احمد اقبال قاسمی


اقامت ِ دین تمام فقہاے اسلام کے نزدیک متفقہ اور مسلّمہ فریضہ ہے۔ اس میں اختلاف اور تفرقہ حرام ہے۔ جس طرح دین کی تبلیغ، ہماری ذمہ داری ہے، دین کے احکامات پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل درآمد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داریاں ہم نے ازخود نہیں لیں بلکہ    ربِ کائنات جس نے ہم کو عدم سے وجود بخشا، وہ ہمارا مالک اور حقیقی ولی ہے، وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ وہ انسانی پیدایش کا مقصد بتائے اور اس کے لیے ضابطہ اور قانون بنائے۔ اس نے ہمیں انبیا ؑکا وارث قرار دیا ہے۔ اس نے انبیا ؑکی بعثت کا مقصد اقامت ِ دین کو قرار دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا یہ فریضہ اُمت مسلمہ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح ازخود  اقامت دین ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ مقصدِ زندگی قرار دینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مقصد زندگی کا صحیح شعور حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنے اندر مطلوبہ اخلاق، اوصاف اور استعداد پیدا کریں۔

اقامت دین کی فرضیت سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ  علیہ وسلم کا اسوہ جو درحقیقت ایک ہی چیز کے دو عنوان ہیں، کا جائزہ لینا ہوگا۔ فرق صرف علم اور عمل کا ہے۔ قرآن اللہ کے دین کو علمی صورت میں پیش کرتا ہے اور اسوئہ و سیرت اس کو عملی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ فقہ میں دونوں کو کتاب و سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد صحابہ کرام اور تابعین اور تاریخِ اسلام کے بزرگوں کی سیرت و خدمات اور قربانیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

دین کسے کھتے ھیں؟

قرآن حکیم کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۴۰ سورتوں میں دین کا ذکر آیا ہے۔ تفصیل یہ ہے: ان آیات میں دین کو دین اللّٰہ دو جگہوں پر کہا گیا: الدین الحق پانچ جگہوں پر، یوم الدین ۱۳جگہوں پر، الدین القیم تین مرتبہ آیا۔ دین القیمہدو جگہوں پر، مخلصین لہ الدینچھے مقامات پر، مخلصا لہ الدینتین جگہوں پر، اخلصوا دینھم، النساء میں اتخذوا دینکم ھذوا ولعبا، المائدہ میں اتخذو دینھم لھوا، الانعام میں اتخذوا دینھم لھوا، الاعراف میں ایک ایک مرتبہ آیا ہے۔ مجموعی طور پر ۹۴ مرتبہ لفظ دین کا ذکر کیاگیا ہے۔ اہم رکن اسلام صلوٰۃ (نماز) کا بھی قرآن شریف میں ۹۴ مرتبہ ذکر آیا ہے۔

اقامتِ دین کی فرضیت

وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط(البقرہ ۲:۳۰) ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ فرشتوں سے کلام اور جنت میں قیام کے بعد یہ مرحلہ آتا ہے کہ حضرت آدم ؑکو حکم ہوتا ہے: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَo (البقرہ ۲:۳۸) ’’ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیںگے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ان آیات سے سب سے اہم حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ آسمان اور زمین اور ساری کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ رب العالمین کا ہے۔ وہی خالق اور وہی حاکم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے ذمہ دار اس کے نائب انبیا علیہم السلام ہیں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاؑ خلافتِ الٰہیہ کے منصب پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب فرمایا تھا اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوا کہ نبوت کا سلسلہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا تو اب خلافت رسولؐ کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا ،اور اس کے خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جو فریضہ انبیا ؑاور رسولؐ کے سپرد ہوا تھا وہ اُمت محمدیہؐ کے سپرد کر دیا گیا۔ یہی اس اُمت کی وجۂ امتیاز ہے۔ کارِ نبوت کی ذمہ داری پوری اُمت پر عائد کی گئی۔

فرشتوں کے مکالمے سے حضرت آدم ؑ کے فائق اور برتر ہونے کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی کہ حضرت آدم ؑ کو معلم کا درجہ دیا گیا اور فرشتوں کوطالب علم کا۔ عبودیت مخلوق کی صفت ہے، خالق کی نہیں۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ علم کی وجہ سے آدم ؑ خلافت کے مستحق ہوئے، جب کہ فرشتے اہل نہ تھے۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)

ان آیات سے مقصدِ تخلیقِ آدم اور نسلِ انسانی کی کائنات میں حیثیت اور اس کے صحیح مقام کا علم حاصل ہوا، انسان محکوم ہے حاکم اور خودمختار نہیں۔ حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے محدود اختیارات حاصل ہیں۔ خلافت الٰہیہ کے تقاضوں کی تکمیل اس کا مقصد زندگی ہے۔

فریضہ اقامت دین کی بحث میں ہمیں سب سے زیادہ رہنمائی سورئہ شوریٰ میں ملتی ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط(الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کودیا تھا اور جسے اے محمدؐ    اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑاور عیسٰی ؑکو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ اس آیت کریمہ سے فریضہ اقامت دین کا قرآنی حکم عبارۃ النص (آیت کا مقصود) سے براہِ راست ثابت ہے، یعنی یہ آیت اسی مقصد کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ قرآن کی یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئی تھیں۔

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفریق حرام ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ : ’’اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں۔ ایک، اقامت دین۔ دوسرے، اس کا منفی پہلو، یعنی اس میں تفرق کی ممانعت، جب کہ  جمہور مفسرین کے نزدیک اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ میں حرف اَنْ تفسیر کے لیے ہے تو دین کے معنی  متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جوسب انبیا ؑ میں مشترک چلا آرہا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیا اصول عقائد، یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی ہے، نیز چوری، ڈاکا، زنا، جھوٹ، فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے وغیرہ اور عہدشکنی کی حرمت ہے جو سب ادیانِ سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۷، ص ۶۷۸)

مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ عقائد اور اصول دین میں تمام متفق رہے ہیں۔ سب انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم ہوا ہے کہ دین الٰہی کواپنے قول و فعل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح تفریق یا اختلاف کو روا نہ رکھیں۔

مولانا مودودی نے سورئہ شوریٰ کی اس آیت کی تفہیم انتہائی بلیغ اور مدلل انداز میں پیش کی ہے اور دیگر حوالے بھی دیے ہیں۔ انھوں نے آیت کے پہلے لفظ شَرَعَ لَکُمْ سے اصطلاحی طور پر ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا بتایا۔ شرع اور شریعت سے قانون اور شارع کو واضعِ قانون کے ہم معنی قرار دیا۔ پھر اپنے اس اہم ترین استدلال کی طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ تشریع خداوندی فطری اور منطقی نتیجہ ہے اس بڑی حقیقت کا کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی انسان کا حقیقی  ولی ہے۔ اس طرح وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطے وضع کرے  (تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۸۷)۔ اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوںکی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔

اقامت ِ دین کی اصطلاح

فقہاے اسلام نے سورئہ شوریٰ کی آیت اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ سے اخذ کرتے ہوئے اقامت دین کا اصطلاح کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ جب توریت نازل ہوئی تھی تو توریت کی اقامت کا نام اقامت دین تھا، اور جب انجیل نازل ہوئی تو اُس کی اقامت بھی اقامت ِ دین تھا، اور اب قیامت تک قرآن کی اقامت کا نام بھی اقامت ِدین ہے۔ خود قرآن نے اہلِ کتاب کے بارے میں کہا ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ ۵:۶۶) ’’اور اگر وہ توریت اور انجیل اور جو کچھ اُن پر اُن کے رب کے طرف سے نازل ہوااُسے قائم رکھتے تو رزق اُن کے اُوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا‘‘۔

پھر اسی سورہ میں آگے آیت ۶۸ میں اہلِ کتاب کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس پر غور کیجیے کہ یہ خطاب اُنھی کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی کتنا اہم ہے: قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (المائدہ ۵:۶۸) ’’کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توریت اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، تمھاری طرف جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔

ہمارے مفسرین نے لکھا ہے: وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ سے مراد قرآن شریف ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک تم توریت انجیل اور قرآن کی اقامت نہ کرو گے اُس وقت تک تم دینی و مذہبی لحاظ سے کچھ نہیں ہو۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی کتاب پر ایمان کا مدعی ہے اس پر اس کتاب کی اقامت فرض ہے، اور اب قیامت تک اقامت ِقرآن ہی کا نام ’اقامتِ دین‘ ہے۔

مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت عزیمت میں حضرت شاہ ولی اللہ کے  نظریۂ خلافت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کلیۃ الکلیات (اصل الاصول) وہ حقیقت ہے جس کا عنوان ’اقامت ِ دین‘ ہے۔ غرض یہ ہے کہ اقامت دین ایک جامع اصطلاح ہے اور ان تمام احکامِ قرآنی پر حاوی ہے جو مَا اَنْزِلَ اللّٰہَ سے متعلق ہے۔

حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے اپنے ترجمۂ قرآن فتح الرحمٰن میں من الدین کا ترجمہ    ’از آئین‘ فرمایا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس ترجمے سے استفادہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو تشریح فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ اس توجیہ سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آیت میں دین کے معنی ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مان کر اس کے احکامات کی اطاعت کرنے کے ہیں، اور یہ کہ وہ خالق و مالک ہونے کی بنا پر واجب الاتباع ہے۔ اس کے حکم اور قانون کی پیروی نہ کرنا بغاوت اور بندگی سے انکار کے مترادف ہے۔

مولانا مودودیؒ نے دین کے مفہوم اور اقامت ِ دین کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا ہے۔ معاشرے میں سہل پسندی اور بے عملی کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: اقامت دین کا مقصد صرف تبلیغ دین سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ دین کے احکامات پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور عملاً نافذ کرنا اقامت دین ہے۔ مزید وضاحت کے لیے لکھتے ہیں: دین مشترک بین الانبیا سے صرف ایمانیات عقائد اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے تمام ہی شرعی احکام مراد ہیں۔ دلیل کے طور پر مولانا نے قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کی ہیں جن میں ان احکام کو واضح اور صریح طور پر دین سے تعبیر کیاگیاہے۔ ذیل میں وہ آیات درج ہیں:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o (البینہ ۹۸:۵)، اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یک سو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ  وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)، تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھُٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو۔ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سواے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوںکے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت دین ہی کا حصہ ہیں۔

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)، زانیہ عورت اور زانی مرد ،دونوں میں سے ہرایک کو ۱۰۰،۱۰۰ کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں دامن گیر نہ ہو۔

اس آیت میں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ یہاں فوجداری قانون کو دین اللہ فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا صرف عبادت ہی دین نہیں ہے، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ (تفہیم القرآن)

ان تفصیلات کے بعد ان آیاتِ ربانی پر غور کرتے ہیں جن سے اصولِ فقہ کی روشنی میں اقامت ِ دین کا فرض ہونا اور منشاے الٰہی کا مقصود ہونا دلالۃ النص اور اقتضاء النص سے ثابت ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق ندوی اپنی کتاب اسلام کے سیاسی نظام میں دینی حکومت کے قیام کے لیے سورئہ نساء کی آیت : اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِ امر ہوں۔ النساء۴:۵۹) سے اقامت ِ دین کا فرض ہونا اقتضاء النص سے ثابت کیا ہے۔ اس آیت میں صاحب ِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صاحب ِ امر موجود ہو۔ اب اسے وجود میں لانا بالفاظِ دیگر اقامت دین کے نظم کوقائم کرنا نص کا منشا اور مقتضا ہے۔

اسی طرح سورئہ انفال کی آیت: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ(اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے۔ الانفال۸:۶۰) میں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی قدرت کی حد تک دشمنانِ دین کے مقابلے کے لیے قوت فراہم کریں۔ تنظیم، افراد اور نظم حکومت کا قیام بالفاظ دیگر نصب امامت خود قوت کا ایک حصہ ہے، بلکہ اس نوعیت کی کل قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس آیت سے امام کے تقرر کی فرضیت اسی طرح ثابت ہوتی ہے جس طرح جنگ کے لیے اسلحہ مہیا کرنے کی فرضیت۔

سورئہ توبہ کی آیت: قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo (جنگ کرواہلِ کتاب کے ان لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیاہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنادین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ التوبہ۹:۲۹) سے اقامت ِ دین اور دینی نظام کے قیام کی فرضیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ آیت کریمہ اہلِ اسلام کو قتال کا حکم دیتی ہے اور اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیتی ہے تاآنکہ اہلِ باطل کو مغلوب کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور انھیں چھوٹا بناکر رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان احکامات کو پورا کرنا دینی حکومت اور اقامت ِ نظم دین کے بعد ہی ممکن ہے۔

سورئہ مائدہ کے ساتویں رکوع میں فرمایا:

وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(مائدہ۵:۴۵)، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔

وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنََo(مائدہ۵:۴۷)، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔

معلوم ہوا کہ تمام معاملات میں ما انزل اللّٰہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں، اور اقامت ِ دین حکومت و عدالت کی کرسیوں پر اسی طرح ضروری اور لازم ہے جس طرح اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے اوقات کے لحاظ سے ادایگی نماز اور مسجد کی تعمیر اور اُس کا انتظام۔ اور یہ کہ یہ سب فرائض اقامت ِدین کا حصہ ہیں۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی فرضیت

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo(اٰل عمرن۳:۱۰۴) ، اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (دوسروں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں، بھلائی کا حکم دیںاور برائیوں سے روکتے رہیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرن۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

ان دونوں آیتوں میں یامرون اور تامرون کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی حکم دیتے ہو۔ یبلغون اور وتبلغون نہیں فرمایا گیا۔ گویا صرف پہنچا دینا اورتبلیغ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ربِ کائنات کائنات احکم الحاکمین کے دینی نظام کوقوت سے نافذ کرنا مقصود ہے۔

مولانا ابوالحسن ندوی اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش میں اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اس کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا کہ اس اُمت کی جگہ قافلے کے پیچھے اور  حاشیہ برداروں کی صف میں ہو اور وہ دوسری اقوام کے سہارے زندہ رہے، اور قیادت و رہنمائی، امرونہی اور دینی وفکری آزادی کے بجاے تقلید اور نقل، اطاعت و سپراندازی پر راضی اور مطمئن ہو‘‘۔ اس مضمون کی دوسری آیات آل عمران (۳:۱۱۴)، الاعراف (۷:۱۶۷)، التوبہ (۹:۷۱)، الحج (۲۲:۱۴۱)، لقمان (۳۱:۱۷) ہیں۔

سورئہ توبہ کی آیت ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدیت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے جنس دین پر غالب کردے۔ ۹:۳۳) سے اقامت ِ دین کی فرضیت اور غلبۂ دین دلالت النص سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیت قرآن شریف میں تین جگہوں پر آئی ہے: سورئہ توبہ کی ۳۳ اور سورئہ صف کی آیت کا آخری ٹکڑا وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ہے، اور سورئہ فتح میں آیت کا آخری حصہ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ہے۔ پہلی دونوں آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دین حق کا غلبہ مخالفین کو خواہ کتنا ہی بُرا لگے ہم نے اپنے رسول کو اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے، اور سورئہ فتح کا آخری حصہ بتاتا ہے کہ بعثت محمدیؐ کی اس غرض و غایت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اب اگر تمام دنیا مل کر بھی یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ نہیں تھا، اُس کی بات قابلِ سماعت نہ ہوگی۔

مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں بعثت رسولؐ کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے طریقوں اور قاعدوں پر غالب کردے۔ دوسرے الفاظ میں رسولؐ کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں میں سمٹ کر رہے، بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمایندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجایشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیساکہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲ص ۱۹۰)

حضوؐر کے اس مقصد بعثت کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ اور  ازلۃ الخفا میں متعدد مقامات پر پیش کیا ہے۔ اسی آیت پر بحث کرتے ہوئے شاہ صاحب نے یہ تحریر فرمایا ہے: ’’جان لینا چاہیے کہ اس آیت کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ ہرغلبہ جودین حق کو حاصل ہوا وہ سب کا سب لیظھرہ علی الدین کلّہ میں داخل ہے، اور وہ عظیم الشان غلبہ، جو کسریٰ وقیصر کی حکومتوں کو درہم برہم کردینے کی شکل میں حاصل ہوا بدرجہ اولیٰ اس کلمے میں داخل ہے، اور اس بڑے درجہ ومرتبہ کے علَم بردار خلفاے راشدین تھے۔ ان بزرگوں کی کوششیں آنحضرتؐ کی بعثت کے مقتضا میں داخل تھیں۔ (اقامتِ دین، سید احمد عروج قادری)

شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ میں مختلف عنوانات کے تحت بار بار یہ حقیقت دہرائی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاے کرام کواقامت دین ہی کے لیے مبعوث فرماتا رہا ہے اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی لیے مبعوث فرمایا تھا کہ وہ دین کو قائم کریں اور اُسے دوسرے ادیان باطل پر غالب کریں۔ گویا غلبۂ دین کے لیے اجتماعی جدوجہد اور قیامِ جماعت لازمی ہے۔

غلبۂ دین اور اُمت محمدیہؐ کی ذمہ داری

شاہ ولی اللہ ’الجہاد‘ کے تحت لکھتے ہیں: جان لو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلافتِ عامہ کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور آپ نے دین کو تمام ادیان پر غلبہ دینا تھا اور یہ کام جہاد اور آلاتِ جہاد تیار کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ اگر جہاد کو لوگ چھوڑ دیںاور بیل کی دموں کے پیچھے لگ جائیں (یعنی حصولِ معاش میں لگ کر جہادسے غافل ہوجائیں) تو ذلت ان کو گھیر لے گی اور دوسرے ادیان والے ان پر غالب آجائیں گے۔

شاہ صاحب جہاد کی فضیلت کے بارے میں بہت سی حدیثوں کو پیش کرتے ہیں:

قال رسولؐ مثل المجاھد فی سبیل اللّٰہ کمثل القانت الصائم (اطراف المسند المعتلی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ شب بیدار اور روزہ دار کی مثال ہے۔

وقال رسولؐ من احتبس فرساً فی سبیل اللّٰہ ایماناً باللّٰہ وتصدیقاً بوعدہ فان شبعہ وریہ و روثہ وبولہ فی میزانہ یوم القیامۃ (السنن الکبریٰ للبیہقی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے ایک گھوڑا باندھا اور اُس کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اس کو پانی پلایا اور  قیامت کے دن اس کا چارا، لید اور پیشاب اس کی نیکیوں میں یہ سب تولے جائیں گے۔

قال رسولؐ ان اللّٰہ یدخل بسھم الواحد ثلاثۃ نفر فی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعہ والرامی بہ ومنبلہ (سنن نسائی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین افراد کو جنت میں داخل کرے گا۔ ایک بنانے والے کو جو اس کی صنعت میں ثواب چاہتا ہے اور چلانے والے اور تیر دینے والے کو۔

وقال رسولؐ من رمٰی بسھم فی سبیل اللّٰہ فھو لہ عدل محرر (سنن نسائی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو اللہ کی راہ میں ایک تیر چلائے گا اُس کو غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔

جب اقامت ِ دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے سلسلے میں ایسے چھوٹے کام کا ثواب جنت ہے تو بڑی خدمات کے ثواب کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔

اقامت قرآن کے لیے اسلامی حکومت کا قیام

اقامت ِ قرآن کے لیے اسلامی حکومت (حکومت ِ الٰہیہ) کا قیام لازمی ہے۔ قرآنی آیات احکام پر عمل صرف اسلامی حکومت کے ذریعے سے ہی کیا جاسکتا ہے:

وَالسَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ط (المائدہ ۵:۳۸)، چور خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (المائدہ ۵:۹۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو۔ اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔

عہدصحابہؓ سے شراب پینے کی سزا ۸۰ کوڑے تھی۔ یہی مسلک امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک شراب نوشی کی حد ۴۰کوڑے ہے۔ ان حدود کا اجرا صرف حکومت کا کام ہے۔

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا (النور۲۴:۴)، اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئین ان کو ۸۰ کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔

اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ط (البقرہ ۲:۲۷۵)، اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔

قرآن حکیم میں قتال فی سبیل اللہ کے لیے گیارہ آیات اور جہاد کے لیے ۲۶ آیات آئی ہیں۔ اسی طرح حدود اللہ کے اجرا کے لیے متعدد قرآنی آیات ہیں۔ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان قرآنی آیات پر اسلامی حکومت ہی کے ذریعے سے عمل ہوسکتا ہے اور اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں انفرادی طور پران پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تمام نصوصِ قرآنی سے بطور اقتضا اسلامی حکومت کے قیام کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور مسلم معاشرے کے تمام افراد پر اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنا حدِاستطاعت تک فرض ہے اور استطاعت کے باوجود اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوششیں نہ کرنا ویسے ہی گناہ اور معصیت ہے، جیسے صاحب ِ استطاعت مسلمان پر روزہ، نماز، زکوٰۃ، حج فرض ہے اور ان فرائض کا ترک کرنا عاقبت کو برباد کرنا ہے۔

شھادتِ حق اور اس کے تقاضے

قرآن حکیم میں مسلمانوں کی ایک بہت اہم اور بڑی ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں اور شہادتِ حق کی حجت پوری کریں۔ فرمایا گیا: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳)، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک اُمت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ اس فقرے سے مراد یہ ہے کہ حشر کے دن جب حساب لیا جائے گا اُس وقت رسول ہمارے نمایندے ہوکر تم پر گواہی دیں گے کہ صحیح فکروعمل نظامِ عدل اور دین حق کی جو تعلیم انھیں اللہ سے ملتی تھی رسولؐ نے اس کو پوری طرح قولاً و فعلاً پہنچا دیا، اور اس کے بعد رسولؐ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اُمت محمدیہؐ نے اسے عام لوگوں تک پہنچانے میں اپنی صلاحیت اور قوت کی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔

اُمت محمدیہؐ کا منجانب اللہ گواہی کے منصب پر مامور ہونا درحقیقت اُس کو امامت اور پیشوائی کا مقا م عطا کیا جانا ہے۔ پھر آگے جو بیان تحویل قبلہ اور اتمامِ نعمت کا آیا ہے، اس سے    یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ بنی اسرائیل کو جو منصب امامت حاصل تھا وہ ختم ہوا اور اب    امامتِ اُمم (اُمتوں کی امامت) کا منصب اُمت محمدیہؐ کو تفویض ہو رہا ہے۔ سورئہ بقرہ کی اس آیت کے بعد سورئہ حج میں یہ بات ایک نئے انداز سے دہرائی گئی ہے:

ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(الحج ۲۲: ۷۸)، اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمھارا یہی نام ہے تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

اس تفصیل کے بعد منصب امامت و ہدایت اور اقامت دین کی اصل غرض سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں تین آیات بڑی اہمیت کی حامل ہیں:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴:۱۳۵)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

اسی مضمون کو سورئہ مائدہ میں ایک دوسرے تقاضے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے:

کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ۵:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

پہلی آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے گواہی دینے والے بنو، اگرچہ تمھارے اپنے نفس کے یا اعزہ و اقربا کے خلاف گواہی ہورہی ہو۔ دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ کسی سے دشمنی تمھیں حق کی گواہی سے منحرف کرنے کاسبب نہ ہو۔ غرض محبت و عداوت دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عدل و راستی کی راہ سے ہٹاکر ظلم میں مبتلا کردیتی ہیں۔ کونوا قوامین بالقسط اور قوامین للّٰہ کوتاکید سے پیش کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ عدل وانصاف اور او امراللّٰہ پر ہر وقت اور ہرحال میں قائم رہنا ضروری ہے۔ دوستی دشمنی تمھیں راہِ حق سے منحرف نہ کرے۔

اس ضمن میں تیسری آیت درج ذیل ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحدید ۵۷:۲۵)، ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب، اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع میں۔

پہلی دو آیات میں خطاب مومنین سے تھا۔ سورئہ حدید کی آیت سے خطاب کا دائرہ وسیع ہوگیا اور لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ کہہ کر پورے انسانی معاشرے اور اس کے پورے نظام کو عدل پر قائم رکھنے کی بات کی گئی۔ اور یہ اعلان سامنے آیا کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک سب کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا سارا نظام انصاف اور عدل ہی پر قائم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ حضوؐر کے بعد اس نظام کے قیام کی ذمہ داری اُمت محمدیہؐ کے اُوپر ڈالی گئی۔ اسی ذمہ داری کو قرآن نے شہادتِ حق سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ کہ لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی طاقت اور منافع ہیں۔ یہ بات خود بخود اس عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے۔ رسولوں کو قیامِ عدل اور اقامت ِ دین کی محض اسکیم پیش کرنے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں داخل تھی کہ اس عدل کامل کو عملاً قوت سے نافذ کیا جائے اور ظالمین کو سزا دی جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدلِ حقیقی اور اقامت ِ دین کو اپنے قول اور فعل سے قائم کیا، اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ یہ تمام قرآنی آیات دلالۃ النص (قرآن کی آیت کا دلالت کرنا) سے اقامت دین کے فریضے کو ثابت کرتی ہیں۔

گذشتہ تفصیلات سے یہ مدعا اور مقصد وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین اولین اور اہم ترین فریضہ ہے اور اس کا مقام تمام فرائض میں جنس اعلیٰ اور کلیۃ الکلیات ہے جو دوسرے تمام فرائض پر حاوی ہے۔ یہ فریضہ نبوت کے ساتھ ہی شروع ہوا اور اقامت ِ دین کی جدوجہد  حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات تک جاری رہی۔ نماز جو دین اسلام کا رکن اعظم ہے معراج میں، یعنی نبوت کے گیارھویں سال فرض ہوا۔ روزہ دو ہجری اور زکوٰۃتو مکی زندگی سے فرض تھی مگر نصاب کے ساتھ زکوٰۃ کی فرضیت آٹھ ہجری میں ہوئی اور حج نو ہجری میں فرض ہوا مگر فریضہ اقامت ِ دین آنحضرتؐ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔

مسلمانوں کی دنیوی و اُخروی سعادت اور اسلام کی دعوت، غلبہ و اقتدار کا انحصار اقامت ِ دین پر ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ رسالت، یعنی اظہارِ دین کا حصول بھی اقامت ِ دین کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں پر اقامت ِ دین کو فرض قرار دیا ہے تاکہ ہر دور میں اس کے ذریعے مقصد ِ رسالت ’اظہارِ دین‘ حاصل کیا جاتا رہے۔

دیگر فرائض کا تعلق افراد کے ذاتی اعمال سے ہے اور قیامت کے دن میدانِ حشر میں ان فرائض نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا حساب انفرادی ہوگا، جب کہ اقامت ِ دین کُل وقتی طریقۂ حیات ہے جو انسانی اجتماعیت پر منطبق ہوتا ہے اور انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اور لمحہ اس سے خالی نہیں۔

اس ہمہ گیر احساس فرض ہی نے مسلم ہند کے لیے پاکستان بنانا ممکن ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول کو قانونی اور سیاسی طور پر تسلیم کیا۔ اس عظیم خدمت میں بڑا حصہ علامہ شبیراحمد عثمانی، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کے مولانا اکرم خان اور لیاقت علی خان کا رہا ہے۔ بعد میں ۱۹۵۱ء میں تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علما نے متحدہ و متفقہ طور پر ۲۲رہنما اسلامی دستوری اصول مرتب فرمائے جس میں مولانا مودودی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا احترام الحق جیسے ۳۱ علما شریک تھے۔ اب یہ ہم سب کی اور بالخصوص علماے کرام اور دینی جماعتوں کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے دین کو پاکستان میں عملی طور پر نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور عنداللہ خوشنودی کے مستحق قرار پائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسوئہ رسولؐ اور اسوئہ صحابہؓ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


مقالہ نگار شعبہ تقابل ادیان و ثقافت اسلامیہ، جامعہ سندھ جامشورو کے سابق صدر ہیں

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کی ۶۵ فی صد آبادی کا انحصار زراعت اور اس سے منسلک صنعتوں پر ہے۔ پاکستان کی ۷۰ فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔

یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی ملک کے کاشت کار ‘ہاری اور زرعی مزدور بدترین زمین دارانہ نظام کا شکار ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں نواب شاہ کے ایک ڈپٹی کمشنر مسعود کھدر پوش نے اپنی مشہور ہاری رپورٹ میں ہاری کی حالت زار بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:’’انسان‘ حیوان ناطق ہوتے ہوئے بھی وہ پالتو جانوروں کی طرح مشقت میں جُتے رہتے ہیں‘ انھیں مراعات حاصل ہیں نہ حقوق‘ اور اب تین تین بڑی زرعی اصلاحات اور مزارعت (tenancy)کے قوانین میں تبدیلیوں کے بعد ملک میں آج بھی لاکھوں انسان جبری مشقت پر مجبور ہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کے ادارے اکنامک ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کے ۹۳ فی صد چھوٹے کاشت کاروں کے پاس پاکستان کی ۳۷ فی صد اراضی ہے‘  جب کہ آبادی کے ۷ فی صد بڑے زمین داروں کے پاس ۶۷ فی صد اراضی ہے۔ گویا بڑے زمین دارجو تعداد میں کم ہیں‘ زیادہ اراضی کے مالک ہیں‘ جب کہ چھوٹے کاشت کار جو بڑی تعداد میں ہیں کم اراضی کے مالک ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے ۵۷سال بعد بھی محروم طبقات کی مراعات میں اضافہ نہیں ہوا۔ وہ اب بھی ناامیدی‘ مالی پریشانی اور اپنے خاندان کی عصمت کے تحفظ کے خوف کی فضا میں جیتے ہیں۔ ایسے حالات میں کاشت کار یکسوئی‘ پوری توجہ‘ محنت اور لگن کے ساتھ کیونکر کام کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری زرعی پیداوار بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم گندم جیسی اہم پیدوار میں خودکفیل نہیں ہیں‘ جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک کی زرعی پیداوار میں اور ان کے خود کفالتی زرعی نظام میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

حالات گہرے غوروخوض اور عمل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رب کائنات کی الہامی اقتصادی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں جو عدل پر مبنی حقیقی اور مستقل قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور ہر حال میں واجب العمل ہیں‘ اور جن کے تحفظ اور نفاذ کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ان ربانی ہدایات پر عمل کر کے ہم آخرت کی عیشہ راضیہ اور جنت سے پہلے اس دنیا میں بھی امن و سکون اور وہ خوش گوار زندگی حاصل کرسکتے ہیں جس کو قرآن نے حیاتِ طیبہ اور حیاتِ حسنہ سے بیان فرمایا ہے۔

ان ربانی تعلیمات کا ایک اہم قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ان کی بنیاد‘ انسانی وحدت و مساوات کے نظریے پرہے۔ تمام انسان پیدایشی طور پر مساوی اور برابری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان انسانیت کے لحاظ سے جن حقوق کا مستحق ہوتاہے ہر دوسرا انسان بھی برابری کے ساتھ ان حقوق کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ ان بنیادی حقوق میں سے پہلا حق تحفظ کے ساتھ اپنی طبیعی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ دوسرا حق اپنے ذتی امور آزاد مرضی سے خود طے کرنا‘تیسراذاتی ملکیت کا حق‘ چوتھا قانونی مساوات کا حق ہے۔

اسلامی تعلیمات میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قدرتی وسائل دولت اور ملکی ذرائع آمدنی پر معاشرے کے چند لوگوں کی اجارہ داری اور بالادستی قائم نہ ہونے پائے کہ دوسرے لوگ محرومی کا شکار ہوجائیں۔ اسی طرح ملکی اور قومی دولت کی گردش کا دائرہ چند بڑے لوگوں کے درمیان نہ رہے بلکہ وہ معاشرے کے تمام افراد تک وسیع اور پھیلا ہوا ہو‘ سب آزادی اور عزتِ نفس کے ساتھ اس سے مستفید ہوسکیں‘ بصورت دیگر پورا معاشرہ بدامنی و بے چینی اور بربادی کا شکار ہوکر رہتا ہے۔ معاشی عدمِ توازن ضرور باہمی نزاع و تصادم کا سبب بنتا ہے۔

ان حالات میں‘ پاکستان میں زرعی اصلاحات کے نفاذ کو اولین ترجیح دینا چاہیے۔ اس حوالے سے کچھ نکات غور کے لیے پیش ہیں۔

زرعی اصلاحات کے نفاذ کے لیے حکمت عملی

زرعی اصلاحات اور نفاذ کے لیے مندرجہ ذیل حکمت عملی کو بروے کار لاکر مؤثر طریقے سے ان اصلاحات کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔

۱-            زرعی و اقتصادی ماہرین‘ دانش ور‘ علماے کرام اور ترقی پسند زمین داروں و کاشت کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ سیمی نار‘ مباحثے اور میڈیا کے ذریعے زرعی اصلاحات کی افادیت کو واضح کیا جائے‘ اور فوری طور پر زرعی اصلاحات ایکٹ ۱۹۷۷ء نافذ کیا جائے۔

۲-            ایک مستقل زرعی اصلاحات کمیشن قائم کیا جائے تاکہ زرعی اصلاحات کے نفاذ کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے ‘اور ان کو مزید مؤثر بنانے کے لیے نہ صرف اقدامات تجویز کیے جائیں بلکہ ان اقدامات کے نتائج کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے اور اس سلسلے میں مشکلات کو دُور کیا جائے۔

۳-            شرعی وراثت کے احکامات پر عمل کیاجائے اور انھیں مؤثر بہ ماضی (retrospective) قرار دیا جائے۔ خاص طور پر خواتین کے حقوق وراثت بہت زیادہ رواجی طور پر تلف قرار پائے جاتے ہیں۔ ان حق داروں کو ان کا حق دلایا جائے۔ اس کے لیے علیحدہ سے عدالتی ٹریبونل قائم کیا جائے تاکہ ان کے مقدمات کا تصفیہ جلد اور باقاعدگی سے عمل میں آسکے۔

۴-            زرعی گریجوایٹس میں فاضل سرکاری زرعی زمین تقسیم کی جائے تاکہ زراعت میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔

۵-            مزارعت کا نظام: اسلامی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک عبوری دور کے لیے بٹائی سسٹم پر پابندی لگا دے اور کاشت کار مقررہ اُجرت پر زمین دار کے پاس کام کریں اور اُجرت کا تعین حکومت خود کرے۔ بصورت دیگر حکومت زیرکاشت زمین کا پیداواری یونٹ کے لحاظ سے مالیانہ (لگان) متعین کر دے جسے کاشت کار نقد کی صورت میں زمین دار کو ادا کرے۔ اس طرح کاشت کار یکسوئی اور پوری توجہ سے زمین کی پیداوار بڑھانے پر اپنی محنت صرف کر سکے گا اور زمین دار کی بے جا مداخلت سے محفوظ رہے گا۔

۶-            زرعی پیداوار پر عشر یا نصف عشر کی تحصیل وصول اور تقسیم کاباقاعدہ نظام قائم کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے عشر سے متعلق مسائل کو تفصیل سے مرتب کر دیا ہے۔ ان پر عمل درآمد صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عشر کے فنڈ سے ہم دیہی علاقوں میں غریب بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیمی وظائف اور ترغیبات کا اہتمام کرسکتے ہیں اور ان کے بگڑے ہوئے احوال کی کچھ اصلاح کرسکتے ہیں۔

۷-            جبری مشقت اور نجی قیدخانوں سے نجات کے لیے بانڈڈ لیبر ایکٹ ۱۹۹۲ء پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور کسی مزدور یا ہاری کو ماہانہ تنخواہ سے زاید بطور ایڈوانس زاید رقم اور قرض خلافِ قانون قرار دیا جائے۔ پرانے قرض داروں کے قرض رائٹ آف قرار دیے جائیں اور انھیں قید سے آزاد قرار دیاجائے۔

۸-            زمین داروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی تمام زمینیں زیرکاشت لائیں۔ اگرکوئی زمین دار بغیر کسی مثبت عذر کے مسلسل تین سال تک زمینوں کو بغیر کاشت کے پڑا رہنے دے توحکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان زمینوں کو واپس لے کر مستحق کاشت کاروں میں تقسیم کردے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی تمام غیر آباد زرعی زمینوں کو مستحق افراد میں تقسیم کرے اور کوئی زمین غیرآباد پڑی نہ رہنے دے۔