’’عالمی معاشرے میں شادی اور خاندان کا مرکزی کردار‘‘ (مارچ ۲۰۰۱ء) ایک اہم اور چشم کشا مضمون ہے۔ رچرڈ جی ولکنزکا تعلق مسیحیوں کے مارمن فرقے سے ہے جن کے ہاں خاندان اور احترامِ بزرگانِ خاندان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ طعام‘ اجتماعی تقریبات‘ مخلوط محفلوں سے احتراز اور کئی معاملات میں ان کے معاشرتی رویے مسلمانوں جیسے ہیں۔ ان کے ہاں چائے نوشی حرام ہے۔ رچرڈ جی ولکنز نے قرطبہ کے جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع میں خطاب بھی کیا تھا (اکتوبر‘ ۲۰۰۰ء)۔ ایسے مضامین سے احساس ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی حقانیت مغرب تک تجربے سے پہنچ رہی ہے۔ ولکنز کو وائیکنز لکھا گیا‘ اس طرح کی غفلت ماہنامہ ترجمان القرآن کے شایانِ شان نہیں ہے (وائیکنز وہ ادارہ ہے جو ملعون سلمان رشدی کے ناول شائع کرتا رہا ہے)۔
’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت سائل نے ایک اہم دعوتی و معاشرتی پہلو (والدہ اور بیوی کے حقوق) کی نشان دہی کی ہے (مارچ ۲۰۰۱ء)۔ ڈاکٹر انیس احمد نے نہایت متوازن انداز سے سوال کا جواب دیا ہے۔ ’’عالمی معاشرے میں‘ شادی اور خاندان کا مرکزی کردار‘‘ میں توراکینہ قاضی صاحبہ نے گلوبل ازم‘ گلوبیائی اور گلوبیانے‘ کی اصطلاحات استعمال کی ہیں جو کھٹکتی ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کے متبادلات استعمال کیے جائیں۔
’’پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج‘‘ (مارچ ۲۰۰۱ء) میں پروفیسر خورشید احمدنے واقعی ایک انقلابی راہِ نجات دکھائی ہے۔ پروفیسر صاحب نے حکمرانوں کو بندگلی سے نکلنے کے لیے بروقت اچھے مشورے دیے ہیں۔ درحقیقت معاشی استحکام‘ جاگیرداری کے خاتمے اور بڑھتی ہوئی عصبیت اور صوبائیت کے خلاف مصلحتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھرپور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
’’عدم برداشت کا رجحان اور تعلیمات نبویؐ‘‘ (مارچ ۲۰۰۱ء) انتہائی جامع اور اثرانگیز تحریر ہے۔ فاضل مضمون نگار نے بڑے موثر انداز میں اسلام میں تحمل و برداشت‘ حلم و بردباری اور عفو و درگزر کی اہمیت اُجاگر کی ہے۔اگر غور کیا جائے توہم
اہل اسلام آج ان اسلامی صفات کو بڑی حد تک ترک کر چکے ہیں اور اس کے بجائے غرور و تکبر‘ غیض و غضب‘ بدخواہی‘ دھونس اور دھمکی‘ جبروتشدد ‘ مار دھاڑ اور منتقم مزاجی کو اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کا حصہ بنا لیا ہے جس کی وجہ سے ہم نہ صرف یہ کہ آپس میں منقسم اور دست و گریباں ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی دین اسلام سے دُور کر رہے ہیں۔
خرم مرادؒ کی تحریر ’’مسلم عیسائی تعلقات‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) بہت اہم ہے کیونکہ احیاے اسلام کے آثار کی وجہ سے عیسائی مسلم کش مکش میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا فائدہ یہودیوں اور ہندوئوں کو ہو رہا ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون ‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے امکانات کے حوالے سے ایک عمدہ کوشش ہے۔
’’قرآن کا نظریہ علم و جہل‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) بڑی اہمیت کا حامل مضمون ہے۔ اس سے علم اور جہالت کا تصور واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔ یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس نے ہر شخص پر علم کا حصول لازمی قرار دیا اور ایک انقلاب برپا کر دیا جس کی ابتدا ’’اقرا‘‘ سے ہوئی۔
’’خدمت و محبت‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں خرم مراد صاحب نے تحریک اسلامی کے کارکنان کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ اگر ہم خدمت و محبت کے جذبے سے سیرت النبیؐ کی روشنی میں کام جاری رکھیں تو ان شاء اللہ تبدیلی آکر رہے گی۔
خرم مراد صاحب کے لیے حد درجہ دعاگو رہتی ہوں۔ ان کے نرم و نازک محبت بھرے قلم سے میں نے بخدا بہت کچھ سیکھا۔ میں ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی کالونی میں پانچ روز فہم قرآن کی کلاس لیتی ہوں‘ الحمدللہ! جنوری ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’خدمت و محبت‘‘ سے پوری کلاس کی تیاری کی۔ ترجمان القرآن کے حج کے دنوں کے سارے پرانے شمارے نکال لیتی ہوں اور پھر ان دنوں کی کلاسوں کے لیے بہت اچھا مواد مل جاتا ہے۔ یہی معاملہ رمضان المبارک کا ہے۔ اس رسالے پر صرف نظر نہیں ڈالتی بلکہ دل دماغ میں کوئی نہ کوئی تحریر جا بیٹھتی ہے۔ کوشش عمل کی بھی ہوتی ہے۔