ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی
شیخ محمد فرغلی شہیدؒ کا شمار اخوان المسلمون مصر کے اولین قائدین میں ہوتا ہے۔ آپ عالم و مجاہد اور ایک مثالی داعی تھے۔ آپ کی پوری زندگی جہدِمسلسل کا مظہر تھی اور شہادت پاکر حیاتِ جاوداں پائی۔ آپ اخوان کے ان اولیں چھے شہدا میں سے ہیں جنھیں جمال عبدالناصر کے ابتدائی دور میں شہید کیا گیا۔ آپ کی زندگی میں ایسے پہلو بھی ملتے ہیں جن میں کارِ انبیاؑاور تحریک اسلامی کے مشن کو آگے بڑھانے والے داعیانِ اسلام کے لیے تزکیہ و تربیت اور رہنمائی کا سامان ہے۔ فرغلی شہیدؒ عمر بھر ان اصولوں کی پاس داری کرتے رہے حتیٰ کہ راہِ خدا میں اپنا خون دے کر صبرواستقامت اور عزیمت کی ایک عظیم تاریخ رقم کی۔
- اسلام کے لیے پھل: جامعہ ازہر میں دورانِ تعلیم ہی‘ آپ تک غلبہ دین اور احیاے اسلام کی جدوجہد کی دعوت پہنچی۔ آپ نے کسی بھی رکاوٹ اور دشواری کو خاطر میں لائے بغیر اس دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ وہ اس اصول کا عملی نمونہ تھے کہ اسلام کی دعوت کو آگے بڑھ کر صرف قبول ہی نہ کیا جائے بلکہ آگے بڑھ کر کام کیا جائے۔ وہ پہلے پہل قاہرہ کی جمعیۃ الحضارۃ الاسلامیۃ کے رکن تھے۔ اِس تنظیم کو جب یہ یقین ہوگیا کہ الگ الگ کام کرنے سے بہتر یہ ہے کہ یک جا ہوکر کام کیا جائے تو بالآخر یہ اخوان المسلمون میں شامل ہوگئی۔ فرغلی شہیدؒ اس ابتدائی دور میں تحریک کے نمایاں داعیوں میں شمار ہوتے تھے۔
- نرم دمِ گفتگو ،گرم دمِ جستجو:آپ نے احیاے اسلام کے لیے متعین و منظم جدوجہد اور یکسوئی پر بہت سے مضامین لکھے ۔ اپنے ایک مختصر مضمون میں وہ لکھتے ہیں:ہم ہمیشہ کام کرنا پسند کرتے ہیں‘ ہمیں عمل کی دعوت دینا بھی مرغوب ہے‘ اس لیے کہ عمل ہی مقصد تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے‘ عمل سے ہی ہماری تمام آرزوئیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اچھا عمل ہی مکمل خیر ہے‘ خواہ تھوڑا ہو یا بہت۔ گفتگو جتنی کم ہو اتنی ہی مفید ہے۔ لمبی گفتگو کو سامعین یاد نہیں رکھ سکتے‘ جب کہ متکلم بھی یکسو نہیں رہتا۔ لہٰذا میں اخوان کے وعظ و ارشاد اور خطاب کرنے والے حضرات سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی تقریروں اور خطبوں کو مختصر رکھا کریں۔ سامعین اگر تھوڑا سنیں‘ اسے سمجھ کر عمل کریں تو یہ بہتر ہے۔ مقرر کا اپنی تقریر پر فخرکرنا یا جو کچھ بھی دل میں ہو‘اُسے بیان کر دینا مفید نہیں ہے کیونکہ سامعین سب کچھ یاد نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا طویل بیان حکمتِ تبلیغ کے منافی ہے۔
- عزتِ نفس اور جرأت: الاستاذ حسن البناؒ اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں: ’’الجباسات البلاح کمپنی کے ذمہ دار حضرات نے اسماعیلیہ کی الاخوان سے درخواست کی کہ وہ اپنی جماعت کا کوئی عالمِ دین متعین کریں جو کمپنی کی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے۔ چنانچہ استاذ فرغلیؒ کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔ ان کی امامت و خطابت اور دروسِ قرآن نے کمپنی کے کارکنوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ چند ہی ہفتوں بعد کمپنی کے ملازمین میں واضح تبدیلی محسوس کی جانے لگی اور ان کا سماجی شعور بہت بلند ہوگیا۔ مگر کمپنی مالکان کو یہ بات پسند نہ آئی۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ اگر یہی حال رہا تو یہ مولانا صاحب کمپنی پر حاوی ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ ان کی جدوجہد کو روک سکے‘ نہ ہی کمپنی ملازمین کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں رہے گا۔ کمپنی کے سرکردہ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس طاقت ور عالم دین کو مسجد کے فرائض سے سبک دوش کر دیا جائے۔ شیخ فرغلیؒ کو ایک اعلیٰ افسر نے بلا کر کہا کہ: ’’مجھے ڈائرکٹر صاحب نے ہدایت کی ہے کہ ہماری کمپنی کو آپ کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں اور کمپنی ہی کے کسی ملازم کو آپ کی جگہ پر متعین کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ڈائرکٹر صاحب کے حکم کے مطابق یہ ہیں آپ کے اب تک کے بقایا جات‘‘۔
یہ سن کر شیخ فرغلیؒ نے بڑے سکون سے جواب دیا: ’’موسیو فرانسو! میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں الجباسات البلاح کمپنی کا ملازم ہوں۔ اگر میں نے ایسا سمجھا ہوتا تو میں کبھی اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اسماعیلیہ کی اخوان المسلمون کا ملازم ہوں۔ میں آپ کے بجاے ان سے تنخواہ کا مطالبہ کروں گا۔ مجھے اگر یہ کام چھوڑنا ہوا تو ان سے بات کرکے چھوڑ دوں گا۔ یہ معاملہ چونکہ آپ سے غیرمتعلق ہے لہٰذا میں آپ سے تنخواہ قبول کرتا ہوں نہ بقایا جات لیتا ہوں۔ نہ ہی میں مسجد میں اپنی خدمت کو ترک کروں گا خواہ آپ اس کے لیے طاقت ہی کیوں نہ استعمال کریں۔ ہاں جس جماعت نے مجھے یہاں بھیجا ہے اگر اس کا سربراہ مجھے حکم دے تو میں یہاں سے چلا جائوں گا۔ وہ صاحب اسماعیلیہ میں موجود ہیں۔ آپ ان سے بات کرلیں۔
کمپنی کے لوگ بڑے حیران اور پریشان ہوئے۔ انھوں نے چند روز تک صبر کیا کہ شاید‘ شیخ فرغلیؒ ان سے تنخواہ مانگیں گے۔ مگر شیخ نے اسماعیلیہ میں راقم الحروف سے رابطہ کیا۔ ہم نے انھیں کہا کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ شیخ فرغلیؒ کا موقف درست تھا‘ اس لیے وہ کمپنی کے ملازم تھے، نہ ان سے تنخواہ لیتے تھے۔ مجبور ہوکر اس کمپنی کی انتظامیہ نے پولیس سے مدد مانگی۔ کمپنی کے ڈائرکٹر ’موسیوماینو‘ نے کینال کے منتظم اعلیٰ سے رابطہ کیا‘ اُس نے اسماعیلیہ کے اعلیٰ پولیس افسر کو حکم دیا کہ وہ اس مہم سے عہدہ برآ ہونے کے لیے طاقت کا استعمال کرے‘ چنانچہ اعلیٰ پولیس افسر‘ پولیس کی نفری سمیت فیکٹری کے ڈائرکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں سے اُس نے شیخ فرغلیؒ کو طلب کیا۔ آپ مسجد میں تھے۔ آپ نے قاصد کو کہا: مجھے نہ تو پولیس افسر سے ملنے کی ضرورت ہے نہ ڈائرکٹر سے۔ میرا کام تو مسجد میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو وہ میرے پاس آجائے‘‘۔ یہ جواب سن کر پولیس افسر آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہنے لگا کہ آپ ڈائرکٹر کی بات مان لیجیے اور یہاں کا کام چھوڑ کر واپس اسماعیلیہ چلے جایئے۔ شیخ فرغلیؒ نے وہی جواب دیا جو وہ ڈائرکٹر کو اِس سے پہلے دے چکے تھے۔
جب یہ خبر کمپنی کے کارکنوں تک پہنچی کہ شیخ فرغلیؒ کو مسجد کی امامت و خطابت سے معزول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر ہڑتال کر دی۔ انھوں نے جلوس نکالا اور جوش و جذبے سے معمور ہوکر شیخ کے حق میںنعرے لگائے۔ پولیس افسر نے جب یہ محسوس کیا کہ طاقت کا استعمال خطرناک ہوگا تو وہ فوراً وہاں سے اسماعیلیہ چلا گیا۔ یہاں اُس نے مجھ سے رابطہ کیا تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ بعد میں‘ میں نے کمپنی کے ڈائرکٹر سے ملاقات کی اور پوچھا کہ وہ کیوں شیخ کو ہٹانا چاہتے ہیں تو اُس کے پاس اِس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا فرد چاہتے ہیں جو ان کی بات مانے۔ اس ڈائرکٹر کی ایک بات مجھے اب تک یاد ہے:’’بہت سے مسلمان قائدین کے ساتھ میری دوستی ہے۔ میں نے الجزائر میں ۲۰سال گزارے ہیں‘ مگر مجھے شیخ فرغلی ؒجیسا شخص کبھی نہیں ملا۔ یہ شیخ تو یہاں ہم پر اس طرح حکم چلاتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی جرنیل ہو‘‘۔
- بلا تاخیر جھاد بالمال: ۱۹۳۸ء میں الدعوہ حصص پروجیکٹ تجویز ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اخوان میں سے جو چاہے رضاکارانہ طور پر اپنا کچھ مال___ جو اس کے کل مال کے دسویں حصے سے کم نہ ہو___ پیش کرے‘ تاکہ اس جمع شدہ مال کو دعوتی کاموں پر خرچ کیا جاسکے۔ اخوان نے اس مالی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پورے مصر میں اسماعیلیہ کے اخوان نے اس معاملے میں پہل کی۔ ان میں سرفہرست شیخ محمد فرغلیؒ تھے۔
- ثابت قدمی اور غیرمعمولی صبر: برادر عبداللہ عبدالمطلب مأزنی نے رسالہ النذیر (اشاعت یکم اگست ۱۹۳۸ئ) میں لکھا: ’’پورٹ سعید میں منعقدہ محفل کے دوران ایک اخوانی نے شیخ فرغلیؒ کو ایک ٹیلی گرام دیا۔ شیخ نے اسے پورے اطمینان سے پڑھا‘ اور جیب میں ڈال لیا۔ چند لمحوں بعد انھیں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان کی تقریر کا موضوع تھا: ’’دعوت اور اس کی پاکیزگی‘‘۔ تقریر موزوں و برمحل تھی۔ اگلے روز المرشد نے ہمیں دورانِ سفر بتایا کہ اس ٹیلی گرام میں شیخ فرغلیؒ کے اکلوتے بیٹے کی وفات کی خبر تھی۔کیا ایمان ہے اور کتنا مضبوط و صابر ہے یہ دل‘‘۔
- سنجیدگی اور احساسِ ذمہ داری: الاستاذ حسن البنا ۱۹۴۸ء میں اسماعیلیہ میں تشریف لائے۔ وہاں آپ نے رات کو کچھ دیر کے لیے شیخ فرغلی ؒسے ملاقات کی۔ شیخ فرغلیؒ فلسطین کے میدانِ جنگ کی طرف جانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ امام البنا نے ان سے کہا: آپ فجر کے بعد سفر کیجیے اور یہ رات ہمارے ساتھ رہیے‘‘۔ مگر شیخ فرغلیؒ راتوں رات ہی جہاد کے لیے فلسطین کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ صبح جب امام البنا کو بتایا گیا تو وہ خوش ہوکر فرماتے تھے۔ ’’ذمہ دار مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘۔
- ادب و تواضع: اخوان بتاتے ہیں کہ ایک روز شیخ فرغلیؒ کو‘ استاد البنا کی موجودگی میں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ امام البنا نے بھی بہت اصرار کیا کہ وہ تقریر کریں۔ اصرار کے بعد انکار تو نہ کرسکے اور کھڑے ہوگئے مگر چپ چاپ۔ اپنے ہونٹ بالکل نہ کھولے‘ حالانکہ وعظ و خطاب میں وہ بے مثال تھے۔ وہ امام البنا کے سامنے تقریر کرنے سے شرماتے تھے۔ دراصل یہ ان کا ادب و تواضع تھا۔
- دعوت کے ساتھ کامل وفاداری اور احترامِ قیادت: استاد کامل الشریف بیان کرتے ہیں: ’’جب حسن الہضیبی نئے مرشدعام مقرر ہوئے تو مجھے یاد ہے کہ شیخ فرغلیؒ ابتدائی دنوں میں ان کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نہ تھے۔ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب کی کامیابی‘ یعنی محمدنجیب کی پہلی وزارت کی تشکیل کے بعد‘ جمال عبدالناصر کے دفتر میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ شیخ فرغلیؒ اور راقم اس اجلاس میں اخوان کی نمایندگی کر رہے تھے۔ انقلابی حکومت اور اخوان کے مابین کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ اس اجلاس میں شرکت کا مقصد‘ ان غلط فہمیوں کو دُور کرنا تھا۔ انقلابی حکومت‘ مرشدِعام اور شیخ فرغلیؒ کے مابین اختلاف ڈالنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اجلاس کے دوران انقلابیوں نے شیخ کی تعریف شروع کر دی اور فلسطین میں ان کے کارناموں کو بیان کرنے کے بعد‘ مرشدعام پر تنقید کرنے لگے تو شیخ نے فوراً ان کی بات کاٹ دی اور غضب ناک ہو کر کہا: آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص کے بارے میں آپ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں وہ ہمارا لیڈر ہے اور ہماری جماعت کا سربراہ ہے۔ میں آپ کی ان باتوں کو پوری جماعت کی توہین سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اپنی اہانت گردانتا ہوں۔ اگر اختلافات دُور کرنے کا آپ کا یہی طریقہ ہے تو پھر آپ اختلافات بڑھائیں گے‘ کم نہیں کرسکیں گے۔ شیخ کی یہ بات انقلابی فوجی افسروں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھی کہ ان کے سامنے ایک پُرعزم جواں بیٹھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بات کا رخ دوسری طرف پھیر دیا‘‘۔
- اللّٰہ پر یقین و اعتماد: شیخ فرغلیؒ کی زندگی توکل علی اللہ اور خدا کی ذات پر کامل بھروسے کی آئینہ دار تھی۔ اس کی ایک عظیم مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب وہ دسمبر ۱۹۵۴ء کو پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھے تو اللہ پر یقین و اعتماد اُن کے پُرسکون اور پُروقار چہرے سے عیاں تھا۔ عالمی صحافت نے اس وقت کی ان کی حالت کو ان لفظوں میں بیان کیا: ’’انتہائی سکون‘ یقین و اعتماد کی حالت میں‘‘۔ ان کی زبان پر صرف یہی کلمات جاری تھے: ’’میں موت کے لیے تیار ہوں۔ اللہ سے ملاقات کو خوش آمدید‘‘۔
- حقیقی زھد و ورع: شیخ فرغلی شہیدؒ کے زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے نیازی کے متعلق محمد عبداللہ الخطیب بیان کرتے ہیں:شہید فرغلیؒ کی سزاے موت کے تین دن بعد کی بات ہے کہ اخبار الاھرام نے اپنے پہلے صفحے پر ایک بہت بڑی عمارت کی تصویر شائع کی۔ اس کے سامنے ایک مرسڈیز کار کھڑی تھی۔ نیچے یہ عبارت لکھی: یہ فرغلی کا گھر ہے‘ یہ اس کی کار ہے۔ یہ سب کچھ اس نے فلسطین کے لیے دیے جانے والے چندے سے بنایا‘‘۔ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حکومت اور اخبار کی انتظامیہ اتنی گھٹیا حرکت بھی کرسکتی ہے۔ میں الحلمیہ میں رہتا ہوں۔ میں نے اخبار لیا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ دکھ اور غم سے میں نڈھال تھا۔ میرے ساتھ الاسیوط کا ایک بھائی رہتا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ فرغلی شہیدؒ کا بھائی ابراہیم ہمیں ملنے آرہا ہے‘ کیونکہ یہ لوگ یہاں شیخ کی وصیت اور ان کے کپڑے لینے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ میں شہید کے بھائی اور دیگر اعزا کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ حضرات پہنچ گئے تو میں نے شہید کے بھائی ابراہیم سے وصیت نامہ لے کر پڑھا تو اس میں یہ بات بھی لکھی تھی:ابراہیم! یاد رکھیے کہ مومن کے لیے قیدخانہ‘ خلوت اور اسے ملک یا شہربدر کرنا اس کی سیاحت اور اس کا قتل‘ شہادت ہے۔ اے ابراہیم! میں نے آپ لوگوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ‘ اگر مال کی ضرورت پڑے تو الشیخ الباقوری کے پاس چلے جانا۔ وہ میرے دوست ہیں۔ وہ آپ کی حاجت کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں--- جس شخص کی یہ وصیت ہو‘اس کے بارے میں حکومت کا پروپیگنڈا ایک اوچھی حرکت کے سوا کچھ نہیں۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۲)