ڈاکٹر عائشہ صدیقہ یوسف


’ظن‘ کا مطلب ہے گمان، خیال،قیاس (Assumption, Conjecture, Supposition) ’علم‘ اور ’ظن‘ میں بہت نمایاں فرق ہے۔یہی فرق انسانی رویوں اور زندگی گزارنے کے انداز میں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔

راہ سے ہٹنے (گمراہی) کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں: اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۝۱۱۶ (الانعام ۶:۱۱۶) ’’وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں‘‘۔

گمان کا مطلب علم کا فقدان ہے: مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ (النساء ۴:۱۵۷) ’’ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے‘‘۔ اور اگر  علم نہ ہو، تو صرف گمان کے بل پر حق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے: وَمَا يَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۝۰ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (یونس ۱۰:۳۶) ’’حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں، حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا‘‘۔

اسی طرح آخرت کے متعلق محض ظن کی موجودگی اور یقین کی غیرموجودگی سے زندگی کا پورا رویہ بدل جاتا ہے: مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَۃُ۝۰ۙ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ۝۳۲ (الجاثیہ ۴۵:۳۲)’’ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے‘‘۔

یہ تو وہ امور ہیں جن پرہماری اُخروی سعادت و فلاح کا انحصار ہے۔ قرآن کے دیے ہوئے اصول عمومی اور زندگی بھر کے لیے ہیں ، جنھیں ہم مختلف معاملات پر منطبق کرسکتے ہیں۔

ظن و گمان اور حقیقت تک رسائی

ظن کے بجائے علم تک ہم کیسے پہنچ سکتے ہیں؟

۱-اگر وہ غیب، چھپی ہوئی چیز ہے تو قرآن ہمیں ایسا انداز عطا کرتا ہے، جس میں تصدیق کی بہت اہمیت ہے، یعنی سچ کو سچ کہنا اور اس تک پہنچنے کے لیے واضح بات یا ’تبیین‘ یا ’تفصیل‘۔ حق اور غیب کی معرفت کے لیے آیات دی گئیں، یعنی نشانیاں جو کہ قرآن کی آیات بھی ہیں، کائنات میں پھیلی اور انسان کے اپنے جسم میں پھیلی نشانیاں بھی ہیں۔ ان نشانیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا اور ان پر تدبروتفکر  کی دعوت دی گئی۔ پھر رسولؐ جن کی بات پر ہم ایمان لائے ہیں، ان کی صفات سامنے لائی گئیں کہ وہ صادق ہیں اور امانت میں خیانت نہیں کرتے، اس لیے ان کی کہی ہوئی بات بالکل سچ ہے۔ پھر جو فرشتہ اس پیغام کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب تک لایا ،اس کے متعلق اطمینان دلایا گیا کہ وہ بھی امانت دار ہے۔

ایک عمومی بات سکھائی گئی کہ تمھیں علم نہیں تو اہلِ ذکر (اہل علم)سے پوچھ لو (النحل۱۶: ۴۳)۔ بات کی تحقیق کرکے واضح کرلو چاہے کوئی فاسق خبر لائے (الحجرات ۴۹:۶) یا کوئی میدان جنگ میں سلام کرے(النساء۴:۹۴)۔

۲- اگر وہ کوئی قول ہو تو اس کی صداقت کوکیسے پرکھا جائے؟ دنیا کی سب سے سچی کتاب جب مصحف کی شکل میں لکھی جانے لگی تو یہ کام حضرت زیدؓ بن ثابت کو دیا گیا، جو خود کاتب قرآن اور حافظِ قرآن تھے۔ ان کے ساتھ صحابۂ کرام ؓ کی ٹیم تھی جو کہ سب حفاظ قرآن تھے۔ سارے صحابۂ کرامؓ سے آیات جمع کی گئیں جو چھال،لکڑی،پتے، پتھر، ہڈی، کھال یا کپڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔ یہ وہ اوراق تھے جو صحابۂ کرامؓ لکھتے جاتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسجد لے کرآتے۔ ہررمضان میں ’عرضہ‘ ہوتا۔ آپؐ تلاوت کرتے جاتے اور وہ اپنے حصوں کو دیکھ کر جانچتے۔کبھی آپؐ ان سے پڑھوا کر سنتے۔ ان سب کو منگوایا گیا ۔ ہر آیت کو مصحف میں لکھنے کے لیے یہ اصول بنایا گیا کہ وہ کم ازکم دو اصحابِ رسولؐ کے پاس لکھی ہوئی ہو اور اس کی دوشہادتیں ہوں۔ اس طرح قرآن کا باقاعدہ مصحف تیار ہوا۔

کسی کے ذریعے پہنچے ہوئے قول کو کیسے پرکھیں؟ احادیثِ نبویؐ کی تدوین کی محنت اور اصول قابلِ تحسین ہیں۔ محدثین نے ایک ایک حدیث کے راویوں کی سند جوڑ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی ۔ محدثین نے ہر حدیث کی سند کے ایک ایک راوی کے حالات زندگی جمع کرلیے۔ انھوں نے یہ بھی معلومات جمع کیں کہ ہر راوی کا کردار،سچائی ،دیانت اور حافظہ کیسا تھا؟ پھر کچھ عقل کے معیارات پر حدیث کو پرکھ کر اسے درج کیا گیا۔ ان معلومات کی بنیاد پر آج بھی کوئی شخص، ہرحدیث کو پرکھ سکتا ہے اور ظن کے بجائے علم کے درجے پر پہنچ سکتا ہے۔

 ۳- اگر وہ کسی چیز کی افادیت کے بارے میں کوئی نظریہ ہے تو اس کوپرکھنے کے لیے تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ایک چیز استعمال کرائی جائے اور نتیجہ یہ نکالا جائے کہ یہ چیز کامیاب رہی۔ لیکن اس کا امکان ہے کہ استعمال کیے بغیر بھی نتائج ایسے ہی نکلتے۔ لہٰذا تجربے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک جیسے دو گروہ بنا کر ، ایک پر اس چیز کا انطباق کریں اور دوسرے پر نہ کریں  اور پھر نتائج کا فرق دیکھیں۔  موازنہ اور مقابلہ کرنا بھی ہمیں قرآن نے سکھایا ہے جہاں الفاظ کی ضد ان کے ساتھ استعمال کی گئی ہے، مثلاً ہدایت اور گمراہی، نور اور ظلمات، اندھا اور بینا، سعادت اور شقاوت، صلاح اور فساد۔ آیات میں ’لا یستوی…‘ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہےکہ یہ دو چیزیں برابر نہیں ہیں۔ آیات میں آتا ہے : افمن کان… کمن  کان……  جس کا مفہوم ہوتا ہے: ’ کیا جو ایسا ہے وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جو ایسا نہیں ہے؟‘۔

مندرجہ بالا تذکیر سے کسی بات کو صحیح سمجھ کر قبول کرنے کے لیے، یا ظن کے درجے سے  اُٹھ کر علم تک آنے کے لیے، یہ اصول سامنے آتے ہیں: اگر کسی کا قول سامنے آیا ہے تو ماننے سے پہلے دیکھیں کہ کہنے والا کون ہے یا یہ قول کہاں سے شروع ہوا؟ اس کی دیانت کے ساتھ اس کا علم اور تجربہ کیسا ہے؟ بذاتِ خود وہ بات کیا ہے؟ اگر کوئی نظریہ ہے تو اس بات کا ثبوت کیا ہے؟ اس کی نشانیاں موجود ہیں اور کس درجے کی ہیں؟ اگر قابلِ تجربہ ہے تو کیا اس کو پرکھا گیا ہے؟

زندگی کے مختلف دائروں میں تجزیہ کرنا چاہیے کہ کون سے امور علوم ہیں اور کون سا رویہ محض ظن پر مبنی ہے۔ زیرِ تحریر سطور شعبۂ طب خصوصاً علاج سے متعلق ہیں۔

 یہ بہت عام ہے کہ علاج یا بیماری کے سلسلے میں ایک بات مشہور ہوجاتی ہے جو کہ کسی کی ذاتی راے ہوتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کی راے یا تجربہ ہے؟ اورنہ یہ معلوم ہوتا کہ یہ کتنے لوگوں کا تجربہ ہے اور جنھوں نے استعمال نہیں کیا ان کا تجربہ کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ چیز مفید ہی ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی کردار ہی نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چیز کا کوئی بڑا نقصان ہو رہا ہو۔

بہرحال، بلا تحقیق و تجربہ کسی شے کو بطورِ علاج پیش کرنے اور قبول کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ خصوصاً دورِ جدید میں جہاں دلائل، تحقیق اور تجربہ کے شواہد کے بغیر کسی بھی طریقِ علاج کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شعبہ طب (میڈیسن) میں دواؤں کے عام اجرا سے پہلے تحقیق کا ایک انتہائی مربوط نظام رائج ہے۔اس نظام سے آگاہ کرنے سے پہلے بعض چیزوں کی وضاحت کی جارہی ہے۔

میڈیسن، طریق علاج:چند وضاحتیں

اس کو عرف عام میں ایلوپیتھی کہا جاتا ہے، مگر یہ نام اس کے نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ اس کا نام پچھلی صدی میں کسی دوسرے طریق علاج نے ایلوپیتھی رکھا تھا جس کا مطلب تھا علاج کا مختلف طریقہ ۔ اس کے اپنے حلقوں میں اسے میڈیسن کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن شاید یہ بھی اس کا صحیح نام نہیں۔ کیوںکہ میڈیسن کے علاوہ بہت کچھ اس میں شامل ہے۔  اس کے متعلق عوام الناس میں پھیلے کچھ خیالات یہ ہیں: اس کی دوائیں مصنوعی اور فطرت سے دور ہیں، اس میں صرف علامات کا علاج ہے اصل مرض کا نہیں، اس میں اصل علاج جراحت یا چیر پھاڑ کر الگ کرنا ہے، اس میں حفاظتی تدابیر اور جسم کو مضبوط بنانے پر زور نہیں۔

اس کو اندر سے پرکھنے والے جانتے ہیں کہ اس طریقِ علاج میں یہ چیزیں شامل ہیں:

lجڑی بوٹیوں پر ریسرچ اور قدرتی چیزوں سے اخذکردہ بنائی گئی دوائیںl  لیبارٹری میں بنائی گئی دوائیں اور تحقیق lفزیکل میڈیسن، یعنی ورزش اور posture کے متعلق ہدایات l گرم اور سرد سکائی، بھاپ جیسی چیزیں lداغنے lسرجری یا جراحت بحیثیت آخری انتخاب جو صدیوں سے ہورہا ہے،اور جس کے بانیوں میں الزھراوی شامل ہیں۔

غذائیت کے مباحث اورغذائی اجزا کی تفصیل بھی میڈیسن کی شاخ ہے: احتیاطی تدابیر معاشرتی سطح سے شروع ہو کر فرد کی سطح تک، جزئیات کے ساتھ،علامات کا علاج ، پیچیدگیوں کو روکنا، بیماری کی جڑ ختم کرنا۔اس میں بیماری کے اسباب (etiology) کے ساتھ بیماری کے حملے سے ہوشیار رہنے کے اسباب بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ انفیکشن کے سبب جرثومے کو بھی مارتا ہے اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے بھی عمل کرتا ہے۔ کوئی کمی یا زیادتی ہو تو اس کے لیے بھی تدبیر کرتا ہے۔ جڑ بنیاد میں اس حد تک جاتا ہے کہ موروثی بنیاد (genes ) کی سطح پر اتر کر اس کی تحقیق اور اس کی انجینیرنگ کرتا ہے۔

ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ اہلِ مغرب کی ملکیت ہے یا دور جدید کا عطیہ ہے یا غیرمسلموں کی میراث ہے۔ یہ جرمنی اور چین سے شروع نہیں ہوا، اور نہ یہ صرف ایک دو صدی پرانا ہے۔ اس علم کو ترقی دینے والے یہ لوگ ہیں، جن سے مغربی دنیا نے استفادہ کیا ہے:انسانی جسم کی ساخت بیان کرنے والے:عبدالملک اصمعی(۸ویں صدی) اور علی بن ربان طَبَری (۹ویں صدی)۔ دورانِ خون، نظامِ تنفس بیان کرنے والے : ابن النفیس(۱۳ویں صدی)۔ ماہرچشم: ابن الھیثم (۱۰ویں صدی) اور علی ابن عیسیٰ۔ ماہر طب : بو علی سینا (۱۰ویں صدی، کتاب القانون فی الطب)، ابنِ رشد (۱۲ویں صدی، کتاب کلیات فی الطب)، فارابی (۱۰ویں صدی)،ابنِ زھر (۱۲ویں صدی)۔ ماہرِ ادویات : ابن البیطار (۱۳ویں صدی)۔ ماہرِ جراحت: ابو القاسم الزھراوی (۹ویں صدی)۔

براہِ کرم اس علم کو اسلام اور غیر اسلام کے موازنے کی نذر نہ کریں،نہ اس کو مشرق اور مغرب کے تقابل کا عنوان بنائیں۔ دنیا بھر کے سیکڑوں مسلمان ڈاکٹر اس نظام کا حصہ بھی ہیں اور اس کو پرکھتے بھی ہیں۔ اس میں کوئی غیر اسلامی عنصر ہوا تو ان شاء اللہ وہ امت کو خبردار کریں گے اور اس سے بچاؤ کی راہیں بھی نکالیں گے۔

تشخیص اور اس کے تقاضے

اس میں تشخیص سرسری یا کسی ایک چیز پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ تشخیص کا پورا نظام ہے۔ جس میں جزئیات کے ساتھ مریض کی علامات کی تفصیل ، معائنہ اور لیبارٹری ٹسٹ شامل ہیں۔

یہ بھی غلط فہمی ہے کہ اس میں دواؤں کو مضر اثرات کا خیال کیے بغیر دیا جاتا ہے یا دوائیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ ان کے مضر اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ ہر طریق علاج کی دواؤں کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔میڈیسن میں دواؤں کے مضر اثرات اور باہمی تعامل (interactions)  تفصیل سے پڑھائے جاتے ہیں اور ہر دوا کے ڈبے کے ساتھ لکھے بھی جاتے ہیں۔  ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر دوا کے مضر اثرات دیکھتے ہوئے ، فائدہ اور نقصان کی میزان پر پرکھ کر، اور مریض کو ضروری معلومات دے کر دوا دیں۔ پھر اس میں تحقیق، تجربات اور مشاہدات کا پورا نظام ہے اور اس سے گزر کر ہی کسی علاج کو عالمی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا علم یہ احاطہ کرتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایک خلیے اور اس کے مالیکیولز کی سطح پر کیا کرے گی اور ایک عضو اور پورے جسم پر مجموعی طور پر کیا اثر کرے گی؟

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ پچھلے علوم اور فنون میں سے مفید چیزوں کو برقرار رکھتا ہے لیکن ان پر تکیہ نہیں کرتا اور اس کی آگے بڑھنے کی رفتار بہت تیز ہے۔ مشاہدات، تجربات، ایجادات، اور ان کے ساتھ اس کا علم شاخ در شاخ تقسیم ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہرمیدان میں طبّی علم کو تخصص تک لے جاتا اور کُل علم کے ساتھ مربوط رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

تحقیقی مطالعے کی روایت

 میڈیکل میں کوئی دوا یا علاج کب منظور ہوتا ہے؟ اس کے لیے تحقیقی مطالعہ ایک طریقے کے تحت ہوتا ہے۔ دو گروپ بنائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ایک چیز استعمال کرائی جاتی ہے اور دوسرے کو نہیں کرائی جاتی، مثلاً کوئی بھی دوایا جڑی بوٹی ۔ پھر دیکھا جاتا ہے کہ دونوں گروپس کے نتائج میں کیا اور کتنا فرق ہے؟ اس کو ’اتفاقی نظم کے تحت تجربہ‘ کہتے ہیں۔

دوسرے طریقے میں کچھ لوگ خود سے کوئی چیز مثلاً کوئی خاص غذا استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ استعمال نہیں کرتے ۔ اسے ’گروہی مطالعہ‘ کہا جاتا ہے۔

تیسرے طریقے میں جو لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں، ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان میں سے کتنوں نے وہ چیز استعمال کی تھی اور کتنوں نے نہیں کی تھی؟ اور جو لوگ صحت یاب نہیں ہوسکے یا جن میں پیچیدگی ہوگئی ، ان میں سے بھی کتنوں نے وہ چیز استعمال کی تھی اور کتنوں نے نہیں کی تھی؟

 ہر مرحلے پر اتفاقات اور غلطی کو بھی دُور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں یہ کام ہوتا ہے۔ یہ مطالعے یا اسٹڈیز تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتی ہیں اور جب کسی چیز کے:۱- مفید ہونے یا۲- مضر ہونے یا ۳-کوئی بھی کردار نہ ہونے پر کئی تحقیقاتی مطالعے ہوجاتے ہیں تو ان سب مطالعوں کا مجموعی تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ عالمی طور پر اس چیز کو قبول کیا جائے یا نہیں؟ جہاں دو راے کی گنجایش ہوتی ہے، اس کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس نظام میں اس دلیل کا وزن بہت کم ہوتا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی راے یا تجربہ یا مشاہدہ ہے۔ درحقیقت طبی ماہرین کے مجموعی مشاہدات، تجربات اورنتائج سے تقریباً ہر بیماری اور علامت کے لیے اصول، نتائج اور ادویات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

دواؤں کے اثرات کے متعلق کوئی نتیجہ، اسی تحقیقی نظام سے گزرکر نکالا جاتا ہے۔موجودہ کووڈ۱۹ کی وبا میں کچھ علاج جیسے Remdesivir (وائرس کو مارنے والی دوا)، Tocilizumab (وائرس کے اثرات روکنے والی دوا)، plasma antibodies کو عالمی سطح پر اسی لیے تجویز نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اگرچہ ان کے کچھ ہی اچھے نتائج ملے ہیں لیکن ان پر کی جانے والے تحقیقاتی مطالعے یا تو ناکافی ہیں یا ان کے حق میں نتائج کا وزن اتنا زیادہ نہیں،یا ان کے دوسرے گروپ سے موازنے میں زیادہ وزن سامنے نہیں آسکا۔ اسی لیے کافی تحقیق اور نتائج مرتب ہونے سے پہلے ڈاکٹروں کا انھیں استعمال کرنا غلط ہے۔ اُمت مسلمہ کو دلیل، شہادت اور اس بنیاد پر چیزوں کو قبول کرنے کا ورثہ ملا ہے۔ مسلم اطباء کو اسی نوعیت پر کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔

علاج معالجہ اور انسانی رویے

میڈیسن میں تحقیقی نظام کے مقابلے میں یہ رویہ دیکھیں:

۱- ایک بات مشہور ہوگئی کہ پپیتے کے پتوں سے پلیٹ لیٹس بڑھتے ہیں (جس کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ نہیں آئی کہ دونوں لفظ ’پ‘ سے شروع ہوتے ہیں)۔ نہ یہ معلوم ہوا کہ یہ کہنا کس نے شروع کیا؟ کس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ پتے استعمال کرکے دیکھے؟ نہ اس پر تحقیق ہوئی کہ جنھوں نے استعمال کیے ان میں اور جنھوں نے نہیں کیے ان میں کیا فرق رہا؟ درحقیقت ڈینگی بخار میں وائرس کی وجہ سے بخار ختم ہونے کے بعد پلیٹ لیٹس خود ہی جسم کے نظام کے تحت بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی اور پیچیدگی شروع نہ ہوگئی ہو تو سب مریضوں کے پلیٹ لیٹس بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ایسی بے سروپا باتوں کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔

۲- کچھ غذائی اجزا کے متعلق کہا جانے لگتا ہے کہ وہ کسی مخصوص بیماری کا علاج ہیں۔ بلاشبہہ وہ بہت مفید ہوں گی، مثلاً ادرک ، لہسن، لیموں ، وٹامنزکی گولیاں وغیرہ۔ ان سب سے عمومی صحت اور مدافعتی نظام توبہتر ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی انفیکشن شروع ہونے کے بعد یہ ان کا علاج نہیں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اس بیماری سے متعلقہ ہدایات پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ اسی طرح ورزش، سورج کی روشنی آپ کے لائف اسٹائل کا حصہ ہوں یا آپ ابھی اس کو اپنانے کا فیصلہ کرلیں، تو یہ مختلف بیماریوں سے بچنے میں ایک مددگار عنصر ہوسکتی ہے، لیکن ایک شدید تر بیماری کی موجودگی میں ورزش کرنےاور سویرے سویرے بھاگ دوڑ کرنے سے علاج نہیں ہوگا، اور کوئی ان پر انحصار بھی نہیں کرے گا۔

اس کے علاوہ جو چیزیں ویسے بھی ہمارے کھانوں کا عمومی حصہ ہیں اور ہر کھانے میں استعمال ہورہی ہوتی ہیں، ان کو بار بار علاج کے طور پر پیش کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اسی طرح کبھی خواہ مخواہ کے پرہیز بتائے جاتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے پرہیزوں کی ہوتی ہے کہ ان سے فائدے کے شواہد موجود نہیں ہوتے، موہوم سا گمان ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس کے بعد فائدہ ہوا ہوگا اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کو فائدہ نہیں بھی ہوا ہوگا۔ اس لیے تحقیق اور تجربے کے بعد کوئی بات کہنا چاہیے۔

واضح رہے کہ تحقیق کے بعد اگر ثابت ہوچکا ہو کہ کسی بیماری کی وجہ ہی کچھ غذائی اجزا کی کمی ہے۔ اس میں ان اجزا کے سپلیمنٹ، ڈاکٹر خود ہی ان غذاؤں کے نام بتادیتے ہیں مثلاً خون کی کمی ہے، آئرن کی کمی ہے، یا وٹامن ڈی اور وٹامن سی کی کمی ہے تو انھیں دُور کرنے کے لیے غذا بتائی جاتی ہے ۔ اگر کسی بیماری کا کسی غذائی جز سے بڑھنا سامنے آرہا ہو تو اس کا پرہیز بتایا جاتا ہے۔

۳- کچھ جڑی بوٹیوں کے متعلق یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بیماری کا علاج ہیں۔ ان کے متعلق یہ بات اگر اوپر بیان کردہ تحقیقی نظام کے بعد کہی گئی ہے تو ٹھیک ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کسی کی راے تھی اور لوگوں نے سن کر بطور علاج شروع کردیا اور بیماری کے بعد صحت کے عمومی نظام کے تحت جو مریض ٹھیک ہوگئے ، انھیں دلیل کے طور پر پیش کیا تو یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔

میڈیسن کے نظام میں ہر چیز پر تجربے کیے جاتے ہیں۔جڑی بوٹیاں شروع سے ان کا اہم حصہ ہیں اور ان پر بھی اسی طرح تجربات کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفید پائی جاتی ہیں تو دوائیں ان سے بھی بنتی ہیں۔ ان میں دل کی دوائیں بھی ہیں، جلد پر لگانے کی، درد ، ملیریا، دمہ ،کینسر ، کولسٹرول کم کرنے کی ، دماغی امراض کی اور انٹی بایوٹک بھی۔

۴- اسی طرح دوسرے طریق علاج ہیں۔تعصب کسی چیز سے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تحقیق کے بغیر کسی چیز کو علم کے طور پہ پیش نہیں کرنا چاہیے، اور تجربات کے بعد کوئی چیز مفید پائی گئی ہو تو اس کو قبول کرلینا چاہیے۔

یہ رویوں کا نام ہے، جو کسی میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ عام فرد بھی اگر مستند ڈاکٹر سے پوچھ کر کام کرتا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کردیتا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر بھی انھی سنی سنائی چیزوں کو آگے بڑھاتا رہے جو درج بالا سطور میں درج کی گئیں تو اس کا رویہ ’علم‘ کا رویہ نہیں۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ میڈیسن کے مختلف اصل ماخذِ علم تک رسائی رکھے اور وہاں سے دلیل کی بنیاد پر علم حاصل کرے۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو کم ازکم سنی سنائی بات آگے کسی سے نہ کہے۔

ضمناً ایک بات جو کہ طریقِ علاج تو نہیں لیکن علاج سے ہی متعلق ہے۔ موجودہ عالمی وبا کے دوران شروع میں بلاتحقیق، یہ باتیں پھیلیں کہ کورونا ڈراما ہے، ہسپتال خالی پڑے ہیں، قبرستان میں مردے کم آرہے ہیں۔ پھر شاید انھی لوگوں نے یہ باتیں شروع کردیں کہ ڈاکٹر زہر کا انجکشن لگارہے ہیں، ڈاکٹر کورونا کا انجکشن لگارہے ہیں، ٹسٹنگ کٹ کے ذریعے کورونا پھیل رہا ہے، ٹسٹ کو خواہ مخواہ مثبت کردیتے ہیں، ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر کورونا لکھنے کے پیسے ملتے ہیں، خالی تابوت دے کر کہتے ہیں کہ اس میں آپ کے مریض کی میت ہے۔ اصل لاشیں تو دوسرے ملکوں کو بیچ رہے ہیں۔

کوئی بات جس پر یقین کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ تو ہوسکتی ہے کہ کسی مریض نے آکر بتایا کہ ہسپتال میں خیال رکھنے میں کسی قسم کی کوتاہی ہوئی، یا ہسپتال والوں نے، یا دکان داروں نے بہت زیادہ نرخ رکھے ہیں۔ لیکن اوپر جو باتیں درج کی گئیں، ان کو شروع کرنے والوں اور پھر آگے پہنچانے والوں کو قرآن و حدیث کے وہ احکام یاد رکھنا چاہییں جو بہتان لگانے، کوئی بات سن کر بلاتحقیق آگے بڑھانے کے متعلق ہیں۔ اور وہ نقصان الگ ہے جو اس صورت میں ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کو طبی امداد سے فائدہ ہوسکتا تھا، وہ بھی ان باتوں پہ یقین کرکے یا تو جان سے گزر گئے یا زیادہ متاثر ہوئے۔