’احسان‘ حُسن سے بنا ہے جس کے معنی اچھائی کے ہیں: ۱- یہ اچھائی ظاہری بھی ہوسکتی ہے، یعنی خوب صورتی۔۲-یہ اچھائی معنوی یا روح کے لحاظ سے ہوسکتی ہے، مثلاً کوئی اچھا کام یا نیکی۔ ۳- یہ عمومی اچھائی بھی ہوسکتی ہے جوعقل کے معیار پر پوری اترتی ہو یا دل کو بھلی لگتی ہو۔ ایک تعریف کے لحاظ سے حواسِ ظاہر ی(بصارت، سماعت، شامہ، ذائقہ) یا حواسِ باطنی (بصیرت یا عقل) اس کے اچھے ہونے کا فیصلہ دیں۔
اس طرح خوب صورت انسان، خوب صورت مناظر، علمی نکات و لطائف، خوش ذائقہ چیزیں، دلآویز خوشبوئیں،ان سب میں حُسن پایا جاتا ہے۔
حسن سےبنائے گئے کچھ الفاظ یہ ہیں: • جس چیز میں حُسن یا اچھائی پائی جائے ، وہ حسَن (مذکر) ہے ، یا حسَنَۃ اور حسنات (مؤنث) ہیں۔انسان کے لیے حسنۃ ہر وہ نعمت ہے جس کا اثر انسان اپنے نفس، بدن اور احوال میں محسوس کرسکے۔ حسنۃ کی ضد سیئۃ ہے۔
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۔۔۔(الرعد۱۳:۶) یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچارہے ہیں۔
• جس میں سب سے زیادہ اچھائی پائی جائے ،وہ احسن(مذکر ) اور حسنیٰ (مونث) ہیں۔
کسی کے ساتھ اچھائی کرنے کو احسان (باب اِفعال) کہتے ہیں۔ یہ اچھائی کرنے والے محسن اور محسنون (مذکر)، محسِنۃ اور محسِنات (مؤنث) ہیں۔اور احسان کی ضد اِساءۃ ہے۔
احسان کے مفہوم میں عمومی اچھا عمل یا نیکی بھی شامل ہے، لیکن اس سے خصوصی مراد بہت حسن کے ساتھ کیا گیا عمل ہوتا ہے۔
سیّد مودودی کے بقول: ’’احسان دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے ساتھ قلبی لگائو، اس کی گہری محبت، اُس سچی وفاداری اور فدویت و جانثاری کا نام ہے جو مسلمانوں کو فنا فی الاسلام کردے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے، اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اُبھارے‘‘۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
خالق کے احسان،نعمتوں کی شکل میں بے انتہا ہیں جن کو ہم شمار بھی نہیں سکتے:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ (النحل۱۶:۱۸) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔
وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ۰ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا(ابراہیم ۱۴:۳۴) جس نے وہ سب کچھ تمھیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔
ان احسانات کے لیے قرآن میں نعم، منّ اور اٰلاء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس زمین کی ساری موجودات کے لیے،جن میں ہم بھی شامل ہیں، خالق کا سب سے پہلا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا،اور ان سب موجودات کے بیچ جانداروں کے گروہ سے ہمارا تعلق بنایا۔ ہر جاندار کی طرح ہمیں زندگی یا روح عطا کی۔ جسمانی حصے اور ایک ایک عضو بنایا اور متناسب بنایا۔ ایٹمز اور مالیکیولز کو ملا کر خلیات، اور انھیں ملا کر جسم کے مختلف نظام بنائے جو ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں اور مربوط بھی۔انسانی ساخت (Anatomy) کے علاوہ جسمانی افعال (Physiology)کی بھی حیران کن، مربوط اور متنوع چیزیں دیں۔حواس ِ خمسہ، چال، آواز کا نظام voluntary حرکات involuntary حرکات جو جسم میں متعدد جگہوں پر جاری رہتی ہیں۔نیند کی شکل میں آرام اور نئے سرے سے تازگی کا، برسوں چلنے والا نظام دیا۔ پھر جسم کو ایک نعمت جوانی کی شکل میں دی، اور اس کے ساتھ حسن دیا اور صحت دی۔
اس ربّ نے دنیا کی سب چیزوں کی پرورش کے لیے نظام بنایا ہے۔آسمان اور اس کے ساتھ سورج جسے حرارت اور روشنی کا منبع بنایا ہے۔ چاند، ستارے اور اجرامِ فلکی کی لامتناہی دنیا بنائی ہے۔ زمین اور اس پر موجود چیزوں کے ساتھ ان کا تعلق قائم کیا، جو مناسب فاصلوں، گردشوں اور اپنے دائروں میں تیرنے کے باعث دن رات بناتا ہے، موسموں کو بدلتا ہے، ہوا اور اس کی گیسوں، پانی اور بادل اور بارش اور آبی ذخائر کو منظم کرتا ہے۔ زمین پر پہاڑ ، آگ اور عناصر کے ذخیروں اور گردش کو منضبط کیا۔اس نے جانوروں اور نباتات کی ایک ایک جنس اور ان کے آپس کے ایکوسسٹم کی تنظیم کررکھی ہے۔یہ اس دنیا کی ہر جان دار و بے جان چیز کی پرورش کا بھی انتظام ہے اور ساتھ ہی ایک کامل نظام کا وجود بھی جس میں کوئی تفاوت یا فتور نہیں۔اس نے اس کائنات کو حُسن دیا، آہنگ ورنگ و بو دیئے، انسانوں کی شکل اور زبانوں کاتنوع دیا۔ہر چیز زوج، جوڑے کی صورت میں پیدا کی جو اپنا مقصدپورا کررہی ہے۔
اس نے انسان کی پرورش کے بے شمار انتظامات کیے:جسمانی نشو و نما کے لیے غذا دی جس میں محض غذائیت نہیں، افراط، لذت اور تنوع بھی ہے۔غلے کے ایک ایک دانے کی تشکیل کےلیے کائنات کے متعدد عوامل کو لگایا۔لباس اور گھر کا تنوع کے ساتھ انتظام کیا۔ جسمانی آرائش کے ، سفر کے، لذت کے اور کاموں میں سہولت کے سامان دیئے۔
علم الامراض (Pathology) حاصل کرتے ہوئے ہزاروں امراض کا علم ہوتا ہے جو کہ ہوسکتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے بچایا ہوا ہے ، یہ بھی اس کا احسان ہے۔اگر کوئی بیماری ہوتی ہے تو اس نے بیماری کے ساتھ ان کی علامتیں رکھ دیں، مثلاً بخار، درد یا حسی نظام کے ذریعے، کہ ان کو پرکھ کر بیماری کی تشخیص کرلی جائے۔ اس نے بیماریوں کے علاج بھی اسی دنیا میں رکھ دیئے ہیں۔اور وہی ہے جو جسمانی تکلیف کو دُور کرتا ہے اور بیماریوں سے شفاء دیتا ہے۔وہ آفات سے بچاتا اور حفاظت کرتا ہے اور انھیں دور بھی کرتا ہے۔ عافیت اور سلامتی اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جس نے موت بھی تخلیق کی ہے ۔ موت نہ ہو اور کئی سو سالہ زندگی ،موجودہ انسانی جسم کے ساتھ ہو تو اس کا کرب ایک، سو سالہ موجودہ انسان محسوس کرسکتا ہے۔یہ موت ایسے بھی ایک نعمت ہے کہ صبحِ دوامِ زندگی ہے۔
انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص احسان یہ ہے کہ اسےاحسنِ تقویم پر پیدا کیا اور اپنی روح پھونکی ،اسےتعدیل اورتسویہ (توازن، مناسبت) کے ساتھ خلق کیا۔ اسے اشرف المخلوقات بنایا اور تکریم دی (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔اسے غیر معمولی عقل اور ذہنی صلاحیتیں دیں جن میں مشاہدہ، حافظہ، حساب،پیش بینی، استدلال، تجزیہ، استنباط شامل ہیں۔ اس کے لیے لامتناہی علم کا دروازہ کھولا، جو اسے معرفت اور حکمت تک لے جاتا ہے۔اور اس علم اور عقل کے استعمال کے ساتھ اسے بیان سکھایا(الرحمٰن۵۵:۴) جس میں مختلف زبانیں، قوت ناطقہ، فصاحت و بلاغت، لہجے اور اسالیب ِبیان شامل ہیں۔تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کو آسان کیا اور انھیں سنبھلنے کی مہلت دی۔
انسان کو ایک نعمت ذہنی سکون کی شکل میں بھی ملتی ہے۔انسان کا مالک اسےغم اور خوف سے نجات دیتا ہے۔ ذہنی آسودگی کے اسباب میں اسے محبتیں، رشتے اورتعلقات دیئے ہیں۔دلوں میں رحم کے ذریعے آپس میں رحم کو پھیلایا ہے۔انسان کوجو عزّت ملتی ہے، آزادی کی ہوا میں سانس لیتا ہے ، دنیا میں پھیلی ہوئی خوب صورتی سے محظوظ ہوتا ہے، چھوٹی بڑی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، دیگر خوشیاں ملتی ہیں،کبھی سکینت کی کیفیت ہوتی ہے___سب اس الوھاب کے احسانات ہیں۔ وہ امتحان کے تقاضوں کے تحت غم اور مشکل بھی دیتا ہے، لیکن اس نے غموں کے بعد راحت، اور مشکل (عسر) کے ساتھ آسانی(یسر) رکھ دیئے ہیں۔
انسان کو بحیثیت فرد کے علاوہ بحیثیت نوعِ انسانی اجتماعی نعمتیں بھی دی ہیں، مثلاً تسخیرِ وسائل، تمدنی ترقی و ایجادات، سفر کے ذرائع، کام کے لیے اوزار و آلات و مشینیں، انسانی وسائل کا تخصص کے ساتھ استعمال۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عاد اور ثمود کو ایسی ہی اٰلاء یاد دلائی ہیں۔ بستیوں کی خوش حالی اور امن، وہ بھی نعمتیں ہیں۔جن لوگوں کو اللہ کی طرف سے برکت، فضل اور غناء ملی ہیں ، وہ بھی بیش بہا نعمتیں ہیں۔ ان عطا کردہ نعمتوں میں براہِ راست نعمتیں بھی ہیں اور ان کے پیچھے بالواسطہ نعمتیں بھی بے شمار ہیں۔ ان میں وہ نعمتیں بھی ہیں، جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ نعمتیں بھی جن کا ہمیں علم نہیں۔
•انسانوں کے زمرے میں مومنین پر اس کا خاص احسان یہ ہے کہ انھیں ہدایت دے کر جنت کا راستہ آسان کردیا ہے۔مومنوں کو نفس مطمئنہ کی دولت دی ہے۔ ان کے لیے دعاؤں کا دروازہ کھولا ہے، ان کے استغفار و توبہ کو قبول کیا جاتا ہے، ان کی نیکیوں کو قدر وقبولیت بخش کر ان میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ آخرت میں ان کے لیے جنت سجائی گئی ہے جوان کے اعمال نہیں بلکہ رحمٰن کی رحمت کا کمال ہے۔وہاں کی نعمتوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور وہاں انسان اس جسم کے ساتھ ہوگا جو ابدی جوانی کے ساتھ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا۔
اُمتِ مسلمہ کے لیے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، جو رحمۃ للعالمینؐ ہیں، اور اس کو اپنا احسان کہا: لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (ال عمرٰن ۳: ۱۶۴)۔ ان کے ساتھ ایک مکمل کتاب دی جو محفوظ کردی گئی ہے،اس امت کوکم وقت میں زیادہ کام کے اجر کی بشارت دی گئی ہے،اور اس کو پچھلی قوموں کی طرح کے عذاب سے بچایا گیا ہے۔
ان میں سے بھی جن لوگوں کو ایمان اور عمل کا زیادہ شعور ملا، اچھی صحبت اور ماحول مل گیا، کوئی صالح اجتماعیت مل گئی ،تو یہ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص احسانات ہیں۔
آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کی قدر، حفاظت اور تشکر کا احساس ہروقت ذہنوں پر غالب رہنا چاہیے۔کسی خطے میں یا کسی کے خاندان اور گھرانے پر، اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص احسان ہو تو اس کی قدر بھی ہونا چاہیے۔کسی جگہ یا کسی بھی دائرے میں تھوڑا سا بھی اقتدار ایک نعمت ہے۔
حضرت یوسفؑ نے اپنے اوپر اللہ کےاحسانات کا ذکر کیا:
اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۰ۭ (یوسف۱۲:۲۳) میرے ربّ نے تو مجھے( احسن) منزلت بخشی۔
وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ (یوسف۱۲:۱۰۰) اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا۔
قرآن میں مذکورحضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمانؑکی دعائیں بھی اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اقرار ہیں(ابراہیم۱۴: ۳۹، النمل۲۷: ۱۵)
• طب کا علم رکھنے والوں کو اس علم کی، اللہ کی طرف سے ایک نعمت کے طور پہ بھی قدر کرناچاہیے:
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۱۶ (الرحمٰن۵۵:۱۶) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
لَا بِشَیءٍ مِّنْ نِّعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ، اے ہمارے رب! ہم آپ کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔
اور یہ سب نعمتیں امانتیں بھی ہیں اور ذمہ داریاں اور امتحان کے پرچے بھی۔
انکارِ نعمت یا کفرانِ نعمت: نعمت کو نعمت نہ سمجھنا، مثلاً ہدایت ِ الٰہی یا قرآن کو بے فائدہ سمجھنا یا تحقیرکرنا یا بے نیازی کا رویہ رکھنا۔ یہ انکارِ نعمت یا کفرانِ نعمت ہے۔
نعمت کااحساس نہ ہونا: نعمت کو کسی منعم کی عطا نہ سمجھنا یا کسی کو خالق نہ سمجھنا اور سب چیزوں کو اتفاقی حادثہ سمجھنا۔
منعم کے ساتھ دوسروں کوشریک کرنا:یہ سمجھنا کہ جو کچھ ملا ہے وہ ہماری اپنی محنت سے یا عقل سے ملا ہے،یا یہ زعم رکھنا کہ ہم اس کے مستحق تھے اور ہمیں تو یہ سب ملنا ہی چاہیے تھا۔ وجود سے لے کرہرچھوٹی بڑی چیز کو منعم کی عطا مان لینا لیکن اطاعت کا حق تسلیم نہ کرنا، •یا اطاعت کا حق ماننا، لیکن عملاً اطاعت نہ کرنا اور نافرمانی اور سرکشی کی روش رکھنا۔
اعترافِ احسان اور شکر یہ ہے کہ:جس کی نعمتوں کا شمار نہیں، اس منعِم کا حق ہے کہ اس کو ہروقت یا د رکھیں اور کسی ساعت اس سے غفلت نہ ہو۔ان نعمتوں کا احساس رکھیں اورحمد، یعنی صرف اللہ کی تعریف اور شکر کرتے رہیں۔
•نعمتوں کے تقاضے اور ذمہ داریاں پورا کرتے رہیں، وہ قلبی ہوں، قولی ہوں یا عملی۔ یہ تقاضے نعمتوں کی اقسام کے لحاظ سے ہوسکتے ہیں، مثلاً: نعمتوں کو صحیح جگہ استعمال کریں۔ جسمانی قویٰ، صلاحیتوں، وقت، مادی چیزوں، ذہن و فکر کو اللہ کے راستے میں ہی استعمال کریں۔ اُن کا ضیاع نہ کریں، مثلاً پانی کے ذخیروں کے پاس بھی احتیاط کریں۔ کھانا، بجلی،گیس کے استعمال میں ضیاع سے بچیں۔
اجتماعی نعمتوں کی حفاظت کریں، مثلاًپانی، ہوا، زمین، درختوں کی حفاظت کریں۔ آلودگی سے بچنے والے اقدامات کریں۔قابلِ اشتراک نعمتیں دوسروں کو دیں، مثلاً مال،کھانا، کپڑے، علم۔
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کو ناراض کرنے سے بچیں جیسا کہ حضرت یوسفؑ اللہ کے احسان کو یادکرتے تھے اور نافرمانی سے بچتے تھے۔(یوسف۱۲:۲۳)۔شکر کا رویہ پوری زندگی میں منعمِ حقیقی کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے ظاہر کریں۔اس میں اپنا فائدہ بھی ہے (لقمان۳۱:۱۲، النمل۲۷:۴۰)، پرسشِ قیامت کی آسانی بھی ہے (التکاثر۱۰۲:۸)، اور یہی رویہ عذاب سے بچاتا ہےاور نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ (ابراہیم۱۴: ۷)
حدیث ِ جبریلؑ میں ہے: قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْاِحْسَانُ قَالَ الْاِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ (بخاری) ’’اس شخص نے پوچھا: یارسول ؐ اللہ!احسان کیا ہے؟۔ آپ ؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
اس حدیث کے مطابق احسان یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کی ذات اوروجود کا احساس اور تصور رکھا جائے۔یہ احساس اللہ تعالیٰ کے لیے دیگر قلبی کیفیات کی بنیاد ہے جیسے اللہ سے محبت، خشیت، تعظیم، تکبیر، امید، اخلاص وغیرہ۔ ہر عمل عبادت کے ساتھ احسان کی یہ کیفیت ہو تو اس عبادت کو خوب صورتی عطا کرتی ہے۔جس طرح ایک وڈیو کیمرے کی موجودگی انسان کو محتاط کردیتی ہے ، اسی پر اس احساس کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ زندگی کے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی موجودگی کے احساس کے ساتھ ادا کیے جائیں تو وہ احسان بن جاتے ہیں۔تصوف میں ’احسان‘ کی اصطلاح کا یہی مطلب ہے۔
احسان کا ایک مفہوم جو پہلے مفہوم کی تفصیل ہی ہے، وہ یہ ہےکہ احسان اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت ہے کہ جو فرماںبرداری کی انتہا تک لےجائے۔
سید مودودی اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب کے ضمن میں رقم طراز ہیں: ’’ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان___ یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبے سے پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے۔احسان دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے ساتھ اس قلبی لگاؤ، اس گہری محبت، اس سچی وفاداری اور فدویت و جاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کردے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے، اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے پر اُبھارے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں )
اگر احسان فرماں برداری کی انتہا ہے تو یہ ہر نیک کام میں ہونا چاہیے۔ لیکن احسان کےایک مفہوم کے مطابق ان سب کاموں میں سے چوٹی کا کام اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا کام ہے اور اس کو خصوصاً احسان کہا گیا ہے۔مندرجہ ذیل اقتباسات اس کی وضاحت کرتے ہیں:
’’ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابلِ اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جان نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں، بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔اس دھن میں وہ فرض اور مطالبہ سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑا دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پھریرا نہ اُڑے۔
’’اسلام کی اصل طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اسلام چاہتا ہے کہ دنیا میں ہو، وہ اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں ، جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے ، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظامِ کفر کے تسلط سے نہ صرف انسانی سوسائٹی میں اخلاقی وتمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود اُمتِ مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو، اور یہ سب دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کوبدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے ، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں، ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے؟
’’آپ دنیوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہوجائے یا ملک کے کسی حصے پر دشمن کا قبضہ ہوجائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلط کو جو لوگ جائز تسلیم کرلیں یا ان کے تسلط پر راضی ہوجائیں اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کرلیں ، یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصلی اقتدار کی باگیں انہی کے ہاتھ میں رہیں اور کچھ ضمنی حقوق اور اختیارات انھیں بھی مل جائیں، تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی ، خواہ وہ قومی عادات و اَطوار کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔
’’ان سب ریاستوں اور قوموں کے پاس وفاداری کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے دشمن کے تسلط کی مزاحمت کس حد تک کی، اس کو مٹانے کے لیے کیا کام کیا اور اس اقتدار کو واپس لانے کی کیا کوشش کی جس کی وفاداری کا وہ مدعی تھا۔ پھر کیا معاذ اللہ خدا کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو پہچاننے کی اتنی تمیز بھی نہیں رکھتا جتنی دنیا کے ان کم عقل انسانوں میں پائی جاتی ہے؟‘‘…(تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
احسان کے اس مفہوم کو ہم ایسے بیان کرسکتے ہیں :اللہ کے دین کے غلبے کے لیے ساری قابلیت اور سارے وسائل صرف کردینا، دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرنا۔یہ مفہوم درج ذیل آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے:
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ۶۹ (العنکبوت ۲۹:۶۹) جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔
جنھوں نے اللہ کی راہ میں قتال کیا، مصیتیں اٹھائیں، ان کے متعلق کہا گیا:
فَاٰتٰىھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۱۴۸ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۸) آخرکار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ(محسنین) پسند ہیں۔
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۰ۭۛ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ۱۷۲ۚ (اٰل عمرٰن۳:۱۷۲) ن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار(احسان والے) اور پرہیزگار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے۔
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۰ۚۖۛ وَاَحْسِنُوْا۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۱۹۵ (البقرۃ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیا ر کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔
سیاق وسباق کے مطابق اس جگہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔
• انبیا ؑ جن کی زندگیاں دین کی دعوت اور اس کی خاطر قربانیوں میں گزریں اور جنھیں جھٹلایا گیا، ان کا ذکر محسنین کہہ کر کیا گیا:
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۸۴ ﴿(الانعام۶:۸۴) پھر ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی (وہی راہِ راست جو) اس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی۔ اور اُسی کی نسل سے ہم نے داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسٰی اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی)۔ اِس طرح ہم نیکو کاروں(محسنین) کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں۔
ان کے قصوں کے بعد بھی قرآن میں آٹھ مرتبہ کہا گیاکہ ہم محسنین کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔
’ظن‘ کا مطلب ہے گمان، خیال،قیاس (Assumption, Conjecture, Supposition) ’علم‘ اور ’ظن‘ میں بہت نمایاں فرق ہے۔یہی فرق انسانی رویوں اور زندگی گزارنے کے انداز میں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔
راہ سے ہٹنے (گمراہی) کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں: اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۱۱۶ (الانعام ۶:۱۱۶) ’’وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں‘‘۔
گمان کا مطلب علم کا فقدان ہے: مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۰ۚ (النساء ۴:۱۵۷) ’’ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے‘‘۔ اور اگر علم نہ ہو، تو صرف گمان کے بل پر حق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے: وَمَا يَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۰ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا۰ۭ (یونس ۱۰:۳۶) ’’حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں، حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا‘‘۔
اسی طرح آخرت کے متعلق محض ظن کی موجودگی اور یقین کی غیرموجودگی سے زندگی کا پورا رویہ بدل جاتا ہے: مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَۃُ۰ۙ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ۳۲ (الجاثیہ ۴۵:۳۲)’’ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے‘‘۔
یہ تو وہ امور ہیں جن پرہماری اُخروی سعادت و فلاح کا انحصار ہے۔ قرآن کے دیے ہوئے اصول عمومی اور زندگی بھر کے لیے ہیں ، جنھیں ہم مختلف معاملات پر منطبق کرسکتے ہیں۔
ظن کے بجائے علم تک ہم کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
۱-اگر وہ غیب، چھپی ہوئی چیز ہے تو قرآن ہمیں ایسا انداز عطا کرتا ہے، جس میں تصدیق کی بہت اہمیت ہے، یعنی سچ کو سچ کہنا اور اس تک پہنچنے کے لیے واضح بات یا ’تبیین‘ یا ’تفصیل‘۔ حق اور غیب کی معرفت کے لیے آیات دی گئیں، یعنی نشانیاں جو کہ قرآن کی آیات بھی ہیں، کائنات میں پھیلی اور انسان کے اپنے جسم میں پھیلی نشانیاں بھی ہیں۔ ان نشانیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا اور ان پر تدبروتفکر کی دعوت دی گئی۔ پھر رسولؐ جن کی بات پر ہم ایمان لائے ہیں، ان کی صفات سامنے لائی گئیں کہ وہ صادق ہیں اور امانت میں خیانت نہیں کرتے، اس لیے ان کی کہی ہوئی بات بالکل سچ ہے۔ پھر جو فرشتہ اس پیغام کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب تک لایا ،اس کے متعلق اطمینان دلایا گیا کہ وہ بھی امانت دار ہے۔
ایک عمومی بات سکھائی گئی کہ تمھیں علم نہیں تو اہلِ ذکر (اہل علم)سے پوچھ لو (النحل۱۶: ۴۳)۔ بات کی تحقیق کرکے واضح کرلو چاہے کوئی فاسق خبر لائے (الحجرات ۴۹:۶) یا کوئی میدان جنگ میں سلام کرے(النساء۴:۹۴)۔
۲- اگر وہ کوئی قول ہو تو اس کی صداقت کوکیسے پرکھا جائے؟ دنیا کی سب سے سچی کتاب جب مصحف کی شکل میں لکھی جانے لگی تو یہ کام حضرت زیدؓ بن ثابت کو دیا گیا، جو خود کاتب قرآن اور حافظِ قرآن تھے۔ ان کے ساتھ صحابۂ کرام ؓ کی ٹیم تھی جو کہ سب حفاظ قرآن تھے۔ سارے صحابۂ کرامؓ سے آیات جمع کی گئیں جو چھال،لکڑی،پتے، پتھر، ہڈی، کھال یا کپڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔ یہ وہ اوراق تھے جو صحابۂ کرامؓ لکھتے جاتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسجد لے کرآتے۔ ہررمضان میں ’عرضہ‘ ہوتا۔ آپؐ تلاوت کرتے جاتے اور وہ اپنے حصوں کو دیکھ کر جانچتے۔کبھی آپؐ ان سے پڑھوا کر سنتے۔ ان سب کو منگوایا گیا ۔ ہر آیت کو مصحف میں لکھنے کے لیے یہ اصول بنایا گیا کہ وہ کم ازکم دو اصحابِ رسولؐ کے پاس لکھی ہوئی ہو اور اس کی دوشہادتیں ہوں۔ اس طرح قرآن کا باقاعدہ مصحف تیار ہوا۔
کسی کے ذریعے پہنچے ہوئے قول کو کیسے پرکھیں؟ احادیثِ نبویؐ کی تدوین کی محنت اور اصول قابلِ تحسین ہیں۔ محدثین نے ایک ایک حدیث کے راویوں کی سند جوڑ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی ۔ محدثین نے ہر حدیث کی سند کے ایک ایک راوی کے حالات زندگی جمع کرلیے۔ انھوں نے یہ بھی معلومات جمع کیں کہ ہر راوی کا کردار،سچائی ،دیانت اور حافظہ کیسا تھا؟ پھر کچھ عقل کے معیارات پر حدیث کو پرکھ کر اسے درج کیا گیا۔ ان معلومات کی بنیاد پر آج بھی کوئی شخص، ہرحدیث کو پرکھ سکتا ہے اور ظن کے بجائے علم کے درجے پر پہنچ سکتا ہے۔
۳- اگر وہ کسی چیز کی افادیت کے بارے میں کوئی نظریہ ہے تو اس کوپرکھنے کے لیے تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ایک چیز استعمال کرائی جائے اور نتیجہ یہ نکالا جائے کہ یہ چیز کامیاب رہی۔ لیکن اس کا امکان ہے کہ استعمال کیے بغیر بھی نتائج ایسے ہی نکلتے۔ لہٰذا تجربے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک جیسے دو گروہ بنا کر ، ایک پر اس چیز کا انطباق کریں اور دوسرے پر نہ کریں اور پھر نتائج کا فرق دیکھیں۔ موازنہ اور مقابلہ کرنا بھی ہمیں قرآن نے سکھایا ہے جہاں الفاظ کی ضد ان کے ساتھ استعمال کی گئی ہے، مثلاً ہدایت اور گمراہی، نور اور ظلمات، اندھا اور بینا، سعادت اور شقاوت، صلاح اور فساد۔ آیات میں ’لا یستوی…‘ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہےکہ یہ دو چیزیں برابر نہیں ہیں۔ آیات میں آتا ہے : افمن کان… کمن کان…… جس کا مفہوم ہوتا ہے: ’ کیا جو ایسا ہے وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جو ایسا نہیں ہے؟‘۔
مندرجہ بالا تذکیر سے کسی بات کو صحیح سمجھ کر قبول کرنے کے لیے، یا ظن کے درجے سے اُٹھ کر علم تک آنے کے لیے، یہ اصول سامنے آتے ہیں: اگر کسی کا قول سامنے آیا ہے تو ماننے سے پہلے دیکھیں کہ کہنے والا کون ہے یا یہ قول کہاں سے شروع ہوا؟ اس کی دیانت کے ساتھ اس کا علم اور تجربہ کیسا ہے؟ بذاتِ خود وہ بات کیا ہے؟ اگر کوئی نظریہ ہے تو اس بات کا ثبوت کیا ہے؟ اس کی نشانیاں موجود ہیں اور کس درجے کی ہیں؟ اگر قابلِ تجربہ ہے تو کیا اس کو پرکھا گیا ہے؟
زندگی کے مختلف دائروں میں تجزیہ کرنا چاہیے کہ کون سے امور علوم ہیں اور کون سا رویہ محض ظن پر مبنی ہے۔ زیرِ تحریر سطور شعبۂ طب خصوصاً علاج سے متعلق ہیں۔
یہ بہت عام ہے کہ علاج یا بیماری کے سلسلے میں ایک بات مشہور ہوجاتی ہے جو کہ کسی کی ذاتی راے ہوتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کی راے یا تجربہ ہے؟ اورنہ یہ معلوم ہوتا کہ یہ کتنے لوگوں کا تجربہ ہے اور جنھوں نے استعمال نہیں کیا ان کا تجربہ کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ چیز مفید ہی ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی کردار ہی نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چیز کا کوئی بڑا نقصان ہو رہا ہو۔
بہرحال، بلا تحقیق و تجربہ کسی شے کو بطورِ علاج پیش کرنے اور قبول کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ خصوصاً دورِ جدید میں جہاں دلائل، تحقیق اور تجربہ کے شواہد کے بغیر کسی بھی طریقِ علاج کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شعبہ طب (میڈیسن) میں دواؤں کے عام اجرا سے پہلے تحقیق کا ایک انتہائی مربوط نظام رائج ہے۔اس نظام سے آگاہ کرنے سے پہلے بعض چیزوں کی وضاحت کی جارہی ہے۔
اس کو عرف عام میں ایلوپیتھی کہا جاتا ہے، مگر یہ نام اس کے نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ اس کا نام پچھلی صدی میں کسی دوسرے طریق علاج نے ایلوپیتھی رکھا تھا جس کا مطلب تھا علاج کا مختلف طریقہ ۔ اس کے اپنے حلقوں میں اسے میڈیسن کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن شاید یہ بھی اس کا صحیح نام نہیں۔ کیوںکہ میڈیسن کے علاوہ بہت کچھ اس میں شامل ہے۔ اس کے متعلق عوام الناس میں پھیلے کچھ خیالات یہ ہیں: اس کی دوائیں مصنوعی اور فطرت سے دور ہیں، اس میں صرف علامات کا علاج ہے اصل مرض کا نہیں، اس میں اصل علاج جراحت یا چیر پھاڑ کر الگ کرنا ہے، اس میں حفاظتی تدابیر اور جسم کو مضبوط بنانے پر زور نہیں۔
اس کو اندر سے پرکھنے والے جانتے ہیں کہ اس طریقِ علاج میں یہ چیزیں شامل ہیں:
lجڑی بوٹیوں پر ریسرچ اور قدرتی چیزوں سے اخذکردہ بنائی گئی دوائیںl لیبارٹری میں بنائی گئی دوائیں اور تحقیق lفزیکل میڈیسن، یعنی ورزش اور posture کے متعلق ہدایات l گرم اور سرد سکائی، بھاپ جیسی چیزیں lداغنے lسرجری یا جراحت بحیثیت آخری انتخاب جو صدیوں سے ہورہا ہے،اور جس کے بانیوں میں الزھراوی شامل ہیں۔
غذائیت کے مباحث اورغذائی اجزا کی تفصیل بھی میڈیسن کی شاخ ہے: احتیاطی تدابیر معاشرتی سطح سے شروع ہو کر فرد کی سطح تک، جزئیات کے ساتھ،علامات کا علاج ، پیچیدگیوں کو روکنا، بیماری کی جڑ ختم کرنا۔اس میں بیماری کے اسباب (etiology) کے ساتھ بیماری کے حملے سے ہوشیار رہنے کے اسباب بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ انفیکشن کے سبب جرثومے کو بھی مارتا ہے اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے بھی عمل کرتا ہے۔ کوئی کمی یا زیادتی ہو تو اس کے لیے بھی تدبیر کرتا ہے۔ جڑ بنیاد میں اس حد تک جاتا ہے کہ موروثی بنیاد (genes ) کی سطح پر اتر کر اس کی تحقیق اور اس کی انجینیرنگ کرتا ہے۔
ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ اہلِ مغرب کی ملکیت ہے یا دور جدید کا عطیہ ہے یا غیرمسلموں کی میراث ہے۔ یہ جرمنی اور چین سے شروع نہیں ہوا، اور نہ یہ صرف ایک دو صدی پرانا ہے۔ اس علم کو ترقی دینے والے یہ لوگ ہیں، جن سے مغربی دنیا نے استفادہ کیا ہے:انسانی جسم کی ساخت بیان کرنے والے:عبدالملک اصمعی(۸ویں صدی) اور علی بن ربان طَبَری (۹ویں صدی)۔ دورانِ خون، نظامِ تنفس بیان کرنے والے : ابن النفیس(۱۳ویں صدی)۔ ماہرچشم: ابن الھیثم (۱۰ویں صدی) اور علی ابن عیسیٰ۔ ماہر طب : بو علی سینا (۱۰ویں صدی، کتاب القانون فی الطب)، ابنِ رشد (۱۲ویں صدی، کتاب کلیات فی الطب)، فارابی (۱۰ویں صدی)،ابنِ زھر (۱۲ویں صدی)۔ ماہرِ ادویات : ابن البیطار (۱۳ویں صدی)۔ ماہرِ جراحت: ابو القاسم الزھراوی (۹ویں صدی)۔
براہِ کرم اس علم کو اسلام اور غیر اسلام کے موازنے کی نذر نہ کریں،نہ اس کو مشرق اور مغرب کے تقابل کا عنوان بنائیں۔ دنیا بھر کے سیکڑوں مسلمان ڈاکٹر اس نظام کا حصہ بھی ہیں اور اس کو پرکھتے بھی ہیں۔ اس میں کوئی غیر اسلامی عنصر ہوا تو ان شاء اللہ وہ امت کو خبردار کریں گے اور اس سے بچاؤ کی راہیں بھی نکالیں گے۔
اس میں تشخیص سرسری یا کسی ایک چیز پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ تشخیص کا پورا نظام ہے۔ جس میں جزئیات کے ساتھ مریض کی علامات کی تفصیل ، معائنہ اور لیبارٹری ٹسٹ شامل ہیں۔
یہ بھی غلط فہمی ہے کہ اس میں دواؤں کو مضر اثرات کا خیال کیے بغیر دیا جاتا ہے یا دوائیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ ان کے مضر اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ ہر طریق علاج کی دواؤں کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔میڈیسن میں دواؤں کے مضر اثرات اور باہمی تعامل (interactions) تفصیل سے پڑھائے جاتے ہیں اور ہر دوا کے ڈبے کے ساتھ لکھے بھی جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر دوا کے مضر اثرات دیکھتے ہوئے ، فائدہ اور نقصان کی میزان پر پرکھ کر، اور مریض کو ضروری معلومات دے کر دوا دیں۔ پھر اس میں تحقیق، تجربات اور مشاہدات کا پورا نظام ہے اور اس سے گزر کر ہی کسی علاج کو عالمی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا علم یہ احاطہ کرتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایک خلیے اور اس کے مالیکیولز کی سطح پر کیا کرے گی اور ایک عضو اور پورے جسم پر مجموعی طور پر کیا اثر کرے گی؟
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ پچھلے علوم اور فنون میں سے مفید چیزوں کو برقرار رکھتا ہے لیکن ان پر تکیہ نہیں کرتا اور اس کی آگے بڑھنے کی رفتار بہت تیز ہے۔ مشاہدات، تجربات، ایجادات، اور ان کے ساتھ اس کا علم شاخ در شاخ تقسیم ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہرمیدان میں طبّی علم کو تخصص تک لے جاتا اور کُل علم کے ساتھ مربوط رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
میڈیکل میں کوئی دوا یا علاج کب منظور ہوتا ہے؟ اس کے لیے تحقیقی مطالعہ ایک طریقے کے تحت ہوتا ہے۔ دو گروپ بنائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ایک چیز استعمال کرائی جاتی ہے اور دوسرے کو نہیں کرائی جاتی، مثلاً کوئی بھی دوایا جڑی بوٹی ۔ پھر دیکھا جاتا ہے کہ دونوں گروپس کے نتائج میں کیا اور کتنا فرق ہے؟ اس کو ’اتفاقی نظم کے تحت تجربہ‘ کہتے ہیں۔
دوسرے طریقے میں کچھ لوگ خود سے کوئی چیز مثلاً کوئی خاص غذا استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ استعمال نہیں کرتے ۔ اسے ’گروہی مطالعہ‘ کہا جاتا ہے۔
تیسرے طریقے میں جو لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں، ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان میں سے کتنوں نے وہ چیز استعمال کی تھی اور کتنوں نے نہیں کی تھی؟ اور جو لوگ صحت یاب نہیں ہوسکے یا جن میں پیچیدگی ہوگئی ، ان میں سے بھی کتنوں نے وہ چیز استعمال کی تھی اور کتنوں نے نہیں کی تھی؟
ہر مرحلے پر اتفاقات اور غلطی کو بھی دُور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں یہ کام ہوتا ہے۔ یہ مطالعے یا اسٹڈیز تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتی ہیں اور جب کسی چیز کے:۱- مفید ہونے یا۲- مضر ہونے یا ۳-کوئی بھی کردار نہ ہونے پر کئی تحقیقاتی مطالعے ہوجاتے ہیں تو ان سب مطالعوں کا مجموعی تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ عالمی طور پر اس چیز کو قبول کیا جائے یا نہیں؟ جہاں دو راے کی گنجایش ہوتی ہے، اس کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس نظام میں اس دلیل کا وزن بہت کم ہوتا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی راے یا تجربہ یا مشاہدہ ہے۔ درحقیقت طبی ماہرین کے مجموعی مشاہدات، تجربات اورنتائج سے تقریباً ہر بیماری اور علامت کے لیے اصول، نتائج اور ادویات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
دواؤں کے اثرات کے متعلق کوئی نتیجہ، اسی تحقیقی نظام سے گزرکر نکالا جاتا ہے۔موجودہ کووڈ۱۹ کی وبا میں کچھ علاج جیسے Remdesivir (وائرس کو مارنے والی دوا)، Tocilizumab (وائرس کے اثرات روکنے والی دوا)، plasma antibodies کو عالمی سطح پر اسی لیے تجویز نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اگرچہ ان کے کچھ ہی اچھے نتائج ملے ہیں لیکن ان پر کی جانے والے تحقیقاتی مطالعے یا تو ناکافی ہیں یا ان کے حق میں نتائج کا وزن اتنا زیادہ نہیں،یا ان کے دوسرے گروپ سے موازنے میں زیادہ وزن سامنے نہیں آسکا۔ اسی لیے کافی تحقیق اور نتائج مرتب ہونے سے پہلے ڈاکٹروں کا انھیں استعمال کرنا غلط ہے۔ اُمت مسلمہ کو دلیل، شہادت اور اس بنیاد پر چیزوں کو قبول کرنے کا ورثہ ملا ہے۔ مسلم اطباء کو اسی نوعیت پر کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔
میڈیسن میں تحقیقی نظام کے مقابلے میں یہ رویہ دیکھیں:
۱- ایک بات مشہور ہوگئی کہ پپیتے کے پتوں سے پلیٹ لیٹس بڑھتے ہیں (جس کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ نہیں آئی کہ دونوں لفظ ’پ‘ سے شروع ہوتے ہیں)۔ نہ یہ معلوم ہوا کہ یہ کہنا کس نے شروع کیا؟ کس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ پتے استعمال کرکے دیکھے؟ نہ اس پر تحقیق ہوئی کہ جنھوں نے استعمال کیے ان میں اور جنھوں نے نہیں کیے ان میں کیا فرق رہا؟ درحقیقت ڈینگی بخار میں وائرس کی وجہ سے بخار ختم ہونے کے بعد پلیٹ لیٹس خود ہی جسم کے نظام کے تحت بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی اور پیچیدگی شروع نہ ہوگئی ہو تو سب مریضوں کے پلیٹ لیٹس بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ایسی بے سروپا باتوں کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
۲- کچھ غذائی اجزا کے متعلق کہا جانے لگتا ہے کہ وہ کسی مخصوص بیماری کا علاج ہیں۔ بلاشبہہ وہ بہت مفید ہوں گی، مثلاً ادرک ، لہسن، لیموں ، وٹامنزکی گولیاں وغیرہ۔ ان سب سے عمومی صحت اور مدافعتی نظام توبہتر ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی انفیکشن شروع ہونے کے بعد یہ ان کا علاج نہیں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اس بیماری سے متعلقہ ہدایات پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ اسی طرح ورزش، سورج کی روشنی آپ کے لائف اسٹائل کا حصہ ہوں یا آپ ابھی اس کو اپنانے کا فیصلہ کرلیں، تو یہ مختلف بیماریوں سے بچنے میں ایک مددگار عنصر ہوسکتی ہے، لیکن ایک شدید تر بیماری کی موجودگی میں ورزش کرنےاور سویرے سویرے بھاگ دوڑ کرنے سے علاج نہیں ہوگا، اور کوئی ان پر انحصار بھی نہیں کرے گا۔
اس کے علاوہ جو چیزیں ویسے بھی ہمارے کھانوں کا عمومی حصہ ہیں اور ہر کھانے میں استعمال ہورہی ہوتی ہیں، ان کو بار بار علاج کے طور پر پیش کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اسی طرح کبھی خواہ مخواہ کے پرہیز بتائے جاتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے پرہیزوں کی ہوتی ہے کہ ان سے فائدے کے شواہد موجود نہیں ہوتے، موہوم سا گمان ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس کے بعد فائدہ ہوا ہوگا اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کو فائدہ نہیں بھی ہوا ہوگا۔ اس لیے تحقیق اور تجربے کے بعد کوئی بات کہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ تحقیق کے بعد اگر ثابت ہوچکا ہو کہ کسی بیماری کی وجہ ہی کچھ غذائی اجزا کی کمی ہے۔ اس میں ان اجزا کے سپلیمنٹ، ڈاکٹر خود ہی ان غذاؤں کے نام بتادیتے ہیں مثلاً خون کی کمی ہے، آئرن کی کمی ہے، یا وٹامن ڈی اور وٹامن سی کی کمی ہے تو انھیں دُور کرنے کے لیے غذا بتائی جاتی ہے ۔ اگر کسی بیماری کا کسی غذائی جز سے بڑھنا سامنے آرہا ہو تو اس کا پرہیز بتایا جاتا ہے۔
۳- کچھ جڑی بوٹیوں کے متعلق یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بیماری کا علاج ہیں۔ ان کے متعلق یہ بات اگر اوپر بیان کردہ تحقیقی نظام کے بعد کہی گئی ہے تو ٹھیک ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کسی کی راے تھی اور لوگوں نے سن کر بطور علاج شروع کردیا اور بیماری کے بعد صحت کے عمومی نظام کے تحت جو مریض ٹھیک ہوگئے ، انھیں دلیل کے طور پر پیش کیا تو یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔
میڈیسن کے نظام میں ہر چیز پر تجربے کیے جاتے ہیں۔جڑی بوٹیاں شروع سے ان کا اہم حصہ ہیں اور ان پر بھی اسی طرح تجربات کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفید پائی جاتی ہیں تو دوائیں ان سے بھی بنتی ہیں۔ ان میں دل کی دوائیں بھی ہیں، جلد پر لگانے کی، درد ، ملیریا، دمہ ،کینسر ، کولسٹرول کم کرنے کی ، دماغی امراض کی اور انٹی بایوٹک بھی۔
۴- اسی طرح دوسرے طریق علاج ہیں۔تعصب کسی چیز سے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تحقیق کے بغیر کسی چیز کو علم کے طور پہ پیش نہیں کرنا چاہیے، اور تجربات کے بعد کوئی چیز مفید پائی گئی ہو تو اس کو قبول کرلینا چاہیے۔
یہ رویوں کا نام ہے، جو کسی میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ عام فرد بھی اگر مستند ڈاکٹر سے پوچھ کر کام کرتا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کردیتا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر بھی انھی سنی سنائی چیزوں کو آگے بڑھاتا رہے جو درج بالا سطور میں درج کی گئیں تو اس کا رویہ ’علم‘ کا رویہ نہیں۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ میڈیسن کے مختلف اصل ماخذِ علم تک رسائی رکھے اور وہاں سے دلیل کی بنیاد پر علم حاصل کرے۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو کم ازکم سنی سنائی بات آگے کسی سے نہ کہے۔
ضمناً ایک بات جو کہ طریقِ علاج تو نہیں لیکن علاج سے ہی متعلق ہے۔ موجودہ عالمی وبا کے دوران شروع میں بلاتحقیق، یہ باتیں پھیلیں کہ کورونا ڈراما ہے، ہسپتال خالی پڑے ہیں، قبرستان میں مردے کم آرہے ہیں۔ پھر شاید انھی لوگوں نے یہ باتیں شروع کردیں کہ ڈاکٹر زہر کا انجکشن لگارہے ہیں، ڈاکٹر کورونا کا انجکشن لگارہے ہیں، ٹسٹنگ کٹ کے ذریعے کورونا پھیل رہا ہے، ٹسٹ کو خواہ مخواہ مثبت کردیتے ہیں، ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر کورونا لکھنے کے پیسے ملتے ہیں، خالی تابوت دے کر کہتے ہیں کہ اس میں آپ کے مریض کی میت ہے۔ اصل لاشیں تو دوسرے ملکوں کو بیچ رہے ہیں۔
کوئی بات جس پر یقین کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ تو ہوسکتی ہے کہ کسی مریض نے آکر بتایا کہ ہسپتال میں خیال رکھنے میں کسی قسم کی کوتاہی ہوئی، یا ہسپتال والوں نے، یا دکان داروں نے بہت زیادہ نرخ رکھے ہیں۔ لیکن اوپر جو باتیں درج کی گئیں، ان کو شروع کرنے والوں اور پھر آگے پہنچانے والوں کو قرآن و حدیث کے وہ احکام یاد رکھنا چاہییں جو بہتان لگانے، کوئی بات سن کر بلاتحقیق آگے بڑھانے کے متعلق ہیں۔ اور وہ نقصان الگ ہے جو اس صورت میں ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کو طبی امداد سے فائدہ ہوسکتا تھا، وہ بھی ان باتوں پہ یقین کرکے یا تو جان سے گزر گئے یا زیادہ متاثر ہوئے۔