اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کشمیر ‘ اقوام متحدہ اور جہاد آزادی

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

مسئلہ کشمیر کسی زمینی تنازع (land dispute)کا نام نہیں اور نہ یہ دو ملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جن کی ریاست پر ایک استعماری ملک نے محض طاقت کے بل پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کر کے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سیبوتاج (sabotage) کیا اور صرف قوت کے ذریعے آج بھی ان پر قابض ہے۔ یہ جارح قوت خود اپنے وعدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسرنظرانداز کر کے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر مصر ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی بزدلانہ اور مجرمانہ روش پر قائم ہیں اور علاقے میں اقوام متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود پچاس سال سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہیں۔جناب کوفی عنان کے حالیہ دورہ پاک و ہند (مارچ ۲۰۰۱ء) کے بیانات نے ان کی بے بسی ہی نہیں‘ بے حسی اور بے حمیتی کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ معلوم ہوتی ہیں اور اس عالمی تنظیم کے اپنے چارٹر کے تحت قیام امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی۔ اب لے دے کے اعلانِ لاہور اور دو طرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کی جھولی میں کچھ نہیں۔ اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہے کہ فضا سازگار ہو۔

بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہے جو گیارہ سالہ تحریک جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ’’جنگ بندی‘‘ اور ’’سرحدی دہشت گردی‘‘ کی روک تھام کے لیے راہ پیدا کر رہی ہے اور امریکہ‘ مغربی سیاست کار‘ اور ایک حد تک کوفی عنان صاحب بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیر متوقع‘ البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کی قیادت کے متضاد بیانات اور انگریزی صحافت کے کچھ قلم کاروں کی خلافِ جہاد مہم ہے جس کا بروقت نوٹس لینا اور انحراف اور پسپائی کے ہر امکان کا بروقت سدّباب ملت اسلامیہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے گماشتوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے دہشت گردی (terrorism) اور تشدد (violence)کے ہم معنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ستم ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیرداخلہ بھی لنگوٹ کس کر اس جنگ میں کود پڑے ہیں اور قانون سازی سے لے کر تعزیری اقدامات تک کی دھمکیاں قسط وار دے رہے ہیں۔ کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کی تائید و نصرت کے لیے چندہ دینے والوں کو ڈرایا جا رہا ہے اور بلاتحقیق ایک سے ایک شرم ناک الزام ان لوگوں پر لگایا جا رہا ہے جو جہاد کشمیر کی پشتی بانی کر رہے ہیں۔ادھر واجپائی صاحب سیاسی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف جنگ بندی میں تیسری توسیع کرتے ہیں تو دوسری طرف حریت کانفرنس کے وفد کو پاسپورٹ تک جاری کرنے سے انکار کرتے ہیں‘اور سید علی گیلانی جیسے محترم قائد پر قاتلانہ حملے کیے جا تے ہیں۔ کبھی ’’بات چیت‘‘ شروع ہونے کی نوید دیتے ہیں اور کبھی صاف مکر جاتے ہیں کہ فوجی قیادت سے مذاکرات کا کیا سوال (جیسے برما میں تو جمہوری حکومت ہے جس کے دورے بھی کیے جا رہے ہیں اور جس سے معاہدات کا بازار بھی گرم ہے!)۔ وہ اور ان کے وزیر خارجہ برابر ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ روکنے کا واویلا کر رہے ہیں جیسے جہادی تحریک کا آغاز تو ۱۳ اکتوبر کے بعد ہوا ہو اور اس سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی بات چیت اور آمدورفت بشمول لاہور یاترا اور فرینڈشپ بس کا سلسلہ چلا تھا  وہ سب تو کسی ’’سرحدی امن‘‘ کے آغوش میں ہو رہا تھا!)

اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کے دورے اور خود سیکرٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت میں تشریف آوری اور ٹریک ٹو کے نام پر بھارتی اور پاکستانی نام نہاد فاختائوں کی پروازیں اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہو جانے کی ہوائیاں  (kite-flying) ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کا پتا دیتی ہیں۔ پہلے جناب اصغر خان نے فرمایا کہ ’’چند ہفتے میں مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘ (جنگ‘ ۳مارچ ۲۰۰۱ء)۔  کئی انگریزی کالم نگاروں نے ان کی لے سے لے ملائی اور اب خود جنرل مشرف صاحب نے وسط مارچ ۲۰۰۱ء میں لاہور میں مدیران جرائد کے ظہرانے سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’مسئلے کے حل کا وقت اب بہت قریب ہے‘‘۔ معاف کیجیے‘ اطلاع ہے کہ اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ وہ اس مسئلے کو  حل کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تصور کرتے ہیں۔ (خدا نہ کرے کہ یاسرعرفات کی طرح کہیں نوبل انعام کی تمنا بھی کروٹیں لے رہی ہو۔)

اصغر خان ہوں یا جنرل مشرف‘ واجپائی ہوں یا کوفی عنان‘ سابق فوجی ہوں یا سفارت کار‘ سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانان جموں و کشمیر‘ قائداعظم ؒ سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک نیوکلیر پاور بنایا ہے وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی‘ لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔  یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے لیکن مسلمانان پاکستان اور مسلمانان جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حق خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔

یہ کسی خاص جماعت‘ گروہ یا طبقے کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ اعلانِ لاہور کے موقع پر کشمیر کے بارے میں حساسیت کے اظہار کے لیے جس طرح فوج نے سیاسی قیادت کو مجبور کیا اور کارگل کے معاملے میں جن جذبات کا اظہار فوج اور پوری قوم نے کیا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ کی خوشنودی اور بھارت کی دوستی کے مشتاق چند سیاسی طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ماضی میں بھی ‘جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ خود پاکستان کے دستور  میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر مرقوم ہے کہ استصواب ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہونا ہے۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ‘ خواہ وہ کتناہی طویل کیوں نہ ہو‘ اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثرنہیں کر سکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیر متعلق نہیں بنا سکتا۔

پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا اور سات سو سال کی مشترک سرحد ہی نہیں‘ سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رخ اور سڑکوں کے تسلسل‘ رنگ و نسل کی یکسانی‘ طریق بود و باش کی وحدت‘ دین و ثقافت‘ رسوم و رواج‘ تہذیبی روایات‘ تاریخی جدوجہد‘ سیاسی ہم آہنگی‘ سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابل تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رو سے ۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوںنے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔ لیکن ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنا رہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘ جس کی بنیاد پر خود امریکہ کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حق خود ارادی کے اصول کا اعلان فلاڈلفیا کے اعلامیے کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نیپہلی جنگ کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پر برعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔

کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے سواکروڑ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کر سکتیں۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیر جانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حق خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کر دیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی رائے عامہ کو اسے ایک مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن‘ غربت سے نجات‘ ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحدمیں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں‘ اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ جہادی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہر کوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔

کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے جب تک :

۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریںگے۔

۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی رائے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوںپر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔

۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء‘ ۵ جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حق خود ارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔

پاکستان کی کسی قیادت‘ اور کسی عالمی راہنما کو ان تاریخی حقائق‘ اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں وکشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا یا کرے گا اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یاسازش سے ٹالا نہیں جا سکتا۔


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ دورے میں اسلام آباد اور دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر جناب چیف ایگزیکٹو اور وزارت خارجہ کی خاموشی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کے موقف کو تسلیم کر لینے کے بعد اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بین الاقوامی قانون‘ معاہدے‘ سلامتی کونسل اور اس کے اداروں کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہم ان کے ارشادات عالیہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور پھر کشمیر کی جدوجہد کے لیے اس کے منطقی تقاضوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

کوفی عنان صاحب نے فرمایا ہے کہ کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے اور وہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت نہیں جب کہ مشرقی تیمور اور عراق کے بارے میں قراردادیں قابل تنفیذ تھیں۔ کشمیر کے بارے میں اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں تب ہی اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے ورنہ وہ صرف دو طرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کر سکتی ہے جس کے لیے انھوں نے کمال مہربانی سے ایک بار پھر اعلانِ لاہور کا ذکر فرمایا ہے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون‘ جنیوا کنونشن‘ قوموں کے درمیان معاہدات اور

بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (time limitation) سے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون‘ اصول یا روایت نہیں۔ یہ ممکن بھی نہیں ۔ اس طرح توقانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکاوو (Macao)کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ لیکن بالآخر ۱۹۹۹ء میں چین نے اسے حاصل کر لیا اور محض ایک لمبی مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجہ جواز نہ بن سکا۔ کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قرارداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعووں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہو گیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا لیکن ۹۹ سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدہ کو پورا کرنا پڑا۔ تائی وان کا معامدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے جس کا ذکر کوفی عنان صاحب نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء کی ہے لیکن عمل ۲۵ سال کے بعد ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے۔ اگر ۲۵ سال میں یہ قرارداد غیر موثر نہیں ہوئی تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیر متعلقہ ہو گئیں۔

پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں‘ ایک اصول کا ہے یعنی حق خود ارادیت۔ یہ

اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ ۱‘ اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق ۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے یعنی:

لوگوں کے حق خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔

اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:

تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔

واضح رہے کہ حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔

کشمیر کی قرارداد کا تعلق حق خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے ۔اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکہ‘ بھارت اور پاکستان تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: جارحیت کی تعریف پر قرارداد ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے ۲۵ سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا اسی نے اسے منظور کیا ہے۔

ان قراردادوں میں دو بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت ہے اور اس عنوان سے ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ترمیم نہیں‘ ان کی توضیح کی جا رہی ہے۔ ان اصولوں میں حق خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو‘ اسے جائزتسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ: نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔

ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ۔ (ملاحظہ ہو‘ نوام چومسکی کی کتاب  Power and Prospects  ۱۹۹۶ء‘ ص ۲۰۷)۔

بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیر موثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

اور اگر اس بارے میں کسی کوکوئی شبہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:

کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیر ملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (successor) کس ریاست میں شامل ہوں۔یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علیحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور علیحدہ ہے اور یہ انڈیا سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علیحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔

تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حق خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا‘ وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابل استعمال ہے۔

سیکرٹری جنرل نے یہ بھی صحیح نہیں کہا کہ اگر کوئی قرارداد چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور نہ ہوئی ہو  تو گویا اس کی تنفیذ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اگر وہ اپنے ہی چارٹر کا بغور مطالعہ فرمائیں تو اس میں ان کو صاف مل جائے گا کہ دفعہ ۹۹ کے تحت یہ خود ان کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو جہاں سے بھی خطرہ ہو فی الفور اس کو سلامتی کونسل کے سامنے لائیں:

سیکرٹری جنرل کسی بھی ایسے معاملے کی طرف سلامتی کونسل کو توجہ دلائے گا جو اس کی رائے میں عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں خطرہ بن سکتا ہو۔

اس طرح یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہرخطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:

اقوام متحدہ کی جانب سے فوری اور موثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی

امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل وہ ان کی جانب سے کرتی ہے۔

اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر ملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہو سکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:

اقوام متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجا لانے کو تسلیم کرتے ہیں۔

پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازع کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود‘ یا اقوام متحدہ کے ذریعے‘ تمام تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ  ۳۶ اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقہ کار تجویز کرے‘ خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہو پا رہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہو رہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی

ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعات ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔

تعجب ہے کہ سیکرٹری جنرل ان سب دفعات کو تو بھول گئے اور صرف دونوں پارٹیوں کی آمادگی پر سارا زور تقریر صرف فرما رہے ہیں۔ ان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور اور خود شملہ معاہدہ دو ملکوںکے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:

اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازعہ ہو تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض روبہ عمل آئیںگے۔

اس سب کی موجودگی میں سیکرٹری جنرل کا اپنی بے بسی کا اظہار صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں خواہ معاملہ عراق کا ہو‘ یا مشرقی تیمور کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں اوران کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:

ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔  اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے‘جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور‘ ص ۲۰۴)


جب عالی طاقتوں اور خود اقوام متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو--- سیاسی اور عسکری ---اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل‘ اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوںاور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہر استعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ (just war) جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی‘ ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پرقوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں‘ اقوام متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ یعنی بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye)  اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہے:

تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law فلاڈلفیا‘ ٹمپل یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۹۱ء‘ ص ۲۸۲)

یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ:

دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ص ۱۷)

نیز یہ کہ:

اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حق خود ارادی کی ہر جدوجہد قانونی اورجائز ہے۔ (ص ۲۶۱)

بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:

دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی کا دہشت گرد‘ دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کر سکا ہے۔ (ص ۱۷۷)

لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلمہ حق ہے جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔

سیاسی حق خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلان آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوق انسانی میں مضمر ہے۔

اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)

ہاورڈ یونی ورسٹی کے مشہور زمانہ سیموئل  ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations  and The Remaking of World Order   (نیویارک‘ ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے علی الرغم اعتراف کیا ہے(گویا  ع  نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں۔):

تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے یعنی ان لوگوں کا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص ۱۸۷)

اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ

دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علیحدہ علیحدہ غیر مغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر‘ یا جب بھی‘

یہ ایک ہوئے‘غیر مغربی کمزور ملک طاقت ور ہو جائیں گے ۔ (ص ۱۸۸)

ہنٹنگٹن کی بات تو ایک طرح جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت ایک مسلمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیںتو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہر طرح کی جدوجہدکا ‘بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال ‘ حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔


جنرل پرویز مشرف نے کئی بار اس امر کا اعلان کیا کہ دہشت گردی اور کشمیر کا جہاد بالکل مختلف چیزیں ہیں‘ یہی حقیقت بھی ہے۔ لیکن اس وقت سرکاری ذمہ داریوں پر موجود چند افراد اور انگریزی صحافت سے متعلق متعدد قلم کار ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جہاد کشمیر کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے موثر جواب اور استیصال کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں مزید تشویش ناک ہو جاتا ہے جب جہادی دبائو کے تحت بھارت کی قیادت اور فوج کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے اور بھارت کے چند اہم صحافی اور پالیسی سازی کو متاثر کرنے والی شخصیات کشمیر کی تحریک مزاحمت اور جہاد آزادی کو اس کے حقیقی تاریخی اور نظریاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کا اشارہ دے رہی ہیں۔

بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K.Balagopal)  وہاں کے اہم مجلہ Economic and Political Weekly  (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’’دہشت گردی‘‘ کے مسئلے پر TADA  (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جا تا ہے وہ سیاسی عسکریت ہے۔ (ص ۲۱۱۵)

وہ موجودہ سیاسی عسکریت اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہیں اور سیاسی عسکریت کو دہشت گردی قرار دینے کو حقیقت سے فرار قرار دیتے ہیں۔

سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر‘ جو ضروری نہیں کہ کم ہو ‘ شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵)

بال گوپال سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کرتا ہے اوربھارتی قیادت کو متنبہ کرتا ہے کہ:

اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد‘ امکان ہے کہ اکثریت‘ دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ وہ انڈین نہیں ہیں اور انھیں مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو انڈین سمجھیں۔ یقینا یہ قانون کے لیے بہت ہی نامناسب ہے کہ وہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر سزا دے خواہ وہ اپنا اظہار کسی بھی شکل میں کرے۔ اور اپنے لیے احترام کا مطالبہ بھی کرے‘ نسبتاً زیادہ پھیلی ہوئی سیاسی سرگرمی کے تحفظ کے لیے۔ (ص ۲۱۲۲)

موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ ٹاڈا جیسے قوانین جوظالمانہ‘ استبدادی اور کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں‘  (oppressive, draconian and unbecoming of a democratic polity)  سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔

اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ عسکریت کشمیر میں ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولٹیکل کے ۳ مارچ ۲۰۰۱ء کے شمارے میں واجپائی صاحب کی نام نہاد جنگ بندی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha)  لکھتا ہے کہ:

یہ قابل ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے: ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ خودکش حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے` جنگ بندی ہو یا نہ ہو اورکوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ۱۱ برسوں میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔ جنوری میں ایسے دو واقعات ہوئے ہیں‘ ایک CRPFمیں‘ ایک BSF میں۔ اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے میں ۵ فوجی مارے گئے۔

یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:

جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں‘ جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو‘ جن کی پرائیویسی کو جب چاہے  violateکیا جا سکتا ہو‘ جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو‘ ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنے ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (mood) کی بہترین مثال حزب المجاہدین سے ملتی ہے۔یہ مکمل طور پر مقامی سب سے بڑے عسکری گروپ کی حیثیت سے عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔ اسی بات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ جہادیوں سے فاصلہ رکھیں اور اپنی تحریک کو آزادی کا نہ کہ مذہب کا تشخص دیں۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔

ان آوازوںکے باوجود بھارت کے لیے یہ کڑوی گولی ہضم کرنا ابھی مشکل ہے لیکن اسے بالآخر استصواب اور حق خود ارادیت کی طرف آنا پڑے گا بشرطیکہ سیاسی اور جہادی دبائوجاری رہے اور پاکستان کی قیادت کسی بزدلی یا جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آج بھی ایک ایک مجاہد کے جنازے میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر شہید ہونے والے پاکستانی مجاہدین کے جنازے پر ۱۰ ہزار سے زیادہ افراد نے گولیوںکا مقابلہ کرتے ہوئے شرکت کی اور ان کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ کا واویلا مبنی برکذب ہی نہیں حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے کہ:

یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیر ہمدرد انہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔ (۴ مارچ)

مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:

تنازعہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کر سکتی ہیں لیکن جدوجہد آزادی کو  قتل نہیں کر سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے۔ جو بات آسان نہیں ہے وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔

جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کر سکتی ہے۔


یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’’جنگ بندی‘‘ تسلیم کر لو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات موخر کر دو۔آج بھی وہ ایک بار پھر اسی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ جنگ بندی ہمارا مسئلہ نہیں‘ بھارت کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائونہ صرف جاری رہے بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری‘ سیاسی اور معاشی ہر اعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر پاکستان کی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے جو غیر مشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جہادی قوتوں کو کمزور کرنے یا ان کو بھی سیز فائر کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:

ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے اور غیر متشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی ہے۔ یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے کہ ۱۹۹۴ء میں JKLF کی یک طرفہ جنگ بندی کا نتیجہ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے ۶۰۰ سے زیادہ ممبروں کی ہلاکت ہوا۔ اسی طرح اگرچہ حریت کانفرنس نے غیر متشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے‘ اسے  پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔

اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پرقائم شیوسینا ‘سنگ پری وار اور پانن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیر مسلح ہو جائیں‘ عبث ہے۔ توپیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی جب تک کوئی پرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔ گذشتہ پانچ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگا لیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ہر موقع کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہو گیا لیکن ناگاعوام ہر بار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جا سکی بلکہ

بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن وہ پرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیر مشروط مذاکرات ہو رہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگا علاقوںکے لیے ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ناگا تحریک کو اپنے اس موقف پر قائل کرلے گی کہ حل انڈین یونین کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ غیر مشروط مذاکرات میں یہ بات مضمر ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی ناگا نقطۂ نظر سننے اور ماننے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اسی طرح حریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہو کر رہ جاتا ہے۔

جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہواور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔ جموں و کشمیر پولیس اور باغیوں کو کارروائی سے روک دینا چاہیے۔ جرائم کی تفتیش ہونی چاہیے اور مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔

حریت کانفرنس کو پاکستان جانے دینا‘ غیر مشروط مذاکرات کے انعقاد کا اعلان‘ پاکستان سے خارجہ سیکرٹری کی سطح پر روابط کی پیش کش‘ کمزور ہوتے ہوئے امن کے عمل میں زندگی ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اس سے جمہوری امن کی طرف پیش رفت ہوگی۔ تینوں فریقوں میں مذاکرات سے کوئی حل سامنے آئے گا۔


بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں‘ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی‘ تحریک مزاحمت کی قربانیوں اور مجاہدین کی کامیابیوں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار سب جس حکمت عملی پر ثبات اور مزید اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں وہ اصولی موقف پر دل جمعی سے استقامت‘ جہاد آزادی سے مکمل یک جہتی‘ مجاہدین کی ممکنہ مدد و استعانت اور عالم اسلام اور دنیا کی تمام انصاف اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم ہے۔

کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہر ممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہو کر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان‘ اپنی آزادی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کر سکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کر سکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ بلاشبہ جہاداور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے حرب کی اصطلاح کو ترک کر کے جہاد کی اصطلاح کو اختیار کر کے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔ جہاد‘فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں اور ان تمام امور کی روشنی میں ‘فلسطین ہو یا جموں و کشمیر جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں وہ جہاد ہے ۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔

اگرمسلمان جہاد کے راستے کو اس کے آداب کے ساتھ اختیار کریں تو ہمیں یقین ہے کہ احیاے جہاد‘ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور امت مسلمہ مظلومی اور محکومی سے نکل کر ایک بار پھر اپنے عالمی مشن کو اسی اعتماد اور انکسار کے ساتھ انجام دے سکے گی جس کی تعلیم ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور ایک بار پھر دنیا عدل و انصاف‘ نیکی اور تقویٰ‘ محبت و اخوت‘ علم و فضل اور مادی فراوانی اور اخلاقی فضائل کی بہار دیکھ سکے گی‘ اور اقبال کی یہ تمنا پوری ہو سکے گی:

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے