پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر زاہد بخاری


اسلام کے بنیادی عقائد پوری دنیا میں یکساں ہیں، تاہم ان کا عملی اظہار ہر علاقے میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ’شادی‘ اسلامی عقائد کا ایک بنیادی جزو ہے جس کا مرکزی نکتہ ’نکاح‘ ہے لیکن جنوبی ایشیا میں شادی کی تقریب مختلف رسوم ، مثلاً مہندی، مایوں اور بارات پر مشتمل ہے، اور یہ رسوم ہندو معاشرے سے اخذ کی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح چونکہ مغرب میں اسلامی تہذیب کا ارتقا ایک نئے عمل کی حیثیت رکھتا ہے، اور ان معاشروں میں اسلامی روایات ابھی پوری طرح نشوونما نہیں پا رہی ہیں، اس لیے مختلف قسم کے مسائل سامنے آرہے ہیں اور بے شمار معاملات ایسے ہیں جنھیں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ اس گفتگو میں موضوعِ بحث مغرب اور مسلمان ہیں، لیکن بحث کا غالب حصہ امریکا کے حوالے سے پیش کیا جا رہاہے۔

بحیثیتِ اقلیت

اس مسئلے کا تعلق نسبتاً ایک نئی صورت حال سے ہے، مغرب میں بسنے والے مسلمان   اپنے اپنے اسلامی ممالک سے تعلیم یا بہتر روزگار کی تلاش کے لیے اپنی مرضی سے ایک بڑے وسیع غیرمسلم معاشرے میں اقلیت کی حیثیت سے آباد ہورہے ہیں۔ آج وہاں پر مسلمان، یورپ کی آبادی کا ۳ فی صد اور امریکا کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں۔ اس ضمن میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ انھیں نہ تو وہاں پر زبردستی جانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور نہ انھیں وہاں محکومیت کا سامنا ہے۔ دوسرے یہ کہ نقل مکانی کرکے یہاں آنے والے مسلمانوں کی دوسری نسل اور مقامی مسلمانوں کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کے متعلق مغرب میں ان امور پہ مکالمہ زوروں پر ہے کہ: ان ممالک میں ایک اقلیت کی حیثیت سے کیسے گزربسر کی جائے؟ اس مخلوط تہذیبی ماحول میں کس انداز سے سماجی زندگی گزاری جائے، اور دیگر مذاہب یا مقامی لوگوں سے تعلقاتِ کار کی کیا حدود ہیں؟ یہاں کے سیاسی عمل میں کیسے شرکت کی جائے؟ ان ممالک کی افواج میں شمولیت وغیرہ

یہ اس نوعیت کے بنیادی مسائل ہیں جن کے متعلق عام لوگ، علما، مفکرین اور دانش ور، خواتین اور حضرات، بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کچھ علما اور مفکرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو بحیثیت اقلیت، اپنے قواعدوضوابط خود وضع کرلینے چاہییں۔ اس کے برعکس مغرب میں موجود بعض قابلِ ذکر علما اور مفکرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ان ممالک میں خود کو اقلیت سمجھنے کا خیال ترک کردینا چاہیے، کیونکہ اسلام کا پیغام، آفاقی ہے۔ اس لیے اگر مسلمان خود کو اقلیت سمجھتے رہیں گے تو وہ نفسیاتی طور پر ہمیشہ ایک ایسی حالت میں گرفتار رہیںگے، جہاں وہ بحیثیت مسلمان ایک تابع مہمل اور دبی دبی کیفیت کا شکار رہیںگے، اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے، اور یوں اکثریت سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ بلاشبہہ مسلمان عددی لحاظ سے اقلیت میں ہیں، لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اپنے وجود اور اپنے عمل سے معاشرے کے لیے ایک تعمیری حصہ ثابت ہوں۔ وہاں پر ان کا یہی کردار دعوتِ اسلام کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو۔

جو مسلمان، ان غیرمسلم معاشروں میں بحیثیت اقلیت زندگی گزار رہے ہیں، ان کے متعلق نظریاتی اور فکری سطح پر ایک نیا ماحول اور فضا تشکیل پارہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں پر مسلم اہلِ علم دارالحرب اور دارالاسلام پر بحث کے بجاے دارالصلح (ہم آہنگی کی سرزمین)، دارالامن (امن کی زمین)، دارالعہد (معاہدے کے تحت سکونت کی زمین) اور دارالدعوہ (وہ سرزمین جہاں تبلیغ کی جاسکے) جیسے نئے تصورات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شناخت اور پہچان کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جارہی ہیں، مثلاً مسلمانوں کو امریکی مسلمان کہنا چاہیے یا مسلم امریکی کے نام سے پکارنا چاہیے۔

مسجد کا کردار

اس تہذیبی منظرنامے کی دوسری خصوصیت ’مسجد کا کردار‘ ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی مساجد، نمازِ پنجگانہ کی ادایگی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں تو مساجد سرکاری یا ریاستی اوقاف کے زیرانتظام ہیں، بعض ممالک میں مساجد سیاسی نوعیت اختیار کرگئی ہیں اور انھیں غیرجمہوری حکومتوں، عوام کی محرومیوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کرنے کے مراکز کی حیثیت بھی حاصل ہے۔

بہرحال، مغرب، خاص طور پر امریکا میں، مسجد ایک اسلامی مرکز کی حیثیت سے ایک نیا کردار اختیار کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر جگہ اور سماجی تقاریب کے لیے جگہوں (venues) کی کمی کے باعث، مسجد، جملہ اسلامی تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بنتی جارہی ہے۔ان تقاریب میں نمازِ پنجگانہ ،مذہبی و دینی تعلیم، جداگانہ طور پر مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے باہم تبادلۂ خیال، میل جول اور نکاح کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے کے میدان، تفریحی مقامات اور نوجوانوں کے لیے عمارت کے اندر کھیلوں کے لیے جگہیں مخصوص ہیں۔ بعض اوقات ایک بڑی مسجد کے احاطے میں بنیادی طور پر ورزشی کھیلوں کے لیے ایک بڑا کمرہ اور ایک ریستوران واقع ہوتا ہے، تاکہ نوجوانوں کو صحت بخش سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے، جب کہ نماز کی ادایگی کے لیے مخصوص بڑا کمرہ، تعمیر کردہ عمارت کے ایک ذیلی حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ مزیدبرآں کھیلوں کے لیے مخصوص بڑا کمرہ (جمنیزیم) نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں مساجد، سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں    کے لیے بھی استعمال ہورہی ہیں۔ گرجاگھروں کے طالب علم یا پادری اکثر نمازِ جمعہ کے دوران میں مساجد کا دورہ کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی مقامی غیرمسلم رہنمائوں، مثلاً سیاست دانوں، پولیس انسپکٹروں یا مقامی تعلیمی بورڈ کے انتظامی عہدے داروں کو اپنے ہاں مسجد میں مدعو کرتے ہیں۔ پھر نمازِ جمعہ کے بعد عام طور پر تین قسم کے اعلانات ہوتے ہیں، مثلاً گاڑی غلط طور پر کھڑی کرنے اور گاڑی کھڑی کرنے کے آداب کے متعلق، خواتین، مردوں اور نوجوانوں کے آیندہ اجلاس کے متعلق، اور کانگرس کے کسی رکن، کسی متوقع رکن یا ناظم شہر کے متعلق جو مسلمانوں سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔

بڑے اسلامی مراکز میں سماجی سرگرمیوں کے لیے معقول اور اچھی طعام گاہیں موجود ہیں۔ مسلمان عام طور پر انھیں شادی، منگنی یا سالگرہ کی تقریبات کے لیے کرایے پر دے دیتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسجد جو مرکز اسلامی کا ایک حصہ ہوتی ہے نوجوانوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کے لیے گہرے اطمینان، سکون اور تشفی کا باعث ہو۔ نیوجرسی کی ایک مسجدمیں ۳کروڑ ڈالر کی لاگت سے پانچ سالہ توسیعی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے ۳۰ گھر بھی تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ بڑی عمر کے بے شمار افراد کو اسلامی مراکز اور مساجد کی سرگرمیوں میں شامل کیا جاسکے۔

خواتین

’خواتین کی سماجی سرگرمیاں، اس اسلامی تہذیبی تحرک کی ایک اور خصوصیت ہے۔ اگر برعظیم پاک و ہند میں کچھ دینی عقائد کے ساتھ کچھ سماجی روایات پر نظر ڈالیں، کہ جو خواتین کو عید کی نماز یا نمازِ جمعہ میں شرکت سے منع کرتی ہیں، لیکن مغرب میں اس امر کا تصور ہی محال ہے کہ ان نمازوں میں خواتین شریک نہ ہوں۔ کچھ مساجد میں خواتین، اپنے خاندان کے مردوں کے ساتھ نمازِ فجر بھی ادا کرتی ہیں۔ مزیدبرآں، خواتین ان اسلامی مراکز کا لازمی حصہ بنتی جارہی ہیں۔ وہ مسجدیں، جہاں ممکنہ طور پر جگہ کی کمی ہے، وہاں پر دینی احکامات کے باعث خواتین شرکت نہیں کرسکتیں، تاہم عموماً خواتین کے لیے جگہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

امریکا میں موجود مساجد میں سے تقریباً ۷۰ فی صد مساجد میں ہفتہ وار اسکول [یعنی سیٹرڈے اسکول اور سنڈے اسکول] قائم ہیں، جہاں زیادہ تر تعلیمی سرگرمیوں کا انتظام و انصرام خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ان سرگرمیوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ علومِ اسلامیہ میں خواتین اسکالروں کو ایک مقام حاصل ہو رہا ہے۔ شمالی امریکا کی ’اسلامی سوسائٹی‘ نے ۲۰۰۶ء میں ایک خاتون ڈاکٹر انگٹ میسن (Inget Mason) کو اپنا صدر منتخب کیا جو کینیڈا کی شہری تھیں اور مسلمان ہوگئی ہیں اور یہ خاتون اس وقت ہرٹ فورڈ سیمنیری (Seminary) میں اسلامیات کی پروفیسر ہیں۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران، شمالی امریکا کی ایک اور اسلامی تنظیم ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ (MSA) کی قومی سطح کی صدر، ایک خاتون تھیں۔

نوجوان

مغرب میں مسلمان نوجوانوں کو بھی بہت سے مسائل و معاملات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں مسلمان تارکینِ وطن کی پہلی نسل، مختلف تہذیبوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نوجوان، دوسری نسل یا مقامی مسلمانوں کے بجاے اپنے تہذیبی علاقوں میں رائج اسلامی روایات، عقائد اور عادات کو اپنانا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات، مقامی مسلمان، افریقی نژاد امریکی یا سفیدفام امریکی، عربی لباس یا جنوبی ایشیائی لباس شلوارقمیص پہنتے ہیں۔ ان کے اس طرزعمل کے باعث   اس بحث کا آغاز ہوا ہے کہ اسلامی روایتی لباس کون سا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی تہذیبی علاقے میں استعمال ہونے والا لباس دوسرے تہذیبی علاقے میں اسلامی تصورنہ کیا جاتا ہو۔ مغرب میں مقیم تقریباً ہر اسلامی گھر، اجتماع اور رہایش گاہوں میں یہ بحث معمول کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ دوسری نسل کے لیے سب سے بنیادی مسئلہ ستر ڈھانپنے (لباس کے شرعی ضابطے) سے تعلق رکھتا ہے، کہ ایسا لباس نہ پہنا جائے جس سے پوشیدہ اعضا کی نمایش ہو۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ  وہ ڈھیلی ڈھالی پتلون اور قمیص پہنیں، جو انھیں اسلامی تشخص مہیا کرے، جس طرح قمیص شلوار یا عربی عبا کو اسلامی لباس سمجھا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ اور معاملہ بھی زیربحث رہتا ہے کہ مسلمان بچے بچیوں کے رشتے کیسے ڈھونڈے جائیں؟ آیا والدین کو اس کے متعلق فیصلہ کرنا چاہیے یا بچوں کو یہ ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے، یا والدین اور بچوں کو باہمی رضامندی سے یہ معاملات طے کرنے چاہییں؟ نیز یہ بھی کہ شادی کرنے والے بچوں کو شادی/منگنی سے پہلے ایک دوسرے سے بات چیت یا سماجی میل جول رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے؟

مزیدبرآں مغرب میں مسلمان نوجوانوں کا ایک اور مسئلہ، ان کی شناخت اور پہچان کے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر پہلی نسل کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ وہ پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہیں، تاہم شناخت اور پہچان کا مسئلہ ان نوجوانوں کے لیے مبہم صورت اختیار کرجاتا ہے جو مغرب میں پیدا ہوتے یا شعور کی آنکھ کھولتے ہیں۔ کچھ مغربی لوگ اسلام کو ایک خارجی مظہر تصور کرتے ہیں اور اسلام کے متعلق ہر چیز کو اجنبی اور خارجی سمجھتے ہیں، تاہم دوسری نسل اور مقامی مسلمانوں کے لیے اسلام بالکل ایک فطری دین ہے۔

سماجی سرگرمیوں میں شرکت

نائن الیون کے بعد ایک نئی صورت حال یہ ہے کہ سماجی خدمت کے شعبے میں مسلمانوں کی شرکت بڑھتی جارہی ہے۔ مسلمان، طبی اور غذائی مراکز، غربا کے لیے خوراک کی فراہمی اور مستحقین کے لیے دیگر سرگرمیوں اور خدمات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں غیرمسلم افراد، پہلے ہی کافی کچھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ امریکا میں موجود یہودیوں کے زیرانتظام، مقامی طور پر تقریباً ۶۰۰ سماجی خدمت کی تنظیمیں اور ادارے کام کررہے ہیں۔ مالی مدد و اعانت کے طور پر یہ ادارے اور تنظیمیں، مختلف سماجی سرگرمیوں اور خدمات کے لیے اپنے ہم مذہبوں، شہروں، ریاستوں اور حکومتوں سے تقریباً ۴ ارب ڈالر سالانہ حاصل کر رہے ہیں۔ کیتھولک مسیحیوں نے بھی دو بڑی سماجی تنظیمیں قائم کررکھی ہیں۔ انھیں سالانہ تقریباً ۷ارب  ڈالر وصول ہوتے ہیں جن میں سے ۶۲ فی صد رقوم شہروں، ریاستوں اور امریکی وفاقی حکومت سے اکٹھی کی جاتی ہیں۔ مسلمان بھی اس طرز عمل کے متعلق سیکھ رہے ہیں۔

مساجد، سماجی سرگرمیوں کے لیے مرکزی کردار ادا کرر ہی ہیں۔ ماہِ رمضان میںافطار کی تقریبات مساجد میں منعقد ہوتی ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ، افطاری تقریبات کو بڑے منظم انداز سے مشتہر کرتی ہے۔عام طور پر ایک وقت میں افطار کے وقت ایک ہزار سے پندرہ سو افراد موجود ہوتے ہیں۔ امریکا کے بہت سے شہروں میں، عیدالاضحی کے موقع پرمسلمان، غربا کے لیے قربانی کا گوشت اکٹھا کرتے ہیں، یا اسے غذائی مراکز کو بطور عطیہ دے دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان اقدامات کو مشتہر کیا جاتا ہے۔

نائن الیون کے بعد مسائل ومعاملات

نائن الیون کے بعد مسلمان تارکینِ وطن کی پہلی نسل اپنے اپنے وطن واپس جانے کے لیے سوچ رہی تھی، لیکن واپسی کا یہ خواب اس وقت بکھر کر رہ گیا جب ان کی دوسری نسل نے کھل کر مغرب ہی کو اپنا وطن قرار دینے کا اظہار کیا۔ اس نسل کے لیے ، ان کے والدین کے سابق وطن، صدمہ دینے والے کسی تجربے سے زیادہ مقام نہیں رکھتے، جب کہ پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم تارکین میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ ان کا خالق ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنے علاقوں میں اسلام کی کیا خدمت سرانجام دی، اور انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے کس طرح   پیش کیا۔ اگرچہ مسلمانوں کو ذرائع ابلاغ، گرجاگھروں کی انتظامیہ اور مراکز دانش (think tanks) کی جانب سے اسلام کے خلاف سخت پروپیگنڈے کا سامنا ہے، تاہم اسلام کو غیرمسلموں کے سامنے پیش کرنے کے نئے اور بہتر مواقع بھی میسر آرہے ہیں۔ یوں مسلمان، ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے میں شامل ہورہے ہیں اور یہ صورت حال نائن الیون سے قبل ممکن نہ تھی۔ اب مقامی ریڈیو، سی این این، دیگر ٹی وی چینل، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، کرسچین سائنس مانٹیر اور دیگر اہم اخبارات میں مسلمانوں کی سرگرمیاں نمایاں طور پر جگہ پارہی ہیں۔

مغرب میں رہنے والے مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے کسی اذیت ناک مسئلے سے کم نہیں ہے۔ نائن الیون سے پہلے ’اسلام کیا ہے؟‘ کا جواب نہایت ہی سادہ تھا کہ ’’اسلام ایک عقیدہ اور دین ہے‘‘۔ اب صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، کیونکہ اب مسلمانوں سے، غیرمسلم بہت ہی سنجیدہ سوالات پوچھتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب اور اپنے ملک کے معاملات میں اسلام کے کردار کے متعلق سنجیدہ جوابات کے طالب ہوتے ہیں۔

ریاست اور مذھب

امریکا اور یورپ میں چرچ (مذہب) اور ریاست کی علیحدگی کا مسئلہ ایک مختلف مطلب اختیار کرچکا ہے۔ کچھ علما اور مفکرین کے نزدیک، امریکا میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی سے مراد کاروبار ریاست کو مذہب کی مداخلت سے محفوظ رکھنا ہے۔ مغرب میں موجود کچھ مسلمان علما اور مفکرین، اسلامی ریاست سے متعلق مباحث کا جواب دینے میں مصروف ہیں، مثلاً: اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کا کردار، مسلمانوںکا اپنا مذہب ترک کرکے دوسرا مذہب اختیار کرنے کا معاملہ، خواتین کا سماجی اور معاشی زندگی میں کردار اور تفریح کے مختلف ذرائع مثلاً موسیقی وغیرہ کا جواز۔

مختصر یہ کہ مغرب میں اسلام کے موضوع پر سنجیدہ، فکرانگیز گفتگو اور مثبت اور تعمیری بحث کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جس میں مسلمان علما اور مفکرین فعال اور بصیرت افروز کردار ادا کر رہے ہیں، اور متعدد امور انھیں اجتہادی حل پیش کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔

اختتامی کلمات

مغرب میں اپنا دائرۂ اثر بڑھاتی ہوئی اسلامی تہذیب کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ عام مسلمان، علما اور مفکرین اس موضوع کے بارے مسلسل مباحث میں مصروف ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ ان مشکل حالات کا بہرصورت سامنا کرنا ہوگا۔ ان کا یہی رویہ اور طرزِعمل مختلف افراد، معاشروں اور اقوام کے لیے حقیقی اور سچی امید اور روشنی کا باعث ہے۔ جو افراد   حوصلہ مندی اور جرأت سے مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ دنیا میں انقلاب برپا کردیتے ہیں، اور جو لوگ مشکل حالات کے سامنے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں، وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مغرب میں اس وقت مسلمانوں کو جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے، ان میں پہلے ’اسلام بحیثیت دین‘ اور ’اسلام بحیثیت تہذیب وثقافت‘ کا سوال اور دوسرے ’اسلام کی بحیثیت اقلیت موجودگی‘ شامل ہیں۔

پہلا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ درحقیقت ’اسلام بحیثیت دین‘ اور ’اسلام بحیثیت تہذیب و ثقافت‘ کے درمیان فرق، سنتِ رسولؐ پر بحث کے تناظر میں ہمیشہ بہت ہی نازک، حساس اور اہم نوعیت کا مسئلہ رہا ہے۔ جب مسلمان حضور نبی کریمؐ کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھر مسلمان اس بحث کا بھی سامنا کرتے ہیں کہ آپؐ کی سنت کا کون سا حصہ، خاص طور پر آپؐکی عادات، آپؐکے زمانے کے رسم و رواج اور روایات کا مظہر تھا؟ پھر ان آفاقی اور یکساں رویوں اور طرزہاے عمل کے برعکس، سنتِ رسولؐ کے تابع وہ کون سے پہلو ہیں کہ جن کی تقلید مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقدار اور تہذیب، باہمی طور پر ایک ہی نوعیت کے حامل مظاہر ہیں۔ بہرحال جب اقدار، رسم و رواج اور روایات، ایک مخصوص تہذیب کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ    ہم آہنگ ہوسکتی ہیں، تو پھر گاہے گاہے ان میں امتیاز اور تفریق بھی اسی طرح لازمی ہے۔ ابتدائی تاریخ اسلام کے زمانے ہی سے ، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ارتقا اور ترقی، اور اسلام کی جغرافیائی حدود میں اضافہ، اور پھر مختلف تہذیبی معاملات نے مسلمانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مختلف تہذیبی مثالوں اور نمونوں کے تحت ادارہ جاتی ارتقا اور ترقی کے مسئلے کا سامنا کریں۔ مثال کے طور پر وہ یہ فیصلہ کریں کہ کن روایات و اقدار کو انھوں نے ترک کرنا ہے اور کون سی روایات و اقدار انھیں بطور ’عرف‘ اختیار کرنی چاہییں؟ کون سے ادارے ان کے لیے مفید ہیں، اور کون سے اداروں میں تبدیلی مقصود ہے اور کون سے ادارے قابلِ استرداد ہیں؟ مخصوص حالات میں مخصوص اقدار کے نفاذواطلاق پر مبنی ایک انتہائی تخلیقی عمل اور کوشش کے ذریعے مسلمانوں نے اسلامی قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط میں تنوع کے باعث ان علاقوں کے مختلف زمینی حقائق کا اظہار ہوتا ہے کہ جہاں جہاں یہ قواعد و ضوابط ارتقا پذیر ہوئے، مثلاً مدینہ، بغداد، دہلی، سمرقند، اسپین وغیرہ۔

امریکا اور یورپ میں رہنے والے مسلمان اسی مسئلے کا ایک مختلف طریقے کے ذریعے سامنا کرر ہے ہیں۔ خود ان مسلمانوں میں ممکنہ طور پر رسم و رواج، اقدار، اصولوں اور روایات میں اختلاف بہت کم ہے۔ اس تناظر میں، اسلام کی یہ ایک نمایاں خصوصیت رہی ہے کہ مختلف اختلافات کے باوجود اسلام کی متحدہ نوعیت قائم رہتی ہے، خواہ یہ اختلاف زمانے اور علاقے کی حیثیت سے کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں۔ مزیدبرآں، اسلام اپنی اقدار اور تہذیبی معاملات کے درمیان تعلق قائم رکھتا ہے۔ اگرچہ اس تعلق کی نوعیت بہت ہی نازک ہے لیکن اس تہذیبی اظہار میں بظاہر   اُونچ نیچ کا ہونا ناگزیر ہے۔

تاریخی طور پر اس تمام صورت حال کو ایران کے پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے، جو ظہوراسلام سے قبل ایک نہایت ترقی یافتہ تہذیب تھی، مگر تہذیبی، لسانی، تاریخی، جغرافیائی اور روایتی اختلافات اور تضادات کے باوجود ایران میں اسلام کی روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لہٰذا، اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں اسلام کی کرنیں پھیلتی ہیں تو امریکی اسلام، یورپی اسلام، پاکستانی اسلام اور عربی یا ایرانی اسلام کا تصور ایک بے معنی مفروضہ ہے۔

مغرب میں اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کی موجودگی بھی نہایت اہم مسئلہ ہے۔ ممکن ہے جغرافیائی لحاظ سے ’اقلیت‘ کا تصور حقیقت ہو، لیکن بحیثیت مجموعی، ’اقلیت‘ پر مبنی اندازِ فکر، غیرضروری بھی ہے اور سخت نقصان دہ بھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقلیتوں نے اپنے اپنے معاشروں میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انسانی تاریخ نے یہ مشاہدہ بارہا کیا ہے کہ اقلیتیں ارتقائی مراحل میں سے گزرتے ہوئے اکثریت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ایک ایسی اقلیت، جو دینی اقدار، نظریے اور مقصد کی علَم بردار ہو، اسے اپنی کم تعداد کے باعث ’اقلیت‘ کا سا اندازِ فکر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ ان کے پاس ان کا اپنا ایک لائحہ عمل اور طریقۂ کار موجود ہے، جس کے تحت وہ ارتقائی منازل اور مراحل طے کرسکتے ہیں اور ہر ملک اور معاشرے میں اپنا اہم کردار انجام دے سکتے ہیں۔ عصرِحاضر کی یورپی تاریخ میں، اقلیتوں نے مختلف قسم کے تصورات، نظریات، نظامِ قومیت، انسانی حقوق اور جمہوریت کے ارتقا اور ترقی کے ضمن میں ایک مؤثر طبقے کا کردار اداکیا ہے۔ ان میں سے بعض اقلیتوں نے اپنے دفاع اور بقا کے لیے جدوجہد کی اور بعض اپنی اقدار اور اندازِفکر و نظریے کی پاس داری کے لیے کوشاں رہیں۔ اس طور، کسی قوم کی بحیثیت اقلیت موجودگی، کسی بھی طرح کا کوئی جرم، یا احساسِ محرومی کا مظہر نہیں ہونا چاہیے۔

مغرب میں مسلمانوں کی تیسری نسل کا ارتقا ایک ایسے اہم مسئلے کی حیثیت سے سامنے   آیا ہے جس کا تجزیہ ہونا ضروری ہے۔ جنوری ۲۰۰۷ء میں ایک مرکز دانش ’پالیسی ایکسچینج‘ نے برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے اندازِ فکر اور سوچ کے بارے ایک جائزہ   پیش کیا۔ اس جائزے کے مطابق، تیسری نسل (۱۶ تا ۲۴ سال) کے ۷۴ فی صد افراد نے   مسلمان خواتین کے نقاب یا حجاب اوڑھنے کے حق میں راے دی، جب کہ پہلی نسل (۵۵ سال یا زائد) کے ۲۸ فی صد افراد نے مخالفانہ راے کا اظہار کیا۔ جب برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ شریعت (اسلامی مذہبی قوانین) کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر تیسری نسل کے ۳۷ فی صد افراد نے اس کی تائید میں جواب دیا، جب کہ پہلی نسل کے ۱۹فی صد افراد نے شریعت کے تحت زندگی گزارنے کے نظریے کی حمایت نہیں کی۔

اس وقت تین مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بطور خاص مغرب میں مقیم مسلمانوں کو سوچ بچار کرنی چاہیے اور ان کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ان میں سے پہلا مسئلہ، ریاست اور مذہب کے درمیان تعلق سے متعلق ہے۔ دو صدی قبل، امریکی آئین نے اس معاملے کو ریاست اور مذہب کے درمیان جداگانہ حیثیت دینے کی کوشش کی، مگر یہ مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ آج بھی زندہ اور موجود ہے۔ ایک دینی نظام کا خاکہ تو ایک طرف رہا، خود خالص لادینی نظام کا نقشۂ کار بھی صفحۂ ہستی سے مٹتا جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ لادینی نظام ۱۹ویں صدی کے روشن خیال نظام کے ساتھ موجود رہتا، جہاں زندگی دو خانوں: خودکفالت اور آزادروی میں تقسیم ہوچکی تھی، لیکن یہ نظریہ اور اندازِ فکر عہدِحاضر میں تقریباً ناممکن ہے۔ عصرِحاضر میں، حکمت عملی کی تیاری، تعلیم اور معاشرتی معاملات میں ریاست کا کردار لازمی اور ناگزیر ہے۔ اس لیے غیرجانب داری کا قطعی طور پر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلاشک و شبہہ، جو لوگ ابھی تک اس لکیر کو پیٹ رہے ہیں، وہ معاشرے اور ریاست کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے۔ لادینیت اور دینی نظام، دوانتہائیں ہیں جن کے درمیان طویل فاصلہ موجود ہے، جہاں بے شمار تضادات کے باوجود ہم آہنگیاں موجود ہوسکتی ہیں۔ بہرحال، مسلمان مفکرین، دانش وروں اور سیاست دانوں کے سامنے غوروفکر کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ہوگا۔

دوسرا مسئلہ، ریاست، قوم اور اُمت کے درمیان تعلق کا ہے۔ عالم گیریت کے اس دور میں قومی ریاست کے خاتمے یا غیرمؤثر وجود کے تصورکے حوالے سے بہت سے مباحث اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس لیے جب بھی اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کے متعلق مباحث کی ابتدا ہوتی ہے، تو اکثر لوگ دم توڑتی قوم پرستی کے تناظر میں اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بہت ہی اہم پہلو عوام کی بیداری اور بنیادی سطح پر انقلاب ہے۔ ماضی میں عوام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور نہ ان کی کہیں شنوائی تھی، مگر عالم گیریت کے اس عہد میں ایک طرف تو جابرانہ استبداد کا دور ہے، تو دوسری طرف عوام میں اپنے لیے کچھ حاصل کرنے کی خواہش پر مبنی ایک نئی لہر بھی ہے۔ یہ لہر ایک ارتقا پذیر عظیم ترین طاقت ہے۔ جو لوگ انسانی حقوق، انصاف، غربت کے خاتمے، استعماریت، ملوکیت اور سرمایہ داری جیسے چیلنجوں کا جواب دینے میں دل چسپی رکھتے ہیں، ان سب کا مفاد ایک اور مقصد یکساں ہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مغرب میں ہونے والے احتجاج میں دائیں بائیں اور دیگر نظریات کے حامل تمام طبقوں نے شرکت کی۔ اس لیے اُمت کا تصور ایک عظیم رحمت وبرکت ہے اور عالم گیریت کے تصور کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ بین الاقوامی پس منظر میں، بین المذاہب مکالمہ اور مذاکرات انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان سب سے پہلا مکالمہ ۱۹۵۲ء میں لبنان میں منعقد ہوا۔ بعدازاں یہ عمل مختلف سطحوں پر جاری رہا۔ ان مباحث میں بہرحال اس چیز کا موقع ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکے۔

آج پوری دنیا مسلمانوں کے لیے اشاعت دین کا میدان بھی ہے اور حصولِ علم و روزگار کا ذریعہ بھی۔ ان مقاصد کے لیے انھیں مختلف تہذیبوں اور مختلف مذاہب اورنظاموں کے زیراثر علاقوں میں جانا ہوگا۔ بعض جگہ وہ جبری طور پر بھیجے جائیں گے اور بعض ممالک میں وہ اپنے ارادے اور اپنے عزم سے جائیں گے۔ ان میں صورت جو بھی ہو، انھیں بہرحال وہاں خاصے مختلف طرزِحیات سے سابقہ پڑے گا۔ معاشی، سماجی، سیاسی، حکومتی، نفسیاتی اور فکری یا مذہبی دبائو سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ یہ سارے دبائو اور تجربات علمی چیلنج بھی پیش کریں گے اور عملی تقاضوں کا سوال بھی پیش کریں گے۔

اسلام دین فطرت ہے، تمام زمانوں اور تمام زمینوں کے لیے ابدی ہدایت ہے۔ اس بنیادی حقیقت کا تقاضا ہے کہ تھڑدلی، مایوسی اور پسپائی کے بجاے دین کی رہنمائی میں اور دین کے سایے میں راہیں تلاش کی جائیں۔ (بہ شکریہ Policy Perspectives ، اسلام آباد، جنوری- جون ۲۰۰۸ئ)


یہ تحریر ڈاکٹر زاہدبخاری، ڈائرکٹر امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام، جارج ٹائون یونی ورسٹی، واشنگٹن کی تقریر اور پروفیسرخورشیداحمد کے صدارتی کلمات پر مبنی ہے، جو ۱۷ اگست ۲۰۰۷ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں پیش کیے گئے۔ مرتب: محمد سلیم ظفر اور مترجم: ریاض محمود انجم۔