اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

دو باتیں

| اپریل ۲۰۰۱ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

… ہمارے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں‘ یا تو ہم انسان کو خود اپنی ہدایت کا ذمہ دار سمجھیں اور اس صورت میں نبوت بالکل غیر ضروری ہے ‘ یا ہم اس بات کے قائل ہوں کہ راہِ راست بتانا اللہ کا کام ہے اور اس صورت میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے راہِ راست بتانے کا جو کام اپنے ذمے لیا ہے‘ اس کو انجام دینے میں اس کی طرف سے کوئی کوتاہی ہو۔ ناقص استعدادوں کے اشخاص کو پیغام رسانی کے لیے منتخب کرنا‘ یا پیغام کی تعبیر کو پیغام رسانوں کے اوپر چھوڑدینا کہ اپنے ذہن سے جس طرح چاہیں مختلف طور پر اس کو تعبیر کریں‘ یا کسی کے پاس اپنا پیغام غیر واضح صورت میں اور کسی کے پاس واضح صورت میں بھیجنا‘ ان میں سے جس بات کے بھی آپ قائل ہوں‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت و ہدایت پر حرف آتا ہے‘ اور اُن تمام گمراہیوں کی ذمہ داری اللہ کی طرف عائد ہوتی ہے (معاذ اللہ) جو ناقص ہدایت پانے کی وجہ سے انسانوں میں پیدا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے پیغمبر بھیجے ہی اس لیے ہیں کہ قیامت میں بازپرس کے موقع پر کوئی یہ حجت پیش نہ کر سکے کہ آپ نے خود ہی تو ہم کو راستہ نہ بتایا۔ پھر غلط روی کے ذمہ دار ہم کیسے ہو سکتے ہیں (لِئَلاَّیَکُونَ لِلنّاسِ عَلٰی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ)۔ لیکن اگر امر واقعہ وہی ہو جو فاضل مصنف نے تجویز کیا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ نے لوگوں کے لیے حجت پیش کرنے کی اچھی خاصی گنجایش چھوڑ دی ہے۔

سود کے مسئلے میں فاضل موصوف نے مسلمانوں کی موجودہ مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر انتہائی متقیانہ احتیاط کے ساتھ ایسے قومی بنک کھولنے کے جواز کی صورت نکالی ہے جن میں محض تاجرانہ اغراض کے لیے سودی لین دین کیا جائے۔ اس تمام بحث کو ہم نے پورے غور کے ساتھ پڑھا۔ کوئی شک نہیں کہ آج کل جو لوگ نہایت بے باکی کے ساتھ سود کی تحلیل کے لیے احکام شرعیہ میں قطع و برید کر رہے ہیں‘ ان کے مقابلے میں مولانا محمود علی صاحب کی روش ایک خدا ترس اور ذمہ دار آدمی کی سی روش ہے‘ اور اس سے بھی انکار نہیں کہ مجبوری و اضطرار کی حالت میں احکام شرعیہ کے اندر وہ تخفیف ہو سکتی ہے جو مولانا نے تجویز فرمائی ہے‘ مگر بہتر ہوتا کہ اس تجویز کو پیش کرنے کے ساتھ مولانا یہ بھی فرما دیتے کہ مسلمانوں کا کام یہ نہیں ہے کہ اضطرار کی حالت کو برقرار رکھ کر حرام کھاتے اور کھلاتے رہیں بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ دنیا کے اس بگڑے ہوئے نظام کو بدلنے کے لیے جان توڑ جدوجہد کریں جس کی بدولت حرام و حلال کی تمیز مٹ گئی ہے اور جس کے تسلّط نے اتنی گنجایش نہیں چھوڑی ہے کہ خدا پرست لوگ خدا کی قائم کردہ حدود کی پابندی کر سکیں۔(دین و دانش‘ مولانا محمود علی پرتبصرہ، ’’مطبوعات‘‘ ،۱-م‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۲‘ صفر ۱۳۶۰ھ‘ اپریل ۱۹۴۱ء‘ ص ۷۰-۷۱)