ڈاکٹر محمد شفیق ملک


غلبۂ اسلام کے لیے کوشاں اسلامی تحریکیں ہمیشہ موضوع بحث رہی ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر  مسلط کی جانے والی عالمی جنگ میں اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ مغرب میں کی جانے والی    ان تحقیقات کا غالب حصہ منفی اہداف رکھتا ہے۔ زیرنظر تحریر ڈاکٹر شفیق ملک کے پی ایچ ڈی مقالے کا آخری باب ہے جس میں اسلامی تحریکوں کو درپیش مسائل، خدشات اور مستقبل کے امکانات کا مثبت جائزہ لیا گیا ہے، اور لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔ (ادارہ)

اسلامی تحریکیں امت کو جمود ،پستی ،غلامی اور خود فراموشی سے نکالنے کے لیے اٹھی ہیں۔ اس کے لیے جہاں اَن تھک جدوجہد ضروری ہے، وہیں ان خطرات کی سنگینیوں کااحساس اور تدارک بھی ضروری ہے جن سے یہ تحریکیں دوچارہوسکتی ہیں۔

ان خطرات میں سب سے پہلے وہ نوجوان ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں دین پر عمل کی رفتار سست ہے۔وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ شریعت اوردین واخلاق کے منافی مظاہروں کو ہرصورت میں فوراً ختم ہوناچاہیے۔وہ اسلام کی خوبیوں کے ادراک کے لیے وقت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نتائج کے سلسلے میں عجلت پسندی انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حضوؐرنے صحابہ کرامؓ کو باربار صبرکی تلقین کی۔اس لیے یہ معلوم ہوناضروری ہے کہ اجتماعی اصلاح وتربیت کے عمل کی کامیابی کے لیے ،عجلت پسندی کے بغیر ،ایک بھر پور اورطویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

بعض افراد میں انتہاپسندی کے رحجانات نظر آتے ہیں۔انتہاپسندی کی وجہ سے دعوت اور پُرامن ذرائع ِانقلاب پراعتماد کمزور ہوتاہے اورتشدد اورمسلح انقلاب کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ اسلام نے انتہاپسندی کی مذمت کی ہے اورغلطیوں کی اصلاح کے لیے حکمت کارویہ اپنانے پر زوردیاہے۔ اسلامی بیداری کو انتہا پسندی سے اجتناب کرناچاہیے تاکہ نوجوان تشدد کی راہ نہ اختیار کریں۔ (ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۹۶ئ، ص ۴۳-۴۴)

خرم مراد اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ساری جدوجہد کااصل مطلوب صرف ایک ہے ،اپنے لیے اور دوسرے افرادکے لیے ،جنت کاحصول ممکن بنانا___ اسی لیے پہلے مرحلے میں اصل اہمیت افراد کی ہے، نہ کہ اجتماعی نظام کی چنانچہ اجتماعی اصلاح کی خاطر کوئی ایسے طریقے اختیار کرنا ہر گزصحیح نہیں ہوسکتا جن سے افراد کی اصلاح کادروازہ بند ہوتاہو، یاوہ جنت سے دُور اورآگ سے قریب ہوتے ہوں۔تشدد سے دلوں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ لوگوں کو مارنے سے ان کی ہدایت کاامکان ختم ہوجاتاہے۔لوگوںکوہلاک کرنا اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جب ان پراتمامِ حجت ہوگئی ہو، اوران کی اصلاح سے مایوسی۔ اس کاتعین وحی الٰہی کے بند ہوجانے کے بعد ممکن نہیں۔اس لیے اِلا.ّ یہ کہ اللہ کے احکام کے مطابق جہاد کرتے ہوئے مخالفین مارے جائیں، صرف دین کی مخالفت یاگناہوں کی سزامیں لوگوں کوہلاک کرنا کس طرح صحیح ہوسکتاہے۔ بے گناہوں کو ،خصوصاً عورتوں ، بچوں اوربوڑھوں کومارناتوجہاد میں بھی منع ہے۔اسی طرح اگر مسلح انقلاب کی کوشش میں لوگ کثرت سے مارے جائیں ، آبادیاں ملبے کاڈھیر بن جائیں توپاکیزہ نظام کن لوگوں پرقائم ہوگا اوراس کی برکات سے کون مستفید ہوگا۔کیاصرف چند پاکیزہ نفوس ؟

گن پوائنٹ پر ایک دل بھی سیدھانہیں ہوسکتا ،کجایہ کہ سیاست،ثقافت،صحافت،ادب اورقوم سب کو سیدھاکر دیاجائے۔ خود پاکستان میں مارشل لا کے ناکام تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان ڈھاکہ آئے تھے تومیں نے ان سے یہ کہاتھا کہ ’’آپ مسیحاکارول نہ سنبھالیں۔اگر ڈنڈے سے قوم کی اصلاح ہواکرتی تواللہ تعالی انبیا کے بجاے فیلڈ مارشل ہی مبعوث کیاکرتا ‘‘۔چنانچہ دعوت دین کی جدوجہدکرنے والوں کاپہلافرض یہ ہے کہ جوجانتے نہیں، ان کے سامنے حق پہنچانا ہے۔ مطلوب حدتک یہ فرض اداکیے بغیر طاقت کے استعمال کاجواز نہیں۔ جن بے خبر اورغفلت و جہالت کے شکار لوگوں کے سامنے ابدی زندگی کاپیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہم ابھی تک ادا نہیں کرسکے ،ان کو سینما ہال میں بیٹھے بیٹھے موت کاپیغام پہنچادینا،کس طرح اللہ کو پسند ہوسکتاہے ؟ حواکی جن بیٹیوں کے کانوں میں اب تک ہم وہ تریاق نہیں ڈال سکے ،جو ان کے دلوں کوسلیم بناسکتاہے ،ان کے اوپر تیزاب ڈال کرا ن کے چہرے مسخ کردینے سے آخر کوئی فرد جنت کامستحق کیسے بن سکتاہے ؟

طاقت کااستعمال اگرجائز بھی ہو تواس کے لیے ایک سرجن کی سی ہمدردی ،سو ز اورمہارت ضروری ہے۔ جہاں اس کے استعمال کے پیچھے مایوسی ،غصے اورنفرت کے نفسانی جذبات کارفرما ہوں تو نہ وہ راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے فلاح کاباعث ہوسکتا ہے اورنہ مقصد اصلاح کے لیے سودمندہوسکتاہے۔(خرم مراد، تحریک اسلامی، اہداف، مسائل، حل، ص ۸۹-۹۰)

اس لیے جب تک پرامن ذرائع سے دعوت پہنچانے ،منوانے اوراجتماعی تبدیلی لانے کے راستے کھلے ہوئے ہوں اورجس وقت تک راے عامہ اسلامی انقلاب کی پشت پناہی کے لیے تیار نہ ہوجائے، اس وقت تک اسلحہ اٹھاکر جہادکرنا صحیح نہیںہوگا اورحکمرانوں کے چند اقوال وافعال کی بنیاد پر ان کی تکفیر کرکے ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کاتو کوئی حکم ہمیں نہیں ملتا۔

اسی لیے سید مودودی نے واضح طورپرفرمایاتھا: آپ جس ملک میں کام کررہے ہیں، وہاں ایک آئینی اورجمہوری نظام قائم ہے۔ اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کاایک آئینی راستہ ہے، انتخابات۔ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِقیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیارکرنا، شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں۔اسی بنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیاہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئینی وجمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔ (سید مودودی، تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۲۰۵)

برائی کوہاتھ سے روکنا یقینااسلام کاحکم ہے لیکن حکم اس چیز کے لیے ہے جو ہمارے دائرہ اختیارمیں ہو ،جہاں یقینی ہو کہ ہاتھ کے علاوہ دوسرے ذرائع سے اصلاح کاامکا ن نہیں ،جہاں ایک منکر کے ازالے سے دوسرا اس سے بڑامنکر وجود میں نہ آئے ، خصوصاً فسادفی الارض جیسامنکر نمودار ہو، وہاں یہ طریقہ کیسے جائز ہوسکتاہے۔

پُرامن اعلاے کلمۃالحق میں یقینا ابھی کامیابی نہیں ہورہی اوردیر لگ رہی ہے لیکن کیامسلح جدوجہد کے ذریعے سے کامیابی ہورہی ہے یاجلد منزل ہاتھ آتی نظر آرہی ہے ؟ اگر ایک طرف الجیریا، ترکی اورپاکستان میں ناکامی کی مثالیں ہیں تو دوسری طرف مسلح جدوجہد کے باوجودشام، مصر، افغانستان اورخود الجیریامیں بھی ناکامی کی مثالیں موجودہیں۔یقیناجہاں پرامن ذرائع سے کام ہورہاہے ،وہاں غلط حکومتیںقائم ہیں اوربگاڑ بڑھ رہاہے لیکن جہاں طاقت استعمال ہورہی ہے کیاوہاں پر غلط حکومتیں گر رہی ہیں اوربگاڑ کم ہورہاہے ؟ (خرم مراد: تحریک اسلامی، اہداف، مسائل، حل، ص ۹۳)

سید مودودی ۱۹۶۲ء میں مکہ مکرمہ میں ان عرب نوجوانوں سے خطاب کر رہے تھے جو ۱۰سال سے بدترین جبر واستبداد اورتعذیب وتشددکاشکار تھے۔ان عرب طلبہ سے سید مودودی نے فرمایا: میری آخری نصیحت یہ ہے کہ آپ کو خفیہ تحریکیں چلانے اوراسلحے کے ذریعے انقلاب برپاکرنے کی کوشش نہ کرناچاہیے۔یہ بھی دراصل بے صبری اورجلد بازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپاہوتاہے۔کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔لوگوں کے خیالات بدلیے ،اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔اس طرح بتدریج جو انقلاب برپاہوگا وہ ایسا پایدار اورمستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محونہ کر سکیں گے۔جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہوجائے تو یادرکھیں جس راستے سے آئے گا، اسی راستے سے وہ ہٹایاجا سکے گا۔ (تفہیمات، ج ۳، ص ۸)

ایک اور جگہ پر سیدمودودی کہتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کو ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کر کے بھی علانیہ ، پُرامن اعلاے کلمۃ الحق کاراستہ ہی اختیار کرنا چاہیے، خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قید وبند سے دوچار ہونا پڑے ، یاپھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آئے۔ (تصریحات، ص ۱۵۷)

لادین حکومتیں

اسلامی تحریکوں کو ان مسلمانوں سے خطرات لاحق ہیں جن کی فکر ان کی فکر سے میل نہیں کھاتی۔ ان خطرات کے دواہم مصدرہیں۔ بعض مسلمان حکومتیں جو اس بیداری کی مخالف ہیں اور اس بیدار ی کو مکمل طور پر ختم کر دینا یاعام زندگی میں بے اثر بنا دینا چاہتی ہیں۔ ان ممالک کے دستور میں صراحت سے لکھاہے کہ وہ سیکولر ہیں یاان کے حکمران اپنی سوچ میں بالکل سیکولر ہیں۔ان حکمرانوں کی سیاسی تربیت اورتہذیبی اٹھان مغربی تہذیب کے اداروں میں ہوتی ہے جو اب بھی بہت سے معاملات میں بالواسطہ یابلاواسطہ ان سے اپنی من مانی کراتے ہیں۔بسااوقات ان کے یہ تربیت یافتہ شاگرد ان کے رٹائے ہوئے سبق کو کچھ زیادہ ہی اچھی طرح یاد کر لیتے ہیں اوراس کو نافذ کر نے میں اتنا زیادہ آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کے مربی حضرات خود اپنے شاگردوں کو سختی اور تشدد کم کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

دوسری وہ حکومتیں ہیں جو اسلام کی کھلم کھلا مخالف نہیں ہیں، بلکہ کچھ نہ کچھ اسلام کے حق میں بھی کام کرتی ہیں اوراسلام کو اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن جس اسلام کو یہ حکومتیں   اختیار کرتی ہیں وہ حکومتی اسلا م ہے ،تاکہ وہ اقتدار سے فائدہ اٹھانے والوں کے مفادات کے لیے خطرہ نہ بنے۔ اس لیے ہر وہ شخص جو اسلام کو اس کے پورے حسن وجمال کے ساتھ اورمکمل طورپر نافذ کرنے کی بات کرتاہے، وہ ان حکومتوں کی نظروں میں بنیاد پرست ،انتہاپسند اور ملک اور باشندگانِ ملک کے لیے خطرہ بن جاتاہے۔ و ہ اس شخص پر بغاوت اورحکومت کاتختہ الٹنے کی سازش کا الزام ثابت نہیں کرپاتیں لیکن دہشت ،تعذیب اورسزاے موت تک کے تما م حربے استعمال کرتی ہیں۔وہ انسانی حقوق کے معمولی سے حق سے بھی اسے محروم رکھتی ہیں۔یہ سب کچھ اقوام متحدہ اورانسانی حقوق سے متعلق عالمی تنظیموں کی نگاہوں کے سامنے انجام پاتا ہے مگر کوئی بھی مداخلت یا احتجاج کرنے کاروادار نہیں ہوتا۔ بعض حکومتیں اسلا م کی طرف اپنامیلان اس لیے ظاہر کرتی ہیں کہ ناپسندیدہ اسلامی تحریک کی قوت کااندازہ کر کے اسے کچل دیں جیساکہ گذشتہ برسوں میں کئی مسلم ممالک میں ہواہے۔

اسلامی تحریک کوان دونوں طرح کی حکومتوں کے درمیان فرق ملحوظ رکھناچاہیے لیکن اسے خطرہ دونوں سے ہے۔پہلی قسم کی حکومتوںسے خطرہ عقیدے کی دشمنی پر مبنی ہے جس سے بچنا ناممکن ہے۔دوسری قسم کی حکومتوں سے خطرہ اس تصورِ اسلام کو کمزور کرنے کا ہے جس کی نمایندگی اسلامی بیدار ی کرتی ہے۔بسااوقات حکمراں یہ سمجھتے ہیں اوران کے بیرونی آقااوراندرونی مشیر انھیں یہی سمجھاتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کااسلام انتہا پسندہے جس کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں ہے۔یہ بنیاد پرست عصر حاضر کی ترقی کے مخالف ہیں۔یہ تمھاری حکومت اورامن وامان کے لیے اورعالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ امت قرونِ اولیٰ کی طرف لوٹ جائے۔ ان حکومتوں سے جو خطرات ہوتے ہیں، ان میں ظلم وجبر کے ذریعہ تحریک کاخاتمہ کرنا۔اس کے افراد پر عرصہ حیات تنگ کرنا ،اس کے دعوتی اداروں کو کام کرنے سے روکنا، لوگوں کو اس تحریک سے متنفر کرنا ،میڈیا کے مختلف وسائل و ذرائع کو اس کے خلا ف استعمال کرنا اور پارٹیاں قائم کرنے کی اجازت کے باوجود، عملاً قائم کرنے کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔

دوسراخطرہ دیگر غیر اسلامی گروہوں سے ہے جو اسلام کی مخالفت اپنے اصول کی بنیادپر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ان کے لیے خطرہ ہے۔بعض گروہ چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرہ ہرمعاملے میں لبرل ہواورمغربی تہذیب کی نقالی کرے۔ا ن کے خیال میں دنیا میں عزت اورترقی کی یہی راہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی میں سینما ،ڈرامے اورفن کاری کے ذریعے اورسودی اداروں کے واسطے سے برائی کاچلن عام ہو۔ان خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد احتیاط اورفہم وبصیرت سے کام لیں۔ مسلم حکومتوں سے معاملہ کرنے کے لیے قابل قبول وسیلہ تلاش کریں۔حکمت عملی ،موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دین کاکام کریں ، مسلح آویزش ،افراتفری اوربدامنی پیدا کرنے سے بچیں کہ یہ مزید مشکلات کاسبب بنتے ہیں۔ حقیقی صورت حال کا ادراک کر کے تعمیری افہام و تفہیم کاماحول پیدا کریں تاکہ اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار مواقع پیدا ہوں۔

عالمی استعمار کارویہ

ورلڈاسمبلی آف مسلم یوتھ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مانع حماد الجہنی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ’’ اسلامی تحریکیں ہر مسلم معاشرے کااندرونی معاملہ ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی طاقتیں اس پر کڑی نظر رکھ رہی ہیں۔ مغرب کے بیش تر ملکوں میں خارجہ امورکی وزارتیں ،مراکز براے تحقیق اور اسٹرے ٹیجک مطالعات ،ان ملکوں کی جامعات ، استشراق کے مراکز تحقیق اورحکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے یہ موضوع اہم ترین بن گیا ہے۔ اسلامی بیدار ی،بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام پر مغرب میں جتنا کچھ لکھاگیا ہے، وہ تما م مسلم ممالک میں ان موضوعات پر لکھے گئے مواد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسلامی بیداری کی تحقیق اوراس کامقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات اختیارکرنے کی غر ض سے متعدد کانفرنسوں اوراجتماعات کاانعقاد بھی کیاگیاہے۔مثال کے طورپرامریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے ) نے ۱۹۸۳ء میں اسلامی بیداری پر ۱۲۱کانفرنسوں کے انعقاد کے مصارف کا بار اٹھانے کی ذمہ داری لی تھی ‘‘۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۹۶ئ، ص ۴۶)

عالمی طاقتوں کی دل چسپی کاایک سبب ان کایہ احساس ہے کہ اگر مسلم معاشرہ اسلام کی طرف واپس آگیا تو مسلم ممالک میں ان کے مفادات پر ضرب پڑے گی۔وہ مستقبل میں اسلام کے تہذیبی غلبے کے خطرے کااحساس کر رہے ہیں جس نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ مشرق ومغرب کی استعماری طاقتیں مسلسل یہ کوشش کر رہی ہیں کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلام کا کوئی اثر قائم نہ ہوسکے اوراپنے اہداف کے حصول کے لیے مغربی ادارے براہ راست اوربالواسطہ اسلام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ انقلابات ،ہنگامے ،اقتصادی بائیکاٹ ،انتہاپسندی اوردہشت گردی کے الزامات اوراسلامی بیداری سے وابستہ افرادکی کردارکشی اور مسلمان ملکوںپرحملے ان کے واضح حربے ہیں۔عالمی میڈیااورخود عالم اسلام کامیڈیا تک اس میں ملوث ہے۔

یہ طاقتیں مسلسل اس بات کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح مسلم ملکوں کی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اسلامی فکر کو ختم کردیں۔ کبھی سفارتی دباؤ کے ذریعے ،کبھی ان ملکوں میں بسنے والی اقلیتوں کے مفاد میں گہری دل چسپی کے ذریعے۔ وہ حکومتیں جو ان کے دباؤ کے آگے نہیں جھکتیں اور ملک کی داخلی سیاست میں مداخلت گوارا نہیں کرتیں ،انھیں بہت سی مشکلات کاسامناکرناپڑتا ہے۔ اس عداوت کامطالبہ ان مغربی ملکوں سے بھی کیاجاتاہے، جہاں مسلم اقلیتیں بستی ہیں۔

مغربی صحافت کامشاہدہ کرنے والاشخص اس طرح کی کوششیں واضح طور پر دیکھ سکتاہے۔ مثال کے طورپر The Flame نامی برطانوی میگزین میں ایک مقالہ ’برطانیہ کی خاطرجنگ ‘ کے عنوان سے شائع ہوا اوراس میں یہ بات کہی گئی کہ اگر مغربی ممالک اورخاص کر برطانیہ بیدار نہیں ہوتا تووہ دن آنے والاہے جب مسلمان ان ملکوں کو حجاب اختیار کرنے ،حلال گوشت کھانے ،سودی بنکوں کو ختم کرنے اوراسلامی زندگی کے مظاہر اختیارکرنے پر مجبور کردیں گے۔

اسی طرح ایک امریکی رسالے The Chicago Tribune میں ایک مضمون شائع ہوا، جس کاعنوان تھا: ’اسلام اورتبدیلی کی ہوائیں‘۔ اس مضمون میں مطالبہ کیاگیا تھا کہ عالم اسلام بنیادپرستی کی بنیادپر تبدیلی کی جس نئی لہر کامحتاج ہے۔مغرب اس کااز سر نوجائزہ لے‘‘۔ (ماہنامہ ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۹۶ئ، ص ۴۶-۴۷)

لائحہ عمل

اسلامی تحریکوں کے قائدین کو ان تما م داخلی اورخارجی خطرات اوراندیشوں کوسامنے رکھ کر اپنی حکمت عملی طے کرنا چاہیے تاکہ منزل کی طرف سفر کامیابی کے مراحل سے گزرے۔اسلامی تحریکوں کو اس بات کا مکمل اورواضح شعورہوناچاہیے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے کہ مکمل آگہی اور شعور ہی مقاصد کوحاصل کر نے کے وسائل اورذرائع کاتعین کرتے ہیں۔اسلامی تحریکوں کے مقاصد اوراہداف اس وقت تک حاصل نہ ہوسکیں گے جب تک کہ دعوتی قوت اورحکومتی اقتدار دونوں ان کے ہاتھوں میں نہ ہوں۔ مقاصد و اہداف کے تعین کے بعد ضروری ہے کہ ترجیحات کو متعین کرلیاجائے اورانھیں زندگی کے تمام گوشوں میں نافذ کر نے میں تدریج کاخیال رکھا جائے اور افراط وتفریط سے بچاجائے۔

کتاب وسنت کی پیروی

اسلامی تحریکوں کواپنے اساسی مرجع کاتعین کرتے ہوئے اپنے احکامات وتعلیمات کو اسی سے اخذ کر نے اور اپنی تہذیب وتمدن کواسی بنیاد پر استوار کرنے کااہتمام بھی کرناہوگا۔نیزاختلاف کی صور ت میں وہی مرجع ہوناچاہیے۔بلاشبہہ بحیثیت امت ہمارا مرجع ’دین اسلام ‘ ہے جس سے مراد کسی خاص زمانے،کسی خاص ملک یاکسی خاص مسلک کااسلام نہیںاورنہ کسی خاص مکتب ِفکر کا ہی اسلام ہے، بلکہ دوراولین کاوہ اسلام ہے جوہر قسم کی بدعات اورملاوٹ سے پاک تھا۔ یعنی فرقوں میں بٹ جانے سے پہلے کاوہ صحیح اسلام ،جو تاویلات وتشریحات کی بھول بھلیوں میں کھوجانے سے پہلے کے دور نبویؐ اورخیرالقرون کااسلام ہے۔حقیقی اسلام کو متعارف کروانے اور دنیا میں نافذ کرنے کے لیے مشترکہ طورپر ایسا نظام مرتب کرنے اور جاری وساری کرنے کے لیے ایسی عالمی مشینری کووجودمیں لانا ہوگا جو افراط وتفریط سے پاک ہو کر متوازن اور معتدل تعلیمات پر عمل کرے۔

یہ تحریک عالمی تبلیغ میں اصو ل یسر(آسانی) کو پیش نظر رکھنے والی ،انسانی مسائل کاحل پیش کرنے میں سہولت کے پہلوکومقدم کرنے والی اورعام فہم ہونی چاہیے۔اسی طرح دوسرے فریقوں سے ربط وضبط رکھنے ،ان کی سننے اوراپنی کہنے کی قائل ہو۔ مخالفت کرنے والوں کے ساتھ وسعت قلبی کے ساتھ معاملہ کرسکتی ہو۔

ھمہ گیر تعاون کاحصول

سنگین خطرات اورفی الوقت محدود امکانات کے پیش نظر محض اسلامی تحریکوں کے مختلف گروہوں کے درمیان تعاون ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص یاگروہ سے تعاون ضروری ہے جو اسلام اورمسلمانوں کی خدمت کے سلسلے میں کچھ بھی کام انجام دے رہاہو۔

ضروری ہے کہ اسلامی تحریکیں تمام انسانوں کو اپنے حق میں ہموارکریں۔غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں اور ان کے سامنے اسلام کا کمال وجمال اس طور پر پیش کریں کہ وہ اسلام کوپسندکریں اورقبول کرلیں۔مسلمانوں کی دینی تعلیمات کے ذریعے تذکیر کریں ،ان کے اندر ایمان وخیر کے خفتہ جذبات کو اس طرح اُبھارا جائے کہ وہ دین کو پہچان لیں اوراس کی پیروی کرنے لگ جائیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ تمام انسان، تحریک اسلامی کا ہدف ہیں۔اسے اس بات کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ لوگ اس دین کے دوست بن جائیں اوربلاشبہہ دوست بنانا دشمن بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔مسلم سماج میں ان وسائل کو تلاش کرنا چاہیے جو اسلامی دعوت کے لیے دوست بنانے کاذریعہ بنیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس میں ناکامی تباہ کن ہے اوردین کے مصالح کے لیے مضرت رساںہے۔دوست بنانے کے لیے اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ تما م مسلمانوں سے حسن ظن رکھیں۔معاملہ کرتے وقت غلط فہمی یاحقارت کارویہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رہے کہ تمام مسلمانوں میں خیرکاپہلو غالب ہے اورہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ ہے ،جسے وہ دین کے لیے پیش کر سکتاہے اورایک شخص کے بارے میں ہماری منفی سوچیں غلط ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اسلامی اخوت کا تقاضاہے۔لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کا بہترین طریقہ اصحا ب فضل کااعتراف اور ان کی اچھی باتوں کی تعریف کرنا ہے۔اگر ہم ایک شخص کے اچھے پہلوؤں کی ہمت افزائی کریںگے تو گویااس کا دل جیت لیں گے ،یاکم از کم اس کے تنقیدی رویے میں کمی آجائے گی۔

حکمت اور دعوت

تحریکات اسلامی کی موجودہ صورت حال کاجائزہ لیاجائے تو ایسے بہت سے امور ومسائل بھی ہیں جن میں فوری یکسوئی ضروری ہوگئی ہے مثلاً اسلامی تحریکات سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ معاشرے میںاچھائیوںکے فروغ اوربرائیوں کی روک تھام کے کسی موقع کو ضائع نہیں کریں گی اور ظلم واستبدادکے خلاف آواز اٹھانے میں کوتاہی نہیں کریں گی۔اسلامی تحریکوں کی عملی کوششیں انسانوں کے عملی رویے کو اسلامی قدروں کے مطابق ڈھالنے اوران مقاصدکا خادم بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔یہی طریق کار تحریک اسلامی کوعصر جدید کی ان سیکولرتحریکوں سے ممتاز کرتاہے جو ابتدا ہی سے اپنامرکز توجہ سماج کے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کوبناتی ہیں اور انسان کوبدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرتیں۔ یہی طریق اختیار کر کے ان ملکوں میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے جن کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان نہیں ہے۔ اس غیرمسلم غالب اکثریت کے دل ودماغ کو نفرت اور بے زاری کے زہر سے پاک کرکے ان کے اندر اسلام اورمسلمانوں کی طرف سے حسنِ ظن پیدا کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ دعوت اسلامی پر کھلے دل و دماغ سے غور کرسکیں لیکن یہ طریقِ کار اختیار کرنے کے لیے پیغمبرانہ وسیع النظری اورعالی حوصلگی کی ضرورت ہے۔

وحدت امت

امت کے جسد پر ایک اور گہرازخم ’’ افتراق واختلاف امت ‘‘ ہے۔اس کا علاج وحدت امت اسلامیہ کے نسخۂ کیمیا سے ہی ممکن ہے کیونکہ کٹی پھٹی اوربکھری ہوئی امت کاکوئی مستقبل نہیں۔ اُمت واحدہ اب مختلف اقوام کامجموعہ بن چکی ہے،الگ الگ گروہوں کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ یہ گروہ محض متفرق مجموعے ہی نہیں، بلکہ عملاًایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں، خود ہی ایک دوسرے کے غیظ وغضب کاشکار ہوتے رہتے ہیں جب کہ موجودہ دورمیں مختلف الخیال اقوام  پرانے اختلافات ،نسلی امتیازات ،مذہبی لڑائیاں اورعلاقائی جھگڑے کم سے کم کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ مشترکہ مصلحتوں کی خاطر کش مکش کے ایا م مسترد کر کے مختلف اتحاد اور مشترکہ منڈیاں وجود میں لائی جارہی ہیں یہاں تک کہ ان کے باہم شیر وشکر ہونے کاگمان گزرتا ہے۔ اسلامی تحریکیں اس وقت تک مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی عالمی سازشوں کاکامیابی سے مقابلہ نہیں کرسکتیں جب تک مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔یہ ممکن نہیں کہ مسلمان خود کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوںمیں منقسم رکھیں اورآج کی دنیا کے بڑوں سے ٹکر بھی لے سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری کی پوری امت مسلمہ مشترکہ ہدف پر متحد ومتفق ہو۔

نیا عالمی منصوبہ

اسلامی تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایساعالمی منصوبہ تشکیل دیں جس پر عمل پیرا ہوکر پس ماندگی کی حالت کو بدلا جاسکے، ترقی اور سبقت لے جانے کی فضا پیداہوسکے۔مسلمان بلاشرکت غیرے ایک ہزارسال تک دنیا کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب وتمد ن ساری دنیا میں رائج تھی۔مسلمانوں نے ساری دنیاکے لوگوں کو آدابِ حیات سکھائے تھے۔اسلامی تحریکیں یہ حقیقت واضح کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں کہ جہالت و پس ماندگی ہمار ی سرشت کاحصہ نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی موجودہ حالت اسلام کے مزاج سے میل کھاتی ہے۔

مسلمان عوام کی ناخواندگی ،جہالت اورمسلم ممالک کی معاشی پس ماندگی دورکرنے کاسوال اس لیے اہمیت اختیارکرگیاہے کہ ایک طرف توموجودہ صورت حال خود ان تحریکوں کے پیغام کو سمجھنے اور قبول کرنے میں رکاوٹ ہے اوردوسری طرف یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر عوام ان تحریکوں کی دعوت قبول کرلیں، تب بھی اصل صورت حال کوبدلے بغیر مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنادشوارہے۔ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے غلبے اوراسلامی دنیا کے بارے میں ان کے جارحانہ عزائم اور ان عزائم کی تکمیل میں پستی کی ہرحد سے گزر جانے والے ایجنٹوں کا وجود ایک ایساچیلنج ہے جس کے مقابلے کے لیے بھرپور طاقت ناگزیر ہے۔اس طاقت کی فراہمی کے لیے تعلیم، بالخصوص سائنس اور ٹکنالوجی میں زبردست پیش رفت اوربڑے پیمانے پر صنعتی عمل ضرور ی ہے۔ تحریک اسلامی کواس سوال کاعملی جواب دینا اور ان پہلوئوں کو اپنی دعوت اورنظام اصلاح و تربیت میں خصوصی مقام دینا ہوگا۔ نیز اسی سے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ اسلامی ممالک میں حکمرانوں اور اسلامی تحریکوں کاباہمی ٹکراؤ کس حدتک ناگزیر ہے۔ اس امر پر بھی غوروفکر ضروری ہے کہ جس حد تک یہ ٹکراؤ عالمی سطح پر اسلام دشمن استعماری قوتوں کی ریشہ دوانیوں اورذہنی غلبے کانتیجہ ہے ،اس حد تک ا س سے عہدہ برآہونے کے لیے صحیح حکمت عملی کیا ہے ؟کیایہ زیادہ مفید نہ ہوگا کہ یہ لڑائی اپنے اصل محاذ پرلڑی جائے اوردشمن کی اس سازش کو ناکام بنادیاجائے کہ ہمارے اپنے گھروںکے اندر باہم تصادم اور سر پھٹول کا شکار ہو جائیں۔

اسلامی انقلاب کی حکمت عملی کے اس پہلو پر بھی بحث کی بہت گنجایش ہے کہ حقوق آزادی کی خاطر اور مسلم یاغیرمسلم استبداد کے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی افادیت اور جواز کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس امر پر متفق ہوجائیںکہ طاقت کا استعما ل صرف اسی وقت درست ہے جب اسلام کی سرزمین پر غیر ملکی حملہ آور ہوجائیں۔برعظیم پاک وہند میں سید مودودی کی اسلامی فکر کایہ فائدہ ہوا ہے کہ باقاعدہ اعلان شدہ جہاد کے علاوہ اسلحے کے استعمال کے ناقابل قبول ہونے کامسئلہ طے ہوگیا ہے۔اس سے علاقہ باہمی جنگ وجدل سے محفوظ ہوگیاہے جب کہ عالم عرب میں یہ بات طے نہ ہونے کی وجہ سے کئی تباہ کن واقعات رونماہوئے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومتوں سے بہت سی قانونی تبدیلیوں کے مطالبے کواولیت حاصل ہونی چاہیے یاکچھ اورکاموں کو ، کیونکہ عصرحاضرمیں اصل مسئلہ متعین اورمعلوم اسلامی قوانین کانفاذنہیں ہے۔یہ کام خود ایک بڑے کام کاجزو ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عصرحاضرکی پیچیدہ زندگی میں عدل وانصاف،آزادی ومساوات ،عفت وپاک بازی ،سکون خاطر اورطمانیت قلب کے وہ مقاصد کس طرح حاصل کیے جائیں جن کے لیے یہ قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ان کے حصول کے جہاں قانونی اصلاحات ضروری ہیں، وہیں انسانوں کے خیالات وافکار ،مزاج و رجحان اور حوصلوںمیں تبدیلیاں بھی ناگزیر ہیں۔

عالمی صیھونی تحریک کا مقابلہ

امت مسلمہ کے لیے ممکن نہیں کہ تہذیب وتمدن کی بلندیوں کوچھولے جب تک کہ وہ اپنے وجود کے خلاف ہونے والی عالمی صہیونی سازش کامقابلہ کرتے ہوئے، اسے شکست فاش نہ دے دے۔ اسی طرح نصرانیت اورہندومت کی سازشوں کو سمجھنا اوران کامقابلہ کرکے انھیں شکست دینا بھی ضروری ہے۔یہ ہدف زبانی دعوؤں اورامن وسلامتی کے نام پر کیے جانے والے ان معاہدوںسے حاصل نہیں کیا جاسکتا جن کاواضح مقصد ان قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم کردیناہے  بلکہ اس کے لیے بصیرت افروز پختہ سوچ اورگہرے ایمانی جذبات ضروری ہیں۔ امت مسلمہ کے احیاکے لیے یہ ضروری ہے کہ عوامی سطح پر اورحکومتی و عسکری سطح پر نئے عزم و حوصلے سے پختہ بنیادوں پر کام کاآغاز کیاجائے۔وہ طرز فکرو عمل اپنایاجائے جس سے ہر مسلمان نفسیاتی ، فکری اور تہذیبی و تمدنی حوالوں سے اپناسر بلند کرکے چل سکے۔

صہیونی ریاست کا نعرہ ہے کہ:’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریاے فرات سے لے کر نیل تک ہیں‘‘ اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ ’’چاول کے کھیتوںسے کھجور کے جھنڈوںتک‘‘۔یہود نے اس خیالی نعرے کو پے درپے کوششوں سے اپنے حامیوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے دینی لٹریچر میں یہ سچی بشارتیں موجود ہیں کہ اسلام عالم گیر کامیابی حاصل کرے گا، ساری دنیامیں اس کاڈنکابجے گا۔ہماری تاریخ بھی شان دار اور سچے عالم گیر حقائق پرمبنی ہے۔ اس لیے بجاطور پر مستقبل میں مزید کامیابیوں اورسرفرازیوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ حقائق مسلمان نسلوںکے دل و دماغ میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے۔

ھمہ جھت ترقی کے لیے جدوجھد

اسلامی تحریکوں کو جس ہدف کو خاص اہمیت دینی چاہیے اور جس کے حصول کے لیے ہر دم کمربستہ رہنا چاہیے، وہ اسلامی معاشرے کی ہمہ جہت مجموعی ترقی کا حصول ہے۔اس کے لیے بھر پور اوردور رس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ انسانی وسائل کو انسانی ترقی کے لیے سرگرم کیے بغیر یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ انسان ہی اس ہدف کااصل محورہے اور انسان ہی اس کے حصول کا ذریعہ بھی۔ موجودہ وسائل کو بہترین انداز سے استعمال کرتے ہوئے ترقی کی منازل کوطے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہمہ جہت ترقی مسلمانوں کی اقتصادی ترقی ،پیداواری ترقی اورپیداوار کے متوازن استعمال اورمعاشرے میں اس کی منصفانہ تقسیم ،لوٹ کھسوٹ اورملاوٹ وبدعنوانی کوترک کرنے ہی سے ممکن ہے۔اگر ایساہوسکے تو امت مسلمہ اقتصادی دباؤ سے نکل آئے گی۔

امت مسلمہ کے پاس ثروتوںکے لامحدود خزانے موجودہیں۔یہ خزانے امت کے میدانوں اور پہاڑوں میں ،اس کی وادیوںاورصحراؤںمیں ، اس کے سمندروںاوردریاؤں میں بکھرے پڑے ہیں۔ہماری جغرافیائی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے اور انسانی وسائل بھی وافر ہیں۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم ان بیش بہا قیمتی خزانوں کا صحیح استعمال جان جائیں اور انھیں درست انداز سے زیر تصرف لاکر مجاہدانہ انداز سے جینے کاڈھنگ سیکھ لیں۔پھر اس طرح زندگی بسر کریں جس طرح ہم چاہتے ہوں نہ کہ اس طرح جییں جس طرح ہمارے دشمن چاہتے ہیں۔

منصفانہ سیاسی نظام کا قیام

اس کی اہمیت کاانداز ہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ مذکورہ بالااہداف اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک اسلامی تحریکیں منصفانہ سیاسی نظام رائج کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرلیتیں۔وہ نظام جس سے تمام شہریوں کو ان کے صحیح حقوق مل جائیں ،جوانسان کے مقام ومرتبے اور آزادیِ راے کااحترام کرنے کاضامن اور انسانی جان ومال و عزت کارکھوالاہو۔یہ ایسانظام ہو  جس سے روحِ شورائیت بیدار ہو اورخیرخواہی اورذمہ داری کاجذبہ پروان چڑھے۔یہ نظام اسلام کے شرعی طرزسیاست پر مبنی ہوناچاہیے جس کا بنیادی مقصدامت اسلامیہ کی نشاَتِ ثانیہ ہو۔یہ نظام   جبرو استبداد کے نمایندہ حکمرانوں اورسازشی ٹولوں کادفاع کرنے والا نہیں ہوناچاہیے۔بلکہ عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھنے والاہو ،جس کے تحت اللہ کے قانون کوکسی تفریق کے بغیر سب پر یکساں نافذ کیا جائے، جس میں اعلیٰ وادنیٰ کافرق روانہ رکھاجائے اورنہ ہی کسی سے امتیازی سلوک برتا جائے۔

جدیدوسائل کا استعمال

ہر زمانے کی اپنی خصوصیات اورتقاضے ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ دوسرے زمانے سے ممتاز ہوتا ہے۔موجودہ اسلامی تحریکیں ایسے زمانے میں ابھری ہیں جس میں انسانی علوم نے بہت ترقی کی ہے۔ملکوں کے فاصلے گھٹ گئے ہیں۔وسائل اورذرائع کے تنوع اور کثرت کی وجہ سے تہذیبوں کا اختلاط ہو گیا ہے۔ساری دنیا سکڑ کر ایک گاؤں کی طرح ہوگئی ہے۔اسی طرح آج کے دورمیں جو نئے افکار و نظریات اورانسانی سلوک اوررویوںمیں جدتیں پیداہوئی ہیں، ان سے پہلے کے لوگ آگاہ نہیں تھے۔ا س کے ساتھ ساتھ اسلام دنیا کے تمام گوشوںمیں پھیل چکا ہے اوراس کے ماننے والے اپنے تربیتی پس منظر ،فکری ورثہ اورزندگی کے حالات کے لحاظ سے الگ الگ ہیں۔

ان ساری باتوںنے اسلامی تحریکوں کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کے نئے بوجھ ڈال دیے ہیں۔ وقت کاتقاضاہے کہ اسلامی تحریکیں ،اسلامی فکر اورتہذیب کی تشکیل میں ،دعوتی کام کے طریقوں میں اورلوگوں سے معاملہ اورتعلق قائم کرنے کے سلسلے میں نیاانداز اختیار کریں۔نئی اور مفید چیزوں سے جو کہ خلاف شرع نہ ہوں بھرپور استفادہ کریں۔ اسلامی بیداری کو کسی تنگ گھاٹی میں محصور نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع ابلاغ (کتب ،رسائل ،اخبارات، کمپیوٹر سی ڈیز، ریڈیو ،ٹیلی ویژن) کابائیکاٹ محض اس دلیل پر کہ میڈیا میں ایسے مواد ہوتے ہیں جو اخلاق کے لیے تباہ کن ہیں ،نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح انداز فکر یہ ہے کہ ہم ان وسائل کو مسلم سماج کے خیر اور نفع کے لیے استعما ل کریں۔

خواتین کا مقام

اسلامی تحریکوں میں عورت کی شمولیت اورعملی دل چسپی بھی ضروری ہے۔ عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں اوروہی نئی نسلوں کی تربیت کافریضہ انجا م دیتی ہیں۔مسلم ممالک کے خلاف فکری یلغارکاایک خصوصی ہدف مسلمان عورت بھی ہے۔مغربیت کے داعی مسلم معاشرے میں عورت اور آزادیِ نسواں کے مسئلے کو اسلام کے خلاف اپنی جنگ کااہم حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ واضح طورپر  دیکھا جاسکتا ہے کہ فکری یلغار کے سارے تیروں کا رخ مسلم عورت کی طرف ہے۔یہ تیر فیشن، زیب و زینت اورتبرج الجاہلیہ کے ہیں جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ عورت کی آزادی اور حقوق کے نام پر پھینکے جارہے ہیں۔بعض غیر اسلامی نظریات کے علَم برداروں کاطریقۂ واردات یہ بھی ہے کہ انھوں نے عورتوںکے مسائل کو اس انداز میں چھیڑاہے کہ بس وہی عورتوں کے حقوق کے حقیقی محافظ اور چیمپئن ہیں۔ان کوششوں سے بہت سی عورتوں نے دھوکاکھایاہے۔بے شک بہت سی خرابیاں اور ناانصافیاں مسلم معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہیں جن کی وجہ سے عورتوں میں احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ ان کا ازالہ ضروری ہے۔اسلامی تحریکوں سے وابستہ افرادکوچاہیے کہ عورتوں پر خصوصی توجہ دیں، انھیں شریعت کے عطاکردہ تمام حقوق کی ادایگی کااہتما م کریں ،شرعی حدود کے اندر انھیں تعلیم، طب اور علوم کے میدان میں صلاحیتیں استعما ل کرنے کاموقع دیں۔

بیدار ی ، اُمت کی ضرورت

ان اہداف کے حصول کے لیے سب سے پہلے اسلامی تحریکوں کو دنیابھرمیں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی سوچ اور فکر کو بلند کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلند اہدا ف کاتعین اورامید کی فضا تیارکرنا بھی ضروری ہے۔اس کے لیے دورحاضر کے مسلمان کی تہذیبی ، اخلاقی اور نفسیاتی تربیت اور انسان مطلوب کے اعلیٰ معیار پرایسے افراد تیار کرنا ہوں گے جو ہواے نفس کی غلامی سے آزاد ہوں،جو علاقائیت سے سحر زدہ نہ ہوں ،جنھیں شرکی چکاچونددھوکانہ دے سکے۔وہ پیش آمدہ مشکلات سے پریشان نہ ہوں، بلکہ ان پر قابو پانے اورحق و سچ پرپامردی سے ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

اس اعلیٰ مقصدکے حصول کے لیے ان تمام اداروں کو باہم مل کر فضاتیار کرنی ہوگی جو تربیت ا نسان میں موثر کردار رکھتے ہوں، تاکہ اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان ،اسلام کے سچے پیغام اور آخرت کے دائمی گھر ،سب کی آبیاری ہوسکے۔ اسلامی تحریکوں کو ایسے ایمان کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی جس سے بہترین ومثبت عملی ثمرات ظاہر ہوں۔ اعلیٰ اخلاقیات جنم لیںاوربندگیِرب، تعمیردنیا اوربنی نوع انسان کے فائدے کی صورت سامنے آسکے۔

اسلامی تحریکات کا مستقبل

تحریکاتِ اسلامی نے اپناجو دور پورا کرلیاہے، اس نے عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو بہت کچھ دیاہے۔دین کی جامعیت کاشعوراور اجتماعی زندگی میں دین کی تعلیمات سے روگردانی کا ابطال ،اسلام کے موزونیت اورصالحیت پر اعتماد ،اس کی طرف رجوع اوراسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت کاعزم آج کسی مخصوص جماعت یا حلقے تک محدود نہیں ،بلکہ پورے مسلمان معاشرے میں عام ہوچکاہے۔سیاسی نظم واتحاد اوراقتصادی صلاحیت کے اعتبار سے بھی آج اسلامی دنیا وہاں نہیں جہاں اس صدی کے آغاز میں تھی۔ان روشن پہلوؤں کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ یہ خیال غلط ثابت ہوچکا ہے کہ اسلام کی تفہیم وترجمانی کاکام اس حد تک انجام پاچکاہے کہ اب بجز ضد او رہٹ دھرمی،تعصب اورمفاد پرستی اورجبر وتشدد کے ،اسلام کے قبول عام اوراسلامی نظام کے قیام کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی ہے۔یایہ کہ ہمارے عوام اسلام چاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عمل کے ذریعے اسلامی حکومت کاقیا م عمل میں لایاجائے۔ ابھی فکری اورعملی سطح پر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اسلامی تحریکات کامستقبل کیاہے ؟ اس سوال کاجواب اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ادھورے کاموں کومکمل کرنے اورعصر حاضر میں اسلامی تعمیرنو کے تقاضوں کوپہچان کر انھیں پورا کرنے میںکس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔اس طرح یہ بات بھی فیصلہ کن ہوگی کہ گذشتہ نصف صدی کی تاریخ نے تحریک کے فرداورلائحہ عمل میں جن نقائص اورکمزوریوں کی نشان دہی کی ہے، ان کو پہچاننے اور دُور کرنے میں تحریک کی نئی قیادت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔یہ نئی قیادت     بانیانِ تحریک کی مقلد محض ثابت ہوتی ہے، یا انھی کی طرح اجتہادی فکر سے کام لیتی ہے۔مستقبل کی تعمیر میں اس کی نگاہیں اپنے ماضی ہی کی طرف رہتی ہیں اوروہ اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتی ہیں یامعاصر حالات کے تجزیے اورمستقبل کے بارے میں مبنی بر بصیرت اندازوں کی روشنی میں لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔ تحریکات کے لیے ایک راہ ،راہِ جمود ہے، دوسری اقدام و اجتہاد کی۔ یہی دوسرا راستہ کامیابی کا ضامن ہوسکتاہے۔