اصول فقہ کے موضوع پر انگریزی زبان میں قانون کے طلبہ اور شریعہ و قانون سے دل چسپی رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے یہ ایک مفید اور کارآمد نصابی کتاب ہے۔ اصول فقہ جیسے موضوع کی تشریح و توضیح میں ایسی باریکیاں قاری کے سامنے آتی ہیں کہ اس کا ذہن اُلجھتا ہے اور پوری بات کو سمجھنے کے لیے اُسے اپنے ذہن پر کافی بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ عمران احسن خاں نیازی نے اپنی اس کتاب میں نسبتاً آسان پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اصول فقہ کے مشکل اور پیچیدہ قواعد کو آسانی سے سمجھ سکے۔ وہ قانون کے طالب علم کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کی حیثیت سے ایک وقیع اور مفید نصابی کتاب کا عالمانہ معیار برقرار رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
ایک زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی لا کالج کے نصاب میںاس موضوع پر بیرسٹر عبدالرحیم کی فقہ محمدی کے اصول (The Principles of Muhammadan Jurisprudence)شامل تھی۔ سرعبدالرحیم مدراس ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی میں ۱۹۰۷ء میں بطور ٹیگور پروفیسر جو لیکچر دیے تھے‘ ان ہی کو مرتب کر کے انھوں نے یہ کتاب ۱۹۱۱ء میں شائع کی تھی۔ لیکچروں کے سلسلے میں انھوں نے مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب ’’محمڈن تھیالوجی‘‘ (Muhammadan Theology)سے بھی مدد لی تھی۔ اگرچہ کتاب کا بیش تر حصہ اصول الفقہ پر صدر الشریعت کی کتاب توضیح کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے‘ تاہم اپنی کتاب کے دیباچے کے آخری پیراگراف میں سرعبدالرحیم نے ریورینڈ کینن ایڈورڈسیل کا اس بنا پر شکریہ ادا کیا کہ پادری صاحب نے عربی الفاظ کے انگریزی میںترجمے پر نظرثانی کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سر عبدالرحیم اصول الفقہ کے موضوع پر لکھی گئی امہات الکتب سے براہِ راست پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے تھے بلکہ انھوں نے غیر مسلموں یعنی مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب اور ریورینڈ کینن ایڈورڈ سیل کے ذریعے استفادہ کیا تھا۔
اس کے مقابلے میں زیرتبصرہ کتاب کے مصنف عمران احسن خاں نیازی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ایک طرف اصول الفقہ کے موضوع پر امہات الکتب مثلاً الثعلبی کی الاحکام فی اصول الاحکام‘ فخر الاسلام بزدوی کی اصول البزدوی اور علائوالدین عبدالعزیز بن احمد کی کشف الاسرار عن اصول فخرالاسلام بزدوی‘ امام غزالی کی المنخول من تعلیقات الاصول اور المستصفٰی من علم الاصول‘ ابن رشد کی بدایۃ المجتہد‘ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی کی مشہور کتاب الاحکام القرآن اور اصول الجصاص‘ الکرخی کی رسالہ فی الاصول‘ الکاسانی کی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع اور الماوردی کی الاحکام السلطانیہ جیسی ثقہ کتابوں سے براہِ راست استفادہ کر سکیں ‘اور دوسری طرف جان آسٹن کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب لیکچرز آف جیورس پروڈنس‘ ایڈگر بوڈن ہائمر کی جیورس پروڈنس‘ فلاسفی اینڈ میتھڈ آف لا اور کولسن کی ہسٹری آف اسلامک لا اور بعض دوسرے مغربی مصنّفین کی مفید کتب سے بھی براہِ راست استفادہ کر سکیں۔ اس بنا پر میرے خیال میں زیر تبصرہ کتاب سر عبدالرحیم کی کتاب سے بہتر‘ عالمانہ اور محققانہ نصابی کتاب ہے جو قانون کے طلبہ اور پیشہ وکالت اور عدلیہ سے وابستہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔
مصنف نے تعارف میں فقہ‘ اصول الفقہ اور بنیادی اصطلاحات کی تشریح کی ہے۔ پہلے حصے میں حکم شرعی یعنی اسلامی قانون کی تعریف و توضیح بیان کرنے کے ساتھ حکم شرعی کی مختلف اقسام (یعنی واجب‘ مندوب‘ حرام‘ مکروہ اور مباح کی وضاحت کی ہے‘ نیز حاکم‘ محکوم فیہ‘ انسانی حقوق اور ان کی اقسام‘ محکوم علیہ) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے عورت کی حیثیت‘ عورت کی شہادت اور اس عنوان کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جو رشیدہ پٹیل بنام فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں دیا گیا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ایک عورت کی شہادت پر حد تو جاری نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجرم کو کوئی اور سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کر کے حد کے برابر دوسری سخت سزا دے سکتی ہے۔ اس باب کے تحت انھوں نے عورت کے وراثت میں حصے‘ طلاق کے حق اور دیت وغیرہ کی بحث بھی کی ہے۔ دوسرے حصے میں فاضل مصنف نے اسلامی قانون اور تیسرے حصے میں اجتہاد کی تعریف‘ مجتہد کی صفات‘ اجتہاد کے طریقوں اور نسخ اور ترجیح کی توضیح کی ہے۔ چوتھے حصے میں فقیہہ ‘ اس کے طریق کار پر بحث کے بعد بتایا ہے کہ تقلید کی تعریف کیا ہے۔
عمران احسن نیازی نے قانون اور شریعہ کے استاد اور محقق کی حیثیت سے اصول الفقہ کے موضوع پر قدیم و جدید اہم کتب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے حق تحقیق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ایک بات قابل توجہ ہے کہ سر عبدالرحیم نے بطور بیرسٹر اور بطور جج ہائی کورٹ اپنے وسیع علمی تجربے کی بنیاد پر اپنی کتاب میں اعلیٰ عدالتوں مثلاً کلکتہ ہائی کورٹ‘ الٰہ آباد ہائی کورٹ‘ مدراس ہائی کورٹ اور بعض دوسری عدالتوںکے ۴۰ اہم مقدمات کے حوالے بھی دیے تھے۔ اس کے مقابلے میں عمران احسن نیازی کے ہاں عدالتی فیصلوں کے حوالے بہت کم ہیں۔ ایک تو وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے فیصلے کا حوالہ ہے اور چند ایک مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے۔ دوسرے ایڈیشن میں اگر وہ مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے شامل کر سکیں تو کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوگا۔
کتاب کی طباعت و اشاعت اعلیٰ معیار کی ہے۔ کتابیات اور اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (محمد اسلم سلیمی)
مصنّف کا نام اگرچہ عالم اسلام کے ایک معروف ماہر معاشیات کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ ادب کے رمزشناس اور عالمی اسلامی تحریک کے ایک نباض بھی ہیں۔ درس و تدریس‘ تحقیق و ترجمے اور تنقید و تجزیہ میں ان کا شمار صف اوّل کی شخصیات میں ہوتا ہے۔
اسلام‘ معاشیات اور ادب بنیادی طور پر مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ جس میں خود مرتب کے لکھے ہوئے خطوط کی تعداد ۳۲ ہے‘ جب کہ کل خطوط ۲۲۲ ہیں۔ کتاب کے ۸۲ مکتوب نگاروں میں سید مودودی‘ ابواللیث ندوی‘ امین احسن اصلاحی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ اختر حسن اصلاحی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ صدر الدین اصلاحی‘ محمد یوسف بنوری‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ ڈاکٹر سید عابد حسین‘ ڈاکٹر مشیرالحق‘ پروفیسر خورشید احمد‘ عبدالماجد دریابادی‘ سید منور حسن‘ احمد عروج قادری‘ سعید احمد اکبرآبادی‘ پروفیسر محمد تقی امینی‘ جلال الدین عمری‘ چودھری غلام محمد‘ پروفیسر عبدالحمید صدیقی‘ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی‘مولانا محمدسراج الحسن‘ فضل الرحمن فریدی‘ نعیم صدیقی وغیرہ جیسے اکابرین بھی شامل ہیں۔
یہ مکاتیب رسمی نوعیت کے نہیں‘ بلکہ ان میں فکروخیال کے گہرے رنگ پوشیدہ ہیں۔ علمی اور اجتماعی حوالوں سے بعض ایسے موضوعات زیربحث آئے ہیں‘ جو فائلوں میں پوشیدہ اور بند اجلاسوںتک محدود تھے۔ ان میں فکرمندی کے ایسے پہلو ہیں‘ جنھیں بیان کرتے وقت جھجک محسوس ہوتی تھی۔ ایسے معاملات پر بحث بھی پڑھنے کو ملتی ہے‘ جن کے بارے میں عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ ان پر کہاں بات ہو سکتی ہے؟ خطوط کے بعض جملے تکلیف دہ ہیں‘ مگر اس کے ساتھ بہت سے حصے روشنی کے دیے ہیں۔
یہ کتاب نصف صدی کے دوران تحریک اسلامی کے اہل علم و دانش کے علم‘ تفقہ فی الدین‘ مشاہدے‘ دردمندی‘ تڑپ‘ جستجو‘ عزم‘ مایوسی‘ تحرک اور اختلاف رائے کی منہ بولتی دستاویز ہے۔ عامتہ الناس سے زیادہ اس میں اہل علم کے لیے دل چسپی کا عنصرملتا ہے۔
ان خطوط سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک اسلامی کے اہل دانش کی فکری دنیا میں کتنے نشیب و فراز ہیں‘ ان کے شب و روز کن کن تفکرات میں گھلتے ہیں‘ وہ کیسی کیسی تپش محسوس کرتے اور کون سی گرمی بانٹتے ہیں۔ ان کے مابین شخصی سطح پر گہرا اختلاف ہونے کے باوجود اجتماعیت میں اتفاق و یک جہتی کی کتنی مضبوطی ہے۔ کیوں کہ ان رجالِ کار کی تگ و تاز کا محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔
ان خطوط سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ تحریک اسلامی کا کوئی بھی فرد شخصیت پرستی کے گنبد کا اسیر نہیں ہے بلکہ ان کے لیے قرآن و سنت رسول ؐاللہ ہی حتمی سچائیاں ہیں‘ اور وہ کسی فرد کو ایمان و دانش کا خراج دینے کے روادار نہیں۔ یہ وہ عظمت کردار ہے جسے پیدا کرنے کے لیے قرآن و سنت کا صحیح فہم ضروری ہے۔ اس فہم کو عام کرنے کے لیے مولانا مودودی نے علما‘ صوفیا اور مشائخ کی روایتی ڈگر سے ہٹ کر نیا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو ’’پیرومرشد‘‘ بننے سے بچایا۔ اسی چیز نے وہ حریت فکر پیدا کی‘ جس کی متلاطم لہریں اس کتاب کے کینوس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے نہ صرف ایسے قیمتی سرمایہ مکاتیب کو محفوظ رکھا‘ بلکہ شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا۔ چونکہ یہ خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھے گئے تھے‘ اس لیے ان میں بے تکلفی کا عنصرغالب ہے۔ ممکن ہے بعض مکتوب نگاروں کو ان کی اشاعت پر ذہنی تحفظ ہو کہ یہ تحریریں عام کرنے کے لیے نہیں تھیں۔ لیکن ہمارے خیال میں ان کی اشاعت بوجوہ مفید ہے--- خصوصاً اسلامی تحریکوں کے وابستگان کے لیے مصنّف کے مشاہدات اور تجربات استفادے کا باعث ہوں گے۔ (سلیم منصور خالد)
اردو شعرا کا سب سے خوش نصیب طبقہ وہ ہے‘ جسے شعر گوئی کی توفیق ملی‘ تو اس نے فقط نعت گوئی ہی کو اپنا شعار بنایا۔ حکیم شریف احسن کی اوّل و آخر حیثیت نعت گو ہی کی ہے۔ ان کے لیے باعث فخر ہے کہ ان کی شعر گوئی سراسر نعت گوئی ہے۔ انھوں نے نعت کے علاوہ کبھی کسی اور صنف شعر پر قلم نہیں اٹھایا۔ اگر شاعر کی افتاد طبع بلند‘ ذوقِ شعری رچا ہوا‘ اور محبت رسولؐ کا جذبہ والہانہ شیفتگی کے درجے کو پہنچا ہوا ہو تو نعت جس درجے اور معیار کی ہوگی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
حکیم شریف احسن اونچے درجے کا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ علوم اسلامیہ‘ مشرقیات اور عربی فارسی کا مطالعہ وسیع ہے۔اوائل عمر ہی سے اسلامی تحریکوں سے وابستگی رہی اور تحریر و تصنیف سے بھی علاقہ رہا۔ چنانچہ ان کی نعتیں نعت کی جملہ ادبی و شعری خوبیوں سے متصف ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ سے شدید نوعیت کی محبت اور وابستگی کے باوجود اظہار محبت کا ایک قابل قدر توازن اور معیار برقرار رکھا ہے۔ عرفی نے کہا تھا کہ نعتیہ شعر کہنا تلوار کی دھار پرچلنے کا فن ہے۔ حکیم شریف احسن نے اسی نزاکت کا خیال رکھا ہے۔ ان کے توازن فکر ونظر اور ذوق سلیم نے انھیں بھٹکنے نہیں دیا۔
ان کی نعتیں صرف روایتی پہلو تک محدود نہیں ہیں‘ بلکہ وہ محبت رسولؐ کو اپنے گردوپیش کی صورت حال سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں اور جہاںتہاں تشویق کا اظہار بھی کرتے ہیں ؎
احسن درِ سرکار سے اِعراض کا انجام
دنیا کہ تھی جنت کبھی‘ ہے آج جہنم
زیرنظر مجموعے کے آغاز میں حافظ لدھیانوی مرحوم (جو خود بھی بہت اچھے نعت گو تھے) اور ڈاکٹر ریاض مجید نے حکیم شریف احسن کی نعت گوئی پر بڑی عمدگی سے ناقدانہ بحث کی ہے۔ اس مجموعے کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ اشعار پر حواشی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بعض الفاظ‘ اصطلاحات‘ تلمیحات اور تراکیب (قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ تاریخ‘ فقہ‘ اعلام وغیرہ) کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ’’یہ حواشی شائقین نعت کو قرآن و سیرت کے مزید اور براہِ راست مطالعے کی ترغیب دے کر ان کے جذبہ محبت اور اطاعت رسولؐ میں اضافے کا موجب بنیں گے‘‘۔ (ص ۱۴۷)
عبدہ ورسولُہٗ اردو نعت میں ایک قابل لحاظ اضافہ ہے۔بلاشبہ اس کا شمار چند منتخب نعتیہ مجموعوں میں ہوگا۔ حسن معنوی کے ساتھ‘ طباعت و اشاعت میں حسن صوری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ۔(رفیع الدین ہاشمی)
مصنّف اوائل میں شعبۂ تعلیم سے منسلک رہے‘ پھر پاکستان اور آزاد کشمیر میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ۱۹۷۴ء میں ناروے چلے گئے اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔ چونکہ طبعاً قلم و قرطاس سے بھی تعلّق رہا اس لیے وقتاً فوقتاً مختلف جلسوں اور تقاریر کے لیے مضامین قلم بند کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب میں انھیں یک جا کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں لکھا ہے: ’’وطن عزیز سے ہزاروں میل دُور آباد ایک عام پاکستانی اپنے آپ کو کس طرح اپنے وطن اور اہل وطن سے منسلک رکھتا ہے‘ اپنی اسلامی اور پاکستانی شناخت کو برقرار رکھنے اور قومی شعور کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے کس قسم کی ریاضت کرتا ہے‘ شاید اس کتاب میں شامل ان مضامین میں اس کی ایک ہلکی سی آنچ آپ کو بھی محسوس ہو۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے‘‘۔
پاکستان کی تاریخ‘ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی ثقافت کے علاوہ پانچ مضامین علامہ اقبال پر اور ایک ایک مضمون قائداعظم‘ ضیاء الحق اور محمد صلاح الدین پر ہے۔ ناروے میں اردو کی صورت حال اور وہاں مقیم پاکستانیوں کو درپیش کچھ دُوسرے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ بلاشبہ ان مضامین میں ایک ایسے پاکستانی مسلمان کے احساسات کی خوشبو رچی بسی ہے جس نے یہ سب کچھ خلوص‘ درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ لکھا ہے۔ (ر-ہ)
بدرالزماں قاسمی کیرانوی‘ نامور عالم دین وحید الزماںکیرانوی کے صاحبزادے ہیں۔ اس جامع کتاب میں مولف نے مختلف مواقع کی روز مرہ گفتگو کے نمونے دیے ہیں۔ اردو ترجمہ بھی دیا ہے تاکہ عربی زبان سے دل چسپی رکھنے والے‘ عام بول چال کی زبان سے واقفیت چاہنے والے‘ اور جدید عربی گفتگو کے شائقین سبھی استفادہ کر سکیں۔ اس کتاب کی تین نمایاں خصوصیات ہیں: ۱- بنیادی عربی سے آگہی حاصل کرنے کے لیے ضروری الفاظ کو یک جا کر دیا گیا ہے‘ ۲- ایئرپورٹ پر انٹرویو کے موقع پر اور ملاقات اور سفر کے دوران درپیش جملوں کا تفصیلی تذکرہ ہے‘ ۳- سائنس اور ٹکنالوجی کے جو الفاظ عربی زبان میں شامل ہوئے ہیں‘ اُن کا اندراج ہے۔ ابتدا میں ناشر یہ وضاحت کر دیتے کہ یہ کتاب بھارتی مصنف کی ہے تو کوئی حرج نہ تھا۔ بہرحال ایک قابل قدر کاوش ہے اور بنیادی عربی سیکھنے والوں کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے! (محمد ایوب منیر)
بقول مصنفہ: برائی ہر زاویے سے‘ ہر پہلو سے محل اور جھگی نشینوں تک یکساں پہنچائی جا رہی ہے‘ اور برائی کا یہ عفریت جس کا نام میڈیا ہے‘ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنی اندھیری یلغار سے نیکی اور اخلاق کے چراغ گل کرتا جا رہا ہے ‘تو کیا مسلمان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان اندھیروں کو اُجالوں میں بدلنے کے لیے ایک نئی تڑپ اور ولولے کے ساتھ اٹھے! شرما کر نہیں‘ ڈر کر نہیں بلکہ ایک کڑک کے ساتھ برملا دنیا کی پہچان کرا دے‘‘۔
میڈیا کی تعریف‘ اس کی مختلف صورتوں (اخبارات‘ ٹی وی‘ اشتہارات‘انٹرنیٹ‘ انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ) کے قابل اعتراض پروگراموں اور اخلاقی پہلوئوں وغیرہ کے بارے میں تعارفی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ ’’میڈیا دراصل وہ میدان ہے جہاں ریس لگانے سے آپ کسی کو نہیں روک سکتے۔ لیکن اگر آپ کھڑے رہے تو لوگ آپ کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے‘‘۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ ہمیں پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ اپنے ذرائع اور وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے عقائد اور نظریات کو پھیلانا ہوگا۔ (ر-ہ)