امیرالدین مہر


عام مسلمانوں میں کثرت سے اور بعض خواص میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جو بڑی کوتاہیاں اور غلطیاں ہو رہی ہیں، ان میں سے ایک کوتاہی میراث کا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرنا، بلکہ ایک وارث یا چند وارثوں کا اسے ہڑپ کر جانا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی اور کافروں کا عمل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۹-۲۰) اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو۔

عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا، اور ان سب لوگوں کا حصہ بھی مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے تھے۔ میراث اور ورثے کی تقسیم کے بارے میں دنیا کی مختلف قوموں کے نظریات، خیالات اور طور طریقے کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے کسی میں بھی اعتدال اور انصاف نہیں تھا۔ بعض قومیں میراث میں عورتوں اور بچوں کو بالکل حصہ نہیں دیتی تھیں۔ عرب جاہلیت کی قومیں، برعظیم پاک و ہند کی قومیں اور دیگر علاقوں کے لوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہیں دیتے، پھر بیٹوں میں بھی انصاف و برابری نہیں تھی۔ کسی بیٹے کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دیا جاتا تھا۔

بعض اقوام نے میراث دینی شروع کی تو پرانے جاہلیت کے طریقے کو چھوڑ کر نئی جاہلیت اپنائی اور عورتوں کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ یہ دوسری انتہا اور زیادتی ہے جس میں بھی    انصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے گئے۔ میراث کی تقسیم میں افراط و تفریط دنیا کے بہت بڑے حصے میں پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے اور مسلم اُمت بھی اس کبیرہ گناہ میں گرفتار ہے۔ (تلخیص تفہیم القرآن، مولانا صدر الدین اصلاحی، ص ۱۴۱)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِ میراث کے احکام بالکل صاف واضح، متعین اور دو اور دو چار کی طرح مقرر کردیے، اس میں کوئی الجھائو اور شبہہ تک نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دبائو کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے تو اور بات ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہے گی۔ میراث کی تقسیم، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادایگی، وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے۔ (النساء ۴:۱۱)

  •  میراث کی حکمت و احکام:تقسیمِ میراث میں حصہ پانے والوں کے حصے مقرر کرتے ہوئے کچھ باتیں کلام کے درمیان میں بیان کی گئی ہیں جن سے اس مسئلے کی پوشیدہ حکمتیں، اہمیت، فرضیت اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور اسے چھوڑ دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عذاب بیان کیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۱۱-۱۲)

۱- میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمھارے قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور تمھاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۱)

۲- تقسیمِ میراث کی آیات میں وصیت اور ادایگیِ قرض کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض (قرض دار) کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کی ادایگی لازمی ہے۔ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔

۳- میت کی ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے۔ جس محسن کی میراث لی جارہی ہے، اس کا اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ اس کا کہا مانتے ہوئے ایک تہائی میراث میں سے اس کی وصیت پوری کی جائے۔ اگر وصیت، ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر سب بالغ ورثا راضی ہوں تو پورا کر دیں، ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔

۴- جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بشرطیکہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات و صدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث نابالغ اور کم سن ہوں تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ایسی خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم پُری کر رہے ہیں۔

۵- میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں (۱۳-۱۴) بہت ہی اہم ہیں۔ ان سے  تقسیمِ میراث کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے۔ آیت ۱۴ کے بارے میں مفسر قرآن مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت کو تبدیل کریں یا، ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس کے قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئیں ہیں وہ اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر ’مشترکہ خاندانی جایداد‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کر دیا گیا‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن، ص ۱۴۱)

قیامت کے دن ہر مسلمان سے پانچ اہم سوال کیے جائیں گے اور ان کے جواب طلب کیے جائیں گے۔ جب بندہ ان کے جواب دے دے گا تب قدم آگے بڑھائے گا۔ ان سوالوں میں سے دو سوال، یعنی ایک سو نمبروں میں سے ۴۰ نمبر یا ۴۰فی صد سوال مال کے بارے میں ہوں گے۔

حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے بیان کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن   اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کو کس کام میں گھُلایا؟ (ترمذی، کتاب الزہد، ص ۵۵۰)۔ ان پانچ سوالوں میں سے دو سوال صرف مال کے بارے میں ہیں، یعنی دیگر مالی معاملات کے علاوہ میراث کے مال کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ کیسے حاصل کیا؟ کیا دوسرے وارثوں کا حق مار کر اپنا حصہ لیا اور دوسروں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا؟

میراث کو قرآنِ مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں اور ترغیب دیں تو ان پر سے فرض کفایہ  اُتر جائے گا، اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں تو سب پر سے فرض اُتر جائے گا۔

آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں کو دیکھتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور   بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور رسولؐ اللہ کی سنت سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک سروے کا اہتمام کیا جائے کہ کتنے فی صد لوگ میراث شرعی طریقے پر تقسیم کرتے ہیں تاکہ حقیقی صورت حال سامنے آسکے اور لوگوں کو توجہ دلائی جاسکے کہ بحیثیت مجموعی ہم  اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے کتنی غفلت برت رہے ہیں۔بھارت میں بھی بہت تھوڑے مسلمان ایسے ہیں جو تقسیمِ میراث کے شرعی قانون پر عمل پیرا ہیں۔

  •  تقسیمِ میراث کے فوائد:شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیمِ میراث کی برکتیں اور رحمتیں اور اجروثواب بہت زیادہ ہے۔ اس سے اجتماعی و انفرادی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱- اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔

۲- میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی فرمایا ہے۔

۳- قیامت کے دن رسولؐ اللہ کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔

۴- ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔

۵- جن عزیز و اقارب اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ ان کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔

۶- تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو اسلام کا ایک مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر ۵۹:۷) ’’تاکہ وہ تمھارے  مال داروں ہی کے درمیان گشت نہ کرتا رہے‘‘۔

۷- تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔

۸- میراث کی حق دار عورتوں کو اپنے حق کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے۔ میراث میں عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کا حق ہے، لہٰذا انھیں اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ  آگے بڑھ کر تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے اور قرآن مجید کے اس حکم (فرضِ عین) پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عورتوں کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دبائو کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ خاندان کے دوسرے افراد کو بھی ان کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  •  میراث تقسیم نہ کرنے کے نقصانات: میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو   محروم رکھنے کے کئی خطرناک پہلو ہیں جن میں میراث کھانے والے مبتلا ہوکر گنہگار ہوتے ہیں۔    یہ درج ذیل ہیں:

۱- میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوئوں اور غیرمسلم اقوام کا طریقہ ہے۔

۲- میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی ہے۔       یہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

۳- میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور یہ شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔

۴- میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا، اور قرض بھی  واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔

۵- ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رُو سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔

۶- جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

۷- میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔

۸- جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں حق دار وارث ان کو بددعائیں دیتے ہیں۔

۹- میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔

۱۰- شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرتی ہے۔

 

۱۵۰ سنہ ہجری ہے‘ خلیفہ مہدی بن منصور عباسی کی خلافت کا دور ہے‘ بغداد دارالخلافہ ہے‘  صوبہ کوفہ میں خلیفہ کا چچازادبھائی موسیٰ بن عیسیٰ عباسی امیر (گورنر) ہے۔ کوفہ کے قاضی شریک بن عبداللہ ہیں۔ قاضی صاحب کو خلیفہ نے جب قاضی مقرر کر کے کوفہ بھیجا تو انھوں نے قضا کا عہدہ خود طلب نہیں کیا تھا بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے بامر مجبوری اس شرط پر قبول کیا تھا کہ ان کا احترام کیا جائے گا‘ صحیح فیصلے پر ان کی تائید کی جائے گی‘ اور عدلیہ اپنے کام میں آزاد ہوگی۔ چنانچہ یہ قاضی بن کر کوفہ آگئے۔

ان کی عدالت کھلے عام منعقد کی جاتی تھی اور بعض اوقات کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے۔ ان کے فیصلے کا ایک واقعہ جو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے‘ آج کی انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے روشن مثال ہے۔

قاضی شریک عدالت میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک عورت حاضر ہوتی ہے اور دہائی دیتے ہوئے عرض کرتی ہے کہ قاضی صاحب! اللہ کے بعد میرا آپ سہارا ہیں! قاضی صاحب نے پوچھا‘ تیرے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ میرا ایک باغ امیر کوفہ موسیٰ بن عیسیٰ نے خریدنا چاہا‘ میں نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے وہ زبردستی مجھ سے لے لیا۔ قاضی صاحب نے اپنے کارندے کو اپنا خط دے کر امیر کے پاس بھیجا اور انھیں عدالت میں طلب کیا۔

امیر نے اپنے پولیس آفیسر کو بلایا اور اس سے کہا کہ قاضی شریک کے پاس جائو اور ان سے کہو: واہ! مجھے آپ کی بات سے بہت ہی تعجب ہوا۔ ایک عورت نے دعویٰ دائر کیا جو صحیح نہیں ہے اور آپ نے فوراً اسے مان لیا اور مجھے طلب کر لیا۔

پولیس افسر نے امیر سے عرض کیا: امیر محترم! مجھے اس کام سے معاف رکھیے اور کسی دوسرے کو بھیج دیجیے۔ اس پر امیر نے ڈانٹ کر کہا کہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں‘ جائو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ چنانچہ وہ افسر وہاں سے نکلا اور نکلتے ہوئے اپنے خادموں سے کہہ گیا کہ آپ لوگ میرے لیے بستر‘ فرش اور دوسری ضرورت کی اشیا‘ قاضی کی جیل میں رکھ آئو۔ وہ قاضی شریک کے پاس حاضر ہوا اور امیر کا پیغام ان کو پہنچایا۔ قاضی صاحب نے مجلس میں حاضر خادم کو حکم دیا کہ اس افسر کو بازو سے پکڑ کر لے جائو اور جیل میں ڈال دو۔ پولیس افسر نے کہا: بخدا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ مجھے جیل میں ڈالیں گے۔ چنانچہ جیل میں مجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی وہ میں نے پہلے ہی بھجوا دی ہیں۔ موسیٰ بن عیسیٰ کو جب اس کی خبر ہوئی تو قاضی کی طرف اپنے حاجب کو بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ جا کر قاضی صاحب سے کہو: ایک پیغام بر پیغام دینے کے لیے آپ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کس بنیاد پر جیل میں ڈال دیا؟

جب حاجب قاضی صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے اس کی بات سن کر کہا کہ اسے بھی پہلے ساتھی کے ساتھ جیل میں ڈال دو۔ چنانچہ یہ بھی بند کر دیے گئے۔

امیر موسیٰ نے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد کوفہ کے ان معززین کو بلایا جو قاضی صاحب کے دوستوں میں سے تھے اور ان سے کہا کہ آپ حضرات قاضی صاحب کے پاس جائیں اور انھیں میرا  سلام پہنچائیں اور انھیں بتائیں کہ آپ نے میری اہانت کی ہے۔ میں کوئی عام آدمی تو نہیں ہوں جو آپ ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں‘ اس انداز سے مجھے بلا رہے ہیں‘ اور میرے نمایندہ افسروں کو جیل میں ڈال رہے ہیں۔

یہ حضرات قاضی صاحب کے پاس آئے ‘ جب کہ وہ نماز عصر پڑھ کر اپنی مسجد میں بیٹھے تھے۔ ان حضرات نے امیر کا پیغام پہنچایا۔ جب یہ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو قاضی صاحب نے بآواز بلند کہا کہ محلے کے کچھ نوجوان موجود ہیں؟ اس پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے لبیک کہا۔ انھوں نے حکم دیا کہ تم میں سے ہر ایک ان افراد کا ہاتھ پکڑے اور جیل میں لے جائے۔ پھر ان حضرات سے کہا کہ تم لوگ فتنہ باز ہو اور تمھاری سزا جیل ہے۔ وہ بولے: قاضی صاحب! آپ مذاق کر رہے ہیں یا کوئی اور بات ہے؟ انھوں نے کہا: بالکل صحیح بات ہے ‘تاکہ آیندہ تم ظالم کا پیغام لے کر نہ آئو۔ پھر انھیں بھی جیل میں بند کر دیا گیا۔

رات کے وقت امیر موسیٰ جیل کے دروازے پر آئے اور اسے کھلوا کر ان سب لوگوں کو جیل سے نکال کر لے گئے۔

جب دوسرے دن قاضی صاحب آکر اپنی عدالت میں بیٹھے تو جیل کا داروغہ آیا اور رات کی سرگزشت بتائی۔ چنانچہ انھوں نے اسی وقت امیرالمومنین کو خط لکھا اور اپنے خادم سے کہا کہ میرا سامان باندھو اور بغداد پہنچا دو۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ ذمہ داری ہم نے ان سے طلب نہیں کی تھی بلکہ انھوں نے زبردستی ہمیں دی تھی‘ اور دیتے وقت انھوں نے‘ ہمیں اس کا احترام و وقار برقرار رکھنے کی ضمانت دی تھی۔ اس کے بعد وہ کوفہ سے بغداد جانے والے اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔

یہ خبر جب امیر کوفہ کو پہنچی تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ سوار ہوئے اور ان سے آکر ملے اور انھیں اللہ کاواسطہ دے کر‘منت سماجت کرتے ہوئے کہا: ابو عبداللہ‘ (قاضی شریک)! ذرا تحمل سے کام لیں اور غور کریں کہ یہ لوگ آپ کے بھائی ہیں جنھیں آپ نے جیل میں ڈالا ہے اور میرے ساتھی ہیں ‘لہٰذا ان کو چھوڑ دیں۔ قاضی صاحب نے کہا: یہ آپ کی ایسی بات کی سفارش لے کر آئے تھے جس کے لیے ان کا آنا جائز نہیں تھا۔ لہٰذا میں یہ رات یہاں نہیں گزارنا چاہتا۔ یا یہ تمام لوگ جیل میں دوبارہ ڈالے جائیں یا بصورت دیگر میں امیرالمومنین مہدی کے پاس جا کر اپنی ذمہ داری سے استعفا دیتا ہوں۔

اب موسیٰ نے مجبور ہو کر ان کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا اور خود اسی جگہ اس وقت تک رکے رہے جب تک جیلر نے آکر ان سب کے جیل میں پہنچنے کی اطلاع نہ دی۔ پھر قاضی صاحب نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ امیر کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میرے سامنے عدالت میں لے چلیں۔ چنانچہ یہ قاضی صاحب کے سامنے چلتے رہے اور آکر مسجد (عدالت کی جگہ) میں داخل ہوئے اور قاضی صاحب مسند قضا پر بیٹھے۔ اس مظلوم عورت کو بلایا اور اپنے سامنے اور امیر کے برابر بٹھایا۔ امیر نے کہا کہ حضور میں حاضر ہو گیا ہوں‘ اس لیے یہ جیل والے لوگ تو آزاد کیے جائیں۔قاضی صاحب نے کہا‘ ہاں! اب انھیں جیل سے نکال دیا جائے۔

اب امیر سے عورت کی شکایت کے بارے میں پوچھا‘ تو انھوں نے اس شکایت کے صحیح ہونے کا اقرارکیا‘ اور وہ باغ مع تمام حقوق کے واپس لوٹا یا۔ عورت نے خیروبرکت کی دعا دیتے ہوئے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مجلس سے اٹھ کر روانہ ہوئی۔

جب اس فیصلے سے قاضی صاحب فارغ ہوئے تو اٹھ کر امیر کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جگہ پر بٹھایا اور السلام علیک یا امیر محترم !کہہ کر کہا کہ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر امیر نے ہنستے ہوئے کہا: اور کوئی بات رہ گئی ہے! قاضی شریک نے کہا: یہ فیصلہ شریعت کا حق تھا‘ سو ادا کیا‘ اور یہ بات ادب و احترام کا حق ہے۔

اس کے بعد امیر اٹھے اور اپنے محل کی طرف یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے:

جو شخص اللہ کے حکم کی تعظیم کرتا ہے تو اللہ اپنی مخلوق کے بڑے سے بڑے لوگوں کو اس کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ (منہاج الصالحین‘ عزالدین بلیق‘ ص ۵۶۲-۵۶۳)