اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

یورپی مسلم خاندان : مسائل اور حل

محمدظہیرالدین بھٹی | اپریل ۲۰۰۱ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

مسلمان یورپی ممالک میں وقتی طور پر گئے تھے مگر اب اپنی دوسری اور تیسری نسل کے ظہور سے وہ ان معاشروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ لہٰذا ان مسلمانوں کو درپیش مسائل پر توجہ کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ازبس ضروری ہے۔ ان سطور میں مغرب میں رہایش پذیر مسلم خاندانوں کو درپیش ایک اہم مسئلہ--- پرانی اور نئی نسل میں فکری و ثقافتی رابطہ کی کمی--- کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ آخر میں تین یورپی ممالک سوئٹزرلینڈ‘ پولینڈ اور یونان میں مسلم خاندانوں کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے‘ کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔

فکری وثقافتی رابطے سے مراد: اس سے مراد مسلم نسلوں اور خاص طور پر والدین اور اولاد کے مابین ایسا دینی‘ فکری اور ثقافتی تعلّق ہے جس کے ذریعے جدید نسل‘ سابق نسل کے ورثے‘ اسلامی اصولوںاور اخلاقی قدروں کی حامل بنے۔ یہ رابطہ ایک تہذیبی ضرورت ہے۔ اس ایجابی رابطے کے بغیر کوئی بھی تہذیب اپنے اصولوںاور روایات کی حفاظت کر سکتی ہے نہ انھیں ترقی دے سکتی ہے۔ مغربی ماحول میں بسنے والے مسلم خاندانوں میں اس رابطے کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ ہماری جدید نسل اس مغربی ماحول میں ڈھل جائے جس کا مذہب اور اخلاق کے بارے میں اپنا مخصوص موقف ہے‘ جہاں ’’مطلق آزادی‘‘ ‘ ’’انفرادی ذمہ داری‘‘ اور ’’والدین کی حاکمیت کا خاتمہ‘‘ جیسے نظریات کی حکمرانی ہے‘ جہاں اسلام کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل کی اکثریت کو اگرچہ اسلام کی طرف نسبت سے انکار نہیں مگر وہ فکروعقیدہ کے لحاظ سے اسلام کی علم بردار بھی نہیں۔ ان میں سے اکثر شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے خاندانوں سے بھی کٹ چکے ہیں اور مسلمانوں سے بھی۔

رابطے میں حائل رکاوٹیں

یہ رکاوٹیں دو قسم کی ہیں: داخلی و خارجی۔ داخلی رکاوٹوں کا سبب خود مسلمان ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سماجی اور demographic ہیں اور کچھ کا تعلّق اخلاقی مفروضوں سے ہے۔ اہم رکاوٹیں حسب ذیل ہیں:

ماحول کا اختلاف:  ایک اہم رکاوٹ ماحول کا اختلاف ہے۔ والدین مسلم ممالک سے نقل مکانی کر کے گئے ہیں‘ جب کہ اولاد مغربی ماحول میں پلی بڑھی ہے۔ والدین کا اصرار ہے کہ وہ اس مخصوص تربیتی انداز کو جس پر انھوں نے خود پرورش پائی ہے مسلّط کر کے رہیں گے ۔ اسلام اور اس کے اصولوں سے ناواقفیت کے نتیجے میں‘ اسلامی اصولوں اور اس کی اخلاقیات کو مختلف تاریخی و سماجی ماحول سے مربوط تقلیدی عادات و رسوم سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک ہی معاملے میں بیٹی اور بیٹے میں فرق کیا جاتا ہے۔ بیٹی پر تو اپنی سہیلیوں سے ملنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور بیٹے کو مرد و زن ہر ایک سے ملنے کی کھلی آزادی دی جاتی ہے خواہ وہ رات گئے تک گھر سے باہر رہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو مفاسد اور گمراہ کن ترغیبات سے بھرا پڑا ہو یہ انداز تربیت نہایت مہلک ہے اور بچے ’’دوہری شخصیت‘‘ کے مالک بنتے ہیں۔ وہ خاندان اور گھر میں اپنے آپ کو دین دار اور پابند نظم و ضبط ظاہر کرتے ہیں مگر گھر سے باہر نکلتے ہی اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتے ہیں۔

درحقیقت مسلم نوجوان اپنی ذاتی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دو شناختوں میں بکھرا اور دو نسبتوں میں تقسیم پاتا ہے جن میں مطابقت اس کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ اس معاشرے سے نسبت رکھتا ہے جہاں وہ پروان چڑھا‘ دوسری طرف اس کا تعلّق ایسے دین سے ہے جسے یہ معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔یہ تصادم مسلم نوجوان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ نفسیاتی ہم آہنگی اور فکری توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اسے دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی ورثے کو پانے میں عملی مشکلات اور موانع کا سامنا ہے۔

مشکل نفسیاتی و سماجی حالات کا ایک سبب بڑے اور وسیع خاندان سے دُور رہنا ہے‘ جس سے صلہ رحمی اور احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا۔

والدین کا منفی رویہ: کچھ ایسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو اسلامی نظریات کا پابند نہیں دیکھنا چاہتے‘ وہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور کسی قسم کی رہنمائی نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ جب یورپ میں ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ان کی اولاد اس ماحول میں مکمل طور پر جذب ہوجائے۔ بچے ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے ان سے بات چیت‘ کھیل کود اور کام کاج کی فرصتیں چھین لی ہیں۔

اس کے برعکس کچھ والدین‘ اپنی اولاد کے ماحول کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے انھیں پرانی ڈگر پر چلاناچاہتے ہیں۔ وہ مارپیٹ زیادہ اور توجہ و شفقت کم کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی مادی‘ عقلی اور جذباتی ضروریات کا اندازہ نہیں لگاتے‘ نہ ان کی صلاحیتوں اور ذہنی میلان کو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچے خوداعتمادی‘ اعلیٰ اخلاق اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے والدین‘ بچوں کو یورپی معاشرے کی کسی فکر‘ عادت یا ثقافت کو اپنانے کی اجازت نہیں دیتے خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اور اسلامی اصولوں سے بھی متصادم نہ ہو۔

والدین کے اس رویے سے باہمی رابطہ معطل ہو جاتا ہے‘ بچے خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر سے ابھرنے والے خیالات کو ظاہر نہیں کرتے‘ جب کہ باہمی رابطہ کی بنیاد ہی مکالمہ ہے۔

مشرقی ممالک واپسی کی سوچ:  کئی والدین اور سرپرست بچوں کو عجیب تناقض اور

کش مکش میں ڈال دیتے ہیں:’’واپس اپنے ملک جانے کی تیاری کرو اوروہیں اپنا مستقبل تعمیر کرو‘‘، اس نصیحت کے ساتھ ساتھ وہ انھیں یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ متعلقہ یورپی ممالک کی زبان پر عبور بھی حاصل کرو اور یہاں کی تعلیم مکمل کرو۔ کچھ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس ملک میں پڑھائی کا کیا فائدہ؟ وہ کاہل اور سست ہو جاتے ہیں۔ کچھ بچے اپنے بڑوں کے واپسی کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں والدین اور اولاد میں غلط فہمی اور تصادم پیدا ہوتا ہے‘ بالآخر بچے گھر والوں سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ’’واپسی کی سوچ‘‘ رابطہ کی ایک رکاوٹ ہے۔ اولاد ‘ اپنے بزرگوں کو اپنے دکھوں میں شریک نہیں کرتی‘ نہ اُن سے ان اہم موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتی ہے جن کا ان کے حاضر و مستقبل سے تعلّق ہوتا ہے۔ والدین شرمندہ تعبیر نہ ہونے والا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ اولاد کو مغربی ممالک کی شہریت مل چکی ہوتی ہے۔ سن بلوغ کے بعد بالخصوص‘ اولاد نفرت اور علیحدگی کو اپنا لیتی ہے اور وہ کھلے دل سے تبادلہ خیالات سے باز رہتی ہے۔

یہ عوامل نوجوان کو دو متضاد نتیجوں تک پہنچاتے ہیں۔ نتیجتاً یا تو وہ دین سے بالکل الگ ہو جاتا ہے یا پھر وہ انتہا پسندانہ مذہبیت کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ دراصل باہمی رابطے کے فقدان کے نتیجے میں ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا نئی اور پرانی نسل میں باہمی رابطے کو موثر بنانے کی ضرورت اہم تقاضا ہے۔

موثر باہمی رابطہ

یورپ میں آباد مسلم خاندانوں کی جدید و قدیم نسل کے مابین رابطے کے تو کئی ذرائع ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ’’علم رابطہ‘‘ سے استفادہ کیا جائے اور محض قدیم تقلیدی طریقوں پر ہی انحصار نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ نئی نسل فکری‘ علمی اور مہارتوں و ذرائع کی ترقی کے دور میں رہ رہی ہے۔ موثر رابطے کے لیے درج ذیل امور کو خصوصی اہمیت دینا ہوگی:

مسلم شناخت اور معاشرے سے ہم آہنگی:  پرانی نسل کے مسلمانوں کو اس حقیقت کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ انھیں اپنی نئی نسلوں سمیت یورپی ممالک میں ہی رہنا ہے۔ اگر وہ اس نظریے کو قبول نہیں کریں گے تو اپنے حقوق ضائع کریں گے اور اپنے فرائض میں کوتاہی کریں گے۔ انھیں یہاں رہ کر یہاں کے معاشروں سے تصادم کی شدت کو کم کرنا ہے اور ان میں اس طرح گھل مل کر رہنا ہے کہ ان کی اپنی وحدت بھی برقرار رہے۔ اس مقصدکے لیے اسلامی تعلیمات سے استفادے کا طریق کار مقرر کرنا ہوگا اور متعلقہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی بھی برقرار رکھنا ہوگی۔

اعتدال کی روش :  یورپی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ہمیں اعتدال و انصاف سے کام لینا ہوگا۔ ان کی ہر چیز کو خلافِ اسلام نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ اس معاشرے میں انسانی فضا ہے‘ آزادی ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ اور ایسے  راستے ہیں کہ اگر ہم ان سے استفادے کا طریقہ جان لیں تو اپنے بہت سے مصالح و مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نوخیز مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف نسبت میں بھی اعتماد و اطمینان ملے گا۔ وہ اپنے معاشرے سے کٹیں گے نہ اپنے ماحول کے افراد سے قدرتی تفاعل سے دُور ہوں گے۔ اس ایجابی ادغام سے مسلمانوں کے لیے مغربی معاشرے میں ایک موثر عنصر بننا ممکن ہوگا۔

نوجوانوں کی سرپرستی:  نئی نسل کو جن سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے ‘ ان میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی اور قربت کے احساس سے دونوں نسلوں کے مابین خلا کم ہونے میں مددملے گی۔ انھیں اخلاقی تائید میسر ہوگی جس سے وہ نہ صرف بطور مسلم شہری اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں گے اور مغربی رائے عامہ کے سامنے اپنے یورپی شہری ہونے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائیں گے بلکہ وہ کامل باصلاحیت شہری کے طورپر بہبود عامہ کی دعوت بھی دے سکیں گے۔

نوجوانوں کو درپیش مسائل میں عملی رہنمائی:  نئی نسل کو کئی طرح کے دبائو کا سامنا ہے۔ ایک دبائو نسلی تفریق کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ ایک دبائو مادہ پرستانہ معاشرے کا مزاج بھی ہے۔ مسلم نوجوان بالعموم تفریحی ذرائع سے محروم رہتے ہیں تاکہ وہ حرام میں مبتلا نہ ہوں جس سے ان میں نفسیاتی تشنگی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ انھیں اپنے مزاج و حالات کے مطابق کھلے دل کے ساتھ مذاکرات اور تبادلہ خیالات کا موقع فراہم کیا جائے‘ ان کے نیک دوست ہوں‘ پاکیزہ تفریحی ماحول میسر ہو ‘اور خاندان کے ساتھ مل کر سیروتفریح کرسکیں۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ حسن سلوک اور زبانی و عملی محبت کے محتاج ہیں۔ ان کی بات پوری برداشت سے سننا ہوگی۔ ان کی اس طرح سے تربیت اور رہنمائی کرنا ہوگی کہ وہ اپنے خیالات پوری آزادی مگر احترام کے ساتھ پیش کر سکیں‘ اپنے حقوق کے بارے میں بات کر سکیں اور کسی سخت ردعمل کے خوف کے بغیر نامعلوم باتیں دریافت کر سکیں۔

اسلامی تنظیموں کا کردار: یہ تنہا والدین کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں اور اسلامی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو نسلوں کے مابین تیزی سے بڑھتے ہوئے فکری خلا کو کم کرنے کی کوشش کریں ورنہ نئی نسل مادی اغراض کا شکار ہو کر دین اسلام سے برگشتہ ہو جائے گی۔ یورپ میں کام کرنے والی اسلامی تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر دیں اور مسلم بچوں پر توجہ کریں‘ ان کی دینی‘ ثقافتی اور تفریحی ضروریات کا ادراک کریں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر متوازن ہوں اور اسلام کے قابل فخر سفیر بنیں۔ وہ والدین اور اولاد میں واسطے کا کردار ادا کریں۔

یورپی ممالک میں مسلم خاندانوں کی حالت زار

یورپ میں جا کر آباد ہونے والے مسلم خاندانوں کو درپیش مسائل کو جاننے کے لیے ہم یہاں پر صرف تین ممالک کا ذکر کرتے ہیں:

سوئٹزرلینڈ: یہاں مسلمانوں کی کل تعداد ۳ لاکھ ۸۵ ہزار ہے جن میں سے ۷۰ ہزار عرب ہیں۔یہاں مسلم خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ دوسری نسل مغربی معاشرے میں ضم ہو رہی ہے اور اپنی مادری زبان بولنے سے محروم ہے۔ یورپی طور طریقوں اورعادات کو اپنا رہی ہے۔ وہ شرعی پابندیوں کے بجائے ملکی قانون کے احترام کو ترجیح دیتی ہے۔ مسلم خاندانوں میں طلاق کی شرح ۴۰ فی صد ہے۔ ملک کے تعلیمی اور سماجی نیز ٹیلی ویژن کے اثراتِ بد نمایاں ہیں۔ جرمن سوئٹزرلینڈ کے ماتحت علاقوں میں ۵۰ فی صد مسلم لڑکیاں بدچلنی کا شکار ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بلدیہ والے ان مسلم لاشوں کو جلادیتے ہیں جن کے ورثا تدفین میں

دل چسپی نہیں لیتے۔کیونکہ جلانے کے اخراجات دفنانے سے کم ہیں۔ ۳ لاکھ ۵۰ ہزار مسلمانوں کے لیے صرف ۱۰۰ مساجد ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی ضرورت سے بہت کم ہیں۔

عالم اسلام اور اس سے باہر اسلام سے تعلّق کا آخری قلعہ مسلم خاندان ہے۔ مسلم خاندان کا اسلامی تشخص اور اس کی وحدت نہ صرف مسلمانوں بلکہ مشرق و مغرب کے غیر مسلموں کے لیے بھی مفید ہے۔ آزادی کی دو دھاری تلوارمسلم خاندانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مطلق آزادی کے منفی اثرات نے ٹکنالوجی کی ساری ترقیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہ آزادی پوری انسانیت کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ مطلق آزادی مغرب میں ہماری نژادِ نو کے لیے تباہ کن خطرہ ہے۔

یونان:  یونان میں نقل مکانی کر کے آنے والے کئی مسلم خاندان آباد ہیں۔ عالم عرب سے آنے والے مسلم خاندانوں کا پہلا پڑائو ایتھنز رہا ہے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اور پھر جنگ خلیج کے بعد یہاں کافی مسلمان آبسے ہیں۔ کئی مسلم نوجوانوں نے اپنے قیام کو یقینی بنانے اور کچھ نے گناہوں سے بچنے کی خاطر یونانی عورتوں سے شادیاں کر لیں مگر آیندہ نسل اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئی اور جرائم میں مبتلا ہوئی۔

اپنی پوری عمر ’’مال و زر‘‘ کے حصول میں کھپا دینے والے اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غفلت کے مرتکب لوگ اب اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ’’میری بیٹی مسلمان مرد کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرتی ہے‘‘۔ اولاد نہ صرف اپنے اصل وطن نہیں جانا چاہتی بلکہ اس سے کسی قسم کے تعلّق سے بھی انکار کرتی ہے۔ بہت سے مسلم خاوند اپنی یونانی مسیحی بیویوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں کرتے۔ یونان میں اگرچہ نوجوانوں اور بچوں کی دینی تربیت کا کچھ کام ہو رہا ہے مگروہ انفرادی سطح پر ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام وسیع پیمانے پر منظم طریقے سے کیا جائے۔

پولینڈ: پولینڈ میں مسلم خاندانوں کی دینی و اخلاقی حالت‘ تعلیمی و ثقافتی معیار اور عادات و رسوم کے پس منظر الگ الگ ہونے کی وجہ سے مختلف ہے۔ یہاں تاتاری الاصل تقریباً ۵ ہزار مسلمان آج سے ۶۰۰ سال پہلے آباد ہوئے تھے۔ یہ زیادہ تر مشرقی علاقوں میں بسے۔ یہ لوگ ۸۰ کے عشرے تک کمیونزم کے تلخ نتائج کے زیراثر رہے۔ وہ کمیونزم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مسیحی المذہب معاشرے میں ضم ہونے لگے۔ اسلام کی تعلیمات سے بے خبری ہونے لگی۔ حتیٰ کہ تاتاری مسلمان عورتوں نے عیسائیوں سے شادیاں کیں۔

ان مسلمانوں کو اسلام کی درست تعلیمات سے متعارف کروانے میں کئی عوامل نے کام کیا۔ ۸۰ کے عشرے کے اختتام پر عرب مسلم طلبہ نے تاتاری مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ تقاریر‘ خطباتِ جمعہ اور بہت سے اسلامی لٹریچر کے پولش زبان میں ترجمے کے ذریعے ہمہ جہتی تبلیغ کی۔ بچوں کے لیے اختتام ہفتہ پر دینی تدریس کا بندوبست کیا۔ تاتاری خاندان متحد ہے اور انتشار کا بہت کم شکار ہے۔ پورا خاندان عورتوں‘ بچوں سمیت مختلف اسلامی تہواروں پر یک جا ہوتا ہے۔ رمضان کے پہلے دن‘ نصف رمضان اور ۲۷ رمضان کی رات کو سب مسجدوں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔

پولینڈ کے ۲۰۰ مسلمان یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خاندان کی تشکیل میں اسلامی نہج کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں‘ البتہ ان کی عام زندگی یورپی طریقے پر گزرتی ہے۔ باہر سے آنے والے عرب اور دیگر مسلمان ۱۵ ہزار ہیں۔ ان میں طلبہ‘ مزدور اور سفارتی عملہ شامل ہے۔ ان میں سے کچھ نے پولینڈ کی عورتوں سے شادی کے ذریعے یہاں کی شہریت حاصل کی ہے جو شادی سے پہلے یا اس کے بعد مسلمان ہو جاتی ہیں۔ مختلف قومیتوں پر مشتمل خاندان (مثلاً خاوند عرب اور بیوی پولش) کی تعداد بہت بڑی ہے۔ اس لیے عرب طلبہ اور مزدور پولینڈ میں رہایش رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خاندان مختلف حالات سے گزرتے ہیں جس میں زوجین کے مزاج اور مذہبی تعصب کو بھی دخل ہے۔ ایسے خاندانوں کے بچے مختلف مسائل میں مبتلا ہیں۔ ان پر دینی نقطۂ نظر بھی واضح نہیں ۔ یہ شادیاں زیادہ تر ناکامی‘ طلاق اور بچوں کے بگڑنے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر بیوی نے خوشی سے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہو اور خاوند دین دار ہو تو خاندان پر اسلامی اخلاق کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے ورنہ مسلم خاندان بہت سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔