پروفیسر محمد منور مرزا


تمام پیغمبر ؑ ایک ہی دین لے کر آتے رہے، اس دین کا نام اسلام ہے۔ وہ دین جب دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوپ میں ظاہر ہوا، تو کمال کو پہنچ گیا۔ گویا ہروحی جو رسولوںؑ پر نازل ہوئی، آخرکار قرآن مجید کی صورت میں اتمام سے ہمکنار ہوئی۔ تمام رسولوں کی سیرتیں، سیرتِ محمدیہؐ کے جلو میں پروان چڑھیں، اور یوں انھوں نے اپنی معراج و منتہا کو پالیا۔ اب تاقیامت دینِ محمدیؐ، یعنی اسلام کامل بنوآدم کا ضابطۂ حیات رہے گا۔ اس ضابطۂ حیات کا مقصد آخری لفظی وحی، قرآن کریم ہے، اور آخری عملی معیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔

زندگی ایک مسلسل حقیقت ہے اور اس تسلسل میں کہیں انقطاع نہیں۔ حضرت علّامہ اقبال کے نزدیک پوری کائنات ایک نامیاتی (Organism) وجود ہے۔ جب سے یہاں آدم کا ظہور عمل میں آیا ہے، سیرتِ آدم کا تکمیلی سفر حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخ کی طرف رہا، اور تاقیامت سیرتِ آدم کا یہ سفر جاری رہے گا، اس لیے کہ تکمیلِ سیرتِ آدم ؑ کا نقطۂ آخریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ قدسی صفات ہے۔ آپؐ ہی کا طریقۂ زندگی، اسوئہ حسنہ ہے، اور اسی اسوے کو اپنا کر بنوآدم اپنی ذات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

دین کا فہم گویا روحِ محمدؐ و ابراہیم ؑ تک رسائی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ روح ابراہیم ؑ خود آپ ہی کی ذات میں پہنچ کر کمال یاب ہوئی۔ اسی لیے ملت اسلام کا دوسرا نام ’دینِ ابراہیمی‘ ہے۔ عربی میں ’ملت‘ کا معنی ’دین‘ ہے، اس کے معنی ’اُمت‘ نہیں ہیں۔ ملتِ ابراہیمیؑ یا دینِ ابراہیمیؑ کے تکمیلی سفر کو حضرت علّامہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت
تا چراغِ یک محمدؐ برفروخت

[اس کے شعلوں نے سیکڑوں ابراہیم ؑ جلادیے، تاکہ ایک محمدؐ کا چراغ روشن ہو]۔

حضرت علّامہ نے ایک خط میں واضح کیا ہے، اور یہ خط حافظ محمد فضل الرحمٰن انصاری کے نام (۱۶جولائی ۱۹۳۷ء) لکھا ہے، یعنی علّامہ کی وفات سے تقریباً نو ماہ پہلے۔ مکتوب الیہ ریسرچ کی نیت سے یورپ جانا چاہتے تھے۔ علّامہ نے انھیں منع کیا اور تلقین یہ کی کہ عربی زبان میں مہارت پیدا کرکے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں:

مصر جایئے،عربی زبان میں مہارت پیدا کیجیے۔ اسلامی علوم، اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ، تصوف، فقہ، تفسیر کا بغور مطالعہ کرکے محمدؐ عربی کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اگر ذہن خداداد ہے اور دل میں خدمت ِ اسلام کی تڑپ ہے تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے، جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے۔

واضح ہوا کہ:

بمصطفےٰ برساں خویش را کہ  دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اجتہاد دراصل اس عملی ارتقا کا نام ہے جو فقہ کے باب میں جلوہ گر ہو۔ رہا یہ کہ فقہ کیا ہے؟  تو علّامہ زمخشری کا قول ہے: ’’فقہ کی حقیقت تحقیق و تفتیش کرنا اور کھولنا ہے‘‘۔

ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قانون اور ضابطہ، اُمت مسلمہ کی توحیدی روح ہے۔  قدرتی امر ہےکہ علّامہ اقبال جو مسلمانوں کی شخصی وحدت کے بھی متمنی تھے اور اجتماعی توحید کے بھی، وہ فقہ کی اس حاوی کیفیت اور بھرپور اہمیت کو بخوبی محسوس کرتے تھے، اور یہ ان کا عقیدہ تھا کہ اسلام آخری ضابطۂ حیات ہے، جسے تاحشر انسانی معاشروں کی رہنمائی اور روح افزائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ لہٰذا، اصل روح کو بحال رکھتے ہوئےفقہ اسلامی کو ہرزمانے کا ساتھ دینا ہوگا۔ حضرت علّامہ کہتے ہیں:

باطن او از تغیر بے غمے
ظاہرِ او انقلابِ ہر دمے

[اس کا باطن (بنیادی اصول) تغیر ناپذیر ہوگا، لیکن اس کے ظاہر میں ہردم نئی تبدیلی ہوگی]۔

اس حقیقت کے شدید احساس کے باعث، حضرت علّامہ کی دلی تمنا تھی کہ وہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں قرآن کے مطالب قلم بند کریں، مثلاً ۱۹۳۵ء میں انھوں نے سرراس مسعود کے نام ایک خط میں یہ اظہار کیا:

چراغِ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرجائوں۔جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کےلیے وقف کردینا چاہتا ہوں، تاکہ قیامت کے دن آپ کے جدامجد (حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضورؐ نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا۔

خود علّامہ کے الفاظ ہیں:

میں نے اپنے خیالات کا بڑی تفصیل سے، اشعار میں اظہار کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں ان سے بھی بڑی چیز ہے، جسے قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔

یہ الفاظ حضرت علّامہ نے اپنے دوست خواجہ عبدالوحید صاحب سے اکتوبر ۱۹۳۴ء میں کہے تھے۔ یہی وہ کتاب تھی جس کے قلم بند کرانے کی خاطر سر راس مسعود کے توسط سے نواب صاحب بھوپال نے ۱۹۳۵ء میں حضرت علّامہ کا ۵۰۰ روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر فرمایا تھا تاکہ آپ وکالتی دھندوں سے فارغ الذہن ہوکر اس کتاب کی تصنیف کی جانب متوجہ ہوسکیں، مگر صحت نے ساتھ نہ دیا۔ یہ آرزو شکست یاب ہوکر حسرت بن گئی، جسے علّامہ اپنے ساتھ عالم عدم میں لے گئے۔

اسلامی فقہ سے ان کی یہ دلچسپی زندگی کے آخری برسوں ہی میں پیدا نہ ہوئی تھی۔ سیّد سلیمان ندوی کے ساتھ ان کی جو خط کتابت ہوئی، اس میں بھی کئی خطوط میں فقہی مسائل زیربحث رہے۔ کوئی خط ۱۹۲۴ء میں تحریر ہوا، کوئی ۱۹۲۵ء میں،اور کوئی ۱۹۲۶ء میں، مثلاً مارچ ۱۹۲۶ء میں سیّد سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں:

اس وقت سخت ضرورت اس امر کی ہے کہ فقہ کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اسی بحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے، جو میری نظر سے گزری ہے، اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر مولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا، مگر چونکہ میرا دل بعض اُمور کے متعلق خود مطمئن نہیں، اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا۔

حضرت علّامہ نے مکتوب بالا کے بعد اپریل ۱۹۲۶ء کے ایک مکتوب میں بھی اپنے رسالہ اجتہاد کا ذکر دُہرایا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ علّامہ نے اجتہاد کےباب میں جن خیالات کا ذکر کیا، سیّد سلیمان ندوی نے گمان کیا کہ شاید عبادات بھی اجتہاد کی زد میں آگئی ہیں یا آسکتی ہیں۔ اس غلط فہمی کا ازالہ حضرت علّامہ نے بایں الفاظ کیا:

عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں، معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چونکہ شریعت احادیث (وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہوجاتا ہے، اور ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا۔ میرا مقصود یہ ہے کہ زمانۂ حال کے ’جورس پروڈنس‘ کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے، مگر غلامانہ انداز میں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں۔

چند سطور آگے جا کر اسی مکتوب میں علّامہ نے ایک دو فقہی مسائل سے تعرض کیا ہے:

آپ کے خط کے آخری حصے سے ایک سوال میرے دل میں پیدا ہواہے، اور وہ یہ کہ امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کردے اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقرر کردے۔ اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرآنی ہے؟ حضرت عمرؓ نے طلاق کے ضمن میں جو مجلس قائم کی ہے، اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا؟میں اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ زمانۂ حال کی زبان سے یوں کہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی امام کی قائم مقام ہوسکتی ہے؟ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی دُنیا کے لیے ایک واحد امام؟ مؤخرالذکر صورت موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیوں کر بروئے کار آسکتی ہے؟

فقہ سے ان کی دلچسپی واضح ہے اور فقہ کو معاصر احوال پر منطبق ہونے کے لائق بنانا اجتہاد ہے، اور حضرت علّامہ نے۱۹۲۶ء میں کوئی رسالہ اجتہاد کے موضوع پر مرتب بھی کیا تھا جس کا ذکر سطوربالا میں گزر چکا ہے کہ جسے حضرت علّامہ نے بوجوہ شائع نہ کرایا۔ بہرحال، وہ خواہاں تھے کہ اسلام کے اساسی اصولوں کی روح کو پیش نظر رکھ کر ہرزمانے میں اُبھرنے والے سوالوں کا جواب دیا جائے۔ یہ مباحث یوں محسوس ہوتا ہے گویا مدراس میں دیے جانے والے خطبات، خصوصاً چھٹے خطبے کے تمہیدی یا پس منظری تعاونات تھے۔

حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ فتوحات اسلامی کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل نے سر اُٹھایا۔ چنانچہ فقہا نے خوب محنت صرف کی، ضابطے اور قاعدے مرتب کیے، مسائل کے حل تجویز کیے، جو ہوتے ہوتے چند مستقل مذاہب کی صورت میں متعین ہوگئے۔ علّامہ کی رائے میں ان فقہی مذاہب کے یہاں اجتہاد کے تین درجے ہیں:

       ۱-    تشریح یا قانون سازی کی مکمل آزادی، جس سے فقط بانیانِ مذاہب نے فائدہ اُٹھایا۔

       ۲-    محدود آزادی جو کسی مذہب کی حدود کے اندر ممکن ہو۔

       ۳-    وہ مخصوص آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے سے ہو، جسے مؤسسین مذاہب نے جوں کا توں چھوڑ دیا ہو۔ یہاں علّامہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بحث شق اوّل تک ہی محدود رکھی۔

اسی ضمن میں حضرت علّامہ وضاحت کرتے ہیں کہ علمائے سنت والجماعت اصول اور نظریے کے طور پر تو اس امر کے قائل ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہیے، مگر انھوں نے اس ضمن میں شرائط ایسی عائد کررکھی ہیں، جن کا پورا کرنا اگر ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ یہاں حضرت علّامہ بعض مستشرقین کی اس رائے یا الزام کی تردید کرتے ہیں کہ اجتہاد کی راہ ترکوں کے اثر سے بند ہوئی۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ترکوں کا اثر شروع ہونے سے قبل حرکتِ فقہ میں جمود رُونما ہوچکا تھا۔ بہرحال، حضرت علّامہ فقہ و اجتہاد کے باب میں بندش کے اسباب بیان کرتے ہیں:

       ۱-    بنوعباس کے دور میں فروغ پانے والی تعقلیت جس نے بعض ایسے مسائل کھڑے کر دیے کہ جن کے نتائج آگے چل کر بڑے خطرناک ہوتے، مثلاً خلقِ قرآن کا مسئلہ۔ علما و فقہائے اُمت کو (خواہ بربنائے غلط فہمی) خوف لاحق ہوا کہ نظام جیسے متکلمین کی حد سے بڑھی ہوئی بے باک کلامی بحثیں کہیں اُمت کے فکری انتشار کا باعث نہ بن جائیں۔ اس ڈر کے مارے انھوں نے فقہ و اصول میں اور بھی زیادہ تشدد پیدا کرلیا تاکہ اسلامی سوسائٹی کا ڈھانچا بحال رہے۔

       ۲-    متکلمین اور فقہا کی عقلی و فقہی موشگافیوں سے بے زار ہوکر ایک گروہ الگ ہوبیٹھا۔ وہ گروہ غیراسلامی مؤثرات سے متاثر تھا۔ یہ اہل تصوف کا گروہ تھا۔ علّامہ کہتے ہیں کہ تصوف کو عقلیین کے خلاف ایک طرح کی بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے۔ علّامہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سوسائٹی کے عالی دماغ لوگوں نے تصوف کے دامن میں پناہ لے لی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اصول و قانون کا شعبہ متوسط درجے کے افرادِ علم و عقل کے قبضے میں چلا گیا۔

       ۳-    سقوطِ بغداد سے مسلمانوں کو شدید دھچکا لگا اور اس کے جلو میں آنے والی تباہی و بربادی نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر اسلامی سوسائٹی اور دین کے مستقبل کے باب میں نیم مایوسی کا سایہ ڈال دیا۔ نتیجہ یہ کہ فکری و قومی اضمحلال بڑھا اور انتشار بھی۔ حضرت علّامہ خود بھی اس صورتِ حال میں جس امر پرزور دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ’’قوائے انحطاط کا سدباب نظم وربط ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھے، اور ہمارے زمانےکے علما نہیں سمجھتے تو یہ کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس امرپر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے، بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں، قدرت اور صلاحیت کیا ہے۔ یوں بھی جب معاشرہ حد سے زیادہ منظم ہوجائے تو اس میں فرد کی ہستی سرے سے فنا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے گردوپیش کی اجتماعی افکار کی دولت سے تو مالا مال ہوجاتا ہے، لیکن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھتا ہے‘‘۔

ترکوں کے تجدد کو زیربحث لاتے ہوئے علّامہ نے کہا: ’’پھر اگر اسلام کی نشاتِ ثانیہ ناگزیر ہے جیساکہ میرے نزدیک قطعی ہے، تو پھر ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدروقیمت کا اَزسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اصل بات جو توجہ طلب ہے، وہ یہ ہے کہ حقِ اجتہاد کس کو حاصل ہے؟ فرد کو یا جماعت کو؟ ترکوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے یا اسلامی تعلیمات کے مطابق اس منصب کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلس کے سپرد بھی کیا‘‘۔ علّامہ اس طریق کو اس لیے درست قراردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ طرز عصرحاضر میں بحالی جمہوریت کے لیے ناگزیر تھا۔

علّامہ اقبال تاکید کرتے ہیں کہ علما کا بھی ایک گروہ اسمبلی میں شامل ہونا چاہیے، جو دین سے متعلق زیربحث آنے والے مسائل اور ان کے ضمن میں روپذیر ہونے والے ضوابط و قواعد کا جائزہ لیتے رہیں۔ یہاں حضرت علّامہ نے ایرانی دستور کی مثال دی جس کی رو سے مجلس قانون ساز کی ایک مجلس علما نگران تھی۔ ساتھ ہی علّامہ نے خدشہ بھی ظاہر کیا کہ علما کی یہ مجلس خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت علّامہ کے مزاج میں تو لذت کاری کا جوہر ایسا رچا ہوا تھا کہ وہ ہرشے کے محاسن و مصائب پر بیک وقت نظر رکھتے ہیں۔

حضرت علّامہ نے اذان و نماز کے ترکی زبان میں تبدیل کیے جانے کو قابلِ اعتراض قرار دیا۔ حضرت علّامہ متنبہ کرتے ہیں کہ جن احوال سے ترک دوچار ہیں، انھی احوال سے دیگر مسلمان اقوام کو بھی واسطہ پڑنے والا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ خوش آیند ہے کہ حقیقت حال سے گریبان گیر ہونے کا جذبہ پیدا ہو، مگر اس ساری تائید کے ہمراہ یہ حرفِ انتباہ بھی ہے جو علّامہ اقبال کے مزاج کی توازن پسندی اور اعتدال جوئی پر دلالت کرتا ہے:

بہرحال ہم اس تحریک کا جو حُریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ ہے، آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقے اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔

کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو قومی مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ خوش بختی سب کی خوش بختی ہے، بدبختی سب کی بدبختی ہے۔ سارے   اہلِ قوم اس ملک کی بنا و تعمیر کے ذمہ دار تھے اور بقا و توقیر کے ذمہ دار ہیں۔ افراد کے عزائم کا اتحاد اجتماعی قوت کی اساس ہے   ع

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

اس اعتبار سے اجتماعی فلاح و بہبود اور استقلال و خلود کے معاملے میں سیاست دان اور غیرسیاست دان کی تفریق ایک ’فرقہ وارانہ‘ بات ہوگی۔

حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی روح باعزت بقا کا جذبہ تھا۔ یہ وہی جذبہ تھا جس کے تحت حضرت عالم گیر نے اکبری روایات میں یک سر تبدیلی پیدا کردینی چاہی تھی اور خاصے کامیاب بھی رہے تھے۔ یہ وہی جذبہ تھا جس نے سراج الدولہ، حیدر علی اور بطور خاص ابوالفتح ٹیپو کو انگریزوں سے متصادم کر دیا تھا، اوریہ وہی جذبہ تھا جس کی تسکین کی خاطر اللہ والے سروں سے کفن باندھے بنگال، بہار، اڑیسہ، یوپی، مدراس اور دکن سے کبھی پیدل، کبھی سوار نکلتے تھے جن کا زادِ راہ تقویٰ تھا، جن کا مقصود اعلاے کلمۃ الحق یا شہادت تھا۔ وہ مجاہدین اسلام برعظیم پاک و ہند کے شمال مغربی کونے میں پہنچتے تھے۔ کبھی سندھ کی راہ سے، کبھی کشمیر کے راستے سے، تاکہ پنجاب و سرحد کے علاقوں کو غیروں کے پنجۂ استبداد سے چھڑا کے اس کے نواح میں مضبوط اسلامی مرکز باقاعدہ قائم کریں اور پھر باقی برعظیم کی بازیابی کا پروگرام بنائیں۔ روح ایک تھی، بدن جدا جدا تھے۔ زبانیں جدا جدا تھیں، نسلیں اور علاقے جدا جدا تھے۔ وہ بظاہر ناکام ہیں مگر ہر معنوں میں ناکام نہیں رہے، روحانی اعتبار سے   ان کا جہاد جاری رہا۔ مسلمانوں نے آزادی کے تصور کو کبھی پسِ پشت نہ ڈالا۔

داستانِ مجاہدین لکھنے اور بیان کرنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان انھی مجاہدین کے ارادوں کی تکمیل کا مظہر ہے۔ وہ تلوار سے لڑے تھے، جنوبی اور مشرقی ہونے کے باوصف شمالی اور مغربی بھائیوں کی خاطر قربان ہوگئے تھے۔ ان کے اخلاف نے بھی شمالی، مغربی اور مشرقی اقطاع کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔ جنگ کا انداز بدل گیا تھا، روح وہی تھی۔ بزرگ تلوار سے لڑے، عزیزوں نے آئینی جنگ لڑی، مگر باضابطہ مرنے مارنے کے جذبے کو آئینی جنگ کے پسِ پشت رکھ کر۔ یہ جذبہ بے اختیار اسلامی حمیت کا جذبہ تھا، آزادی واستقلال کا جذبہ تھا۔ مجاہدین کے جہاد کو کسی نے غیروں کے خوف کا نتیجہ نہ کہا، اسے دیوانگی و جنون تو کہا جاسکتا تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دیوانے لوگ تھے۔ وہ سر کٹا سکتے تھے سر جھکا نہ سکتے تھے۔ اسی جذبے نے ہمیں ہمارے زمانے میں سرشار کیا، بیدار کیا اور ہم سرگرم پیکار ہوگئے۔ مگر بعض حقیقت فراموش ’اہلِ اخلاص‘ نے کہا: اے مسلمانو! تم ہندو کے ڈر سے پاکستان مانگ رہے ہو۔ پاکستان کا مطالبہ بزدلی کی نشانی ہے اور مسلمان بزدل نہیں ہے۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھی اس طرح کی آواز کبھی کبھی سننے   میں آجاتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق ہندو کے خوف کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ یہ عجیب و غریب  اُلٹی منطق ہے۔

بھائیو! اگر ہم بزدل ہوتے تو اپنے طاقت ور رفقا کی مرضی کے خلاف کیوں کر آواز اُٹھاتے؟ مجاہدین نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو وہ بزدل نہ قرار دیے گئے اور ہم نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو بزدلی کا طعنہ دیا جانے لگا۔ یہ طعنہ دینے والے بزرگ کس غفلت، یا مروت، یا ضد کا شکار ہوگئے؟ کسی قوت کے خلاف آواز بلند کرنا بزدلی ہے یا اس قوت کے خوف سے اس کی منشا کے خلاف لب نہ کھول سکنا بزدلی ہے ؟ اگر ہم ہندو کی عددی کثرت اور مالی وسائل کی وسعت کو دیکھ کر دبک جاتے اور اس کی مرضی کے خلاف لب کھولنے کی جرأت نہ کرتے تو یہ بزدلی ہوتی، مگر ہم نے تو طاقت ور اکثریت کی مرضی ٹھکرا دی___ ہم نے یہ اقدام جس خوف کے باعث کیا تھا وہ ہندو کا خوف نہ تھا وہ غلامی کا خوف تھا۔ وہ آزادی سے محرومی کا خوف تھا، وہ غیرت و حمیت کی موت کا خوف تھا، وہ اپنی قومی انفرادیت کے فنا کا خوف تھا۔ یہ بات اتنی باریک نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے، ہاں نیت کا پیچ نظر کی ڈوری کو اُلجھا دے تو جدا معاملہ ہے۔

اس کے باوصف آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند کے معاملات میں کسی مرحلے پر اکثریت کو لائق اعتماد نہیں جانا۔ ہم نے اعتماد بھی کیا، اس انداز میں کہ آزادی ملے تو دونوں قوموں کو ملے، دونوں آزادی کے نتائج سے برابر نفع اندوز ہوں، دونوں جملہ کاروبار آزادی میں ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہوں، مگر اکثریت نے دل شکنی کی، بار بار دل شکنی کی۔ اکثریت کو ہماراوجود ہی گوارا نہ تھا۔ وہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ انگریز کے نکلنے تک مسلمانوں کو بھی نڈھال کر دیا جائے اور برابر کا ساتھی اور رفیق بنانے کی جگہ خادم و غلام کے درجے پر پہنچا دیا جائے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بھانپ لیا، احتجاج کیا، جواباً مہاتمائی کلمات ملے جو ’اگرچہ‘ تاہم ’بہرحال‘، ’چنانچہ‘، ’چونکہ‘، ’البتہ‘ میں ملفوف تھے۔ جب احتجاج کا لہجہ سخت ہوا تو الزام لگا تم تنگ دل ہو، فرقہ پرست ہو۔ جو قوم ہمراہی قوم سے اپنے جائز حقوق کا تعین چاہے وہ فرقہ پرست اور جو قوم اپنے ہمراہی مخلص رفقا کا خون پیتی چلی جائے اور ان کی تباہی کے درپے رہے، وہ ’عالی ظرف‘۔  ہم ساتھیوں کی نیت دیکھ کر چونکے۔ حضرت قائداعظم یا دیگر زعما نے علیحدگی کا نعرہ آناً فاناً نہیں  بلکہ باقی ہر طریق عمل کی کامرانی سے مایوس ہوکر بلند کیا تھا۔ ہم ہندو اور انگریز کی مرضی کے خلاف     کا مگار ہوئے تھے، اور ان علاقوں کے مسلمانوں نے جو پاکستان کا حصہ نہ بن سکتے تھے سوچ سمجھ کر پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی۔ انھوں نے سیداحمد شہید کے متبعین کی طرح مسلم اکثریت کے علاقوں کی خاطر قربانی دی تھی، نہ انھوں نے دھوکا کھایا تھا، اور نہ اکثریت کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انھیں دھوکا دیا تھا۔

یہاں پھر یہ بات دہرائوں گاکہ یہ کام محض سیاست دانوں کا نہ تھا، پوری قوم کا تھا۔ سیاست دان اور غیرسیاست دان بے معنی تفریق ہے۔ امتیاز فقط قائدین کو حاصل ہے۔ ورنہ سیاست دان تو قوم کا ہر فرد تھا اور آج بھی ہے، نہیں تو ہونا چاہیے۔ آپ کو یاد ہے کہ اس طوفان تمنا میں جہاں وکلا شریک تھے وہاں سول افسر، پولیس افسر، تاجر اور اساتذہ بھی شامل تھے، فوجی سپاہی بھی مضطرب تھے اور پولیس کے سپاہی بھی، کلرک بھی سرگرم تھے اور طلبہ بھی۔ قائدین نے متنبہ کیا، قوم متنبہ ہوگئی، اور منزل پر پہنچ گئی مگر جہاد ختم نہیں ہوا۔ ابھی کمر کھولنے کا وقت نہیں آیا، بلکہ زندہ قوموں کے لیے ایسا وقت کبھی آیا ہی نہیں۔

اگر اس وقت آزادی و استقلال کی تمنا نے پوری قوم کو ہوشیار و مستعد کر دیا تھا تو آج قوم کیوں سُست پڑ رہی ہے؟ آج کیوں قوم بقاے پاکستان کی ذمہ داری محض لیڈروں کے سر تھوپ کر سو رہی ہے؟ جن مخالف قوتوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کی مخالفت کی تھی وہ تو بدستور برسرِ عداوت ہیں بلکہ مقابلے اور رقابت کی تلخی پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج قوم کا فرد فرد کیوں حالات کی نزاکت کے مطابق چوکس نہیں؟ پہلے مقابلہ فقط برعظیم کی حدود کے اندر تھا۔ اب مقابلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے، لہٰذا آج پہلے سے بھی زیادہ بیداری اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ قائدین کا فرض ہے کہ قوم کو غافل نہ ہونے دیں اور قوم کا فرض ہے کہ اپنے قائدین کو جھنجھوڑتی رہے۔

اسلام اور کفر دو الگ ملتیں ہیں۔ ان میں سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ظلمت نور کے درپے رہے گی، باطل حق کے گریباں گیر رہے گا، اس لیے ہمیں ہندوئوں سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اگر آسام، بھوپال، جبل پور، میرٹھ، ممبئی، کلکتہ وغیرہ میں مسلمانوں کو پامال کریں تو وہ فطرت سے مجبور ہیں۔ اگر واہگہ کی راہ سے پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور یہاں پہنچ کر مسلم معاشرے کو کچل دینے کا تہیہ کریں تو جب بھی وہ مجبور ہیں۔ ان کے ڈنک کو کند کرنے یا توڑ دینے کا بندوبست ہمارا کام ہے۔ ہم بھی اسی صورت میں چین سے جی سکیں گے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی!

پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہندوئوں نے اس کو تباہ کرنے کے منصوبے بھی بنانے شروع کردیے تھے۔ مگر شاید وہ نہ جانتے تھے کہ حضرت قائداعظم کے بقول ’’پاکستان مرضی مولا‘‘ ہے، وہ بن کر رہا اور تن کر رہ رہا ہے، وہ مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ آپ کو یاد ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے فوراً بعد جسٹس مہرچند مہاجن کا بیان ہندستانی اخبارات میں چھپا تھا جس میں مذکور تھا کہ پاکستان بنتے ہی ہم نے ایک اہم اجتماع منعقد کیا، جس میں سردار پٹیل، مہاراجا پٹیالہ، مہرچند خود، بخشی غلام محمد (یادش بخیر) جنرل تھمایا وغیرہ شامل ہوئے تھے اور طے پایا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کو کاری ضرب لگا دی جائے، مگر حکومت نے ساتھ نہ دیا۔ آج وہ فتنہ یوں آنکھیں دکھا رہا ہے‘‘___ اس امر کی تصدیق اپنی کتاب میں جنرل کول نے بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تجویز پنڈت نہرو کی خدمت میں پیش کی تو وہ بولے: پاکستان وہ ڈھانچا ہے جو خود ہی گرنے کو ہے، اسے ہم  گرا کے دنیا کی نگاہوں میں کیوں بُرے بنیں‘‘۔

پاکستان کو ڈھا دینے یا اس کے خود بخود ڈھے جانے کی تمنا ہندو کا ایک خوش آیند خواب تھا اور ہے۔ اگرچہ انگریز نے ہندو کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ہمیں کمزور سے کمزور تر پاکستان مہیا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوصف یہ ڈھانچا روز بروز مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے بارہا ٹھوکر لگائی اور ہمیشہ منہ کی کھائی۔ ۱۹۶۵ء میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ مگر ایک غلط نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس جنگ کے بعد غافل سے ہوگئے، خوداعتمادی نے دشمن کو ہماری نظروں میں حقیر بنا دیا، یہ رویہ بڑا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ دشمن برسرِ انتقام ہے، وہ دیکھ چکا ہے کہ پاکستان نہ خودبخود ختم  ہوا اور نہ اس کے ضرب لگانے پر اسے کوئی نقصان پہنچا، لہٰذا اب وہ آخری بھرپور وار کرنے کا خواہاںہے۔ وہ زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف    محاذ در محاذ کھول رکھے ہیں، شب و روز سازش اور پروپیگنڈا جاری ہے تاکہ وہ ہمارے دوستوں کو ہم سے بدگماں کرے اور بدخواہوں کو مزید بدخواہ بنائے۔ وہ ہرلحظہ طاقت بڑھانے میں مصروف ہے۔ وہ اقتصادی طاقت ہو خواہ عسکری، امریکا اور روس کھلے بندوں اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اندریں حالات ہم کیا فیصلہ کریں؟ کیا ہم ہندستان کی لیڈرشپ قبول کرلیں؟ یا کیا ہم کشمیر کو ہضم ہوجانے دیں؟ یا کیا ہم اپنے وجود کو ختم کرلیں؟ ہرگز نہیں۔

یہ بات تو صاف ہے کہ ہندو نے برعظیم کی تقسیم کو گئوماتا کی تقسیم قرار دیا تھا۔ وہ پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے باقی رہنے کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، تاوقتیکہ پاکستان اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ اس چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر آخر مایوس ہوکر بیٹھ جائے۔ یہ قوت پاکستان کے اندر   اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال کے بغیر بیدار نہ ہوگی۔ ہر میدان میں ترقی کا قدم آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ قوم کا بچہ بچہ سپاہی بھی ہو اور اسلامی حمیت کے جذبے سے سرشار بھی۔ اسی جذبے نے پاکستان کو جنم دیا تھا، وہی جذبہ اس کی مدافعت بھی کرے گا۔ کوئی بھی متبادل قدر اسلامی حمیت کی قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ موٹی سی بات ہے کہ ہم نے آزادی اسلام کی خاطر اور اسلام کے نام سے حاصل کی تھی۔ یہ کہنا کہ یہ فقط اقتصادی ضرورت تھی بے بنیاد خیال ہے۔ ویسے میں اتنا    پوچھتا ہوں کہ یہ اقتصادی ضرورت کس گروہ کی تھی جس نے مجبور کیا کہ الگ گھر بنائو؟ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے گروہ کی، تو یہ گروہ کیوں توجہ طلب تھا؟ اس لیے توجہ طلب تھا کہ یہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ گویا نام و بنیاد مخاصمت تو پھر بھی اسلام ہی رہا۔ بہرحال اسلامی حمیت کی تقویت اور پرورش لازم ہے ۔ ایسے جملہ عناصر اور جملہ اعمال کی سرکوبی ناگزیر ہے جو ملّت پاکستان کے دل میں اس حمیت کو کمزور کردینے کا باعث بنیں۔ حضرت قائداعظمؒ نے اگر قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اسلام کا گھر اور وطن ہوگا جہاں شریعت ِ محمدیؐ کارفرما ہوگی، تو وہ وعدہ سرتاسر مبنی براخلاص تھا۔ اخلاص کی نصرت اسی خلوصِ پیمان کے باعث تھی۔ اگر ہم خدا کو بھلا دیں گے اور عہدشکنی کریں گے تو مکافاتِ عمل کی اجتماعی سزا کا سدِباب مشکل ہوگا۔ (انتخاب: پاکستان، حصارِ اسلام، ص ۱۳۴-۱۳۹)