اللہ کی زمین پر جِنّ و بشر کی ہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا۔ نبیوں کے اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہر دور میں اللہ کے دوستوں اور ولیوں کی جماعتیں سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ اللہ کے انھی دوستوں میں سے ایک سید علی بن عثمان الہجویری ؒ ہیں، جو غزنہ کی سرزمین میں آباد چھوٹی سی بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ سے روحانی فیض حاصل کیا، اور علم وحکمت کے موتی ابوالعباس اشقاقی، ابو جعفر محمد بن المصباح الصیدلانی، ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری، ابو القاسم بن علی الگرگانی، محمد بن علی بسطامی اور ان جیسے دیگر علما وفقہا سے اکٹھے کیے۔ مختلف ملکوں اور بستیوں میں کسبِ علم کے لیے سفر کیا، بالآخر اپنے مرشد ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی کے کہنے پر لاہور کو مرکز تعلیم وارشاد بنالیا۔ اس طرح سرزمین لاہور خوش نصیب ٹھیری۔
شیخ علی بن عثمان الہجویری رحمہ اللہ علیہ علم ودانائی، تقویٰ اور کشادہ دلی میں اپنی مثال آپ تھے۔ علم وحکمت میں حق کی معرفت، تقویٰ میں اعتدال پسندی اور سخاوت میں دریا دلی آپ کی پہچان بنی۔آپ کی سیرت اور خیالات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ صدیوں سے لاکھوں مساکین اور فقرا کا آپ کے مرکزِ فیض سے روحانی ترفع حاصل کرنا اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔
سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ توحید خالص، ختم ِ رسالت اور اتباعِ قرآن وسنت کے علَم بردار تھے۔ آپ نورِ حق کی طرف بلانے، نور رسالت کی شمع کے گرد جمع کرنے اور نورِ قرآن سے خلق ِ خدا کو روشنی دکھانے والے تھے۔ جب ہر طرف نور اور روشنی کی بات ہو تو بے یقینی کا سایہ اور شکوک وشبہات کا گردوغبار کیسے باقی رہ سکتا ہے، اس لیے ان کی ہر بات بالکل واضح اور کھلی ہے۔
اللہ کے ولی اور دوست صرف اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور پورے کے پورے انسان کو بلاتے ہیں، رسول کا مطیع بناتے ہیں اور ظاہر وباطن، جسم وروح، خیال اور عمل ہر بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بات کرتے ہیں۔شریعت پر عمل کرنا بھی لازم قرار دیتے ہیں، اور روحانیت کے مدارج طے کرنے میں بھی رہنمائی فرماتے ہیں۔
l معرفت اور شریعت: شریعت کے حوالے سے سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’لوگ اب ترکِ شریعت کو طریقت کہتے ہیں‘‘(کشف المحجوب، فصل ہفتم، صورت سوال)، اور شریعت کی وضاحت میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے بیان کرتے ہیں: ’’شریعت کا رکن اوّل کتاب اللہ ہے، چنانچہ فرمایا گیا: مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ (اٰلِ عمرٰن ۳:۷)۔ ’’اس کتاب میں محکم آیات ہیں، جن کا مقصود واضح ہے، وہی اصل کتاب ہے‘‘۔ دوسرا رکن سنّت رسول ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج ’’رسول جو آپ کو عطا کریں وہ لے لو، اور جس بات سے منع کردیں اس سے رک جاؤ‘‘ (الحشر ۵۹:۷)۔ تیسرا رکن اجماع اُمّت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یجتمع امتی علی الضلالۃ (میری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی)‘‘۔ (کشف المحجوب، سید علی بن عثمان الہجویری رحمہ اللہ ، ترجمہ عبدالحکیم خان نشتر جالندھری وعلاّمہ ظہیر الدین بدایوانی)
غور فرمایئے کہ شریعت کے مصادر کا کس خوب صورتی سے ذکر کردیا۔ کوئی الجھاؤ باقی نہیں رہنے دیا ۔ قرآن، سنت اور اجماع اُمت، جب بھی ان بنیادوں پر اسلام کی عمارت استوار کی گئی ہے، ایک عالی شان، دیدہ زیب اور مستحکم عمارت وجود میں آئی ہے۔
معرفت اور شریعت کا اصل رشتہ بتاتے ہوئے اصحاب عرفان اور اصحاب شریعت کے فرق کو ختم کردیا، بلکہ اپنے زمانے کے ضروری علم کو حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی۔ مرشدہجویری فرماتے ہیں: ’’بندے کو خدا کے امور اور اس کی معرفت کا علم ہونا چاہیے۔ وقت کی مصلحت کا علم بھی بندے پر فرض ہے، جو علم ضرورت کے وقت اس کے کام آتا ہے۔ اس کے ظاہر وباطن کی دو قسمیں ہیں: علم اصول اور علم فروع۔ ’’علم اصول کا ظاہر ،قولی شہادت ہے اور باطن، معرفت کی تحقیق۔ علم فروع کا ظاہر دینی معاملات کی تعمیل اور باطن، نیّت کی درستی‘‘ (کشف المحجوب، معرفت وشریعت)۔ پھر فرماتے ہیں: ’’شریعت کا ظاہر ، باطن کے بغیر نقصان ہے اور باطن، ظاہر کے بغیر ہوس ہے‘‘۔ گویا باطن کا ایمان اور اخلاصِ نیت سے تعلق ہے اور ظاہر کا عمل اور اطاعت سے، دونوں سے مل کر دین بنتا ہے۔
l علم اور عمل لازم و ملزوم: کچھ لوگوں نے نادانی یا دانش مندی کے زعم میں علم اور عمل کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ کوئی علم ومعرفت کے جھنڈے گاڑنے کی فکر میں عمل کی دنیا سے بے گانہ ہونے لگا اور کسی نے ’علموں بس کریں او یار‘ کے جملے کو اپنے لیے ڈھال بنالیا۔ سید علی الہجویریؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے عوام کی ایک جماعت دیکھی ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتی ہے اور دوسری جماعت عمل کو علم پر، لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں، کیونکہ عمل کو علم کے بغیر عمل نہیں کہہ سکتے، بلکہ عمل اُس وقت عمل بنتا ہے جب علم اس کے ساتھ ہو،تا کہ بندہ اس کے ذریعے سے ثواب کا حق دار ہوسکے۔ مثلاً نماز کو لیجیے کہ جب تک پہلے انسان کو طہارت کے ارکان، پاک پانی کی شناخت، قبلے کی پہچان، نیت کی کیفیت اور نماز کے ارکان سے آگاہی نہ ہو، نماز ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے جب عمل اصل میں علم ہی سے حاصل ہوسکتا ہے تو کس طرح جاہل اس کو علم سے علیحدہ کرسکتا ہے۔ جو لوگ علم کو عمل پر فضیلت دیتے ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں، کیونکہ علم کو عمل کے بغیر علم نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِینَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۰۱) ’’اہلِ کتاب میں سے ایک فریق نے خدا کی کتاب پسِ پشت ڈال دی ، گویا وہ اسے جانتے ہی نہیں‘‘۔ اس آیت میں خدا نے بے عمل عالم کا نام علما سے خارج کردیا ہے، کیونکہ علم پڑھنا اور اسے یاد کرنا، یہ سب کچھ عمل ہی میں شامل ہے‘‘(کشف المحجوب، علم وعمل)۔ اس طرح شیخ نے علم اور عمل کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کرکے حق بات کو واضح کردیا۔
اپنی بات کو مزید تقویت دینے کے لیے سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ، جناب حاتم اصّمؒ کی حکمت بھری بات بتاتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم ؒ فرماتے ہیں: میں نے چار علم اختیار کرلیے اور دنیا کے تمام علموں سے نجات پائی۔ لوگوں نے پوچھا: وہ چار علم کون سے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ’’پہلا یہ کہ میں نے جان لیا، میرا رزق میری قسمت میں لکھا جاچکا ہے جو زیادہ یا کم نہیں ہوسکتا، اس لیے میں زیادہ کی طلب سے بے غم ہوگیا ہوں۔ دوسر ایہ کہ میں نے جان لیا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا حق ہے، جو میرے سوا کوئی ادا نہیں کرسکتا، لہٰذا میں اس کے ادا کرنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔ تیسرا یہ کہ میں نے جان لیا کہ کوئی میری تلاش میں ہے، یعنی موت اور میں اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا، لہٰذا میں نے اس کا سازو سامان کرلیا ہے (یعنی نیک کام کیے جارہا ہوں)۔ چوتھا یہ کہ میں نے جان لیا ، میرا ایک آقا ہے، جو میرے حالات سے آگاہ ہے، لہٰذا مجھے اس سے شرم آئی اور میں نے ناروا کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا۔ جب بندہ جانتا ہے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے باعث قیامت میں خدا سے شرمندہ ہونا پڑے‘‘ (کشف المحجوب، علم و عمل، فصل اوّل)۔ گویا علم میں ایمان اور یقین ہے، اور عمل میں اطاعت وفرماں برداری ہے۔ علم محبوب کی پہچان ہے اور عمل محبوب کی بات ماننا، اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کرنا ہے۔
گویا اس معلم شریعت اور شیخ طریقت نے اصل حق کی طرف لوگوں کو بلایا ہے، اور شرک وبدعات کی سب قباحتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس اعتبار سے ایمان اور اطاعت میں جس قدر توجہ اور محنت ہوگی مقام عبدیت میں اتنا ہی کمال حاصل ہوگا۔ پھر عبدیت کے مقام پر فائز ہونے والا شخص روحانی کیفیت میں کَأنَّکَ تَرَاہٗ (گویا تو اسے دیکھ رہا ہے) کے درجے پر اور ظاہری حالت میں: فَاَکُوْنَ بَصَرُہٗ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَسَمعَہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ (میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے) بن جاتا ہے۔ (کشف المحجوب، تصوّف)
شیخ علی ہجویری فرماتے ہیں: ایسے شخص کے لیے شرع کے وہ احکام جو دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں، آسان ہوجاتے ہیں۔ آپؒ نے حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے: ایک بار حضرت حارثہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضوؐر نے استفسار فرمایا: ’’اے حارثہ ؓ! تونے صبح کس حال میں کی؟ کہا: میں نے ایسے حال پر صبح کی کہ خدا پر سچا ایمان رکھنے والا ہوں۔ فرمایا: اے حارثہؓ جو کچھ تو کہہ رہا ہے، اس پر غور کر، کیونکہ ہر شے کی کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ بتا تیرے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کی کہ میں نے اپنے نفس کو دنیا سے منقطع کرلیا اور ہٹا لیا ہے، لہٰذا میرے لیے اِس کا پتھر، سونا، چاندی اور مٹی کا ڈھیلا سب یکساں ہیں۔ اب میں رات کو جاگتا ہوں اور دن کو پیاسا رہتا ہوں، حتیٰ کہ میرا یہ حال ہوگیا، گویا میں اپنے پروردگار کا عرش علانیہ دیکھ رہا ہوں، اور جنت والوں کو دیکھتا ہوں کہ وہاں باہم مل رہے ہیں، جہنمیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ باہم کشتی لڑ رہے (تکرار کر رہے ) ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو شرمندہ کررہے ہیں (الحدیث)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو نے اپنے اللہ کو بخوبی پہچان لیا۔ اب اس عرفان کو اپنے آپ پر لازم کرلے‘‘۔ (کشف المحجوب، حقیقت تصوّف)
کتنے عظیم تھے وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کو اس طرح پہچانا کہ دنیا کی سب پہچانیں مدہم پڑگئیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ معرفت ِ حقیقی تو اسی بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کیا ہماری دنیا بلکہ ساری کائناتوں کی کوئی چیز بھی اللہ کی قدرت، ملکیت اور حکومت سے باہر ہے، اور کیا کائنات کا ایک معمولی سا ذرّہ بھی کسی اور کی تخلیق ہے؟ جب ساری تخلیق اسی اللہ کی ہے تو خالق و مالک جسے اچھا کہہ دے وہی اچھا ہے، اس کے بتانے کے مطابق وہ مشتِ غبار جو کسی مجاہد کے گھوڑے کے پاؤں سے اٹھتا ہے، اور وہ مٹی زروجواہر سے زیادہ قیمتی ہوجاتی ہے جس پر اللہ کے کسی بندے کی پیشانی سجدے کی حالت میں پڑتی ہے، اور وہی مالک چاہے تو سونے چاندی اور زروجواہر کے انبار کو زہریلے ناگ یا جھلسا دینے والی آگ میں بدل دے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔
غیر اللہ سے آپؓ کے دِل کا کٹ جانا اس طرح تھا کہ جب تمام صحابہؓ، پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارگاہ کبریا میں تشریف لے جانے (وصال پاجانے) سے دِل شکستہ ہو رہے تھے، یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓ تیغ بکف فرما رہے تھے کہ جو کوئی یہ کہے گا کہ پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے ہیں، میں اس کا سر قلم کردوں گا، توحضرت صدیق اکبرؓ نے باہر تشریف لاکر بلند آواز میں فرمایا: خبردار لوگو! جو شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، پس بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا تو وصال ہوگیا، اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار کی عبادت کرتا تھا تو وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط (اٰل عمران ۳:۱۴۴) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ایک رسول ہی ہیں، حضوؐرسے قبل بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید کردیے جائیں تو کیا تم اپنے دین سے پھر جاؤ گے؟‘‘ غرض جو فانی شے سے دل لگاتا ہے تو وہ شے فنا ہوجاتی ہے اور اس کے فنا ہوجانے پر اسے رنج ہوتا ہے، جو شخص اپنی جان حضرت باقی (اللہ تعالیٰ) کے سپرد کردیتا ہے تو جب اُس کا نفس تباہ ہوجاتا ہے (جسم سے اُس کا تعلق کٹ جاتا ہے) تو وہ بقاے دوام سے (تعلق جسم کے بغیر) باقی رہتا ہے۔ پس جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پاک کو ظاہری آنکھ سے دیکھا، جب وہ جسم پاک جہان سے اُٹھ گیا تو آنحضرتؐ کی تعظیم بھی اس کے دل سے اُٹھ گئی۔ جس نے آپؐ کی روحِ پاک کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھا، اس کے لیے آپؐ کا جہان سے چلا جانا، یا یہاں رہنا دونوں برابر ہیں، کیونکہ اس نے بقا کی حالت میں حضوؐر کی بقا کو حق تعالیٰ کے واسطے سے اور فنا کی حالت میں حضوؐر کی فنا کو اللہ ہی کی طرف سے سمجھا۔ اس نے تبدیل کیے ہوئے (جسم پاک) سے رُخ پھیر کر تبدیل کرنے والے کی طرف توجہ کی‘‘۔ (عن ابی ہریرہ، سنن ابی داؤد، حدیث ۲۰۴۱، مسند احمد حدیث ۵۸۲۷، مجموعہ الفتاویٰ ابن تیمیہ ج۱۱، ص۱۹۵)
جناب سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ نے ایک ہی فقرے میں کتنی باتوں کو نکھار کر رکھ دیا ہے: ’’اہلِ ایمان صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، کسی بندے کی عبادت نہیں کرتے‘‘۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپؐ کی اطاعت کرتے ہیں، عبادت نہیں، اور محبت واطاعت کے لیے آپؐ کا نظر میں ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ اہلِ محبت کے لیے زمان ومکان کی قید، اور حاضر وناظر کی شرط کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اللہ کا ولی تبدیل کیے ہوئے جسم اطہر سے رخ ہٹا کر تبدیل کرنے والے کی طرف توجہ کرتا ہے اور کسی ہستی کے ظاہر ہونے یا غائب ہونے کا معاملہ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ رسولؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے، اور اللہ سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے۔
سید علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ نے سیدنا ابوبکر کے بعد خلفاے راشدین، اہلِ بیت رسولؐ ، اصحابِ صفّہ، تابعین اور پھر علما، فقہا ، مجاہدین اور فقرا کی زندگیوں کو اہلِ تصوف کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے، جن میں جناب عمر بن خطابؓ، عثمان غنیؓ ، علی بن ابی طالب ؓ ، حسنؓ و حسینؓ سے لے کر سعید بن المسیّب ؒ، ابو حنیفہؒ، عبداللہ بن مبارکؒ ، معروف کرخیؒ، امام شافعیؒ، احمد بن حنبلؒ تک، اور جناب جنید بغدادی ؒ سے لے کر شام، عراق، فارس، غزنی اور ماوراء النہر کے صوفیا کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سب نفوس قدسیہ کی زندگیوں کا مخلصانہ اور غیر متعصّبانہ جائزہ لیا جائے تو شریعت، طریقت اور تصوّف کی ساری الجھنیں دُور ہوجاتی ہیں۔
گویا وہ شخص جو دولت، عزّت وشہرت اور زیادہ سے زیادہ مادی سہولتیں جمع کرنے میں لگا ہوا ہے، شریعت کے احکام کی پابندی نہ کرتا ہو، اور اپنی ظاہری بودوباش اور شکل وصورت سے صوفی بننے کا فریب کر رہا ہو، وہ اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا ہے۔
شیخ علی الہجویریؒ نے اس الجھن کو بڑے اچھے طریقے سے حل کیا اور اس حوالے سے اپنے استاد ابو القاسم القشیریؒ کی بات سے راستہ سمجھایا ہے:’’میں نے استاد ابو القاسم قشیریؒ سے سُنا ہے، وہ فرماتے تھے: لوگوں نے فقروغنا کے باب میں خیالات کا اظہار کیا ہے، اور ہر ایک نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی بات اختیار کرلی ہے۔ میں وہ بات اختیار کرتا ہوں، جو حق تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور اس میں میری نگہداشت رکھے۔ اگر وہ مجھے مال دار کردے تو غفلت نہ کروں، اور اگر فقیر بنا دے تو حرص نہ کروں۔ غنا نعمت ہے اور اس میں غفلت ، آفت، فقر نعمت ہے اور اس میں غرض آفت۔ یہ تمام باتیں حقیقت میں اچھی ہیں، اگرچہ معاملے اور روش میں اختلاف ہے۔ ذاتِ حق تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں دل سے نکال دینے کا نام ہی فقر ہے اور غیراللہ میں دل کے مشغول نہ ہونے کا نام غنا۔ جب ماسوا سے فراغت مل گئی تو فقر غنا سے افضل ہوگیا اور غنا فقر سے فروتر۔ غنا مال ومتاع کی زیادتی اور فقر مال ومتاع کی کمی کا نام نہیں، کیونکہ دُنیا کا سارا مال واسباب خُدا کی ملکیت ہے۔ جب طالب حق نے ملکیت ترک کردی اور سمجھ لیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے تو شرکت درمیان سے جاتی رہی اور طالب دونوں ناموں سے فارغ ہوگیا‘‘۔ (کشف المحجوب، فقروغنا)
درحقیقت فقر وغنا کا تعلق مال ودولت کی کثرت اور قلّت سے نہیں ہے، بلکہ مال وجاہ کی چاہت اور بے رغبتی سے ہے۔فقر کی منزل پہ وہی پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں صرف اللہ ورسولؐ کی محبت رچ بس رہی ہے۔ ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں مال کماتا ہے اور اللہ کی چاہت میں مال خرچ کردیتا ہے، اور قربت الٰہی میں مال ودولت کما کر خرچ کرنا بے دست وپا بیٹھے رہنے سے زیادہ افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الکاسب حبیب اللّٰہ (محنت سے کمانے والا اللہ کا حبیب ہے)کہہ کر اللہ کے دوستوں کی نشان دہی کردی ہے، لیکن مال کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ ورسولؐ کو فراموش کرنا غفلت ہے، اور غافل لوگ جانوروں سے بھی کم تر ہیں۔ اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۹)
توحید کامل پر یقین رکھنے والا مومن بن جاتا ہے۔ شیخ علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ ایمان کے بعد کے مراحل کا تذکرہ انتہائی واضح انداز میں کرتے ہیں جس پر اگر غور کر لیا جائے تو دیگر بہت سی اُلجھنوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں: ’’ایمان ومعرفت کی انتہا محبت ہے، اور محبت کی نشانی عبادت ہے۔ کیونکہ جب دل ، محبت اور مشاہدے کا مقام ہے، آنکھ دیدار کا، اور جان عبرت کا، تو بدن کو لازم ہے کہ خدا کا حکم نہ چھوڑے، جو شخص خدا کا حکم چھوڑ دے اسے معرفت الٰہی کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عبادت وعمل کی یہ زحمت اسی وقت تک ہے جب تک تونے خدا کو نہیں پہچانا، جب تونے اسے پہچان لیا تو عبادت بدن سے غائب ہوگئی، حالانکہ یہ بھاری غلطی ہے‘‘۔(کشف المحجوب، ایمان کی حقیقت)
محبت اور عبادت کے اس حسین امتزاج سے عبارت دین ِحنیف کی مکمل تصویر پیش کرنے کے لیے انھوں نے مختلف عنوانات کے تحت تشریح وتوضیح کی ہے۔ آدابِ زندگی، حسنِ معاشرت، اور روحانیت کے راستے پر چلنے کے لیے ضروری مجاہدوں اور ریاضتوں کی وضاحت انتہائی انوکھے اور نادر انداز میں فرمائی۔ آپ کی تشریحات عام فقہی موشگافیوں اور الجھا دینے والی کلامی بحثوں سے پاک ہیں۔ طہارت کے ضمن میں وضو کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب ہاتھ دھوئے تو ضروری ہے کہ دنیا کی محبت سے ہاتھ دھو ڈالے۔ جب منہ میں پانی ڈالے تو ضروری ہے کہ اپنا منہ غیر کے ذکر سے خالی کردے۔ جب چہرہ دھوئے تو واجب ہے کہ نفس کی پسندیدہ چیزوں سے روگرداں ہوجائے۔ جب سر کا مسح کرے تو لازم ہے کہ اپنے کام اللہ کو سونپ دے‘‘ (کشف المحجوب، طہارت)۔ اسی طرح پوری تفصیل سے طہارت کی اصل غرض وغایت کا ذکر فرماتے ہیں۔
گویا آپؐ کا دنیا میں آنا قیام شریعت یا معروف اصطلاح میں اقامت دین ہے۔ اور آپؐ نے اپنا یہ مشن مکمل کیا اور پھر اسے قیامت تک جاری رکھنے کے لیے اُمّت کی ذمہ داری بنادیا۔ اس عظیم راستے پر چلنے کے لیے دنیا میں رہتے ہوئے بھی حرص وطمع اور غیر اللہ سے امیدیں لگانا اور نت نئی آرزوؤں کے بخار میں مبتلا رہنا درست نہیں ہے۔ سید ہجویریؒ ایک درویش کی بات بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے ایک درویش سے کہا مانگو جو مانگتے ہو۔ درویش نے کہا: میں اپنے غلاموں سے کچھ نہیں مانگتا۔ بادشاہ نے کہا :یہ کیا بات ہوئی؟ درویش نے کہا: میرے دو غلام ہیں: ایک حرص اور دوسرا آرزو، جب کہ یہ دونوں تمھارے آقا ۔ میں نے جنھیں اپنا غلام بنارکھا ہے ان سے مانگنا کیسا؟
یہ بات کہنے اور لکھنے میں جس قدر آسان ہے، عمل میں اسی قدر مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ودولت کی فراوانی کے بجاے فقر کو پسند فرمایا۔ آپؐ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اَحْیِـینِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً، وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنَ ، اے اللہ مجھے مسکینی میں زندہ رکھ، مسکینی میں وفات دے، اور قیامت کے روز مسکینوں کے گروہ میں اٹھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’میرے دوستو میرے قریب آجاؤ۔ فرشتے پوچھیں گے یااللہ! آپ کے دوست کون ہیں ؟ اللہ فرمائے گا: فقرا اور مساکین‘‘۔(کشف المحجوب، فقر)
شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ نے اسی حال کو ملامت کا نام دیا ہے، اور فرقہ ملامتیہ کی غیرشرعی اور غیر انسانی حرکات کی مذمت فرمائی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:’’مردانِ خدا سارے جہان میں مخلوق کی ملامت سے مخصوص ہیں۔ بالخصوص اس اُمّت کے بزرگ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مردانِ خدا کے پیشوا وامام اور عاشقانِ الٰہی کے پیش رو تھے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر برہان حق (نبوت) ظاہر نہ ہوئی تھی اور وحی الٰہی کا نزول نہ ہوا تھا ،آپ تمام لوگوں کے نزدیک نیک نام اور بزرگ تھے۔ لیکن جب خُدا نے آپ کو محبوبیت (رسالت)کے خلعت سے مزیّن کیا تو لوگوں نے زبانِ ملامت دراز کی۔ ایک جماعت نے کہا: وہ کاہن (نجومی) ہیں، دوسری نے شاعر، تیسری نے دیوانہ اور چوتھی نے جھوٹا قرار دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی تعریف میں فرمایا: وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ o (وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔ المائدہ ۵:۵۴)۔ خدا کا دستور یوں ہی چلا آتا ہے کہ جو اس کا حال بیان کرتا ہے، وہ ساری دنیا کی ملامت کا ہدف بن جاتا ہے‘‘۔ (کشف المحجوب، ملامت، باب ۶)
مسئلہ ملامت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: ایمان وآزمایش کے عمل کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے اللہ رب العزت نے انسانوں کے اندر ملامت کرنے والا نفس رکھ دیا ہے، تا کہ وہ انھیں ان کے افعال پر ملامت کرتا رہے۔ اگر ان سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو وہ اس لغزش پر اپنے آپ کو ملامت کرتے، اور اگر وہ کوئی نیکی کرتے ہیں تو اس میں کمی رہ جانے پر اپنی ذات کو ہدفِ ملامت بناتے ہیں۔ یہ خدا کی راہ میں ایک قوی اصل ہے، کیونکہ کوئی بلا اور بدنصیبی اس سے سخت تر نہیں، کہ ایک شخص اپنی خوبیوں پر غرور کرنے لگے۔(کشف المحجوب، ملامت، باب۶)
سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ کی ساری باتیں دیدہ زیب، چمن زار کی مانند ہیں۔ گھومتے رہو، سیر کرتے رہو، نہ آنکھیں تھکتی ہیں اور نہ پاؤں دُکھتے ہیں، اور دل کا حال یہ ہے کہ مزید اور مزید کی تمنا کیے جا رہا ہے۔
کیسے عظیم لوگ تھے جنھوں نے پورے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی، اور ساری زندگی اسی راہ میں کھپا دی۔ دنیا میں رہے لیکن دنیا والوں سے کچھ نہ چاہا، بلکہ ان کے لیے مادی وروحانی فیض عام کرتے رہے۔ یہی سبب ہے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن وہ نہیں گزرے۔ خلقِ خدا کے دلوں میں ان کی عقیدت واحترام اور زبانوں پر محبت کے تذکرے ہیں لیکن وہ لوگ جنھوں نے شریعت وطریقت کو ریا کاری اور دنیا جمع کرنے کا ذریعے بنالیا ہے، انھیں وقتی آسایش اور مصنوعی احترام تو مل جاتا ہے، لیکن نہ انھیں خلقِ خدا کی سچی محبت نصیب ہوتی ہے اور نہ ان کے چشمۂ روحانی سے ہدایت کاپانی جاری ہوتا ہے۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال
ملاّ کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
شاعر کی نوا مردہ وافسردہ وبے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پَے میں فقط مستیِ کردار
(ضربِ کلیم)
ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، شعبہ عربی میں استاد ہیں۔