۱۵۰ سنہ ہجری ہے‘ خلیفہ مہدی بن منصور عباسی کی خلافت کا دور ہے‘ بغداد دارالخلافہ ہے‘ صوبہ کوفہ میں خلیفہ کا چچازادبھائی موسیٰ بن عیسیٰ عباسی امیر (گورنر) ہے۔ کوفہ کے قاضی شریک بن عبداللہ ہیں۔ قاضی صاحب کو خلیفہ نے جب قاضی مقرر کر کے کوفہ بھیجا تو انھوں نے قضا کا عہدہ خود طلب نہیں کیا تھا بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے بامر مجبوری اس شرط پر قبول کیا تھا کہ ان کا احترام کیا جائے گا‘ صحیح فیصلے پر ان کی تائید کی جائے گی‘ اور عدلیہ اپنے کام میں آزاد ہوگی۔ چنانچہ یہ قاضی بن کر کوفہ آگئے۔
ان کی عدالت کھلے عام منعقد کی جاتی تھی اور بعض اوقات کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے۔ ان کے فیصلے کا ایک واقعہ جو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے‘ آج کی انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے روشن مثال ہے۔
قاضی شریک عدالت میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک عورت حاضر ہوتی ہے اور دہائی دیتے ہوئے عرض کرتی ہے کہ قاضی صاحب! اللہ کے بعد میرا آپ سہارا ہیں! قاضی صاحب نے پوچھا‘ تیرے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ میرا ایک باغ امیر کوفہ موسیٰ بن عیسیٰ نے خریدنا چاہا‘ میں نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے وہ زبردستی مجھ سے لے لیا۔ قاضی صاحب نے اپنے کارندے کو اپنا خط دے کر امیر کے پاس بھیجا اور انھیں عدالت میں طلب کیا۔
امیر نے اپنے پولیس آفیسر کو بلایا اور اس سے کہا کہ قاضی شریک کے پاس جائو اور ان سے کہو: واہ! مجھے آپ کی بات سے بہت ہی تعجب ہوا۔ ایک عورت نے دعویٰ دائر کیا جو صحیح نہیں ہے اور آپ نے فوراً اسے مان لیا اور مجھے طلب کر لیا۔
پولیس افسر نے امیر سے عرض کیا: امیر محترم! مجھے اس کام سے معاف رکھیے اور کسی دوسرے کو بھیج دیجیے۔ اس پر امیر نے ڈانٹ کر کہا کہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں‘ جائو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ چنانچہ وہ افسر وہاں سے نکلا اور نکلتے ہوئے اپنے خادموں سے کہہ گیا کہ آپ لوگ میرے لیے بستر‘ فرش اور دوسری ضرورت کی اشیا‘ قاضی کی جیل میں رکھ آئو۔ وہ قاضی شریک کے پاس حاضر ہوا اور امیر کا پیغام ان کو پہنچایا۔ قاضی صاحب نے مجلس میں حاضر خادم کو حکم دیا کہ اس افسر کو بازو سے پکڑ کر لے جائو اور جیل میں ڈال دو۔ پولیس افسر نے کہا: بخدا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ مجھے جیل میں ڈالیں گے۔ چنانچہ جیل میں مجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی وہ میں نے پہلے ہی بھجوا دی ہیں۔ موسیٰ بن عیسیٰ کو جب اس کی خبر ہوئی تو قاضی کی طرف اپنے حاجب کو بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ جا کر قاضی صاحب سے کہو: ایک پیغام بر پیغام دینے کے لیے آپ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کس بنیاد پر جیل میں ڈال دیا؟
جب حاجب قاضی صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے اس کی بات سن کر کہا کہ اسے بھی پہلے ساتھی کے ساتھ جیل میں ڈال دو۔ چنانچہ یہ بھی بند کر دیے گئے۔
امیر موسیٰ نے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد کوفہ کے ان معززین کو بلایا جو قاضی صاحب کے دوستوں میں سے تھے اور ان سے کہا کہ آپ حضرات قاضی صاحب کے پاس جائیں اور انھیں میرا سلام پہنچائیں اور انھیں بتائیں کہ آپ نے میری اہانت کی ہے۔ میں کوئی عام آدمی تو نہیں ہوں جو آپ ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں‘ اس انداز سے مجھے بلا رہے ہیں‘ اور میرے نمایندہ افسروں کو جیل میں ڈال رہے ہیں۔
یہ حضرات قاضی صاحب کے پاس آئے ‘ جب کہ وہ نماز عصر پڑھ کر اپنی مسجد میں بیٹھے تھے۔ ان حضرات نے امیر کا پیغام پہنچایا۔ جب یہ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو قاضی صاحب نے بآواز بلند کہا کہ محلے کے کچھ نوجوان موجود ہیں؟ اس پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے لبیک کہا۔ انھوں نے حکم دیا کہ تم میں سے ہر ایک ان افراد کا ہاتھ پکڑے اور جیل میں لے جائے۔ پھر ان حضرات سے کہا کہ تم لوگ فتنہ باز ہو اور تمھاری سزا جیل ہے۔ وہ بولے: قاضی صاحب! آپ مذاق کر رہے ہیں یا کوئی اور بات ہے؟ انھوں نے کہا: بالکل صحیح بات ہے ‘تاکہ آیندہ تم ظالم کا پیغام لے کر نہ آئو۔ پھر انھیں بھی جیل میں بند کر دیا گیا۔
رات کے وقت امیر موسیٰ جیل کے دروازے پر آئے اور اسے کھلوا کر ان سب لوگوں کو جیل سے نکال کر لے گئے۔
جب دوسرے دن قاضی صاحب آکر اپنی عدالت میں بیٹھے تو جیل کا داروغہ آیا اور رات کی سرگزشت بتائی۔ چنانچہ انھوں نے اسی وقت امیرالمومنین کو خط لکھا اور اپنے خادم سے کہا کہ میرا سامان باندھو اور بغداد پہنچا دو۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ ذمہ داری ہم نے ان سے طلب نہیں کی تھی بلکہ انھوں نے زبردستی ہمیں دی تھی‘ اور دیتے وقت انھوں نے‘ ہمیں اس کا احترام و وقار برقرار رکھنے کی ضمانت دی تھی۔ اس کے بعد وہ کوفہ سے بغداد جانے والے اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔
یہ خبر جب امیر کوفہ کو پہنچی تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ سوار ہوئے اور ان سے آکر ملے اور انھیں اللہ کاواسطہ دے کر‘منت سماجت کرتے ہوئے کہا: ابو عبداللہ‘ (قاضی شریک)! ذرا تحمل سے کام لیں اور غور کریں کہ یہ لوگ آپ کے بھائی ہیں جنھیں آپ نے جیل میں ڈالا ہے اور میرے ساتھی ہیں ‘لہٰذا ان کو چھوڑ دیں۔ قاضی صاحب نے کہا: یہ آپ کی ایسی بات کی سفارش لے کر آئے تھے جس کے لیے ان کا آنا جائز نہیں تھا۔ لہٰذا میں یہ رات یہاں نہیں گزارنا چاہتا۔ یا یہ تمام لوگ جیل میں دوبارہ ڈالے جائیں یا بصورت دیگر میں امیرالمومنین مہدی کے پاس جا کر اپنی ذمہ داری سے استعفا دیتا ہوں۔
اب موسیٰ نے مجبور ہو کر ان کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا اور خود اسی جگہ اس وقت تک رکے رہے جب تک جیلر نے آکر ان سب کے جیل میں پہنچنے کی اطلاع نہ دی۔ پھر قاضی صاحب نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ امیر کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میرے سامنے عدالت میں لے چلیں۔ چنانچہ یہ قاضی صاحب کے سامنے چلتے رہے اور آکر مسجد (عدالت کی جگہ) میں داخل ہوئے اور قاضی صاحب مسند قضا پر بیٹھے۔ اس مظلوم عورت کو بلایا اور اپنے سامنے اور امیر کے برابر بٹھایا۔ امیر نے کہا کہ حضور میں حاضر ہو گیا ہوں‘ اس لیے یہ جیل والے لوگ تو آزاد کیے جائیں۔قاضی صاحب نے کہا‘ ہاں! اب انھیں جیل سے نکال دیا جائے۔
اب امیر سے عورت کی شکایت کے بارے میں پوچھا‘ تو انھوں نے اس شکایت کے صحیح ہونے کا اقرارکیا‘ اور وہ باغ مع تمام حقوق کے واپس لوٹا یا۔ عورت نے خیروبرکت کی دعا دیتے ہوئے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مجلس سے اٹھ کر روانہ ہوئی۔
جب اس فیصلے سے قاضی صاحب فارغ ہوئے تو اٹھ کر امیر کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جگہ پر بٹھایا اور السلام علیک یا امیر محترم !کہہ کر کہا کہ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر امیر نے ہنستے ہوئے کہا: اور کوئی بات رہ گئی ہے! قاضی شریک نے کہا: یہ فیصلہ شریعت کا حق تھا‘ سو ادا کیا‘ اور یہ بات ادب و احترام کا حق ہے۔
اس کے بعد امیر اٹھے اور اپنے محل کی طرف یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے:
جو شخص اللہ کے حکم کی تعظیم کرتا ہے تو اللہ اپنی مخلوق کے بڑے سے بڑے لوگوں کو اس کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ (منہاج الصالحین‘ عزالدین بلیق‘ ص ۵۶۲-۵۶۳)