اخبار اُمت


تحریک نہضت تیونس کے سربراہ الشیخ راشد الغنوشی دار الحکومت کے اہم میدان ’قصبہ‘ میں ملین مارچ سے خطاب کررہے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے کہا کہ: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے‘‘ تو چند لمحے کی حیرت کے بعد پورا مجمع نعروں سے گونج اُٹھا۔ شور تھما تو انھوں نے اپنا جملہ دہراتے ہوئے کہا: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں ان کے دروازوں کے راستے آیا کرو‘‘۔ حکومت میں آنے کا دروازہ، انتخابات ہیں۔ ہم نے طویل جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کے بعد جابر ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کی ۔ پھر انتخابات میں عوام نے ہم پر اظہار اعتماد کیا۔ اب بھی اگر کوئی تبدیلی چاہتا ہے، تو انتخابات ہی راستہ ہے۔ تیونسی عوام اب دوبارہ کسی مہم جو کو امن و آزادی کی یہ راہ کھوٹی نہیںکرنے دیں گے۔ مجمع ایک بار پھر پُرجوش نعروں سے گونج اٹھا۔

مصر میں جمہوریت پر فوجی ڈاکا زنی کے بعد اب تیونس میں بھی اپوزیشن کو ہلہ شیری دی جارہی ہے۔ عرب سرمایہ، مغربی سرپرستی میںسازشیں اور مار دھاڑ پر مبنی تحریک ایک ایسے وقت حکومت گرانے کی کوششیں کررہی ہے کہ جب ٹھیک دو سال قبل (۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء) کو منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ تیونسی عوام کو ۵۴سالہ ڈکٹیٹرشپ سے جنوری ۲۰۱۱ء میں نجات حاصل ہوئی تھی۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی تحریک ’تحریک نہضت‘ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے منتخب ہوئی۔ اسے ۲۱۷ کے ایوان میں ۸۹ نشستیں حاصل ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی بائیں بازو کی پارٹی ’حزب المؤتمر‘ کو ۲۹، ایک تیسری پارٹی کو ۲۶ اور چوتھے نمبر پر آنے والی ’حزب التکتل‘ کو ۲۰ نشستیں ملیں۔ تحریک نہضت نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی نہ ہونے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جلا وطن رہنما منصف المرزوقی کی ’حزب المؤتمر‘ اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ المرزوقی کو صدر مملکت اور التکتل کے سربراہ مصطفی بن جعفر کو اسپیکر بنادیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور وضع کرنا، اور حکومت نے کرپشن کے خاتمے اور عوامی مسائل حل کرنے کی کچھ نہ کچھ مساعی شروع کردیں۔ لیکن مصر کی طرح یہاں بھی اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھوں نے مستقل اور مسلسل بحران کھڑے کیے۔ اب، جب کہ اسمبلی کی مدت میں تقریباً چھے ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، اور دستور کی ایک آدھ شق کے علاوہ باقی سب پر اتفاق راے ہوگیا ہے، اپوزیشن نے وہ تمام ہتھکنڈے آزمانا شروع کردیے ہیں، جن کا نتیجہ تباہی اور خوں ریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

چند ماہ پہلے بائیں بازو کے ایک اپوزیشن لیڈر شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کی آگ بھڑکا دی گئی۔ حکومت نے مذاکرات کیے۔ اپوزیشن کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے وزیراعظم، وزراے داخلہ، خارجہ اور انصاف کو تبدیل کردیا۔ عوام کو اُمید ہوئی کہ بحران ختم ہوا، اب حکومت  اصل کام پر توجہ دے سکے گی۔ آگ قدرے ٹھنڈی ہونے لگی تو ۲۵ جولائی کو ایک اور اپوزیشن لیڈر، رکن اسمبلی محمد البراہمی کو قتل کردیا گیا۔ ساتھ ہی تقریباً ۶۰؍ارکان پر مشتمل اپوزیشن نے اسمبلی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے دیا۔ ۲۱ سے ۲۴؍ اگست تک بھرپور  عوامی احتجاج کی کال دی گئی۔ مطالبہ پھر یہی تھا کہ حکومت ختم کی جائے اور اسمبلی کالعدم قرار دی جائے۔ کچھ افرادملک کی انتظامی عدالت میں بھی چلے گئے کہ جس طرح مصر کی دستوری عدالت نے اسمبلی توڑی تھی، یہاں بھی توڑ دی جائے۔

تحریک نہضت اور حکومت نے صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو پھر سے مذاکرات کی دعوت دی، اور یہ تجویز پیش کی کہ ملک میں جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے لیے اگراپوزیشن چاہے تواس کے مطالبات پرعوامی ریفرنڈم کروالیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے انکار کردیا۔ شاید اس لیے کہ اسے عوام میں اپنی حیثیت بخوبی معلوم ہے؟ وہ چاہتی ہے کہ ریفرنڈم یا منصفانہ عام انتخابات کے بجاے مار دھاڑ، خون خرابے، ٹارگٹ کلنگ، نام نہاد عدالتوں، اندر و نی خفیہ ہاتھوں اور بیرونی آقاؤں کے سرمایے اور سرپرستی کے ذریعے منتخب حکومت ختم کردی جائے۔ پھر عبوری حکومت کے ذریعے اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں۔اس تناظر میں آیندہ چند ہفتے، تیونس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کریں گے۔

اس نازک موڑ پر تحریک نہضت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ یہ تک تسلیم کرلیا کہ اگر حکومت گرانا ہی چاہتے ہو تو ہم خود حکومت چھوڑ دیتے ہیں۔ تمام پارٹیاں مل کر عبوری قومی حکومت تشکیل دے لیں، قومی الیکشن کمیشن تشکیل دے دیں اور فوری طور پر عام انتخابات کروالیں۔ حالیہ مذاکرات میں ایک طرف تحریک نہضت کی قیادت میں حکمران اتحاد ہے اور دوسری طرف مزدوروں اور حقوق انسانی کے نام پر قائم چار این جی اوز ہیں۔ بن علی کی باقیات اور بیرونی آقا  انھی غیر سرکاری تنظیموں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ان عرب ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط و منظم نہیں ہوسکیں۔ تیونس میں سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی دی جاچکی ہے لیکن    سیاسی جماعتوں کی تشکیل مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہے۔ تقریباً اڑھائی سال کے عرصے میں ۱۴۰سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی عوامی تائید نہیں رکھتی۔ میدان میں اگر کوئی حقیقی قوت باقی ہے، تو اللہ کی توفیق سے وہی اسلامی تحریکیں ہیں جنھیں نصف صدی تک کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اپوزیشن نے مذاکرات کی میز پر تو حکومت سے اتفاق کرلیا۔ لیکن پھر اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تاحال قومی حکومت اور قومی الیکشن کمیشن تشکیل نہیں دے سکیں۔ تحریک نہضت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ حکومت ایک امانت ہے کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ پر، مستقبل کا واضح نقشۂ کار طے کیے بغیر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں، اگر امانت سنبھالنے کا متبادل انتظام ہوجائے، تو حکومت میں ایک دن زیادہ نہیں رہنا چاہیں گے۔

سازشی عناصر اب بھی باز نہیں آئے ،ایک بار پھر خوں ریزی کا سہارا لے رہے ہیں۔پہلے ایک چوکی پر حملہ کرکے چھے فوجی شہید کردیے گئے، پھر پولیس کے دو سپاہی شہید کردیے گئے۔ عیدالاضحی کے بعد قتل ہونے والے ان پولیس والوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے صدر مملکت، وزیراعظم اورا سپیکر، یعنی حکومت کے تینوں ستون پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، لیکن ان کے خلاف مسلسل ۲۰منٹ تک نعرہ بازی کرکے انھیں نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ البتہ وزیر داخلہ نماز  میں بھی شریک رہا اور تدفین میں بھی۔ واضح رہے کہ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جو شکری بلعید کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں لائے گئے تھے( نہ جانے اکثر مسلمان ممالک میں وزراے داخلہ پر ایک بڑا سوالیہ نشان کیوں لگ جاتا ہے) ۔ ماحول میں ابھی ان دو سپاہیوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی حدت باقی تھی، اسی دوران حکومت اپوزیشن مذاکرات بھی چل رہے تھے، ۲۳ اکتوبر کی شام وزیراعظم علی العریض ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان کرنے کے لیے پریس کانفرنس کرنے والے تھے کہ ہر طرف بریکنگ نیوز چلنے لگی: ’سیدی بوزید‘ میں چھے مزید پولیس والے قتل کردیے گئے۔ ’سیدی بوزید‘ ہی وہ قصبہ ہے جہاں بوعزیزی نامی نوجوان پر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج ہوا، جو بعدازاں پوری عرب بہار کا نقطۂ آغاز بن گیا تھا۔یہ سب قتل و غارت  تحریکِ نہضت کی حکومت کو ناکام بنانے اور گرانے کے لیے کی جارہی ہے۔ قاتلوں نے ثابت کرنا ہے کہ اسلامی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔حکومت چلانا اس کے بس کی بات نہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ صدر مرسی ہوں یا تیونسی حکومت، دونوں پر کسی طرح کے جرم کا الزام نہیں ہے۔ دونوں جمہوریت کا دوام و استحکام چاہتے ہیں۔ دونوں نے ملک میں کرپشن کے خاتمے اور تعمیروترقی کا آغاز کیا۔ دونوں نے خواتین اور اقلیتوں کو ان کا اعلیٰ مقام عطا کیا۔ تیونس میں تو ۴۹خواتین ارکانِ پارلیمنٹ میں سے ۴۳ کا تعلق تحریکِ نہضت سے ہے۔ دونوں نے ترجیحات کا درست تعین کرتے ہوئے جبروتشدد پر مشتمل پالیسیاں اپنانے کے بجاے اصلاح و سدھار کے دُور رس اقدامات پر توجہ دی۔ ایسا دستور اور قوانین وضع کیے کہ جن پر عمل درآمد ازخود ملک و قوم کو خوش حالی اور دوجہاں کی کامیابی سے ہم کنار کردیتا۔ اب یہی اخلاص و عمل ان کا قصور ثابت کیا جا رہا ہے۔  خود قتل و غارت اور فتنہ و فساد کے مرتکب ان پر ناکام و مفلوج ہونے کا الزام تھونپ رہے ہیں۔

مصر ہو یا تیونس، لیکن مخالفین کے یہ اوچھے ہتھکنڈے انھی پر اُلٹ رہے ہیں۔ مصر میں بھی تمام تر سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مغربی اور صہیونی اخبارات تک بھی اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب ناکام ہوگیا۔ ہزاروں بے گناہ قتل کردیے جانے کے باوجود فوج مخالف مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خونی جنرل سیسی کا تشخص سنوارنے اور اس کا اقتدار بچانے کے لیے ابلاغیاتی جنگ عروج پر ہے۔ جنرل سیسی کو صدارتی اُمیدوار بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ نعرہ لگایا جارہا ہے: کَمِّلْ  جَمِیْلَکَ، ’’اپنی حسن کارکردگی مکمل کیجیے‘‘، گویا شہریوں کا قتل کوئی احسان ہے۔ لیکن عوام نے اپنے لہجے میں جواب دیا ہے: اَلسَّیسِی بَیُہِیِّسْ، عَایِزْ یَبْقٰی رَیِّسْ،’’ سیسی پاگل پن کا شکار ہوگیا، صدر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے‘‘۔ عوام ہی نہیں بیرونی دنیا سے بھی صدر مرسی کی تائید کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔ برازیل کی خاتون صدر ڈیلما روزیف نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور برازیل کے مابین ایسے کئی اہم ترین معاہدے طے پاچکے تھے کہ جن سے دونوں ملک اور ان کے عوام بے پناہ فوائد حاصل کرسکتے تھے۔ مصر اور برازیل ترکی کے تعاون سے کئی بڑے زرعی اور صنعتی منصوبوں کا آغاز کرنے والے تھے جن میں جدید ترین طیارے اور متوسط طبقے کے لیے گاڑیاں بنانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل آج بھی صدر مرسی ہی کو مصر کا اصل اور حقیقی سربراہ قرار دیتا ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ء میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ کا افتتاح کرنے کی دعوت بھی حال ہی میں صدر محمد مرسی کے نام بھیجی ہے، جنرل سیسی یا اس کے کسی گماشتے کے نام نہیں۔

مصر میں فوجی انقلاب کا سامنا کرنے والی فقید المثال عوامی تحریک نے تیونس میں تبدیلی کی خواہاں طاقتوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ وہاں فی الحال مصر جیسے کسی ایسے فوجی انقلاب کا خطرہ مول نہیں لیں گی، جسے عوام مسترد کردیں اور تیونس بھی مصر کی طرح مسلسل انتشار کا شکار ہوجائے۔ تیونس میں کسی انتشار اور اسلامی تحریک کی قیادت میں عوامی احتجاجی تحریک سے یورپ بھی خوف زدہ ہے ۔کیونکہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر واقع تمام یورپی ممالک، شمال مغربی افریقہ میں پیدا ہونے والی اضطراب کی ہر لہر سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اگرچہ تیونس کی ڈکٹیٹر شپ مصری فرعونوں سے بھی بدتر تھی، لیکن وہاں کے عوام اور فوج مصری عوام اور فوج سے قدرے مختلف ہے۔ مصر میں ہمیشہ فوج ہی برسر اقتدار رہی ہے، جب کہ تیونس میں فوج نے کبھی بھی اقتدار نہیں سنبھالا۔ مصری عوام میں تعلیم کا تناسب ۷۱فی صد ہے اور ان میں سختی کا رجحان نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے۔ تیونس میں تعلیم کا تناسب ۸۱فی صد ہے اور عوام مجموعی طور پر مہذب اور شائستہ ہیں۔ مصر اور تیونس میں ایک اہم بنیادی فرق ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی ہے۔ سرزمین فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کا پڑوسی ہونا کسی خوفناک عذاب سے کم نہیں ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کے بانیوں نے اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیاد ہی پڑوسی ممالک کو اپنا دست نگر اور کمزور رکھنا قرار دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کا مستحکم اور مضبوط ہونا صہیونی ریاست میںخطرات کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے۔

جنرل سیسی کے بدترین خونی انقلاب پر بغلیں بجانے والے صہیونی ذمہ داران، اخوان کی کامیابی کے پہلے روز ہی سے یہ جان چکے تھے کہ یہ بے نفس لوگ مصر کو ایک ناقابل شکست فلاحی ریاست بنادیں گے۔ اس لیے انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر مصر سے جمہوریت کے خاتمے کی جدوجہد شروع کردی۔لیکن مصر میں جاری شان دار عوامی تحریک کے بعد، اسلام مخالف عناصر دوہری پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگراسلامی تحریکیں برسرِ اقتدار رہتی ہیں تو اس سے مسلم ممالک بھی مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں اور اسلامی تحریکیں بھی۔ اور اگر عوام کی منتخب کردہ حکومتیں گرانے کے لیے مصر والا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ اسلام مخالف عناصر کے لیے مثالی صورت حال تو مصر جیسا خونی فوجی انقلاب ،یا بشار جیسے درندے کے ہاتھوں ملک و قوم کی تباہی و بربادی ہی ہے، لیکن وہ ان تمام ہتھکنڈوں کے کڑوے پھل چکھ کر بدمزا بھی ہوچکے ہیں۔ یہ سازشی عناصر  اپنی فتنہ جوئی تو کرتے ہی رہیں گے، لیکن حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔

عین ممکن ہے کہ تیونس میں تحریک نہضت کی حکومت آیندہ چند ہفتوں میں ختم ہوجائے ، لیکن بالآخروہاں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ منصفانہ انتخابات جب بھی ہوئے وہاں ایک مستحکم اور خداخوف حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن تر ہوں گے ان شاء اللہ۔ آیئے معروف امریکی دانش ور  نوم چومسکی کے الفاظ بھی پڑھ لیجیے، انھوں نے یہ گفتگو امریکا کی کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کی: ’’اب تمام تر حالات و واقعات کا رخ ایک ہی جانب ہے اور وہ ہے مصر میں ایک جائز اور منتخب حکومت کی واپسی۔صدر مرسی کی واپسی ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اب تمام تر کوششوں اور مذاکرات کا اصل محور یہ ہے کہ قتل عام کرنے والے جرنیلوں میں سے کس کس کو  اور کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے میرے ذمہ دار امریکی دوست طعنہ دیتے ہیں کہ تم مرسی کو پسند کرتے ہو۔ میں جواب دیتا ہوں، ہاں میں ایک منتخب صدر کو پسند کرتا ہوں جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا داغ بھی نہیں۔ میں اخوانی نہیں ہوں بلکہ میں تو مسلمان بھی نہیں ہوں لیکن مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ مجھے جنرل سیسی کے حامی اور معروف مصری صحافی حسنین ہیکل کا فون آیا کہ میں کس طرح اتنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صدرمرسی واپس آئیں گے؟ میں نے کہا کہ اخوان کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش تو آپ لوگ اب بھی کررہے ہیں، جسے وہ مسترد کرتے ہوئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد کون سا عہدہ رہ جاتا ہے؟ میری نظر میں اس وقت مصر میں صدارت کا عہدہ خالی ہے اور ایک حقیقی منتخب صدر کی واپسی تک خالی رہے گا، خواہ فوج ہزاروں نہیں لاکھوں شہریوں کو بھی قتل کرڈالے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی اُمور کے بارے میں اپنی راے دے چکا ہوں ، جو الحمدللہ درست ثابت ہوئی ۔ اب میںاسی ہال میں کہ جس میں صدر مرسی خود پڑھاتے رہے ہیں، کہہ رہا ہوں کہ مصری صدر محمدمرسی ایک لیڈر کی حیثیت سے واپس آئے گا اور مصر پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ملک کی حیثیت سے اُبھرے گا۔ ۱۰کروڑ آبادی کا ملک بچانے کے لیے، رابعہ میدان میں دی جانے والی اخوان کی قربانیاں، عوام کی طرف سے اداکی جانے والی آزادی کی قیمت ہے۔ عوام کی یہ تحریک بہرصورت کامیاب ہوگی اور اگر میری یہ بات غلط ثابت ہوئی توآپ مجھ سے میری اس بات کا حساب لے سکتے ہیں‘‘۔

مصر کے بارے میں، امریکی دانش ور کا تازہ خطاب پڑھتے ہوئے جرأت مند اور انصاف پسند تحریک نہضت کا ترانہ پوری قوت سے کانوں میں گونج رہا ہے، کہ جسے سب کارکنان بآواز بلند پڑھتے ہیں تو ہوائیں اور فضائیں بھی دم سادھ کر ہمہ تن گوش ہوجاتی ہیں:

فِی حِمَاکَ رَبَّنَا
فِیْ سَبِیْلِ دِیْنِنَا
لَا یَروعُنَا الْفَنَا
فَــتَوَلَّ نَـــصْرَنَا

وَاھْدِنَا اِلَی السَّنَنْ

 تیری پناہ میں اے ہمارے پروردگار،تیرے دین کی خاطر نکلے ہیں۔ ہمیں فنا کا کوئی خوف نہیں،   تو ہماری نصرت کا ذمہ لے لے۔ ہمیں راہ( فتوحات) دکھا۔

 

’’ہمارا ملک مسلمان ہے، لیکن پابندیاں ایسی کہ غیرمسلموں کے ہاں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ۱۸برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان مسجد میں نہیں جاسکتا۔ سرکاری اداروں یا تعلیم گاہوں میں نہ کوئی شخص چہرے پہ سنت نبویؐ سجاسکتا ہے، نہ کوئی خاتون یا بچی سرپہ اسکارف رکھ سکتی ہے۔ خواتین کو پردے کی آزادی ہے، لیکن صرف گھر کے اندر۔ گھروں میں ماں باپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم یا دیگر دینی علوم کی تعلیم نہیں دے سکتے، اگر والدین اس ’جرم‘ کا ارتکاب کرتے پکڑے جائیں، تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا مسجد کے علاوہ کہیں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ’سنگین جرم‘ بھی بھاری جرمانے کا موجب بنتا ہے‘‘___ شہروں میں نمازِ جمعہ کی اجازت ملنے کے لیے ۳۰ سے ۵۰ہزار تک اور دیہات میں ۱۰سے ۱۵ہزار تک نمازی دستیاب ہونے کا ثبوت ہو تو نمازِ جمعہ ادا ہوسکتی ہے وگرنہ نہیں۔ دینی مدارس پر پابندی ہے، صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ مدارس ہی متعین علوم پڑھا سکتے ہیں اور ۷۰اضلاع پر مشتمل ملک میں صرف ۱۷ رجسٹرڈ مدارس ہیں‘‘۔ تاجکستان میں تحریک نہضت کے صدر اور رکن اسمبلی محی الدین کبیری عالمی کانفرنس براے مسلم قائدین میں اپنا حال سنا رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ آج: حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، آزادیِ اظہار اور نہ جانے کن کن نعروں کا ورد کرنے والی دنیا میں ہورہا ہے۔

تاجکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام کے یہ مسلم رہنما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین ۲۵،۲۶ستمبر کو دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّد منورحسن کی دعوت پر مختصر وقت میں ۲۰ممالک سے ۴۰ سے زائد رہنما اور پارٹی سربراہ تشریف لائے اور اُمت محمدؐ کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ان سے نکلنے کی راہیں تلاش کیں۔ بدقسمتی سے اُمت  صرف مسائل ہی کا شکار نہیں، ایک دوسرے سے لاتعلق اور دُور بھی کردی گئی ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ۱۳۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی تقریباً اسلام آباد، کراچی جتنا، لیکن وہاں سے آنے والے مہمانوں نے بتایا کہ: ’’ہم تین روز میں لاہور پہنچے ہیں۔ دوشنبے سے کابل، کابل سے دبئی اور دبئی سے لاہور‘‘۔یہی حال موریتانیا سے تشریف لانے والے علامہ محمدالحسن الدیدو کا تھا۔ وہ دارالحکومت نواکشوط سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم، وہاں سے استنبول، وہاں سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ علامہ محمدالحسن موریتانیا ہی نہیں، عالمِ عرب کے انتہائی قابلِ احترام عالمِ دین ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث کے متون (texts)، پوری پوری اسناد کے ساتھ حفظ ہیں۔ یہ بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں حدیث اس بندۂ فقیر نے اپنے استاد فلاں، انھوں نے فلاں اور انھوں نے فلاں سے سنی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ  خود رسول اکرمؐ تک پہنچ جاتا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تعریف نہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں کتنی اہم شخصیات، اپنے اخراجات پر، طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائی تھیں۔

الاخوان المسلمون مصر کے رہنما آخری وقت تک ویزے کے لیے کوشاں رہے، لیکن انھیں ویزا ملا تو کانفرنس کا پہلا روز گزرجانے کے بعد۔ اسی طرح الاخوان المسلمون شام کے سربراہ بھی آخری لمحے تک ویزا حاصل نہ کر  سکے۔ یہاں پر ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے دیگر تمام مہمانوں کو ویزا دینے میں پورا تعاون کیا اور اکثر ویزے بلاتاخیر مل گئے۔

کانفرنس میں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، اراکان کے حالیہ بحرانوں کے علاوہ اُمت کو درپیش دیگر سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ امیرجماعت سیّدمنورحسن نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مہمانوں کو دعوتِ مشاورت دی۔ الاخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مصر کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’اگرچہ قتل و غارت اور گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں، لیکن باعث ِا طمینان امر یہ ہے کہ مصری عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کو مسترد کردیا ہے۔ اب بھی روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں۔  ہفتے میں کم از کم دوبار ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے یونی ورسٹیاں کھل جانے کے بعد اس تحریک میں ایک نئی روح دوڑگئی ہے۔ حکومت نے جابرانہ آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے بلانوٹس گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، لیکن طلبہ خوف زدہ ہونے کے بجاے مزید فعال ہورہے ہیں۔

 اخوان کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلینے کے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’اس سے پہلے بھی ۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۴ء بھی اخوان کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن الحمدللہ ان کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکی‘‘۔ جنرل سیسی کے مضحکہ خیز اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’’عجیب منطق ہے۔ پہلے اخوان کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پھر اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب ان گرفتارشدگان پر یہ مقدمات چلائے جارہے ہیں کہ ان کا تعلق ایک غیرقانونی تنظیم سے ہے‘‘۔

شام کی صورت حال پر بھی سب نے تفصیلی بات کی۔ ۱۹۷۰ء سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسدخاندان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے گذشتہ پونے تین سال کے عرصے میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد بے گناہ انسان  تہِ تیغ کردیے ہیں۔ بظاہر شام کے مسئلے پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن عملاً دونوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے شام کی مزید تباہی، اور شام کو اس کی قوت کے تمام مظاہر سے محروم کردینا۔ ۲۱؍اگست کو ڈکٹیٹر بشارالاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ڈیڑھ ہزار افراد کے قتلِ عام کے بعد، پورے خطے میں عالمی جنگ کا ایک ماحول بنا دیا گیا۔ امریکا اور روس بھی آمنے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دیے۔ پھر بالآخر جو مقاصد، امریکا جنگ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا، روس نے مذاکرات کے ذریعے حاصل کروا دیے اور اب اقوامِ متحدہ نے بھی کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد بشار جیسے درندے کا خاتمہ نہیں، شام کو اس کی کیمیائی صلاحیتوں سے محروم کرنا تھا، کیونکہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شام کی صورت حال دنیا کے دوہرے معیار بھی مزید بے نقاب کررہی ہے۔ وہی دنیا جس نے ڈیڑھ ہزار افراد کے قتل کو بنیاد بناکر پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل پر صرف بیان بازی کررہی ہے۔ سنگین ترین بات یہ ہے کہ اس وقت یہی عالمی قوتیں شام کی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی ۱۹۱۶ء کے سایکس، پیکو (فرانسیسی اور برطانوی وزیرخارجہ) معاہدے کی طرح کیری،لافروف (امریکی اور روسی وزیرخارجہ) معاہدہ بھی مسلم خطے کو تقسیم کرتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ باب بنادے ۔

تیونس سے تحریک نہضت کے بزرگ رہنما اور نائب صدر عبدالفتاح مورو اپنے وفد کے ساتھ شریک تھے۔ انھوں نے جہاں دعوت و تربیت کے میدان میں تحریکات کو درپیش مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا، وہیں تیونس کی منتخب حکومت ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کی ماردھاڑ پر مبنی تحریک کا خلاصہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ: ’’گذشتہ چند ماہ میں مختلف اپوزیشن رہنمائوں کو قتل کرکے اس کی آڑ میں سیاسی بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن صرف ۶۰ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اپنی ہی برپا کی ہوئی اس قتل و غارت کو بنیاد بناکر اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے گذشتہ تقریباً دوماہ سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دستور کا مسودہ بھی تقریباً تیار ہے، لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کے زیرسایہ حقیقی انتخاب ہوگئے، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تیونس میں فوجی انقلاب کا امکان تو ان شاء اللہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تحریک نہضت کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ شیخ راشد الغنوشی کی قیادت میں تحریک نہضت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات بھی کررہی ہے اور کوشش ہے کہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے بحران سے نکلا جائے یا پھر تحریکِ نہضت حکومت چھوڑ دے اور انتخابات کو ان کے نظام الاوقات کے مطابق اور منصفانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے‘‘۔

۷۲سالہ عبدالفتاح مورو نے ایک واقعہ سناکر تحریکات کو متوجہ کیا کہ ہمیں معاشرے کے کسی بھی فرد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس سے خیر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بتانے لگے کہ: ’’گذشتہ دور میں حکومت نے ہرطرف شراب نوشی اور فحاشی و تباہی کا دور دورہ کردیا۔ ہم ایک بار مسجد گئے تو وہاں ایک شرابی بھی صف میں آکر کھڑا ہوگیا۔ نشے میں دھت اور منہ سے بدبوکے بھبھکے…     ہم نے کوشش کی کہ وہ مسجد سے نکل جائے تاکہ ہم سکون سے نماز ادا کرسکیں، لیکن وہ اڑ گیا کہ نہیں، میں نے بھی نماز پڑھنا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ چلیں اسے چھوڑیں اور اس سے چند گز دُور جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز شروع ہوئی، وہ نشئی بھی نماز پڑھنے لگا۔ ہم سب نے سلام پھیر لیا، لیکن وہ سجدے ہی میں پڑا رہا۔ معلوم ہوا کہ تیسری رکعت کے سجدے میں اس کی روح پرواز کرگئی تھی۔ ہم سب کے دل سے دعا نکلی کہ پروردگار اسے معاف فرما، آخری لمحے تو تیرے دربار میں حاضر ہوگیا تھا‘‘۔

بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سب شرکا تشویش و الم کا شکار تھے۔ سب نے وہاں جاری مظالم اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر پوزیشن رہنمائوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کی مذمت کی۔ اب تک اس ضمن میں جو صداے احتجاج انھوںنے بلند کی تھی اس کے بارے میں بھی آگاہی دی اور آیندہ کے لیے حکمت عملی بھی۔ سب کو تشویش تھی کہ اگر حال ہی میں عبدالقادر مُلّا کی عمرقید کو سزاے موت میں بدلنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا، تو برادر اسلامی ملک میں بھڑکتی ہوئی احتجاجی آگ مزید پھیل جائے گی۔ یہ انتقامی سیاست نہ صرف ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردے گی، بلکہ قوم کو بھی مزید بُری طرح تقسیم کردے گی۔

کانفرنس میں اراکان [برما] کے بے نوا مسلمانوں کی زبوں حالی، اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں، مسئلۂ کشمیر، افغانستان و عراق پر امریکی قبضے اور تہذیبی یلغار کے حوالے سے بھی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی استعماری قبضے کے خاتمے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی اور عبادت گاہوں اور معصوم شہریوں کو دھماکوں کا نشانہ بنانے پر بھی۔ اللہ تعالی کا انعام تھا کہ تمام تحریکات ان تمام موضوعات پر یک آواز اور یک سُو تھیں۔

افتتاحی خطابات اور پھر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی پہلا نکتہ یہی رکھا گیا کہ: ’’تمام اسلامی تحریکیں اپنے یومِ تاسیس ہی سے پُرامن جدوجہد پر استوار ہوئی تھیں۔ تقریباً ایک صدی کی جدوجہد کے دوران (اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی) اسلامی تحریکوں پر ابتلا و عذاب کے پہاڑ توڑے گئے، کالعدم قرار دیا گیا، پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اسی پُرامن راستے سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ آج مصر اور تیونس میں ان کی کامیابیوں پر ڈاکازنی کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر میں خون کی ندیاں رواں ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سب اسلامی تحریکیں اپنی پُرامن جدوجہد کے بارے میں مزید یک سُو ہوئی ہیں اور وہ اسی راہ پر چلتے رہنے کا عزم رکھتی ہیں‘‘۔

حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خصوصی نمایندہ ڈاکٹر محمد نزال اور مقبوضہ کشمیر سے غلام محمد صفی اور قائم مقام امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر نورالباری کی موجودگی میں سب نے اس پر بھی اتفاق راے کا اظہار کیا کہ جہاں استعماری قوتیں قابض ہوں وہاں ہرممکن طریقے سے مزاحمت و جہاد، ان عوام کا قانونی و دینی فریضہ ہے۔ پوری اُمت کو ان کی مکمل پشتیبانی کرتے رہنا چاہیے۔

قیم جماعت لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا۔ اس میں تمام نکات کا احاطہ کرلیا گیا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسلامی تحریکوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو یک جا اور یک جان کرنے کے لیے ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جو ان شاء اللہ مسلسل اور مستقل و مربوط مساعی منظم کرے گا۔

الحمدللہ! ملایشیا اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور موریتانیا تک کی یہ تحریکیں جو کئی ممالک میں حکومتوں کا حصہ ہیں، اُمت اور بالخصوص پاکستان کی پشتی بان بن کر شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اسی جانب مراکش میں اسلامی تحریک کے سربراہ محمد الحمداوی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ: ’’یہ صرف چند افراد کا اجتماع نہیں، یہاں آج گویا اُمت کے کروڑوں عوام جمع ہیں۔ میں مراکشی بھی ہوں اور اب خود کو پاکستانی بھی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔

ہرحوالے سے اس کامیاب عالمی کانفرنس نے مصرو شام کے علاوہ بھی ہرجگہ مظلوم عوام کو  یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں، لیکن بدقسمتی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مصری اور بعض عرب ممالک کے میڈیا نے اس کانفرنس کے بارے میں وہ جھوٹ گھڑے کہ خود جھوٹ بھی ان سے پناہ مانگ رہا ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو، جسے کئی عالمی ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا، مصری ذرائع ابلاغ نے ایک خفیہ کانفرنس بنادیا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس کو اخوان کی ایک کانفرنس کہا، اور اسے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کے خفیہ منصوبے بنانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس قرار دے دیا۔ ایک چینل نے تو اسے پاکستانی حکومت و مقتدرہ کا شاخسانہ قرار دے دیا جو مصر میں مسلح تحریکیں برپا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی پوری عرب دنیا میں اُمت کی اس اہم کانفرنس کی خبر پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اب اصل پیغام بھی مسلسل پہنچ رہا ہے۔

 

ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش  کم ہی رہ جاتی ہے۔

ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔

جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد  سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی  سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر  کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔

برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:

میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں  انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے  بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔

مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔

[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔

جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔

تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔

میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے   اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:

Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔

انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔

لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین،  مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔     اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔

۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے   فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)

جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔


جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔

۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے  تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔

یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔

 

ایران میں جمہوریت کا تسلسل صدارتی انتخابات کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ۳ کروڑ ۷۰لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے اور ۵۱فی صد ووٹ حاصل کرنے کے بعد حسن رُوحانی صدر منتخب ہوگئے۔ خبررساں ایجنسی رائٹر کے نامہ نگار کے مطابق: ’’انتخابات حیران کن حد تک شفاف اور آزادانہ تھے اگرچہ ۱۰لاکھ لوگ ووٹ نہ ڈال سکے‘‘۔

صدارتی نتائج کی اطلاع آنے کے بعد برطانیہ کے دفترخارجہ نے نئے صدر کا خیرمقدم کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ’’بین الاقوامی برادری کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو تحفظات ہیں، وہ اُس پر توجہ دیں گے، نیز ایرانی عوام کی انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے جو تمنائیں ہیں اُنھیں پورا کریں گے‘‘۔ برطانوی حکومت نے جس قدر ایرانی شہریوں کے سیاسی حقوق کی بات کی ہے کاش اِتنی ہی فکر شام، مصر ، افغانستان اور جموں و کشمیر کے عوام کی بھی کرتے۔

واشنگٹن پوسٹ میں جے سن رضاعیان نے اپنے مضمون ’ایران کے صدر کو درپیش ’اہم معرکے‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’مُلائوں‘ سے لے کر روشن خیال طبقے تک نے حسن رُوحانی کوووٹ دیے ہیں۔ مختلف طبقات نے اُن سے مختلف اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ صدر حسن رُوحانی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور منتخب ہونے سے پہلے وہ  اہم اقتصادی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اُن کے لیے دوسرا بڑا چیلنج سیاسی قیدیوں کی رہائی، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی حدود کا تعین اور جدید و قدیم راے دہندگان میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک کی سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نئے صدر کی موجودگی میں اپنا جوہری پروگرام لپیٹ کر رکھ دے۔ اُنھیں کامل یقین ہے کہ امریکا، روس کے پاس سیکڑوں جوہری ہتھیار ہیں لیکن وہ ’محفوظ ہاتھوں‘ میں خیال کیے جاتے ہیں۔ ایسی ایرانی حکومت اُن کا خواب ہے کہ جو واشنگٹن و لندن سے موصول ہونے والی ہدایات پر خاموشی سے عمل درآمد کرے۔ عالمی طاقتوں کا چھوٹا سا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایرانی حکومت، علاقائی معاملات میں بھی مداخلت سے پرہیز کرے۔ نئے صدر نے کیا طرزِعمل اختیار کرنا ہے؟ اس کی عملی وضاحت کا سب کو انتظار ہے۔

امام انقلابِ ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں ہونے اور متعد بار   جیل جانے کے باوجود، حسن رُوحانی کی یہ پختہ سوچ ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے بھرپور ملک کو    ’چند سرکردہ افراد‘ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی اس سوچ کی جو بھی تشریح کی جائے، راے دہندگان نے اسے تازہ ہوا کی لہر سمجھا ہے۔ طبقۂ علما اس کی جو بھی تعبیر کرے، موجودہ ایرانی قیادت کا نبض پر ہاتھ ہے، انتخابی نتائج سے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک تقریب میں حسن رُوحانی سے حلف لیا (اہلِ مغرب اسے ایران کی سب سے بڑی خامی سمجھتے ہیں کہ منتخب صدر سے اُوپر ’رہبر‘ کی موجودگی جمہوریت، پارلیمان اور صدارتی نظام کی توہین ہیں، اہلِ ایران کو اس اعتراض کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے)۔ پارلیمنٹ کی منظوری اور رہبر خامنہ ای سے حلف برداری کے بعد کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں حسن رُوحانی نے کہا کہ ہم سب نے مل کر ایران کو خوش حال بنانا ہے اور لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔ کابینہ میں ۱۵؍افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ سابقہ روایات کے برعکس اِن میں اپنے اپنے شعبے کے عملی ماہرین کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ اِن کی اکثریت، امریکا و یورپ میں زیرتعلیم رہی ہے۔ تاہم تین افراد کی نامزدگی مسترد کردی گئی۔ اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ’زیادہ اصلاح پسند‘ ہیں۔

عالمی برادری کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، نیز جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ نوجوان نسل نے کھلم کھلا ’طبقۂ علما اور روایت پسندوں‘ کو تمام مشکلات کا سبب قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔   حسن رُوحانی کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ معتدل ہیں، تنقیدی ذہن رکھتے ہیں، تاہم اصلاح پسند بھی ہیں۔

اسرائیلی روزنامے ہآرٹز کا تجزیہ ہے کہ سابق صدر احمدی محمود نژاد کے مقابلے میں شیعہ عالم دین حسن رُوحانی کو جدت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ کس قدر جدیدیت پسند ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد حسن رُوحانی نے اپنے غیرمعمولی خطاب میں کہا کہ ’’جو ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ برابری، اعتماد سازی، باہمی احترامِ اور دشمنی و جارحیت کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مثبت ردعمل چاہتے ہیں تو ایران کے ساتھ پابندیوں کی زبان میں بات نہ کریں بلکہ احترام کی زبان میں بات کریں‘‘۔

ایرانی صدر کے اس دوٹوک خطاب کے چند گھنٹے بعد ہی وائٹ ہائوس کے ترجمان Jay Carney کا ردعمل سامنے آگیا: ’’صدر رُوحانی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کو ایک اور موقع مل گیا ہے کہ وہ فوری اقدام کرے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے جو تحفظات ہیں اُس کے تدارک کی کوشش کرے۔ اگر یہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ، ہمہ وقتی طور پر عالمی برادری کی توقعات پر پورا اُترتی ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرتی ہے تو وہ امریکا کو ہرلمحے اپنا دوست و شریک پائے گی‘‘۔

حسن رُوحانی اور اُن کی کابینہ اس پیش کش کا کیا جواب دیتی ہے۔ اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ امریکا ایران میں اور جوہری مسئلے سے متعلق ممالک میں مذاکرات میں بہتری آئے اور بیان بازی میں بھی شدت نہ رہے۔ یاد رہے اگر ایران نے جوہری پروگرام ترک کرنا ہوتا تو اقتصادی پابندیوں کو کیوں گلے لگاتا۔

موجودہ وزیرخارجہ محمد جواد ظریف، جوا قوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر رہے ہیں، کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم رہنے، طویل سفارتی تجربے اور اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے کے سبب وہ اقتصادی پابندیاں ختم کرانے اور جوہری پروگرام کے بارے میںبااعتماد اصولی معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

حسن رُوحانی ۱۲نومبر ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ عرصۂ دراز سے اُن کی شناخت شیعہ مجتہد، مسلم عالم دین، اُستاد، سفارت کار اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ابتدائی ساتھیوں کی ہے۔ اُنھوں نے سمنان اور قُم کے حوزۂ علمیہ سے دینی تعلیم حاصل کی اور تہران یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی۔ نیشاپور میں اُنھوں نے ملٹری سروس شروع کی، بعدازاں اُنھوں نے اسکاٹ لینڈ کی کیلیڈونین یونی ورسٹی سے ایم فل اور قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ: ’اسلامی قانون سازی اختیار اور ایرانی تجربہ‘ کے موضوع پر لکھا گیا۔ وہ Assembly of Experts، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل اور سنٹر فار اسٹرے ٹیجک ریسرچ کے ۱۹۹۲ء میں سربراہ رہے۔ وہ مجلس اسلامی مشاورتی اسمبلی میں دو بار ڈپٹی اسپیکر اور سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری رہے۔

حسن رُوحانی کو بین الاقوامی سفارت کار کے طور پر غیرمعمولی شہرت حاصل ہے۔ عرب اختیارات ’سفارت کار شیخ‘ کے طور پر بھی اُن کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نمایندوں سے وہ مذاکرات کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز حسن رُوحانی کی تھی۔ کیونکہ شیعہ مذہب میں امام کا منصب اور لقب بہرحال مذہبی تقدیس کا حامل ہے اور امام عوام کے انتخاب پر منحصر نہیں ہوتا۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے بارے میں جو ایرانی ٹیم مذاکرات کررہی ہے رُوحانی اس کے سربراہ رہے ہیں۔ اُن کو نرم خُو سفارت کار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو دوسرے کی بات سننے میں قابلِ قدر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔امریکا اور مغربی دنیا نے عراق کے حصے بخرے کرنے، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے، پاکستان میں آگ و خون کی بارش برسانے کے بعد ایران سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ کئی برس سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام کا معائنہ کرائے اور فوری طور پر اس کو ترک کردے۔

۱۴ جون ۲۰۱۳ء میں ہونے والے انتخابات میں حسن رُوحانی نے ’شہری حقوق چارٹر‘ اور ’مغرب سے تعلقات بہتر کرنے‘ کا نعرہ لگایا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے عزم سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود معاشی خودمختاری پروگرام پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔

 

’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔

یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  •  ۲۹ دسمبر ۲۰۰۹ء کو انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن (IBA) نے اس کی تشکیل پر اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا (ASIL) نے وضاحت طلب کی۔
  •  ۱۵ مارچ۲۰۱۱ء کو انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس (ICTJ) نے اسے مسترد کیا۔
  • ۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء ’جنگی جرائم کے معاملے‘ پر امریکی سفیر اسٹیفن جے راپ نے اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۸مئی ۲۰۱۱ء کو ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے پورے عمل پر تنقید کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم کو خط لکھا۔
  •  ۲۱ جون ۲۰۱۱ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI) نے قانونی حیثیت پر بنیادی سوال اُٹھائے۔
  •  ۶فروری ۲۰۱۲ء یو این ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈیٹنشن (UNWGAD) نے اس ڈرامے کے خلاف رپورٹ دی۔

علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔

پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔

یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار  مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔

پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو   مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد   پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔

۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔

ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور   ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘  (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی   اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!

اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔

وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!

۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل     علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان  سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔

علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک   دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی  حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔

اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔

علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔

یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔

 

۱۵ جون کو انقرہ میںاور ۱۶ جون کو استنبول میں بلا مبالغہ لاکھوںافراد جمع تھے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوگان ان سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے یکم جون سے یہ ہنگامہ آرائی کیوں شروع کی...؟ اس لیے کہ ہم نے مئی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی تھیں.... ترکی اور ترک عوام کے دشمنوں کو یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہورہیں اور انھوں نے ایک بڑی سازش کے حصے کے طور پر میدان تقسیم سے شوروشغب کا آغاز کردیا۔ ہم نے مئی کے مہینے میں....، اور پھر وزیراعظم اردوگان نے اپنی تازہ کامیابیوں کی طویل فہرست بیان کرنا شروع کردی۔ لیکن اس فہرست کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا غور کیجیے کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکی میں لاکھوں افراد کے عظیم الشان پروگرام ہوئے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت دنیا میں ان کی کوئی خبر نمایاں نہیں کی گئی۔ کیا یہ امر بلا سبب ہے کہ استنبول کے میدان تقسیم میں چند سو افراد کی ہنگامہ آرائی اور پھر خیمے لگاکر بیٹھ جانے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اور تصویریں تو الیکٹرانک میڈیا بھی دے اور پرنٹ میڈیا بھی، لیکن لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور اس کی کوئی تصویر، کوئی خبر دکھائی، سنائی نہ دے۔ عین اسی روز کہ جب دار الحکومت انقرہ میں لاکھوں افراد طیب اردوگان کا خطاب  سن رہے تھے، ایک پاکستانی ٹی وی چینل استنبول کے میدان تقسیم سے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس کی طرف سے واٹر گن استعمال کیے جانے کے مناظر دکھا رہا تھا، انقرہ مظاہرے کا نہ کوئی ذکر ہوا اور نہ کوئی جھلک دکھائی دی۔ ذرائع ابلاغ کا یہ بھینگا پن اتفاقیہ یا عارضی نہیں، قصداً اور مستقل ہے۔

آئیے اس کے اسباب کا ذکر کرنے سے پہلے طیب اردوگان کی بات مکمل کرتے ہیں۔   وہ کہہ رہے تھے: انھوں نے یکم جون سے اس لیے ہنگامہ آرائی شروع کی کیوں کہ ہم نے مئی میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی آخری قسط (۴۱۲ ملین ڈالر) بھی ادا کردی۔ ہم جب برسراقتدار آئے تھے تو ترکی پر آئی ایم ایف کا ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر (تقریباً ساڑھے ۲۳ کھرب روپے) کا قرض تھا۔ ہم نے نہ صرف وہ تمام قرض چکا دیا، بلکہ اب آئی ایم ایف ہم سے قرضہ مانگ رہا ہے۔ ہم جب برسراقتدار آئے تو سود کی شرح ۶۳ فی صد ہوچکی تھی۔ اب یہ شرح ۶ء۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یہ تمام سود عوام کی جیب سے ادا ہوتا اور مخصوص سودی لابی کی جیبوں میں جاتا تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ان کے یہ ذرائع آمدن مسدود کردیے ہیں، تو ان سب کو تشویش اور تکلیف ہورہی ہے کہ ترکی ان کی گرفت سے آزاد ہوگیا ہے۔ ہم نے استنبول میں ۴۶ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک تیسرے اور  عظیم الشان ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ ہم نے گذشتہ ماہ انقرہ میں جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق ترکی میں ۲۲ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا۔ ہم نے براعظم ایشیا اور یورپ کو ملانے کے لیے آبناے باسفورس کے اوپر ایک تیسرے پل کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے جس پر اڑھائی ارب ڈالر لاگت آئے گی، لیکن اس سے استنبول میں ٹریفک کا نظام مزید بہتر ہوجائے گا۔ اس پر پر سڑک کے علاوہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی۔ ترکی میں اقتصادی ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے گذشتہ ماہ استنبول اسٹاک ایکسچینج نے تجارت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب برسر اقتدار آئے تھے تو ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف لڑھک رہا تھا۔ تب ملکی خزانے میں صرف ۲۷ ارب ڈالر باقی رہ گئے تھے۔ ملک بھاری قرضوں تلے سسک رہا تھا۔ ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر تو صرف آئی ایم ایف ہی کے ادا کرنا تھے۔ اب ہم نے نہ صرف قرضوں سے نجات پالی ہے بلکہ گذشتہ ماہ ملکی خزانہ ۱۳۵؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ ہماری درآمدات کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے ملک میں قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی نئے اور حقیقی معاہدے کیے ہیں....‘‘۔

اردوگان اپنے تازہ کارناموں اور کارکردگی کی تفصیل سنا رہے تھے، لیکن باقی فہرست کو چھوڑ کر ذرا اسی آخری نکتے کا جائزہ لیجیے۔ ۸۰ ملین افراد پر مشتمل ترک آبادی میں سے کرد نسل سے تعلق رکھنے والے ۲۰فی صد بتائے جاتے ہیں۔ پوری ترک تاریخ میں کردی النسل اور ترکی النسل کا اختلاف شدت سے اٹھایا گیا ہے۔ ایک ہی ملک کے شہری اور مکمل دینی و تاریخی وحدت کے باوجود اقلیت کو ہمیشہ اکثریت سے شاکی رکھا گیا۔ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی تحریکیں اٹھانا اور انھیں ہوا دینا استعمار کا قدیم ہتھیار ہے۔ ’کرد‘ کا ایک لفظ دماغوں میں بٹھا دینے سے صرف ترکی ہی میں نہیں، چار اہم مسلم ممالک میں فتنے کی آبیاری ہوتی ہے۔ ترکی کے علاوہ شام، عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔  کسی ایک ملک میں علیحدہ کرد ریاست کا وجود ان سب ممالک میں فتنہ جوئی کا ذریعہ اور سبب بنایا جاسکتا ہے۔ ان تمام پڑوسی ممالک میں کرد تحریک نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔

 ترکی میں پی کے کے (PKK) کے نام سے برسہا برس سے مسلح تحریک فعال تھی۔ اغوا، قتل، دھماکے اور مار دھاڑ ان کا اہم ہتھیار تھی۔ انھوں نے کم و بیش ہر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ طیب اردوگان نے اس چیلنج کو ہمہ پہلو انداز سے حل کرنے کا سفر شروع کیا۔ ۱۹۹۹ء میں     پی کے کے، کے سربراہ عبداللہ اوجلان کو کینیا سے گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں ہے اور اس پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ہر دور میں نظر انداز کیے جانے والے کرد علاقوں میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع کردیا گیا۔ حال ہی میں ترکی، چین اور عراق کے مابین معاہدہ ہوا کہ عراق سے ایک تیل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ اگلے ماہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونا ہے، جس کے نتیجے میں روزانہ ۲۰ لاکھ بیرل تیل عراق سے کرد اکثریتی آبادی کے شہر دِیار بکر پہنچا کرے گا۔ خود اوجلان نے تین ماہ قبل ترکی کے خلاف تمام تر مسلح کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک حکومت نے ہتھیار رکھ دینے والے تمام افراد کے لیے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جو ہتھیار ڈالنے کے بجاے ملک سے نکل جانا چاہے، اسے نکل جانے کی بھی اجازت ہے۔ اس ساری پالیسی کے نتیجے میں صرف ترکی ہی میں نہیں ان چاروں ممالک میں کرد مسئلے کے حل کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ گویا کہنے کو تو یہ طیب اردوگان کی تقریر کا ایک جملہ ہے کہ ’’ہم نے وحدت اور قومی یک جہتی کی خاطر جنوب مشرقی علاقے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دوررس معاہدے کیے‘‘، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو یہ ترکی ہی نہیں پورے خطے سے اس نسلی اختلاف کا ناسور ختم کرنے کا آغاز ہے۔

یکم جون سے شروع ہونے والے مظاہروں کی بظاہر وجہ تو یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت استنبول کے قلب میں واقع معروف چوک ’تقسیم‘ کا نقشہ تبدیل کرکے وہاں واقع تاریخی غازی    (یا جیزی Gezy) پارک ختم کررہی ہے اور اس کے پودے اُکھاڑ رہی ہے۔ پورے چوک کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کرکے وہاں ایک تجارتی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے۔ لیکن ان تمام ہنگاموں کی اصل وجہ حکومت کی یہی سابق الذکر دُوررس اور بتدریج اصلاحات ہیں۔ تقسیم چوک کے نئے منصوبے میں وہاں موجود اتاترک کلچرل سنٹر کے قریب ایک شان دار جامع مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اتاترک سنٹر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کمال اتاترک کی روح کو تازیانے لگانے کے مترادف ہے۔

طیب اردوگان پرایک الزام یہ لگایا جارہا ہے، خود کئی پاکستانی ’شہ دماغ‘ بھی اسے دہرا رہے ہیں کہ وہ ترک قوم کو تقسیم کررہا ہے۔ یہ طعنہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ ملک کو سیکولر اور بنیاد پرستوں میں تقسیم کررہا ہے۔ اب ذرا ایک نظر دوبارہ انقرہ و استنبول کے مظاہروں کو دیکھیے جن میں لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ان مظاہروں میں ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ اردوگان اس کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’آج اس مظاہرے میں پورے ترک معاشرے کی نمایندگی ہے۔ صرف مرد ہی نہیں بڑی تعداد میں خواتین بھی ہیں۔ صرف باحجاب ہی نہیں حجاب کے بغیر بھی ہیں اور سب شانہ بشانہ کھڑی ہیں‘‘۔ جسٹس پارٹی کو جن ۵۱فی صد    عوام نے ووٹ دیے ہیں وہ سب بھی اسلام پسند نہیں۔ ان میں معاشرے کے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں لیکن کچھ لوگ آفتاب روشن کو انگلیوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔ 

بے انصاف ناقدین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اردوگان ڈکٹیٹر ہے، کسی کی نہیں سنتا، جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ طیب اردوگان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ اس کے کئی معاندین ہی نہیں بہت سارے دوستوں کا شکوہ بھی یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے۔ سیکولر دستور ختم کرنے اور ملک سے فحاشی ختم کرنے کے لیے جو کام دو ٹوک انداز سے پہلے ہی روز کرگزرنا چاہییں تھے وہ آج تک نہیں کیے۔ اردوگان ڈکٹیٹر ہوتا تو جس طرح اتاترک نے بیک جنبش قلم پردے، مسنون داڑھی، اذان اور قرآن کریم کا اصل متن تلاوت کرنے پر پابندی لگا دی تھی،  وہ بھی سیکولر دستور ختم کردیتا۔ شراب پر مکمل پابندی لگا دیتا، پہلے ہی دن سکارف پر پابندی ختم کردیتا۔ لیکن وہ ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا کرتے ہوئے عوام کو ذہناً آمادہ کرتے ہوئے، انتہائی حکمت و احتیاط سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اقتدار کے بعد انھوں نے گذشتہ مئی ہی میں شراب پر چند پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت اب مساجد، تعلیمی اداروں، یوتھ ہاسٹلز کے قریب شراب فروشی اور علانیہ شراب نوشی پر پابندی ہوگی۔ رات ۱۰ بجے کے بعد اور شاہراہِ عام پر شراب نوشی ممنوع ہوگی۔ نوعمر بچوں کو شراب فروشی منع ہوگی۔

اردوگان لاکھوں افراد کے حالیہ مظاہروں سے خطاب میں کہہ رہے تھے:’’ہم نے مسلسل صبر کیا۔ تم نے ہماری بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا ... ہم نے صبر کیا، تم نے ہمیں گالیاں دیں .... ہم نے صبر کیا۔ تم نے مساجد کی بے حرمتی کی .... ان کے اندر غلاظت پھینک دی.... مسجدوں میں داخل ہوکر شراب نوشی کی، ہم نے صبر کیا... لیکن صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے .... اب ہم عدالت و قانون کے ذریعے ان زیادتیوں کا جواب دیں گے۔ ان کے ناقدین کی نگاہ میں شاید یہی بات ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اپنے اللہ کو منانے اور انسانیت کو بچانے کے لیے ۱۰سال کے صبروتدریج کے بعد اُٹھائے جانے والے یہ معمولی اقدامات بھی سیکولر لابی کو ہضم نہیں ہورہے ۔

طیب اردوگان، جسے بعض پاکستانی اخبارات میں بھی ڈکٹیٹر اور آمر کہا جارہا ہے، کی ڈکٹیٹر شپ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے پرتشدد مظاہرہ کرنے والوں کو بھی وزیراعظم ہاؤس بلاکر ان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر واقعی آپ لوگوں کے مطالبات مبنی برحقائق ہوئے تو وہ انھیں فوراً قبول کرلیں گے۔ ڈکٹیٹر اردوگان نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر تمھیں اپنے مطالبے پر اصرار ہے تو آؤ ہم استنبول کے شہریوں میں اس پر ریفرنڈم کروالیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔

تقریباً آٹھ ماہ بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اردوگان نے اس کی مہم انتخابات سے چند ہفتے پہلے چلانا تھی لیکن ہنگاموں کی حالیہ لہر کے بعد انھوں نے ابھی سے بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم شروع کردی ہے۔ انقرہ و استنبول کے بعدانھوں نے جمعہ ۲۱ جون سے ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پروگرامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔  قرآن کریم کی حقانیت قدم قدم پر اپنی سچائی منواتی ہے:  عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا   وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، ’’ہوسکتا ہے کہ کوئی بات تمھیں بری لگ رہی ہو اور اسی میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔

  •  مصر: ترکی ہی نہیں، مصر میں بھی اخوان مخالف اپوزیشن ہنگامہ آرائی کی نئی لہر منظم کررہی ہے۔ صدر محمد مرسی نے ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ اپنے ایک سالہ عہد صدارت میں انھوں نے ملک کو پہلا حقیقی جمہوری دستور دیا۔ مصر کو دنیا میں ایک آزاد و خود مختار ملک کی حیثیت سے منوایا۔ بڑی حد تک حکومتی اداروں سے کرپشن اور لُوٹ مار کا خاتمہ کیا، تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ توانائی، زراعت اور تعمیر نو کے کئی منصوبوں کے لیے ترکی، قطر، چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کروائی۔ مصر جو گذشتہ تقریباً ۸۰ برس سے بدترین ڈکٹیٹرشپ کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، وہاں کے تمام شہریوں کو مکمل آزادی اور احترام عطا کیا۔ غزہ جو گذشتہ پانچ برس سے مکمل صہیونی حصار میں تھا، اور وہاں پہنچنے کے لیے فریڈم فلوٹیلا جیسے عالمی قافلے جانیں قربان کر رہے تھے۔ ۹ کی تعداد میں تو صرف ترک باشندے شہید ہوئے تھے۔ صدرمرسی نے غزہ جانے کا راستہ کھول کر ۱۶لاکھ فلسطینی شہریوں کی جان بچائی۔ لیکن ان کی یہی کوششیں اور کارنامے ان کا جرم بنائے جارہے ہیں۔

حسنی مبارک کی باقیات اور ان کے عالمی سرپرستوں نے پورا سال مصر میں اُودھم مچائے رکھا۔ ’مرسی کا پہلا سال‘ کے عنوان سے قائم ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ایک سال میں اپوزیشن نے ۲۴ ملین مارچ کیے، یعنی اوسطاً ہرماہ دو۔ ۵ہزار سے زائد مظاہرے اور پُرتشدد ہنگامے کیے۔ ۵۰پروپیگنڈا مہمات چلائی گئیں اور ۷ہزار سے زائد احتجاجی دھرنے ہوئے۔ اور اب ۳۰جون کو کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا جا رہا ہے: تَمَرُّد (بغاوت) کے نام سے مظاہروں اور ہنگاموں کی تیاری ہورہی ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے مل کر ایسی فضا بنا دی ہے کہ گویا کوئی خطرناک آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اپوزیشن پُرامن مظاہرے کرنا چاہے تو خواہ روزانہ کرے لیکن اس کا اصل ہتھیار   خوں ریزی اور جلائو گھیرائو ہے۔ ریہرسل کے طور پر ۱۹جون کو بھی اخوان کے مختلف دفاتر پر حملے کرتے ہوئے ۳۰۰کارکنان لہولہان کردیے گئے۔ اسی طوفان میں فوج کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دے۔ فوج کے سربراہ اور وزیردفاع عبدالفتاح سیسی نے ۲۳جون کو صدرمرسی سے ملاقات و مشورے کے بعد بیان کردیا کہ ’’فوج خاموش تماشائی نہیں رہے گی‘‘۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ’’ہنگامہ آرائی کے بجاے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائے‘‘ لیکن پاکستانی اخبارات سمیت پورے عرب اور عالمی میڈیا نے ان کا یہ بیان اس انداز سے نمایاں کیا کہ ’’فوج نے اخوان کو تنبیہہ کردی‘‘۔ دوسری طرف حسنی مبارک کے تعین کردہ جج  ایک کے بعد دوسرا متنازعہ فیصلہ صادر کیے جارہے ہیں۔ تازہ ترین فیصلے میں دستور ساز اسمبلی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کا الیکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا ہے اور صدرمرسی پر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام لگاکر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ترکی اور مصر میں یہ سب اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہو رہا۔ بیرونی آقا، فرعونی دور کی باقیات بعض مسلمان ممالک اور عالمی سرمایہ سب اس الائو پر تیل چھڑک رہے ہیں۔

دوسری جانب اردوگان کی طرح اخوان اور اس کی حلیف جماعتوں نے بھی رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے۔ ۲۱جون کو قاہرہ میں لاکھوں افراد نے ’تشدد نامنظور‘ کے عنوان سے مظاہرہ کیا ہے۔ قاہرہ کے اس عظیم الشان مظاہرے کی کوئی تصویر، کوئی خبر بھی دنیا کو دکھائی نہیں دی لیکن اخوان پُرعزم ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ دکھائیں یا نہ دکھائیں، اگر اللہ کی رضا اور عوام کی تائید اسی طرح شاملِ حال رہی تو ’آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا‘۔

 

گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ  سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

  •  اھل سنت کے مطالبات: اہل سنت کی جانب سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ حکومتی جیلوںمیں قید سنیوں خاص طور سے خواتین کو فی الفور رہا کیا جائے ۔ جیلوں میںخواتین کی عصمت دری کرنے والوںکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔دہشت گردی کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۴ میں ترمیم اور خفیہ جاسوسی کے قانون کو ختم کیا جائے، نیز اہل سنت کو سرکاری عہدوں سے دُور رکھنے کے رویے کو ترک کیا جائے۔ علاوہ ازیں ملازمتوں کے یکساں مواقع فراہم کرنے اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوںکے حوالے سے مطالبات بھی شامل ہیں۔ حکومت نے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے تو مظاہرین کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وزیر اعظم کو تبدیل کرنے اور ایسے شخص کو حکمران بنانے کے لیے آواز اٹھائیں جس پرپوری قوم اور تمام سیاسی قائدین متفق ہوں، یا یہ کہ عراق کو تین ملکوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ ہر ایک اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکے۔تیسرایہ کہ یہاں متحدہ عرب امارات کے طرز پرخودمختار ریاستیں قائم کی جائیں، یا پھر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ مظاہرین پر وحشیانہ تشدد اور انھیں بموں سے اڑانے کے مسلسل واقعات کے بعد مظاہرین حکومت گرانے یا الگ آزاد سُنّی ریاست کے قیام سے کم پر راضی نہیں ہیں۔
  • احتجاجی مظاھرے: اپنے مطالبات کے حق میںگذشتہ کئی ماہ سے اہل سنت آبادی نے ملک گیر پُرامن احتجاجی دھرنوں کا آغاز کیاہے۔ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد تمام اہل سنت مساجد سے ایک ہی موضوع پر خطبۂ جمعہ سن کر پورے ملک میں کھلے میدانوںمیں آکر جمع ہوتے ہیں۔ پُرامن مظاہروں کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے ان میںخوں ریز بم دھماکوں کا عنصر شامل کردیا گیا۔ گذشتہ ماہ کرکوک کے شہر حویجہ میں ایک احتجاجی ریلی میں شریک ۲۰۰؍ افراد کو شہید کردیا گیا۔    اس کے ساتھ پکڑدھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سُنّی مرد وخواتین سے جیلیں بھر دی گئی ہیں۔  احتجاجی مظاہروں کو کچلنے میں عراقی اور ایرانی ذمہ داران کی طرف سے عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
  • عراق کی تقسیم: عراق کی تقسیم در تقسیم کے اس منصوبے کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر مسلسل آگے بڑھایا جارہا ہے۔ کہیں کردوں اور عرب کی لڑائی ہے، کہیں پر شیعہ سُنّی جھگڑا ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔کہیں عرب اور فرس اقوام آمنے سامنے ہیں تو کہیں پڑوسی ممالک چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کی آگ بھڑکارہے ہیں۔ عراق میںیہ تمام تر اختلافات عروج پر ہیں۔

صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار  یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔

عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔

  • ایرانی مداخلت:  ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار جنرل ناصر شعبانی کا روزنامہ اخبار روز کو دیا گیا یہ بیان کہ’’ کرکوک شہر کے کھلے میدان کو باغی وہابیوں سے آزاد کروانے میں عراقی حکومت کا مکمل ساتھ دیا‘‘، عرب اخبارات اور جرائد میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔

 کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین  نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔  رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔

ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔

 

۲۰۱۲ء کے اواخر میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں عرب بہار کے پس منظر میں مسئلۂ فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس موقع پر فلسطینی رہنما خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین پر حماس کا موقف تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس اہم دستاویز کاخلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ  

تحریک مزاحمت حماس محض ایک اسلامی تحریک نہیں، بلکہ یہ تحریک آزادی فلسطین کا ہراول دستہ بھی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی دو اوردو چار کی طرح بالکل واضح ہے۔   ہم سرزمین فلسطین اوراپنی پالیسی کو درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:

                ۱-            فلسطین مشرق میں دریاے اردن سے لے کرمغرب میں بحیرہ روم تک اور شمال سے   لے کر جنوب تک فلسطینی عوام کی سرزمین ہے ۔حالات کیسے بھی ہوں، دباؤ جتنا بھی ہو، حماس فلسطین کی ایک بالشت بھرزمین سے بھی کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی۔ 

                ۲-            ہم فلسطین پرکسی قسم کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے کسی بھی حصے میں نہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اس کے کسی حق کو۔

                ۳-            آزادیِ فلسطین ہمارا قومی، ملی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ صرف عرب اور مسلم امہ کا ہی نہیں تمام انسانیت کا مسئلہ ہے۔

                ۴-            جہاد اور مسلح جدوجہد ہی آزاد ی فلسطین کا حقیقی اور صحیح راستہ ہے۔ تاہم، ہم ہر قسم کے سیاسی، قانونی اورسفارتی ذرائع کو بھی استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

                ۵-            ہم یہودیت کے پیروکاروں کے خلاف ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں لڑتے بلکہ ہمارا ہدف غاصبانہ قبضہ کرنے والے صہیونی ہیں ۔ ہم ہر اس ظالم کے خلاف لڑیں گے جو ہمارے حقوق غصب اور ہماری سرزمین پر قبضہ کرتا ہے ۔

                ۶-            ہم تمام مقبوضہ علاقوں کے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کی مکمل    تائید کرتے ہیں۔ہم اس مطالبے سے کسی طور سے دست بردار نہیںہوسکتے۔ اسی طرح  ہم فلسطینیوںکومتبادل وطن دینے کی بھی پُر زور مخالفت کرتے ہیں۔

                ۷-            ہمارے نزدیک القدس سمیت پوری مغربی پٹی ، غزہ اور۱۹۴۸ء کے مقبوضہ تمام علاقے ایک ہی وطن کے حصے ہیں۔ ہم غزہ کو مغربی کنارے سے قطعاً الگ خیال نہیں کر تے۔

                ۸-            ہم فلسطین میں یکساں سیاسی نظام اور ایک ہی قومی حکومت کے خواہاں ہیں ۔

                ۹-            ریاست آزادی کا ثمر ہوتا ہے۔ لہٰذا فلسطین کو پہلے آزاد کراناپھر اس کے پورے رقبے پر مکمل اور خودمختارحکومت کا قیام ہمار ی پالیسی ہے۔

                ۱۰-         ہم خود مختارقومی پالیسیاںتشکیل دینے کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کسی دوسرے ملک کے دست نگر اور تابع نہ ہو۔

                ۱۱-         جمہوریت کی بنیاد پرفلسطین میں قومی ادارے تشکیل دینا ہماری پالیسی ہے۔ پہلے صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں اور عوام کی راے کا احترام کیا جائے۔

                ۱۲-         دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کرنااور تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنا حماس کی بنیادی پالیسی ہے۔

                ۱۳-         ہم دینی ، نسلی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیںاور اختلاف کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سب کو امت کے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

  •  اعتراضات: کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ہماری طرف سے جنگ بندی کی پیش کش شاید مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ یقینا ان کی راے قابل احترام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس کی تیاریوں اورکاروائیوںکا سفرآزادی فلسطین تک جاری رہے گا۔وسائل وطریقۂ کار میںوقتاً فوقتاً تبدیلی کرنا اسٹرے ٹیجی کاحصہ ہے۔ غزہ سے اگرچہ دشمن اوریہودی نوآبادکار      نکل چکے ہیں پھر بھی ہم یہاں دشمن سے برسرِپیکار ہیں۔ مغربی پٹی میں اگرکئی برسوں سے مسلح جدوجہد نہیں ہورہی ہے تو وہ ہمارے عوام کی مصلحت وضرورت کی بنا پرہے۔ان شاء اللہ حالات جیسے ہی سازگار ہوںگے وہاں پر بھی مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا جائے گا۔

جہاںتک غزہ کو الگ کرنے کی بات ہے تو بخدا ہم نے بخوشی یہ نہیںکیا ۔ یہ صورت حال ہمارے او پر مسلط کردی گئی ہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے نتائج کو علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا اور ہمیں غزہ کو الگ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پہلے دن سے اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ قومی بنیادوںپر اتفاق راے سے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے زیر نگرانی مصالحت ہو اورایسا قومی ایجنڈا ترتیب دیا جائے جو مستقل اقدارپر مبنی، تمام حقوق کا پاس داراور فلسطین کے قومی مفادکا ضامن ہو۔

  •  عرب بھار اور مسئلہ فلسطین:حالیہ عرب بہار فلسطین کی آزادی اور صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ اندرونی وبیرونی طور پرمضبوط و مستحکم ہو اوراس کی خارجہ وداخلہ پالیسی آزاد وخود مختار ہو۔عرب بہار سے یہ ممکن نظر آنے لگا ہے۔ عالم عرب میں واقع ہونے والی حالیہ تبدیلیاں یقینا حماس اوردوسری فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے لیے عالمِ عرب میں کام کرنے کے مزید مواقع فراہم کریں گی۔

 عرب بہار نے اسرائیل کوبہت پریشان اور بدحواس کر دیا ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی پالیسی اور اسٹرے ٹیجی ہی تبدیل کردی ہے ۔ موجودہ     صورت حال نے حماس کے سیاسی تعلقات کا روڈ میپ بھی تبدیل کردیا ہے۔ کہیں اس کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے تو کہیںتعلقات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے مختلف عرب ممالک کے ساتھ حماس کے تعلقات مختلف نوعیت کے تھے۔لیکن عرب بہار نے ان تعلقات کو مضبوط کر دیا ہے۔

حماس کے شام کے ساتھ تعلقات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور جو کچھ اس وقت شام میں ہو رہا ہے ہم ہرگزاس پر راضی نہیںہیں۔خدا گواہ ہے اور تاریخ اسے ثابت کرے گی کہ ہماری شروع ہی سے خواہش تھی کہ معاملات اس رخ پر نہ جائیں جس پر اب چل رہے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ شام پرامن ،مضبوط اور طاقت ور رہے باوجود یکہ تحریک مقاومت کے خلاف اس کی پالیسی پچھلے  کئی سال سے مخاصمت پر مبنی تھی جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔

مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ حماس کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں لیکن فلسطین اور فلسطینی مزاحمت ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے۔ جب حماس کی قیادت اردن میں تھی، اس وقت بھی اس نے اپنا مزاحمتی کام جاری رکھا۔ پھر جب ہم قطر اور شام میں منتقل ہو گئے اوراس کے بعد دوسرے ممالک جیسے مصر میں چلے گئے تب بھی حماس مزاحمتی تحریک ہی رہی،اور فلسطین کی آزادی تک ان شاء اللہ اس کا یہی طرز عمل رہے گا۔ عرب بہار اور عالم عرب میںواقع ہونے والی تبدیلیوں نے کچھ وقت کے لیے دنیا کی نظریں مسئلہ فلسطین سے ہٹادی ہیںجو یقینا ایک نقصان ہے لیکن یہ عارضی نقصان ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ عرب عوام اگرچہ اپنی داخلی پریشانیوں میں مصروف ہیںمگر اس کے باوجود فلسطین ان کے دلوں اور نعروں میں موجود ہے۔

  •  عرب بھار اور درپیش چیلنج: عرب ممالک کو درپیش چیلنجوںکے حوالے سے میں کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں:

۱-داخلہ اور خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنا چاہیے اور صرف اپنے مفادات کے    گرد نہیں گھومنا چاہیے۔ ملکی مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی  خارجہ پالیسی کو تقویت ملتی ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں موقف کمزور پڑ جاتا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ بڑے بڑے مسائل کے لیے کوشش کرنا، نہ صرف علاقائی سطح پرآپ کی آواز کو مؤثر بنادیتا ہے بلکہ بین الاقوامی کردار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔

۲- اُمت کے مسائل کا حل صرف اپنے ممالک کی حد تک سوچنے میںنہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ اور عالمِ عرب کا ایک دوسرے سے تعاون اور اتحاد میں مضمرہے۔ عرب بہار کے ممالک اس وقت، جب کہ وہ اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے ممالک کو نئی بنیادوں پر قائم کرنے میں لگے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ امت کے مسائل کے بارے میں کیا کرسکتے ہیں۔

۳-مغرب اور بڑے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا آج کی دنیا میں ایک طبعی امر ہے۔یہ ہماری سیاسی اور اقتصادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی قیمت مسئلہ فلسطین، اس میں عربوں کے کردا رکے خاتمے اور ان کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی صورت میں نہ ہو۔  ہماری راے میں مغرب کے ساتھ تعلقات محض مراعات کے بدلے میں استوار نہیں کرنے چاہییں،  اس لیے کہ عرب بہار کے ممالک اپنے عوام کے ارادے سے چلتے ہیں نہ کہ بیرونی امداد سے۔

۴- عرب اسرائیل کی کش مکش کے حوالے سے عرب ممالک اور عرب لیگ کو اپنی سیاسی سوچ کو وسیع اورحکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انھیں حماس کے بارے میںبھی اپنے موقف میںتبدیلی لانی چاہیے۔پہلے جو کچھ تحریک کے لیے ممنوع تھا جیسے اسلحہ کی فراہمی وغیرہ،   اب اس کی اجازت ہونی چاہیے۔

اب، جب کہ فوجی جنگوں کا دور نہیں رہا ،امت مسلمہ کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آگے آناچاہیے۔ ۱۹۶۷ء سے اب تک اسرائیل کوئی جنگ نہیں جیت سکا سواے ۱۹۸۲ء کے۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ لبنان سے فلسطینی تحریک کو نکال دیاگیا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعدمجاہدین کوفراہم کردہ اسلحے سے ممکن ہوا۔

اسی طرح اب فلسطین کے نام سے دولت کمانے کے پراجیکٹ ختم ہونے چاہییں ۔ اب نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن میں حقیقی طاقت کا حصول سرفہرست ہے ۔

۵-اسرائیل کے ساتھ تصفیہ کے معاہدات اوران معاہدات کے پشت پر کھڑے ممالک کی پالیسیوںپر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سمجھوتے اور معاہدے، اُمت مسلمہ اور فلسطین کے حق میں نہیں ہیں۔اس لیے کہ اسرائیل نہ کبھی دوست تھا، نہ ہوگا۔عرب بہار کے بعداسرائیل سے دوستی بڑھانے کی باتیںبالکل میل نہیں کھاتیں۔

۶- فلسطین کو صرف اسلام پسندوںکی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ حماس ،جہاد اسلامی اور دیگر جہادی تحریکوںکو پوری امت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ،جن میں اسلام پسند،      قوم پرست، لبرل اور بائیں بازو کی طاقتیں سب شامل ہیں۔

 عرب بہار کے نتیجے میںہماری خواہش ہے کہ امت مسلمہ امت واحدہ بن کر اُبھرے اور فلسطین پر ایک موقف اختیار کرے۔ان کی داخلہ پالیسی عوامی خواہشات کے مطابق ہواور خارجہ پالیسی مضبوط بنیادوں پراستوار ہو تاکہ صہیونی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے۔

 

ماں اپنے جوان بیٹے کے سرہانے کھڑی اس کے ساتھ ہونے والا اپنا آخری مکالمہ دہرا رہی تھی: ’’خالد دفتر سے آتے ہی ہمیں خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلنے لگا تو میں نے پوچھا اتنی کیا جلدی ہے۔۔؟ کہاں جارہے ہو۔۔؟ جاتے جاتے مسکراتے ہوئے شوخی سے کہنے لگا: ’’ماں تم مجھے شادی کرنے کا کہتی رہتی ہو، آج میں خود ہی حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگا کل رات صدر محمد مرسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوانِ صدر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بہت توڑ پھوڑ کی تھی___ آج اخوان کی طرف سے صدر کی حمایت میں، ایوانِ صدر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔ رات گئے اچانک معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دوبارہ ہنگامہ کیا ہے بلکہ اخوان کے مظاہرے پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو شہید و زخمی کردیا ہے۔ میرا خالد بھی زخمی ہوگیا تھا اور گذشتہ تین روز سے بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں داخل تھا۔ آج جب وہ چلاگیا ہے تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ سنائی دے رہا ہے ’’ماں! حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں۔  ماں! حوروں سے___ ‘‘ شہید کا غم زدہ باپ اور بھائی بھی قریب کھڑے تھے۔ والد نے ہاتھ میں خالد کا پیشہ ورانہ شناختی کارڈ تھام رکھا تھا۔ وہ وزارتِ داخلہ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ کارڈ پر تفصیلات درج تھیں: خالد طٰہٰ عبد المنعم رکن پروفیشنل کلب۔ کارڈ نمبر ۳۳۸۰۔ کارآمد: ۲۰۱۲ء کے اختتام تک۔ چند سال پہلے بننے والے اس کارڈ کا اندراج کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ ۲۰۱۲ء کا اختتام صرف کارڈ کی مدت ختم ہونے کی نہیں، خود خالد طٰہٰ کی مہلت حیات کا اختتام بھی ہوگا۔ خالد ٹھیک ۱۲/۱۲/۱۲ کو ’حوروں سے منگنی‘ کرنے چلا گیا وہ یقینا وہاں خوش و خرم ہوگا۔

احتجاج، مظاہرے، اعتراضات، تنقید ۔۔۔ یقینا اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔۔ لیکن دنگا فساد، گالم گلوچ اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد اس کی باقیات کو عوامی نمایندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہوئی۔ اب وہ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بظاہر تو حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر سے ہوا جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور متعین مدت کے لیے تھے۔اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن دو اسرائیلی ذرائع کچھ اور خبر دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اُمور کے اسرائیلی ماہر بنحاس عنباری نے غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک روسی   ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے (Russia Today) پر کہا: ’’صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملہ، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا‘‘۔ سننے والوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔ ہرایک نے اپنی اپنی تاویل کی۔ چند روز بعد ایک معروف اسرائیلی ویب سائٹ نے اصل راز سے پردہ اُٹھادیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے سابق وزیرخارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیفنی سے ملے۔ لیفنی نے انھیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا: ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔ عمروموسیٰ اس ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کررہی تھی۔ انھوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جڑدیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’توتو مَیں مَیں‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس استعفے اور معترض علیہ شقوں کو بنیاد بناکر ملک میں ایک مناقشت شروع کردی۔ اسی اثنا میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔

انھی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کی وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعے دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا، یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰دسمبر سے پہلے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدرمرسی نے احتیاطی پیش رفت کرتے ہوئے ۲۲نومبر کا مشہور عالم (اپوزیشن کے بقول فرعونیت پر مبنی) صدارتی آرڈی ننس جاری کیا۔ اس کے چار نکات اہم ترین تھے: lدستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا، نہ دستوری کونسل ہی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔l حسنی مبارک اور  اس کے آلۂ کاروں پر انقلابی تحریک کے دوران شہید کیے جانے والے افراد کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی l حسنی مبارک کے متعین کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود کو برطرف کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں کی جان بچانے کے لیے مقدمے کی قانونی بنیاد ہی کھوکھلی رکھی۔ lدستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

’خفیہ اجلاس‘ میں شریک افراد، تمام اسلام بیزار قوتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس صدارتی اعلان کی مخالفت اور تنقید کا طوفان برپا کردیا۔ پہلے ہی روز سے مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ خالد طٰہٰ جیسے ۱۱نوجوان شہید کردیے۔ اخوان کے ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف شہروں میں اخوان اور اس کی سیاسی پارٹی، حریت و عدالت کے ۴۸ دفاتر نذر آتش کردیے اور پورے ملک کو انتشار کا شکار کردیا۔

اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ الشہادۃ أسمی امانینا، ’’شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے‘‘، جیسے نعروں کی آغوش میں پلے خالد طٰہٰ جیسے لاکھوں نوجوان بھی تشدد پر اُتر آتے، تو ملک ایک ہمہ گیر خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پُرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق، ۱۵ ملین، یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد نے بیک وقت مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے اسے تقریباً نظر انداز کیا۔

صدر مرسی نے بھی بیک وقت دوٹوک موقف، لیکن لچکدار رویے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے ایک طرف تو دستوری عمل کو تیز تر کرنے کا کہا۔ ۱۰ دسمبر کا انتظار کیے بغیر ہی مسودہ مکمل کرنے کا کہا جس کے نتیجے میں دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر ووٹنگ کرتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ، ۳۰ نومبر کو صدر کی خدمت میں پیش کردیا۔ انھوں نے دستوری تقاضے کے مطابق ۱۵دسمبر کو اس پر ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد قانونی طور پر کسی کے لیے اسے منسوخ یا معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی صدر نے اپوزیشن، جج حضرات، دستوری ماہرین اور اہم دانشوروں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بعض نمایاں اپوزیشن لیڈروں سمیت ۵۰ کے لگ بھگ دستوری ماہرین نے دعوت قبول کی، لیکن ’خفیہ ملاقات‘ میں شریک تمام افراد نے دعوت مسترد کردی۔ صدر مرسی نے خیر سگالی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا افتتاح کرنے کے بعد کہا: اب آپ سب سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین باہم مشورے سے جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس کی صدارت نائب صدر جسٹس محمود مکی کے سپرد کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ طویل مشاورت کے بعد مجلس نے اتفاق راے سے فیصلہ کیا کہ ۲۲ نومبر کا صدارتی فرمان منسوخ کردیا جائے، ریفرنڈم اپنے مقرہ وقت پر ہو، صدارتی فرمان کی روح برقرار رہے اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں برقرار رہیں۔ ریفرنڈم کا فیصلہ مخالفت میں آئے تو صدر مملکت نئی دستوری کونسل تشکیل دیں جو دوبارہ چھے ماہ کا عرصہ لیتے ہوئے نیا دستوری مسودہ تیار کرے۔ فرعونیت کا طعنہ دینے والوں نے دیکھا کہ اگرچہ صدر اپنا صدارتی فرمان منسوخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، خود اخوان کے بعض رہنماؤں نے بھی یہ بیان دیا تھا، لیکن جب مذاکراتی مجلس نے منسوخی کا فیصلہ کرلیا تو صدر نے و أمرھم شوری بینہم کہتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔

اپوزیشن نے ماردھاڑ کی سیاست پھر بھی بدستور جاری رکھی، لیکن یہ صرف اپوزیشن کی پالیسی نہیں تھی۔ اخوان، صدر مرسی بلکہ اسلام اور شریعت نبوی کے تمام اندرونی و بیرونی مخالفین یک جان ہوگئے تھے۔ سیپی لیفنی کی بات تو میڈیا میں آگئی، مزید نہ جانے کس کس دشمن نے جلتی پر تیل ڈالا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی خوب خوب حق نمک ادا کیا۔ ایسی ایسی خبریں گھڑیں اور دنیا بھر میں پھیلائیں کہ صفحہء ہستی پر جن کا وجود تک نہ تھا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں یہ خبریں بلا تحقیق شائع ہوئیں اور ایک جھوٹ، اربوں جھوٹ کی شکل اختیار کرتے ہوئے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے نامہء اعمال میں ثبت ہوگئے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیا کیا نشر فرمایا: ’’صدر مرسی مسجد میں محصور‘‘۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کہا گیا: ’’مصر میں فوج سڑکوں پر آگئی‘‘۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قصر صدارت کے باہر اخوان کے نو افراد شہید کردیے گئے، تو حامی اور مخالفین دونوں سے میدان خالی کرواتے ہوئے قصر صدارت کے باہر صدارتی گارڈز کے چار ٹینک اور تین بکتر بند گاڑیاں کھڑی کردی گئیں۔ اسی ایک واقعے کو ’’فوج آگئی‘‘ کی سرخی دے کر گویا اپنی کسی خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا۔ ایک سرخی تھی: ’’مصر میں اسلامی دستور کے خلاف ہنگامے، کئی ہلاک، اپوزیشن کا احتجاج‘‘۔ گویا اسلامی دستور کے خلاف احتجاج میں اپوزیشن کے کارکنان ہلاک کردیے گئے جس پر مزید احتجاج ہورہا ہے، حالانکہ قتل کیے جانے والے تمام افراد اخوان ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اخوان نے سب کے نام پتے اور تنظیمی تعلق اور تعارف شائع کیا۔ اخوان نے ہی ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے۔ قاتلوں نے قتل بھی کیے اور پھر ’خون کا بدلہ لیں گے‘ کہتے ہوئے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ اس ابلاغیاتی یلغار کی تفصیل طویل ہوسکتی ہے لیکن صرف مزید جھلکیوں سے ہی اس کی شدت و دنائت کا اندازہ لگا لیجیے: ’’اخوان نے نہر سویز فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ ،’’اسلام پسندوں نے اہرامِ مصر کو مزار قرار دیتے ہوئے انھیں ڈھانے کا مطالبہ کردیا‘‘، ’’نئے دستور میں فوت شدہ بیوی کے ساتھ، تدفین سے پہلے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا فیصلہ‘‘، ’’صحراے سینا فلسطینیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘‘، ’’لونڈیاں رکھ سکنے کا قانون بنایا جارہا ہے، ’’دستور میں ہولو کاسٹ کی نفی‘‘۔

الزامات و تحریفات کا یہ سلسلہ ریفرنڈم کے آخری روز تک جاری رہا۔ اخوان کے مرشد عام ہر جمعرات کو اخوان کے نام ہفت روزہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ عموماً دعوتی و تربیتی موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کو مرشد عام نے مصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بیان کیں جن میں مصر کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ قرآن کریم میں ۲۴مقامات پر مصر کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں صراحتاً اور کہیں کنایتاً۔ پھر انھوںنے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بیان کیں جن میں مصر اور اہل مصر کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے    انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی نصیحت میںاہل مصر کو روے زمین کے بہترین سپاہی فرمایا ہے۔ گویا یہ لوگ فطرتاً تیار فوجیں ہیں جنھیں صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن جب قیادت ہی فاسد تھی تو اس کے سپاہیوں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس وقت مصر کو بھی حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی بہتر رہنمائی اور تربیت کی ‘‘۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کی شام یہ بیان جاری ہوا اور پھر ریفرنڈم سے ایک روز قبل جمعہ ۲۱دسمبر سے ہر طرف پروپیگنڈا شروع ہوگیا: ’’مصری فوج کی قیادت فاسد ہے: مرشد عام‘‘۔

الحمد للہ گذشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی اُمور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’النور‘ اور اخوان سے علیحدہ ہوکر الگ پارٹی (الوسط) بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتیبان بن گئے۔ اگرچہ مسیحیوں کی اکثریت نے حسنی مبارک کی باقیات کا ساتھ دیا، لیکن ان کی بڑی تعداد نے بھی دستور کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح دونوں مرحلوں کے نتائج ملا کر ۶۴ فی صد ووٹروں نے ملک کا پہلا جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اس دستور کی تیاری کے لیے چھے ماہ کی مدت طے کی گئی تھی۔ ۱۰۰ رکنی منتخب دستوری کونسل میں معاشرے کے تمام طبقات اور نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ۴۰ ہزار تجاویز موصول ہوئیں۔ کونسل کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے سب کا جائزہ لیا گیا۔ ان کمیٹیوں اور کونسل کے ۶۰۰ اجلاس ہوئے۔ مصر کے سابق دستور اور دساتیر عالم سے استفادہ کیا گیا اور ایک ایسا دستور پیش کیا گیا جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ (ان شاء اللہ)

دستور کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے لیکن تجزیہ کریں تو کہیں کوئی سنجیدہ اور حقیقی اعتراض نظر نہیں آتا۔ کوئی اعتراض ہوتا بھی تو یہ ایک فطری امر ہوتا۔ بہرحال یہ دستور  کوئی وحی تو نہیں، ایک انسانی کاوش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ دستور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے، جب کہ مصر میں قبطی مسیحیوں کی    بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ قبطی آبادی ۱۰فی صد ہے۔ اگر ۹۰ فی صد آبادی والے ملک کا دستور اسلامی ہو تو اس پر اعتراض بے جا ہے، لیکن دستور ساز کونسل، اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث میں الجھی ہی نہیں ہے۔ ملک کو خودمختاری، تعمیر و ترقی، خوش حالی اور کامیابی کی جانب لے جانے والا ایک دستور تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام اہداف اسلامی تعلیمات پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔

اسلام کے حوالے سے جو چند بنیادی نکات اس میں شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ شق (۱) میں پہلے صرف مصر کی عرب شناخت کا ذکر تھا، اب لکھا گیا ہے کہ ’’عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد، خودمختار، متحدہ اور ناقابلِ تقسیم ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہوگا۔ ’’مصری عوام اُمت عربی و اسلامی کا اہم جزو ہیں جنھیں وادی نیل اور براعظم افریقا سے اپنی نسبت اور ایشیا تک اپنی وسعت پر فخر ہے۔ وہ تہذیب انسانی کی تعمیر میں مثبت شرکت چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ عربی کے ساتھ اُمت اسلامیہ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔شق (۲) ’’ریاست کا مذہب اسلام اور سرکاری زبان عربی ہے۔ شریعت اسلامی قانون سازی کا بنیادی مصدر ہے‘‘۔ جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض کیا اور اودھم مچایا گیا وہ شق ۴ ہے جس میں تاریخی جامعہ الازھر کو باقاعدہ سرکاری اور دستوری حیثیت دیتے ہوئے ایک خود مختار ادارے کا مقام دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ’’اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں جامعۃ الازھر کی اعلیٰ علما کونسل سے راے لی جائے گی‘‘۔ پاکستان میں تو الحمد للہ اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک مستقل بالذات قومی ادارہ رہنمائی کرتا ہے۔ مصر میں جامعۃ الازھر کی علما کونسل سے راے لینے پر آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ اسی ضمن میں شق ۲۱۹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شریعت اسلامی کے اصول و مبادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’اسلامی شریعت کے کلی دلائل، فقہی اور اصولی قواعد اور مذاہب اہل سنت و الجماعت کے معتبر مصادر ہیں‘‘۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ شق مبہم ہے، جب کہ دستور وضع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی شریعت کے مآخذ متعین کردیے ہیں۔ لفظ ’مذاہب اہل سنت و الجماعت‘ پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مصر میں شیعہ آبادی براے نام سے بھی کم ہے، اس لیے یہ تعین کردیا گیا۔

ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ دستور میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ دستور کے دیباچے میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’فرد کی عزت و تکریم ریاست کی عزت و تکریم ہے۔ اُس ریاست کا کوئی عزت و مقام نہیں، جس میں خواتین کی تکریم نہیں کی جاتی۔ خواتین مردوں کی مثل ہیں اور وہ تمام قومی ذمہ داریوں اور حقوق میں برابر کی شریک ہیں‘‘۔ یہی نہیں دستور میں کئی مقامات پر مصری شہری کے حقوق، اس کی آزادیوں، اس کی حفاظت، اس کی کفالت اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے جامع شقیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر جگہ ’تمام شہری‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں یقینا مرد و زن دونوں شامل ہیں، لیکن نہ جانے کیوں خواتین کا نام الگ سے لکھنے پر اصرار ہے۔

نئے مصری دستور کے مطابق ریاست ان تمام شہریوں کی کفالت کرے گی جو خود کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دستور میں خاندان کی بہبود و بہتری کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں ہیں۔ ایک جمیل و جامع عبارت شق ۱۰ میں لکھی گئی ہے: ’’خاندان معاشرے کی بنیاد ہے۔ دین، اخلاق اور قومی وابستگی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ریاست اور معاشرہ مصری خاندان کی بنیادی ساخت، اس کی مضبوطی، استحکام اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔ ریاست بچے اور ماں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرے گی اور خاتون خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں اور عمومی سرگرمیوں میں توافق پیدا کرے گی۔ ریاست ملک کی بیواؤں، مطلقہ خواتین اور اپنے خاندان کی کفیل خواتین کی حفاظت و دیکھ بھال کا خصوصی اہتمام کرے گی‘‘۔ اس شق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک اسی بات کی اہمیت دیکھ لیجیے کہ’ریاست اور معاشرہ‘ مل کر استحکام خاندان اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔

مصر کے پہلے جمہوری دستور کا ایک انقلابی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اجیر کی اجرت کو پیداوار سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جا چھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔

جمہوری اقدار کی ترویج کے ضمن میں وہ تمام شقیں ملاحظہ کرلیجیے، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آیندہ کوئی سربراہ تاحیات نہیں رہ سکے گا،زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ صدر مرسی چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہو، لیکن دستوری کونسل نے صدارتی نظام ہی کو باقی رکھا ہے، البتہ صدر کے اختیارات ۴۰ فی صد کم کردیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۲۰۲ ملاحظہ کیجیے، لکھا ہے: ’’صدر مملکت مجلس شوریٰ (سینیٹ) کی منظوری کے بعد خود مختار اداروں اور نگران ایجنسیوں کے سربراہ مقرر کرے گا۔ یہ تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی، جس کی ایک بار تجدید ہوسکے گی۔ ان سربراہوں کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کی منظوری کے بغیر معزول بھی نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ ۱۹۵۳ء  سے ۱۹۷۰ء تک جمال عبد الناصر، ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۱ء تک انور السادات، اور ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک   حسنی مبارک کے ظالمانہ، کرپٹ اور شخصی اقتدار کی ہوش ربا داستانیں دیکھیں، اور ہاتھ آئے اختیارات کو ایک ضابطے میں ڈھالنے والے حافظ قرآن، پی ایچ ڈی انجینیر اور تحریک اسلامی کے تربیت یافتہ صدرِ مملکت کو دیکھیں، تو اصل فرق اور احتجاج کی وجوہات واضح ہوجائیں گی۔

تمام تر ماردھاڑ اور قتل و غارت کے باوجود عوام کی اکثریت نے مصر کا پہلا حقیقی جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اب نئے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں جس کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت تشکیل دے گی۔ صدر محمد مرسی نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خیرسگالی کا ایک اور پیغام دیا ہے۔ صدرِ مملکت سینیٹ میں ۹۰؍ارکان کو خود نامزد کرتا ہے۔ صدرمرسی نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان کا تقرر کر دیا ہے۔ تقریباً ۷۵فی صد ارکان دیگر پارٹیوں سے لیے گئے ہیں۔ ملک کے اہم قانونی ماہرین، قبطی مسیحیوں اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔ اب فوری طور پر اپوزیشن کے پاس مخالفت کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں۔ اللہ کرے کہ صدارتی الیکشن اور دستوری ریفرنڈم میں اکٹھے رہنے والے سب محب وطن قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یک جا رہ سکیں، لیکن ایسا نہ بھی ہوسکا تو ملک بہرصورت جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ نئے دستور میں دستوری عدالت کے ۱۹ ججوں کی تعداد کم کر کے ۱۱ کردی گئی ہے۔ ۱۱ بھی دنیا کی دستوری عدالتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تعداد کم ہونے سے صدر مرسی اور جمہوریت کے کھلے دشمن تہانی جبالی جیسے افراد سے نجات مل گئی ہے۔ اب تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

 

مصری صدر محمد مرسی کے خلاف ساری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ انھوں نے مزید اختیارات سمیٹ لیے، فرعون بننا چاہتے ہیں، دوسرا حسنی بن بیٹھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے حاصل اختیارات سے بھی دست بردار ہورہے ہیں۔ اس وقت مصر میں ملکی تاریخ کا پہلا عوامی دستور وضع کیا جارہا ہے۔ مجوزہ دستور میں صدارتی نظام حکومت کے بجاے پارلیمانی نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔ اب اصل اختیارات صدر مملکت نہیں منتخب پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کردہ وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ یہ دستور سازی مصر میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز اور اہم کارنامہ ہوگا، مخالفین صدر مرسی کو یہ اعزاز لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔ دستور سازی کے ان آخری مراحل میں ایک بار پھر حسنی مبارک کی باقیات کے ذریعے دستوری عدالت کو متحرک کیا جارہا تھا۔ نو منتخب قومی اسمبلی کو چند ہفتوں کے اندر اندر تحلیل کردینے والی اس عدالت کے جج باقاعدہ بیانات دینے لگ گئے کہ نئے دستور کا مسودہ اور پارلیمنٹ کی منتخب کردہ دستوری کمیٹی غیر قانونی ہے۔ ملک میں سنگین دستوری بحران پیدا کرنے کی سازش کے واضح ثبوت مل جانے پر، صدر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ملک میں نیادستور نافذ ہوجانے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے ہیں جنھیں کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا۔ دستور کی راہ میں رکاوٹوں اور سازشوں کا سدباب صدر مرسی کا اصل جرم ہے۔

انگریز سے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مصر میں عوام کی حقیقی مرضی سے کوئی دستور نہیں بن سکا۔ پہلے ۱۹۲۳ء کا دستور نافذ رہا جو بادشاہت کا محافظ تھا۔ ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر اور ان کی فوجی انقلابی کونسل نے دستوری فرامین جاری کیے۔ ۱۹۵۶ء میں شام اور مصر کی متحدہ ریاست کا دستور جاری کردیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں دوسرے ڈکٹیٹر انور السادات نے اپنی مرضی کا دستور جاری کردیا۔ تیسرے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے بھی اپنے ۳۰ سالہ دورِ اقتدار میں یہی دستور مسلط کیے رکھا، البتہ گاہے بگاہے ترامیم کرکے اپنے لیے پانچویں بار منتخب ہونے اور اپنے بعد صاحب زادے جمال مبارک کے اقتدار کی راہ بھی ہموار کی۔ حسنی مبارک کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں کا دستور بھی رخصت ہوگیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے ۶۳ شقوں پر مشتمل ایک عبور ی دستور منظور کیا گیا جس میں پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک کو مستقل دستور تشکیل دینے کا طریق کار بھی طے کردیا گیا۔ طے پایا کہ منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل دستوری کمیٹی کا انتخاب کریں گے اور یہ کمیٹی چھے ماہ کے اندر اندر دستوری مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس پر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی راے لیتے ہوئے، یہ جامع دستور نافذ کردیا جائے گا۔

مصر میں قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کا بھی عام انتخابات کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کا انتخاب مکمل ہوتے ہی دستوری کمیٹی منتخب (متعین نہیں) کرلی گئی اور اس نے فوراً دستور سازی کا کام شروع کردیا۔ جمہوریت، مساوات، حقوق اور آزادی کے دعوے داروں نے تعاون کرنے کے بجاے قدم قدم پر بے ڈھنگے اعتراضات کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ سارا میڈیا چیخنے لگا کہ چوں کہ پارلیمنٹ پر ایک ہی رنگ، یعنی اسلامی ذہن چھایا ہوا ہے، اس لیے دستوری کمیٹی پوری قوم کی ترجمان نہیں ہوسکتی۔ ’’تنگ نظر اسلام پسندوں‘‘ نے نہ صرف دیگر پارٹیوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر طبقات کو بھی، اس دستوری کمیٹی میں منتخب کرکے سارے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود مختلف ارکان کمیٹی سے استعفے دینے کا اعلان کروایا گیا۔ بدقسمتی سے ان اعلانات کرنے والوں میں کئی دینی ذہن رکھنے والے اور خود جامعہ الازہر بھی شریک ہوگئی۔  کمیٹی نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا تو اکثر اعلان کرنے والے بھی واپس آگئے۔

مجوزہ دستور کی ایک ایک شق پر احتجاج و اعتراضات کی آندھیاں چلائی گئیں، لیکن بالآخر دستور کا ابتدائی مسودہ تیار ہوگیا۔ اب ایک ذیلی کمیٹی اس کی خواندگی کررہی ہے۔ ۱۰ دسمبر کو دستوری مسودہ تیار کرنے کے لیے مقررہ چھے ماہ کی مدت مکمل ہوجائے گی، لیکن ارکان کمیٹی کے بقول انھیں ابھی اس کے لیے کچھ مزید مہلت درکار ہے۔ اسی دوران میں دستوری عدالت کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ سازشی عناصر کی ویڈیوز اور دستاویزات نے ثابت کردیا کہ خدشات و خطرات حقیقت بن سکتے ہیں۔ جس طرح صدارتی انتخاب سے صرف ۱۲گھنٹے قبل نو منتخب قومی اسمبلی کو بلاجواز تحلیل کردیا گیاتھا، اب چھے ماہ کی ان تھک جدوجہد کے اختتام پر، صدر کے سامنے دستوری مسودہ لانے سے پہلے پہلے دستوری کمیٹی ہی کو تحلیل کیا جارہا تھا۔ صدر محمد مرسی نے سازشوں کا بروقت سدباب کرتے ہوئے، ایک عبوری حکم کے ذریعے دستور نافذ ہونے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔    اب ان کے کسی فیصلے کو کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی دستور نافذ ہوجائے گا،      یہ استثنائی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی عدالت اس دوران سینٹ یا دستوری کمیٹی کو تحلیل نہیں کرسکے گی۔

صدر کے حالیہ آرڈی ننس میں دوسری اہم بات صدر حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمۂ قتل کی تحقیقات و سماعت کا دوبارہ شروع کیا جانا ہے۔ حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ جابرانہ دور میں تو جو مظالم ہوئے سو ہوئے، اس کے خلاف صرف تین ہفتے کی احتجاجی تحریک کے دوران میں تقریباً ساڑھے نوسو افراد کو شہید کردیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی عدالتی تحقیقات کے بعدسیکڑوں افراد کے ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ اس بے انصافی کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کا اپنا نامزد کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود بھی تھا۔ جو نہ صرف قتل کے ان مقدمات بلکہ     اپنے سابق آقاؤں کی کرپشن کے خلاف لاتعداد مقدمات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک اہم کڑی تھا۔ بعض افراد نے جب اس کی شخصیت کو بے نقاب کیا تو اس نے خود دھمکی آمیز فون کرکے انھیں   بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔حسنی مبارک اور ہم نواؤں کے اپنی اصل سزا سے بچ نکلنے کے بعد سے عبدالمجید کے خلاف شہدا اور زخمیوں کے ورثا میں بھی اشتعال پایا جاتا تھا۔ صدر مرسی نے اب اس کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ایک جج جسٹس طلعت ابراہیم کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے۔

ان فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکی وزارت خارجہ اور یورپی یونین سے لے کر مصر کی تمام سیکولر طاقتوں نے صدر مرسی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اپنے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے حسنی مبارک کا اصل ہتھیار پیشہ ور غنڈوں کا ایک لشکر تھا۔ اچانک انھی جرائم پیشہ عناصر کو دوبارہ میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں اخوان کے دفاتر نذر آتش کرنا شروع کردیے ہیں۔ دمنہور شہر میں اخوان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے ایک کارکن اسلام مسعود کو شہید کردیا گیا ہے۔ ججوں کی ایک تنظیم سے عدالتوں کے بائی کاٹ کا اعلان کروادیا گیا ہے اور میدان التحریر میں کچھ لوگ خیمہ زن ہوگئے ہیں، کہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔

اعتراض اور احتجاج سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہ کر احتجاج، نہ صرف ایک مسلمہ حق ہے بلکہ اس سے فیصلوں اور آرا میں تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف تباہی اور سازشیں کرنا ہی رہ جائے تو پھر نتیجہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔ اخوان نے متشدد مخالفین کے مقابلے میں صبر و حکمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر مرسی نے ایک طرف تو تمام سیاسی طاقتوں اور عدلیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور دوسری طرف قانونی ماہرین کو معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ  اخوان کے مدمقابل کھڑے ہیں، لیکن عوام کے جذبات و موقف کے اظہار کے لیے اخوان نے بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان بڑے عوامی مظاہروں میں اخوان نے تصادم سے بچتے ہوئے، پہلے تو میدان التحریر سمیت ان تمام جگہوں سے دور جاکر اپنے پروگرام کرنے کا اعلان کیا کہ جہاں فتنہ   ُجو عناصر عوام کو باہم متصادم کرسکتے ہیں اور پھر عوامی قوت کا اپنا مظاہرہ ملتوی کردیا ۔ مصر کے کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ مخالفین کی سب کوششوں کے باوجود اخوان اپنے قدم مضبوط کرتے جارہے ہیں اس لیے اب ان کی آخری کوشش ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ لیکن اب تک کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ مخالفین کی تمام سازشیں خود انھی کے خلاف جاتی ہیں۔ رب ذو الجلال کا ارشاد بار بار اپنی حقانیت منوا رہاہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط  (الفاطر۳۵: ۴۳)، ’’حالاں کہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔

دوسری طرف اخوان کی حکمت عملی دیکھیے:

حسنی مبارک کے جانے کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انتخابات میں تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے۔ فوجی جنتا کے اشارے پر اخوان کی بعض حلیف جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے اور اخوان کو سب نشستوں پر کاغذات جمع کروانا پڑے، وگرنہ سب کے سب کاغذات مسترد ہوجاتے۔ اللہ نے انھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت دے دی۔ lاخوان نے پہلے دن سے فیصلہ و اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نہیں لائیں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مدت ختم ہو نے کو تھی کہ سابق نظام کی باقیات نے حسنی مبارک کے دست راست عمر سلیمان یا احمد شفیق کو صدر بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، دونوں کو میدان میں اُتار دیا۔ اخوان کی مجلس شوریٰ نے بھی کئی روز کی طویل مشاورت کے بعد، چند ووٹوں کے فرق سے اکثریت راے کے ذریعے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اللہ نے اسی فیصلے میں برکت دی وگرنہ آج اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانِ صدر میں بھی کوئی دوسرا حسنی مبارک بیٹھا ہوتا۔

  • صدر مرسی کو صدارت کا عہدہ سنبھالے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ اسرائیلی سرحد پر بیٹھے مصری فوجیوں پر عین افطار کے دوران حملہ کردیا گیا۔ یہ کارروائی نومنتخب حکومت کو بحران سے دوچار کرنے کے علاوہ اُمور مملکت میں فوج کا عمل دخل بڑھانے کا ذریعہ بننا تھی، لیکن گھن زدہ قیادت سمیت ۷۰ فوجی افسروں سے خلاصی کی بنیاد بن گئی۔
  • صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل نوزائیدہ قومی اسمبلی کا سر قلم کرتے ہوئے عوام کو صدارتی انتخاب چھوڑ کر سڑکوں پر گھسیٹ لانے اور اپنی مرضی کے صدارتی نتائج لانے کی کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مخالف اُمیدواروں اور ان کے حامیوں کو بھی صدر مرسی کی حمایت پر یکسو کردیا۔

اب ایک بار پھر سیاسی بحران عروج پر ہے۔ حالیہ بحران کی ایک خاص بات اس کا وقت بھی ہے۔ اس سے ایک ہی روز قبل غزہ کے خلاف اسرائیل کی تازہ جارحیت اختتام پزیر ہوئی تھی۔ اسے خود فلسطینیوں کی اکثر شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کرنا پڑی تھی۔ اس لڑائی میں دوباتوں نے اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشان کیا۔ ایک تو یہ کہ جس فلسطینی تحریک مزاحمت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں پتھروں اور غلیلوں سے ہوا تھا اور جس نے فروری ۲۰۰۲ء میں پہلی بار خود ساختہ میزائل (قسام ۱) چلایا تھا، ۲۰۱۲ء میں اس کے تیار کردہ میزائل اسرائیل کے قلب تل ابیب تک جاپہنچے۔ اگر امریکا کا فراہم کردہ خود کار میزائلوں کا دفاعی نظام جسے ’فولادی ڈھال‘ کا نام دیا گیا ہے، جو حملہ آور میزائل کو فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے، نہ ہوتا تو اب تک یقیناً ہزاروں اسرائیلی تہ خاک جاچکے ہوتے۔ اسرائیلیوں کے لیے دوسری تلخ اور صدمہ خیز حقیقت یہ تھی کہ گذشتہ جنگ میں مصری حکومت مکمل طور پر اس کی پشتیبان تھی، غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان ہی قاہرہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا، لیکن اس بار مصری حکومت پوری قوت کی ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی تھی۔ وزیراعظم ہشام قندیل، عین جنگ کے درمیان غزہ جاپہنچے اور واضح اعلان کیا کہ مصر اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ درست ہے کہ اگلے ہی روز اسرائیل نے بم باری کرکے اس وزیراعظم ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، جہاں چند گھنٹے قبل مصر اور  غزہ کے وزراے اعظم نے اکٹھے اعلان یک جہتی کیا تھا، لیکن تمام اسرائیلی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ مصر کے تعاون کے بغیر اور مصر میں اخوان کی حکومت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔

اس بار صدر مرسی کا راستہ روکنے کے لیے دستوری عدالت کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو عدالت بھی میدان میں ہے۔ اس نے صدارتی حکم کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ۴ دسمبر کی تاریخ، سماعت کے لیے طے کی ہے، لیکن اس پورے منظر نامے کے باوجود، اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والے یکسو ہو کر پکار رہے ہیں    ؎

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

جنوبی فلپائن کے مورو مسلمان برس ہا برس کی قربانیوں کے بعد وسیع تر خودمختاری کی منزل کے حصول میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ حکومت ِ فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان گذشتہ ۱۶برس سے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ وسط اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے سے جزائر منڈانائو، سولو کے مسلمان نہ صرف خودمختاری حاصل کرلیں گے بلکہ ۲۰۱۵ء میں ایک آزاد مسلم ریاست بھی وجود میں آجائے گی جس پر رومن کیتھولک فلپائن کی حکومت کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔ بنگسامورو مسلمانوں کی زندگی میں یہ معاہدہ ایک اہم تاریخی دستاویز اور سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس معاہدے کو ’فریم ورک معاہدہ براے حتمی قیامِ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع تر خودمختاری کے حصول کے بعد مسلح جنگ جو منیلا حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بند کردیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ آزادی کی منزل اور مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ڈیڑھ لاکھ مورو مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بنگسامورو وطن کا تنازعہ ایشیا کے قدیم اور پیچیدہ تنازعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کے علَم برداروں نے صرف اپنے موضوعات اس قدر اُچھالے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، حکومت امریکا و روس اور اسلامی ممالک نے اس معاہدے کا اس لیے خیرمقدم کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ایشیا میں امن قائم ہوگا بلکہ فلپائن کی حکومت بھی اپنے عوام کے لیے دائمی امن و سکون کے قیام کو یقینی بناسکتی ہے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ۱۲ہزار مسلح مجاہدین سروں پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے اور گذشتہ ۵۰برس میں منڈانائو، سولو، سلاوان کے مسلمانوں نے جس قسم کے اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے اور نسل در نسل جس قدر قربانیاں دی ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے جس کو مرتب کیا جانا چاہیے۔

۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (جو عرصۂ دراز سے آزاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہی ہے) کے مصالحت کار مھاگر اقبال اور حکومت فلپائن کے مصالحت کار ماروک لیونن نے منیلا کے صدارتی محل میں اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ فلپائن کے صدر بینگِینو اکینوسوم، ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے پُرعزم مجاہد قائد حاجی مراد دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔ فرنٹ کے سربراہ اور حکومت ِ فلپائن نے ملایشیا کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس دیرپا مسئلے کے حل کے لیے مصالحت کار نامزد کیے اور ۱۶برس کی محنت آخرکار رنگ لے آئی۔

یہ وسیع تر حقوق اور وسیع تر خودمختاری کا معاہدہ ہے۔ او آئی سی کو میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہ مل سکی، تاہم اُس کے سیکرٹری جنرل نے بھی جنوبی فلپائن میں بنگسامورو کی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا۔اس معاہدے کو   رُوبہ عمل لانے کے لیے حکومت،فوج، پولیس، بنک، بلدیہ، ایکسچینج اور دیگر اہم اداروں کی تشکیل کے لیے درجنوں کمیشن تشکیل دے دیے گئے ہیں جس میں دونوں جانب سے نامزد نمایندے شامل کردیے گئے ہیں۔ جس وقت دستخط کی تقریب منعقد ہورہی تھی اُسی وقت ہزاروں مورو مسلمان اپنے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں نعرئہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ خواتین نے بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں اپنی مسرت اور استعمار سے نجات کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور میڈیا میں اسے شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ایسے نکات ہیں  جن پر فریقین میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر قابض فلپائن اور زیرتسلط مورو مسلمان کی حتمی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وسیع تر خودمختاری کی حامل ریاست کا نام بنگسامورو [مورو مسلمانوں کا گھر] ہوگا۔ ۱۳صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ مسلح مورو مجاہدین بتدریج مسلم پولیس فورس میں مدغم ہو جائیں گے۔ ۱۵؍ افراد پر مشتمل عبوری کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو دستور تشکیل دے گا۔

مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے سربراہ حاجی مُراد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زیرتسلط مورو مسلمانوں کی اَن گنت قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ مورو مسلمان اپنے وطن، اپنی شناخت،اپنے دستور اور اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ تمام مسلح، نیم مسلح دستے، تعمیرِنوکی جدوجہد میں شریک ہوجائیں گے۔ اس نئی خودمختار ریاست میں پانچ صوبے شامل ہیں۔ باسلان، کوٹاباٹو، دواؤڈیل سور، سلطان قدرت، تاوی، سولو، واوی، دِیولوگ اور دیتیان کے علاقے ان پانچ صوبوں میں شامل ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں حکومت ِ فلپائن نے مورو لبریشن فرنٹ سے معاہدے کے بعد اس علاقے کو خودمختار قرار دینے کا اعلان کیا تھا، بوجوہ اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا ایک اور معاہدہ بھی مسلمانانِ بنگسامورو کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا تھا۔

مورو لبریشن فرنٹ کا ، جو گذشتہ برسوں میں حکومت سے معاہدے کرتا رہا ہے، کہنا ہے کہ حکومت ِ فلپائن پر شدید دبائو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ فلپائن کی حکومت کسی وقت بھی پینترا بدل سکتی ہے۔ ابھی خودمختار ریاست کا اعلان ہوا ہے اور مغربی طاقتوں نے وہاں القاعدہ ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ شروع کردیا ہے۔ یاد رہے دونوں بڑی تنظیموں میں داخلی اختلافات کے باوجود خلافت ِ راشدہ کی طرز پر ریاست کے قیام پر کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمان یہاں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اور ۱۵۷۰ء میں اس علاقے پر پُرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ہمسایہ ملک ملایشیا کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اسلامی روایات پر نسل در نسل عمل پیرا چلے آرہے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہاں جلد ہی ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جودین اسلام کے حقیقی نفاذ کا عزم رکھتی ہے۔ مورو اسلامک فرنٹ کے اوّلین چیئرمین اُستاذ سلامات ہاشم کے عالمی اسلامی تحریکات سے گہرے مراسم تھے۔ سابق امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی دعوت پر وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے تھے۔ 

سونے، چاندی، تانبے، زرخیز زرعی زمین، چاول، کپاس، گنا، گوشت اور سیکڑوں میل پھیلی ہوئی سمندری پٹی کے ساتھ بے حدوحساب مچھلی و سمندری خوراک کی دستیابی اس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور آزادی کے ساتھ تعمیروترقی کی راہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔  یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔

ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔

ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی  کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو  بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔

صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔  صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔

سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت  صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔

صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں   التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔

اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی  کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں  مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد    علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔

صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند  کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں   پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے  ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے  عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔

موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔

مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو    اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔

صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔

ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔  ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔

صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔

ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔