں، جس میں ۱۱شہری شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اہل غزہ کی مسلسل پشتیبانی کررہے ہیں۔ اس وقت، یعنی دمِ تحریر ایک اور امدادی قافلہ یورپ سے روانہ ہو کر ترکی آرہا ہے، جہاں سے اس ماہ کے اختتام تک وہ دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے۔شام کے ۴۰لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ عالمی امدادی ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ پورے کا پورا بوجھ ترکی پر آن پڑا ہے، اور وہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر ان کی مدد کررہاہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں، ترکی کی مدد کے بجاے اس انتظار میں ہیں کہ ترکی کب اس مالی بوجھ سے گرجاتا ہے۔ لیکن طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔
اخوت اور اسلامی یک جہتی کے ساتھ ساتھ طیب حکومت اپنے ملک اور قوم کی ترقی سے بھی قطعاً غافل نہیں۔ انتخابات سے دو روز بعد عالمی بنک کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ۲۰۱۴ئمیں ترکی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا ہے۔
ایک طرف ہر مظلوم کی مدد کے لیے لپکنے والا یہ غیرت مند ترکی ہے، اور دوسری طرف اپنے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے سفاک حکمران ہیں جو ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ڈکارتے جارہے ہیں۔ ۱۸ جون کو سوئٹزر لینڈ کے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجیے کہ صرف ۲۰۱۴ء کے دوران سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں اپنی دولت کے ڈھیر لگانے والوں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے بھوک سے بلکتے ملک سے آنے والے سرمایے میں صرف ایک سال (۲۰۱۴ئ) کے دوران ۵۵ئ۳۶ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا پیسہ لوٹ مار ہی کا پیسہ ہوگا۔ بفرض محال لوٹ مار کا نہ بھی ہو تب بھی اس کا اصل مقام سوئٹزر لینڈ کے بنک نہیں،اپنے دیس کے مظلوم عوام ہونے چاہییں۔
لوٹ مار کرنے والے ان حکمرانوں کے مقابلے میں اور ترکی کو ۲۰۲۳ء تک دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے اردوان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جس کے باعث ایک جہان ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ طیب اردوان یا ان کی جماعت سے یقینا غلطیاں ہوئی ہیں اور مزید ہوسکتی ہیں، لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی یقینا بہت مبالغہ آرائی ہے۔ طیب اردوان چند ماہ پیش تر ہی نئے صدارتی محل میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے کئی بہی خواہ اس محل کی تعمیر کو اسراف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ طیب اردوان کا کہنا یہ ہے کہ اس کے سیکڑوں کمروں میں علمی تحقیق کے درجنوں مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ محل، ترقی یافتہ مضبوط ترکی کی علمی، فکری، تہذیبی اور تحقیقاتی ترقی کی ایک علامت بنے گا، لیکن یہ بات پوری طرح منتقل نہ ہوسکی۔
اگرچہ طیب اردوان اور ان کی ٹیم کی بنیادی صفت ہی کرپشن سے محفوظ رہنا ہے، تاہم ان پر کرپشن کے الزامات نے انھیں بعض مواقع پر مشتعل بھی کیا ہے۔ وہ کرپشن کے بے سروپا الزامات لگانے والے کئی صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر صحافت دشمنی کے طعنے بھی کسے گئے ہیں۔ حالیہ نتائج کے بعد پورے نظام اور بالخصوص اپنے ساتھیوں کی کڑی نگرانی، جائزے اور خود احتسابی مستقبل کے کئی طوفانوں کا سدباب کرے گی۔
۲۴ جون کو طیب اردوان نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کو باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دی ہے۔ اس کے ۴۵ روز کے اندر اندر انھیں دوسروں کے ساتھ مل کر یا پھر اقلیتی حکومت بنانا ہوگی۔ اقلیتی حکومت کا مطلب ہے کہ حکومت سازی کے لیے مطلوب مزید ۱۶ ووٹ انھیں مل جائیں لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو پھر ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ بعض تجزیہ نگار تو بہرصورت آیندہ سال کو نئے انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کمزوریوں کا خود جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب رہی تو یقینا آیندہ نتائج حالیہ سے مختلف اور بہتر ہوں گے۔
جسٹس پارٹی کی چند سیٹیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ پہلی بار کسی کرد پارٹی کا پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ کرد کئی عشروں سے ناانصافیوں کا موقف لیے مسلح کارروائیوں میںملوث ہوگئے تھے۔ اتاترک نے ان پر ترک قوم پرستی کے کئی طوق مسلط کررکھے تھے۔ بالآخر وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب رہے۔ پہلے کرد ووٹ کا تقریباً ۴۰ فی صد جسٹس پارٹی کو ملتا تھا، اس بار وہ سب کرد لہر میں بہ گیا۔ گویا جسٹس پارٹی نے سیاسی حکمت عملی سے کردوں میں اپنی اکثریت کی قربانی دے کر باغی مسلح عناصر کو پرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرلیا۔
کرد قوم پرستی کی لہر کتنی شدید ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے: جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ جب ایک روز ایک ترک خاتون پریشان حالت میں اپنی تین نوجوان بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت پاکستان آئی۔ وہ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوئی، اسلام اور اسلامی جماعت کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے انھیں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر پہنچا دیا۔ وہاں کے ساتھیوں نے ان کی بات سن کر ایک ذمہ دار کو ہمراہ بھیجا اور وہ انھیں لے کر مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور آن پہنچا۔ ہم نے ان کی بپتا سنی تو معلوم ہوا کہ خاتون اور ان کی تینوں بیٹیاں حجاب، یعنی سر پر سکارف رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ترک سیکولر قوانین میں اس کی گنجایش نہیں۔ حجاب کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد ان تینوں پر ایسے جھوٹے مقدمات قائم کردیے گئے کہ جن کی سزا موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ خاندان جس کے سر پر کوئی مرد نہیں بچا، اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے مشاورت و رہنمائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے کے لیے انتظامات کردیے گئے۔ مختلف مشکلات و مسائل کے باوجود یہ خاندان تقریباً ڈیڑھ سال پاکستان رہا اور بالآخر ترکی واپس چلا گیا۔ واپس جاتے ہی ماں اور بچیاں گرفتار کرکے جیل بھیج دی گئیں۔ ایک بیٹی اسی دوران اللہ کو پیاری ہوگئی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کچھ عرصے بعد ماں اور باقی دونوں بیٹیاں رہا ہوگئیں اور اب خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طیب اردوان اب ان اور ان جیسی کروڑوں خواتین کے حجاب پر سے پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کی اس داستان کے کئی مزید پہلو بہت اہم ہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہماری یہ باحجاب بہن ہدی کایا حالیہ انتخابات میں رکن پارلیمنٹ بن گئی ہیں اور اصل خبر یہ ہے کہ وہ جسٹس پارٹی نہیں کرد نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے رکن بنی ہیں۔ یہ پارٹی یقینا اسلامی شناخت نہیں رکھتی لیکن اگر ہدی کایا جیسی مجاہد خاتون جو حجاب کی خاطر ہجرت اور اسیری تک برداشت کرتی رہی، جسٹس پارٹی کے بجاے کرد پارٹی میں چلی گئی ہے، تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جسٹس پارٹی کی کم سیٹوں کے پیچھے شیطانی دنیا کے ابلاغیاتی نظام اور دولت کے ڈھیروں کے علاوہ بھی کون کون سے اندرونی عوامل اثر انداز ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر بلکہ باعث شکر ہے کہ وہی اسمبلی جہاں کبھی ایک باحجاب خاتون مروہ قاوقچی کے منتخب ہوجانے پر بھونچال آگیا تھا، اب وہاں ہدی کایا اور مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی جیسی ۱۹ خواتین اپنی اسلامی شناخت، یعنی باوقار حجاب کے ساتھ موجود ہیں۔
بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔ ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔
۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔
سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔
مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔
خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔
رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔
۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔ کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔
نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔ گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔
میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔
مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔
امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔ اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔
بنگلہ دیشی اقتدار پر قابض حسینہ واجد، انسانی لہو کے جام پر جام پی رہی ہے۔ ہزاروں علما، طلبہ، سیاسی کارکنوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ، جس نے گذشتہ عرصے کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالقادرمُلّا اور محمد قمرالزماں کو پھانسی دی۔ اب اس عمل میں تیزی لارہی ہے۔ اس خونیں کھیل کے لیے نام نہاد ’عالمی جنگی جرائم‘ کا ٹریبونل قائم کیا، جسے دنیا کے کسی باضمیر فرد نے عدالت تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔
بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی حکومت کا اگلا ہدف، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد ہیں، جنھیں مذکورہ ٹریبونل نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو سزاے موت سنائی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ۲۷مئی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے اپیلیٹ بنچ تشکیل دیا تاکہ درخواست کو سرسری سماعت کے بعد ٹھکانے لگایا جائے۔
۱۶جون کو چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں اپیلیٹ بنچ نے، علی احسن مجاہد کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزاے موت کو بحال رکھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سرکاری موقف پیش کیا، جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مشیراعلیٰ خوندکر محبوب حسین اور ایس ایم شاہ جہاں نے علی احسن صاحب کی وکالت کی۔
علی احسن کے بیٹے علی احمد مبرور نے کہا: ’’ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا، اور اس فیصلے کے ذریعے ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ہے‘‘، جب کہ اٹارنی جنرل محبوب عالم کے بقول: ’’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سزاے موت کے فیصلے پرعمل درآمد کردیا جائے گا‘‘۔
جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ قانون دان ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو عالمی عدالتی معیارات کے یکسر منافی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’نہ اس ٹریبونل کے ارکان کی عدالتی تربیت ہے اور نہ وہ انٹرنیشنل کریمنل قانون کے ماہر ہیں‘‘۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بہت سی عالمی تنظیموں: ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس نے بھی مقدمے کی سماعت ، کارروائی اور ٹریبونل کے وجود پر کھلے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد علی احسن مجاہد کے سینیر وکیل خوندکر محبوب حسین نے اخباری نمایندوں کو بتایا: ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ استغاثہ درست گواہیاں اور موزوں ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بہرحال ہم تفصیلی فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے‘‘۔
علی احسن مجاہد کے بڑے بھائی علی افضل محمد خالص (امیر جماعت اسلامی فریدپور) نے کہا: ’’میرے بھائی کو جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس مقدمے میں ہراعتبار سے بے گناہ ہیں۔ میرا خاندان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جو جھوٹ، جعل سازی، سازش اور غیراخلاقی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ ہم اس سفاک حکومت اور اس کی ظالم عدلیہ کے اس غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرانسانی فیصلے کے خلاف اس دنیا میں احتجاج تک نہیں کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ سے انصاف چاہیں گے، اسی کا فیصلہ انصاف اور عبرت کا نمونہ ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر مقبول احمد نے کہا: ’’اس جھوٹے، بے بنیاد اور انتقام پر مبنی مقدمے نے ایک بار پھر اس بے رحم حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، جو جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ہرغیراخلاقی ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ یہ حکومت علی احسن مجاہد جیسے سنجیدہ، بہادر اور دانش ور رہنما کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہرانتہائی سطح تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے‘‘۔
علی احسن مجاھد کا پیغام: سزاے موت کا فیصلہ سننے کے بعد علی احسن مجاہد صاحب نے حسب ذیل پیغام دیا ہے، جسے ان کے بیٹے علی احمد مبرور نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے: ’’الحمدللہ، میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لیے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلاے کرام نے مقدمے کی پیروی قابلِ تحسین محنت سے کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔ میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔
’’اس ماحول میں، مَیں جانتا ہوں کہ صرف میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات ۱۰۰ فی صد جھوٹے،جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردارکشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جا رہا ہے ، اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔
’’میرے ہم وطنو! بنگلہ دیش میں روزانہ سیکڑوں لوگ قدرتی اسباب سے موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اموات کسی نام نہاد عدالتی ڈرامے میں سنائی جانے والی سزاے موت سے نہیں ہوتیں۔ کب اور کہاں کس فرد نے موت کی آغوش میں جانا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ زندگی اور موت کے بارے میں ذاتِ باری کے فیصلے کو تبدیل کرے۔ اس صورت میں سزاے موت کا سنایا جانا میرے لیے کوئی وزن اور وقعت نہیں رکھتا۔ سو، مجھے اس خبر پر کوئی پریشانی نہیں کہ میرے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
’’میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھنائونے فعل کا شریکِ جرم رہا ہوں۔ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت نے باطنی نفرت اور سیاسی انتقام میں میرے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کو ایک نام نہاد عدالت میں سزاے موت کا ذریعہ بنایا ہے۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی و مددگار ہے___علی احسن مجاہد‘‘
نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۱۷ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آخری مردم شماری ۲۰۰۶ء میں ہوئی تھی جس میں ۱۴ کروڑ سے زائد آبادی ریکارڈ کی گئی۔ رقبے کے لحاظ سے ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صرف ایک ملک تنزانیہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہے۔ دنیا میں اس کی آبادی پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ نائیجیریا قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالامال ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی طرح بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو بدحال کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ معیار کے مطابق آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یوں تو کم وبیش ۵۰ کے لگ بھگ قومیتی وقبائلی اکائیاں اور زبانیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ یوروبا اورہاؤسا دونوں برابر، یعنی ۲۱فی صد ہیں۔ تیسرے نمبر پریرایبوہے جو ۱۸سے ۱۹ فی صد تک شمار کی جاتی ہے۔ چوتھی بڑی اکائی فولا(Fula) ہے جو ۱۱فی صد ہے۔ اس طرح تقریباً ۷۱ فی صد ان چار قومیتوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ دیگر کوئی اکائی دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی۔ یوں ۲۹فی صد قومیتی اور لسانی آبادی بہت سی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہرریاستی اکائی ایوان بالا (سینیٹ) میں بڑی اکائیوں کے برابر نمایندگی رکھتی ہے۔
براعظم افریقہ کا یہ ملک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا ایک اہم ممبر ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس ملک میں بڑے عجیب وغریب قسم کے تجربات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں بلکہ بعض اوقات فوج کے جونیئرافسروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلسل جاری رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں باوردی حکمرانوں کا پلہ بہرحال اب تک کی تاریخ میں بھاری رہا ہے۔ اب ۸؍اپریل ۲۰۱۵ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ایک سابق جرنیل بندوق سے نہیں ووٹوں سے صدر منتخب ہوگیا ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے، باقاعدگی سے ایوان صدر اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے اور نائیجیریا کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ حالیہ انتخابات کافی حد تک منصفانہ بھی تھے اور غیرمتنازعہ بھی۔ اس سے قبل کبھی انتخابات پر مقامی اور عالمی سطح پر اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نائیجیریا کا کچھ مزید اور عمومی تعارف قارئین سے کرادیا جائے۔
نائیجیریا کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ مغربی افریقہ کے اس علاقے میں دو صدیاں قبل ایک عظیم مجدد عثمان بن فودیوؒ نے شمالی علاقوں میں صحیح خطوط پر اسلامی خلافت قائم کی۔ ان کی ریاست کا نام سکوٹو خلافت تھا۔ کافی عرصے تک یہ خلافتی ریاست قائم رہی۔ بعد میں انگریزی استعمار نے نائیجیریا پر قبضہ کیا تو ۱۹۰۳ء میں یہ ریاست ختم کردی گئی۔ اس ریاست کے اثرات آج بھی شمالی نائیجیریا میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ انگریزوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی نائیجیریا پر حکومت کی۔ ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا کی آزادی کا اعلان ہوا، جب کہ عملاً تین سال بعد یکم اکتوبر۱۹۶۳ء کو اس کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت منظور ہوئی۔ آزادی کے بعد نائیجیریا میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہے۔ نائیجیریا کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے کئی سیاسی تنظیموں نے جدوجہد کی، مگر ہر مرتبہ فوجی جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ آزادی کے بعد نائیجیریا کے پہلے صدر آزیکیوے (Azikiwe) تھے۔ آزیکیوے کے بعد نوافور اوریزو (Nwafor Orizu) صدر منتخب ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب وفاقی حکومت بنی تو سر ابوبکر تفاوا بلیوا وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک اچھی شہرت کے حامل سیاست دان تھے۔ ان کے ساتھ سراحمدوبیلوشمالی خطے کے وزیراعلیٰ تھے۔ نائیجیریااس زمانے میں وفاق کے تحت دوریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا تھا، جس طرح کبھی ہمارے ہاں مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ شمالی خطہ مسلم اکثریت اور جنوبی غیرمسلم اکثریت کا حامل تھا۔
اس دور میں فوج نے سیاست دانوں پر ناروا دباؤ ڈالنا اور خود بلاجواز مراعات حاصل کرنا شروع کردیں۔ اس وقت کے صدر اوریزو نے فوج کے عزائم بھانپتے ہوئے مضبوط موقف اپنانے کے بجاے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سرابوبکر اور سراحمدوبیلو ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل یعقوبو گوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور وزیراعظم و وزیراعلیٰ کو شہید کردیا گیا۔ یہ ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا میں مختصر عرصے کے لیے سول حکومت وجود میں آئی، جس کے سربراہ مسلمان سیاست دان شیخو شغاری تھے۔ جمہوری حکومت کی کرپشن کو بہانہ بنا کر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نائیجیریا دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بیافرا کی ریاست وجود میں آئی۔ کچھ عرصے کے بعد نائیجیرین آبادی کو احساس ہوا کہ اس خانہ جنگی اور تفریق کے نتیجے میں نائیجیریا برباد ہوجائے گا۔
اسی دوران نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں تیل کی دریافت ہوئی۔ ملک متحد تو ہوگیا، مگر فوجی انقلاب کی مصیبت ایسی شروع ہوئی کہ ایک فوجی آمر کو دوسرا فوجی آمر اقتدار سے محروم کرکے حکومت پر قابض ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۶ء کے بعد ۱۹۷۹ئ، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۸ء میں یکے بعد دیگرے چار فوجی بغاوتیں ہوئیں جو ناکام ہوتیں تو غداری قرار پاتیں، مگر کامیابی کے بعد انقلاب کہلائیں۔ یہ فوجی حکومتیں بھی نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتی رہیں۔ فوجی آمروں میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی۔ لیکن مسلمان نسبتاً زیادہ تھے۔ ان مسلمان حکمرانوں میں خود موجودہ صدر محمد بخاری کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں فوجی جرنیل کے طور پر مسلمان سیاست دان شیخوشغاری کا تختہ الٹا تھا۔ بہت جلد ۱۹۸۵ء میں بخاری کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جنرل ابراہیم بابا گیڈا برسرِاقتدار آگیا۔ دیگر جرنیلوں میں، جو وقتاً فوقتاً برسراقتدار آتے رہے، جنرل مرتضیٰ محمد، جنرل ثانی اباچہ اور جنرل عبدالسلام ابوبکرکے نام آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں محمدبخاری پہلی مرتبہ ۴۱سال کی عمر میں باوردی برسراقتدار آئے اور پھر اقتدار سے محرومی کے بعد بغیر وردی کے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتا رہے۔ بالآخر اب ۷۲سال کی عمر میں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کا سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
موجودہ انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ جوناتھن ملک کے چودھویں سربراہِ ریاست تھے۔ جنرل محمدبخاری کی پارٹی آل پروگیسو کانگریس فتح یاب ہوگئی ہے۔ غیرملکی مبصرین نے ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانب دارانہ تسلیم کرلیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں محمدبخاری کو پہلی بار کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل وہ تین مرتبہ انتخابات میں قسمت آزما چکے تھے، مگر ہرمرتبہ شکست کھاتے رہے ہیں۔ جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے امیدوا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے جوعیسائی ہیں، بھی ایک کروڑ ۲۹لاکھ ووٹ لیے۔ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ نائیجیریا کی ۳۶ریاستیں اور ایک وفاقی اکائی، دارالحکومت ابوجا ہے۔ پچھلے پارلیمان میں گڈلک کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
نائیجیریا کی وفاقی پارلیمان میں سینیٹ اور وفاقی اسمبلی شامل ہیں۔ سینیٹ میں ۱۰۹ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست وفاقی ایریا کی ہے اور باقی نشستیں ۳۶ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ ہرریاست کے سینیٹ میں تین نمایندے ہوتے ہیں۔ وفاقی اسمبلی کی کل ۳۶۰نشستیں ہیں، جو تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ سابق صدر کی پارٹی کو پچھلی پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، یعنی سینیٹ میں ۹۶ اور قومی اسمبلی میں ۲۲۳؍ارکان۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو اسمبلی کی ۹۶ اور سینیٹ کی ۲۷نشستیں حاصل تھیں۔ نئے انتخابات کے بعد جنرل محمد بخاری کی آل پروگریسو کانگریس کو اسمبلی میں ۳۶۰ کے ایوان میں ۲۲۵نشستوں پر کامیابی ہوئی، جب کہ سابق صدر جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۱۲۵نشستیں حاصل کرپائی۔ ۱۰نشستوں پر دیگر چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار جیت گئے۔ سینیٹ میں ۱۰۹کے ہاؤس میں بخاری کی پارٹی نے ۶۰نشستیں جیتیں، جب کہ جوناتھن بھی ۴۹نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام ووٹوں کے علاوہ ریاستوں کی اکثریت میں بھی برتری حاصل کرے۔ اگر اس کے ووٹ زیادہ ہوں، مگر ریاستوں میں سے اکثر میں وہ نہ جیتا ہو تو انتخاب دوبارہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے حجم میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ صدرمحمدبخاری کو نہ صرف ووٹوں میں برتری حاصل ہے ، بلکہ اکثر ریاستوں میں بھی راے دہندگان کی واضح اکثریت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پارلیمان اور سینیٹ کے انتخابات کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن جیتنے والے صدر کی پارٹی کو اس میں بھی واضح اکثریت مل جائے گی۔
نائیجیریا میں گذشتہ کئی برسوں سے انتہاپسند مسلم تنظیم بوکوحرام نے بہت سی پُرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ ملک کی آبادی اس صورت حال سے سخت پریشان ونالاں ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ۱۲سے ۱۵ ہزار لوگ اب تک پُرتشدد کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ بے شمار لوگ انتہاپسندوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ تنظیم یوں تو مقامی ہے، مگر خود کو القاعدہ کے قریب بلکہ اسی کی شاخ سمجھتی ہے۔ عام آبادی، بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں، اس انتہاپسندی کی وجہ سے خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہے۔ امن وامان کی بحالی اور تخریب کاری کا خاتمہ موجودہ انتخابات میں امیدواروں کے منشور میں اہمیت کا حامل رہا۔ جنرل محمد بخاری نے گڈلک کے مقابلے میں اعلان کررکھا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو دہشت گردوں سے ملک کو پاک کردیں گے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس نعرے کا اس کی کامیابی میں نمایاں کردار ہے۔ محمد بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ برسرِاقتدار آکر تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں سے واپس وطن لائی جائے گی۔ یہ دونوں کام خاصے مشکل ہیں اور تمام مبصرین یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ نومنتخب صدر اور ان کی حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہوگا۔
دریں اثنا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے اور نومنتخب صدر کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جواب میں نومنتخب صدر نے بھی سابق صدر کے ساتھ خیرسگالی اور انھیں پورا احترام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب مبصرین اور تجزیہ کار تبصرے کررہے ہیں کہ آیا نئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق کچھ مثبت اور نتیجہ خیز کام کرسکے گی یا ایک بار پھر فوج کے برسراقتدار آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اللہ کرے کہ صدر محمد بخاری ملک وقوم کے لیے کچھ اچھے کام کرسکیں تاکہ افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔
بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :
گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔
جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔
صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے) کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔
اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔
مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔
یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو زبردست عوامی احتجاجات نے برادر مسلمان ملک تیونس پرتین دہائیوں سے مسلط سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدارچھوڑ کرملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاتھا۔ اسی سال۲۱۷رکنی دستورساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات تھے، اس سے پہلے صرف صدر مملکت اور ان کی پارٹی ہی انتخابات’لڑنے اور جیتنے‘ کی اہل تھی۔ ان انتخابات میںراشد الغنوشی کی سربراہی میں اسلامی تحریک ’ تحریک نہضت‘دوسری تمام پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ۵۰ فی صد نشستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نہضت کی قیادت میںمخلوط حکومت تشکیل پائی۔
پہلی منتخب حکومت کے سامنے متعدد بحرانات اور پیچیدہ قسم کے مسائل تھے جن سے نپٹنے کے لیے دو چار سال ہرگز کافی نہ تھے۔ملک میں جبر سے آزاد نئے سیاسی ماحول کا آغازہی نہیں، سیکولر اور بے دین قوتوں کا اسلام سے خوف بھی ایک مسئلہ تھا۔ بورقیبہ اور بن علی کی حکومتوں کی طرف سے ملک کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور فرانسیسی اور مغربی تہذیب کو رواج دینے کے لیے کئی دہائیوںپر محیط کوششوں کے اثرات کو مٹانا انتہائی کٹھن اور محنت طلب کام تھا۔نصف صدی سے زائد عرصے سے ملک میں صرف طاقت، خوف اور ظلم کاراج تھا۔ حکمران طبقہ ہرقانون سے بالاتر تھا۔ اب، جب کہ ایک جمہوری حکومت عوام کو نصیب ہوئی تو ایک طرف عوام کو آزادیِ اظہار راے کا موقع ملا، تو دوسری جانب نو منتخب حکومت نے بھی خود کو قانون کا پابند بناتے ہوئے طے کر لیا کہ وہ ضابطے اور قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔ انقلاب کے بعد عموماً حکومتیں کمزور ہوا کرتی ہیں۔ یہی حال نہضت کی قیادت میں مخلوط حکومت کا تھا۔ایک طرف ۵۰ سالہ آمریت کی باقیات کا احتساب مطلوب تھا اور دوسری طرف متعصب سیکولر سیاسی پارٹیوں کی دشمنی کا سامنا تھا۔ اچانک اُٹھ کھڑے ہونے والے مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی انتہائی حکمت، صبر وتحمل اور جہدمسلسل کی ضرورت تھی۔ حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ عوام نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ہر قسم کے مسائل کے خاتمے کے مطالبات شروع کر دیے تھے۔
لیکن ان سب مسائل کے باوجود اپنے دور حکومت میںنہضت کی قیادت نے داخلی اور خارجی مسائل اور سازشوں کے مقابلے میں انتہائی عقل مندی، تدبر، سیاسی بصیرت اور طویل المدت حکمت عملی کامظاہرہ کیا۔ آنے والے مہ وسال ثابت کریں گے کہ تحریک نہضت کی یہ صابرانہ و حکیمانہ پالیسی سب تحریکات اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
تحریک نہضت نے ملک کے سیکولر اور لادین عناصر سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے، وسیع تر ملکی مفاد میں تنگ نظری اور اَنا پرستی کو ترک کرتے ہوئے مخاصمت اور تصادم کے بجاے وسعت قلبی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ ہرچیلنج ، سازش اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ تحمل، رواداری اور نرم گوئی سے کیا۔راشد غنوشی کی قیادت میں نہضت نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کے حقیقی علَم بردار ہیں۔وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام شہریوں کومساوی بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔تمام شعبہ ہاے زندگی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ہر فرد اور پارٹی کو ملک کی خدمت کے لیے برابر مواقع میسر ہوں،اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ متعدد عرب ممالک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے چارسال بعد آج ان ممالک میں سے تیونس وہ واحد ملک ہے ، جہاں جمہوری اقدار قدرے مضبوط نظر آتی ہیں۔انتہائی کٹھن اور دشوار مراحل سے گزرتے ہوئے دوبرس کی سخت محنت کے نتیجے میں ۲۶جنوری ۲۰۱۴ء کونیا آئین منظور ہوا۔ اور ۲۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر عوام نے پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ اظہار راے کا حق استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ملک پُرامن انتقالِ اقتدار کے حتمی مراحل کی جانب گام زن ہے۔
واضح بیرونی مداخلت، نیز اسلامی تحریکات سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے بعض عرب ممالک کی طرف سے نہضت کے خلاف اربوں ڈالر جھونک دیے جانے کے باوجود حالیہ پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔اگرچہ سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم اور صدر بورقیبہ کے دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے الباجی قائد السبسی کی سربراہی میںسیکولر پارٹی ’نداے تیونس‘ ۸۶سیٹیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہی لیکن وہ مختلف النوع، مختلف الخیال گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جسے صرف ’نہضت‘ دشمنی میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ تحریک نہضت ۶۹نشستوں پر کامیاب ہو کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔یکسو اورمضبوط نظریاتی بنیادوں والی جماعت کی حیثیت سے تحریک نہضت ہی نومنتخب ایوان کی اصل قوت ثابت ہوگی۔ نہضت چاہے تو جوڑ توڑ کی سیاست کرکے اب بھی کوئی کمزور حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کی تمام تر توجہ حصولِ اقتدار نہیں، مستحکم اور آزاد ملکی نظام کی تشکیل و استحکام پر مرکوز ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے نتیجے میں ملک میں عبوری سیاسی مرحلے کا اختتام ہوا، اوراس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے کہ یہ انقلاب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک اعصاب شکن سیاسی معرکہ تھا ۔
تحریک نہضت کی قیادت نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی کو مبارک باد دی ہے، ساتھ ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی حکومت تشکیل دینے کا مشورہ بھی دیاہے۔ تیونس کے قانون کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سونپی جاتی ہے ، لیکن ۵۰فی صد نشستوں پر کامیاب نہ ہوپانے کے باعث سب سے بڑی پارٹی نداے تیونس کو بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل دینا پڑے گی۔نداے تیونس کی قیادت نے کہا تھا کہ ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ان کی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے۔اہم بات یہ ہے کہ نہضت کے پاس بھی اتنی نشستیں ہیں کہ اس کے بغیرکوئی بھی بل پاس نہیں ہوسکے گا۔
پارلیمانی انتخابات کے بعدایک اہم مرحلہ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات تھے۔ نہضت نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ انتخابات سے پہلے انھوں نے کسی متعین صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انھو ں نے اپنے ووٹرز کو اختیار دیا کہ وہ جسے زیادہ اہل سمجھیں اسے ووٹ دیں۔ میدان میں ۲۵صدارتی امیدوار تھے لیکن اصل مقابلہ دو بڑے امیدواروں : نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی اور موجودہ صدر منصف المرزوقی کے درمیان رہا۔ السبسی نے۴۶ء۳۹ فی صد اور منصف المرزوقی نے۴۳ء۳۳ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ باقی امیدوار بہت نیچے تھے۔ اب دونوں بڑے اُمیدواروں کے مابین ۲۸دسمبر کو دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ ووٹ تقسیم سے بچیں گے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ صدر منصف کو حاصل ہوگا۔ نہضت بھی شاید کسی نہ کسی صورت اس کی واضح تائید کر دے۔ لیکن تحریک نہضت کا فیصلہ ہے کہ فی الحال وہ خود اقتدار میں نہیں آئے گی۔ معاشرے کے ایک ایک فرد کے سامنے اپنی دعوت پیش کرے گی۔ نو منتخب حکومت کی کارکردگی بھی بہت جلد اپنا چہرہ عوام کو دکھا دے گی اور ان شاء اللہ جلد یا بدیر تیونس کے حالیہ سیاسی نقشے پر خیر غالب ہوکر رہے گا۔واضح رہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منصف المرزوقی صرف تحریک نہضت کی تائید و حمایت کی بدولت ہی گذشتہ تین برس سے منصب صدارت پر فائز تھے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اعلان نہ کرنے کے باوجود تحریک نہضت کے اکثریتی ووٹ منصف المرزوقی کے پلڑے میں پڑے، جب کہ انقلاب کے مخالفین، متشدد سیکولر اور سابق صدر زین العابدین کے دور میں اہم حکومتی عہدے داروں کی تمام تر تائید نداے تیونس کو حاصل ہوئی۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے ذرائع ابلاغ پر تیونس کے مستقبل کے بارے میں مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی اسلامی تحریک ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں آخر کیوں دوسرے نمبر پر آگئی؟اس کے جواب میں مخالفین اپنا پورا زوریہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ ناکام ہوگیا۔ آج کے دور میں اسلام کا نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام عصر حاضر کے گمبھیرمسائل کا حل نہیں دے سکتا، لیکن یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہے کہ وہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں تحریک نہضت کے خلاف مکمل طور پر میدان میں تھیں جنھوں نے اس سے قبل مصر میں منتخب حکومت اور عوامی راے کو کچل ڈالا۔ یہ سب قوتیں مصر کی طرح تیونس میں خون کے دریا تو نہیں بہا سکیں لیکن دولت، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے طاقت ور افراد کے بل بوتے پر انھوں نے سب اسلام دشمنوں کو یک جا کردیا۔
گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک میں آمریت اور فوجی ظلم وستم کا راج رہا۔ حکمرانوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد اور تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔بڑے بڑے علما اوراسلامی فکر کے علَم برداروں کو بیڑیاں ڈال کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔معاشرے میںفکری، اخلاقی ، معاشی او ر معاشرتی زوال کو فروغ دیا۔۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد مختصر عرصے میںقوم کو اپنا مکمل ہم نوا بنانا نہضت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ملک میں بنیادی آزادیاں اور جمہوریت بحال کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس کے لیے دسیوں سالوں کی محنت درکار تھی ۔ الحمد للہ تین سال کے عرصے میںعوام کو ایک متفقہ آئین اورآزادی مہیا کرنا نہضت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔بعض لوگوں کی راے ہے کہ نہضت کے دوسرے نمبر پرآنے سے ایک طرف ملک میں انقلاب دَر انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ جن سے خطرہ تھا وہی اب حکومت میں ہیں۔ دوسری طرف تحریک نہضت کو اپوزیشن میں رہ کر حکومتی غلطیوں سے سیکھنے اور اسے ان سے روکنے کا موقع ملے گا۔ اپنی تنظیم نو اور دعوت کو پھیلانے کا وقت ملے گا۔سماجی اور دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کی فرصت ملے گی، اور ان شاء اللہ آیندہ انتخابات کو ہدف بنا کر مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ گویا تحریک نہضت اکثریت حاصل نہ کر کے بھی کامیاب رہی۔
افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے سب سے پہلے جس ملک کا غیر ملکی دورہ کیا وہ چین تھا اور اس کے بعدپاکستان آئے ۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس لیے کہ اشرف غنی صاحب انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی جس فراست اورعملیت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تقاضا یہی تھا کہ ہندستان سے پہلے اس پڑوسی ملک میں آئیں جو ان کے ملک میں غلط یا صحیح سب سے زیادہ موضوع بحث رہتاہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے کرسیِ صدارت سنبھالتے ہی ایسے اقدامات کیے جس سے ان کے مصالحانہ رویے اور عملیت پسندی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک زیرک سیاستدان کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ موقعے کا انتظار کرتا ہے اور موقع ملتے ہی فیصلے کرنے سے دریغ نہیں کرتا ۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مصالحت کرنے کے فوراًبعد انھوں نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائی جس کا عرصے سے امریکی حکومت کو انتظار تھا ۔ لیکن یہ مصالحانہ رویہ صرف طاقت ور حریفوں کے ساتھ تھا ۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر انھوں نے فوراًہی گرفت مضبوط کی۔ کابل میں موجود سرکاروں شعبوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی کایا پلٹ گئی۔ اب آپ کو طورخم بارڈر عبور کرتے ہی ایک مختلف کلچر نظر آئے گا۔ سرکاری افسر ہویا ملازم، کام پر لگ گیا ۔ وہ خود دن میں۱۸گھنٹے کام کررہے ہیں اور اپنے اسٹاف کے آرام سے بیٹھ رہنے کے روادار نہیں۔
پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے جملہ معاملات طے کرنا ہی ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اس لیے پہلی فرصت میں ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ دورے پر آئے۔ افغان صحافتی حلقوں نے ۱۳۰؍افراد پر مشتمل وفد کے حجم پر اعتراض کیا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ He means business، یعنی وہ پاکستان سے کچھ چاہتاہے ۔ ہوسکتاہے کہ پہلے دورے میں وہ متنازع اُمور نہ چھیڑیں، تاہم روزمرہ کے معاملات پر وہ سنجیدگی سے بات کرنا چاہتے تھے ۔ ظاہر ہے پاکستان کی اہمیت افغانستان کے لیے ہر دوسرے ملک سے سوا ہے ۔ اگر طورخم پھاٹک چندگھنٹوں کے لیے بند ہوجاتا ہے تو کابل کے بازار میں ملک پیک کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کرنسی مارکیٹ مندی پڑجاتی ہے ۔ صدر کے وفد میں چیف آف اسٹاف جنرل شیرمحمدکریمی، وزیردفاع بسم اللہ محمدی اوروزیر خزانہ عمرزخی خیل سمیت سینیرافغان دفاعی حکام بھی شامل تھے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا پروگرام تھا کہ ہر سطح پر پاکستانی اور افغانی قیادت کو باہم مربوط کیا جائے، ذہنی دُوری ختم کی جائے اور قربت پید اکی جائے ۔وہ پاکستان سے فوری طور پر کوئی مراعات لینے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ تعلقات بنانے آئے تھے ۔ اعتماد سازی کا عمل چاہتے تھے۔ کرزئی حکومت کا المیہ یہ تھا کہ وہ پاکستان مخالف رجحانات کی اسیربن گئی تھی اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ اس کا افغانستان کوکوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ دونوں پڑوسی ممالک میں دُوریاں پیدا ہوئیں جس کا فائدہ ہندستان نے اٹھایا اور اس کا اثر ورسوخ غیر معمولی حدتک بڑھ گیا ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے تعلقات بنانے کی قیمت پر بھارت سے بگاڑ پیدا کریں گے۔ ان کی عملیت پسندی کا تقاضایہ ہے کہ وہ ہر ایک فریق سے اس کی اپنی حیثیت کے مطابق معاملہ کریں۔ کوئی بھی کابل حکومت پاکستان سے تعلقات بگاڑکر افغانستان میں ترقی اور امن وسلامتی کا خواب نہیں دیکھ سکتی ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نوازشریف سے ملاقاتوں میں طالبان کا ایشواس طرح نہیں اٹھا یا جس طرح اس سے پہلے افغان حکومتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی تو اس کا جواب دینا پاکستا نی قیادت کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا ۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ امریکی انتظامیہ نے نئی افغان حکومت کے سربراہ کے دورۂ پاکستان سے محض ۱۰دن پہلے ایک خفیہ پرانی رپورٹ نشرکردی جس میں حسب سابق پاکستانی جاسوسی اداروں پر افغانستان میں حکومت مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد پاکستانی حکومت کو دبائو میں لانا ہو تاکہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے مطالبات بآسانی تسلیم کرے ۔ حالانکہ پاکستانی قوم سب سے زیادہ اس کی متمنی ہے کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہو اور ایک منتخب نمایندہ حکومت ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرے ،متحارب افغان گروہوںمیں مصالحت ہوجائے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجر آبادی اپنے ملک واپس جاسکے۔
افغان صدارتی دورے کی ایک اہم پیش رفت پاکستان مسلح افواج کی قیادت سے اس کا براہ راست مکالمہ ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا ۔ یہ ایک ایسا خیرسگالی دورہ تھا جس کی عرصے سے ضرورت تھی۔ اس کی حیثیت محض علامتی نہ تھی بلکہ پاکستانی اور افغانی فوج کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک زمینی حقیقت ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اس دورے میں افغان فوج کوتربیت کی سہولتیں پہنچانے کی پیش کش بھی کی تھی ۔ پاک آرمی دنیا میں عسکری اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے ۔ ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی دنیا میں عسکری تربیت کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس لیے افغان آرمی کے افسران کے لیے اس کے دروازے کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔ اب تک افغان آرمی کی تربیت کاکام مغربی افواج کے ماہرین نے سرانجام دیا ہے ۔ بھارت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور کئی سطح پر افغان عسکری اہلکار وہاں تربیتی کورسز میں شرکت کررہے ہیں ، جب کہ زیادہ قریب پاکستان ادارے اس ’ثواب‘ سے محروم رہے ہیں ۔ حالیہ دورے میں افغان صدر نے اس پیش کش کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے تفصیلات بعد میں طے کی جائیں گی ۔ انھوں نے جی ایچ کیو جاکر پاکستانی کمانڈر انچیف سے ملاقات کی اور یادگارِ شہدا پر پھول بھی چڑھائے ۔
افغان صدر کے سہ روزہ دورے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان اور صدر افغانستان نے مشترکہ پریس کانفر نس سے خطاب بھی کیا ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اشرف غنی کے پروگرام کاحامی ہے ۔ یادرہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران باربار افغان طالبان کے ساتھ با معنیٰ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اب بھی ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار اداکرنا چاہتا ہے لیکن مسلح افغان گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات اب اس درجے کے نہیں کہ وہ ان پر کوئی دبائو ڈال سکے۔
پاکستان اور افغانستان نے باہمی تجارت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسکی تفصیلات کے لیے ماہِ دسمبر میں باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔جن اہم تجارتی منصوبوں پر گفتگو ہوئی اس میں وسط ایشیائی ممالک سے بجلی اور گیس کے ترسیل کے معاہدے اور کاسا1000اور تاپی بھی شامل ہیں جو بین الممالک اور علاقائی تجارتی منصوبے ہیں ۔ ایک اور اہم منصوبہ پاکستان سے ریل کی پٹڑی کو افغانستان اورپھر وسط ایشیائی ممالک تک توسیع دینے کا منصوبہ ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ گرم سمندروں سے پاکستان کے ذریعے مواصلاتی رابطے ان ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اس خطے کا پورا نقشہ بدل سکتے ہیں ۔ چین بھی ان رابطوں میں دل چسپی رکھتاہے۔ اس لیے کراچی کے بعد گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے بے پناہ تزویراتی اہمیت کی حامل ہے ۔
میاں نواز شریف نے افغان صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے دوجملے ایسے کہے جو اس تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اشرف غنی کو ان کے دوسرے گھر پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان کے دوست ہمارے دوست، جب کہ اس کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ اشرف غنی نے جواب میں کہا کہ ماضی کو بھول کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے ۔ انھوں نے تجارت سے متعلق حالیہ سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ ۱۳سال کا سفر تین دن میں طے ہوا۔ گویا دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں جورکاوٹیں ہیں ان کو دور کرلیا گیا ہے ۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو دورۂ افغانستان کی دعوت بھی دی ۔
افغان صدر نے دورۂ پاکستان کے دوران جن قومی رہنمائوں کو شرفِ ملاقات بخشا ان میں نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اسفندیار ولی اور ان کے ہمراہ افراسیاب خٹک ، پختونخوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خا ن اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے صدر جناب آفتاب خان شیر پائو قابل ذکر ہیں ۔ جو سب کے سب پختون قوم پرست لیڈر شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں میں اعتزاز احسن ، فیصل کریم کنڈی ، فرحت اللہ بابر اور شیریں رحمن صاحبہ نے بھی ان سے ملاقات کی ۔ کسی بھی دینی یا مذہبی پارٹی کے سربراہ سے ان کی ملاقات نہ ہوئی ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہت ساری جہتوں میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ان ۱۳ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جن کو دنیا میں سب سے زیادہ امریکی مالی تعاون حاصل ہے۔امریکی بالادستی عسکری اور معاشی دونوں میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی چھتری تلے ان ممالک کی قیادت کے لیے ایسے فیصلے کرنا جو مستقبل میں ان کی معاشی وسیاسی آزادی کا سبب بنیں ناممکن نہیں تو مشکل ضرو ر ہیں۔ پھر بھی قیادت کا استحکام اور تسلسل اس منزل کی طرف سفر جاری رکھ سکتا ہے ۔
آخر میں ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں ایک افواہ جو کابل کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں عام ہے سنتے جائیے ۔ ڈاکٹر اشرف غنی اچھا آدمی ہے، محنت کررہاہے لیکن وہ ایک ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلاہے جس کی وجہ سے اس کے پاس وقت بہت کم ہے ۔
۲۳ سے ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک سوڈان کے دارالحکومت میں حکمران جماعت ’قومی کانگریس‘ کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ۱۵برس قبل اس سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنالینے والے اس کے بانی سربراہ جناب ڈاکٹر حسن الترابی بھی نہ صرف اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جب کہا کہ نہ تو یہ پارٹی، اس کا نظام، اس کے اہداف و مقاصد میرے لیے نئے ہیں اور نہ آپ میں سے اکثر شرکا ہی ، تو پورے اجتماع میں آنسوئوں اور نعروں کا ملاپ دکھائی دیا۔ ۱۵برس کی دُوری اور اختلافات کے بعد اکثر شرکا کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ۸۲سالہ ترابی صاحب کو براہِ راست دیکھ اور سن پارہے تھے۔ ترابی صاحب نے بھی اس عرصے کا اکثر حصہ یا تو جیل میں گزارا یا پھر حکومت اور حکومتی جماعت کی شدید مخالفت میں۔
حالیہ اجتماعِ عام کی سب سے اہم اور خوش کن حقیقت یہی تھی کہ نہ صرف ترابی صاحب بلکہ اِکا دکا کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے مابین ایک قومی یک جہتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ گذشتہ جنوری میں شروع ہونے والے اس قومی مذاکراتی عمل کا سہرا، صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کے سرجاتا ہے۔ اس دوران کُل جماعتی اور دو جماعتی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مختلف اُمورپر اختلافات رکھنے کے باوجود اب تمام جماعتوں کے مابین تعاون اور مثبت و تعمیری اپوزیشن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ اس وقت صرف ایک مؤثر جماعت نے خود کو اس عمل سے خارج رکھا ہوا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم صادق المہدی صاحب کی جماعت ’حزب الامۃ‘۔ خود صادق المہدی صاحب ناراض ہوکر قاہرہ جابیٹھے ہیں۔ جنرل سیسی کے زیرسایہ جابیٹھنا بذاتِ خود ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔
حکمران جماعت ’المؤتمر الوطنی‘یا قومی کانگریس،تحریکِ اسلامی سوڈان کا سیاسی بازو ہے۔ تحریک اسلامی کی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں الحرکۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہی جاری ہیں۔ المؤتمرالوطنی میں شرکت و شمولیت نسبتاً آسان عمل ہے۔ تقریباً پونے چار کروڑ کی آبادی میں اس کے ارکان کی تعداد اس وقت تقریباً پونے سات لاکھ ہے۔ پارٹی دستور کے مطابق ہرپانچ سال بعد اس کا تین روزہ اجتماع عام ہوتا ہے۔ اسی میں خفیہ راے دہی کے ذریعے پارٹی کے صدر اور ۴۰۰ رکنی مجلس شوریٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ تین روزہ اجتماع عام بنیادی طور پر نمایندگان کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تقریباً چھے ماہ کے دوران بنیادی یونٹس کے ۱۸ہزار اجتماع عام ہوتے ہیں۔ ان میں نمایندگان منتخب ہونے والے ارکان۱۲ہزار مقامی اجتماعات منعقد کرتے ہیں، پھر ۱۰۷ ضلعی اجتماع عام ہوتے ہیں، اور بعدازاں ۱۸ صوبائی اجتماع مرکزی اجتماع عام کے لیے نمایندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سات اجتماع شعبہ جاتی بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین، نوجوان، مزدور، کسان اپنے نمایندگان منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح بالآخر ۶ہزار نمایندگان کا یہ اجتماع عام حتمی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا ایک اہم ترین فیصلہ نئی مجلس شوریٰ ، پارٹی سربراہ کے انتخاب کے علاوہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا نمایندہ منتخب کرنا بھی تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ذرائع ابلاغ کی بات نہیں بلکہ بعض معاملات میں صدر عمرالبشیر سے اختلاف رکھنے والے اہم پارٹی رہنمائوں نے بھی بتایا کہ صدر عمرالبشیر کسی صورت آیندہ صدارتی اُمیدوار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے حتمی معذرت کردی تھی۔ شوریٰ نے بھی ان کی بات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا، لیکن پھر اس نتیجے تک پہنچی کہ موجودہ علاقائی، بین الاقوامی اور ملکی حالات میں ان کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی۔ خفیہ راے دہی ہوئی اور مجلس شوریٰ نے عمرحسن البشیرہی کو آیندہ صدارتی اُمیدوار قرار دیا۔ شوریٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص علاقائی ذرائع ابلاغ نے اس فیصلے پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پارٹی کے اندر سنگین اختلافات کی خبریں چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اجتماع عام کے دوران جماعت ۱۵برس بعد ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گی۔ خود صدر عمرالبشیر نے تین روزہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں ان خبروں اور پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ اجتماعِ عام منسوخ کردیں۔ اجتماع ہوا تو اختلافات پھوٹ پڑیں گے اور شوریٰ کے فیصلوں سے بغاوت کردی جائے گی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اختلافات کی آرزو رکھنے والوں کی خواہش کے برعکس ہم پہلے سے بھی زیادہ یکسو ہوکر جارہے ہیں‘‘۔ ان کے خطاب سے قبل کانفرنس سیکرٹریٹ کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ خفیہ راے دہی کے ذریعے ۹۳ فی صد نمایندگان نے صدرعمرالبشیر ہی کو پارٹی کا آیندہ سربراہ اور صدارتی اُمیدوار منتخب کیا ہے۔
صدربشیر کو اپنے دورِ اقتدار میں سنگین خطرات اور چیلنجوں کاسامنا رہا ہے۔ خود پارٹی کے بانی صدر اور اصل فکری رہنما ڈاکٹر حسن الترابی سے اختلافات اب بھی سنگین تر ہیں۔ جنوبی سوڈان میں ۲۲سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی تقریباً تمام ملکی وسائل ہڑپ کرتی رہی۔ کئی بار دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے فوج کشی کروائی گئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے قطع تعلق بلکہ محاصرہ کیے رکھا۔ جنوبی شورش سے نجات کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہوئے غالب اکثریت کی راے کے مطابق جنوب کو الگ کردیا، تو کچھ ہی عرصے بعد مغربی علاقے دارفور میں بغاوت اور پڑوسی ممالک سے براہِ راست مداخلت کروا دی گئی۔ چین کی مدد سے طویل جدوجہد کے بعد ملک میں پٹرول دریافت کیا گیا تھا، لیکن جنوبی علیحدگی کے بعد پٹرول کے سب کنویں انھیں دینا پڑے۔ اقتصادی حالت جو قدرے سنبھلنے لگی تھی، ایک بار پھر ڈھلوان پر آگئی۔ بین الاقوامی عدالتوں میں سوڈان اور اس کے صدر پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ عمرالبشیر کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ کسی بھی بین الاقوامی سفر کے دوران انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں، جو آج بھی جاری ہیں۔ کئی عالمی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی مالی معاملات نہیں کرسکتے۔ متعدد بار فوج کے اندر سے بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور الشفا نامی ادویات بنانے کے کارخانے میں کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر خود امریکا حملہ آور ہوگیا۔ لیکن ایسے خطرات اور الزامات کے باوجود المؤتمر الوطنی اور عمرالبشیر کا تعمیری سفر جاری رہا۔
اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں آنے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کرپشن کی ایک پائی کے قریب بھی نہ پھٹکے، چہار جانب اشارۂ ابرو کے منتظر رہنے والے جان نثار ساتھیوں کے جلو میں رہنے کے باوجود، دل و دماغ میں تکبرکا خناس اپنی جگہ نہ بناسکے، تو ایسا شخص یقینا آج کا ولی اللہ کہلانے کا حق دار ہے۔ عمرالبشیر ہی نہیں، ان کی جماعت کی غالب اکثریت نے خود کو ان دونوں آزمایشوں میں سرخرو ثابت کیا ہے۔ ویسے تو سوڈانی معاشرہ دیگر تمام عرب ملکوں کی نسبت انتہائی ملنسار، متواضع، بے تکلف اور باہم مربوط معاشرہ ہے، لیکن بالخصوص حکومتی ذمہ داران ہرشخص کی دسترس میں اور تقریباً ہرپروٹوکول سے بے نیاز ہیں۔ اب بھی صدرعمرالبشیر ہی نہیں، ان کے کئی قریبی اور اہم ذمہ داران نے بذاتِ خود وزارتیں اور مناصب چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد جماعت کے فکری رہنما سمجھے جانے والے علی عثمان طٰہٰ طویل عرصے سے ملک کے نائب صدر اول تھے، خود انھوں نے اصرار کرکے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلی ملاقات میں اس پارٹی اجلاس کا حال سنا رہے تھے جس میں انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کہنے لگے کہ صدرالبشیر نے جب مجلس کو میرے فیصلے سے آگاہ کیا، تو دیر تک میرے بارے میں بہت جذباتی انداز میں کلمات خیروتحسین کہتے رہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ایک خاتون رکن کھڑی ہوکر کہنے لگیں: برادرم صدرصاحب! (صدر البشیر کو اسی طرح مخاطب کیا جاتاہے: الاخ الرئیس) آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اسی طرح ہے، تو پھر بھلا الشیخ علی کو جانے ہی کیوں دیا؟ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی اور صدرصاحب نے کہا: یہ بات خود الشیخ علی ہی سے پوچھیں۔
مناصب کو امانت و امتحان سمجھے جانے کی یہ ایمانی روح، ربِ ذوالجلال کی طرف سے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ایک عظیم انعام ہے۔ اجتماعِ عام کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود صدرالبشیر کا جملہ بھی ملاحظہ کیجیے: اَلْمَنَاصِبُ فِی أَعْیُنِنَا أَمَانَۃٌ وَ اِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃ ’’ہماری نگاہ میں عہدے اور مناصب ایک امانت ہیں اور یہ عہدے قیامت کے روز رُسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِمبارک ہی سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اِلَّا مَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (یہ عہدے روزِ قیامت رُسوائی اور ندامت ہیں) الا یہ کہ ان پر فائز ذمہ داران ان مناصب کا حق اور ان کے مکمل تقاضے پورے کریں۔
اندازہ یہی ہے کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں عمرحسن البشیر دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے۔خود ان کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترمیم کے بعد اب یہ ان کی آخری ٹرم ہوگی۔ پارٹی اور ملکی دستور میں انھوں نے ترمیم کروا دی ہے کہ کوئی بھی صدر دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اصل سوال سوڈان کو درپیش خطرات و مسائل کا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں اُس کی نصرت اپنے اِن مخلص بندوں کے شاملِ حال رہی ہے ۔ ایک اہم ذمہ دار بتا رہے تھے کہ جنوبی سوڈان کا پٹرول چلے جانے کے بعد اللہ نے ملک میں برکتوں کے کئی نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ زمین سونا اُگلنے لگی ہے، فصلیں کئی گنا زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں۔ اصل سونا بھی بڑی مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ عام لوگ تھوڑی سی کھدائی کے بعدسونا نکال رہے ہیں۔ صرف گذشتہ برس میں ریاست نے اپنے عوام سے ۱۲؍ارب ڈالر کا سونا خریدا ہے۔ ان کے بقول: ہمیں رزق کے بارے میں کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں صرف اخلاص کے ساتھ درست راستے پر چلنا اور کوشش کرنا ہے، رزق کا مالک تو رب العالمین ہے جس نے اپنی ایک صفت ’’الرزاق‘‘ بتائی ہے اور اپنی ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔
اجتماعِ عام کے دوسرے روز شام کے سیشن میں بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں کا خطاب تھا۔ اس میں ۴۵ ممالک سے درجنوں ذمہ داران شریک تھے۔ چین، شمالی کوریا، مراکش اور موریطانیہ کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی شریک تھے۔ کئی اسلامی تحریکات کے ذمہ داران بھی شریک تھے۔ اکثر نے اپنے ملکی حالات کے علاوہ تحریکی صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعد ۲۶؍اکتوبرکو ہونے والے پہلے عام انتخابات سب کی توجہ اور دُعائیں حاصل کر رہے تھے۔ افریقی ممالک سے آنے والے مہمان زیادہ تھے۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق اپنے اکثر عرب احباب کی بے رُخی کے باعث ہم نے بھی اپنی توجہ افریقی ممالک پر مرکوز کردی ہے۔ ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی ریاستی تعلقات بحال و مستحکم کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسی ماہ صدربشیرنے سعودی عرب اور مصر کا دورہ کیا ہے اور اُمید ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
مجھے بھی اس سیشن میں گفتگو کا موقع دیا گیا تو کشمیر، پاکستان، جماعت، تحریکی فکر اور دیگر اُمور کے علاوہ بنگلہ دیش کا تفصیلی ذکر کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کی گرفتاری کا بتایا۔ الحمدللہ شرکا نے جواب میں انتہائی گرم جوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ اس سیشن سے واپس آتے ہی بنگلہ دیش سے محترم پروفیسر صاحب کی حالت نازک ہونے اور پھر دنیا کے دکھوں سے ان کے آزاد ہوجانے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بے اختیار آنسو اور دعائیں اُمڈ آئیں۔ اپنے سوڈانی میزبانوں کے علاوہ دنیابھر کی تحریکوں سے روابط کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے اگلے روز جمعہ تھا اور اکثر عرب ممالک میں سفارت خانے بند تھے وگرنہ ہماری بھرپور کوشش اور خواہش تھی کہ نمازِجنازہ میں تحریکاتِ اسلامی کی نمایندگی ہوسکے۔
تقریباً ہر ملک میں مرحوم کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ خرطوم کے اجتماعِ عام میں موریطانیہ سے آئے ہوئے عالمِ ربانی علامہ محمدالحسن الدد نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جب کہ تحریکِ اسلامی سوڈان کے سربراہ الزبیر الحسن نے نماز سے قبل پروفیسر صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مجھے خرطوم کی مرکزی جامع مسجد جانے کا حکم ملا۔ خطبۂ جمعہ میں معروف اسکالر ڈاکٹر عصام البشیر نے بھی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پھر غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں اظہارِ خیال کا کہا گیا۔ مسجد میں کئی مسلم سفرا سمیت عوام کی بڑی تعداد تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔باقی دو روز کا قیامِ سوڈان بھی عملاً پروفیسرصاحب کے ذکرخیر ، اس سلسلے میں بیرونی احباب سے روابط اور تعزیتی کلمات ہی کے لیے وقف ہوگیا۔ سب اس پر متفق تھے کہ ڈھاکہ میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کی نمازِ جنازہ اور دنیابھر میں غائبانہ نماز ان کی مظلومیت و براء ت اور ظالم حسینہ واجد حکومت کے جرائم کے خلاف واضح عوامی ریفرنڈم ہے۔ کئی احباب نے امام ابن تیمیہؒ کا یہ جملہ یاد دلایا کہ ’’ہم میں سے کون غلطی پر ہے اور کون حق پر؟ اس بات کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔ سوڈانی عوام نے بھی اس موقعے پر اپنا فیصلہ شہیدِ زندان پروفیسر غلام اعظم صاحب کے حق میں دیا ہے۔