ڈاکٹر عبداللہ محسن


کیا جماعت اسلامی ہسپتال بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی؟

دوستوں کی محفل میں ایک تحریکی ساتھی نے یہ سوال کیا تو اس امر کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کیا فلاحی اداروں کی کوئی افادیت تحریک اسلامی کے لیے ہے؟

فلاحی اداروں کی حیثیت اسلامی معاشرت میں وقف کی ہوتی ہے، یعنی کسی ادارےکے لیے اللہ کے نام پر جو اثاثہ دے دیا جائے اس کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صدقۂ جاریہ کی بہترین صورت ہے، جس کا اجر طویل عرصے تک ملتا رہتا ہے۔اثاثہ جات کے حساب سے وقف کی دوقسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی صورت میں دیے گئے عطیے سے مسجد، مدرسہ، اسکول، ہسپتال یا کوئی اور فلاحی ادارہ قائم کیا جاتا ہے، جب کہ دوسری صورت یہ ہے کہ زمین، باغ، عمارت یا تجارت اس غرض سے وقف کی جائے کہ اس کی آمدنی سے فلاحی ادارے کے جاری اخراجات پورے کیے جائیں۔ فقہا نے دونوں مقاصد کے لیے وقف کرنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے مدینہ میں ہجرت کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے لیے کنواں بئرروما عطیہ کیا تھا، جو مزرعہ بئرعثمان کے اندر آج بھی موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنّت کی بشارت دی تھی۔

l وقف کی اسلامی تاریخ: اسلامی تاریخ کے پہلے وقف کے بارے میں دو آرا پائی جاتی ہیں: بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کے لیے اوّلین زمین وقف کی تھی، جب کہ بعض دوسرے مؤرخین نے حضرت عمرؓ کی خیبرکی زمینوں کو اسلام کا پہلا وقف قرار دیا ہے۔۱ تاریخ کے مطالعے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیسرے سنہ ہجری میں ایک نومسلم بنی نادر مخیرک نے رسولؐ اللہ کو سات باغات مدینہ میں عطا کیے تھے، جو آپؐ نے فلاحِ عامہ کے لیے وقف کر دیے تھے۔۲

حضرت عمرؓ نے ساتویں سنہ ہجری میں خیبر کی زمینوں کو وقف کرتے وقت باقاعدہ شرائط عائد کی تھیں: ’’یہ زمین فروخت نہیں کی جائے گی اور کسی نام پر حوالے نہیں کی جائے گی، نہ کسی کی میراث بن سکے گی بلکہ اس کی آمدنی سے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جائے گی۔ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے گا۔ مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کی جائے گی۔ اگر اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس میں سے اپنی ضروریات پر خرچ کرلیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ اپنے لیے اس میں سے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرسکتے‘‘ (بخاری، مسلم)۔

اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین، بنواُمیہ، بنوعباس، ممالیک اور عثمانی سلطنت کے دور میں ہزارہا وقف قائم ہوئے اور ان کی آمدنی سے تعلیمی ادارے، لائبریریاں، ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے بنائے گئے۔ اساتذہ، ملازمین اور منتظمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ مستحق طلبہ کو وظائف دیے گئے۔ عباسی دور میں ہسپتال تعمیر کیے گئے اور مریضوں کے علاج کے اخراجات ادا ہوئے۔ مسافروں اور غربا کے لیے عارضی رہایش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ اسلامی دنیا کی ایک ہزار سال پرانی یونی ورسٹی الازہر بھی مصر میں فاطمی دور میں ایک وقف کے طور پر قائم کی گئی۔ دنیا میں سب سے زیادہ وقف زمین انڈونیشیا میں ہے، جس کا کُل رقبہ ۳۸کروڑ ۹۳ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔۳

اسلامی حکومتوں نے وقف کی گئی زمینوں، عمارات اور اداروں کو چلانے کے لیے وقتاً فوقتاً قوانین جاری کیے۔ اس کا مقصد ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا، اور ان کی خدمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا تھا۔ عثمانی دور میں ان اداروں کی خاص سرپرستی کی گئی۔ سعودی عرب میں خانہ کعبہ اور مسجدنبویؐ کے اطراف میں بے شمار وقف موجود ہیں۔ گویا دین اسلام ضرورت مندوں کی خوراک، رہایش، معاشی امداد، تعلیم، صحت، امن و امان اور مفادِ عامہ کی غرض سے وقف قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

l خدمت اور دعوت کا  تعلق: جان لینا چاہیے کہ خدمت اور دعوت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ دعوت کے تین ذرائع: قولی دعوت، تحریری دعوت اور عملی دعوت ہیں اور عملی دعوت کا بہترین ذریعہ خدمت خلق ہے۔ عامۃ الناس کی خدمت کے ذریعے ہی آپ ان کے دلوں پر دستک دے سکتے ہیں۔ سنت ِ رسولؐ یہی ہے اور اُمت نے بھی اسی راستے کو دعوت کے لیے کارآمد پایا ہے۔

عامۃ الناس کی خدمت کرنے کے تین درجے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں کی ذاتی طور پر براہِ راست مدد کی جائے اور مشکل اوقات میں ان کے لیے آسانیاں مہیا کی جائیں۔ دوسرا درجہ فلاحی اداروں کے قیام کا ہے جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کی جاتی ہے۔ کسی بڑی آفت کی صورت میں منظم طریقے سے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے اور اعلیٰ درجے کی سہولیات ان کو مہیا کی جاتی ہیں جو کہ انفرادی مدد کے ذریعے ممکن نہیں۔ خدمت ِ خلق کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اسلامی فلاحی مملکت قائم کرکے ہرفرد کو اس کی دہلیز پر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں تاکہ اس کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ رہے۔

جماعت اسلامی کے پیش نظر ان تینوں ذرائع سے عوام کی خدمت کرنا ہے اور اس کی جدوجہد کا اصل مقصد فلاحی حکومت کا قیام ہے۔ اس وقت تک انفرادی مدد اور اداروں کے ذریعے خدمت ِ خلق کا کام جاری ہے۔ یہ دعوت کو پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

l تحریک کے لیے اہمیت:سوال یہ ہے کہ تحریک اسلامی کے لیے عہدحاضر میں فلاحی اداروں کی کس قدر ضرورت اور اہمیت ہے؟ جماعت اسلامی نے اپنے قیام سے ہی فلاحی کاموں کا آغاز کردیاتھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے داعی تحریک سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا نے سرگرم کردار ادا کیا۔ قربانی کی کھالوں کو جمع کرکے اس سے عوام کی خدمت کا تصور جماعت اسلامی نے ہی پیش کیا (جس پر اب ملک کی ہرفلاحی تنظیم عمل پیرا ہے)۔

مولانا مودودیؒ نے خدمت خلق کے کاموں کی سرپرستی فرمائی۔ آپ کی ہدایت پر  خدمت ِ خلق کی انجام دہی کے لیے مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا اور منظم انداز میں فلاحی کاموں کا آغاز کیا گیا۔ الحمدللہ، موجودہ دور میں الخدمت فاؤنڈیشن  ایک الگ، رجسٹرڈ اور خودمختار تنظیم کے طور پر پورے ملک میں مستحکم ہوکر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اور بسااوقات عالمی سطح پر بھی فلاحی منصوبوں میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

معاصر اسلامی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو اخوان المسلمون نے ۱۹۴۰ء میں منافع بخش تجارت اور اس کی آمدنی سے فلاحی کاموں میں مدد کرنے کے لیے سات کمپنیاں قائم کیں، جن میں اسلامی فنانس کمپنی، پرنٹنگ ہاؤس، معدنیات کی کمپنی، کپڑا بنانے کی فیکٹری، انجینیرنگ کمپنی ، عام تجارت کا ادارہ اور میڈیا کمپنی شامل تھیں۔ ان اداروں نے اخوان کے فلاحی اور تنظیمی کام کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے مصر میں بڑے تجارتی منصوبے کامیابی سے چلائے۔۴  زمانے کے نشیب و فراز کے باوجود ان کاموں کا نتیجہ بالآخر مصر کے عام انتخابات میں اخوان کی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ ترکی، تیونس، مراکش اور دیگر ملکوں میں اسلامی تحریکیں خدمت ِ عام کے بے شمار رفاہی ادارے کامیابی سے چلارہی ہیں۔

l حکومت چلانے کی تربیت: فلاحی اداروں کی اہمیت پاکستان میں اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ عہدِ غلامی میں غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے یہ بات بڑے زوروشور سے پھیلائی گئی کہ اسلامی عناصر حکمرانی کے کام کے لیے موزوں نہیں۔ اس پروپیگنڈے کے اثرات آج بھی ہمارے عوام میں بڑی حد تک پائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی ٹیم موجود ہے۔ یہ لوگ مختلف اداروں کو کامیابی سے چلا کر جماعت کی صفِ اوّل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عوام کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر متاثر کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر جماعت اسلامی کے حامی فلاحی اداروں کے سربراہان عوام الناس کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہیں تو لوگوں کے ذہن اَزخود جماعت کی خدمات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

l صحت عامہ کے اداروں کی ضرورت:اب آیئے اس سوال کی طرف کہ فلاحی کاموں کے لیے ہسپتالوں اور میڈیکل اداروں کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ ’کورونا‘کی وبا کے دوران جماعت اسلامی کے ہسپتالوں، اداروں اور اس کے ہم خیال ڈاکٹروں کی کارکردگی سے کیا جاسکتا ہے۔ کورونا کی وبا کے آغاز سے ہی نظمِ جماعت نے اپنے تمام ہسپتالوں کو جدید آلات سے مزین کرکے حکومت کو پیش کر دیا۔ اس دوران جماعت سے وابستہ تنظیموں نے کروڑوں روپے کا طبی سامان ضرورت مندوں میں تقسیم کیا۔ ایسے بھی کئی مقامات تھے جہاں پر حکومت حفاظتی سامان نہیں پہنچاسکی وہاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما )نے یہ سامان مہیا کیا۔ یوں الخدمت، پیما اور جماعت اسلامی کے حلقۂ خواتین نے دوماہ میں دو ارب روپے فلاحی کاموں پر خرچ کیے۔ کورونا کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ۵کروڑ روپے کی لاگت سے جدید مشینری لگائی گئی، جس کے ذریعے پرائیویٹ ہسپتالوں میں آٹھ، نوہزار روپے میں کیا جانے والا ٹیسٹ الخدمت لیب میں ۳ہزار روپے میں کیا گیا۔ تھر میں الخدمت ہسپتال کا دورہ، اعلیٰ حکام نے مہم کے ابتدائی دنوں میں کیا اور اس کو حکومت نے کورونا سنٹر کا درجہ دے دیا۔ صفائی اور جراثیم سے بچاؤ کا سامان (سینی ٹائزر) ہزاروں لیٹر تقسیم کیا گیا۔ الغرض اس کثیرالجہتی مہم سے تحریک کو جہاں پاکستانی عوام کی خدمت کا موقع ملا وہاں عوام کو یہ پیغام بھی ملا کہ جماعت کے افراد اعلیٰ درجے کے ادارے کامیابی سے چلا سکتے ہیں۔

l مستقبل کا لائحہ عمل: اسلامی تحریکوں کے لیے خدمت خلق کے اداروں کی حیثیت مسلّمہ ہے۔جدید ٹکنالوجی سے مزین اعلیٰ معیار کے اداروں کی خدمات کو ہرایک اچھی نظرسے دیکھتا ہے اور تعریف پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل افراد ان اداروں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونِ ملک مقیم ہم خیال پروفیشنل حضرات کی خدمات سے فائدہ اُٹھا کر بین الاقوامی سطح کے مختلف النوع منصوبے ملک میں شروع کیے جائیں تاکہ آنے والے برسوں میں تحریک کا تشخص اور زیادہ بہتر بنایا جاسکے۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی بڑی تعداد اس دعوت کے قریب آسکتی ہے  جن کو مناسب حکمت عملی کے ذریعے اپنی تنظیم کے اندر سمویا جاسکتا ہے۔نیز یہ مراکز اسلامی فکر اور لٹریچر کے فروغ کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

حواشی

۱-         عبداللہ بن عبدالرحمٰن ، توحید الاحکام من بلوغ المرام، جلد ۴ (۱۹۹۷ء)، مکتبہ النہضۃ الحدیثہ

۲-         جرنل آف اسلامک اکنامک سائنسز، جلد۱، شمارہ ۱ (۲۰۱۵ء)، ص ۸

۳-         رپورٹ وزارت مذہبی اوقاف، انڈونیشیا، ۲۰۱۶ء

۴-         عبدالحلیم علی، Methodology of Education Adopted by Muslim Brotherhood، قاہرہ، ص ۵۹