نجیبہ عارف


امریکا میں لفظ ـ’اسلام‘ اور اس کے بنیادی تصورات کے بارے میں جاننا چاہیں تو کتابوں کی کسی دکان میں داخل ہو جائیں۔ خون خشک کردینے والے عنوانات اور سرورق فوراً آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں گے۔ یہ سنسنی خیز ، صحافیانہ ادب مسلمانوں کی امریکا دشمنی اور اس کے خلاف دہشت گردی کے لرزا دینے والے منصوبوں کو طشت از بام کر تا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ الماریوں میں ایسی کتابیں بھی موجودہیں جن میں نہایت سنجیدہ اور محققانہ انداز میں مسلم تہذیب کی ناکامی اور اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی پیش گوئیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ وہیںکسی گوشے میں،  اسلام کے فلسفۂ مذہب اور تاریخ سے متعلق ، بیزار کن اور پیچیدہ نثرمیں نصابی مباحث پر مبنی     کچھ جائزے اور مطالعات بھی مل جاتے ہیں۔ شاید چند ایک مسلمان مصنفین کی اسلام کے خلاف الزام تراشیوں کے جواب میں دفاعی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ،معذر ت خواہانہ انداز کی تحریریں بھی   مل جائیںاورآخر میں دو تین تراجمِ قرآن--- ایک اجنبی زبان کا پر اسرار اور ناقابل فہم متن۔ تو پھر اسلام سے شناسائی کیسے ہو؟ ۱؎

یہ وہ سوال ہے جو کارل ارنسٹ (Carl Ernst) نے اپنی کتابـ Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World (بر نقشِ کف پاے محمدؐ) کے مقدمے میں، اپنی تصنیف کا جواز پیش کرتے ہوئے اٹھایاہے۔ کارل ارنسٹ کا نام امریکا میں مطالعات اسلامی کے پروفیسر کی حیثیت سے نیا نہیں۔ وہ کئی برس سے نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کیرولینا مرکز براے مطالعۂ مشرقِ وسطیٰ اور تہذیب اسلامی کے ڈائرکٹر ہیں۔ ان کی زیرمطالعہ کتاب ۲۰۰۳ء میں پہلی بار نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور عربی، فارسی، ترکی، جرمن اور کورین زبانوں میںاس کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ ہندستان اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں طبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب نے علمی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی اور کئی عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ۔۲؎

کتاب کے مقدمے ہی میں انھوں نے چند ذاتی تجربات کے ذریعے اس پس منظر سے واقف کر دیا ہے جس میں نہ صرف اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے بلکہ نائن الیون کے بعد امریکا میںتیزی سے ابھرنے اور پھیلنے والے اسلام مخالف جذبات کی شدت اور نوعیت بھی ظاہرہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب انھوں نے ۲۰۰۲ء میں تصنیف کی تھی جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا ۔ اس تصنیف کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی متعصبانہ اور   بنیاد پرستانہ تفہیم سے دور رہتے ہوئے اس کی مذہبی روایت اور عصری تاثر کا، ایک مختلف اور ہم دردانہ مگر تجزیاتی اور استدلالی مطالعہ پیش کیا جائے ۔

یہ کتاب دراصل اس خصوصی دل چسپی کا مظہر ہے جو نائن الیون کے بعدپیدا ہونے والے حالات میں، اسلام اور اس کے عقائد، نظام ِ معاشرت اور فکری اساس کے بارے میں مغرب، بالخصوص امریکا میںپیدا ہوئی ہے جہاں اسلام کا سنجیدگی، دل چسپی اور فکری آزادی سے مطالعہ کیا جارہا ہے۔ کارل ارنسٹ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں (ارنسٹ،ص xix) اور اس کتاب کی تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے اس انسان دوست تاثر کو اجاگر کیا جائے جوصوفیہ کی تعلیمات کا عطر ہے اور انسانیت کے تحفظ کی خاطر،بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور تحمل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ انھیں اپنے اس مقصد کی راہ میں حائل دوطرفہ دشواریوں کا بھی احساس ہے جن کا ایک پہلو تو یورپ اور امریکا میں اسلامی نظریات و نظام حیات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، اور دوسرا خود مسلمانوں کے انتہا پسندعناصر کی سرگرمیوں کا ردعمل ہے جو اسلام کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تاہم ان کا یہ اعتراف کہ اسلام کا غیر جانب دارانہ مطالعہ اس لیے ضروری ہے تاکہ امریکیوں کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان بھی انسان ہیں اور انسانیت کے کل کا ایک جزو ہیں (ایضاً، ص xvii)، اصل صورت حال کا چشم کشا اشارہ ہے۔

کتاب کل چھے ابواب پر مشتمل ہے جس میں اسلام کابطور مذہب اور نظام حیات مطالعہ  کیا گیا ہے۔کئی مقامات پر یہ مطالعہ اس قدر جامع اور گہرا نہیں مگر مجموعی طور پر مصنف کا نقطۂ نظر    بے تعصبی اور غیر جانب داری پر مبنی ہے۔ تاہم اس کتاب کا پہلا باب جسے، اس مضمون میں  موضوعِ بحث بنایا گیاہے،کئی حوالوں سے اس لائق ہے کہ اس کے مندرجات کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے اور ان کی روشنی میں مغرب میں پھیلنے والے اسلام کے منفی تاثر کے اسباب و محرکات پر غور کیا جائے۔ اس باب کا عنوان ہے ــ’’اسلام :مغرب کی نظر میں‘‘۔

اسلام اور مغرب: عصری تناظر

اسلام اور مغرب دومختلف نوعیت کی اصطلاحات ہیں۔ مغرب ایک جغرافیائی اصطلاح ہے جو کسی خاص خطۂ زمین سے وابستہ ہے، جب کہ اسلام کا تعلق معتقدات و نظریات سے ہے۔ دونوں کے درمیان ایسی کوئی یکسانیت موجود نہیں جس کی بنا پر دونوں کا تقابل کیا جا سکے۔ لیکن یہ تقابل  عہدِحاضر کی فکری جستجو کا اہم محور بن چکا ہے۔ برنارڈ لیوس نے اس تقابلی مطالعے کا جواز پیش کرتے ہوئے ’مغرب‘ کی لسانی اصطلاح کو قرونِ وسطیٰ میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’عیسائی دنیا‘ (Christendom) کا متبادل قرار دیا ہے۔۳؎ نشاتِ ثانیہ کے بعد یورپ میں مذہبی تشخص نے ثانوی اور سیکولر نظریات نے اولین اہمیت حاصل کر لی تو یورپ، جو پہلے عیسائی دنیا سمجھا جاتا تھا،  خود کو مغرب کہنے لگا ۔ گویا مغرب سے وہ ممالک مراد ہیں جہاں یورپی نشاتِ ثانیہ کے بعد سیکولر ازم کا دعویٰ کیا جانے لگا۔ دوسری طرف اسلام سے وہ خطے یا ممالک مراد لیے جاتے ہیں جہاں اسلامی نظام رائج ہے۔ یہ بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور ارنسٹ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر یہ    نکتہ اٹھایا ہے کہ مذہبی تصورات کی وحدت کے پس پشت تکثیریت کارفرما ہوتی ہے اور انھیں مختلف طرح سے دیکھا ، سمجھا اور برتا جاتا ہے، لہٰذاپوری اسلامی دنیا کو عصر جدید میں ایک یکساں اکائی  قرار دینا معاملے کو غیر ضروری طور پر سادہ کرلینے کے مترداف ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ ماضی کو رد کرنے اور حال کو حقیقت کی واحد میزان خیال کرنے کا عمل بھی نظر ثانی کا محتاج ہے۔ جدیدیت کی جس منہ زور لہر نے ماضی کے مقابلے میں،زمانۂ حال کو مغرب کا خیر مطلق قرار دے رکھا ہے، ارنسٹ نے اس پر تنقید کی ہے کیوںکہ حال ایک نہ ایک دن ماضی ہو جاتا ہے اور اگر ماضی فرسودہ اور بے معنی ہے تو حال بھی اس تہمت سے پاک نہیں رہ سکتا۔ مغرب میں مذہب کومحض حال کی روشنی میں پرکھنے کا عمل جاری ہے اور یہی عمل درست نتائج کے استنباط میں حائل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد و احکامات کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کی لسانی تاریخ اور مختلف عصری تناظرات میں ان کا استعمال بھی قابلِ غور ہے جس کے بغیر مذہب کی روح تک نہیں پہنچا جاسکتا۔

ارنسٹ نے اہلِ مغرب ، بالخصوص امریکی قوم کی نفسیات اور احساسِ برتری کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں مگر وہ اپنے علاوہ دیگر اقوام کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب (یعنی یورپ اور امریکا) اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت اور لاعلمی کی ایک گہری خلیج حائل ہے۔ افہام و تفہیم کا عمل اگر ہے بھی تو نامکمل اور یک طرفہ، یعنی ایجادات، اشیا اور تصورات و نظریات کا بہاؤ مغرب سے دنیاے دگر کی جانب ہے۔ اس عمل کو عہدِ حاضر میں عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کا نام دے دیا گیا ہے.... مذہبی اصطلاحات اور لسانی اظہارات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے تاریخی تناظر کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ یورپ کا اسلام کے خلاف تعصب نوآبادیاتی نظام کا کوئی قابلِ قبول جواز پیش کرنے کی کاوش ہوسکتا ہے اور معاصر اسلامی حلقوں میں مغرب مخالف واویلا اسی نوآبادیاتی تسلط کے ردعمل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ نیز اس بات سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ دونوں طرف کے سیاسی حلقے اور حکمران اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے مذہب کو ایک آلۂ کار اور ہتھکنڈے کے طور پر بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔ مذہبی جذبات کے اس استحصال کی مثالیں تاریخ کے صفحات سے لے کر زمانۂ حال تک موجود ہیں۔

مغرب میںاسلام دشمنی: تاریخی تناظر

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مغرب میںکسی مذہب کا ایسامنفی تاثرقائم نہیں ہوا جیسااسلام کا۔ گاندھی نے ہندومت کا عدم تشدد کا فلسفہ دنیا میں متعارف کرواکے خاصا مثبت تاثر قائم کر لیا اور دلائی لامہ نے تو دنیا بھر میں بدھ مت کا خوش گوار تعارف کروا دیا۔یورپ اور امریکا میں گذشتہ صدی کے دوران یہودیت کے بارے میں بھی بہت مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہوددشمنی اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز تک عام تھی لیکن ہو لوکاسٹ اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔عیسائیت یونہی مغربی اکثریت کامذہب ہے اور اسے کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا۔اب رہا اسلام تو ذرائع ابلاغ مسلسل اس کا ایک منفی تاثر قائم کرتے آئے ہیں اور یہ تاثر کم و بیش پو رے مغرب میں نفوذ کر چکا ہے۔

یہ منفی تاثر کیوں قائم ہوا؟ مسلمانوں کے ماضی اور حال کا رشتہ کس حد تک استوار ہے؟ مسلمانوں کے خلاف یہ مخاصمانہ جذبات جنھیں مغرب میں قبول عام حاصل ہو چکاہے، کیا جواز رکھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جنھیںاٹھانا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ یورپ اور امریکا میں سامی النسل یہودیوں سے دشمنی کو کوئی معزز شخص جائز نہیں سمجھتا ۔ اس بات پر کم و بیش عوام الناس کا اتفاق ہے کہ یہودیوں کے بارے میں تحقیر آمیز کلمات ادا کرنا یا ان کی توہین کرنا ، خواہ یہ جسمانی خصا ئص کی بنا پر ہو یا رویے کی بنا پر، قابلِ نفرت اور بداخلاقی کا مظہر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھی عوام کا تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے تک اس بات کا قائل نظرآتا ہے کہ اسلام بذاتہ عورتوں پر ظلم کرنے والا اور تشدد پسند مذہب ہے۔ شماریاتی اعتبار سے بھی اس امر کا تجزیہ دل چسپ نتائج پیش کرتا ہے۔دنیا میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ہے جو سکھوں کی آبادی سے کچھ کم ہے۔ ظاہر ہے یہ سمجھنا مضحکہ خیز ہو گا کہ اتنی بڑی آبادی کا ہر فرد ایک جیسی خصوصیات اور یکساں عادات و اطوار کا مالک ہو گا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے بھی کچھ اوپر ہے اور اتنی بڑی آبادی کے ہر فرد کو ایک جیسی خصوصیات کا حامل قرار دے دیا جاتا ہے جو یقینا بہت بڑی غلطی ہے۔

حقیقت یہ ہے، اورجیسا کہ مطالعۂ اسلام کے ایک نام وَر اسکالر، مارشل ہوجسن        (Marshal Hodgson ۔ ۱۹۶۸ئ- ۱۹۹۲ء ) نے اپنی معرکہ آرا کتاب The Ventures of Islam: Conscience and History in the World Civilization میںکہا ہے،کہ گذشتہ ۲۰۰ سال سے کسی علیحدہ اسلامی دنیا کا وجود نہیں ہے،نہ سیاسی طور پر، نہ معاشی طور پر، نہ تہذیبی و ثقافتی طور پر اور نہ عسکری اعتبار سے۔ اکثر مسلم ممالک کی تقدیر اس تمام عرصے کے دوران کسی نہ کسی طور پر یورپ اور امریکا سے وابستہ رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، کثیر القومی تجارتی ادارے، ذرائع ابلاغ کے دیو اور انٹر نیٹ کی دنیا نے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی ہے جس میں کسی ایک کلچر کو دوسرے کے اثرات سے پاک رکھنا کم و بیش ناممکن ہے۔ دوسری طرف اگر ۵۰ سے زیادہ مسلمان ممالک کی جانب دیکھا جائے تو ان کا تہذیبی و ثقافتی تنوع، لسانی ، نسلی اور گروہی اختلافات اور نظریاتی و فرقہ وارانہ اختلافات حیران کن ہیں۔

مغرب اور اسلام یادوسرے لفظوں میں عیسائی دنیا اور دنیاے اسلام کے درمیان روابط کی تاریخ کھنگالتے ہوئے ارنسٹ نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی نسبت عیسائیوں کے مسلمانوں کے بارے میں مخاصمانہ جذبات و تاثرات نے موجودہ نفرت انگیزفضا تیار کرنے میں زیادہ بڑا کردار ادا کیا ہے۔ قرون وسطیٰ میں عیسائیوں کی نسبت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ قریبی تعلقات قائم رہے ہیںاور حال ہی میں اسرائیلی ریاست کے قیام تک دونوں ایک دوسرے کے رفیق و معاون رہے ہیں۔ مصنف کا یہ نقطۂ نظرنہ صرف اسلامی مؤرخین کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے جوعیسائیوں کی نسبت یہودیوں کو اسلام کا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کا سرا پہلی اسلامی ریاستِ مدینہ میں یہودیوں کی اسلام دشمنی سے ملاتے ہیں،بلکہ ان کے ہم عصر برنارڈ لیوس نے بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کا ازلی ہمسایہ اورکئی مشترک اوصاف کا مالک قرار دیا ہے۔ (لیوس،    ص vii)۔مگر ارنسٹ نے قرون وسطیٰ سے لے کر اب تک ، عیسائیوںکی مسلم دشمنی کا جو اجمالی جائزہ پیش کیا ہے وہ ان کے اس دعوے کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ عیسائی راہب بحیرہ (جس نے   پیغمبرؐ اسلام کو نبوت کی بشارت دی تھی) کی کردار کشی سے لے کرموجودہ زمانے تک عیسائی دنیا میں اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کاسلسلہ جاری رہا ہے۔۴؎

پیغمبرؐ اسلام کی حیاتِ مقدسہ پر حملے

اسلام عیسائیت کو ایک الہامی مذہب قرار دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان بالاتفاق [حضرت] عیسیٰ ؑ اور [حضرت] مریمؑ کو لائقِ تعظیم سمجھتے ہیں۔ دوسری طر ف قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک عیسائیوں نے مسلمانوں کی ان کے پیغمبر سے عقیدت اور والہانہ شیفتگی کو ہمیشہ زخم لگانے کی کوشش کی ہے۔[حضرت] محمدؐ کی وہ تمام صفات جوان کے ایمان کا جزو ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک محترم، مثالی اور لائقِ تقلید ہیں،عیسائی مصنفین نے انھیں منفی انداز میں، خامیوں کے طور پر پیش کیا۔ حیاتِ[حضرت] محمدؐپر اہلِ مغرب کی سب سے سخت تنقیدآپؐ کی عسکری مہمات اور   تعدّدِ ازدواج سے متعلق رہی ہے۔ دونوں مذاہب کے درمیان نقطۂ نظر کا یہ اختلاف کئی صورتیں اختیار کرتا چلا گیا۔ ایک طرف کلیسائی اکابر کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ کلیسائی دائرے سے باہر کسی کو پیغمبرانہ عظمت حاصل ہو سکتی ہے اور دوسری طرف مسلمان صدق دل سے کلیسائی عقائد ، بالخصوص تثلیث کے عقیدے کو، اصل مسیحی تعلیمات سے روگردانی اور گم راہی خیال کرتے تھے۔

مسلمان [حضرت] محمد ؐ کو رحمۃ للعالمین خیال کرتے ہیں اور [حضرت] عیسٰی ؑ کو روح اﷲ اور کلمۃاﷲ قرار دیتے ہیں ۔ عیسائی مصنفین اس رویے کے بالکل برعکس، مسلمانوں کی[حضرت] محمدؐ سے غیر معمولی عقیدت اور شیفتگی کو ٹھیس پہنچانے اور[حضرت] محمد ؐکی سیرت و کردار کو مسخ کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ اگرچہ چند ایک مصنفین نے بے تعصبی سے حیات [حضرت] محمد ؐ رقم، کرنے کی کوشش بھی کی مگر اکثریت کا رجحان منفی تاثر کو ابھارنے کی طرف ہی رہا اور اکثر صورتوں میں اس انتہا تک جا پہنچا کہ بہتان طرازی اور کذب و افترا کی نوبت آن پہنچی۔۵؎

ارنسٹ نے اس سلسلے میں ہمفرے پریڈاکس (Humphery Prideaux) کی برس ہا برس تک مؤثر اور مقبول رہنے والی انگریزی کتاب The True Nature of Imposture Fully Displayed in the Life of Mahomet (پہلی مرتبہ ۱۶۹۷ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی)کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں اس موضوع پر حافظ محمود شیرانی (۱۸۸۰ئ- ۱۹۴۶ئ)کے ایک قدرے غیر معروف انگریزی مضمون، بعنوان Early Christian Legends and Fables Concerning Islam کا ذکر بے جا نہ ہو گا جو ۱۹۱۱ء میں انگلستان سے شائع ہوا ۔ اس مضمون میں شیرانی نے بالتفصیل رقم کیا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے ادب اور مذہبی تصانیف میںاسلام، مسلمانوں اور(حضرت ) محمد ؐ کے بارے میں کیسی کیسی افسانہ طرازی کی جاتی رہی ہے۔یہ حکایات نہ صرف دروغ گوئی کی بدترین مثال ہیں بلکہ اپنے تخلیق کاروں کی ذہنی سطح اور اخلاقی حالت کا پتا بھی دیتی ہیں۔حال ہی میںیورپی اخبارات میں شائع ہونے والے کارٹونوں اوراس امر کو جائز سمجھنے والے یورپی ذہن کو سمجھنے کے لیے ان مآخذ کا مطالعہ ضروری ہے۔ حافظ محمود شیرانی نے اپنے مضمون میں عیسائی ادب سے متعدد مثالیں پیش کی ہیں جو پیغمبر اسلام کی کردار کشی کی مرتکب ہوئیں۔۶؎

صلیبی جنگوں کے محرکات و اثرات

قرونِ وسطیٰ میں عیسائی اور مسلم دنیا کے درمیان اس مخاصمت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب صلیبی جنگیں بھی تھیں جن میں عیسائی شہزادوں نے رومن کیتھولک چرچ کی بھرپور اعانت سے ترکوں اور عربوں سے ارض ِمقدس کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کئی صدیوں تک جاری رہنے والی ان جنگوں میں سیاسی اور مذہبی قوتوں کا حیرت انگیزگٹھ جوڑ سامنے آیا اور اس کے نتیجے میں یہودیوں کا قتل عام اور عیسائی شہرقسطنطنیہ کا سقوط عمل میں آیا۔ ہسپانوی شہنشاہ نے پوپ کی بھر پور استعانت سے غرناطہ فتح کیا اور ہسپانیہ کی مسلمان آبادی کے انخلا یا انھیں جبری عیسائی بنانے کا حکم دیا۔ ہسپانوی تخت کی یہی مسلم دشمنی بالواسطہ طور پر امریکا کی دریافت کا سبب بھی بنی ۔ کولمبس (۱۴۵۱ئ-۱۵۰۶ئ) کی مہم کو ہسپانوی شاہی تائید اس لیے حاصل ہوئی تھی کیوں کہ وہ مشرق بعید سے مصالحہ جات کی تجارت کے راستوں پر مسلم اجارہ داری سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ تاہم، جنوب مشرقی یورپ میں عثمانی ترکوں کی پیش رفت ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کی فتح، بلقان ریاستوں پر قبضے اور وسطی یورپ کے لیے سترھویں صدی تک ایک خطرے کی صورت جاری رہی، اور سترھویں صدی کے اوائل تک انگریز مصنفین عثمانیوں کو پورے یورپ کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ۔۷؎

اسلام اور مغرب میں کش مکش: اسباب و محرکات

  • نوآبادیاتی نظام کا ردعمل: اگرچہ صلیبی جنگوںکے اثرات دیر پا اور دوررس تھے لیکن جدید دور میں اسلام اور مغرب کی کش مکش کی بنیاد محض صلیبی جنگوں کی یاد نہیں۔ ارنسٹ نے واضح طور پر نوآبادیاتی استعمار پسندی اور اس کے ردعمل کو اس جدید تر کش مکش کی جڑ قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں امریکی قوم نوآبادیاتی نظام کی ستم رانیوں سے پوری طرح واقف نہیں۔ فرانسیسی اور برطانوی استعمار نے انیسویں صدی میںٹکنالوجی میں مہارت، نسل پرستانہ نظریات اور سازشی ذہنیت کے ہتھیاروں کی مدد سے ایشیا اور افریقہ میں ظلم و استحصال کا جو بازار گرم کیا اس کی صرف ایک مثال الجیریا کی جنگ آزادی (۱۹۵۴ئ-۱۹۶۲ئ) ہے جس کے دوران ۱۰لاکھ الجیرین باشندے اور ۳۰ ہزار فرانسیسی مارے گئے۔خود امریکا کا اسلام سے اولین تعارف نوآبادیاتی دور میں افریقہ سے آنے والے حبشی غلاموں کے ذریعے ہوا جن میں سے ۱۵ فی صد مغربی افریقہ کے مسلمان تھے اور جو اپنے دورِ غلامی میںنہ صرف اپنی تہذیبی روایت کے پابند رہے، بلکہ ان میں سے کچھ نے تو عربی تصانیف بھی چھوڑی ہیں۔ امریکا کا مسلمانوں سے دوسرا رابطہ فلپائن پر اس کے نوآبادیاتی دورِحکومت میں ہوا جب زیادہ تر فوجی مہمات فلپائنی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے بھیجی جاتی تھیں (۱۸۹۹ئ- ۱۹۰۲ئ)۔حال میں بھی ایران اور عراق میں امریکا کے استعمار پسندانہ عزائم بروے کار آتے رہے ہیں۔غرض یہ کہ اسلام اور مغرب کی اس کش مکش کی کئی جہات نوآبادیاتی نظام کی تاریخ میں پیوست نظر آتی ہیں۔
  • ٹکنالوجی اور تھذیبی برتری کا دعویٰ: عثمانی ترکوں کے زوال کے بعد جب یورپی اقوام نے سائنسی برتری اور ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایشیا اور افریقہ کی طرف رُخ کیا تو یورپی روشن خیالی مذہب کو قدیم اور فرسودہ قرار دے کر رد کر چکی تھی۔ لہٰذا صلیبی جنگوں کی طرح مذہب کو اپنے استعماری نظام کا جواز قرار دینا ممکن نہ رہا تھا۔ اس نئی صورت حال میں سائنس اورعقلیت پرستی کو فوجی مہمات کا جواز بنا کر پیش کیاگیا۔ اس مقصد کے لیے نسلی برتری کی سائنسی توجیہات پیش کی گئیں [آج جب کوئی نظریاتی بنیاد نہ رہی تو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا غیرمنصفانہ جواز تراشا گیا ہے]۔ آگسٹس کامٹ (۱۷۹۸ئ۔ ۱۸۵۷ئ) جیسے مفکرین نے یہ دعویٰ کیا کہ دنیا کی پانچ ترقی یافتہ ترین قومیں ، یعنی انگریز، فرانسیسی، اطالوی،ہسپانوی اور   جرمن، انسانیت کا ہراول دستہ ہیں اور نسلی اعتبار سے دیگر اقوام و ملل پر فائق ہیں۔ چارلس ڈارون (۱۸۰۹ئ- ۱۸۸۲ئ) کے نظریہ ارتقا کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا کہ سفید فام نسلیں دیگر نسلوں کی نسبت زیادہ ارتقا یافتہ اور اس لیے ان پر حکمرانی کی سزاوا ر ہیں۔ برطانیہ میں اسے   ’سفید فاموںکا بوجھ‘ (White Man's Burden)۸؎ اور فرانس میں ’تہذیب کا عمل‘ (Civilizing Mission) قرار دیا گیا۔ کارل مارکس ( ۱۸۱۸ئ- ۱۸۸۳ئ) اور فریڈرک اینگلز (۱۸۲۰ئ- ۱۸۹۵ئ)نے Oriental Mode of Production ۹؎ کے نام سے جو نظریہ پیش کیا اس کے تحت یہ بات مسلمہ حقیقت سمجھی جانے لگی کہ مشرق کے باشندوں کی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر آمرانہ طرزِ حکومت مسلط رہے۔(ارنسٹ،ص ۲۰)

نسلی برتری کے اس تصور کی شدت اور ہمہ گیری کا اندازہ معروف فرانسیسی مفکر، ارنسٹ ریناں (۱۸۲۳ئ-۱۸۹۲ئ) کے پیرس میں دیے جانے والے ایک لیکچر (۱۸۸۳ئ) سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ اسلام سائنس اور ٹکنالوجی کے حصول کے لیے موزوں نہیںکیوں کہ اسلام ایک عربی مذہب ہے اور عرب ، سامی النسل ہونے کے باعث اس دقت نظری اور باریک بیں ذہن سے محروم ہیں جو سائنس اور ٹکنالوجی کے لیے لازمی ہے۔ان دنوں معروف مسلم مصلح جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)، بھی عارضی طور پر پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے ریناں کے اس دعوے کو چیلنج کر دیا اور یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر آمرانہ اور غیر سائنسی ہوتے ہیں، یہ دلیل پیش کی کہ چوں کہ اسلام عیسائیت کی نسبت ایک نو عمر مذہب ہے اس لیے اس کے تحت سائنسی اور عقلی روح کے کارفرما ہونے میں کچھ اور وقت لگے لگا۔ اس تردید کے بعد ریناں نے فراخ دلی سے اعتراف کیا کہ اس کا نقاد بلاشبہ فلسفیانہ تفکر کا مالک ہے لیکن اس کی وجہ یہ بتائی کہ افغانی کاتعلق سامی النسل عربوں سے نہیں بلکہ آریائی نسل سے ہے۔(ایضاً، ص ۲۰-۲۱) نسلی برتری کا یہ نظریہ انیسویں صدی میں عام ہی نہیں بلکہ فیشن بھی سمجھا جاتا تھا۔

عیسائی مشنری سرگرمیاں بھی نوآبادیاتی دور میں بھرپور طریقے سے کارفرما رہیں۔ مذہبی مناظرے اور منظم تبلیغی جماعتوں نے مفتوحہ علاقوں پر گہرے اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کے مذہبی مناظروں میں استعمال ہونے والی زبان ، اسلوب، تکنیک اور طرز استدلال پر بھی ان مشنریوںکا واضح اثر نظر آتا ہے۔ تاہم نو آبادیاتی انتظامیہ کے اراکین ، مذہبی اثرات سے بھی زیادہ جس محرک کے زیر اثرنظر آتے ہیں وہ یورپ کی تہذیبی اور سائنسی برتری اور عظمت کا یقین ہے۔ مثلاً لارڈ میکالے (۱۸۰۰ئ-۱۸۵۹ئ)کی رپورٹ Minute on Indian Education میں انگریزی کو برطانوی ہند کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کے حق میں جو دلائل پیش کیے گئے وہ نوآبادیاتی طاقتوں کی ذہنیت کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔۱۰؎

  • مستشرقین کی پہیلائی ھوئی غلط فھمیاں: اسی زمانے میں، جب یورپی نوآبادیاتی نظام اپنے عروج پر تھا، یورپی جامعات میں ایشیا اور افریقہ کے بارے میں علمی و تحقیقی مطالعات کا رواج ہوا جسے بعد ازاں اورینٹل ازم کی تحریک قرار دیا گیا اور بیسویں صدی کے مابعد نوآبادیاتی دور میں ایڈورڈ سعید (۱۹۳۵ء -۲۰۰۳ئ)جیسے مفکرین نے اس علمی تحریک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس تنقید کے نتیجے میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مستشرقین نوآبادیاتی استعمار کے آلۂ کار کے طور پر ان علمی مشاغل میں منہمک تھے؟ نیز ا نھوں نے مشرقی، خصوصاً مسلم ممالک کے بارے میں جو تاثرات پیش کیے، کیا ان کا اصل مقصدمحض ان ممالک پر قبضے کا جواز پیش کرنا تھا؟ ارنسٹ کا خیال ہے کہ ایساسمجھنا مبالغے اور مغالطے پر مبنی ہو گا۔ اس بارے میں عہد حاضر کے دیگر محققین بھی ان کے ہم خیال نظر آتے ہیں۔ (لیوس،ص ۹)

ارنسٹ سمجھتے ہیں کہ اکثر مستشرقین علمی لگاؤ کے باعث ان مطالعات میں مصروف ہوئے اور انھیں اندازہ تک نہیں تھا کہ ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات اس قسم کے سیاسی نتائج کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مستشرقین کے اس مطالعے کے نتیجے میںمشرق، بالخصوص  اسلام کے بارے میں چند بندھے ٹکے نظریات رواج پا گئے جو آج تک مطالعاتِ مشرق میں رہنما اصول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک نظریہ مشرق کی مابعد الطبیعیاتی فضا کے بارے میںہے جس کے تحت یہ فرض کیا گیا کہ مشرقی ممالک کی تہذیب و ثقافت اور زندگی کا ہر پہلو مذہب سے گہرے طور پر منسلک ہے اور اس کی تمام جہات کو محیط ہے۔ ’پُراسرار مشرق‘ کا یہ نقطۂ نظر یورپی رومانویت کی پیداوار تھا اور اس نے مشرق کے حقیقت پسندانہ مطالعے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کیے رکھی۔مستشرقین کی ایک اور مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ انھوںنے نسلی برتری کے تصور کو قبول کیے رکھا اور اسی کے زیر اثر مشرقی اور ایشیائی تاریخ کو سامی اور آریائی نسل کے درمیان تصادم کی صورت میں دیکھا اور سمجھا۔ تیسری بڑی غلط فہمی مستشرقین کو یہ رہی کہ مذہب اور تہذیب و ثقافت کا زبان سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے اور محض اس کی زبان کا علم حاصل کر کے کسی قوم کے مذہب اور تہذیب سے مکمل شناسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

چناں چہ مسلمانوں کے تاریخی ارتقا، عصری حقائق ، بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور تہذیبی و ثقافتی تنوع کو نظر انداز کر کے، چند عربی متون اورایک لغت کی مدد سے اسلام کو سمجھنے اور بیان کرنے کا عمل عروج پر پہنچ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر بغاوت کو اسلامی شدت پسندی پر محمول کیا گیا اور بالکل سامنے موجود حقیقت کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ سیاسی غلامی کے خلاف فطری انسانی ردعمل تھا۔

  • عرب اسرائیل تنازع: زمانۂ حال میں صیہونیت کی تحریک اور عرب اسرائیل تصادم نے مسلمانوں کے بارے میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے اس روایتی تاثر کو گہرا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ صیہونی تحریک جو ابتدا میں ایک سوشلسٹ اور سیکولر تحریک تھی، بعدازاں یہودیت کا مذہبی تشخص حاصل کر گئی۔ صیہونیت کا بانی  موسز ہیس (Moses Hess) (م:۱۸۷۵ئ) کارل مارکس کا معتمد رفیق کار تھا۔اس تحریک نے ابتدا میں ارض موعود [فلسطین] کی طرف نقل مکانی کو اپنا مقصد قرار دیا۔ بعد ازاں ، پہلی جنگ عظیم کے بعد، جب برطانیہ نے عثمانی سلطنت کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تو یورپ اور روس سے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نقل مکانی کا عمل شروع ہوا۔ برطانوی قبضے کے دوران ، یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کی مثال فرانس کے الجیریا پر تسلط کے مماثل ہے۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں، دوسری جنگِ عظیم کے بعد صیہونیت کی تحریک نے زور پکڑااور ۱۹۴۷ء میں اسرائیلی حکومت کا قیام عمل میں آیا جو آج تک عرب اسرائیل تنازعے کی بنیاد ہے۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی سرپرستی اور پشت پناہی کی جاتی رہی ہے اور امریکیوں کی اکثریت اس معاملے میں ، فلسطینی عربوں کی اکثریت کو نظرانداز کرکے یہودیوںکی فلسطین پر حکومت کو حق بجانب سمجھتی ہے۔ دوسری طرف تحریکِ آزادیِ فلسطین (PLO) جو فلسطین پر حقِ حکم رانی حاصل کرنے کے مقصد کے تحت جدوجہد کرنے والی ایک سیکولر تنظیم تھی، مغرب کی نظر میں اسلامی شدت پسندی کی ترجمان سمجھی جاتی رہی ہے اور فلسطینیوں کے جانب سے ہونے والے حملوں کو مسلم دہشت گردی قرار دیا جاتا رہا [مغرب اور خود اسرائیل کے نزدیک اصل ’اسلامی شدت پسند‘ اور اسلامسٹ حماس ہے، یہی ان کے گلے کی پھانس ہے۔ PLO سے انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ ادارہ]۔ یہ خیال اس حدتک جڑ پکڑ چکا ہے کہ عرب، مسلم اور دہشت گرد تنیوں لفظ ہم معنی سمجھے جاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ تمام مسلمانوں کو بلا تفریق دہشت گرد خیال کرنے میں کوئی عقلی دلیل مانع نہیں آتی۔
  • پردہ اور اس کی معاشرتی حیثیت: مسلمانوں کے بارے ایسے بندھے ٹکے تصورات میں ایک اور تصور ،مسلمان عورت کا پردہ بھی ہے جسے تاریخی اعتبار سے پیغمبرؐ اسلام کی  ایک سے زیادہ شادیوں کے مسئلے کے ساتھ جوڑ کر، اسلام میں عور ت کے نام نہاد استحصال اور اس کے حقوق کی پامالی کی ایک طویل داستان تراشی جاچکی ہے۔ اٹھارھویں صدی میں عربی ادب کے

ایک شاہکار الف لیلۃ ولیلہ کافرانسیسی ترجمہ۱۱؎ عربوں ( یعنی مسلمانوں) کی جنسی دل چسپیوں کے بارے میں یورپ کی توجہ کا مرکز بنا، اورانیسویں صدی میں مسلمانوں کے ’حرم‘ کی ہیجان انگیز کہانیوں کو فرانسیسی مصوروں نے برہنہ یورپی طوائفوںکی مدد سے تصویر کیا۔ مسلمان عورتوں کے روایتی لباس اور معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کے مواقع نہ ہونے کے باعث، مغربی سیاحوں کی قوت متخیلہ نے بھی خوب کرشمے دکھائے اور جدید یورپی اور امریکی عوام و خواص اس مفروضے پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنے انسانی حقوق سے بالکل محروم ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے وہ مسلمان اور عیسائی عورتوں کی حالت زار کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی قطعاًکوشش نہیں کرتے۔ مغرب میں عورت کو جتنی بھی آزادی حاصل ہوئی ہے، تاریخی اعتبار سے وہ بالکل کل کی بات ہے۔ ۱۸۷۰ء تک انگریز عورتوں کو جایداد کی ملکیت کا حق حاصل نہ تھا،جب کہ مسلمان عورت کو شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ حق ساتویں صدی سے حاصل رہاہے۔ ۱۷۱۶ء میں جب لیڈی میری وارٹلی مانٹیگ۱۲؎ نے برطانوی سفیر کی بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ قسطنطنیہ کا سفر کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ عثمانی امرا کی بیگمات بڑی بڑی جاگیروں کی مالک تھیں اوراپنی جایداد کی دیکھ بھال تنہا، کسی مرد کی معاونت کے بغیر کر سکتی تھیں۔ انھیں تو یہ بھی محسوس ہوا کہ مسلمان عورتوں کے نقاب نے عورتوں کو مردوں کی چبھنے والی نگاہوںسے محفوظ کر کے ایک نوع کی آزادی کا احساس دے رکھا ہے۔

اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب کی آڑ لے کر عورت کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ شمالی افریقہ ، مشرق قریب اور ایشیاکے کئی مسلمان معاشروں میں عام رہا ہے لیکن کیا یہ بات پورے یقین اور اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس رویے پر پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے؟ یہ انتہائی منافقانہ عمل ہے کہ مسلمان معاشروں کو اس عدم مساوات پر مطعون کیا جائے جس پر ابھی تک یورپ اور امریکا خود پوری طرح قابو نہیں پا سکے۔

مغرب میں غیر جانب دارانہ مطالعۂ اسلام کی ضرورت

ارنسٹ نے اسلام اور مغرب کے درمیان کش مکش کی پوری تاریخ بیان کرنے کے بعد چند بہت معنی خیز سوال اٹھائے ہیں۔ انھوں نے اس بیّن حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عہد حاضر میں مسلمانوں کے متعلق صرف اور صرف منفی تاثرات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل نشر کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈے کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ پوری کی پوری مسلم تہذہب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے پر کوئی بھی معترض نہیں ہوتا۔ حالاں کہ کیایہ ممکن ہے کہ کوئی ایسی تہذیب جو ایک ہزاربرس سے زیادہ کی مدت تک ، دنیا کے تقریباً نصف حصے میں پھلتی پھولتی رہی ہو، پوری کی پوری منفی عوامل پر مبنی ہو؟ اور دوسری طرف اس کے مد مقابل تہذیب ان تمام برائیوں اور الزامات سے ہمیشہ پاک رہی ہو جو مسلمانوں کے سر ڈالے جارہے ہیں؟ مثلاً تمام مسلمانوں پر بلکہ مذہب اسلام پر تشدد پسندی کاالزام لگا یا جاتا ہے تو کیا انیسویں صدی کی مغربی استعمارپسندی اور ناجائز تسلط کو عیسائیت کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ اسی طرح حالیہ تاریخ میں ، ۱۹۹۶ء میں راسخ العقیدہ عیسائی سربوں کے ہاتھوں ایک دن میں چھے ہزار مسلمان مردوں اور بچوں کا قتل کیا، پوری عیسائی دنیا کا عمل قرار دیا جانا چاہیے؟ مسلمان معاشروں پرعورتوں کو مناسب مقام نہ دینے کا الزام ہے لیکن مغربی ٹکنالوجی کے شاہ کار انٹرنیٹ پر موجود پورنو گرافی (عریاں تصاویر و فلم) کی لاکھوں ویب سائٹس، اور مغرب میںٹیلی ویژن، اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے عورت کو ایک جنسی کھلونے کی حیثیت سے پیش کرنا کیا عورت کے احترام پر مبنی عمل ہے؟

  • چند اھم نکات: ارنسٹ کی تجویز ہے کہ آج ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ خود کو ذرائع ابلاغ کے ایک بالغ نظر نقاد کی حیثیت سے تربیت دے کیوں کہ معلومات کی ترسیل کے بجاے، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے اسے مسخ کرنا ذرائع ابلاغ کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ خاص طور پر اسلام کے معاملے میں منفی تاثر اجاگر کرنا ایک آسان اور مقبول حربے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔۱۳؎ یورپ اور امریکا کے عوام ، اپنی راے کی بنیاد زیادہ ترذرائع ابلاغ کے وسائل پر ہی رکھتے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں مسلسل ایک منفی تاثرقبول کیے جاتے ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ اس سے آگے  بڑھ کر مسلمانوں کو انسان سمجھنے کا عمل شروع کیا جائے اور تاریخی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے کردار و اعمال کا تجزیہ کر کے انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

اس مقصد کے لیے ارنسٹ نے اپنے مطالعۂ اسلام کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کی ہے کہ تمام مسلمان یکساں نہیں۔ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہیں اور اپنے اپنے معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی حقائق کے مطابق اپنے تہذیبی طرز عمل کو ترتیب دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا سوچنا مسلمانوں کو انسانیت کے دائرے سے خارج کرنے کے مترداف ہے کیوں کہ انسان انفرادی اور قومی سطح پرتنوع کا وصف رکھتے ہیں۔پھر ان کے طرزِ عمل کو ان کے تاریخی تناظر میں سمجھنے کے بجاے محض ایک ہی گھسے پٹے رجحان کے تابع سمجھنا بھی بہت بڑی غلطی ہے، اور اس سے بھی بڑی غلطی  یہ ہے کہ اگر مسلمان تشدد پسند ہیں تو اس عمل کا جواب بھی تشدد ہی کے ذریعے دیا جانا چاہیے۔

اگرچہ اس معاملے میں ارنسٹ کا مشاہدہ مسلمان تہذیب کی روح تک نہیں پہنچتا۔ دراصل مسلم تہذیب مسلمان معاشروں کی باطنی روح کے مترادف ہے، جب کہ اسلامی دنیا کا جغرافیائی اور ثقافتی تنوع تہذیب کی ظاہری سطح پر نمودار ہوتا ہے۔ اس کی مثال کسی جدید سکائی سکریپر کی سی ہے جس کی بنیاد مشترک ستونوں پر قائم ہوتی ہے لیکن عمارت کی ظاہری شکل و صورت میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ایک ہی عمارت میں دفتر بھی قائم ہیں، رہایشی مکان بھی اور بازار اور دکانیں بھی۔ ہر اکائی بظاہر ایک دوسرے سے جدا مگر در حقیقت ایک ہی کل کا جزو ہے۔ اسلامی تہذیب بھی کچھ مشترک بنیادی عقائد اور مسلّمات کی بنا پر تعمیر ہوتی ہے مگردنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے جغرافیائی حقائق، موسم، آب و ہوا اور تاریخی تناظر کے مطابق جزوی تفصیلات مرتب کر لیتے ہیں اور یوں ایک روح کا اظہار مختلف پیکروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ تاہم ارنسٹ کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ دنیا بھر کی ثقافتیں ایک دوسرے پر مسلسل اثر انداز ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان  حکم رانوں کی سیاسی نااہلی کے باعث کم و بیش تمام مسلمانوں کی تقدیر مغربی ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ معاشی ، سیاسی اور تاریخی اختلافات اپنی اپنی جگہ انفرادی خطوں کی پالیسیوں پر یقیناًاثر انداز ہوتے ہیں اورانھیں نظر انداز کردینا خلافِ فطرت ہو گا۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگراہلِ مغرب کے لیے مسلمانوں کو سمجھنا ضروری ہے تو کیا مسلمانوں پر یہ لاز م نہیں کہ وہ بھی دیگر تہذیبو ں اور معاشروں کو سمجھیں اور انھیں کلیتاً ردکر دینے کی پالیسی پر عمل پیرا نہ ہوں۔ارنسٹ نے اس سوال کے جواب میں یاد دلایا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں جب کم و بیش ۹۰ فی صد مسلمان آبادی مغربی استعمارکے زیر اثر آگئی تھی ، مغرب کی عیسائی طاقتوں نے جبراً اپنی زبانیں، نظامِ تعلیم اور تہذیب ان پر نافذ کر دی تھی اورانھی میں سے ایک ایسا طبقہ تیار کردیا تھا جو نہ صرف ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے آلۂ کار بنا بلکہ ان کی تہذیبی و معاشرتی روح کو بھی اچھی طرح سمجھ گیا۔ اصل مسئلہ امریکا اور یورپ میں رہنے والے اہلِ مغرب کا ہے جن کی خود پسندی انھیں آئینہ دیکھنے کی فرصت تک نہیں دیتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی نظریات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے اسلامی اصطلاحات اور نظریات کے تاریخی ارتقاکوپیش نظر رکھا جائے اور جدید اسلامی معاشروں کا مطالعہ کھلے ذہن اور لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی اقدار کے تناظر میںکیا جائے۔

حواشی

۱-            ارنسٹ، کارل ڈبلیو، ۲۰۰۵ء (۲۰۰۳ئ) Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World ، دہلی: یدا پریس، ص xiii۔ xv

۲-            سوانح اور تصانیف کی تفصیل کے لیے: http://www.unc.edu/~cernst/

۳-            لیوس، برنارڈ، ۱۹۹۳، Islam and the West ، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۳

۴-            نوآبادیاتی دور میں مسلم علما، خصوصاً ہندستانی مسلم علما نے اس کے برخلاف عیسائیت اور اسلام کے درمیان یگانگت پر بہت زور دیا تھا،تاہم اس کے محرکات بھی مذہبی نہیں تھے۔

۵-            مثلاًبارھویں سے چودھویں صدی تک انتہائی مقبول رہنے والی قدیم ترین فرانسیسی رزمیہ (epic)    نظم La Chanson de Roland جس میں معروف دیومالائی شخصیت شارل میگنے کی ہسپانوی مسلمانوں سے جنگ کا حال بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم چار ہزار سے زیادہ مصرعوں پر مبنی ہے اور اس کا  قدیم ترین نسخہ آکسفورڈ میں ہے۔

۶-            شیرانی، حافظ محمود، Early Christian Legends and Fables Concerning Islam ، لوزاک اینڈ کمپنی، ۱۹۱۱ئ، لندن۔

۷             مصنف نے یہ بات رچرڈ نولز (Richard Knolles) کی کتاب ، The General Histories of the Turks, from the first beginning of that nation to the rising of the Othoman familie; with all the notable  expeditions of the Christian princes against them, لندن: اے سلپ، ۱۶۳۰ء کے حوالے سے بیان کی ہے

۸-            رڈ یارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) کی معروف نظم ، جو ۱۸۹۹ء میں فلپائن پر امریکی حملے کے آغاز میں، ایک رسالے McClures میں شائع ہوئی اور جس کی توجیہ یہ کی گئی کہ سفید فام نسلوں پر باقی کی دنیا کو تہذیب سکھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یوںیورپی استعمار پسندی کو اخلاقی جواز دینے کی کوشش کی گئی۔

۹-            کارل مارکس نے کہا تھا Asia fell asleep in history. ایشیا اس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتا جب تک کوئی بیرونی طاقت (مثلاً مغربی اقوام)، اس کی اصلاح احوال کی ذمہ داری نہیںاٹھاتی۔

۱۰-         میکالے کی رپورٹ کے یہ الفاظ، جو ارنسٹ نے بھی نقل کیے ہیں، قابلِ غور ہیں:

                I have no knowledge of either Sanscrit or Arabic- but I have done what I could do to form a correct estimate of their value. I have read translations of the most celebrated Arabic and Sanscrit works. I have conversed both here and at home with men distinguished by their proficiency in the Eastern tongues. I am quite ready to take the Oriental learning at the valuation of the Orientalists themselves. I have never found one among them who could deny that a single shelf of a good European library was worth the whole native literature of India and Arabia. The intrinsic superiority of the Western literature is indeed, fully admitted by those memebers of the Committee who support the Oriental plan of education.  ، ارنسٹ، ص۲۲

۱۱-         اس ترجمے کے فرانسیسی مترجم ژاں انطونی گالاں (Jean Antoine Galland) تھے اور یہ ۱۷۰۴ سے ۱۷۱۷ء کے درمیان شائع ہوا۔

۱۲-         لیڈی میری وو ٹلی مانٹیگ (Lady Mary Wortly Montague، ۱۶۸۹ء ۔ ۱۷۶۲ئ) برطانوی طبقۂ اشرافیہ کی نمایندہ خاتون ادیب ، جن کی پہچان ان کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے ترکی میں اپنے قیام کے دوران لکھے ۔ ان خطوط کی بنا پر انھیں پہلی مغربی خاتون ادیب کہا جاتا ہے جنھوں نے مسلم شرق کے بارے میں سیکولر انداز میں تبصرہ کیا ۔

۱۳-         یہ مباحث اس سے پہلے ایڈورڈ سعید اپنی کتابCovering Islam(۱۹۸۱ئ) میں پیش کر چکے ہیں۔ [دیکھیے:’مغربی میڈیا اورمسلم دنیا‘ ایوب منیر، ترجمان القرآن، دسمبر۲۰۰۱ئ]

(بہ شکریہ مجلہ معیار، (جولائی -دسمبر ۲۰۱۰ئ) بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

نجیبہ عارف بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔