بہت ہی کم مسلمان ہیں جنھیں اس میں شک ہو گا کہ مسلمانوں کو اس وقت جن اہم چیلنجوں کا سامنا ہے اُن میں سے ایک مسلم معاشروں سے سامراجی دور کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ ان اثرات کی وسعت کی شاید ہی کبھی پروا کی گئی۔ یوسف الخبّاز نے یہاں مسلم اذہان کو استعماری اثرات سے آزاد کرانے پر گفتگو کی ہے۔ یہ ایک نقطۂ نظر کے طور پر پیش ہے۔ (ادارہ)
نوآبادیت یا سامراجیت (colonialism) کو اب عام طور سے تاریخ کا وہ عہد خیال کیا جاتا ہے جب یورپی و امریکی طاقتیں اُن سرزمینوں کو زبردستی اپنے قبضے میں لے کر ان کے مادی استحصال میں مصروف تھیں جنھیں آج تیسری دنیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تیسری دنیا سے اُن قوتوں نے بے پناہ دولت حاصل کی۔ مغربی طاقتوں کے ذریعے منظم لوٹ کھسوٹ اسپین سے شروع ہوئی۔ پورے امریکی براعظم میں اسپین کی مہم جوئی کی مالی سرپرستی اس مسروقہ سونے سے ہوئی تھی جو اسلامی خلافت سے چوری کیے گئے تھے، وہی اسلامی خلافت جسے اسپین نے اندلس میں دفن کر دیا۔ اسپین کے سامراج نے جلد ہی دوسری سامراجی طاقتوں کو راستہ دے دیا اور ۱۹ویں صدی کے اختتام تک دنیا کے بیش تر علاقے یورپی اور امریکی طاقتوں کے ہاتھوں نوآبادیا لیے گئے اور پھر ان کا استحصال ہوتا رہا۔
امریکا خود ایک سابق برطانوی نوآبادی تھا جو بعد میں سامراجی قوت بن گیا۔ نوآبادیانے کے پیچھے ہمیشہ سے جو لالچ کارفرما رہا ہے، وہ واضح طور سے لوٹ کھسوٹ ہے۔ اگرچہ لالچ اور نسلی برتری کا خدشہ ہمیشہ وہاں موجود رہا اور اس کا آخری نتیجہ لوٹ کھسوٹ ہی رہا، تاہم دوسرے عوامل نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ عیسائی مشنریوں کو نوآبادیت نے غیر اہلِ کتاب تک رسائی دی جو پہلے اُن کو میسر نہیں تھی۔ اس طبقے کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا ذہن مشنریوں کے تہذیبی مشن کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے اور وہ مغربی طرز کی عیسائیت کو اپنانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔ سیاحوں کے لیے ایڈونچر جسے آج سیاحت کے نام سے جانا جاتا ہے، سامراجی مقاصد کا ایک اہم جز تھا۔
درحقیقت سامراجی طاقتوں کے مختلف اوقات میں مختلف محرکات رہے ہیں۔ یہ شاید صحیح نہیں ہو گا کہ یہ تمام محرکات نوآبادیت ہی کے پس منظر میں بیان کیے جائیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تمام مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پر یکساں نوعیت کے حامل رہے ہیں، جب کہ حقیقی ضرورت ہے کہ نوآبادیت کا اس کے زمان و مکان کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے۔ مثال کے طور پر جاپان نوآبادیاتی کھیل میں بہت دیر سے داخل ہوا اور اس میں اس کا انداز ذرا مختلف رہا (اگرچہ کسی طرح سے بھی کم ظالمانہ نہیں تھا)۔ جاپان کا مقابلہ دوسری نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ کلیدی اہمیت کا حامل ہے جسے دوسری جنگِ عظیم (۴۵۔۱۹۳۹) کا مشرقی ایشیائی تھیٹر بننا تھا۔ بیسویں صدی میں دو عظیم تباہ کن عالمی جنگوں نے حقیقتاً یورپ اور جاپان کو مسمار کر دیا تھا اور سامراجی قوتوں کو کمزور کر دیا تھا (سواے امریکا کے جو مضبوط ہوا اور اپنی سامراجی حیثیت کو ایک طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا)۔
۱۹۴۵ء کے بعد ’آزادی‘ کی تحریکوں کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ آزادی سے عام طور سے وہ وقت مراد ہے جب سامراجی طاقتوں نے نوآبادیت کو جسمانی گرفت سے آزاد کر دیا۔ بہرحال نوآبادیاتی طاقتوں نے جسمانی گرفت کی جگہ نوآبادیاتی نظام مسلط کر دیا۔ اس ضمانت کے لیے کہ سابقہ نوآبادیوں میں صحت، تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، قانون اور دیگر شعبوں میں نوآزاد شدہ لوگ کوئی ایسی پیش رفت نہ کرسکیں جو سامراجی طاقتوں کے اوّلین ہدف سے مختلف ہو، اور وہ پہلا ہدف یہ تھا کہ تیسری دنیا ہمیشہ مغربی دنیا کی محتاج اور باج گزار ہے۔ جن پالیسیوں اور طرزِ زندگی کو سامراجی طاقتوں نے تیسری دنیا میں براہِ راست مسلط کیا تھا، ان کا ایک دوسری شکل میں ان ممالک میں جاری رہنے کے عمل کوہنوز ’ذہنی غلامی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس مضمون کا عنوان Ngugi Wa Thiongo کی کتاب Declonising the Mind (ذہن کو سامراجیت کے اثرات سے پاک کرنا)سے ماخوذ ہے۔ تھیونگو کینیا کے ایک فعّال و سرگرم ماہرِتعلیم ہیں۔ انھوں نے افریقی ادبیات کے سیاق و سباق میں نوآبادیت کی شناخت کی کوشش کی ہے اور انھوں نے مقامی زبانوں اور مقامی علوم کے احیا کے لیے بھی کام کیا ہے۔ تھیونگو ردِ اثراتِ نوآبادیت کی ایک وسیع البنیاد تحریک کے ایک اہم جز ہیں، جس کی ابتدا ۵۰ کی دہائی کے اوائل میں ہوئی اور جو ۷۰ کی دہائی کے اواخر تک سرگرم رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قومی آزادی کی تحریکیں اپنے بامِ عروج پر تھیں۔ اس دور کی بہت سی اہم کتابیں اب بھی ہمارے زمانے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ الجزائر کے ماہرِ نفسیات Albert Memmi اپنی کتاب Coloniser and the colonised میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سامراجیت سامراج اور نوآبادی دونوں کو تباہ کر دیتی ہے اور انجامِ کار دونوں ہی اس سے خسارے میں رہتے ہیں۔ ایران کے جلال آلِ احمد کی شاہکار کتاب غرب زدگی (Westoxication) ان تمام کیفیات کو بیان کرتی ہے جس کا مشاہدہ آج ذہنی غلامی کی شکل میں کیا جاسکتا ہے۔ آلِ احمد ایران کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ تیسری دنیا کے لوگ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوئے جس نے انھیں مجبور کر دیا کہ وہ خود اپنی تاریخ، ثقافت، روشِ حیات اور روایات کو فراموش کر کے مغرب کے ساتھ والہانہ طریقے سے وابستہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ دوسری بہت سی تصانیف ہیں جو اس دور سے متعلق ہیں اور یہ سب اسی کیفیت کا تجزیہ کرتی ہیں جسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔ آج سے ۴۰سال قبل ان کتابوں میں جو کچھ بیان کیا گیا تھا، صورتِ حال آج اس سے مختلف نہیں ہے، بلکہ بعض پہلوئوں سے مزید ابتر ہوچکی ہے۔ (دیکھیے: Multiversity Group کی ویب سائٹ groups.msn.com/multiversity )
ذہن کو غلامی کے دور کے اثرات سے نکالنا ہر اُس شخص کے لیے اہم ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ نوآبادیت تیسری دنیا (جس میں مسلم دنیا بھی شامل ہے) کے مفاد میں کسی طرح سے بھی نہیں ہے۔ بہرحال ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھیں برطانوی، امریکی یا دیگر سامراج سے کوئی شکایت نہیں ہے، اس لیے اُن کے لیے یہ ساری بحث ناقابلِ فہم ہے۔ سامراج کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے مقامی اشرافیہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور آزادی کے بعد کے دور پر اپنی گرفت اس طرح مضبوط کی جیسے وہ مقامی لوگوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ چنانچہ یہ پورا طبقۂ اشراف سامراج کے مفادات کی حفاظت میں لگا رہا جو ماضی کی طرح اپنی سابقہ نوآبادیات میں بھی لوٹ مار مچاتا رہا۔ چونکہ مقامی طبقۂ اشراف کو بھی سامراج کی اس لوٹ کھسوٹ سے حصہ ملتا رہا، لہٰذا اُن کے لیے سامراج سے آزادی حاصل کرنے میں کوئی کشش نہیں تھی۔ لیکن آج جب ایک آدمی دنیا کے اطراف پر نظر ڈالتا ہے تو ردِ نوآبادیت کی ایک دوسری لہر کا مشاہدہ کرتا ہے جس نے مغرب کے لیے مشکل سوالات کو جنم دیا ہے، اگرچہ اس نے اپنے آپ کو ’ترقی‘ اور ’تہذیب‘ کے علَم بردار کے بہروپ میں پیش کیا ہے۔
مغرب نے حقیقتاً جو کچھ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام اختراع کیا جو تیسری دنیا پر اس کے تسلّط کو یقینی بنائے۔ نوآبادیاتی نظام نے مقامی ثقافتوں اور مقامی طرزِ زندگی، نیز مقامی علم و ہنر کو تباہ کر دیا جن میں زراعت، طب، پیداواری صلاحیت اور تعلیم سبھی شامل تھے۔ تیسری دنیا کے لوگ آج اس چیز کو چیلنج کرنے کی فکر میں ہیں جس نے ان کے دیسی نظاموں کی جگہ لے لی ہے اور خود اپنے منفرد علمی نظام کی ازسرِ نو تشکیل کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ کوئی نئی تحریک نہیں ہے۔ ردِ نوآبادیت کی تحریک دنیا میں اگرچہ آج جاری ہے لیکن اس تحریک کا آغاز بہت طویل عرصہ پہلے ہوا۔ نوآبادیت مزاحم تحریک مقامی استعداد و صلاحیت کی جانب مراجعت کی تحریک ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی چیز مکمل طور سے مقامی نہیں ہوسکتی، لہٰذا ایک وسیع تر تناظر کو بھی پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ درحقیقت جسم و ذہن کی آزادی کی ابتدا کے لیے قومی حکومتوں اور قومی آزادی کے دامِ تزویر سے اُوپر اٹھ کر سوچنا ایک یقینی راستہ ہے۔
اس کے مطابق پہلا درجہ ’اچھے غلام‘ ہونا ہے اور اچھے غلام سے مراد بغیر کوئی سوال اٹھائے زندگی گزارنا ہے اور فکر و عمل کی اسی روش پر گامزن رہنا ہے جو سامراج نے اُن کے لیے مقرر کر دی ہے۔ دوسرا درجہ ’خراب غلام‘ ہونا ہے، یعنی وہ لوگ جو نوآبادیاتی چنگل سے جسمانی آزادی تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے بیش تر معاملات میں، وہ اسی نہج پر سوچتے اور عمل کرتے ہیں جیسا کہ سامراج کے زیرِ کنٹرول سوچتے اور عمل کرتے تھے۔ وہ ٹھیک اسی سائنس، اقتصادیات، صحت اور تعلیمی نظام کا استعمال کرتے ہیں جو سامراج نے انھیں اپنے راست اقتدار کے دور میں دیا تھا۔ قومی آزادی کی بیش تر تحریکیں اسی درجے کی حامل رہی ہیں، یعنی ان کا مقصد محض کنٹرول حاصل کرنے، دیگر چیزوں سے متعلق تھوڑی شکایت کرنا لیکن حقیقتاً کسی چیز کو بہت زیادہ تبدیل نہیں کرنا تھا۔ آخری درجے کی شناخت موہاک اس طرح کرتا ہے کہ اس میں لوگوں کی حیثیت Non-Subjects (ناغلام افراد) کی ہوتی ہے جس کا مطلب مغربی فریم ورک، یعنی سامراجی اثر سے آزاد ہو کر سوچنا اور عمل کرنا ہے۔ یہ طریقِ فکر و عمل ممکن ہے مغرب کے لیے ناقابلِ فہم ہو جسے موہاک ایک مثبت بات خیال کرتا ہے۔ باقی پہلے دو امکانات مغرب کے محور کے گرد طواف کرتے ہیں، جب کہ تیسرا اور آخری امکان خود اپنے دائرے کے اندر گردش کرتا ہے۔
مغربی تعلیم، نوآبادیت زدہ ذہن کو برقرار رکھنے میں کلیدی عامل ہے اور یہ ذہن کو اس حد تک مسحور کر دیتی ہے کہ لوگ رسمی مغربی تعلیم کے بغیر اپنے وجود (انفرادی یا قومی) کو برقرار رکھنا محال تصور کرتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ’تعلیم کا مقصد کیا ہے؟‘ اس سوال کا جواب کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، مثلاً یہ کہ ’’میں کس قسم کی شخصیت کا حامل ہونا چاہتا ہوں؟‘‘ بعض لوگ امریکی یا فرانسیسی یا برطانوی ہونا پسند کرتے ہیں، چنانچہ وہ درس گاہ کے اسی نظام کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کے اس مقصد کی تکمیل کرتا ہو۔ ممکن ہے یہ تدریسی درسگاہی نظام (schooling system) ذاتی طور سے انھیں بہت فائدہ دیتا ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ بطور مقصد یہ کسی دوسرے شخص کے بھی مفاد میں ہو۔ اس کے علاوہ یہ حتمی طور سے ہٹ دھرمی پر مبنی نوآبادیت کا پُرفریب دعویٰ ہے کہ جس قسم کے تدریسی ادارے مغرب میں لوگوں کو میسر ہیں، وہ ان اداروں سے بہتر ہیں جو لوگوں کو دوسری جگہ میسر ہیں۔ تعلیم کے مقصد پر غور آدمی کو سامراجی منتر "West is best" (مغرب بہترین ہے) سے اوپر اٹھ کر سوچنے میں مدد دیتا ہے، اور یہ اکثر لوگوں کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ حقیقتاً جو کچھ ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام نے بڑے ہی منظم طریقے سے علم و ادراک کے دوسرے تمام طریقوں کو بے وقعت کر دیا تاکہ استعمار زدہ لوگوں کی نظر میں علم و معرفت کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
خبر رسانی کے بیش تر ذرائع نے بھی استعمار زدہ ذہنیت کے ساتھ زندگی گزارنے کے رجحان کو دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حقیقتاً انھوں نے عام طور پر دو کام کیے۔ ایک یہ کہ انھوں نے اس قسم کی سوچ اور ناانصافیوں کو دوام بخشا جو نوآبادیاتی نظام کے زیرِ سایہ دنیا پر حکمران رہیں۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے سامراج کی نئی شکلیں متعارف کروائیں جن کا سامراج کی اصل شکل سے تعلق بہت ہی کم ہوتا ہے لیکن مضرت رسانی میں وہ کسی بھی طرح ان سے کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر میڈیا نے صارفیت (بہت زیادہ خریدنے اور خرچ کرنے کا رجحان) کو پروان چڑھایا جو کہ نوآبادیت ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسے اقتصادی نظام کو سامنے لاتا ہے جو عالمی کارپوریشنوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ان کارپوریشنوں میں سے بیش تر کی بنیاد سابقہ نوآبادیاتی ڈھانچے پر ہے اور جو آج مختلف پہلوئوں سے استعمار زدگی کو پروان چڑھانے کے لیے بطور ایجنٹ کام کر رہی ہیں۔ لہٰذا میڈیا اور نوآبادیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج کس طرح میڈیا صارفیت اور کارپوریٹ کی قوت کو فروغ دے رہا ہے، اور یہ کہ کس طرح صارفیت بیش تر معاملات میں کارپوریشنوں کے توسط سے سابقہ نوآبادیاتی قوتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے، مزید یہ کہ میڈیا کس طرح دوسروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی محدود اور پُرفریب انداز میں ان فوائد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ان امور سے متعلق تجزیے کے بے شمار طریقے ہیں اور یہاں صرف چند ہی کا ذکر ممکن ہے۔
پہلی بات یہ کہ یہ ایک فریب ہے کہ علاقائی ’آزاد‘ نیوز میڈیا، مثلاً الجزیرہ اور العربیہ مغربی نیوز میڈیا، مثلاً بی بی سی اور سی این این سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ یہ علاقائی میڈیا بنیادی طور سے ’خراب غلام‘ (Bad Subjects) کے زمرے میں آتے ہیں جو تھوڑی بہت شکایتیں کرتے ہیں لیکن سامراجی نظام کی بنیادوں سے متعلق حقیقتاً کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ یقیناً یہ میڈیا مسخ شدہ مسلمان لاشوں کی تصاویر مغربی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ دکھاتے ہیں لیکن بالآخر یہ بھی عالَم کا مشاہدہ ٹیلی ویژن کے ذریعے ہی جاری رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بحث و گفتگو کے اسی طریقے کو منعکس کرتے ہیں جو حقیقتاً مغربی میڈیا کے مشابہ ہے۔ بعض منتخب مواد پر یہ کبھی کبھار اختلاف کرتے ہیں۔ کیا یہ نوآبادیاے جانے کا عمل نہیں ہے؟ کیا یہ اطلاعات رسانی کے دوسرے طریقوں کے امکان کو ختم کرنے کا عمل نہیں ہے؟ کیا ماس میڈیا، کمیونی کیشن کے دوسرے ذرائع کی جگہ نہیں لے رہا ہے؟
ماس میڈیا جس میں تفریح اور اشتہار شامل ہیں اس چیز کا حصہ ہیں جسے ’ذہنی ماحول‘ (mental environment) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اس حد تک کہ یہ ذہنی ماحول چند قوتوں کے ذریعے تشکیل دیا اور کنٹرول کیا جارہا ہے جو بنیادی طور سے اسی انداز میں سوچتے ہیں، یعنی دوسرے طریقوں کی قیمت پر، اور یہی نوآبادیاے جانے کا عمل ہے۔ بیش تر’آزاد‘ حکومتیں جو سابقہ تیسری دنیا پر حکمراں ہیں جن میں مسلم دنیا بھی شامل ہے، میڈیا کی پروردہ غلام سازی کی مہم میں شریک ہو کر اپنے نوجوانوں کو ذہنی غلامی سے دوچار کر رہی ہیں۔ یہ مغرب سے نشر ہونے والے تفریحی پروگراموں کی یلغار کو راستہ فراہم کرتی ہیں جو ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ذہنی ماحول کو سیلاب زدہ کر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں اتنی قدرت نہیں رکھتی ہیں کہ لذت پرستی کی اس ثقافت کو پروان چڑھنے سے روک سکیں جسے پوری دنیا میں فروغ دیا جارہا ہے بشمول شمالی افریقہ کی مسلم آبادی، مشرقِ وسطیٰ، پاکستان، ملیشیا و دیگر ممالک۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل آج گلوکاروں اور اداکاروں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے لیکن اگر انھیں کسی چیز کا علم نہیں ہے تو وہ فلسطینی مزاحمت یا عراق کے نوآبادیاے جانے کا جاری عمل ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتوں کی جانب دیکھنا خود ایک مسئلہ ہے۔ تقریباً تمام ہی حکومتیں آج نوآبادیاتی نظام کا حصہ ہیں، خواہ ’اچھے غلام‘ کی حیثیت سے یا ’خراب غلام‘ کی حیثیت سے۔ اب اگر کسی سے اُمید وابستہ ہے تو وہ ’ناغلاموں‘ سے ہے، یعنی ان لوگوں سے جن کی سوچ اور عمل نوآبادیاتی نظام، جدیدیت، عالم گیریت اور اُن تمام نظاموں کے دائرے سے باہر ہے جنھوں نے آج غیرمعمولی معاشروں کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتیں، فوج اور معیشت پر کنٹرول بھی رکھتی ہیں، اس حد تک کہ انھیں مکمل طور سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ نوآبادیاتی نظام کا کتنا سنگ دلانہ مذاق ہے کہ جوں ہی مقامی حکومتیں قدرے محدود جمہوریت کی جانب پیش رفت کرتی ہیں اور عوامی سیاسی شمولیت کی راہیں نمودار ہونے لگتی ہیں، سامراجی نظام اقتصاد اور عالم گیریت کے راستے مقامی حکومتوں کی صلاحیتوں کو مستقلاً نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی اقتصادیات کے لیے کوئی بامعنی اور آزادانہ فیصلے نہ کرسکیں۔
زبان کا بھی ذہنی غلامی میں ایک کردار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس موضوع کو چھیڑنا قدرے مشکل ہے، کیونکہ انگریزی وہ زبان ہے جو آج کے نوآبادیاتی نظام سے عمومی طور سے وابستہ ہے اور یہ بہت تیزی سے عالمی زبان بن رہی ہے اور اکثر مقامی زبانوں کی قیمت پر۔ تمام زبانیں حقیقت کو ایک مخصوص انداز میں پردۂ اِخفا (code) میں سمونے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ اس کے لیے وہ استعارہ، کنایہ اور محاوروں کا استعمال کرتی ہیں اور ساتھ میں مؤثر پیرایۂ بیان کا ایک ایسا ڈھانچا رکھتی ہیں جو مادّی مقاصد اور زندگی کے تجربات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انگریزی اس سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ پورے طور سے نوآبادیاتی اثر سے آزاد ہونے کے لیے پھر ایک آدمی کو دوسری زبان سیکھنے یا دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہو گی، یہی وہ نکتہ ہے جس کا تھیونگو نے کئی سال پیش تر ادراک کر لیا تھا۔ اس نے انگریزی میں لکھنے کا سلسلہ روک دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجاے اپنے عوام کی مقامی افریقی زبان کا استعمال شروع کیا۔ وہ کینیا میں ایسے اسکولوں کے قیام میں سرگرم ہو گیا جو مقامی زبانوں کے فروغ کا وسیلہ تھے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ کینیا کی حکومت اگرچہ اس وقت اپنے سابق استعماری آقائوں سے ’آزاد‘ ہو چکی تھی لیکن پھر بھی اس نے تھیونگو کی تحریک کو قومی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا، لہٰذا اسے ملک سے نکال دیا گیا۔
اس کے حالات سے دو نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زبان بالآخر نوآبادیاتی نظام کا کلیدی خدوخال ہے اور اس حوالے سے کام کرنے کا تہیہ کرتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مقامی حکومتیں اگرچہ وہ ’آزاد‘ ہی کیوں نہ ہوں نوآبادیت کے حقیقی انسداد سے خوف کھاتی ہیں۔ آج یہ واضح طور سے ایک افسوس ناک حقیقت ہے۔ ان ریاستوں کی حکومتیں جہاں مسلمان رہتے ہیں، امریکی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں، اس طرح کہ اسکول کے نصاب کو ازسرِنو ترتیب اور احمقانہ تفریحی پروگرام کو فروغ دے رہی ہیں، اور یہ سب کچھ اپنی مقامی زبانوں اور ثقافت کو قربان کر کے کر رہی ہیں۔ چنانچہ اظہارِ بیان کے طریقے کے معاملے میں بھی ہمارے اذہان زیرِ تسلط ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہماری سرزمینیں اغیار کے زیرِ تسلط ہیں۔
یہ وہ مسائل ہیں جن سے باخبر رہنے اور غوروفکر کے نتیجے میں حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ذہن کو استعمار زدگی سے آزاد کرنا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اس کے لیے کثیر الجہت حکمتِ عملی طے کرنے کی ضرورت ہے اور ہر کوئی اس کے لیے حسبِ استطاعت کام کرے۔ اگر حکومتیں اور دیگر بڑے ادارے اس میں مددگار ہو سکتے ہیں تو بہت خوب۔ اگر نہیں، تو پھر ہم ازخود استعمار زدگی کی روش سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ اس صورت میں ہم سے جس قدر ممکن ہو، اس استعماری روش سے نظرِ التفات پھیر لیں۔ اس ضمن میں کھانے اور لباس پر نظرثانی ردِّ نوآبادیت کی سمت آغاز کا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے مفکرین کا خیال ہے کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو لباس ہم پہنتے ہیں، وہ ہماری ذہنی، جسمانی اور روحانی کیفیت پر اثرانداز ہوتے ہیں (ایک اچھا مضمون لباس، استعمار زدگی اور روحانیت کے تعلق سے ملٹی ورسیٹی گروپ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے)۔
ذہن کو استعمار زدگی سے آزاد کرنے کا مرحلہ راتوں رات مکمل نہیں ہو گا بلکہ مسئلے کی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے پر ہی صحیح نہج پر کچھ کیا جاسکے گا۔ ہم میں تمام لوگ یا بیش تر لوگ ایسے راستوں پر سوچ رہے ہیں اور عمل کر رہے ہیں جو تباہ کن ہیں اور منطقی نہیں ہیں لیکن جس سے ایک چھوٹے سے عالمی طبقۂ اشراف کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ہمیں استعمار زدہ رہنے پر مجبور کرنے کی غرض سے ہمیں اپنی انسانیت، اپنے ماحول، اپنی روایات اور اپنے مذہب سے ترقی، تہذیب، عالم گیریت اور استعمار کے اختراع کردہ اس طرح کے دوسرے نعروں کے نام پر جدا کر دیا گیا ہے۔ یہ کنٹرول کرنے والے عالمی طبقۂ اشراف کے مفاد میں ہے کہ ہم اس مسئلے کی نوعیت کے فہم سے عاری رہیں اور اس کی وسعت کا اندازہ نہ لگا سکیں جو کچھ کہ ہمارے اور ہمارے معاشرے کے ساتھ کیا گیا ہے۔
یہ ایک تنظیم ہے جو بھارت کے صوبہ راجستھان میں یہ تحریک پوری سرگرمی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ ’معاشرے کو اسکول سے جدا کرنے کا عمل‘ Deschooling the Society، آئیوان ایلچ(Ivan Illich )کی کتاب جو کہ آن لائن بھی دستیاب ہے، بھی ایک اہم کوشش ہے، اپنی انسانیت کو لٹیروں سے واپس لینے کی سمت میں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے وسائل کو لوٹ رہے ہیں،جب کہ ہم اُن کے اسکولوں اور اداروں کے ہالوں میں بھٹک رہے ہیں (واضح رہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں Delinking education from degree کا نعرہ لگایا تھا جو آئیوان ایلچ کے خیال سے کافی مشابہ ہے۔ م ف س)۔
ایک مفید پہلو یہ ہے کہ امیر ترین آدمی ذہن اور جسم دونوں کی بیماری میں اکثر مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم میں سے باقی لوگ متبادل ادویات یا ہومیو پیتھی یا علاج کا روایتی طریقے کا استعمال عالمی کارپوریشنوں سے بے نیاز ہو کر کرسکتے ہیں۔ شاید سب سے اہم بات ان روایات اور ادویات کو دوسروں کے ناروا استعمال سے بچانا اور اس کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے تیسری دنیا میں بہت سارے دانش وروں نے بہت ہی انہماک سے مطالبہ کیا ہے جن میں سے ایک نام وندھنا شیوا (بھارت) کا لیا جاسکتا ہے۔ اس میں دل چسپی رکھنے والے قارئین Third World Network اور Consumer Association of Penang (Malaysia) سے ان سرگرمیوں کے بارے میں معلوم کرسکتے ہیں۔ دونوں ہی کے پاس پروگراموں اور کتابوں کی ایک ورائٹی ہے جو اذہان کو نوآبادیاتی چنگل سے آزاد کرانے کا مفید وسیلہ ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے حیرانی میں مبتلا ہیں کہ کہیں دنیا کا آخری وقت تو نہیں آن لگا ہے۔ دنیا کے اختتام یا قیامت کے حوالے سے متعدد گوشوں سے بے شمار پیش گوئیاں ہیں جو آج انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔ لیکن تاریخ میں لوگوں نے ہمیشہ یہی خیال کیا ہے کہ اُن کی بدتر صورتِ حال دنیا کے اختتام کی واضح علامت ہے۔ ہم صرف ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہی کو اس کا علم ہے کہ وہ آخری دن یا مہدیِ منتظر کی آمد یا دوسری بشارتوں کے پورے ہونے کا دن کب آئے گا۔ چونکہ مغربی تہذیب عراق اور فلسطین میں اپنی تمام سفّاکیت کے ساتھ بے نقاب ہو چکی ہے، کسی کے جرائم میں شرکت کے سبب یا براہِ راست اقدام کے سبب یا محض اس وجہ سے کہ عالمی اقتصادیات متزلزل ہے یا اس وجہ سے کہ امریکیوں کو سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ ایک پولیس ریاست میں المناک صورتِ حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یقینا یہ ہمارے استعمار زدہ اذہان کی علامت ہے کہ ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا مطلب ہر ایک کے لیے یا کسی کے لیے لازمی طور سے دنیا کا اختتام نہیں ہے۔ درحقیقت یہ انتہائی مناسب لمحہ ہے پریشان حال مغرب سے، اس کے اثرات کے دائرے سے اور خاص طور سے اس کے شدید مسائل سے باہر دیکھنے کا کہ، جہاں متبادل اور اُمید ہنوز ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان کی جانب دیکھیں۔ (بہ شکریہ: کریسنٹ انٹرنیشنل، کینیڈا بحوالہ معارف فیچر سروس، کراچی، ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ئ)