عبدالماجد دریابادیؒ


بہار کا موسم آتے ہی چمنِ دہر میں رُوح پرور ہوائیں چلنے لگتی ہیں، خشک درخت سبز ہوجاتے ہیں، پھول کھلنے لگتے ہیں، جسمِ انسانی کی رگوں میں تازہ خون کی گردش ہونے لگتی ہے، سوئی ہوئی اُمنگیں جاگ اُٹھتی ہیں، اور چستی و توانائی کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ جسم و مادہ کی کائنات میں آفتاب کا ایک پورا دور گزر جانے کے بعد یہ موسم آتا ہے، اور طبیبوں کا بیان ہے کہ  جسم سے مادہ فاسد کے دفع کرنے اور مسہل لینے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح روح و جان کی کائنات میں بھی چاند کا ایک پورا دور گزر جانے کے بعد موسم بہار آتا ہے، ماہتاب کو عشق کے سودازدوں سے مناسبت ہے۔ ظاہر ہے، ماہتاب جب اپنے سالانہ سفر کا چکر ختم کرتا ہے، تو عشق و محبت کی اقلیم میں پھر شوریدگی و جنون کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اور سال کے گیارہ مہینے کے اندر غیریت کی جو کدورتیں جم جاتی ہیں، طبیعت ان کے دفع کرنے کے لیے بے قرار ہوجاتی ہے۔ اسی لیے رحمتِ کاملہ و محبوبیتِ مطلقہ نے اپنے وفاشعاروں، اپنے سرمستوں کے لیے      ایک خاص مہینہ، ماسوا سے بے تعلق و بے نیاز رہنے کا مقرر کردیا جس کو اصطلاح میں ماہِ رمضان سے موسوم کرتے ہیں: یٰٓاَیُّـھَا الَّـذِیْنَ اٰمَـنُوْا کُتِبَ عَلَـیْکُمُ الصِّیَامُ (البقرہ ۲:۱۸۳)      اے حسنِ ازل سے پیمانِ وفا باندھنے والو، اے اپنے محبوب کی یکتائی کا کلمہ پڑھنے والو، اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو، آئو اپنے طریق عشق و آئینِ اُلفت میں، ایک مہینہ تک ماسوا پر نظر کرنا تک ناجائز سمجھو، اور اپنی تمام نفسانی لذتوں کو اس بڑی اور حقیقی لذت کے تصور پر قربان کرتے رہو، کہ یہی نفسانی لذتیں، اس شاہد ِحقیقی کے وصال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

یہ شرط محض تمھارے ساتھ مخصوص نہیں، اکیلے تم ہی اس آزمایش میں نہیں ڈالے گئے ہو، بلکہ تمھارے اگلوں میں سے جس جس گروہ نے ہم سے پیمانِ وفا باندھا، جس جس جماعت نے   راہِ اُلفت میں قدم رکھنے کا دعویٰ کیا، اُن سب کو اپنے دعوے کا کچھ ایسا ہی ثبوت پیش کرنا پڑا ہے، ان سب کو کچھ ایسی ہی آزمایشوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ہراساں نہ ہو، بہتوںکی آزمایش اسی طرح ہوچکی ہے: کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْـلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) ۔ اور اس حکم سے غرض تمھیں تکلیف میں ڈالنا نہیں۔ تمھاری جان کو ہلکان کرنا نہیں، بلکہ مقصود صرف تمھاری ہی فلاح و بہبود ہے۔ تمھارے ہی کمالات کی نشوونما اور تمھاری ہی ترقی ہے۔ تمھی میں ضبطِ نفس پیدا کرنا ہے۔ تمھی کو خواہشاتِ نفسانی پر حاکم بننے کی تعلیم دینا ہے، تمھاری پاکیزگی کی چھپی ہوئی قوت کو اُبھارنا، اور تمھیں حیوانیت کے غار سے نکال کر ملکوتیت کے آسمان پر پہنچانا ہے۔ تمھاری بوالہوسی جو تمھاری خودداری پر غالب آجاتی ہے، اسی کو توڑنا منظور ہے۔ تمھاری ہی راہِ عروج میں ہر طرح کی سہولت پیدا کرنی مدنظر ہے اور تمھارے ہی چھپے ہوئے اندرونی دشمنوں، یعنی بدی کی طاقتوں کو ہلاک و نابود کرنا مقصود ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرہ ۲:۱۸۳) اور پھر یہ آزمایش بھی دائمی نہیں، تمھاری ساری عمر کے لیے نہیں، کسی بڑی طویل مدت کے لیے نہیں، بلکہ صرف گنتی کے چند روز، یعنی گیارہ مہینوں کے بعد، رمضان کا ایک مہینہ: اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔

پھر ان عاشقینِ صادقین اور مومنینِ مخلصین میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو باوجود اپنے صدق و خلوص کے، اپنی جسمانی کمزوری یا پردیس میں ہونے کی بنا پر، آسانی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل نہ کرسکیں گے، اُن کے لیے یہ آزمایش زیادہ سخت ہوگی۔ ایسے معذوروں کے لیے اس کی اجازت ہے کہ انھیں جب اطمینان و فراغت نصیب ہو، تو اس ماہِ مبارک کے چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کرلیں۔ ’بلبلِ بہار‘ اگر اپنے جذبۂ دل میں صادق ہے تو اُس کے لیے سال کا ہر موسم موسمِ گل کا حکم رکھتا ہے: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ بعض بیچارے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بہ سبب اپنی جسمانی کمزوری یا کسی اور مجبوری کے، ماہِ مبارک کے بعد بھی روزہ رکھنے میں سخت مشقت محسوس کرتے ہیں۔ ایسوں کے لیے یہ رعایت ہے کہ وہ اپنی معذوری کے کفارہ کے طور پر کسی صاحبِ احتیاج کو پوری طرح کھانا کھلا دیا کریں: وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ اس رخصت و اجازت کے باوجود بھی اگر کوئی شخص محنت و مشقت گوارا کر کے اس بڑی نیکی، یعنی روزہ کو اختیار کرتا رہے، یا ایک مسکین سے زائد کو کھلاتا پلاتا رہے، تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا۔ ایسی نیکی جو فرض نہ رہی ہو، اگر اختیار کی جائے تو اس کے افضل و برتر ہونے میں کیا شبہہ:۔ فَمَنْ تَطَوَّعْ خَیْرًا فَھُوَ خَیرٌ لَّہٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۴)۔ یہ ایک عام اصول بتایا گیا۔ باقی اگر روزہ کی حقیقت پر نظر ہوجائے، روزہ سے جو باطنی ترقیاں مقصود ہیں، اگر ان کا علم ہوجائے، تو کون ایسا ہے جو روزہ کی جانب بہ شوق و رغبت نہ دوڑے۔

یہ ماہِ مبارک صرف اسی لحاظ سے مبارک نہیں، کہ اس میں انسان، صبر وضبط کی خدائی طاقتوں سے نوازا جاتا ہے، بلکہ اس خیروبرکت والے مہینے کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسی ماہ میں اوّل اوّل، دنیا کے لیے بہترین، کامل ترین و جامع ترین ہدایت نامہ اُتارا گیا۔ اسی چاند میں انسانیت کے ظلمت کدہ کو نورانیت کے بدرِ کامل سے پُرانوار بنایا گیا، اور اسی بابرکت موسم میں انسان کے کان میں پہلی بار نغمۂ ازل کی سُریلی آواز، بے ہوشوں کو بیدار اور ہوشیاروں کو مست کرنے والی پکار پہنچی، جس سے بڑھ کر کوئی دولت، جس سے اُونچی کوئی نعمت، جس سے برتر کوئی رحمت، عالمِ تصور میں بھی موجود نہیں: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(البقرہ ۲:۱۸۵)۔ قیس عامری کے پاس اگر لیلیٰ کا کوئی مکتوب یا پیام آجاتا، تو کس طرح وہ اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہوجاتا، اور اس مبارک گھڑی کو کس قدر عزیز رکھتا! حسنِ ازل کے شیدائی بھی، نامۂ یار کے ورود کے زمانہ کو کیوں کر بھول سکتے ہیں۔ جب جب یہ زمانہ آئے گا، اس کی یاد میں بے تاب ہوجائیں گے ، اور اس پاک گھڑی کی پاک سال گرہ منانے میں اپنی بھوک پیاس تک بھول جائیں گے: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔

موسمِ بہار کی فرحتیں، طراوتیں اور نشاط انگیزیاں، بڑے سے بڑے افسردہ دلوں تک میں اُمنگ پیدا کردیتی ہیں اور گل و گلزار کی سیر سے کوئی محروم رہنا نہیں چاہتا۔ ماہِ مبارک کی برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں کا ذکر سن کر بڑے سے بڑے بدہمت اور افسردہ دل کی رگوں میں جوش پیدا ہوجانا، اور بڑے سے بڑے فرزانہ و دُوراندیش میں شورش و شوریدگی کا اُبھر آنا قدرتی ہے۔ حالانکہ یہ آزمایش صرف ان کے لیے ہے جو اس کی جسمانی قوت بھی رکھتے ہیں۔ معذوروں پر  خواہ مخواہ بار و مشقت ڈالنا ہرگز مقصود نہیں۔ اُن کے جذبۂ شوق کو تسکین دینے کے لیے ایک بار پھر اس ارشاد کی ضرورت ہوئی، کہ معذوروں کو ان دنوں کی گنتی بعد میں پوری کرلینی چاہیے، کہ مقصد آسانیِ راہ ہے، نہ کہ تنگی۔ اللہ کی بڑائی کرنے، اور اس کا شکر ادا کرنے کا مقصد، بعد کو بھی گنتی کے دن پورے کرلینے سے حاصل ہوسکتا ہے: وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۵)

یہ پُربہار موسم جب کسی کے شوق و ارمان میں گزرے گا، یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسر ہوں گی، یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک پیاس کے صرف ہوں گے، یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں ہی میں کٹیں گی، تو ناممکن ہے کہ روح میں لطافت، قلب میں صفائی اور نفس میں پاکیزگی پیدا نہ ہوجائے۔ حیوانیت دُور ہوگی، ملکوتیت نزدیک آئے گی اور انسان خوداپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا۔ ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے کہ سوزِ دل اور تیز ہوجائے، قرب و وصل کی تڑپ اور بڑھ جائے، تزکیہ و مجاہدہ کے اثر سے، زنگ دُور ہوکر، کسی کا عکس قبول کرنے کے لیے آئینۂ قلب بے قرارو مضطر ہونے لگے۔ ٹھیک یہی گھڑی، ذوقِ طلب اور ذوقِ عطا، سوال اور اجابت، دعا اور مقبولیت، حاجت مندی اور کریمی، گدائی اور شاہی، بندگی و بندہ پروری کے درمیان ناز و نیاز کی ہوتی ہے، اس لیے قدرتاً اس منزل پر پہنچتے ہی، حجلۂ غیب سے یہ صداے بشارت کان میں آنے لگتی ہے، کہ اے ہمارے پیام پہنچانے والے، ہمارے شیدائی، ہمارے پرستار، ہمارے بندے، اگر تم سے ہمارا پتا پوچھیں، تو اُن کوبتا دو کہ      ہم اُن سے کچھ دُور نہیں، ہم تو ان سے بہت ہی قریب ہیں، ہمیں دل کی تڑپ کے ساتھ پکاریں تو سہی، ہم فوراً ان کی پکار کو سنیں گے۔ وہ صرف ہم سے اپنی لَو لگائے رہیں، اور ہم پر بھروسہ رکھیں، اس سے وہ سیدھی راہ پاکر، اور منزلِ مقصود تک پہنچ کر رہیں گے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۶)۔ (ہفتہ وار سچ، لکھنؤ، ۳ اپریل ۱۹۲۶ئ)

روح کی بالیدگی

کھانا انسان کی زندگی قائم رکھنے کے لیے ہے، یا انسان کی زندگی اس لیے ہے، کہ اُسے کھانے پینے کی لذتوں میں بسر کیا جائے؟ موجودہ مادی دنیا نے شقِ دوم کو اختیار کیا ہے، اور اس کا عمل بھی اسی پر ہے۔ مذہب نے شقِ اوّل کو اختیار کیا ہے، اور اپنے پیرووں کو اس پر عمل کی ہدایت کی ہے۔

اسلام دین فطرت کا دوسرا نام ہے۔ اس میں کوئی شے فطرتِ انسان و فطرتِ کائنات کے مخالف ہو نہیں سکتی۔ وہ ایک طرف اپنے پیرووں کو جائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی بار بار دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف قدم قدم پر لَا تُسْرِفُوْا! دائرۂ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھو کی بھی تاکید کرتا جاتا ہے۔ لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق ہے، اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہوجانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ اسلام نے جو شاہ راہِ ہدایت دنیا کے سامنے پیش کی ہے، وہ فسق و رہبانیت، دونوں سے بچ کر ان کی درمیانی راہ ہے۔

خواص جب گمراہ ہوتے ہیں، تو رہبانیت کے ڈھرے پر پڑ جاتے ہیں۔ عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے۔ نفسِ انسانی میںلذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے۔ اِنسان اکثر انھی لذتوں پر گرتا ہے اور ایسا گرتا ہے کہ انسانیت سے گزر کر بہیمیت کے غار تک پہنچ جاتا ہے۔ روح کو چاہیے کہ روز بروز لطافت کی جانب ترقی کرتی جائے، تاکہ جب جسم سے جدا ہوجانے کا وقت آئے تو اپنے مرکز اصلی کی جانب پرواز کر کے، جو اَزسرتاپا نور و لطافت ہے، وصل و وصال کا وہ انتہائی لطف و سرور حاصل کرے، جس کا نام مذہب کی اصطلاح میں جنت ہے۔ لیکن انسان جب فسق میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی اُن مادی لذتوں میں پڑ جاتا ہے، جو اُس کی روحانی صحت کے حق میں مضر ہیں، تو رفتہ رفتہ اس کی رُوح کثافت اور گندگی میں آلودہ رہنے لگتی ہے، یہاں تک کہ جسم سے جدا ہونے کے بعد اُس میں اپنے مرکزِ اصلی کی جانب پرواز کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، اور مجبوراً اُسے تنزل کرکے مادہ کی کثافتوں اور آلایشوں کے مرکز سے آمیز ہونا پڑتاہے، جو اس سے کوئی بھی طبعی و خلقی مناسبت نہیں رکھتے، اس لیے اسے انتہائی اذیت و تکلیف کا سامنا ہوتا ہے، اور اس کو مذہب کی اصطلاح میں دوزخ کہتے ہیں۔

اسلام خلق اللہ کو راحت و سرور کی انتہائی منزل تک پہنچانے کا بہترین راہ بر ہے۔ اس نے  چن چن کر اپنے نظام و آئین میں وہی باتیں رکھی ہیں، جو روح کی فطری صلاحیت کو بڑھائیں، اور گندگی و کثافت میں آلودہ ہونے سے اُسے محفوظ رکھیں۔ ان سب تدبیروں میں سے ایک اہم تدبیر کا نام روزہ ہے۔ محض بھوکا اور پیاسا رہنا یا خواہ مخواہ کسی کو اپنے تئیں گرسنگی و تشنگی کی تکلیف میں مبتلا کرنا، ہرگز روزہ کا مُدّعا نہیں۔ روزہ کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ انسان کچھ دیر کے لیے تمام اہم لذاتِ مادی کی طرف سے بے توجہ ہوکر رُوح کو اپنی صفائی و پاکیزگی کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دے۔ قرآن پاک میں روزے کی غایت دو لفظوں میں بیان فرما دی گئی ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تم پرہیزگار بن جائو)۔ ’تقویٰ‘ کے معنی ’بچنے‘ کے ہیں۔ بچنا کس شے سے؟ ہر اُس شے سے جو روح کی پروازِ ترقی میں حائل ہوتی ہے۔ ہر اُس شے سے جو روح کے جوہرِ لطیف کے حق میں زہر کا اثر رکھتی ہے۔ ہر اُس شے سے جو روح کو کثافتوں اور آلایشوں کی دلدل میں پھنسائے رکھتی ہے۔ قرآنی بلاغت کا یہ معجزہ ہے کہ اس سارے مفہوم کو ایک لفظ تَتَّقُوْنَ کے ذریعے سے ادا کردیا۔

نماز اور روزہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے دو جداگانہ چیزیں نہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کے ایجابی و سلبی، مثبت و منفی، دو پہلو ہیں۔ نماز کی حیثیت فاعلی ہے، یعنی دربارِ خداوندی میں حاضری دو، اپنی روحِ جزئی کا براہِ راست تعلق رُوحِ کلّی سے پیدا کرو۔ روزہ کی حیثیت انفعالی ہے، یعنی ان چیزوں سے بچو جو اس راہ میں حائل ہوتی ہیں، جو روح کو اس رفتارِ ترقی کے ناقابل بناتی ہیں۔ طبیبِ حاذق علاج بھی کرتا ہے، اور پرہیز بھی بتاتا ہے۔ شفا اُسی وقت ممکن ہے جب مریض دونوں ہدایتوں پر عمل کرے۔ نماز بمنزلۂ دواہے، اور روزہ بمنزلۂ پرہیز۔ دوا اور پرہیز دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ پر ظاہر ہے۔

یہیں سے ہے، کہ دنیا کے کامل ترین انسانؐ کو نماز کے بعد جو عبادت سب سے زیادہ محبوب تھی وہ روزہ تھا۔ رسولِؐ خدا اس کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے کہ اہلِ خاندان اور اصحابؓ بعض اوقات دنگ رہ جاتے۔ وجہ کھلی ہوئی ہے۔ اعلیٰ ترین روح کو روحانی پاکیزگی و صفائی کے نمونے بھی بہترین اور کامل ترین دکھانے تھے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا جس جس نے عمل کیا وہ اپنی مراد کو پہنچ کر رہا۔

کھانے پینے میں زیادتی کرنا، عورت سے میل ملاپ پر حریص ہونا، جھوٹ بولنا، سخت کلامی کرنا، کسی کا دل دُکھانا، کسی کے پیچھے اس کا برائی سے ذکر کرنا، مال و دولت کی ہوس کرنا، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو روح کی لطافت کو صدمہ پہنچاتی ہیں، اس کی بالیدگی کو روک دیتی ہیں، اس میں تازگی کے بجاے پژمردگی پیدا کرتی ہیں اور جسم و مادہ کی کثافتوں کو بڑھاتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی تمام چیزوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے اور روزہ دار کے لیے یہ سب اُمور ممنوع ہیں۔

انسان اگر اپنی عمر کا بیش تر حصہ ان پابندیوں کے ساتھ گزار سکے تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا، لیکن کم از کم سال کا بارہواں حصہ تو اس طرح گزارنا اپنے لیے لازمی سمجھے۔ اور اگر بہت سے بندے مل کر ایک خاص زمانہ اس کے لیے مقرر کرلیں، جس میں وہ سب شریک ہوں تو شرکت و اجتماع کی بنا پر نفسِ روزہ کی برکتیں بدرجہا بڑھ سکتی ہیں۔ مگر سب کا اپنے ارادہ سے ایک خاص زمانہ مقرر کرنا ممکن نہیں، کسی کو کبھی سہولت ہوگی، کسی کو کبھی۔ اس لیے خود شریعت نے (راحت و سرورِ ابدی کی منزل کے بہترین، ہموار ترین و محفوظ ترین راستہ کا نام شریعت ہے) ایک خاص مہینہ کا تعین کردیا، جسے رمضان سے موسوم کرتے ہیں۔

خداے اسلام جس طرح ہمارے رکوع و سجود، ہماری تکبیر و تسبیح سے بے نیاز ہے، اسی طرح اُسے ہمارے بھوکے اور پیاسے رہنے، ہمارے روزہ و تراویح، ہماری سحری و افطار کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ یہ تمام امور صرف ہمارے نفع اور فائدہ کے لیے ہیں۔ ہماری طبیعتیں اور سرشتیں چونکہ شیطانی اثرات سے مسخ ہوچکی ہیں اس لیے آج بہتوں کو روزہ کی پابندی ایک بار معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کل جب حجابات دُور ہوجائیں گے، جب آنکھیں کھل جائیں گی، اس وقت اندازہ ہوسکے گا کہ روح میں اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے اور ابدی سرور و دائمی راحت حاصل کرنے کے لیے روزہ کتنا سہل، آسان، مفید، مؤثر نسخہ تھا۔ کاش! ہمارے سب بھائیوں کی آنکھیں آج ہی کھل جائیں۔ (سچ، ۳ اپریل ۱۹۲۵ئ)

راحت و لذت

نیند پورے سُکھ کے ساتھ کس کو آتی ہے؟ اُس کاہل کو جو رات دن بستر پر پڑا رہتا ہے، یا اُس محنتی کو جو دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد تھک کر اپنے دماغ و جسم کو چند گھنٹوں کے لیے آرام دینے کو لیٹتا ہے؟ کھانے میں اصلی مزہ کس کو ملتا ہے؟ اُس امیر کو جو سارے دن اپنے ذائقہ کی خاطرداریوں میں لگا رہتا ہے، اور طرح طرح کی بدپرہیزیاں کرتا رہتا ہے یا اُس غریب کو جو محنت و مشقت کے بعد دن میں ایک یا دو بار سادہ اور معمولی کھانا کھاتا ہے؟ سوکر اُٹھنے کے بعد فرحت اور چاقی کس کو حاصل ہوتی ہے؟ اُس کو جو ساری رات پریشان اور ہول ناک خواب دیکھتا رہتا ہے، یا وہ جو شروع سے آخر تک میٹھی نیند لیتا رہتا ہے؟ پس اگر کسی کو نیند پورے سکھ کے ساتھ نہیں آتی، کھانے میں پورا مزہ نہیں ملتا، یا سو کر اُٹھنے کے بعد طبیعت سے کسل پوری طرح دُور نہیں ہوتا، تو اُس کی ذمہ داری اور تنہا ذمہ داری، اُسی کی بے احتیاطیوں، بدپرہیزیوں اور بے اعتدالیوں پر آتی ہے۔

روزہ، جسم و روح دونوں کے ایک خاص ضبط و انضباط، تزکیۂ و تنقیہ، پرہیز و احتیاط کا نام ہے، اس کے تمام ہونے پر انتہائی لطف و راحت، لذت و فرحت محسوس ہونی چاہیے۔ اگر آپ اس میں کمی محسوس کرتے ہیں تو یقینا یہ آپ ہی کا قصور ہے اور یہ لازمی ہے کہ روزہ کی کچھ شرطیں آپ توڑ چکے ہیں، اور اس کے جو آداب نگاہ میں رکھنے کے تھے وہ آپ نے نہیں رکھے۔ جسم اور دماغ کو اگر آپ دن بھر صحیح طور پر کام میں لگائے ہوئے ہیں، تو شب کو نیند کی حالت میں بھی سُکھ ملے گا اور نیند پوری کرنے کے بعد بھی فرحت حاصل ہوگی، ٹھیک اسی طرح اگر جسم و روح کو آپ ٹھیک طور پر دن بھر مشغول رکھے ہوئے ہیں، اگر آپ وہی کرتے رہے ہوں جو ایک روزہ دار کو کرنا چاہیے     تو آپ کا دن اور آپ کی رات، آپ کی صبح اور آپ کی دوپہر، آپ کا سہ پہر اور آپ کی شام،  غرض آپ کے وقت کی ہر گھڑی، آپ کے دل کی کلی کو کھلی کھلی رکھے گی۔ افسردگی اور اُداسی آپ کے لیے بے مفہوم ہوگی اور سرُور و نشاط کی ہوائیں آپ کی روح کو تروتازہ رکھیں گی۔

روزہ کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے، آپ کے سامانِ زندگی کے مہیا کرنے والے، اور آپ کی موت اور زندگی، بیماری اور تندرستی، ہرچیز پر قدرت رکھنے والے کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ سارے دن آپ اپنے تئیں، اپنی آنکھ اور کان، اپنے منہ اور زبان، اپنے دل اور اپنے دماغ، اپنے ہاتھ اور پیر، اپنے جسم اور جان، غرض اپنے سارے وجود کو ہر ٹیڑھی راہ سے روکے رہیں گے، ہر کجی اور کج رَوی سے باز رکھیں گے اور صرف اُسی کے لیے وقف رکھیں گے جو اُس کا اصلی کام، اُس کی سیدھی راہ، اُس کا فطری حق، اور اُس کی سچی غایت ہے۔ زبان اگر کھلے گی تو صرف کلمۂ حق پر، کان اگر سنیں گے تو صرف سچی آواز، آنکھ اگر دیکھے گی تو صرف امرِحق کو، دل اگر سوچے گا تو صرف سچائیوں کو، ہاتھ اور پیر اگر حرکت کریں گے تو صرف سچائی کی راہ میں۔ مادی زندگی کے سب سے بڑے اور طاقت ور مظہر، سورج کے ڈوب جانے پر، جب آپ اُس ذات کے شکر کے ساتھ جس نے آپ کو یہ توفیق دی، اپنا جائزہ لیں اور اپنی اس نذر کی ہر شرط کو پوری طرح ادا کیا ہوا پائیں تو___ دنیا کے کس لفظ اور کس عبادت میں اس کیفیت کو ادا کرنے کی قدرت ہے! رضاے الٰہی آپ میں اور آپ رضاے الٰہی میں جذب ہوں گے! راحت و لذت، لطف و مسرت، سرور و نشاط، شادی و انبساط، یہ سارے الفاظ اس بڑی فرحت (افطار) کی کیفیت کو ادا کرنے کے لیے ناکافی ہیں جو اُس سب سے بڑی فرحت (دیدارِ الٰہی) کا پیش خیمہ ہے، جس سے موسیٰ کلیم اللہ جیسے برگزیدہ پیمبر، باجود شوق و تمنا، اس دنیا میں محروم رہے! (سچ، ۳ مارچ ۱۹۲۷ئ)

تزکیۂ نفس

آپ کو معلوم ہے کہ اطباے یونانی کتنے متعدد امراض میں فاقہ کو مفید بتاتے ہیں؟ آپ کو خبر ہے کہ ڈاکٹروں کے اصول سے اب فاقہ کتنے امراض کا علاج ثابت ہوچکا ہے؟ آپ واقف ہیں کہ ہر طریقۂ علاج کے ماہرین فن نے کتنی شدید اور مہلک بیماریوں کا علاج اپنے تجربہ میں فاقہ ہی کو پایا ہے؟ خود آپ کا ذاتی تجربہ کیا ہے؟ آپ کو جب کبھی بیماری میں طبیب یا ڈاکٹر فاقہ کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ کیسی خاموشی کے ساتھ بے چون و چرا اور بغیر بحث و مناظرہ اُس کے حکم کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اُس کی ہدایتوں کے مطابق کھانے اور پینے کی لذتوں سے  دست بردار ہوجاتے ہیں! لیکن جب اس سے کم تکلیف اور اس سے ہزاروں گنی زائد راحتوں اور نعمتوں کے وعدہ کے ساتھ کھانے پینے میں اس قسم کی احتیاط کا حکم آپ کو سب سے بڑے حکیم کے مطب سے ملتا ہے، تو یہ کیا ہے کہ آپ اس خوش دلی کے ساتھ اُس کی تعمیل پر آمادہ نہیں ہوجاتے بلکہ طرح طرح کی تاویلوں سے، جن سے اکثر خود آپ کا دل بھی مطمئن نہیں ہوتا اُسے ٹال جانا چاہتے ہیں!

آپ کہتے ہیں کہ آپ خدا کے فضل سے روزہ دار ہیں اور ماہِ رمضان کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں لیکن پھر یہ کیا ہے کہ آپ کی اندرونی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہیں محسوس ہوتا۔ غصہ اب بھی آپ کو برابر آتا رہتا ہے بلکہ شاید کچھ اور بڑھ ہی گیا ہے۔ دوسروں کی عیب چینی میں اب بھی آپ کو ویسا ہی مزہ آرہا ہے۔ نفسانی خواہشوں اور لڑنے جھگڑنے کے منصوبوں میں اب بھی کوئی کمی نہیں معلوم ہوتی۔ دن میں بے شبہہ آپ کھاتے پیتے نہیں ہیں لیکن وقت کا بڑا حصہ بجاے عبادتوں کے، سونے اور بے کاری میں گزارتے ہیں، یا پھر سحری، طعامِ شب اور افطار پارٹیوں کے اہتمام و انتظام میں! وہ لذیذ اور ثقیل غذائیں جن سے آپ کا ذائقہ، سال میں گیارہ مہینے بالکل نامانوس رہتا ہے، آپ صرف اسی ماہ صبرو تقویٰ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں، اور وقت اور روپے کا اچھا خاصا حصہ اسی ماہِ مبارک کی دعوتوں اور ضیافتوں میں صرف فرماتے رہتے ہیں! کیا اسی روزہ داری پر آپ خوش ہیں؟ کیا اسی کا نام آپ کے خیال میں ماہِ مبارک کا احترام ہے؟ (سچ، ۲۱ مارچ  ۱۹۲۷ئ)

حرماں نصیبی

کھانا کھانے میں آپ کو لطف کس وقت آتا ہے؟ اُس وقت جب کہ بھوک کھل کر لگی ہو، یعنی کچھ دیر پیشتر سے کھانا نہ کھایا ہو۔ پانی کے گلاس میں مزہ کس وقت ملتا ہے؟ اُس وقت، جب کہ پیاس لگی ہوئی ہو، اور پانی پینے کی طلب بے قرار کر رہی ہو۔ نیند سُکھ سے کس وقت آتی ہے؟ اُس وقت، جب کہ کچھ گھنٹے قبل سے آپ برابر جاگ رہے ہوں۔ ان ساری مثالوں میں آپ کو روز مرہ، ہر وقت اور ہر جگہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ مادی لذتوں سے بھی پوری طرح لطف اُٹھانے کے لیے کسی قدر ضبط، صبرواحتیاط لازمی ہے۔ یہی آپ کا مشاہدہ ہے، یہی آپ کا تجربہ ہے، اور اسی پر آپ کا عمل ہے۔ یہ آپ کبھی نہیں کرتے کہ مسلسل ۲۴ گھنٹے منہ میں نوالے چباتے رہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں کرتا کہ ہرمنٹ لگاتار پانی کے گھونٹ اُتارتا رہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھا ، کہ دن اور رات، صبح اور شام، ہر وقت برابر پڑا سوتا ہی رہے۔

’روشن خیالی‘ جب ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، تو تعطیل اور چھٹی کو بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بنا دیتی ہے۔ اسکولوں کے کمرے، کالجوں کے ہال، عدالتِ عالیہ کے ایوان، ہفتوں سے بند چلے آرہے ہیں، اس لیے کہ موسمِ گرما کی ’تعطیل کلاں‘ کا زمانہ ہے! کچہریاں اور دفتر بند ہیں، اس لیے کہ آج بڑا دن ہے۔ ڈاک خانہ اور تارگھر، بنک اور خزانے بند ہیں، اس لیے کہ آج اتوار ہے! یہ سب اس لیے ہے کہ دماغ کو آرام ملتا رہے، اور تازہ دم ہونے کے بعد کام بہتر طور پر انجام پاتارہے۔ آپ اپنے اس نظام اور اس انتظام پر شرماتے نہیں، فخر کرتے ہیں۔ اور آپ کی عقلیت و روشن خیالی کا یہ ایک مسلّمہ ہے، کہ کام میں زیادہ مستعدی اور بہتر کارگزاری کے لیے جسم اور اعضاے جسم کو آرام دیتے رہنا لازمی ہے! یہ نہیں کہتے کہ اس سے کام میں خواہ مخواہ ہرج اور نقصان ہوتا ہے۔

لیکن جب مذہب آپ سے کہتا ہے کہ سال کے ایک خاص زمانہ میں چند گھنٹوں کے ایک محدود وقت کے لیے معدہ کو آرام دیتے رہو، بھوک اور پیاس کو ضبط کرتے رہو، تو معاً آپ کی عقلیت و روشن خیالی بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ آپ اپنے روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ،  نظریات و عملیات، سب کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں، رمضان کی آمد کو اپنے لیے ایک قہرومصیبت سمجھنے لگتے ہیں۔ اور اگر زبان سے نہیں تو کم از کم دل میں تو یہ ضرور کہنے لگ جاتے ہیں کہ روزہ کی  یہ قیدیں کیسی سخت ہیں۔ اور آپ کے کمزور قویٰ ہرگز اتنی بڑی محنت کو نہیں برداشت کرسکتے!     بے شک اگر آپ ہزاروں روپیہ کمانے اور اُڑانے والے بیرسٹر ہیں، اگر آپ اپنی ’سرکارِ ابدقرار‘ کے بنائے ہوئے جج یا کلکٹر ہیں، اگر آپ صوبہ یا ملک کی کونسل کے ممبر ہیں، اگر آپ لاٹ صاحب اور بڑے لاٹ صاحب کی پارٹیوں میں شریک ہونے والوں میں ہیں، اگر آپ کے پاس سواری کے لیے موٹریں، اور رہنے کے لیے اُونچی اُونچی کوٹھیاں موجود ہیں، تو آپ کی محرومی اور حرماں نصیبی نے، اجرِروحانی و راحتِ سرمدی کی طرح، روزمرہ کی مادی لذتوں اور جسمانی فائدوں کا بھی دروازہ آپ پر بند کر رکھا ہے، اور آپ کی اس بے مائیگی پر جن و بشر، حوروملائک جتنا بھی ترس کھائیں  کم ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی خوش بختی سے کوئی غریب کاشتکار ہیں، کوئی مفلس مزدور ہیں، کوئی    کم حیثیت خدمت گار ہیں، بھاری بھاری بوجھ کی گٹھریاں اور گٹھے اپنے سر پر لادنے والے ہیں، دھوپ میں جل جل کر اور بھن بھن کر کام کرنے والے ہیں، تو ان شاء اللہ آج آپ اپنے خالق و مالک کے حکم کی تعمیل میں رمضان المبارک کی بارانِ رحمت سے سیراب ہورہے ہوں گے! یقین کیجیے کہ  آج آپ کے مرتبے پر، زمین پر بسنے والے نہیں، آسمان پر اُڑنے والے، فضاے قُدُس میں سانس لینے والے، حریمِ عرش کے پایے تھامنے والے رشک کر رہے ہیں! ممکن ہے کہ آج یہ شاعری معلوم ہورہی ہو لیکن کل ان شاء اللہ حقیقت ہوکر رہے گی، اور اُن بے خبروں کو بھی خبردار کرکے رہے گی، جو آج روزہ داری کے طبی فوائد اور مادی لذتوں سے بھی محرومی میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں! (سچ، ۳مارچ  ۱۹۲۸ئ)۔ (انتخاب: تفسیر ماجدی، ص ۱۰۲-۱۰۴)