ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی صبح اپنے وقت پر طلوع ہوئی تھی۔ ابھی سویرا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے گھروں کی حصار میں تھے ، کاروبار زندگی کی شروعات بھی مدہم تھی۔ یکایک شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور کے محلہ ماڈل ٹاؤن کی فضا میں ایک ایسا الم ناک ارتعاش ہوا، جس سے پوراعلاقہ لرز اُٹھا۔ پلک جھپکتے ہی سکوتِ صبح کا سماں غارت ہوا۔ فائرنگ کے شور سے لوگ سہم گئے، تشویش کی لہریں اورفکر مندی کی موجیں ہر شخص کو نیم جان کرگئیں۔ نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ساتھ بندوق بردار مقامیوں کی مڈبھیڑاپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، عام کشمیری ایسی خون ریزیوں سے مانوس ہیں۔ کسی بستی میں مسلح جھڑپ ہونا لوگوں کے لیے ہمیشہ ایک ہی پیغام لاتی ہے کہ ’’جائے وقوعہ میں اب کسی کی کوئی خیر نہیں‘‘۔ عمومی حالات میں وادی کشمیر کی کسی بستی، بازار ، شہر یا دیہات میں بندوقوں کی گڑ گڑاہٹ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے پتا چلتا ہے کہ مسلح فورسز اور عسکریت پسندوں کے بیچ جھڑپ چھڑگئی ہے اور ہر جھڑپ اپنے پیچھے ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی ایک بھیانک کہانی ضرور چھوڑ کر جائے گی۔ دو طرفہ گولی باری چاہے سرحد پر ہو یا کسی میدانی علاقے میں ، ہر حال میں یہ عوام الناس کے لیے اپنے ساتھ شامتیں، قیامتیں اور میتیں ہی لاتی ہیں ۔
ماڈل ٹاؤن سوپور میں ۳۰ جون ۲۰۲۰ء کو یہی درد ناک کہانی دہرائی گئی۔ یہاں کے رہایشیوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے گھر کے آنگن میں ایک ایسا المیہ وقوع پذیر ہونے جارہا ہے، جس سے انسانیت کا کلیجہ پھٹ جائے گا، آدمیت کی چیخیں نکل جائیں گی، آنسوؤں کا سیل رواں اُمڈ آئے گا ، غم واَلم کی گرم بازاری ہو گی اور سوگواریت کی سیاہی چھا جائے گی۔ چشم فلک نے ماڈل ٹاؤن میں صبح قریب سات بجے کشمیر کی خونیں تاریخ کا ایک اور لہولہاں باب رقم ہوتے دیکھا ۔ ایک درد انگیز کہانی،ایک الم ناک منظر ، ایک ناقابل یقین المیہ کہ جس سے پوری وادی سوگواری کی دُھند میں ڈوب گئی ۔
میڈیا کی تفصیلات کے مطابق بستی میں عسکریت پسندوں نے ایک مقامی مسجد کے اندرسے فورسز کی گشتی پارٹی پر گھات لگاکر حملہ کیا ۔ حملے میں سنٹرل ریزو پولیس کا ایک اہل کار موقع پر ہلاک ہوا، جب کہ تین اہل کار زخمی ہوئے ۔ ابھی جھڑپ جاری تھی کہ جاے وقوعہ سے مصطفیٰ آباد ایچ ایم ٹی سری نگر کے بشیر احمد خان نامی ایک ۶۵ سالہ ٹھیکے دار کا گزر ہو ا۔ وہ اپنے نجی کام سے گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ اُن کے ہمراہ فرنٹ سیٹ پر اُن کا تین سالہ پوتا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ بشیراحمد کے بارے میں سرکاری طور دعویٰ کیا گیا کہ موصوف کراس فائرنگ کی نذر ہو کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی یہ خون ریزجھڑپ جاری تھی کہ اس کی خبریں اور تصویریں، سوشل میڈیا کے کاندھوں پر برق رفتاری کے ساتھ سفر کرتی ہوئی منٹوں میں پورے عالم میں پہنچ گئیں اور انھیں پتاچلاکہ سوپور میں کون سی نئی قیامت بپا ہوئی ہے ۔
بشیر احمد خان متعدد گولیاں لگنے سے برسر موقع شہادت کی خونیں قباپہن کر دنیا چھوڑ گئے۔ اس الم ناک واقعے کے بارے میں سرکاری طور کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن سوپور میں سی آر پی ایف کی گشتی پارٹی پر جنگجوؤں نے اچانک دھاوا بولا۔ گشتی پارٹی نے پوزیشن سنبھالی اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا،جس کی زد میں آکر ایک سویلین بھی جان بحق ہوا ۔ ٹی وی چینلوں پر جھڑپ کی خبر میں یہ بات نمایاں طور پر فوٹیج کے ذریعے اُجاگر کی گئی کہ’’ زبردست فائرنگ کے باوجود نیم فوجی جوانوں نے جان کی پروا نہ کرکے تین برس کے معصوم بچے کو بچا لیا، جو انسانیت کی ایک اعلیٰ مثال ہے‘‘۔ مگر مارے گئے شہری کے اہل خانہ نے سانحے کے بارے میں اس موقف کومسترد کر تے ہوئے فورسز پر الزام عائد کیا کہ بشیر احمد خان صاحب کو گاڑی سے اُتارا گیا اور پھر اُن کے سینے میں گولیاں پیوست کی گئیں۔ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ اپنے ردعمل میں نیشنل کانفرنس اور سیاسی جماعتوں نے سوپور سانحہ کی بابت سرکاری موقف کو نہ صحیح مانا اور نہ غلط کہا، بلکہ گھسی پٹی روایت کی گردان کرتے ہوئے حکومت سے اس کی تحقیقات کر نے کا مطالبہ کیا۔ آج تک کشمیر میں ایسے درجنوں سانحات کی سرکاری انکوائریاں بٹھائی گئیں، مگر نہ کبھی اُن کی رپورٹیں منظر عام پر لائی گئیں اور نہ کسی مجرم کی نشان دہی کر کے اسے عدالت کے کٹہرے سے کوئی سزاسنائی گئی ؎
اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
بظاہر سوپور المیے کا نفس مضمون اتنا ہی کچھ ہے، لیکن جو چیز حساس دل انسانوں کے زاویۂ نگاہ سے انسانیت کے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کرتی ہے، وہ شہید بشیر احمد کے معصوم پوتےکی وہ دل خراش تصویریں ہیں، جنھیں کسی نامعلوم شخص نے کھینچا اور انھیں سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ ان تصاویر نے کشمیری عوام کو اُسی طرح خون کے آنسو رُلا دیا جیسے کئی سال قبل شام کے اُس معصوم مہاجر بچے کی ساحل سمندر پر اوندھے منہ پڑی لاش سے عالم عرب اشک بار ہوا تھا، اور وہ تصویر شامی مہاجرین کی اَن کہی بپتا کا استعارہ بن گئی تھی ۔ سوپور جھڑپ کے متاثرہ کشمیری بچے کی منہ بولتی تصویریں بزبان حال بتاتی ہیں کہ اِدھر گولیوں سے چھلنی اس کے دادا کی بے گور و کفن لاش سڑک پر پڑی ہے ، اُدھر اس کا پھول جیسا پوتا اپنے مرے ہوئے دادا کی چھاتی پر بیٹھاہے، شاید اس کو گہری نیند سے جگانے کے لیے ۔ رنج وغم اس بچے کے چہرے سے جھلک رہاہے ۔ وہ یہ بات تو جانتا ہی نہیں کہ اس کی معصوم دنیا لمحے بھر میں لٹ چکی ہے ۔ معصوم وکم سن بچہ اپنے دادا کی ابدی جدائی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہے۔ موت کیا ہے، زندگی کیاہے؟ یہ باریکیاں اس کے پلے نہیں پڑسکتیں ۔ بس یہ صرف سہما ہوا سا بچہ ہے، جو خوف کے عالم میں لہو لہو منظر دیکھ کر بھی اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہے، تھر تھر کانپ رہا ہے ، بھیڑ میں تنہا ہے، بے دست وپا ہے، اور وہ جو اس کو سینے سے لگا کر سہلاتا، اس کا درد وکرب کم کر تا، وہ تو زمین پر بے حس وحرکت پڑا ہے۔ ناقابلِ فہم خونی منظر سے نڈھال بچے کی ہچکیاں اور سسکیاں بند کر نے کے لیے پولیس نے اُسے چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بہلایا، مگر وہ تھا کہ آنسو بہاتا رہا۔
وادی کشمیر کے بارے میں بھولے سے کبھی ایک بار بھی یہ دل خوش کن خبر نہیں آتی کہ آج یہاں کوئی ناخوش گوار واقعہ رُونما نہیں ہوا ۔ ارباب سیاست اور اہل سلطنت جو چاہیں کہیں، مگر عملی دنیا کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور امن حسب سابق اجتماعِ ضدین ہیں۔ یہاں روز وردی پوشوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپیں اور آتش و آہن کی برساتیں نئی زخم زخم کہانیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں لاشیں گرتی ہیں ، یہاں جنازے اُٹھتے ہیں ، یہاں ماتم ہوتے ہیں، یہاں نالہ وفغاں، آہ وبکا اور چیخ پکار ایک عام چیز ہے ۔ ایسے میں انسانی حقوق نامساعد حالات کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں یہ سوچنا بھی محال ہے ۔ یہ تلخ حقیقت کبھی سوپور جیسے المیوں کا رُوپ دھارتی ہے اور چندبرس پہلے وقوع پذیر کھٹوعہ کی آصفہ کی دلدوز کہانی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ گذشتہ ۳۰سال سے وادی گلپوش میں ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (’افسپا‘) نافذالعمل ہے۔ اس کے نفاذ کی سفاکی اور خون آشامی کے چھینٹے اور دھبے آج کشمیر کے چپے چپے پر بتمام وکمال پائے جاتے ہیں۔ ایسے حالات سے روز روز سامنا کرتے ہوئے عام کشمیریوں کے لیے یہ تمام ناقابل تصور قیامتیں معمولاتِ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ لوگوں میں یہ ناگفتہ بہ حالات دیکھنے ، سننے اور سہنے کی عادت سی پڑگئی ہے ۔ گذشتہ ۳۰ سال سے کشمیری معاشرہ انھی کے درمیان غیر یقینی زندگی جیتے ہوئے شادی غمی سمیت تعلیمی ، معاشی اور سماجی مشاغل سرانجام دیتا آرہا ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کی بالا دست سیاسی اور اقتداری قوتیں ماہ وسال سے جنت بے نظیر میں لامتناہی خوں بار سلسلہ روکنے اور امن کی بہاریں لوٹانے کے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں۔ ’افسپا‘ کو واپس لینے کے وعدے بھی ہوئے، تعمیر وترقی اور خوش حالی کے دعوے بھی کیے گئے۔ ان سب بہلاوں کے درمیان تاریخ نے وادی میں کئی کروٹیں بدلتی اور بہت ساری چیزیں بنتے بگڑتے دیکھیں مگر جو چیز دیکھنے کی حسرت رہی وہ یہ کہ یہاں مکمل اور پاےدار امن کبھی قائم نہ ہوا۔ عظیم تر خودمختاری کا وعدہ ، واجپائی کی لاہور بس یاترا، انسانیت، کشمیریت اورجمہوریت کا نعرہ ، نوازشریف کا امن اعلامیہ، مشرف کا چار نکاتی فارمولا، ظفراللہ خان جمالی کی جنگ بندی ، سہ رُکنی مصالحتی کمیٹی کاقیام، من موہن سنگھ کی گول میز کانفرنسیں، آٹھ ورکنگ گروپوں کی تشکیل، ’گولی سے نہ گالی سے ،مسئلے کاحل کشمیری گلے لگانے میں‘ جیسا جاذب نظر نعرہ اور پھر دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵اے کی تنسیخ، غیر ریاستی باشندوں میں ڈومسائل اسناد کی تقسیم وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ نے ہربار نمایاں اور طاقت ور لوگوں کی زبانی دل کے کانوں سے یہ دعوے سنے کہ اب کی بار کشمیر میں امن و اَمان کی ہریالیاں ہوں گی ‘ تعمیرو ترقی کی پھلواریاں مہکیں گی، مگر واے ناکامی نہ نامساعد حالات کا محور آج تک بدلا، نہ امن وآشتی کاسورج کبھی طلوع ہوا۔اس کے برعکس حسب سابق سلسلہ روز وشب کی گردش میں خون ریزیاں کشمیر یوں کا مقدر بنی رہیں۔ آج تک گردش لیل ونہار کی اسی آتشیں فضا میں کشمیر کی تین دہائیاں بھسم ہو گئیں۔ لاتعداد پیر و جوان، خواتین ، بچے ، ابدی نیند سوگئے ، تباہیاں نوشتۂ دیوار بن گئیں۔ آتش زنیاں اور آبرو ریزیاں اتنی بے حساب گویا یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہی نہیں رہے۔ عقوبت خانے اور زندان آباد ہوئے ، تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں ، معاشی سرگرمیاں مفقود ہوئیں ، بے روزگاری کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔اورنامساعد حالات کا یہ بدترین سلسلہ آج بھی ارضِ کشمیر میں شدومد سے جاری ہے۔
امرِواقعہ یہ ہے کہ بے انتہا بربادیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں کشمیر میں امن جاگتے کا سپنا ہے۔ کوئی کشمیری یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اُس کی زندگی میں کس عنوان سے نیا بھونچال ثابت ہوگا ، کون سی نئی بربادیاں اس کی تقدیر میں رقم ہوں گی اور انسانی حقوق کی کثیرالاطراف پامالیاں کس کس مہیب شکل میں سامنے آئیں گی؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی ماڈل ٹاؤن سوپور کا وہ بدترین المیہ ہے جو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور میں وقوع پذیر ہوا ۔ قبل ازیں جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں پیش آئے المیے میں بھی ایک آٹھ سالہ بچہ کام آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں امن اور انصاف کا سورج طلوع ہونا آخری کشمیری کے زندہ درگور ہونے تک مؤخر رہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل بھی ترتیب پائے گا، جو امن اورانسانیت کا پرچم بن کر بہشت ارضی میں لہرائے؟