اخبار اُمت


کریمیا:

جزیرہ نما کریمیا بحیرۂ اسود (Black Sea)کے ساحل پر واقع دنیا کے  خوب صورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔ موجودہ یوکرائن کی حدود میں شامل یہ مسلم ریاست تاریخی اعتبار سے ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہی ہے ۔سابق سوویت یونین میں دو طرح کے تاتار مسلمان آباد ہیں۔ ان میں کریمیا کے تاتار اور قازان کے تاتار مسلمان دو مختلف علاقوں میں آباد رہے ہیں۔کریمیا کے تاتاروں کوکریمیا سے نکال دیا گیا اور انھیں سابق سوویت یونین کی مختلف ریاستوں میں جبراً  ـ ہجرت پر مجبور کیاگیا۔

کریمیا کا رقبہ ۲ہزار۷سو مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور دنیا کا خوب صورت ترین ساحل سمندر اور ساحلی شہر سوچی کریمیا میں واقع ہے ۔یہاں پر قدرتی و سائل کے ساتھ ساتھ ٹورسٹ انڈسٹری بہت نمایاں اور دنیا کے ہر علاقے سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہے۔ گرمیوں کے چھے ماہ سوچی اور اس کے گرد و نواح سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے کریمیا کے تاتاروں نے نہ صرف یوکرائن اور روس کے بڑے علاقے پر حکومت کی ہے،بلکہ پولینڈ کا ایک بڑا علاقہ بھی کریمیا کی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ یہاں کے تاتاروں نے ماسکو پر بھی کئی مرتبہ چڑھائی کی، جب کہ روسی بادشاہ ماسکو چھوڑ کر فرار بھی ہو گیا تھا۔ ماسکو کی تباہی کے یہ مناظر دیکھنے کے لیے سیاح کئی سالوں تک دُور دُور سے آتے رہے۔

۱۴۷۵ء میں کریمیا خلافت عثمانیہ میں شامل ہو گیا اور ماسکو کے بادشاہ زار کو کریمیا کے تاتاریوں نے ہفتہ وار مسجد میں آنے اور انتظامات دیکھنے کا پابند بنایا۔ خلافت عثمانیہ کے کمزور پڑتے ہی روسی حکمرانوں نے کریمیا کے مسلمانوں کو زیر اثر لانے کی کوشش کی اور آخر کار۱۷۸۳ء میں کریمیا پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں اور کریمیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکی منتقل ہو گئی۔ روسی حکمرانوں نے روس کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں روسیوں کو کریمیا منتقل کیا۔ یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق کریمیا میں مسلمانوں کی تعداد صرف  ایک لاکھ ۸۶ہزار رہ گئی،جب کہ اس وقت مسلمان کل آبادی کا ۱ء۳۴ فی صد تھے۔ چونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جارحیت کا عمل جاری رہا، اس لیے آہستہ آہستہ مزید مسلمان کریمیا چھوڑ کر چلے گئے اور یوں روسیوں نے اس مسلم ریاست پر اپنے پنجے گاڑ لیے۔

کمیونسٹ انقلاب کے بعد کریمیا  کے مسلمان جبر و تسلط کا شکار رہے۔ جب سٹالن نے ۱۹۴۴ء میں کریمیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی، تو اس جزیرہ نما کے سارے کے سارے مسلمانوں کو مال گاڑیوں میں بھر کر ازبکستان اور سائبیریا روانہ کر دیا گیا۔ جہاں انتہائی نامساعد حالات میں بھوک و پیاس، سردی اور تشدد سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی اور بچے کھچے مسلمان روسی ریاستوں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں سٹالن کی موت کے بعد خرشچیف برسرِ اقتدار آئے اور انھوں نے کریمیا کو یوکرائن کا حصہ بنا دیا۔

سوویت یونین کے کمزور پڑتے ہی کریمیا کے مسلمانوں نے واپس کریمیا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ روسی آبادی نے بھرپور مخالفت کی اور بہت سے تاتاریوں کو واپس اپنے علاقوں میں آنے سے روکے رکھا۔ تاہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی تاتاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کریمیا پہنچ گئی۔ اب کریمیا میں ۷۰فی صد سے زائدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ۳لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔موجودہ روسی قبضے نے مقامی تاتاری آبادی کو بڑا مضطرب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن کے خلاف تاتاری مسلمان زیادہ جذبات نہیں رکھتے۔ روس اور یوکرائن کی اس جنگ کے جو بھی نتائج ہوں مجموعی طور پر مسلمان زیادہ متاثر ہوں گے۔ کیوںکہ تاتاریوں کی زبان مختلف ہے، مذہب اور تہذیب جدا ہے، جب کہ روسی اور یوکرائن ایک قوم اور بڑی حد تک ایک ہی زبان بولنے والے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا اتحاد بھی رہا ہے۔

روس کا یوکرائن، بیلارس اور پولینڈ پر قبضہ اسی صورت میں ممکن ہو سکا تھا، جب روسیوں نے تاتاری مسلمانوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ۱۹-۱۹۱۸ء میں یوکرائن کو سابق سوویت یونین کا حصہ بنایا گیا ۔ کریمیا چونکہ یوکرائن کا حصہ تھا، اس لیے ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریمیا یوکرائن کا حصہ ہی رہا ۔ یوکرائن نے کریمیا کو ایک نیم خود مختار ریاست کے طورپر قائم رکھا۔ اس طرح کریمیا میں تین قومیں روسی، یوکرائنی اور مسلمان آباد ہیں، جب کہ بقیہ اقوام وسطی ایشیائی ممالک، یہودی اور چیچن کی قلیل تعداد بھی آباد ہے۔

یوکرائن:

یوکرائن کا کل رقبہ۶لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جب کہ اس کی آبادی تقریباً ۴کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ اس آبادی کا تقریباً ۳۰فی صد روسیوں پر مشتمل ہے اور روس کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بھی یوکرانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔۱۹۹۱ء میں یوکرائن میں ایک بڑا ایٹمی پلانٹ چرنوبل کے مقام پر موجود تھا۔ یوکرائن کے پاس بڑی تعداد میں ایٹمی اسلحہ اور میزائل موجود تھے۔ ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں روس امریکا اور برطانیہ نے یوکرائن کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری لی تھی، یوکرائن ایٹمی ہتھیار رکھ سکے گا۔ دوسری طرف یوکرائن ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے روس کو بڑی تعداد میں زرعی اجناس فراہم کرتا رہا ہے۔ یوکرائن میں بھاری صنعت بھی کافی حد تک ترقی پاچکی ہے۔یوکرائن سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں روس کے بعد سب سے بڑا صنعتی ملک سمجھا جاتا ہے۔ یوکرائن میں تیل اور گیس کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا اس ضرورت کو بھی ایک معاہدے کے تحت روس پوری کر رہا تھا۔

روس یوکرائن تنازع:

یوکرائن کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ بنے۔ یورپی ممالک اور امریکا بھی اس خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف روس یوکرائن کی اس خواہش کا سخت مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس یوکرائن کی حکومت کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے اور کسی طور بھی یوکرائن کو مکمل خودمختاری دینے کا حامی نہیں ہے ۔یوں روس اور یوکرائن کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا اور امریکا نے یوکرائن کی سر زمین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ جب ویکٹر یانو کوچ یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے تو روس نے سکھ کا سانس لیا اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے یانوکوچ کا ساتھ دیا۔ ویکٹریانوکوچ نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکا سے کنارہ کشی اختیار کی اور امریکا ،ناٹو اور یورپی ممالک کے ساتھ تعاون کے معاہدے سے انکار کر دیا۔ یورپی اقوام اور امریکا کے ایما پرحزب اختلاف جوبنیادی طور پر قوم پرستوں پر مشتمل تھی ، سڑکوں پر نکل آئی اور صدر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر کار  وہ صدر ویکٹریانوکوچ کو یوکرائن بدر کر کے روس میں پناہ لینے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

روس کے حکام اور بالخصوص صدر ولادی میر پوٹن دوبارہ سویت یونین کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ سابق سوویت یونین کی کوئی ریاست بھی روسی فوجی قوت کا سامنا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور روسی منصوبہ بندی کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کریمیا پر قبضے سے دوہفتے قبل، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کریمیا پر روسی قبضے کو خارج از امکان کہا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ روسی فوج کریمیا کے علاقو ں میں موجود ہے،تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ عام لوگ ہیں جو روسی فوجی وردی کو پسند کرتے ہیں، اور چند دنوں بعد ہی آسانی سے روسیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف روسی افواج یوکرائن کی مشرقی اور جنوب مشرقی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے یہ سرحدی علاقے روسی آبادی پر مشتمل ہیں اور یہاں سے یوکرائن کے علاقوں میں داخل ہونا آسان بھی ہے اور بآسانی یوکرائن کے بڑے حصے کو زیر قبضہ لایا بھی جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر روس نے یوکرائن پر چڑھائی کی تو ناٹو افواج کی مزاحمت کا اندیشہ ہے۔

یورپی یونین میں تیل اور گیس کے صدر Kherman Vanrompe نے برسلز(بلجیم) میں کہا ہے کہ روس یورپ کی گیس کی ۳۲فی صد ضرویات فراہم کرتا ہے ،جب کہ ۳۵فی صد تیل بھی روس فراہم کرتا ہے۔ یورپی یونین تین ماہ کے اندر اندر اپنی گیس اور تیل کی ضروریات متبادل ذرائع سے پورا کرنے کا اہتمام کرے گا اور روس سے تیل اور گیس کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ساتھ روس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ روسی کمپنیوں کی یورپ تک رسائی معطل کر دی جائے گی اور روس کو یوکرائن میں مداخلت کے عوض خطرناک معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ادھر امریکا نے اہم روسی شخصیات اور روسی صدر کے قریبی ساتھیوں پر ویزے کی پابندی عائد کر دی ہے اور اس طرح روس اور یوکرائن کی یہ لڑائی عالمی امن کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ کریمیا کے تاتارجو خدا خدا کر کے اپنے گھروں کو آباد کرنے لگے تھے ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہونے والے ہیں۔ روسی حکام نے ابھی سے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ روسی حکام نے تاتاری مسلمانوں کی مجلس کے صدر جمیل مصطفی کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ کئی تاتاری مسلمان نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات بھی زبانِ زد عام ہیں۔ دوسری جانب یوکرائن کی طرف سے مسلح مزاحمت بہت کمزور ہو گی اِلا یہ کہ یورپی یونین یا ناٹو ان کی مدد کو پہنچیں۔ بہرحال یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روسی افواج بغیر مسلح مزاحمت کے واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔

روس کی اندرونی صورت حال بھی خلفشار سے دوچار نظر آتی ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا ۱۴سالہ دور اقتدار پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور کسی خاص قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں تھا مگر اب اپنے دورِحکومت کو دوام دینے میں سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کی اہم شخصیات اور تجزیہ نگار ان کے حالیہ اقدام پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نقادوں اور مخالفین کو  جن میں یونی ورسٹی پروفیسر اور صحافی شامل ہیں، جیل بھیج دیا گیا ہے۔ روس کے قومی جرنلسٹ پوری مستاض کو صدر پوٹن کے خلاف اداریہ لکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ روسی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے خطرناک جنگ میں کود پڑا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک کے اندر اور سرحدوں پر مزاحمت شروع ہونے والی ہے۔ ایک مشہور خاتون صحافی اور ادیب الیستکایا نے روسی صدر کے حالیہ اقدامات پر کڑی  تنقید کی ہے۔انھوں نے یوکرائن اور کریمیا کے عوام پر صدرپوٹن کے خلاف شدید ردعمل کے اظہار کے لیے زور دیا ہے۔

۲۰۰۰ء-۲۰۰۵ء تک صدر پوٹن کے مشیر خاص سرگئی لاروف(Sargi Larov) نے صدر کے کردار اور شخصیت پر شدید تنقید کی ہے۔ لاروف نے ایک خفیہ روسی منصوبے کا ذکر کیا ہے جسے ۲۰۰۸ء میں تیار کیا گیا تھا اور جس کے مطابق روس اپنی سرحدوں کے قریب تمام ممالک پر اور  خاص طور پر سابق سوویت ریاستوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی قسم کے مغربی اثر و رسوخ کو رد کرتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یوکرائن کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور اس کی موجودہ سیاسی و معاشی قوت بکھر جائے گی۔ اس طرح روسی سرحدوں پر واقع علاقوں پر روسی تسلط قائم کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

روسی حکام اس منصوبے پر عمل کرنے کے بعد تمام ملحقہ علاقوں میں نیم خود مختار ریاستیں قائم کریں گے اور ان ریاستوں کے معاشی و سائل براہ راست روس کے زیر استعمال رہیں گے۔ سرگئی لاروف کے مطابق روس اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا ہے، جب کہ یوکرائن کو مسلح مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلح مزاحمت کی صورت میں ہی ناٹو افواج یوکرائن کی مدد کو آئیں گی۔

سرگئی لاروف اپنی شہرئہ آفاق تصنیف میں فن لینڈ کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اگر  فن لینڈ اسٹالن کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہدنہ کرتا تو آج ایک آزاد اور خود مختار ملک نہ ہوتا‘‘۔ اسی طرح روس میں موجودہ حزب مخالف کے سیاست دانوں بہ شمول ولیرو نوادروسکی (Valirio Novadrovsky)  نے بھی روسی صدر کی توسیع پسندانہ عزائم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے خلاف یوکرائن کو مسلح جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے کہ اگر یو کرائن نے روسی افواج کا مقابلہ نہ کیا تو یوکرائن اپنے آپ کو ٹکڑوں اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے لیے تیار سمجھے۔ اس تقسیم در تقسیم کے جہاں یوکرائن کو نقصانات ہوںگے وہاں روسی عوام اور ملک کو بھی سیاسی، معاشرتی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

روس کو جہاں بیرونی تنقید اور پابندیوں کا سامنا ہے وہاں اندرونی طور پر بھی روسی حکومت کو پڑوسی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روسی تاریخ میں کسی بھی حکومت کے خلاف یوں کھل کر اظہار راے پہلے کبھی نہیں کیاگیا جس طرح اس دفعہ روسی جارحیت کے خلاف اندرونی طور پر لوگ صف آرا ہو گئے ہیں۔

ادھرکریمیا کے مسلمانوں نے اپنے تشخص اور علاقائی سا لمیت کے لیے عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور ان کی اس آواز کو روس کے اندر، سابق سوویت ریاستوں اور یورپی ممالک نے حق بجانب قرار دیا ہے۔ روسی صدر کا کریمیا پر قبضہ محض اتفاقیہ عمل نہیں ہے بلکہ پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق ہے۔کریمیا کے مسلمانوں کے حق میں مسلم دنیا اور غیر مسلم طاقتوں نے کبھی کوئی کمزور آواز بھی نہیں بلند کی اور یوں مسلم ممالک کا میڈیا، صحافتی ادارے، دانش ور اور حکومتیں مکمل خاموشی کے ساتھ اس مسلم ریاست کے تباہ ہونے پر راضی نظر آتے ہیں۔

حالیہ واقعات ، حقائق کی روشنی میں:

تمام تر مغربی دباؤ اور حربوں کے باوجود روس کریمیا اور یوکرائن سے متعلق اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لایا۔ ۱۶؍اپریل۲۰۱۴ء کی پریس کانفرنس اور بعد میں بیان کردہ روسی پالیسی جسے نہ صرف پالیسی کے تسلسل کا مظہر کہا جاتا ہے، بلکہ روسی صدر، وزیر خارجہ اور روسی پارلیمنٹ کے بیش تر ارکان نے اپنے پالیسی بیانات میں روس کا کریمیا پر اپنا حق تاریخی اعتبار سے اور حالیہ واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ روسی عوام میں حالیہ امریکی اور مغربی پابندیوں سے متعلق جواضطراب پایا جاتا ہے، اسے تحلیل کرنے کے لیے تمام پارلیمانی کمیٹیوں نے ایک بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ادھر روسی پارلیمنٹ نے روسی صدر کو یوکرائن پر فوجی چڑھائی کرنے اور روسی سفیر کو امریکا سے واپس بلانے کا اختیار دے دیا ہے۔صدر ولادی میر پوٹن نے روسی آئین کے آرٹیکل ۱۰۲کے مطابق روسی افواج کی یوکرائن پر چڑھائی کو بالکل حق بجانب قرار دیا ہے۔

۱۷؍اپریل۲۰۱۴ء کے بیان میں صدر کے ترجمان نے واضح کیا کہ روسی افواج کسی وقت بھی یوکرائن کے اندر داخل ہو کر کارروائی کر سکتی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روسی افواج پہلے بھی بڑی تعداد میں یوکرائن کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور پیش قدمی کے لیے منتظر ہیں۔اس سلسلے میں روسی ترجمان نے کسی احتیاط کے بغیر اپنی آیندہ کی منصوبہ بندی بیان کرتے ہوئے تمام تر مغربی دباؤ کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔اُدھر کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم اور ان کے نتائج کو کچھ ملکوں نے تسلیم کر کے روسی موقف کی تائید کی ہے۔ اس ریفرنڈم کو شروع میں ۱۸ملکوں نے تسلیم کیا تھا لیکن اب یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ چین نے بھی انتہائی محتاط انداز میں امریکا اور مغربی قوتوں کو رشین فیڈریشن اور یوکرائن کے تنازعے میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ روس کے خلاف امریکا اور مغربی پابندیوںکو، جن میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ،انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔

برسلز میں یورپی نمایندوں کا اجلاس اور ان کے فیصلے جن میں روسی مفادات کو نقصان پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، روس پر قابلِ ذکر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔روسی موقف گو کہ بڑا متزلزل رہا ہے کہ کریمیا ۱۹۵۴ء میں غیر منصفانہ طور پر روس سے الگ کیا گیا تھا اور   روس اپنے لوگوں کا وہ جہاں کہیں بھی ہوں دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، کو مغربی طاقتوں نے مسترد کیا ہے، تاہم کریمیا کے لوگوں نے اپنے ریفرنڈم سے بھی اس کی تائید کی ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر مسٹر پوری کلامینکا نے جنیوا میں سفارت کاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں برملا کہا ہے کہ روس عنقریب یوکرائن پر پوری فوجی قوت کے ساتھ حملہ کرنے والا ہے۔

۱۹؍اپریل۲۰۱۴ء کو روس نواز حکومت نے کریمیا میں اپنی پوزیشنوں (ٹھکانوں) کو مستحکم کرتے ہوئے متحدہ یوکرائن کے سپاہیوں کو گرفتار کیا ہے اور دارالحکومت سیمفراپول (Simferopol)  کو تمام یوکرائن فوجیوں سے پاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح مقامی مسلمان آبادی جو کبھی بھی زیر تسلط رہنے پر راضی نہ ہو سکی، یوکرائن کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے روس کی غلامی میں منتقل ہو رہی ہے۔ بحیرئہ اسود پر واقع جزیرہ نما کریمیا میں ایک بڑا روسی فوجی کارروان بھی ۱۹؍اپریل کو داخل ہو چکا ہے، جسے نوزائیدہ روس نواز ملیشیا کی حمایت حاصل ہے اور جسے کریمیا میں بڑے پیمانے پر حال ہی میں منظم کیا گیا ہے۔ اس ملیشیا کے لیڈروں کی بڑی تعداد مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یوکرائن سے آنے والے تمام بحری جہازوں کو بھی روسی بحریہ کی مدد سے روک دیا گیا ہے۔

سیمفراپول میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے کریمیا چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر ۲۰؍اپریل کو یوکرائن کے وزیر اعظم Arseniy Yat Senyukنے کیف میں کریمیا میں امن قائم کرنے کے لیے یوکرائن کے مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے دورۂ امریکا کے بعد یوکرائن کی حکومت کی واضح پالیسی وضع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

روسی صدر کے توسیع پسندانہ عزائم سے کریمیا کے مسلمان پوری طرح باخبر نہ ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کریمیا کے اتحاد کا خیر مقدم کر رہے ہیں، اور روسی افواج نے سابقہ مسلمان لڑاکا گروہوں کو متحد کر کے یوکرائن کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ ادھر روس کے مسلم بورڈ نے روسی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کریمین تاتار بورڈ کو روسی حمایت پر تیار کر لیا ہے۔ اس طرح روسی حکام نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کے خلاف اُبھارنے کی منظم کوششیں شروع کر دی ہیں (ماسکو ٹائمز، ۱۹-۲۰؍اپریل ۲۰۱۴ء)، جب کہ مسلم حکومتوں نے کریمیا کے مسلمانوں اور مسلم ریاست کی بندر بانٹ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں کریمیا کے مسلمان اپنے آپ کو نہ صرف تنہا و بے بس سمجھتے ہیں بلکہ مسلم حکومتوں کی بے حسی پر انتہائی مایوس بھی ہیں۔ (بہرام بالکی،Eurasia، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء)

بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا جو مرحلہ وارسلسلہ ۱۹فروری ۲۰۱۴ء کو شروع ہوا تھا     وہ ۳۱مارچ ۲۰۱۴ء کو مکمل ہوگیا۔ بنگلہ دیش کی آبادی کم وبیش ۱۶کروڑ ہے اور یہاں کُل اضلاع ۶۴ہیں۔ یہاں سب ڈویژن یا تحصیل کہنے کے بجاے سب ڈسٹرکٹ یا اُوپا ضلع (Upazila) کہا جاتا ہے۔ کل ۴۸۷؍اُوپا ضلع ہیں۔ ان میں سے۴۶۹ میں انتخابات ہوسکے، جن میں سے بیش تر کے نتائج کا الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے۔ ۴۵۵ تحصیلوں میں حکومت اور اپوزیشن میں مقابلہ ہوا۔ ان انتخابات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بڑے چونکا دینے والے ہیں۔ حکمران عوامی لیگ نے ان انتخابات میں جو دھاندلیاں کی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مرحلہ وار انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو پہلے مرحلے میں عوامی لیگ کی حکومت، بی این پی جماعت اسلامی اتحاد کے مقابلے میں شکست کھا گئی تھی۔

پہلے مرحلے کی ان تحصیلوں میں سے ایک پیرگنج بھی تھی، جو حسینہ واجد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے۔ یہاں عوامی لیگ کا اُمیدوار براے چیرمین سیادت حسین تمام تر دھاندلی کے باوجود ۷۰ہزار۸سو۷۷ ووٹ حاصل کرسکا، جب کہ اس کے مدمقابل بی این پی کے اُمیدوار نور محمد مندل نے ۴۷ہزار۹سو۴۲ ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔اس دوران بی این پی کے عہدے داران نے ایک پریس کانفرنس میں جو ڈیلی نیو ایج میں ۲۱فروری ۲۰۱۴ء کو چھپی، اس خدشے کا اظہار کیاتھا کہ اپنی شکست دیکھ کر عوامی لیگ حکومت اگلے مراحل میں انتخابی نتائج چرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کو پولیس گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے عہدے داران نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا مگر حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔

الیکشن کے شیڈول کے دوسرے مرحلے سے قبل ہی عوامی لیگ نے تشدد، ماردھاڑ،    قتل وغارت گری اور مخالف اُمیدواروں کے علاوہ ان کے حامیوں بلکہ عام ووٹرز کو بھی اس قدر ہراساں کردیا کہ جو لوگ ووٹ دینے کے لیے آئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلے۔ کئی اُمیدوار اور ان کے فعال کارکنان جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس کے باوجود عوامی لیگ اس مرحلے میں بھی شکست کھاگئی۔ تیسرا مرحلہ دوسرے مرحلے کے دو ہفتے بعد، یعنی ۱۵مارچ کو آیا تو عوامی لیگ نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ جس میں ووٹ ڈالنے والوں کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے لیے چھلنی سے گزارا گیا، اور ستم بالاے ستم یہ کہ بیلٹ بکس راتوں رات عوامی لیگ کے حامی اُمیدواروں کے حق میں ووٹوں سے بھر دیے گئے۔ اس ظالمانہ بندوبست کے باوجود عوامی لیگ معمولی اکثریت حاصل کرپائی۔ چوتھے مرحلے میں، یعنی ۲۳مارچ۲۰۱۴ء کو عوامی لیگ نے دھاندلی اور تشدد میں   اتنا اضافہ کردیا کہ اپوزیشن اتحاد سے متعلق نمایندوں نے اپنے ووٹرز کی جانیں بچانے کے لیے بائیکاٹ کی دھمکی دی اور عملاً ۱۵ سے ۲۰ تک حلقوں میں اپوزیشن اُمیدواروں نے بائیکاٹ کردیا۔

چوتھے مرحلے کے انتخابی معرکے میں عوامی لیگ کی حکومتی سطح پر غنڈا گردی نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر عملاً ووٹ ڈالے ہی نہ جاسکے۔ انتخابی عملہ خاموش بیٹھا رہا اور عوامی لیگ کے کارکن ٹھپے لگا لگا کر بیلٹ بکس بھرتے رہے۔ یوں حکومتی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب آخری اور پانچواں مرحلہ ۳۱مارچ کو ہوا تو تمام غیرملکی مبصرین نے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس ووٹنگ کو انتخاب کہنا انتخابات اور جمہوریت کے ساتھ بدترین اور سنگین مذاق ہے۔ بی این پی نے اس انتخاب کا عملاً بائیکاٹ کردیا۔ اسے عوامی لیگ نے یک طرفہ بلڈوز کیا لیکن عوام کی شدید نفرت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے باوجود عوامی لیگ کے ۵۳چیرمین کے مقابلے میں عوام نے بی این پی کے ۱۴ اور جماعت اسلامی کے تین نمایندے کامیاب کروادیے۔    ہرچند کہ حکومتی ٹولے نے ہرمرحلے میں ظلم وستم اور بددیانتی ودھاندلی کے ذریعے نتائج کواپنے حق میں بدلا ہے۔

اب آئیے مرحلہ وار تجزیہ کرکے دیکھیں کہ حسینہ واجد کے ظالمانہ اقدامات نے کس طرح ان انتخابات کو ایک دل چسپ ڈراما بنا دیا ہے:

پہلا مرحلہ:             عوامی لیگ: ۳۷ فی صد        بی این پی +جماعت اسلامی۶۳ فی صد

دوسرا مرحلہ:         عوامی لیگ:۳۹ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۶۰ فی صد

تیسرا مرحلہ:           عوامی لیگ:۵۳ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۴۷ فی صد

چوتھاا مرحلہ:         عوامی لیگ:۶۳ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۳۷ فی صد

پانچواں مرحلہ:       عوامی لیگ:۷۶ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۲۴ فی صد

یہ صرف چیرمینوں کا تجزیہ ہے وائس چیرمینوں (مردوخواتین) کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو ۱۹فروری کو جو عوامی لیگ ۳۷ فی صد پر تھی، وہ ۳۱مارچ کو ۷۶ فی صد پر جاپہنچی۔ یاللعجب! اسی طرح جو اپوزیشن ۶۳ فی صد کی اکثریت رکھتی تھی صرف چھے ہفتے میں ۲۴ فی صد پر لے آئی گئی۔ کیا یہ منصفانہ انتخابات ہیں!!

اگر مجموعی تجزیہ کریں تو پوزیشن یہ بنتی ہے:

عوامی لیگ ٹوٹل چیرمین:     ۲۲۱        (۳۶ء۵۲فی صد)

اپوزیشن اتحاد (پی این پی اور جماعت اسلامی):  ۲۰۱        (۶۴ء۴۷فی صد)

ان انتخابات کے دوران ایک دل چسپ اور حوصلہ افزا بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف موجودہ بنگلہ دیش حکومت کے حد سے بڑھے ہوئے انتقامی وظالمانہ اقدامات کے باوجود جماعت کی حمایت میں کمی کے بجاے اضافہ ہو ا ہے۔ جماعت کو حسینہ واجد حکومت نے از حد غیراخلاقی وغیرقانونی حربے استعمال کرتے ہوئے خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اس کی ساری قیادت جیلوں میں بند ہے اور بیش تر راہ نماؤں کو سزاے موت سنا دی گئی ہے۔

جماعت کے راہنما جناب دلاورحسین سعیدی (سابق ممبرپارلیمنٹ) کے صاحبزادے مسعود سعیدی اپنے آبائی علاقے میں تحصیل کے چیرمین منتخب ہوچکے ہیں۔ مسعود سعیدی نے تحصیل ضیانگر کے انتخابات میں چیرمین کی نشست ۲۱ہزار۷۷ ووٹوں سے جیتی ہے۔ ان کے مدمقابل حکومتی اُمیدوار عبدالخالق غازی جو دوسرے نمبر پر تھے، صرف ۶۶۱۵ ووٹ حاصل کرسکے اور پھر پُرتشدد کارروائیوں پر اتر آئے۔ واضح رہے کہ مولانا دلاور حسین سعیدی بھی اس علاقے سے بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمانی انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ اس طرح کے کئی دیگر واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب عوامی لیگ نے قتل وغارت گری کا ایک نیا دور شروع کردیا ہے جس کا بڑا ہدف جماعت اسلامی اور چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ذمہ داران وکارکنان ہیں۔ اب تک کئی شہادتیں ہوچکی ہیں مگر عوامی لیگ سے نفرت بھی اسی تناست سے روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔

بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر، جماعت اسلامی کے   قائم مقام امیر جناب مقبول احمد اور قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے الگ الگ بیانات میں واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر عوام کی راے معلوم کرنے اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب اس غاصب حکومتی ٹولے کے خلاف بھرپور عوامی احتجاج کے ذریعے نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کئی تجزیہ نگار یہ لکھ رہے ہیں کہ عوامی لیگ ۲۰۱۹ء تک اپنے اقتدار کے دوران ون پارٹی رول کی فضا بنانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ وڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر واشنگٹن میں سابق امریکی سفیر ولیم بی میلام (William B. Milam) نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ دوعشروں میں بنگلہ دیش کی معیشت نے جو کچھ حاصل کیا ہے موجودہ حکمرانوں کی جمہوریت کش پالیسیوں کی وجہ سے اس کے تباہ وبرباد ہوجانے کا خدشہ اور امکان موجود ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبون ۸؍اپریل ۲۰۱۴ء)

مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ: ’’انھوں نے دعوت چھوڑ کر سیاست اپنا لی ہے‘‘۔ مغرب نے بھی اسلامی تحریکوں کے لیے ’سیاسی اسلام‘ کی اصطلاح گھڑرکھی ہے۔ اس کے بقول یہ اسلام کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے کارکن بھی عجیب ہیں، سنگین سیاسی بحران عروج پر ہے، خونیں فوجی انقلاب دن رات قتلِ عام کر رہا ہے، ۲۱ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں ہیں، نام نہاد عدالتیں آئے روز طویل قید کی سزائیں سنارہی ہیں لیکن مصر کی طالبات نے نئی مہم شروع کردی ہے۔ مہم کا عنوان ہے: صلاۃ الفجر بدایۃ النصر،’’نمازِ فجر آغازِ نصر‘‘۔

طالبات کے بقول: فرعون سیسی کے خلاف ہماری ساری تحریک اللہ کی خاطر ہے، اللہ کو منائے بغیر اس کی نصرت شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ طالبات ضد الانقلاب، نامی طالبات تحریک نے اپنی نئی مہم کے لیے مختلف اسٹکر، پٹیاں، پوسٹر اور پمفلٹ تیار کیے ہیں اور وہ فرداً فرداً تمام طالبات سے وعدہ لے رہی ہیں کہ نمازِ فجر کا خصوصی اہتمام کریں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقی نمازیں بدرجۂ اولیٰ ادا ہوں گی۔ اس مہم کی ایک ذمہ دار تسبیح السید کے بقول ہماری مہم توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہورہی ہے اور طالبات کے ذریعے ہمارا پیغام ان کے اہلِ خانہ تک بھی پہنچ رہا ہے۔

مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ایک سالہ اقتدار کے بعد ہی رخصت کرتے ہوئے، قابض خونیں جرنیلوں نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ مصری عوام کی اکثریت اس فوجی انقلاب کو مسترد کررہی ہے۔ گذشتہ تقریباً نوماہ میں کوئی ایک روز بھی ایسا نہیں گزرا جس میں انقلاب مخالف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ جنرل سیسی نے اپنے پیش رو مصری حکمرانوں کی طرح نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے ہرہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا ہے۔ لیکن ہرظلم اور ہرجبر عوامی تحریک کو مزید توانا کرنے کا ذریعہ ہی بن رہا ہے۔ سب تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ ۸ہزار کے قریب شہدا پیش کرکے بھی اخوان کیوں کر میدان میں کھڑے ہیں۔ صلاۃ الفجر بدایۃ النصر مہم اس حیرت و استفسار کا ایک واضح جواب ہے۔ یہی مہم نہیں، اخوان کی پوری تاریخ اور پوری تحریک ہی  اس تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام حسن البنا کی یہ ہدایت کہ ہمارا ایک روز بھی اللہ کی کتاب سے ملاقات کیے بغیر نہ گزرے، ہر کارکن نے مضبوطی سے پلے باندھ رکھی ہے۔ اخوان کے کارکنان نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ قرآن کریم کو دل کی نگاہوں سے پڑھتے اور عمل میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر یہی قرآن ہر ظلم کے مقابلے میں ان کی ڈھال بن جاتا اور انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔

گذشتہ تین سالہ عرصے میں اخوان کے بیانات، مضامین، مظاہروں اور اجتماعات میں ہرطرف یہی قرآنی رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ ازہر کے طلبہ کا یہ بیان ملاحظہ فرمایئے۔ ۲۲مارچ کو جاری ہونے والے بیان کا عنوان ہے: سَنُحَاجِجُکُمْ بکل ما اقترفتموہ فی دنیاکم واخراکم ’’ہم دنیا و آخرت میں تم سے تمھارے جرائم کا حساب لیں گے‘‘۔ یہ بیان جامعہ ازہر کے ۱۶طلبہ کو تین تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان طلبہ پر الزام تھا کہ انھوں نے جامعہ میں مظاہرہ کیا۔ طلبہ اپنا مذکورہ بالا بیان دے کر گھر نہیں بیٹھ گئے۔ یہ بیان بھی ایک نئے مظاہرے کے دوران دیا گیا۔ اس دوران جامعہ ازہر طلبہ یونین کے قائم مقام صدر (صدر گرفتار ہے) نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھے کہ:

اذا جار الامیر وحاجباہ

وقاضی الارض أسرف فی القضاء

فویل ثم ویل ثم ویل

لقاضی الارض من قاضی السماء

(جب حکمران اور اس کے مصاحب ظلم ڈھانے لگیں، اور دنیا کے جج بے انصافی پر اُتر آئیں، تو پھر دنیا کے ججوں کے لیے منصف ِ کائنات کی طرف سے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔)

۲۱ہزار سے زائد جو بے گناہ کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت جھیل رہے ہیں وہ بھی اسی عزم و یقین سے سرشار ہیں۔ ذرا اخوان کے رکن اسمبلی حمدی اسماعیل کو دیکھیے۔ وہ خود بھی گرفتار ہیں اور ان کا بیٹا ایک دوسری جیل میں پابند سلاسل ہے۔ حال ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کرلیاگیا اور رہائی کے لیے ۸۰لاکھ پائونڈ (تقریباً سوا ارب روپے) تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حمدی اسماعیل نے اسی دوران کسی طرح اپنا تحریری پیغام اہلِ خانہ کو بھجوایا ہے،   لکھتے ہیں: ’’عزیزرفیقۂ حیات! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دنیا ہی میں اس وعدے سے نواز رہا ہے کہ آخرت کی منزل بہت خوب ہوگی۔ پروردگار ہم بندوں پر خود ہم سے بھی زیادہ مہربان ہے وگرنہ وہ اپنے انبیاے کرام ؑ کو بھی آزمایشوں میں کیوں مبتلا کرتا۔ ذرا ان آیات کی تلاوت کر کے دیکھو: وَاذْکُرْ عَبْدَنَــآ اَیُّوبَم اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ…(صٓ ۳۸:۴۱-۴۹)۔ اب آپ بھی ارادوں کو مضبوط کرلیں اور جدوجہد مزید تیز کردیں تاکہ ہم اپنی آزمایش میں سرخرو ہوسکیں۔ یہ زندگی، اصل زندگی کا صرف ایک منظر ہے۔ اس میں ہمیں اپنی بہترین پونجی آخرت کے لیے پیش کرنا ہے۔ یقینا اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا،لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘۔

یہ کوئی اکلوتا خط یا اکلوتا اظہار نہیں، ہر کارکن اور ہر اسیر اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ایک اسیر کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے جو وہ اپنے معصوم بیٹے کے نام خط میں لکھ رہے ہیں: ’’جانِ پدر! ذرا سوچو اگر میں اس تحریک میں گرفتار نہ ہوتا اور خدانخواستہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوجاتا، یا کوئی بیماری مجھے آن لیتی، تو اس صورت میں بھی صبر ہی کرنا پڑتا۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرصورت اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی آخر ت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔ تمھیں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی نہ چُھوٹے۔ نماز باجماعت ادا ہو، اپنی والدہ کو خوش رکھیں اور اس آزمایش میں ان کے معاون بنیں۔ اصل مردانگی کردار واخلاق کا نام ہے۔ اگر اس کڑے وقت میں بہادری نہ دکھائی تو آخر کب اس کا موقع آئے گا۔ اللہ سے ہردم مدد طلب کرتے رہو اور کبھی کسی کمزوری کو قریب نہ پھٹکنے دو‘‘۔

ظلم و جبر کے مقابلے میں اخوان کی ثابت قدمی پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو ان کی قوت کا یہ اصل راز معلوم ہے، لیکن ہرفرعون کی طرح اقتدار کا نشہ انھیں بھی اس غلط فہمی کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ’’سب کو تہِ تیغ کردیں گے۔ میرا اقتدار ہی میری قوت رہے گا‘‘۔ اخوانی کارکنان کا موسوی کردار جب ان کی چالوں کو بودا ثابت کرتا ہے، تو ظلم و تشدد پاگل پن کی آخری حدیں جاچھوتا ہے۔ پہلے تو اخوان کو دہشت گرد اور غیرقانونی قرار دیا تھا، اب فلسطین کی تحریک حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ مصر کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ پر غصہ اُتارنے کی سعی لاحاصل میں تیزی آگئی ہے۔ ماہِ رواں کے دوران بھی غزہ کی حدود سے متصل کئی کلومیٹر کا علاقہ خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سر پرستوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پورے سرحدی علاقے کے رہایشی علاقوں کو بارود سے اُڑا کر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مصری انتظامیہ گذشتہ چند ماہ میں ۱۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کرچکی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی زندگی کی ڈور انھی سرنگوں سے بندھی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدالتی فرمان کے ذریعے مصر میں موجود حماس کے تمام ’اثاثہ جات‘ ضبط کرلینے کا اعلان کردیا گیا۔ حماس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سیسی انتظامیہ اب ذرا ان اثاثہ جات کا اعلان بھی کردے کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق وہاں ہمارے کوئی اثاثہ جات ہیں ہی نہیں‘‘۔ گویا کہ مصری فرمان کا اصل ہدف صہیونی ریاست کو خیرسگالی کا پیغام دینا ہی تھا۔

جنرل سیسی کے اقتدار کو استحکام و دوام بخشنے کے لیے ابتدائی ایام ہی سے ایک مہم یہ شروع کردی گئی تھی کہ اب اس مدارالمہام کو منصب ِصدارت بھی سنبھال لینا چاہیے۔ کئی بار تو ایسی فضا بنادی گئی کہ اعلانِ صدارت گویا اب چند روز کی بات ہے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر ابھی تک مصری عوام پر یہ احسانِ عظیم نہیں کیا جاسکا۔ مصری اور مغربی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان تجزیوں کا مشترک نکتہ یہی ہے کہ خود حکمران ٹولے میں بھی اس بارے میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے جنرل سیسی کو بھی وردی اُتارنا پڑے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے والے کو اپنے دائیں بائیں بیٹھے وردی والوں پر ابھی     یہ بھروسا نہیں کہ وردی اُترتے ہی وہ اس کا کام تمام نہیں کردیں گے۔ رہی سہی کسر ایک ’نامعلوم‘   فون کال کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔سرکار کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر موصولہ یہ کال کسی ’وحید‘ نامی شخص کی ہے۔ مصر کے ایک معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حلمی القاعود کے مطابق گذشتہ تقریباً چاربرس میں ’وحید‘ کی یہ چوتھی فون کال تھی۔ اس کا نمبر یا ٹھکانا کبھی معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پہلی کال حسنی مبارک کے خلاف عوامی جذبات عروج پر پہنچ جانے کے دوران آئی تھی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جمال مبارک اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔ دوسری کال صدر محمد مرسی کے انتخاب کے بعد تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مرسی کا اقتدار جلدختم ہوجائے گا۔ تیسری کال جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تھی جس میں دعویٰ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ چوتھی کال چند ہفتے قبل آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا اصل اقتدار اس وقت منظرعام پر موجود فوجی قیادت کے ہاتھ میں نہیں، خفیہ قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل سیسی اس قیادت کا مجرد ایک آلۂ کار ہے۔ ملک کا آیندہ صدر وہ نہیں بلکہ اسی خفیہ فوجی قیادت میں سے کوئی شخص ہوگا جس کا نام ابھی کسی کے سامنے نہیں ہے۔ اسی چوتھی کال میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر محمد مرسی کو جیل سے رہا کردیا جائے گا، لیکن پھر اغوا کرکے زندگی سے محروم کردیا جائے گا۔ ڈاکٹر حلمی قاعودکے مطابق: ’وحید‘ کوئی نام نہاد نجومی یا علمِ غیب رکھنے والا کردار نہیں بلکہ اسی ’اصل خفیہ قیادت‘ کا کوئی ’خفیہ ترجمان‘ ہے جو ان پیغامات کے ذریعے ایک تیر سے کئی کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔

اسی عرصے میں فوج کے سابق سربراہ فیلڈمارشل طنطاوی جو ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۲ء تک کے طویل ۲۱برس تک فوجی سربراہ اور وزیردفاع رہے، بھی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے ملک کی اکلوتی جمہوری منتخب حکومت سے نجات پانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔جنرل سیسی نے بھی اپنے اس پیش رو کی خوشامد نُما تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ ڈاکٹر حلمی کے مطابق جنرل طنطاوی نے اپنے انٹرویو میں تقریباً ۲۰مرتبہ ایک لفظ استعمال کیا اور وہ تھا: ’مُخَطَّطْ: منصوبہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۱۳ء کو عوام بھی یہ منصوبہ سمجھ گئے اور صدرمرسی کے خلاف نکل آئے۔ جنرل طنطاوی نے جب بار بار ’منصوبے‘ کا ذکر اور اخوان سے نجات پر خوشی ظاہر کی تو انٹرویو کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ ’’پھر آخر آپ لوگوں نے اخوان کو اقتدار دیا ہی کیوں؟‘‘ جواب میں انھوں نے    مصری لہجے میں بے اختیار تین بار کہا: ’’مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ، ’’میں نے انھیں اقتدار نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا‘‘۔ ہم نے عوام کے اصرارپر انتخابات کروائے اور عوام نے اخوان کو ملک پر قابض ہونے کا موقع دے دیا‘‘۔

ان تمام حقائق سے قرآن کریم کے الفاظ کے مصداق: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے‘‘،عوام کا یہ یقین مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ جابر فرعونی نظام سے نجات کے لیے قربانیوں کا یہی سفر ناگزیر ہے۔ اخوان کے کارکنان سیّدقطب شہیدؒ کے یہ الفاظ ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں کہ: ’’اللہ کی نصرت آنے میں دیر لگ سکتی ہے، کیونکہ قدرت یہ چاہتی ہے کہ باطل کا باطل ہونا دنیا کے سامنے کھل کر آجائے۔ اگر باطل پوری طرح کھوٹا ثابت ہوئے بغیر مغلوب ہوجائے، تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس سے پھر دھوکا کھاجائیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ باطل کو پوری مہلت ملے ،یہاں تک اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہہ نہ رہ جائے اور پھر اس کے زوال پر کسی کو کوئی افسوس نہ ہو‘‘۔

اخوان بھی یقینا انسان ہیں اور بلااستثنا ہر انسان قرآن کریم کی اطلاع کے مطابق کمزور بنایا گیا ہے، لیکن آزمایشوں کی بھٹی نے انھیں ایسا کندن بنادیا ہے کہ ہر عذاب و آزمایش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر اُبھرتے ہیں۔ گذشتہ تمام قتل و غارت سے شکستہ یا مایوس ہونے کے بجاے انھوں نے ۱۹مارچ سے تحریک کا مزید پُرجوش دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ مظاہرے تو پہلے بھی ایک دن کے لیے نہیں رُکے تھے، لیکن نئے مرحلے کے پہلے ہی روز ملک بھر میں ۳۵۰مظاہرے ہوئے۔ اس وقت فوجی انقلاب مخالف درجنوں تنظیمیں میدان میں ہیں۔ طلبہ، طالبات، خواتین، مزدور، ڈاکٹر، کسان، اساتذہ___ ہر میدان میں الگ تنظیم و تحریک ہے۔ سب ہی اپنے اپنے شہدا پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کے دوران ہی ایک۱۴سالہ بچے عمرو کی شہادت کی خبر بھی ملی ہے اور ایک صحافی خاتون کی بھی۔پھولوں جیسے معصوم عمرو کے والدین نے آنسو بہائے لیکن الحمدللہ کا ورد کرتے ہوئے یہی کہتے رہے: ’’لخت جگر چلا گیا… لیکن کچھ عرصے سے یقین ہوچلا تھا کہ اسے تو ضرور ہی شہادت ملے گی… کوئی جلوس یا مظاہرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عمرو کو اس کا پتا ہو  اور وہ مظاہرین اور زخمیوں کو پانی پلانے کے لیے اس میں نہ چلا گیا ہو‘‘۔

خاتون صحافی رقیہ اسلام جامعہ ازہر کے ایک بڑے عالم دین جناب ہاشم اسلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی کی طالبہ بھی تھیں۔ ہاشم اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے میری رقیہ کو نہیں، مجھے سزا دی ہے کیوں کہ مَیں نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا… اگر مجھے اپنے فتوے اور مبنی بردلیل راے کی قیمت بیٹی کی میت سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تو وہ بھی ہیچ تھی۔ البتہ غم اس بات کا ہے کہ جن علماے کرام نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دیا تھا، رب کے دربار میں وہ بھی میری بیٹی کے قتل میں برابر کے مجرم قرار پائے‘‘۔

عمر نامی ایک اور نوجوان بھی کئی ماہ قبل اسی تحریک کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ دائیں پہلو سے جسم میں داخل ہونے والی گولی بائیں پہلو سے نکلی تو تمام اندرونی نظام کو کاٹتے ہوئے چلی گئی۔ تب سے علاج جاری ہے، لیکن اُمیدیں بار بار دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی والدہ کا ایک تفصیلی انٹرویو فریڈم اینڈ جسٹس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ وہ ایک تاریخی جملہ یہ کہتی ہیں: ’’اگر بیٹے کو شہادت نصیب ہوگئی تو یہ میری خوش بختی ہوگی۔ میرے لیے غم کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا جس روز خدانخواستہ میرا بیٹا اللہ کی اطاعت کی راہ سے ہٹ گیا ہوتا‘‘۔

صلاۃ الفجر تحریک،  قرآن سے جڑے ہوئے، شہادت پر نازاں اخوان کو بھی اگر دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے، تو کیا ایسا کرنے والے رب کے حضور بھی کوئی جواز پیش کرسکیں گے…؟

کچھ عرصہ قبل علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا شریکِ سفر ہونے کا موقع ملا۔ دورانِ سفر عرض کیا کہ کوئی خاص نصیحت کیجیے۔ کہنے لگے: اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا جامع اور الہامی دعا ہے لیکن یہ دعا کئی حوالوں سے بہت اہم ہے کہ اللھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما، اے پروردگار! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ آیئے ہم بھی یہی دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دست دعا بلند کریں۔     

_______________________________________________________

              ٭ شمارہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ فرعونِ مصر نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ مصری عدالت نے دو روز کی ’طویل‘ سماعت کے بعد ۵۲۹ بے گناہ قیدیوں کو ’سزاے موت‘ کی سزا سنادی ہے۔ سزا یافتگان میں اخوان کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع، قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر ڈاکٹرسعدالکتاتنی، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ملک کی نام وَر سیاسی، علمی اور قومی شخصیات شامل ہیں۔

                یہ انوکھا فیصلہ اگرچہ ظلم و جبر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے لیکن ہرسننے والا انصاف پسند بلااختیارکہہ اُٹھتا ہے کہ یہ ظلم کی انتہا اور ظالموں کے خاتمے کا اعلان ہے، ان شاء اللہ!

گذشتہ تین برس سے شام خون آشام ہے۔ یہ خون آشامی آمر بشارالاسد کی ہرقیمت پر اقتدارسے چمٹے رہنے کی ہوس کا نتیجہ ہے۔امریکا ہو یا روس، شام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایک طاقت بشار کی حمایت کرتی ہے تو دوسری اپوزیشن کی۔ بھیڑیوں کی اس جنگ میں نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بجھنے میں نہیں آرہی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہیں۔

سنٹر فار ڈاکومنٹیشن فار وائی لیشنز (Centre for Documentation for Violations ) کے مطابق ۲۲جنوری ۲۰۱۴ء تک ۹۷ہزار۵سو۷، جب کہ سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک لاکھ۳۰ہزار ۴سو۳۳ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ عام شامی ہیں جو جاں بحق ہوئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان تین سالوں میں فوج اور پولیس کے ۳۲ہزار۱۳، پیراملٹری فورسز کے ۱۹ہزار۷سو۲۹ ؍ افراد خانہ جنگی کی نذر ہوئے۔ اسی طرح ریف دمشق میں ۲۲ہزار۸سو۹۷، الیپو میں ۱۶ہزار۵۴، حمص میں ۱۳ہزار۴سو۶۹، ادلب میں ۱۰ہزار۲۷، درعا میں ۸ہزار۳۴ اور دمشق میں ۷ہزارایک سو۳۷، حلب میں ۱۲ہزار۶سو۴۳، حماۃ میں ۵ہزار۷سو۵۵ لاشیں دفن کی جاچکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث بیرونِ ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۲لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اندرونِ ملک ہجرت کرنے اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۶۳لاکھ سے زائد ہے۔ بیرونِ ملک رجسٹرڈ شامی پناہ گزین مختلف ملکوں میں قائم کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔لبنان میں ۱۰لاکھ ، اُردن میں ۶لاکھ، ترکی میں۵لاکھ، عراق میں۲لاکھ، مصر میں ایک لاکھ اور کچھ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۳۰ہزار شامی گرفتار یا لاپتا ہیں۔

شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد یورپ میں بھی پناہ گزین ہے۔ نیوزویک نے یورپ منتقل ہونے والوں کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔یورپ کا رویہ پناہ گزینوں کے ساتھ بخل کا رہا ہے، اور اس نے انھیں پناہ دینے کے بجاے گریزکا رویہ اختیار کیا ہے۔تاہم، کچھ ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھوں نے آگے بڑھ کر تعاون کیا جن میں جرمنی سرفہرست ہے۔ جرمنی میں ۱۰ہزار سے زائد لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا زیادہ تر دبائو لبنان پر ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص سخت قحط کا سامنا ہے۔مصر کی فوجی حکومت کا رویہ بھی پناہ    نہ دینے کا رہا جس کے باعث پناہ گزینوں نے ادھر کم ہی رُخ کیا۔ اقوام متحدہ کی نومبر۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ سخت سردی، خوراک کی قلت، صحت کی سہولتوں سے محرومی کے باعث انتہائی کسمپرسی، مفلوک الحالی، غربت اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہیں جو اس کُل تعداد کے نصف سے زائد ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کیمپوں میں تعلیم کی وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں جو ہونی چاہییں، نیز یہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ویسے بھی کیمپوں میں کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں!

بشار نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ لاٹھی، گولی، آنسوگیس، گرفتاریاں، بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری کے ذریعے عام آبادیوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ پناہ گزینوں کے کیمپ بھی اس دست برد سے محفوظ نہ رہے۔ بشار حکومت کے وحشیانہ تشدد، انسانیت سوز مظالم سے قیدی بھی نہ بچے۔

قفقاز سنٹر کی ۲۱جنوری کی رپورٹ جسے ترک ایجنسی (Anadolu) نے جاری کیا ، کے مطابق ملٹری پولیس میں ۱۳سال تک کام کرنے والا اہل کار ’قیصر‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زیرحراست تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی دو سال تک تصاویر بناتا رہا۔ اس نے ۱۱ہزار لاشوں کی ۵۵ہزار تصاویر بنائیں۔ تعذیب خانوں سے لاشیں ملٹری ہسپتال لائی جاتیں، جہاں ہرلاش پر کوڈ لگایا جاتا اور فلیش ڈرائیو (flash drive) کے ذریعے ان تصاویر کو حکومتی ریکارڈ میں بھیج دیا جاتا۔ یہ تصاویر اُتارنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کو یقین دلایا جائے کہ زیرحراست ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا، بلکہ ہلاک کردیا گیا ہے، جب کہ لواحقین کو بتایا جاتا کہ قیدی دل کے دورے یا سانس کی تکلیف سے ہلاک ہوا ہے۔ دوسال تک قیصر یہ فوٹوگرافی کرتا رہا۔ دوسال کے بعد تنگ آکر  اس نے اپوزیشن سے رابطہ کیا اور بشار حکومت کا یہ ظلم دنیا کے سامنے آسکا۔

قیصر کے مطابق روزانہ ۵۰ کے لگ بھگ لاشیں آتیں۔ تصاویر سے ہونے والی عکاسی کے مطابق زیرحراست افراد بھوک، پیاس، وحشیانہ تشدد، گلا گھونٹنے،بجلی کے جھٹکوں اور لوہے اور  بجلی کے تاروں سے باندھنے سے ہلاک ہوئے۔ لندن کی ایک لیبارٹری نے ۲۶ہزار تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ تصاویر درست ہیں، ان میں کمپیوٹر کے ذریعے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن اس مسئلے کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہتی ہے۔

ایک جائزے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ۱۲لاکھ سے زائد گھر تباہی کا نشانہ بنے۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے، جابجا لاشوں کے ڈھیر اور ویرانی ملک کامقدر بن گئی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پناہ گزینوں کی حالت قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔  اقوام متحدہ کے مطابق ۶۸لاکھ افراد ہنوز امداد و تعاون کے منتظر ہیں، جب کہ اندرونِ ملک بھی ایک بڑی تعداد کو امداد درکار ہے۔ امریکا، یورپ اور عرب ممالک اربوں ڈالر امداد دے چکے ہیں لیکن یہ امداد اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔

۱۵جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا کے ۶۰ کے لگ بھگ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اقوام متحدہ نے شام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ ۳۰لاکھ شامی مہاجرین کے لیے ۵ء۶ ؍ارب ڈالر کی اپیل کی مگر اس میں صرف ۴ء۱؍ ارب ڈالر کے وعدے ہوئے،جب کہ ۵۰۰ ملین ڈالر صرف کویت نے دینے کا وعدہ کیا۔

دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے ایک مہاجرکیمپ ’یرموک‘کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ یہ کیمپ گذشتہ تین ماہ سے حکومتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ہرقسم کی اشیاے خوردونوش کیمپ میں جانے سے روکی جاتی ہیں ۔ کیمپ میں ایک لاکھ  کے لگ بھگ لوگ محصور ہیں۔ مسلسل محاصرے کے باعث اشیاے خوردونوش ختم ہوچکی ہیں۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بچے بھوک کے باعث بلکتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ مہاجر کیمپ کی مسجد کے امام و خطیب نے اس کیفیت میں حرام جانوروں کا گوشت کھانے کا فتویٰ دے دیا ہے۔

برطانیہ میں مقیم سرجن ڈاکٹر عمرجبار جنھوں نے ایک خیراتی ادارے ہینڈان ہینڈ میں شام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا اور کئی بار امدادی سرگرمیوں کے لیے شام گئے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میںتنازعے کے باعث ایک نسل تباہ ہوچکی ہے۔ آپ تصور کریں کہ اگر آپ کا بچہ تین سال سے سکول نہ گیا ہو اور آپ گھر سے باہر روزگار کے لیے نہ جاسکیں، تو کیا عالم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر سوچا جائے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بند ہونا چاہیے۔

شامی بحران پر جنوری میں ہونے والے جنیواٹو مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور اس لحاظ سے ناکام رہا کہ فریقین کو اس میں بنیادی مقصد طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔ انھی مذاکرات میں شام کی عبوری حکومت کا طریقۂ کار طے ہونا تھا۔ جنیواوَن کی طرح یہ مذاکرات بھی اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہوئے۔ جون ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے   جنیوا ون مذاکرات میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ۴۰ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی تھی جس میں عرب لیگ کے ۲۲ممالک بھی شریک تھے۔ جنیواٹو مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی شامی اپوزیشن کے وفد نے اس پر اعتراضات کر کے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے دبائو پر اپوزیشن نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور سوئٹزرلینڈ کے قصبے مونٹرو میں منعقد ہوا، جب کہ دوسرا دور تین دن بعد جنیوا میں منعقد ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ مذاکرات کو اس وقت سخت نقصان پہنچا جب اقوام متحدہ نے ایران کو دعوت دے کر واپس لے لی۔ ایران کو مذاکرات کی دعوت دے کر واپس لینے کی وجہ مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران بشارالاسد کا زبردست حامی ہے۔ اس وجہ سے وہ مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ ایران جنیوا وَن مذاکرات کے عبوری حکومت کے فیصلے کا مخالف تھا۔ اس موقع پر شامی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے براے شام لحذر براہیمی نے بشارحکومت کو جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے کہا: ’’شامی حکومت ملک میں خانہ جنگی ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔

شام کی صورت حال خوف ناک اور الم ناک ہے۔ تین سال کی خونریزی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کوئی فریق اتنا طاقت ور نہیں رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور دوسرے کو شکست دے سکے۔ عالمی طاقتیں دل چسپی لیتیں تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا لیکن عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور اُمت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، غیروں کے لیے ترنوالہ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔

بشار نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جس سے وہ اپنے طاقت ور عالمی حلیف روس کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کرپایا۔ اسی طرح ایران اور حزب اللہ کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور عسکری تائید حاصل کی، جس نے اسے مشرق وسطیٰ پر پڑنے والے دبائوسے بچایا اور وہ انتہائی   بے دردی سے اپنے شہریوں پر قوت استعمال کرپایا۔ ترک صدر عبداللہ گل نے انتباہ کیا ہے کہ    اگر عالمی برادر ی نے شام میں خانہ جنگی رکوانے کی کوشش نہ کی تو شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان   بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق شام کو پُرآشوب رکھنا مغربی منصوبے کا حصہ ہے۔مسلم دنیا اور مسلم حکمرانوں کا کردار افسوس ناک رہا ہے اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔    اسلامی تحریکوں نے اُمت کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آواز ضرور بلند کی ہے لیکن یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔

شامی مہاجرین کی مظلومی و بے بسی اور بے چارگی کو اُجاگر کرنے اور ان کی امداد کے لیے معروف صحافی اور نومسلم مریم ریڈلے نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شام کو آج ہمارے آنسوئوں کی نہیں ہمارے مال اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مظلوموں کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں!

مضمون نگار سے رابطے کے لیے: www.ghazinaama.com.pk

امریکی جریدے فارن پالیسی کی ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کی رپورٹWhy is Saudi Arabia buying 15,000 US Anti-Tank missiles for a war it will never fight?  (سعودی عرب ۱۵ہزار امریکی اینٹی ٹینک میزائل ایک ایسی جنگ کے لیے کیوں خرید رہا ہے جو کبھی نہ لڑی جائے گی؟)کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے مابین جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑے سودے پر بات چیت جاری ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکا سے انتہائی جدید ترین ۱۵ہزار ریتھون اینٹی ٹینک میزائل خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کی مالیت ایک ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

بین الاقوامی دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ادارے International Institute of Stratagic Studiesکی رپورٹ Military Balance 2014کے مطابق سعودی عرب کے پاس پہلے ہی یہ میزائل ۴ہزار کی تعداد میں موجود ہیںجو کہ ۲۰۰۹ء میں کیے گئے سودے کے نتیجے میں سعودی عرب کو حاصل ہوئے تھے۔اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ بالآخر وہ کون سی ایسی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو مزید ۱۵ہزار اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر مجبور کر رہی ہے؟   یہ یقینا بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

سویڈن میں قائم ایک معتبر ادارہStockholm International Peace Research Institute (SIPRI)جو گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی اخراجات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ Trends in World's Military Expenditure 2012 کے مطابق دنیا کے ۱۵بڑے دفاعی اخراجات کے حامل ممالک میں سعودی عرب اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اسی ادارے کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ۲۰۱۱ء میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب کے دفاعی اخراجات کی مد میں ۲۰۱۱ء کی نسبت۱۲ فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ سعودی عرب کے کل جی ڈی پی کا ۹ء۸ فی صد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء سعودی عرب کے دفاعی بجٹ میں کُل۱۱۱فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا اپنے جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا میں دفاعی اخراجات کی مد میں بجٹ خرچ کرنے والاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں اس کے دفاعی اخراجات کا بجٹ ۷ء۵۶ ارب امریکی ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

سعودی عرب کے بعد دوسرا عرب ملک جس کے دفاعی اخراجات میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ ریاست عمان ہے۔عرب ریاست عمان جس کی کل آبادی تقریباً ۴۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور مالی لحاظ سے بھی دیگر امیر ریاستوں کی بہ نسبت کمزور ہے، اب وہ دوسری بڑی ریاست بن چکی ہے جو کہ سعودی عرب کے بعد اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔SIPRI ہی کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے دفاعی اخراجات میں ڈرامائی اضافہ کرتے ہوئے سال ۲۰۱۱ء کی نسبت اچانک ۵۱ فی صد اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمان نے اپنے حالیہ ۲۰۱۳ء کے بجٹ میں دفاع کی مد میں ۵۴ء۳۳ ارب امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو کہ سال ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۵ء۷ ارب امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ SIPRIکی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے کُل جی ڈی پی کا ۵ء۸ فی صد دفاع پر خرچ کیا ۔

اسلحے کی اس دوڑ میں تیسری عرب ریاست کویت ہے۔SIPRIکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے بھی ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء کے دفاعی اخراجات میں ۱۰فی صد اضافہ کیا ہے، جب کہ SIPRI ہی کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے سال ۲۰۱۱ء میں دفاع کی مد میں کُل ۵۶۴۰ملین امریکی ڈالر خرچ کیے۔دیگر عرب ریاستیں جن میں بحرین اور قطر شامل ہیں نے بھی سال ۲۰۱۲ء میں اپنے دفاعی اخراجات کی مد میں مسلسل اضافہ کیاہے ۔

عرب ریاستیں کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ آگے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کی دفاعی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہتھیار اور ان کے فاضل پُرزے مسلسل مغربی ممالک سے حاصل کیے جارہے ہیں، جو ان کی دفاعی صنعت کی تقویت کا باعث ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس وقت دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے  ڈیلر امریکا کی بہترین گاہک ہیں اور مشرقِ وسطیٰ مغربی ممالک کے اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔۲۰۱۰ء میں SIPRI کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ Military Spending and Arms Procurment 2010کے مطابق ان تمام تر دفاعی سودوں میں سب سے زیادہ فائدہ بالترتیب امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اٹھایا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عرب ریاستوں کے ہر۱۰۰ میں سے ۷۰ سودے امریکی اسلحہ ساز اداروں سے ہی ہوتے ہیں۔   جس کے نتیجے میں ہر سال عرب ریاستوں کے کئی سو ارب امریکی ڈالرامریکا کے اسلحہ ساز اداروں کے اکائونٹس میں چلے جاتے ہیں۔اب اگر ان بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے مقابلے میں عرب ریاستوں کو لاحق بیرونی خطرات کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی پریشان کن سوالات جنم لیتے ہیں۔

ماضی کی باہمی جنگوں کے تناظر میںعرب ریاستوں کے لیے ایک بڑا خطرہ عراق ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکا کے ہاتھوں عراق کی تباہی و بربادی کے بعد اب وہ خطرہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ایران اور روس کی پشت پناہی کے نتیجے میں شام جو کہ خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی بڑی فوجی قوت تھا اس وقت داخلی انتشار و تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اب وہ کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔باوجود اس کے کہ ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف ایک ہوّے کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن ایران، جو دو دہائیوں کی سخت پابندیوں اور تنہائی کے بعد ایک دفعہ پھر عالمی برادری میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے کی طرف جا رہا ہے، کا بھی فوری طور پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب مشکل ہے۔ رہا اسرائیل کا خطرہ___ جو اصل خطرہ ہے، اس سے ان تمام ہی ممالک کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یہ سب اسرائیل سے کھلے یا خفیہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں کہ خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین اجتماع میں سکائپ (بذریعہ انٹرنیٹ) کے ذریعے خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرکت کی ہے جس پر امریکی تجزیہ نگار بھی تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ خصوصیت سے بین الاقوامی نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار فریڈمین کا مضمون چشم کشا ہے۔ لہٰذا اس مختصر جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ریاستوں کو فی الحال کسی سنگین اور فوری نوعیت کے بیرونی خطرے کی پیش بندی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روزبروز بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کیوں؟

مشرق وسطیٰ سے جاری ہونے والے انگریزی اخبار (الاخبار)کے تجزیہ نگار Raymond Barrett کے مضمون New Trends in Arab Defence Spendings (عرب دفاعی اخراجات میں نئے رجحانات) کے مطابق عرب ریاستیں جیسا کہ بحرین ، کویت اور سعودی عرب اس وقت گذشتہ عرب بہار کے خوف سے خارجی سے زیادہ اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، Raymond Barrettکا یہ تجزیہ کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ عرب ریاستوں خصوصاً بحرین ، کویت اور سعودی عرب کی جانب سے الیکٹرانک سرویلنس اوردیگر جاسوسی کے آلات کی خریداری اور سوشل میڈیا اور موبائل فون پر سخت نگرانی کے نظام کا حصول اُن کے اِس داخلی سلامتی کے حوالے سے خوف کی غمازی کرتا ہے۔طویل اور جابرانہ آمریت کے بعد مصر اور تیونس میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد سے دیگر عرب ریاستوں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور موبائل فونز کی نگرانی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی عرب ریاستوں کے اسی داخلی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش کی غمازہیں۔

ماضی میں شام کی طرف سے روس اورچین سے اسرائیل کے نام پر خریدے گئے ہتھیار بھی بشار الا سد اپنے ہی ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ جن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے، جو کہ سنگین جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال عرب ملک مصر کی ہے۔ جہاں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے فوجی آمر کی طرف سے اپنے ہی عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کو کچلنے کے لیے بے دریغ گن شپ ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔لہٰذا جو بجٹ عرب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا وہی اب ان کے جمہوری حقوق کی پامالی کے لیے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر استعمال ہو رہا ہے۔

ایک طرف اسلحے کی خریداری کی یہ ریل پیل ہے اور دوسری طرف ان ممالک اور دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ Prespectives on Youth Employment in Arab World 2012 جو کے ورلڈ اکنامک فورم کے تحت شائع کی گئی کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پوری دنیا میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جہاں  نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۲۵ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کے عراق پر قبضے اور شامی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کا مسئلہ ایک انسانی بحران کی کیفیت اختیار کرچکا ہے اوراس حوالے سے دسمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدا د کی اپیل جاری کی ہے۔

بچوں میں پولیو وائرس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ایک بار پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ لیکن عرب ریاستیں ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے اغماض برت رہی ہیں اور جو بجٹ عوام کی فلاح و بہبود ،تعمیر و ترقی ،تعلیم و صحت اور دیگر اس جیسی شہری سہولیات پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اب غیر ضروری اور محض تصوراتی خوف پر مبنی دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ منجملہ دیگر اُمور امریکا کی War on Terrorکے نام سے پوری دنیا میں پھیلائی ہوئی دہشت ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکا سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ہی عوام کی جاسوسی اور نگرانی جیسے جنون کی وجہ سے عوامی فلاح کابجٹ سیاسی مفادات کے لیے ضائع ہو رہا ہے۔ اور اس کا اصل فائدہ مغربی ممالک اور خصوصیت سے ان کے ہتھیار بنانے والے ادارے اُٹھارہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مسلم دنیا اپنی ترجیحات کاازخود تعین کرتے ہوئے، مغربی پروپیگنڈے سے باہر نکل کر انھیں ازسرِنو مرتب کرے اوراپنے عوام کو جائز شہری وسیاسی حقوق، جمہوری روایات اور تعلیم و صحت جیسی فلاحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو صرف کرے، تاکہ آج کی مسلم دنیا بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)

افغانستان میں وہ کون سی ایسی کشش یا اس کی طلسماتی سحرانگیزی تھی کہ دنیا کی تین بڑی سوپرپاورز کو اپنی طرف کھینچا اور وہ اپنے مستقبل کے انجام سے بے خبر اس خطے میں داخل ہوگئیں اور بالآخر اِن کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاریخ کا بھی یہ حیرت انگیزباب ہے کہ ہرسوپرپاور کی شکست نے جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں، اُن کی حیثیت مضمحل ہوگئی اور اپنے دائرے میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں سابق سوویت یونین کی شکست نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا وجود ہی مٹ کر رہ گیا۔ سوویت یونین کو شکست ہوسکتی ہے؟ اس پر قوم پرست اور بائیں بازو کے دانش ور اور سیاست دانوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔ اس کا اندازہ بھارت کے ممتاز صحافی راجیندرا سرین (Rajendra Sareen) کی کتاب Pakistan - The Indian Factor کے مطالعے سے ہوسکتا ہے۔ ان کے خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتے تھے لیکن وقت اور تاریخ نے کچھ اور فیصلہ کیا۔

 جب امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو سیکولر اور بایاں بازو امریکا کے سایے میں کھڑا ہوگیا اور ان کی سو چ اور تجزیہ بھی ایسا ہی تھا کہ امریکا کو کون شکست دے سکتا ہے، لیکن آج امریکا ۱۱سال کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانستان سے ناکام اور نامراد لوٹ رہا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا صورت حال ہوگی؟ پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جنوبی ایشیا کس طرح اور کن کن پہلوئوں سے اثرانداز ہوگا؟ کشمیر میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ ایران اور افغانستان کے تعلقات کس سمت میں سفر کریں گے؟ بین الاقوامی طور پر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ کیا جغرافیائی تبدیلی رُونما ہوگی؟ اور ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خود افغانستان پر اس کے اثرات کس طرح پڑیں گے؟ان سب پر تفصیل سے تجزیے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں دسمبر۲۰۱۴ء قریب آتا جائے گاطالبان کے حملوں میں شدت آتی جائے گی۔ جنگ کی طوالت نے امریکی عوام میں مایوسی کو تیزی سے پروان چڑھایا ہے۔ امریکا کے ۷۰ فی صد عوام فوج کی واپسی چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون طالبان کے حوالے سے شائع ہوا۔ اس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ طالبان کے حوصلے اس تصور ہی سے بلند ہوگئے ہیں کہ اب امریکا افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ افغان فوج  اس قابل نہیں کہ اسے پورے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا طالبان بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

امریکا نے افغانستان کے حوالے سے جو اہداف طے کیے تھے اس میں اسے مکمل ناکامی کا سامنا ہے، اور اس سے امریکی عوام اور اتحادیوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا کے   سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں امریکا کو بعض اہم مشورے دیے ہیں اور  بعض اقدامات تجویز کیے ہیں۔ لیکن ہنری کسنجر کو سب سے زیادہ تشویش اور خوف اس بات کا ہے کہ امریکا ایک فاتح کے بجاے شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے لوٹے۔

ہنری کسنجر اپنے مضمون میں اس طرف یوں نشان دہی کرتے ہیں: ’’اگر امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلدی کی اور دانش مندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سوپرپاور شکست کھاگئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہادازم کو فروغ ملے گا ۔ مسلم عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں اور بھارتی سرزمین پر تیزی سے اقدامات کی تحریک ملے گی۔ ایسی حالت میں افغانستان میں نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ برسرِاقتدار آگئے تو کئی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ روس میں چیچنیا کا علاقہ، چین میں سنکیانگ کا صوبہ عسکریت پسندوں کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایران میں سُنّی عسکریت پسند مستحکم ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایران جواب میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو ملیشیا کی سطح پر مدد فراہم کرسکتا ہے، جیساکہ اس نے لبنان اور عراق میں کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہوگیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے امریکا کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پاس افغانستان سے نکلنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ان کے اور ہمارے مفادات میں ہم آہنگی نہ پائی گئی تو افغانستان کو اِن کے معاملے میں دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر افغانستان میں استحکام کا اہتمام نہ کیا گیا تو امریکا سے زیادہ پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے، اور اگر امریکا نے نکلنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانا ہوگی۔ وہ یہ کہ انخلا حتمی ہو، یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔(نیوزویک، پاکستان اڈیشن،۳ جون، ۲۰۱۱ء)

امریکا کے سامنے اب بنیادی کام یہ ہے کہ کسی بڑے قضیے کو روکتے ہوئے کسی طرح افغانستان سے نکلا جائے اور جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہنری کسنجر اپنے تجزیے میں بعض اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات بارآور ہونے چاہییں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر افغانستان کو متحارب گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔(ایضاً)

امریکا کی پوری کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے تک پہنچا جائے۔ لویہ جرگہ کو مُلّاعمر اور حکمت یار نے مسترد کردیا ہے اور صدرکرزئی کچھ شرائط کے ساتھ بالآخر دستخط پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ کیا شرائط ہوں گی؟ ابھی پردۂ راز میں ہیں۔ وقت تیزی سے امریکا کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ۱۱سال لمحوں میں گزر گئے تو ۱۱مہینے ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر جائیں گے۔

امریکا ایک شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت ۳۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ موجود ہے اور امریکا ۲۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ نیلام کرنا چاہتا ہے، جب کہ باقی ۱۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے اور کچھ حصہ افغانستان کو دینا چاہتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تیزی سے جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے کرنل اینڈریو رالنگ نے چھے ماہ میں ۳ہزار سے زائد اسلحے کے کنٹینر امریکا روانہ کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد ۵۰ہزار ہے۔ گولہ بارود اور دیگر سازوسامان کو بھیجنے میں امریکا کو ۵؍ارب ۷۰کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ وہ بہت کم سازوسامان فوجیوں کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ کرنل  اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۳۳ویں ایربورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ ان کے سامنے چھے میٹر طویل کنٹینروں کا ایک سمندر موجود ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کے پاس  اب صرف ۱۱مہینے بچے ہیں۔ اس عرصے میں ان سب کو نکالنا ایک دشوار ترین کام ہے۔

اربوں ڈالر کی مالیت کا اسلحہ بارود اور دیگر سامان افغانستان میں بکھرا پڑا ہے۔ نہ سب کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ سب ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ اسلحے سے بھرے کنٹینر سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں قیمتی سامان موجود ہے۔ اسلحے سے بھرے کئی کنٹینر غائب بھی ہوگئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں باگرام ایئربیس میں امریکا کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ایئربیس بھی ہیں۔ چھوٹے اڈوں سے اسلحہ اور سازوسامان واپسی کے لیے یہاں پہنچایا جاتا ہے اور چھانٹی کی جاتی ہے۔ سول کنٹریکٹر دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کون سا سامان تلف کرنا ہے۔ یہ سب کام تیزی سے ہورہا ہے اور مزدور دن رات کام میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے ۴۵۵ بریگیڈ کو فوجیوں کو امریکا بھجوانے کا کام سونپا گیا ہے۔ فوج کا یہ یونٹ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ٹن سامان امریکا بھجواتا ہے۔ ۴x۴ فٹ کے ککرباکس میں ۳لاکھ ڈالر کی اشیا موجود ہوتی ہیں اور ہرہفتے ۳۰۰ کنٹینر جارہے ہیں۔ امریکا کے ایک لاکھ فوجیوں کا انخلا دسمبر۲۰۱۴ء تک مکمل ہونا ہے۔ امریکا ۱۱سال تک اسلحہ اور سامان افغانستان پہنچاتا رہا ہے۔ یہ اب ایک ڈھیر کی صورت میں وہاں موجود ہے۔ افغانستان سے ترسیل آسان کام نہیں ہے۔( ٹائم میگزین،۸مارچ ۲۰۱۳ء)

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ بھرے ہوئے کنٹینر واپسی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اب ان کا سلسلہ بلوچستان کے راستے شروع ہوچکا ہے۔ قندھار سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے براستہ خضدار کراچی جارہا ہے۔ صوبہ کے پی کے میں دھرنے سے واپسی متاثر ہوئی ہے۔   اگر وہ راستہ نہ کھلا تو سامان کی واپسی میں مزید تاخیر ہوگی اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔

امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا ہے اس کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑرہے ہیں۔ امریکی صدر جارج بش نے ۲۰۰۳ء میں کہا  تھا کہ امریکا کو دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر ۵۰ سے ۶۰؍ ارب ڈالر اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ ۲۰۱۱ء میں برائون یونی ورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے اعداد وشمار پیش کیے کہ عراق اور افغانستان میں جنگوں پر تقریباً ۴۴۰۰؍ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان میں تعمیرنو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہرمعاشیات جوزف اسٹگلر کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں ۲۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں اور امریکا پر ۲۰۱۲ء تک ۱۶ہزار ارب ڈالر سے زائد قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور امریکا میں ۲کروڑ ۲۵لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔  (Was it Worth It, Afghanistan 11 Years Later، گلوبل ریسرچ، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)

امریکا کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ ہے۔ اس کو افغانستان کی جنگ میں کتنا نقصان اُٹھانا پڑا؟ اس کے نقصانات کے اعدادوشمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ برطانیہ کے فوجیوں کو ۲۰۰۶ء میں ہلمند میں تعینات کیا گیا۔ ہلمند کی کُل آبادی ۱۵لاکھ ہے۔ ایک تازہ کتاب میں جنگ کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی حکومت کے مجموعی اخراجات کم و بیش ۴۰؍ارب پونڈ ہوں گے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق قومی خزانے سے افغانستان کی جنگی کارروائیوں کے لیے مختص رقم ۲۵؍ارب پونڈ سے زیادہ ہوگئی ہے۔(دی گارڈین، ۳۰ مئی ۲۰۱۳ء)

یہ اعداد و شمار ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء کے ہیں۔ ۲۰۱۴ء شروع ہوگیا ہے۔ ہلاکتوں اور اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جوں جوں امریکا اور ناٹو تیزی سے اپنے سازوسامان اور فوجیوں کو واپس لے جارہے ہیں اور طالبان کے حملوں میں بھی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر ۲۰ویں صدی میں برطانیہ اور سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ۲۱ویں صدی امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست دیکھے گی۔ افغانستان میں دونوں عالمی سامراجی سوپرپاور جنگ کے مابعد اثرات سے نہیں بچ سکی ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی کیسے بچ سکتے ہیں۔ امریکا کے مضمحل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور یہ منظر بھی دنیا دیکھے گی کہ جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں کس طرح سے رُونما ہوں گی۔

تیونس میں دستور سازی کا مشکل مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ اتوار ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو رات گئے قومی اسمبلی میں اس پر راے شماری ہوئی اور ۱۲کے مقابلے میں۲۰۰؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دے کر حتمی منظوری دے دی ۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہر طرف سے تیونس کے انقلاب ِ یاسمین کی کامیابی پر نہ صرف سوالات اٹھائے جا رہے تھے، بلکہ ملک دشمن عناصر مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے حالات کو وہی رخ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔کبھی امن وامان کا مسئلہ کھڑا کرکے اور کبھی دستور سازی کے عمل کو مشکوک قرار دے کرتیونس حکومت سے دست برداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، تیونس کی لیڈرشپ نے بروقت اورحکیمانہ اقدامات کرکے حالات پر قابو پالیااور تین سال کی کش مکش کے بعد ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔  اس ساری مدت میںاندرون اور بیرون ملک سے جلتی پر تیل کاکام کرنے والے مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ اقتصادی ناکامی کا ڈراما رچایا گیا، انسانی حقوق کا واویلا مچایا گیا، ملک میں تخریبی کارروائیاںکی گئیںاور آخر میں دو اپوزیشن لیڈروں کو قتل کروایا گیا، تاکہ ان واقعات کی آڑ لے کر منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے اور آزادی و جمہوریت کے سفرکو آغاز ہی میں ناکام بنایا جائے۔

۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کونصف صدی سے جاری آمریت سے نجات حاصل ہوئی تو ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں عوام نے اسلامی تحریک پر اعتماد کیا اور ۲۱۷کے ایوان میں ۹۰ پر اسے کامیابی ملی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ۳۰ نشستوں اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو صرف ۲۱نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔تحریکِ نہضت چاہتی تو تنہا ہی حکومت بنالیتی لیکن     اس نے ملکی وحدت اورقومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بائیں بازو کی معتدل جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ کو صدارت، اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ’التکتل‘ کوا سپیکر شپ کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کی اور خود وزارت عظمیٰ پر اکتفا کیا۔

حکومت کی یہ کامیابی اندرون و بیرون ملک اسلام دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ سیکولر لابی نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر واویلا شروع کیا کہ تحریکِ نہضت ملک میں خلافت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے اور ہرطرف اسلام کے سخت قوانین کو بالجبر نافذ کیا جائے گا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شور مچایا کہ تحریکِ نہضت کی کامیابی سے مذہبی آزادی اور حقوقِ نسواں کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا۔ زین العابدین کی باقیات اور ان کے زیر اثر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا کہ اسلام پسند ملک کو تاریک اندھیروںمیں ڈبونے جارہے ہیں۔بڑے سرمایہ داروں نے معیشت کی تباہی کی دہائی دی اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔یہ اور اس طرح کے دیگر نعروں سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔

ایک کروڑ ۱۰ لاکھ کی مجموعی آبادی میں ۷لاکھ بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنا انقلاب کے بنیادی مقاصد اور مطالبات میں شامل تھا۔ ایک بالکل نئی حکومت کے لیے چند دنوں یا مہینوں میںیہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ بھی ایسے وقت میںجب بن علی اور اس کا خاندان سرکاری خزانے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کر گئے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے اس مسئلے کوخوب اُچھالا اور اعلان کیا کہ حکومت انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 ذرائع ابلاغ جن کی اکثریت دین بے زارسرمایہ دار وںاورمفرور صدر بن علی کے قریب ترین افراد کی ملکیت ہے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔گذشتہ دو سال کی قلیل مدت میں ۲۰نئے اخبار،چھے ٹی وی اور سات ریڈیو چینل وجود میں آئے اور روزِ اول سے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کردیا۔ اس ساری کارروائی میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جنھیں عوام نے انتخابات میں بُری طرح مسترد کردیا تھا۔ ان سب کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت کو تحلیل کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔

۲۰۱۳ء انقلابِ یاسمین کے لیے آزمایشوں سے بھر پور سال رہا۔حکومت کی برطرفی اور نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ کامیاب نہ ہوا تومخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ملک میں  قتل وغارت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست مزید تیز کردی گئی۔اپوزیشن کے ایک رہنما شکری بلعید کو  قتل کرکے حکومت کو اس کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ چنانچہ پُر تشدد مظاہروںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی برطرفی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر زور پکڑ گیا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے پاؤں بھی لرزنا شروع ہوگئے اوردستور سازی کا عمل رک گیا۔ ایسے میں تحریک نہضت نے تاریخ کی انوکھی قربانی دی اورپارلیمنٹ میںسب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سمیت کئی    اہم وزارتوں سے دست برداری کا اعلان کیا اور حکومت ایک غیرجانب دار فردکے حوالے کردی۔

حالات نسبتاً معمول پر آئے تو دستور سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ حکومت جلد سے جلد ملک کو ایک نیا آئین دے کر عام انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن سازشوں کے تانے بانے بُننے والے اپنے مذموم مقاصد سے بازنہ آئے ۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اور اپوزیشن رہنما محمد البراہیمی کو   قتل کردیا گیا۔ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا نے ایک دفعہ پھر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ امن وامان کی صورت حال بگڑ گئی اور حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطابہ زور پکڑ گیا۔

یہی دن تھے جب مصر میں جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کردیاگیا۔ تیونس کے ناکام سیاست دان یہاں اسی تجربے کو دہرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حکومتی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔  تحریکِ نہضت نے پارلیمنٹ کی بھر پور تائید کے باوجود ایک دفعہ پھر کمالِ حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور باقی تمام وزارتیںبھی چھوڑدیں۔ملک میں غیر جانب دار ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لیے مہدی جمعہ کو وزارتِ عظمی کا قلم دان سونپ دیا۔یوں مخالفین کے منہ بند ہوئے اور سازشی عناصر کواپنے مذموم ارادوںمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی نے دستور سازی کا عمل جاری رکھااور آخر کارجنوری ۲۰۱۴ء میںیہ صبر آزما مرحلہ مکمل ہوگیا۔

جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء کو قومی اسمبلی نے نئے دستورپر شق وارتفصیلی بحث کی جس کے بعدارکان اسمبلی نے اس کی بنیادی منظوری دے دی۔ ۲۶ جنوری کو حتمی منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا گیااورصرف ۱۲؍ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔یہ ۱۹۵۹ء کے بعد ملک کا پہلا جمہوری آئین ہے۔

نئے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین، عربی کواس کی زبان اور جمہوریت کو اس کا نظام قرار دیاگیا ہے، جب کہ شہریوںکو بشمول مذہبی آزادی، ہر قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ۔نئے دستور کی رو سے فوج کے کردار کو واضح طور پر متعین کیا گیا ہے جو ملکی دفاع ،قانون کی پاس داری اور سیاست سے مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے پر مبنی ہے۔موجودہ حالات میں یہ ایک متوازن دستور ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک سیکولر آئین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس میںقانون کو شریعت کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ تیونس کی ۶۰ سالہ تاریخ اور اس سے پہلے ۷۵ سالہ استعماری دور سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سر پر اسکارف لینے والی خاتون کے کسی بھی سرکاری دفتر، کالج اور یونی ورسٹی میںداخلے پر پابندی ہواور جہاں نوجوان مسجد میں نماز پڑھیں تو انھیں غائب کر دیا جائے، جہاں پر داڑھی رکھنا معیوب ہی نہیں جرم سمجھا جاتا ہواور جہاں اسلام پسندی کی سزا کال کوٹھریاں ہوں اور جہاں ۶۰ سال سے قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہو، وہاں آزادی کے پہلے مرحلے میں     اس سے مناسب اور متواز ن آئین لانا شاید سر دست ممکن ہی نہ ہو۔

اس تاریخی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے مشاورت کر رہی ہے جو ملک میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت تمام تر چیلنجوں کے باوجود اس مرحلے کو بھی طے کر لے گی۔

بیرونی اور اندرونی سازشیںمسلسل جاری رہیں۔مختلف حربے استعمال کیے گئے، کئی ایک دینی جماعتوں کو بھی استعمال کیا گیا، متشدد گروہوں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کی کئی ایک کارروائیاں بھی کر ڈالیں،لیکن اسلامی تحریک ثابت قدم رہی اور دُوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر یہ سارے مراحل طے کر لیے۔ اس پورے عرصے میں فوج غیر جانب دار رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک میں کامیابی کا یہ سفر کہاں تک جاری رہتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:

میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔  اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔

یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:

وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن   ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز     نے  ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:

بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ  بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔

وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت   یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے   کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ ایک انتہائی ادھورا اور آمرانہ دستور ہے جس پر ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ء کو جعلی ریفرنڈم کروا کے عوام کے گلے ڈال دیا جائے گا۔ دستور کسی بھی ریاستی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مصر کا مجوزہ دستور یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جو اسمبلی قانون سازی کرے گی وہ کیسے منتخب ہوگی، کب منتخب ہوگی؟ وزیراعظم کیسے اور کب منتخب ہوگا؟ ملک کے معروف اور بزرگ قانون دان ڈاکٹر طارق البشری، جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے کے بقول: ’’یہ اس بچے کا نکاح پڑھا یا جارہا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ حکومتی پراپیگنڈا اسی غیر مولود دستور کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے۔

 صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں مصر کو پہلا جمہوری دستور نصیب ہوا تھا۔ ۶۱سالہ فوجی آمریت اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے زیرسایہ بادشاہت خود ہی قانون بھی تھی اور دستور بھی۔ صدر مرسی کے دور میں ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ سے ۱۰۰ رکنی دستور ساز کونسل منتخب کی گئی۔ مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی، اسلامی ہی نہیں سیکولر ماہرین قانون بھی اس کونسل کا حصہ تھے۔ طویل مشاورت اور ایک ایک شق کی کئی کئی بار خواندگی کے بعد اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدا میں اس پر کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی بالآخر اس میں بھرپور حصہ لیا۔ مکمل طور پر شفاف ووٹنگ میں ۶۷ فی صد  ووٹ ڈالے گئے۔ ۶۴ فی صد عوام نے ہاں کہا اور ملک کو ایسا دستور مل گیا، جسے عوام کے حقیقی نمایندوں نے تیار کیا تھا۔ یہ پہلا دستور تھا جس کے بنوانے والے صدر نے اپنے اختیارات میں اضافہ نہیں کمی کی تھی۔ خود کو پارلیمنٹ ہی کا نہیں وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں کا بھی پابند بنایا تھا، تاکہ آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مصر کے اس حقیقی دستور کی شق ۱۴۱   واضح طور پر بیان کرتی ہے: ’’صدر جمہوریہ اپنے اختیارات، وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کے ذریعے سنبھالے گا‘‘۔ دفاع، خارجہ اور قومی سلامتی کے بعض اُمور، دیگر کئی شقوں کے پابند بناتے ہوئے مستثنیٰ بھی رکھے گئے تھے، لیکن ان کی مجموعی اور اصل روح یہی تھی کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا صدر بھی جواب دہ اور تقسیمِ کار کا پابند بنایا جاسکے۔

اس دستور میں ترمیم کے لیے بھی ایک کڑا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ کسی ڈکٹیٹر کے لیے اسے موم کی ناک بنانا ممکن نہ ہوسکے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۷اور۱۱۸ کے مطابق دستوری ترمیم کے لیے صدر جمہوریہ یا قومی اسمبلی کے ۵/۱ ارکان ترمیم پیش کرسکتے تھے۔ ۳۰ روز کے اندر اندر، قومی اسمبلی اور سینیٹ الگ الگ کثرت راے کے ذریعے، اسے بحث کے لیے منظور یا مسترد کرسکتی تھی۔ اس کے بعد دونوں ایوان ۶۰ دن کے اندر اندر بحث کرکے دو تہائی ووٹوں سے اسے منظور کرتے تو ۳۰روز کے اندر اندر اس پر عام ریفرنڈم کرواکے منظور یا مسترد کیا جاسکتا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ جنرل کی وردی میں ایک لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم پورے دستور کو معطل کردیا۔ اسے ایک خود ساختہ ۵۰رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا، جس نے پانچ ماہ میں ترمیم کے نام پر، ایک نیا دستور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، جو ۱۴ اور ۱۵جنوری کو ریفرنڈم کے ذریعے ملک پر تھوپ دیا جائے گا۔

یہ ایک ایسا دستور ہے جس میں اصل اختیارات فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کے ہاتھ میں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع بھی جنرل عبد الفتاح سیسی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی وہی ہیں۔صدر مملکت یا پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی وہ دوام و اختیارات نہیں رکھتا جو وزیر دفاع صاحب رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے یا مدت صدارت ختم ہوجانے پر بھی وزیر دفاع کا عہدہ برقرا رہے گا۔ اس کی تعیناتی بھی حکومت یا صدر جمہوریہ نہیں، فوج خود ہی کرے گی۔ حالیہ مسودے کی شق ۲۳۴ کہتی ہے ’’وزیر دفاع کا تعین مسلح افواج کی سپریم کونسل کی منظوری سے کیا جائے گا اور اس کایہ عہدہ دو مکمل صدارتی مدتوں کے لیے ہوگا‘‘۔ یعنی سربراہ ریاست تمام سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ تو ایک آئینی مدت مکمل ہونے پر ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے، جب کہ وزیر دفاع صاحب وہی رہیں گے۔ یہ سوال بھی بلا جواب ہے کہ اگر بالفرض کوئی صدر صاحب اپنی دو مدتیں مکمل نہ کرپائیں، یا انھیں پوری نہ کرنے دی جائیں تو کیا وزیر دفاع کی مدت از سرِ نو شروع ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ پھر ’’شیر کی مرضی ہوگی، انڈا دے یا بچہ دے‘‘۔ نئے دستور کے مطابق فوج کے لیے الگ فوجی عدالت قائم کی گئی ہے لیکن اس میں عام شہریوں پر بھی مقدمات چلائے جاسکیں گے، جب کہ فوج پر جو قوم ہی کا حصہ ہوتی ہے، کسی عام عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔ فوج کے بار ے میں کوئی قانون سازی یا فوجی بجٹ کی منظوری و بحث بھی پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ نہیں، قومی دفاعی کونسل ہی کرسکے گی جو چھے سو یلین (صدر مملکت سمیت) اور آٹھ  فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوگی۔

مصر کے حقیقی اور اصل دستور میں ملک و قوم کی دینی و نظریاتی شناخت کی حفاظت اور تمام قوانین کو دائرۂ شریعت میں محفوظ کرنے کا محکم انتظام تھا۔ حالیہ مسودے میں اس طرح کی تمام شقیں ہی نہیں، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تمام شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں توہین رب العالمین اور توہین رسالت کی سزا بھی حذف کردی گئی ہے۔ شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے جامعۃ الازہر کی سپریم علما کونسل کو دستوری حق دیا گیا تھا۔ اب شریعت کی وضاحت بھی دستوری عدالت کرے گی۔ جی ہاں، وہی دستوری عدالت جس نے ہر قدم پر صدر مرسی کی راہ میں روڑے اٹکائے، جس نے نو منتخب قومی اسمبلی چند ہفتے بعد ہی تحلیل کر دی اور جو سینیٹ تحلیل کرنے جارہی تھی۔ جس کے ججوں کی اکثریت واضح طور پر سیکولر بلکہ دین دشمن افراد پر مشتمل ہے۔ مساوات مردوزن کے حوالے سے ایسی ملفوف عبارت لکھی گئی ہے جس سے وراثت میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر قرار پائے گا۔ نئے دستور میں قرآن کریم، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تو کوئی ایک سطر یا جملہ بھی نہیں درج ہونے دیا گیا، لیکن قبطی مسیحی پیشوا ’ شنودہ‘ کا معروف جملہ اصل متن کے ساتھ دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ: ’’مصرہمارا وطن ہے ہم اس میں بستے ہیں اور وہ ہم میں رہتا ہے‘‘۔ اصل دستور میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کا ذکر تھا، اسے بھی حذف کردیا گیا ہے۔ ایک شق میں کہا گیا تھا کہ ’’بچوں کی صحت اور تعلیم کے علاوہ دینی تعلیمات اور قومی روایات کی روشنی میں ان کی تربیت ریاست اور معاشرے کی مشترک ذمہ داری ہوگی‘‘۔ گویا اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ ماحول کی فراہمی حکومت اور معاشرے کا دستوری تقاضا ٹھیری تھی۔ اب اسے حذف کردیا گیا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال کے اندر اندر پانچ انتخابات میں مصری عوام نے اخوان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی عام انتخابات کے ان تمام نتائج کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں نے روند ڈالا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو سند جواز بخشنے کے لیے ۳۰ جون کو فوج اور سیکورٹی اداروں کی زیرسرپرستی میدان التحریر میںایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جنرل سیسی نے اسی عوامی مظاہرے کو اپنے قبیح جرائم کی بنیاد بنایا تھا۔ اب دستور میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ صدر جمہوریہ کو ہٹانے کے کسی عوامی مظاہرے یا جلسے جلوس کو وجۂ جواز نہیں بنایا جاسکے گا۔ بھلا اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ جنرل صاحب کو تو کسی قانون یا اخلاق کیا پورے پورے دستور کی بھی پروا نہیں، یہ نئی دستوری شق بھی ان کے ارادوںمیں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن دوسروں کے لیے وہ سب کچھ حرام ہے جو ہمارے لیے حلال تھا۔ ویسے اگر وہ سمجھ سکیںتو یہ تازہ شق کھلم کھلا اعترافِ جرم بھی ہے کہ ہم نے ۳۰ جون کو جو کچھ کیا، وہ باطل تھا۔ اس لیے اب دستور میں اسے باقاعدہ باطل قرار دے رہے ہیں۔ انسان اگر اپنی ڈاکا زنی کا اعتراف کرلے تو اس کی تلافی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس نے جو کچھ لُوٹا اور غصب کیا تھا وہ واپس کردے۔ لیکن اس اعتراف اور اس عظمت کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہے۔

دستور تازہ کے بارے میںآخری اور اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی پسند پر مبنی اس ۵۰رکنی کمیٹی میں سے صرف پانچ افراد پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقی ۴۵ میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا منشیات استعمال کرتے ہیں، یا کورے جاہل ہیں یا پورے ملک میں واضح طور پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ عمرو موسیٰ تھے جو طویل عرصے تک حسنی مبارک کے وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ خط کا یہ عنوان بھی اس کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہے۔

اخوان ہی نہیں آغاز میں فوجی انقلاب کا ساتھ دینے والے کئی اخوان مخالف گروہ اس مضحکہ خیز دستوری تماشے کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ کرنل جمال ناصر ، کرنل انور سادات اور ایئرکموڈور حسنی مبارک کے دور میں بھی کئی بار فوجی سنگینوں تلے ریفرنڈم ہوئے۔ پانچ بار ہونے والے ہر فوجی ریفرنڈم میں ۹۹ فی صد عوام کی ہاں والا نتیجہ برآمد ہوا۔ اب بھی اسی طرح کے نتائج کا پوراپورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے تناسب کچھ کم دکھایا جائے، کیونکہ صدرمرسی کے جمہوری دور میں ہونے والے اکلوتے ریفرنڈم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ووٹ ڈالے گئے، تب بھی ووٹوں کاتناسب ۷ء۶۶ فی صد ہوسکا تھا۔ آیندہ دستوری ریفرنڈم میں مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ سٹیشن پر ہی کرنے کے بجاے، بیلٹ باکس الیکشن کمیشن لے جائیں گے اور وہاں ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِل‘‘ کی مثال تازہ کی جائے گی۔ ریفرنڈم کے لیے ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی تاریخیں رکھی گئی ہیں۔ میدان رابعہ میں ۱۴؍ اگست کو قیامت صغریٰ برپا کرنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یہ دستوری نمک پاشی کسی طور فوجی حکمرانوں کے حق میں نہیں جائے گی، لیکن جب حماقت ہونا ہو، تو قدرت اسی طرح مت مار دیتی ہے۔

اسی طرح کی ایک اور سنگین حماقت اخوان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ جنرل سیسی کے متعین کردہ وزیراعظم حازم السیلاوی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا: ’’اخوان کو دہشت گرد قرار دینا کابینہ کا کام نہیں۔ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اگر ایسا ہونا بھی ہے تو یہ کام عدالتوں کے ذریعے ہوگا وگرنہ ہم ایک بے قانون ریاست شمار ہوں گے‘‘۔ پھر اچانک دقہلیہ شہر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکا کروایا گیا اور اسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ نے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ۱۰۵۵؍ رفاہی اداروں پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ منجمد کردیے حالانکہ ان سب کا تعلق اخوان سے نہیں ہے۔ اس فیصلے سے گویا لاکھوں غریب اور محتاج موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارہ ۵لاکھ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کر رہا تھا۔

  • حیرت ناک منظر: تمام تر مظالم اور قتل و غارت کے باوجود ان گذشتہ پانچ ماہ میں اخوان کی تحریک ایک روز کے لیے بھی نہیں رکی۔ روزانہ، بلاناغہ مظاہرے ہوتے ہیں۔ گرفتاریاں، سزائیں اور شہادتیں بھی ہورہی ہیں لیکن ہر آنے والا دن تحریک کو کمزور نہیں مزید توانا ہی کررہا ہے۔ گذشتہ ماہ اسکندریہ کی ۲۱نوعمر بچیوں کو ۱۱،۱۱ سال قید کی سزا اس کی ایک واضح مثال ہے۔ پھولوں کا تقدس لیے اُمت کی یہ بیٹیاں سروں پر سفید سکارف اوڑھے اور قیدیوں کا سفید لباس پہنے آہنی پنجرے میں عدالت لائی گئیں۔ جج صاحب نے’’ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے‘‘ بلا کسی سماعت ، بلا کسی تحقیق کے، سب معصوم بچیوں کو ۱۱،۱۱ برس قید کی سزا سنادی۔ اتنی کڑی سزائیں سن کر تو بچیوں اور ان کے اہل خانہ کی دنیا اندھیر ہوجانا چاہیے تھی۔ لیکن ہنستے، مسکراتے ان بچیوں نے سزائیں سنیں اور پھر وقار سے سرشار مسکراہٹوں کے ساتھ، معصوم پریوں کی یہ قطار جیل کی لاریوں میں سوار ہوکر جیل سدھار گئی۔ ان سزاؤں اور بچیوں کی عزیمت نے گویا پوری تحریک میں  نئی بجلیاں بھر دیں۔ ملک کے اندر ہی سے نہیں پوری دنیا سے سیسی عدالتوں پر تھو تھو کی گئی۔ اگلے ہی ہفتے بچیوں کو ایک دوسری عدالت میں پیش کرتے ہوئے سات بچیوں کو ۱۸ سال سے کم عمر ہونے کے باعث بری کردیا گیا۔ اور ۱۴ کی سزا ایک ایک سال کرتے ہوئے اور اس پر عمل درآمد رکواتے ہوئے رہائی کا اعلان کردیا گیا۔

 اسکندریہ یونی ورسٹی میں فزکس کی لائق ترین طالبہ ’’روضہ شلبی‘‘ بھی انھی سزا یافتہ پھولوں میں شامل تھی۔ اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ میں نے سزاؤں کے اعلان کے بعد روضہ کو عدالتی پنجرے میں ہنستے ہوئے دیکھا تو سمجھی کہ میری معصوم بیٹی کو شاید معلوم ہی نہیںہوسکا کہ کتنی خوف ناک سزا سنادی گئی ہے۔ رہائی کے بعد میںنے پوچھا: روضہ! کیا تمھیں پتا تھا کہ جج نے کتنی سزا سنادی ہے؟ ہاں، امی معلوم تھا۔ تو پھر ہنس کیوں رہی تھیں؟ امی بس عدالت اور پولیس کے سامنے بے اختیار ہنس دی۔ مجھے محسوس ہوا ہنسی میرے دل سے نکل رہی ہے کیونکہ اس سے دل کا سارا بوجھ اُترگیا۔ یہ یقین بھی مزید مضبوط ہوگیاکہ اللہ کا ارادہ ان سب پر غالب ہوگا ،ان شاء اللہ۔ لیکن امی جیل میںتنہا ہو ئی تو، آنسوؤں کا دھارا بے اختیار بہہ نکلا تھا۔ مجھے اپنے ملک میں ظلم کی انتہا پر رونا آیا کہ یہ مظالم کب تک اور کیوں کر ہوتے رہیں گے‘‘!

رب کی رحمت و قدرت، جلادوں کی خواہش پر غالب آئی اور سیسی حکومت منہ کالا کروانے اور عوامی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کرپائی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوبارہ کوئی حرکت کی تو پھر گرفتار کرلیں گے اور آیندہ کوئی معافی نہیں ملے گی۔ جیل سے رہائی پاتے ہی سب معصوم بچیوں نے گروپ کی صورت میں چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بناتے ہوئے باآواز بلند اعلان کیا ہم نے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے تھے، آیندہ بھی ہمیںاس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بچی نے کہا: لَسْنَا نَادِمَاتٍ وَلَا خَائِفَاتِ لِأَنَّنَا عَلَی الْحَقِّ وَسَنَنْتَصِرْ فِي الْاَخِیْر اِنْ شَائَ اللّٰہِ، ’’ہم نہ تو نادم ہیں نہ خوف زدہ کیوں کہ  ہم حق پر ہیں اور نصرت بالآخر ہمیں ہی ملنا ہے‘‘۔

 امریکا اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا معاہد ہ بنیادی طور پر مئی ۲۰۱۲ئمیں ان دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے تزویراتی معاہدے کا تسلسل اور چربہ ہے جس میں زیادہ تر زور امریکا کی افغانستان میں فوجی موجودگی اور اگلے ۱۰سال تک افغانستان کے اندرونی اور بیرونی حالات پر اثرانداز ہونے پر دیا گیا ہے ۔ اس دو طرفہ سیکیورٹی کے معاہدے کے مندرجات پر شق وارجائزے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کے تحفظ اور اس خطے میں آیندہ برسوں میں امریکی عزائم کی نشان دہی کرتا ہے، نیز جس طرح سے افغانستان کی خودمختاری اور مفادات کو مجروح کیا گیا ہے وہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو یہ آیندہ برسوں میں خطے میں ایک نئی جنگ، خوں ریزی اور فساد کا سبب بنے گا۔ ذیل میں معاہدے کا شق وار جائزہ پیش ہے۔

یہ معاہد ہ۲۶ آرٹیکلز(شقوں) پر مشتمل ہے ۔اس کے ابتدایئے میں امریکا اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دیگر نکات میں اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس معاہدے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مئی ۲۰۱۲ء میں طے پانے والے تزویراتی شراکتی معاہدے کے تسلسل میں طے کیا گیا ہے۔ نیز یہ معاہدہ امریکا اور افغانستان کے درمیان دیر پا امن ، حفاظت ، استحکام اور ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد پر طے پایا ہے جس کا مقصد افغانستان کی سماجی ترقی اور علاقائی تعاون کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہے ۔ یہ معاہدہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوگا۔ اس معاہدے کے پہلے آرٹیکل میں معاہدے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے ۔ آرٹیکل (۲)میں اس معاہدے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان اغراض و مقاصد کے مطابق فریقین بہتر تعاون کے ذریعے امن و استحکام اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ طور پر بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے کام کریں گے ۔ آرٹیکل(۲ )کی ذیلی شق (۴) میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کی شکست دونوں فریقوں کا مشترکہ ہد ف ہوگا۔

 امریکا ایک نہیں کئی بار اس بات کا فخر یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس نے افغانستان سے القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کا صفایا کر دیا ہے ۔ اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما اپنی کئی نشریاتی تقریروں میں امریکی عوام کو افغان جنگ میں کامیابی اور وہاں سے القاعدہ کے خاتمے کی نوید سنا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان سے القاعدہ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر اگلے ۱۰برسوں تک افغانستان میں کون سی القاعدہ کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کرنا چاہتا ہے ۔ اس شق سے امریکی عزائم کا صاف پتا چلتا ہے کہ القاعدہ محض بہانہ ہے۔ امریکا کا اصل ہدف کچھ اور ہے۔

اس معاہدے کے آرٹیکل(۳) میں قوانین کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ جس کی ذیلی شق (۱)میںکہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے داروں پر افغان آئین اور قوانین کی پابندی لازمی ہو گی ۔آرٹیکل (۳) کی ذیلی شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے دونوں فریق افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھیں گے۔ ان شقوں سے متعلق یہ سوال ہر افغانی کی زبان پر ہے کہ کیا امریکا نے اب تک کسی بھی موقع پر افغانستان کے آئین اور خودمختاری، نیز بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے، جو وہ اب ان کی پابندی کرے گا۔ کیا امریکا اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں اب تک ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان شہری جن میں کم سن بچے ، خواتین اور بزرگ شامل ہیں امریکی بمباری اور ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔مساجد ، مدارس، حتیٰ کہ بارات اور جنازے بھی امریکی درندگی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رہے ۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغانستان میں اگلے ۱۰ سال تک متعین ہونے والی ہزاروں امریکی افواج کے ہاتھوں عام افغانیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ رہے گا۔

 زیر بحث امریکی افغان دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا آرٹیکل( ۴)، افغان افواج اور سیکیورٹی فورسز کی استعداد کاری اور ان کی تربیت اور ترقی سے متعلق ہے ۔یہ اس معاہدے کا سب سے طویل اور بصراحت بیان ہونے والا حصہ ہے جس میں زیادہ تر زور افغان نیشنل آرمی جسے امریکا گذشتہ کئی برسوں سے تیار کرنے میں مصروف ہے کی تربیت اور اس کی عسکری وحربی صلاحیتوں کے فروغ پردیا گیا ہے ۔ امریکا کی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کی اصل حقیقت آئے روز پوری دنیا پر ان خبروں کے منظر عام پر آنے کی صورت میں عیاں ہوتی رہتی ہے کہ آج فلاح مقام پر اتنے افغان فوجی طالبان سے آملے ہیں اور آج فلاں محاذ پر افغا ن فوجیوں نے امریکی حکام کا حکم ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ اسی طرح یہ خبریں بھی کئی دفعہ منظر عام پر آچکی ہیں کہ کسی افغان فوجی کے ہاتھوں اتنے امریکی جہنم واصل ہوئے ۔ باگرام ، قندہار ، گردیز ،جلال آباد اور ہلمند میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں افغان فوجی اہل کاروں کے ہاتھوں امریکی افواج پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں ا س بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج امریکا کے زیر تربیت افغا ن فوجی کل کو امریکا کے مکمل انخلا کی صورت میں طالبان اور حزب اسلامی کے منظم اور تربیت یافتہ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سر شار مجاہد ین کے سامنے ٹک سکیں گے ۔

اس معاہدے کا آرٹیکل (۶) بیرونی جارحیت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۱) میں افغانستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی اطراف سے حملہ آورمسلح افراد کی شورش کو قرار دیا گیا ہے جسے افغانستان کی سیاسی اور علاقائی سا  لمیت کے لیے سب سے بڑے چیلنج سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ یہی وہ شق ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر صدر حامد کرزئی کو سب سے زیادہ اختلا ف ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صدر حامد کرزئی اس شق میں افغانستان کے خلاف برا ہ راست مداخلت یا مسلح شورش کے ساتھ ساتھ افغانستان کے خلاف بیرونی سرزمینوں سے افغانستان میں لڑی جانے والی پراکسی جنگوں میں مبینہ طور پر ملوث افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کو بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کے زمرے میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بعض رپورٹس کے مطابق حامد کرزئی اس شق کی امریکی افغان معاہدے میں شمولیت کی آڑ میں نام لیے بغیر، جب کہ بعض رپورٹس کے مطابق نام لے کر پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کو نشان ز د کرنا چاہتے ہیں ۔ گو حامد کرزئی کی یہ خواہش تو ان کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوئی لیکن وہ اس معاہدے پر اب تک دستخط نہ کر کے ہر ممکن طور پر اپنی بات منوانے کے لیے امریکا پر دبائو ڈال رہے ہیں۔

 زیر بحث معاہدے کے آرٹیکل (۷)میں سہولیات اور استعمال ہونے والے علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۳)میں بصراحت کہا گیا ہے کہ افغان حکومت امریکی افواج کو متفقہ سہولیات اور علاقوں کے استعمال کا حق دیتی ہے ۔ ان مخصوص علاقوں میں امریکا کا اپنا حفاظتی انتظام ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ مقامات معاہدے کی حدتک تو افغان سرزمین پر واقع ہوں گے لیکن عملاً یہاں امریکیوں کا راج ہوگا اور یہاں کسی افغانی باشندے کو تو کجا پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ امریکا کی نظر میں افغانستان کی خود مختاری کا اندازہ اس شق میں ان الفاظ سے ہوتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اگر چاہے تو پیشگی درخواست کے ذریعے ان مخصوص علاقوں کا معائنہ کرسکتی ہے، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقۂ کار کا پور ا پورا احترام کرے گی ۔ گویا افغان حکومت کسی بھی شکایت کی صورت میں امریکا کے زیر استعمال کسی بھی افغان علاقے کے معائنے کے لیے نہ صرف امریکا سے پیشگی درخواست کی پابند ہو گی بلکہ اسے امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقہ کار کا بھی پور ا پورا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ اس شرط کی توثیق کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتاہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھا گیا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔

آرٹیکل(۷)کی ذیلی شق (۶) میں یہ مضحکہ خیز بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امریکی افواج افغانستان کی ماحولیاتی اور صحت سے متعلق اصولوں کا احترام کریں گی ۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت کا سر شرم سے جھکا دینے والے انسانیت سوز مظالم کے تناظر میں امریکا کا اس دو طرفہ معاہدے میں صحت اور ماحول سے متعلق شق کے شامل کرنے کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے اور ویت نام ، کو ریا ، عراق اور افغانستان میں کیمیائی ہتھیارو ں کے ساتھ ساتھ نیپام اور ڈیزی کٹر بموں کے بے دریغ استعمال کے بعد امریکا کا افغانستان میں اپنے اگلے ۱۰ سالہ قیام کے دوران وہاں کے ماحول اور صحت کے اصولوں کا پاس رکھنے کا وعدہ دنیا کی آنکھوں میں دھول کے بجاے ریت اور بجری جھونکنے کے مترادف ہے ۔

امریکا افغان سیکیورٹی معاہدے کا ایک اور مضحکہ خیز آرٹیکل (۸)ہے جس کے ذیلی شق (۳) میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین پر امریکی افواج ا س کے ٹھیکے داروں کی خریدی ہوئی ، درآمد کی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ تنصیبات کی ملکیت امریکا کی ہوگی۔ ان تنصیبات کی کسی بھی ممکنہ انتقال کے لیے امریکی قوانین کو مدنظر رکھا جائے گا، یعنی امریکا کے زیر استعمال ہر طرح کی تنصیبات بشمول زیر استعمال اڈوں پر حق ملکیت امریکا کا ہوگا اور اگر امریکا ان تنصیبات کو کہیں اور منتقل کرنا چاہے گاتو وہ ایسا افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت کر سکے گا۔ گویا افغان سرزمین پر افغان قانون کے بجاے امریکی قوانین لاگو ہوں گے جو امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کی خودمختاری کے دعوے کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے ۔ آرٹیکل (۹)جو آلات اور اشیا کی سٹوریج کے بارے میںہے کی ذیلی شق (۳)میں یہ خوش کن نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکا اپنے کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار افغان سرزمین پر ذخیرہ نہیں کرے گا۔ یہ شق اور جملہ اپنے معنی کے اعتبار سے تو بہت خوشنما نظر آتا ہے لیکن امریکی طینت اور اپنے مفادت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی اس کی روش اور تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا کون امریکا سے یہ پوچھ سکے گا کہ اس نے افغانستا ن میں اپنے درجن بھر اڈے یہاں سبزیاں اُگانے کے لیے حاصل کیے ہیں اور یہاں جمع شدہ مہلک ترین اسلحہ اور گولہ بارود کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی مواد سے پاک ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں موجود امریکا کے خطرناک ہتھیار وں اور بلسٹک میزائلوں سے لیس بحری جہا ز ،  ایٹمی آبدوزیں اور زمینی اڈے امریکا نے کس بین الاقوامی قوانین کے تحت بنا رکھے ہیں۔ اس کا جواب امریکا بہادر خود ہی د ے سکتا ہے، باقی دنیا اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں فی الحال یقینا نہیں ہے ۔

آرٹیکل( ۱۰)گاڑیوں اور جہازوں کے نقل و حرکت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی شق (۱) میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے فوجی اور سول جہازوں کو افغانستان کی فضائی حدود میں پرواز ،لینڈنگ، افواج کی نقل و حمل اور فضا میں ری فیولنگ کی مکمل اجازت ہو گی ۔نیز فضائی حدود کے استعمال اور جہازوں کی پارکنگ کے لیے امریکا کسی بھی قسم کے ٹیکس یا اخراجات ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگا ۔اس آرٹیکل میں یہ قابل شرم نکات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ امریکی جہاز ،کشتیوں اور گاڑیوں کو افغانستان میں داخل ہونے ،نقل و حرکت کرنے اور افغانستان سے بلاروک ٹوک اور بلا پوچھ گچھ نکلنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔اس آرٹیکل کی ذیلی شق(۴)میں افغانستان کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام امریکی جہاز ،کشتیاں اور گاڑیاں افغان حکام کے معائنے سے مستثنیٰ ہوں گے ۔ امریکی افواج کو افغانستان میں داخلے، وہاں نقل وحرکت اور بلاروک ٹوک نکلنے کی اجازت، نیز امریکی گاڑیاں اور جہازوں کے معائنے کی اجازت افغان حکام کے پاس نہ ہونے کے باوجود جو لوگ اس معاہدے کو دو طرفہ معاہدہ قرار دے رہے ہیں، ان شقوں کی موجودگی میں ان کا دعویٰ خودفریبی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔

آرٹیکل( ۱۱)میں ٹھیکے داروں سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ اس آرٹیکل کی شق(۱) میں کہا گیا ہے کہ زیر استعمال علاقوں میں تعمیرات اور دیگر کاموں کے ٹھیکے امریکی خریداری قوانین کے تحت دیے جائیں گے ۔ امریکی خریداری قوانین کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ حد تک افغان اشیا کی خریداری کو ترجیح دی جائے گی ۔ شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ ٹھیکے دار امریکا کے ساتھ لین دین کے وقت دیگر افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے، یعنی تعمیرات اور دیگر کاموں کے سلسلے میں ٹھیکے افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت دیے جائیں گے، جب کہ ان ٹھیکوں کی مد میں امریکی ٹھیکے دار ہرطرح کے افغان ٹیکسوں سے بھی مبرا ہوں گے۔ گویا ان تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سے افغانستان کے عوام کو رتی برابر بھی فائد ہ نہیں ہوگا بلکہ ان کا تمام تر فائدہ امریکی کمپنیوں اور خود امریکی حکومت اور بالواسطہ طور پر امریکی عوام کو ہوگا۔

مواصلات اور دیگر سہولیات کے عنوان کے تحت آرٹیکل (۱۲)میں امریکا کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ امریکا افغانستا ن میں مواصلات کا اپنا نیٹ ورک نہ صرف بنا سکے گا بلکہ اسے اس کے استعمال کا بھی بلا روک ٹوک اور بلا شرکت غیرے حق حاصل ہوگا۔ نیز مواصلاتی نیٹ ورک بنانے کے لیے اسے افغان سرزمین مفت استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوگی ۔ افغان فضا اور زمین کو اپنے مواصلاتی تصرف میں لانے کی امریکا کو اس شق کے ذریعے نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی ہے بلکہ یہ چھوٹ اسے پلیٹ میں رکھ کر مفت بھی پیش کی گئی ہے جو افغانستان کی خود مختاری کے دعوے کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق ہے ۔

آرٹیکل (۱۳)جو کہ اہل کاروں کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے، میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہل کاروں کے خلاف ا نضباطی کاروائیوں کا مکمل اختیار صرف امریکا کے پاس ہوگا۔ اگر کسی امریکی اہل کار سے افغان سرزمین پر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو امریکا متعلقہ قوانین کی روشنی میں خود اس کا ٹرائل کرے گا۔ افغان حکام کی طرف سے کسی بھی امریکی اہل کار کی گرفتاری کی صورت میں متعلقہ سویلین یا فوجی کو امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا، جب کہ معاہدے کے اس آرٹیکل کے تحت افغانستان اور امریکا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی یا سویلین کو کسی بھی بین الاقوامی عدالت ، ادارے یا تنظیم کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام شرائط کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کے مفادات کا خیال بھی رکھا گیا ہے اور   امریکا نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان کی خود مختاری کو تسلیم کیا ہے تو ایسا کہنے والے کو اپنی عقل کا علاج کرالینا چاہیے، کیونکہ ان شقوں کی موجودگی میں امریکی فوجی اہل کار اپنے آپ کو     نہ صرف ہرطرح کی قانونی گرفت سے مبرا سمجھیں گے بلکہ ایسی صورت میںان کے ہاتھوں افغان شہریوں کے ساتھ امتیازی اور انتقامی سلوک روز مرہ کا معمول ہوگا۔

آرٹیکل (۱۵)میں افغانستان میں امریکی اہل کاروں کے دخول اور خروج کے حوالے سے شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ اس آرٹیکل کے تحت امریکی اہل کار کسی بھی وقت افغانستان میں داخل اور خارج ہو سکتے ہیں۔ ایساکرتے وقت انھیں کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نیز امریکی اہل کار افغانستان میں غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن قوانین سے بھی مستثنیٰ ہوں گے ۔ ویزے اور پاسپورٹ اور غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کی شرائط ساقط کر کے امریکا واضح طور پر افغانستان کو اپنی باقاعدہ کالونی ڈکلیئر کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ بعض لوگ اس شق کی روشنی میں افغانستان کو امریکا کی ۵۳ویں ریاست بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ایسا اس لیے نہیں ہے کیونکہ امریکا اس نام نہاد دوطرفہ معاہدے کے ذریعے افغانستان پر تو اپنا حق تسلط تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن اس کے بدلے میں نہ تو افغان سرزمین اور نہ ہی افغان عوام کو رتی برابر بھی کوئی اہمیت دی گئی ہے ۔

آرٹیکل (۱۶)میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی استعمال کے لیے برآمد یا درآمد ہونے والی اشیا ہر قسم کے معائنے اور پابندی سے مبرا ہوں گی۔ یعنی امریکا کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ افغانستان میں جو بھی اشیا برآمد یا درآمد کرنا چاہے اس سے افغان حکام پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے اور اس حوالے سے امریکا کو کھلی آزادی ہوگی ۔ آرٹیکل (۱۷)میں ٹیکسیشن پر بحث کرتے ہوئے افغان سرزمین پر امریکی اہل کاروں کے استعمال کے لیے خریدی گئی تمام اشیا افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں ۔ اسی طرح امریکی افواج اور ٹھیکے دار بھی ہر طرح کے افغان ٹیکسوں کی ادایگی سے مبرا ہوں گے ۔ یعنی جو لوگ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کو اقتصادی نفع اور افغانوں کی اقتصادی حالت کے بہتر ہونے کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی یہ خوش فہمی اس شق سے دُور ہو جانی چاہیے کہ افغانستان میں ۱۰سالہ قیام کے دوران امریکا یہاں جتنے وسائل اپنے استعمال کے لیے لائے گا وہ ہر طرح کے ٹیکسوں سے آزادہوں گے اور ان کا ذرہ برابر فائدہ بھی افغانوں کو نہیں پہنچے گا۔

اس معاہدے کے آرٹیکل (۱۸)میں امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے دار وں، حتیٰ کہ ان کے ملازمین کوبھی جاری کیے گئے ڈرائیونگ ، ہواباز ی اور کشتی رانی کے لائسنس افغانستان میں موثر ہوں گے اور انھیں افغان لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ اسی طرح آرٹیکل (۱۹)میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ٹھیکے داروں کے زیر استعمال گاڑیاں افغانستان کی رجسٹریشن سے آزاد ہوں گی اور ان گاڑیوں کو امریکی رجسٹریشن پر پورے افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہو گی ۔ خدمات سے متعلق آرٹیکل ۲۰میں امریکیوں کو اپنی افواج کی سہولت کے لیے افغانستان میں اپنے بنک ، ڈاک خانے ، تفریحی مقامات اور نیوز چینل قائم کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے، جب کہ ان خدمات تک رسائی کے اصول و ضوابط پر امریکی قوانین لاگو ہوں گے۔ امریکا کو ان خدمات کی فراہمی کے لیے افغانستان سے کسی لائسنس لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ، نیز امریکی نظام ڈاک کے تحت بھیجے جانے والے تمام خطوط (ڈاک) معائنہ ،تلاشی اور ضبطی سے مستثنیٰ ہوں گے ۔

 آرٹیکل( ۲۲)میں جایداد کے نقصان، مجروحین اور مقتولین کو زر تلافی کی ادایگی سے معاف تصور کیا جائے گا۔تنازعات کے ضمن میں آرٹیکل ۲۴میں قرار دیا گیا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی بھی مشکل پیش آنے کی صورت میں فریقین باہمی گفت و شنید سے فیصلے کریں گے اور ایسے مسائل کو کسی ثالث ، بین الاقوامی عدالت یا کسی اور فورم پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ یہ معاہدہ چونکہ دنیا کے دو طاقت ور ترین اور کمزور ترین ممالک کے درمیان طے پایا ہے لہٰذا آرٹیکل( ۲۴)میں ا س بات کو بہ صراحت شامل کر دیا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی زیادتی، دست اندازی اور ظلم و جبر پر افغانوں کے پاس سواے صبر و تحمل اور برداشت کے کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہوگا۔انھیں امریکی افواج کا تابع مہمل بن کر رہنا ہوگا۔ انھیں کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف داد رسی تو کجا، آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی ۔

زیر بحث معاہدے میں دو ضمیمہ جات بھی شامل ہیں۔ جسے آرٹیکل(۲۳)کے تحت اس معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ضمیمہ -۱،ان مقامات سے متعلق ہے جنھیں امریکی افواج استعمال کرسکیں گی ۔ یہ مقامات کا بل ، باگرام ،مزار شریف ،ہرات ،قندہار ، شور آب (ہلمند) گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ کے علاقوں پر مشتمل ہیں ، جب کہ ضمیمہ۲،میں آمدو رفت کے مقامات ظاہر کیے گئے ہیں ۔ ان مقامات میں باگرام ائر بیس ، کابل انٹر نیشنل ائیر پورٹ،قندہار ایئر بیس،    شین ڈھنڈ ایئر بیس،ہرات انٹرنیشنل ایئر پورٹ ،مزار شریف ایئر پورٹ اور شورآب (ہلمند)کے علاوہ سپین بولدک(قندہار)، طورخم(ننگرہار) تورغنڈی (ہرات) حیرتان(بلخ) اور شیرخان بندر (کندوز) کے زمینی مقامات( سرحدی علاقے) بھی شامل ہیں ۔

یہ معاہدہ افغانستان کے لویہ جرگہ میں منظور کیا جاچکا ہے۔ اب صرف صدرکرزئی کے دستخط کی دیر ہے کہ یہ رُوبہ عمل آجائے گا۔ صدرکرزئی شرائط بہتر کرنے کے لیے تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بلکہ امریکا سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں ان کے بھائی عبدالقیوم کرزئی کی حمایت کرے۔
٭مضمون نگار کا ای میل پتا:  alamgir_afridi@yahoo.com

مارچ۲۰۱۱ء سے ظالم بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کوپورے ایک ہزار دن مکمل کرلیے ۔پونے تین سال سے جاری اس خوں ریزی میں اب تک کم وبیش ڈیڑھ لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ ختم ہو، عوام کو آزادیاں اور سکھ کا سانس ملے اور پر امن طریقے سے اصلاحات لائی جائیں۔ بدقسمتی سے بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو قتل اور ملک کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ۳۰لاکھ سے زائد لوگ بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دیگر آزاد ذرائع نے بشار اور اس کی انتظامیہ کو شام میں تمام تر تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے شامی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قرار دیتے ہوئے بشار اور اس کے قریبی رفقا کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کردینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے شام عرب ممالک میں ساتواںبڑا ملک ہے ۔ اس کی ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کا ۹۰ فی صد عرب،۸ فی صدکُرد اور باقی دیگر قوموں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں غالب اکثریت اہل سنت کی ہے ۔ علوی ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقے ۱۰ سے۱۵ فی صد کے قریب اور باقی مسیحی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ شام افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی، لبنان ،مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، اُردن اور عراق کے ساتھ ملتی ہیں۔

حکومت کے خلاف مظاہروں کے شروع ہوتے ہی بشار نے اسے طاقت سے کچلنے کاآغاز کردیا تھا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پکڑ دھکڑ ہی نہیں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی گئی، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے رہایشی علاقوں کو گھیرلیا گیا،اور پھر جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری شروع کردی گئی۔ گھروں، سکولوں ، مسجدوں اور ہسپتالوںکو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پوری پوری عمارتوں کو مکینوں سمیت ملیامیٹ کردیااور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر  لگ گئے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ زیادہ تر شہر خالی ہوگئے اور لوگ پُرامن علاقوں اور پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بشار کے مظالم نے پناہ گزین کیمپوںمیں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی بچوں اور خواتین کومیزائلوںاور فضائی حملوں کانشانہ بنا رہا ہے۔ 

 ایک موقع پر عرب لیگ نے بھی خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں،ایک متفقہ قراردادکے ذریعے بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے اور اختیارات اپنے نائبین کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں یہی مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہرایا گیالیکن دونوں دفعہ روس اور چین نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کردی۔ سلامتی کونسل نے بہت تیر مارا تو ۱۴،اپریل ۲۰۱۲ء کو ایک اور قرارداد میں شام کی حکومت سے فوری جنگ بندی اور رہایشی علاقوں کی طرف فوج کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ اور  عرب لیگ نے مشترکہ طور پر کوفی عنان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھیجاتاکہ بشار حکومت کی جانب سے روارکھے گئے انسانیت سوز مظالم کو روکے ۔لیکن کوفی عنان کے مختصر دورے کے فوراً بعد نہتے مظاہرین اور بے گناہ شہری ایک دفعہ پھر ٹینکوں، توپوں اورفضائی بم باری کا سامنا کر رہے تھے۔

بشار انتظامیہ کی جانب سے رہایشی علاقوں پر بم باری کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں ،زیادہ تر علاقے خالی ہوچکے ہیں۔ شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کا رخ بھی کیا ۔اقوام متحدہ کے کمیشن براے مہاجرین کے مطابق یورپ نے شام سے پناہ لینے کے لیے آنے والوں کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا اور صرف ۱۰ یورپی ممالک نے ان کو پناہ دی۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے جس نے ۱۰ ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے والے شامی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ بیش تر لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہورہی اور وہ عملا قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شامیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں بھی پناہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی ہے ۔ تاہم فوجی حکومت کے نامناسب رویے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ گذشتہ دنوں مصر ی حکام نے کئی خاندانوں کو مصر سے بے دخل کردیا تھا۔مہاجرین کا سب سے زیادہ دباؤ لبنان پر ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساڑھے ۸ لاکھ مہاجرین سرحد عبور کرکے لبنان پہنچ چکے ہیں۔ ترکی اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں شامی مہاجرین کی حالت قدرے بہتر ہے جہاں حکومت کی سرپرستی کے باعث رفاہی اداروں کی رسائی اور امدادی کارروائیاں قدرے آسان ہیں۔

بشار کی وحشیانہ کارروائیوں اورجنگی جہازوں کی بم باری سے ۱۲ لاکھ گھر تباہ ہوچکے ہیں اور روز بروزاس میں اضافہ ہورہا ہے ہیں ۔ بڑی تعداد میںلوگ پڑوسی ممالک کے علاوہ ملک کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے براے بحالی مہاجرین کے مطابق اب تک ۶۵ لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مختلف کیمپوںاور دیگر مقامات میںزندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ UNHCR کے مطابق ان میں سے صرف ۴۶ ہزار لوگ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیںجوپانچ مختلف ممالک میں ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ باقی لوگ انتہائی پریشان کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقے سخت برف باری کی زد میں ہیں اور درجۂ حرارت منفی ۱۰ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ سخت سردی کی اس لہر میں خیموں کے اندر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔

بشار انتظامیہ کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، بڑی تعداد میں فوجی افسران اور سپاہیوں نے بھی فوج سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔علیحدگی اختیار کرنے والے افسران اور مختلف تنظیموں نے مسلح گروپ تشکیل دیے ہیں۔سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل حسین ہرموش فوج سے الگ ہوئے جس نے ’الاحرار بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیااور فوج میں اپنے دوستوں سے اپیل کی کہ حکومت سے الگ ہوجائیں اور ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ بعد ازاں جیسے جیسے فوجی افسر بغاوت کرکے فوج سے نکلتے رہے،اپنا گروپ تشکیل دیتے رہے۔یہی نہیں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔ اس وقت مختلف ناموں سے دو درجن سے زائد جہادی تنظیمیں بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر چہ ان تنظیموں کے آپس میں اِکّا دکّا واقعات کے علاوہ کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع تو نہیں آئی ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں مسلح گروہوں کی تشکیل ہی دشمن کو تقویت اور اپنی اپوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر دشمن ممالک اور تخریبی ادارے بھی مجاہدین کے نام پر ایسے گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے جہاد اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیتی ہیں۔

 بعض علاقوں میں مسلح گروہ ایک چھتری تلے جمع ہو گئے ہیںجیسے گذشتہ دنوں حلب میں تمام چھوٹی تنظیموں نے جبہۃ اسلامیہ کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا لیکن ملکی سطح پر تمام گروپوں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔

زمینی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ شام کا ۹۰ فی صد سے زائد علاقہ بشار کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ حمص ، السویداء ، لاذقیہ اور درعا کے علاوہ تمام اضلاع مجاہدین کے کنٹرول میںہیں، جب کہ دارالحکومت دمشق کے بیش تر حصے پر بھی مجاہدین کا قبضہ ہے ، اور وہاںمجاہدین اور بشار انتظامیہ کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بشار چونکہ زمینی جنگ ہار چکا ہے اس لیے اب وہ صرف بم باری پر انحصار کر رہا ہے ۔

نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے دارالحکومت میںشامی اپوزیشن قوتوںکے مابین ایک  معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت ایک چھتری تلے جمع ہوگئی۔ انقلابی طاقتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد نے عالمی برادری کی توجہ شام کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ شامی مجاہدین کی کوششوں کو بھی مربوط کرنے میںمدد دی ہے۔

۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی کا اقتدار سنبھالتے ہی اخوان کی آزمایش کا دور شروع ہو گیا تھا۔حافظ الاسد نے۱۹۷۱ء میں برسر اقتدار آکر اخوان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیااور قید وبند کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۸۰ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان کے ساتھ تعلق ثابت ہونے کی سزا پھانسی مقرر کردی گئی جو آج بھی باقی ہے۔اخوانی قیادت کی اکثریت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مارچ ۲۰۱۱ء میں بشار کے خلاف جدوجہد کے آغاز ہی سے اخوان پوری طاقت سے ایک مؤثر فریق کی حیثیت سے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔

امریکا اس پورے مسئلے میںنہایت عیاری سے تباہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی برادری کی تائید حاصل کرنے کے لیے ایک طرف وہ شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے زبانی وعدے کر رہا ہے اور دوسری طرف معاملے کو مزید طول دے کر عراق کے بعد ایک اور مسلمان ملک کو کمزور کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سرحدیں مضبوط ہوں اوروہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ بھی کھلم کھلابشار کا ساتھ دے کر اس خون ریزی میں شریک ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بشار کی حکومت اسرائیل کے سامنے بند کی حیثیت رکھتی ہے ،اس لیے ہم اسے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ،لیکن عملاًدیکھیں تو خود اسرائیلی انتظامیہ ، امریکا اور عالمی برادری سب بشار انتظامیہ کو باقی رکھنے پر مصر ہیں۔اگر ان دونوں فریقوں(ایران و حزب اللہ) اور (امریکا واسرائیل) میں سے کوئی ایک فریق بھی بشار انتظامیہ سے نجات کا فیصلہ کرلیتا تو یقینا بشار اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔

جیسے جیسے بشار الاسد اپنا قبضہ وتسلط کھوتا جارہا ہے اور امریکا واسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو بشار کے بعد خطے میں ان کے مفادات کا خیال رکھ سکے اور جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔

شام کے مسئلے کے حل کے لیے براے نام کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور روس کی آشیرباد سے عالمی برادری آیندہ جنوری میں جنیوا ۔۲ کے نام سے کانفرنس کر رہی ہے۔اس سے قبل ’جنیوا-۱‘ ہوچکی ہے۔ ملک کے زیادہ تر حصے پر مجاہدین کے قبضے کے بعد حقوق انسانی کے علَم بردار ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت  کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اب بشار کے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ توپایدار ہوگا نہ معاملے کے اصل فریق، یعنی شامی عوام کو قابل قبول ۔

سخت سردی اور بد ترین بم باری کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک ، انسانی حقوق کی تنظیموںاور رفاہی اداروںکا فرض ہے کہ آگے بڑھ کرمظلوموں کی فوری مدد کریں۔

وسطی ایشیا کی اہم مسلم ریاست تاجکستان میں ۶ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر امام علی رحمانوف ہی حسب سابق دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق انھیں ۸۳ فی صدسے زائد ووٹ ملے۔ جس طرح ہر انسان اپنے گناہوں کا سب سے اہم گواہ خود ہوتا ہے، اسی طرح ۸۳فی صد کی اصل حقیقت بھی سب سے زیادہ رحمانوف ہی کو معلوم ہے۔ انتخابات میں ان کی سب سے مضبوط حریف، انسانی حقوق کی فعال علم بردار، معروف وکیل خاتون نیکولا بابا نزارووا تھیں۔ انھیں تحریک اسلامی( تحریک نہضت)کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ تقریباً سب تجزیہ نگار متفق تھے کہ بے داغ شخصیت کی حامل ۶۵سالہ نزارووانہ صرف بھرپور مقابلہ کریں گی بلکہ وہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑسکتی ہیں۔بڑے پیمانے پر ان کے حامیوں کی گرفتاریوں اورووٹر لسٹوںمیں تحریف جیسے دھاندلی کے مختلف ہتھکنڈوںکے باوجود بھی صدر کو اپنی کامیابی کا یقین    نہ ہوا، تو بالآخر ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیے گئے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ۲۱ہزار تائید کنندگان کے دستخط پیش نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ پھر رحمانوف ہی ’جنگل کا بادشاہ‘ تھا۔

 تاجکستان میں تحریک بیداری۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، بلکہ سوویت یونین کے زیرتسلط تمام علاقوں میں اسلامی تحریک کا باقاعدہ زیر زمین آغاز تو ۱۹۷۸ء سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران بھی ایسے بہت سے ’گم نام سپاہیوں‘ نے کاردعوت و تربیت انجام دیا کہ جن کا علم صرف اللہ کو ہے یا اس کے ان بے نفس بندوں کو۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں سفر کرتے اور درندوں کے خونی پنجوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان مخلص نفوس نے روسی زبان میں تفہیم القرآن اور دیگر کتب کا ترجمہ ان تمام علاقوں تک پہنچایا اور بالآخر سوویت یونین کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان مسلم ریاستوں میں تحریک بیداری ساری دنیا کے سامنے آگئی۔

۱۹۹۰ء میں سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ قہار مخماکوف کو تاجکستان کے صدر کے طور پر مسلط کیا گیا تو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر نذر آتش کردیا اور پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی باقاعدہ تجہیز و تکفین ہوگئی تھی، لیکن تاجکستان سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی مداخلت و نفوذمسلسل جاری رہا، جو   آج بھی جاری ہے۔تاجکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا ڈیم (روغون ڈیم) بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل در آمد کی راہ میں پڑوسی ریاست ازبکستان کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’نہیں بننے دیں گے، اس سے ہمارا پانی اور کپاس کی بنیادی فصل متاثر ہوتی ہے‘‘۔ روس نے تاجکستان کو اس یقین پر کہ وہ روغون ڈیم بنانے کے لیے اس کی حمایت کرے گا، وہاں اپنے عسکری اڈے بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق روس ۲۰۳۰ء تک تاجک سرزمین استعمال کرسکے گا۔

دوسری طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ ہی امریکا نے بھی افغانستان کی اس اہم پڑوسی ریاست میں اپنے لیے مزید جگہ بنانا شروع کر دی تھی۔ احمد آباد کا فوجی اڈا بحال کر تے ہوئے اسے ایک مستقل امریکی اڈے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ازبکستان، قرغیزستان اور تاجکستان کے سنگم پر ایک اورامریکی اڈا فعال ہے۔ امریکا نے اس علاقے کو ’دہشت کی تکون‘ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں،    یعنی ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال بنائی جا رہی ہے جیسی آج سے تقریبا ایک صدی پہلے تھی۔   ۱۹۱۷ء میں سوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔اگرچہ ۱۹۲۹ء میں ازبکستان اور تاجکستان کو دو الگ الگ اور خودمختار ریاستوں کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا، لیکن پوری صدی کا اصل محور سوویت یونین کو سپریم طاقت بنانا اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی قرار پایا۔

گذشتہ صدی کی باقی تفصیلات کو فی الحال چھوڑتے ہوئے آیئے ذرا گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیں۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبویؐ کا پروگرام ختم ہوا، توعوام تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے کے وسط میں نصب لینن کے ۲۵ ٹن کے بت کے گرد جمع ہوگئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے انھوں نے یہ گرانڈیل بت گرا کر پاش پاش کردیا۔ مظاہرین ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا وہ معروف اور انقلابی فارسی ترانہ و الہانہ انداز سے گارہے تھے کہ جس میں انھوں نے پوری اُمت کو گہری نیند سے جاگنے اور اُٹھ کھڑا ہونے کی صدا لگائی تھی    ؎

از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز

لیکن ان تمام عوامی جذبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے،۲۴نومبر کو ہونے والے ملک کے پہلے صدارتی انتخابات میں روس نوازرحمان نبیوف کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔ عوام نے   ’لینن آباد‘ شہر سے تعلق رکھنے والے روس کے اس وفادار کا اقتدار بھی مسترد کردیا۔ ملک گیر مظاہرے عروج پر پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی اور روسی مداخلت کے ذریعے جیتنے والے کے خلاف یک آواز تھیں۔ پھر جب ایئرپورٹ سمیت اہم سرکاری عمارتیں اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئیں، تو مذاکرات کے دور چلے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۲ء کو ایک قومی حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اہم وزارتوں سمیت آٹھ وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا لیکن نیتوں میں فتور تھا، معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ اپوزیشن سڑکوں پر ہی رہی۔ کئی ماہ جاری رہنے والی اس عوامی تحریک کے بعد ستمبر ۱۹۹۲ء میں ازبکستان اور روس نے یہ کہتے ہوئے اپنی باقاعد افواج تاجکستان میں اُتار دیں کہ وہاں ’اسلامی قوتوں‘ کے اقتدار میںآنے کا خطرہ ہے۔ ساتھ ہی امام علی رحمانوف کو مسندصدارت سونپ دی گئی۔ موصوف نے آتے ہی اپوزیشن بالخصوص تمام اسلامی مراکز و شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں شہریوں کو تباہ حال افغانستان میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ بڑی تعداد کو ملک کے اندر ہی بے گھر کردیا گیا۔

۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک کا یہ سارا عرصہ عوامی تحریک کا عرصہ تھا۔ باقاعدہ جہادی کارروائیاں بھی شروع ہوگئیںاور اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں کسی نہ کسی طور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۲۳دسمبر ۱۹۹۶ء کو صدر رحمانوف اور متحدہ اپوزیشن لیڈر سید عبد اللہ نوری نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق عوام کو آزادیاں دینے اور تحریک نہضت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت میں شریک اپوزیشن لیڈروں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں اصلاحات اور مجاہدین کو تاجکستان کی باقاعدہ فوج میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاجکستان میں مسلم آبادی کا تناسب ۸۴ فی صد ہے، وعدہ کیا گیا کہ انھیں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔ آغازِ کار میں بعض فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مہاجرین کی واپسی شروع ہوگئی۔ بعض حکومتی مناصب اپوزیشن کو بھی دیے گئے، لیکن جلد ہی رحمانوف نے اپنا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ ہروعدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عام شہریوں سمیت ایک ایک کرکے اپوزیشن لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کی راہ اپنالی گئی۔ اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تحریک نہضت کے چوٹی کے کئی رہنما پراسرارطورپر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اور ایک قومی شخصیت کی حیثیت رکھنے والے سید عبد اللہ نوری اور ان کے نائب محمد شریف ہمت زادہ کے بارے میںتو یہ خدشہ زباں زدعام ہے کہ انھیں زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ رہی عوام کو حاصل آزادیاں، تو حالیہ انتخابات ہی ان کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہی کو صدر مملکت کے مقابلے میں لانے کا امکان پیدا ہوا، اسے بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ بظاہر پانچ اُمیدوار مخالفت کر رہے تھے لیکن سب مجہول و مغلوب افراد تھے۔ بنیادی طور پر اس لیے لائے گئے تاکہ مقابلے کا تاثر دیا جاسکے۔ سورما صدر تقریباً بلامقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔

 روسی فوجوں کے ذریعے ۱۹۹۲ء میںصدر مملکت بننے والے امام علی رحمانوف، حالیہ ڈھکوسلا انتخابات جیسے ہتھکنڈوں اور دستور میں رسمی تبدیلیوں کے بعد خود کو قانونی صدر قرار دے رہے ہیں۔ عالی جناب نے اقتدار کے ۱۰ برس پورے ہونے پر۲۰۰۳ء میں دستوری ترمیم کروائی تھی کہ اب ایک شخص کو صرف دوبار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن ایک ٹرم ہی سات سال کی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ فرمان جاری ہوگیا کہ اس دستوری ترمیم پر عمل درآمدتین سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء سے شروع ہوگا۔ ۱۹۹۲ء سے جو صدارتی دور چلا آرہا ہے وہ بھی اس نئی مدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس طرح ۱۴ برس سے چلے آنے والے صدر صاحب ۲۰۰۶ میں پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور حالیہ نومبر میں وہ مزید سات برس (۲۰۲۰ء تک) کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ۱۴ برس تو یوں پکے ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔ اکلوتا خدشہ ملک الموت سے  ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔

تاجکستان کو سوویت غلامی سے نجات کے بعد بھی بہت سے حقیقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ یورنیم اور دیگر قیمتی دھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالامال، ملک میں غربت تو پہلے بھی تھی، اب اس میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔ ملک میں پانی کے وافر ذخائر کے باوجود، توانائی کا بحران سنگین ترہے۔ موسم سرما میں بجلی اور گیس تقریبا ناپید ہوجاتی ہے۔ لاکھوں شہری ان بحرانوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجاے رحمانوف کی تمام تر توجہ مخالفین کو کچلنے پر مرکوز ہے۔بدقسمتی سے اپنے اقتدار کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھنے والی ہستی کو اصل خطرہ اسلام، اسلامی عناصر اور اسلامی مظاہر ہی سے محسوس ہوتا ہے۔عوام میں تحریک نہضت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ناقابل تردید وسیع حمایت کے باوجود، پارلیمنٹ میں ان کے ایک یا دو افراد سے زیادہ کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کا حجاب، مردوں کے چہرے پر سنت نبوی، اور تو اور سفید رنگ کا کھلا لمبا کُرتہ، سر پہ سجی ٹوپی، بیرون ملک (بالخصوص پاکستان میں) دینی تعلیم کا حصول، یہ وہ بڑے بڑے سنگین جرائم ہیں، جن کا مرتکب ’رحمانوف شریعت‘ کے مطابق دہشت گردہے اور اس کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔

روشن خیال قانون کے مطابق مسجد میں ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوان نہیں جاسکتے۔ مساجد سے باہر باجماعت نماز نہیں ادا کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں یا دفاتر میں تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی کسی سرکاری دفتر یا مسجد سے باہر باجماعت نمازکے جرم میں پکڑا جائے تو امام کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین ہنستے ہوئے بتارہے تھے کہ فقہ کی کتابوں میں امامت کی شرائط کے ضمن میں علمِ دین، بہتر تلاوت اور عمر جیسے مسائل زیربحث آتے ہیں۔ تاجک عوام کہتے ہیں کہ: ’’امامت وہ کروائے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں‘‘۔ قانون کے مطابق نمازباجماعت (مسجد سے باہر) جیسے سنگین جرم کی سزا امام صاحب کو دی جاتی ہے۔

ایک بار پھر ’نومنتخب‘ صدر صاحب ساتھ ہی ساتھ خود کو سب سے بہتر مسلمان ثابت کرنے پر بھی مصر ہیں۔ چونکہ ملک کی تقریباً ساری مسلم آبادی امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے اس لیے ان کا سال منانے کا اعلان کردیا گیا۔عالی جناب کے ادایگی حج کا خوب چرچا کیا گیا۔ کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قوم سے تقریباً ایک صدی تک کے سوشلزم مظالم، اس کی اسلامی شناخت نہیں چھین سکے، تو کوئی دوسرا بھی اسے دولت ِایمان سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں یہ حوالہ بھی بہت اہم اور   دل چسپ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے خود ایک سرکاری سروے میں اس امر پر اظہارِحیرت کیا گیا کہ سوشلسٹ عہد میں جینے والے ۸۰ فی صد مسیحی اپنا عقیدہ چھوڑ کر اللہ کے انکاری اور ملحد ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان آبادی کے ۸۰ فی صد سے زائد افراد اپنے مذہب پر مضبوطی سے جمے رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں (ازبکستان، قازقستان، قرغیزستان ، ترکمانستان، تاجکستان) میں مسلمانوں کی تعداد ۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔

۱۹۹۲ء میں ایک ضعیف ولاغر باباجی منصورہ آئے تو شکستہ عربی بول رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا آپ کو تو قرآن کریم تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آپ نے ایمان ہی نہیں قرآن کی زبان تک کی حفاظت کیوں کر کی؟ ہم تہ خانوں میں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور آدھی رات کے بعد اپنے بچوں کو جگا جگا کر انھیں قرآن کریم کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی نسلوں کے دل میںبھی ایمان کی آبیاری کی ہے،  اسلام سے محرومی نے دل کی پیاس مزید بڑھا دی تھی، باباجی نے جواب دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کی اکثر آبادی گھروں میں بھی عربی زبان بولتی ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔