راشد نسیم


یومِ عرفہ ایک تاریخ ساز دن ہے جب لاکھوں انسان عہد الست تازہ کرنے میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ میدان پہاڑوں کے درمیان ایک ویران اور سنسان سی جگہ ہے جو سال بھر غیرآباد رہتی ہے۔ جہاں نہ عمارتیں ہیں اور نہ شان دار رہایش گاہیں۔ یہاں ۹ ذی الحج کو اللہ کے بندے ساری دنیا سے کٹ کر، تمام مادی آسایشیں اور سہولتیں چھوڑ کر، تمام رشتہ داروں سے ناطہ توڑ کر  دو اَن سلے سفید کپڑوں، یعنی کفن کے لباس میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور تو اور، وہ خانہ کعبہ سے بھی دُور ہوتے ہیں۔ وہ خانہ کعبہ، اللہ کا گھر، ایک پُروقار گھر، جس کو دیکھ کر انسان کے قلب ِ مضطرب و بے قرار کو سکون ملتا ہے، آنکھوں کو راحت اور ٹھنڈک پہنچتی ہے، انسان گھنٹوں اس گھر کو دیکھتا ہے لیکن طبیعت ہے کہ سیر نہیں ہوتی۔ لیکن اس گھر کو بھی چھوڑ کر انسان ویران و بیابان عرفات کے میدان میں حاضر ہوتا ہے۔

میدانِ عرفات میں ۹ ذی الحج کی حاضری ہی دراصل حج ہے۔ حدیث میں آتا ہے: حج تو عرفہ ہے، یعنی ۹ذی الحج کو زوالِ آفتاب کے بعد سے طلوعِ فجر سے پہلے تک عرفات کے میدان میں حاضر ہونے کا نام حج ہے۔ جو کوئی اس متعین تاریخ کو متعین وقت میں عرفات میں حاضر     نہ ہوسکا اس کا حج نہیں ہوا۔ اس کا کوئی دَم نہیں، اس میں کوئی تاخیر نہیں، اس کا کوئی ازالہ نہیں۔ وقوفِ عرفات نہیں توکچھ نہیں، یعنی حج نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مریضوں کو ہسپتال سے      ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اور ایمبولینس کے ذریعے اس خاص وقت میں حدودِ عرفات میں اس حالت میں لایا جاتا ہے کہ آکسیجن لگی ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جو عرفات میں حاضر ہوگیا، حج اسی کا ہے ___ یہ ہے اصل حج۔ پھر یہاں اصل اہمیت حاضری کی ہے۔ نمازیں بھی کم ہوجاتی ہیں،    ظہر اورعصر ملا کر پڑھی جاتی ہیں، جب کہ مغرب اور عشاء وہاں ادا ہی نہیں کی جاتیں بلکہ مزدلفہ میں جاکر ادا کی جاتی ہیں۔

عرفات وہ مقام ہے جہاں لاکھوں انسان ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں، ہر طرف گریہ و زاری کے مناظر ہیں، آواز رُندھی ہوئی ہے، اپنے رب سے راز و نیاز کر رہے ہیں۔ میدانِ عرفات کے اس بے آب و گیاہ ویرانے میں یہ خاص کیفیت لوگوں پر کیوں طاری ہوتی ہے؟ یہ بے تحاشا آنسو کیوں بہتے ہیں؟ پھر جو سکون، جو چین انسان کو اس رونے اور گریہ و زاری میں ملتا ہے وہ دنیا جہان کی دولت و ثروت اور مادی سہولتوں میں نہیں ملتا۔ کیوں؟ میدانِ عرفات میں کیا ہے؟ یہاں کی حاضری کیسی ہے؟ انسان کا اس میدان، اس جگہ سے کوئی خاص تعلق ہے؟ میدانِ عرفات میں ایسی کیا چیز ہے کہ نہ صرف وہاں حاضری لازمی ہے بلکہ اس حاضری میں بے شمار انسانوں پر بے حد رقّت اور گریہ طاری ہوتا ہے، آخر کیوں؟

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنo (الاعراف ۷:۱۷۲) اور اے نبیؐ! لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘۔

مفسرِ قرآن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے امام احمد ، نسائی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے     کہ یہ عہدو قرار اس وقت لیا گیا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اُتارا گیا اور مقام اس اقرار کا وادی نعمان ہے جو میدانِ عرفات کے نام سے معروف و مشہور ہے (تفسیرمظہری، معارف القرآن، تفسیر سورئہ اعراف، آیت ۱۷۳)

گویا اس سرزمینِ عرفات کا انسان سے ایک ازلی تعلق ہے۔ یہاں انسان کو اس کی اصل یاد کرانی مقصود ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو انسان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی اور عہد ہوا تھا۔ یہ وہ بات ہے جو انسان کی روح کی گہرائیوں میں موجود ہے، اس کے شعور میں پنہاں ہے۔ ۹ ذی الحج یومِ عرفہ کہلاتا ہے، یعنی پہچان کا دن، شناخت کا دن، اپنے رب کی معرفت کا دن، خود آگہی کا دن۔ عرفات میں اصلاً بندہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے۔ پہلی ملاقات لاشعور میں بسی ہے اور اب یہ دوسری ملاقات شعور کے ساتھ ہورہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ویرانے میں پہاڑوں کے درمیان بندہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کی رب سے ملاقات ہوئی ہو، تبھی تو اس کی بے چینی دُور ہوتی ہے، روح کو سکون و قرار ملتا ہے کیونکہ انسان اصلاً روحانی وجود ہے، گوکہ جسم بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ جب انسان کی موت واقع ہوتی ہے تب انسان اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے، کہہ رہا ہوتا ہے: انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون،ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ کیا چیز اللہ کی طرف پلٹ گئی؟ یقینا وہ ’روح‘ ہی تو ہے۔ جسم تو موجود رہتا ہے لیکن بے قیمت اور بے وقعت ہوجاتا ہے۔ لوگ اس جسم کو مٹی میں دفن کرنے کی جلدی کرتے ہیں، گویا خاک کے پیکر کو خاک میں ملا دینے کی جلدی۔ اس لیے کہ روح نکلنے کے بعد جوکچھ بچتاہے وہ مٹی میں ملانے ہی کے لائق ہے۔ اصل قیمتی چیز روح تورخصت ہوگئی جس کی وجہ سے اس جسم کی قیمت بھی تھی اور اِس عارضی دنیا میں مقام بھی تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی چکاچوند اور عیش کدوں میں وہ سکون نہیں جو عرفات کے میدان، پہاڑوں کے درمیان اس ویرانے میں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو انسان کی فطرت میں بسی ہوئی ہے اور رب سے ملاقات ہو توسکون ملنا ہی چاہیے۔ ربانی روح رکھنے والی مخلوق اپنے رب کے حضور حاضر ہو تو چین اور اطمینان تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن یہ کیا کہ آنسو بہتے ہیں، گریہ طاری ہوتاہے۔ آخر کیوں؟

احادیث میں آتا ہے کہ ’’جب بندے پر اللہ کا کوئی فرشتہ نازل ہوتاہے توانسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، دل میں رقّت طاری ہوتی ہے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت تو فرشتوں سے ملاقات پر ہوتی ہے۔ لیکن اس رقت اور آنسوؤں میں کتنا سکون ہوتا ہے، کس قدر چین ہوتا ہے، اس کا تجربہ بعض لوگوں کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ لیکن عرفات میں بہت بڑے پیمانے پر انسانوں کو یہ تجربہ ہوتا ہے۔ آنسو بہہ رہے ہیں لیکن قلب کو طمانیت اور روح کو سکون وقرار ملتا ہے۔ عرفات ہی تووہ جگہ ہے جہاں رب سے پہلی ملاقات عالمِ ارواح میں ہوئی تھی اور حج کے موقع پر ایک مرتبہ پھر انسان اسی جگہ پہنچ جاتا ہے جو کہ اس کی روح میں رچی بسی ہے۔ کیا کیفیت اور کیسی لذت انسان کو حاصل ہوتی ہے، اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوْبُ۔

یہ آنسو خوشی کے ہیں۔ انسان جب بے پناہ خوش ہو یا بہت زیادہ مطمئن ہو تو اس کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یومِ عرفہ اپنے آپ کو پہچاننے کا، اپنی شناخت کا، خود آگاہی کا، اپنی حقیقت پانے کا دن ہے۔ یہی تو وہ جگہ ہے جہاں رب سے ملاقات ہوئی تھی، قول وقرار ہوا تھا۔ یہ اعلان اور دعویٰ کیا تھا کہ رب اگر کوئی ہے تو وہی ہے جس نے یومِ عرفہ بنایا ہے (شاید کہ وہ ۹ ذی الحج ہی ہو، جب کہ یہ قول وقرار ہوا ہو)۔ عرفات کا میدان ہی وہ مقام ہے، جہاں عالمِ ارواح میں اپنے رب سے ملاقات ہوئی تھی، اوریہی وہ جگہ ہے جہاں عرفہ کے دن رب کے حضور حاضری ہوتی ہے، اور ایک روایت کے مطابق میدانِ حشر بھی میدانِ عرفات ہی ہوگا، یعنی تیسری ملاقات بھی رب سے اسی جگہ پر ہونی ہے۔

عرفات وہ جگہ ہے جہاں رب کو رب ماننے کااقرار کیا تھا۔ یہ عہد انسان کی فطرت میں ہے۔ حدیث میں ہے: ’’ہرپیدا ہونے والا دین فطرت، یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں‘‘ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث قدسی ہے: ’’میں نے اپنے بندوں کو حنیف، یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے۔ پھر شیطان ان کے پیچھے لگ گیا اور ان کو صحیح راستے سے دُور لے گیا‘‘(مسلم)۔ لہٰذا اس راستے سے انسان ہٹے گا توچاہے دنیا کتنی ہی رنگین، خوش نما اور چکاچوند کرنے والی ہی کیوں نہ ہوجائے، سکون اور چین انسانیت کو نہیں مل سکتا۔

یومِ عرفہ کا پیغام یہ ہے کہ اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجائو۔ وہ رب جو اصلاً انسانوں کا رب ہے اگر اس کی ربوبیت انسانیت میں قائم نہیں ہے تو اس کی ربوبیت کو انسانی دنیا میںقائم کرو۔

یٰٓـاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ (المدثر ۷۴:۱-۳) اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔