اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

قرائنی شہادت کی شرعی حیثیت (دوسری اور آخری قسط)

ڈاکٹر سید ازکیا ہاشمی | اپریل ۲۰۰۱ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

حدود میں قرائنی شہادت کی مثالیں

زنا میں قرائنی شہادت: جدید سائنسی ترقی کے نتیجے میںیہ ممکن ہو چکا ہے کہ کسی عورت کے متعلق یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس نے زنا کیا ہے یا نہیں؟ مرد اور عورت کی منی کے ذریعے جو کپڑوں کے ساتھ لگی ہو‘ تجزیہ کر کے بتایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بدکاری کی ہے۔ ویڈیو کیمروں کے ذریعے ان کے بلیو پرنٹ نکالے  گئے ہوں تو یہ بھی جرمِ زناکے اثبات کے لیے ایک قرینہ ہیں (اگرچہ اس مقصد کے لیے ویڈیو کیمرے کا استعمال جائز نہیں) مگر اسے قطعی قرینہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بھی دھوکے کا احتمال ہے ‘ البتہ دیگر شواہد کے ساتھ اس قرینہ سے شہادت کو تقویت مل سکتی ہے۔

بعض اوقات کسی عورت کے ساتھ جبراً زیادتی کی جاتی ہے اور ثبوت کے لیے کوئی گواہی موجود نہیں ہوتی‘ اور نہ عورت کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کے خلاف گواہ پیش کر سکے۔ اگرچہ اس کی مجبوری کی بنا پر شریعت نے اسے حد سے مستثنیٰ ٹھیرایا ہے لیکن اس کے ساتھ جبراً زیادتی بھی تو بہت بڑا ظلم ہے اور کتنی ہی عورتیں ہیں جن کے ساتھ جبراً زیادتی ہوتی ہے اور گواہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے بدکار مرد سزا سے بچ جاتے ہیں اور عورتوں کی عصمتیں ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہتیں۔چند ماہ قبل پنجاب میں ایک کالج کی  لڑکی کے ساتھ بااثر لوگوں نے جبراً زیادتی کی۔ مجرم گواہ نہ ہونے کی وجہ سے بری ہوئے اور لڑکی نے انصاف نہ ملنے اور مجرموں کی طرف سے مزید دھمکیوں کے موصول ہونے پر خودکشی کر لی۔

 

اس طرح کے متعدد واقعات روز بروز پیش آتے رہتے ہیں‘ ان حالات میں کیا عینی شہادت ہی پر اکتفا ہونا چاہیے یا اگر قرائن و واقعات سے جرم ثابت ہوتا ہو تو مجرم کو سزا ملنی چاہیے؟ یہ مسئلہ اس دور میں اہل علم کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ اگر شریعت کا منشا عدل کا قیام اور دفعِ ظلم ہے تو ہمارے خیال میں ان قرائن کی بنیاد پر مجرم کو ضرور سزا ملنی چاہیے‘ چاہے وہ تعزیرہی کیوں نہ ہو۔ زنا عموماً رضامندی سے ہوتا ہے اور عہد نبویؐ میں تقریباً باہمی رضامندی سے کیے جانے والے اس عمل پر رجم کی سزائیں دی گئیں اور قرآن حکیم نے بھی چار گواہوں کی شرط ٹھیرائی لیکن جہاں کسی عورت سے جبراً زیادتی کی گئی ہو اور وہ مدعی بھی ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے چار گواہ لانا ممکن نہیں۔ اس صورتِ حال میں ظلم کے انسداد‘ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ثبوت دعویٰ کے لیے قرائن وغیرہ پر ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

 

جدید دور میں ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کے ذریعے بچے کی ولدیت کے بارے میں بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کس کا بچہ ہے؟ اگر کسی عورت پر بدکاری کا الزام ہو اور اسے کسی مرد کے ساتھ متّہم کیا جائے تو پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت کی حقیقت اس ٹیسٹ کے ذریعہ معلوم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت کسی مرد پر زیادتی کا الزام لگائے اور اسے حمل ٹھیر جائے تو نومولود اور متّہم شخص کے ٹیسٹوں سے اصلیت معلوم کی جا سکتی ہے۔

بعض اوقات قرائن انتہائی قطعی اور یقینی ہوتے ہیں۔ وہاں عینی شہادتوں کو بھی جو ان کے بالمقابل ہوں‘ ردّ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر چار گواہوں نے شہادت دی کہ فلاں عورت نے زنا کیا اور معائینے کے بعد قابل اعتماد عورتوں نے بتلایا کہ عورت کنواری ہے تو نہ عورت پر زنا کی حد واجب ہو گی نہ گواہوں پر حدِّ قذف لگائی جائے گی۔(۱) اسی طرح اگر ملزمہ کے متعلق میڈیکل رپورٹ‘ جس سے یہ ثابت ہو کر وہ کنواری ہے‘ ان ڈاکٹروں کی طرف سے جاری ہو جن کے تقویٰ اور تدین پر اعتماد کیاجا سکتا ہے اوروہ رپورٹ عینی شہادتوں کے برخلاف ہو تو یہ ایک قرینۂ قاطعہ ہے جسے شہادتوں کے برخلاف قبول کرنا چاہیے۔

فقہا ارتکابِ زنا میں کنواری‘ غیر شادی شدہ عورت کے حاملہ ہونے کو یا شادی شدہ عورت کے‘ شادی کے بعد چھ ماہ کی مدت سے قبل بچہ جننے کو معتبر قرینہ خیال کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ نے ایسی عورت پر اسی قرینہ کی بنا پر حد بھی جاری کی تھی (جیسا کہ گزر چکا ہے) اگرچہ امام ابوحنیفہ اس قرینہ کااعتبار اس وقت کرتے ہیں جب کہ عورت سے زنا کا اقرار کروایا جائے‘ ممکن ہے اس کے ساتھ جبراً زیادتی ہوئی ہو یا شبہ میں مباشرت ہو گئی ہو۔ لیکن اگر حالات و قرائن سے اس کی نفی ہوتی ہو اور رضامندی سے بدکاری ثابت ہوتی ہو تو کم از کم تعزیری سزا ضرور ملنی چاہیے۔ زنا کی سزا چونکہ بہت سخت ہے اس لیے جمہور فقہا عینی شہادت کو ضروری قرار دیتے ہیں‘ ان کے نزدیک اگر حاکم نے بچشمِ خود بھی زنا کا مشاہدہ کیا ہو تو وہ اپنے علم و مشاہدہ کی بنیاد پر مقدمہ کافیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن حکیم میں چارآدمیوں کی گواہی کا ذکر ہے (النساء ۴:۱۵)۔

حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے:  لورأیت احدًا علیٰ حَدٍّ لم احدہ حتٰی تقوم البینۃ عندی (التشریح الجنائی‘ ۲/۴۳۱) (اگر کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی موجب ِ حدِّجرم کا ارتکاب کرتے دیکھوں تب بھی اس وقت تک اپنی طرف سے حد جاری نہیں کر سکتا جب تک میرے سامنے اس کا ثبوت نہ آجائے)۔ اسی طرح جیسا کہ گزر چکا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ایک عورت کو اس کی مشکوک حرکتوں کی بنا پر بدکار سمجھتے تھے مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر حدِّرجم جاری نہیں فرمائی گویازنا کی سزا کے لیے قطعی اور یقینی ثبوت ضروری ہے جوعینی گواہوں کے ذریعے ممکن ہے‘ تاہم قرائن قویّہ تعزیری سزائوں کے جاری کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

شراب نوشی میں قرائنی شہادت:  پیچھے گزر چکا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے شراب کی بو اور نشہ کی حالت میں ہونے پر حد جاری کی تھی‘ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بھی شراب کی بو کا آنا اور نشے کی حالت حد جاری کرنے کے لیے واضح قرینہ ہیں (شرح فتح القدیر‘ ۴/۱۷۸)۔ اگر دو گواہ گواہی دیں کہ انھوں نے ملزم کو نشے کی حالت میں پایا اور اس وقت اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی تو امام صاحب کے نزدیک ملزم پر حد جاری ہو گی (التشریع الجنائی‘ ۲/۵۱۲)۔

موجودہ دور میں اس سے بھی واضح اور قطعی قرینہ ملزم کے پیٹ سے حاصل ہونے والے مواد کا کیمیاوی تجزیہ ہے‘ جس کے ذریعے اس مواد کا تجزیہ کر کے فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم نے شراب پی تھی یا نہیں؟ یہ شہادت عینی شہادت سے بھی زیادہ یقینی (authentic)  ثابت ہو سکتی ہے۔

سرقہ میںقرائنی شہادت: فقہا کے نزدیک مالِ مسروق کا ملزم سے برآمد ہونا اثبات جرم کے لیے واضح قرینہ ہے۔ موجودہ دور میں چوری کاسراغ لگانے کے لیے جدید وسائل سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی شہادت قرائنی شہادت کہلائے گی۔ مثلاً کوئی شخص قیمتی ہیرا یا موتی وغیرہ چرا لیتا ہے اور پکڑے جانے کے اندیشے سے اسے نگل لیتا ہے تو ایکس ریز یا الٹرا سائونڈ کے ذریعے اسے بآسانی پیٹ میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان سے حاصل ہونے والی شہادت عینی گواہی سے زیادہ قطعی اور یقینی ہے۔ واضح رہے کہ شریعت میں چوری کا مقدمہ دو گواہوں کی شہادت یا ملزم کے اقرار سے ثابت ہوتا ہے۔(۲)

اسی طرح ملزم کی انگلیوں کے نشانات (finger prints)‘ پائوں کے نشانات یا بال وغیرہ جائے واردات سے دستیاب ہوں تو ماہرین ان کے تجزیہ سے اصل مجرم کا سراغ لگا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہر انسان کے ہاتھوں کی لکیریں‘ انگوٹھے کے نشانات دوسرے سے مختلف ہیں‘ اسی طرح بدن کے بال بھی دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ماہرین اگر جائے واردات سے حاصل شدہ نشانات اور بالوں وغیرہ کا تجزیہ ملزم کے ہاتھ پائوں کے نشانات اور بالوں سے کر کے مکمل مماثلت کا فیصلہ دیں تو یہ بھی ایک واضح قرینہ ہو سکتا ہے۔ اہم مقامات پر جہاں لوگوں کا زیادہ ہجوم ہو‘ کیمرے فٹ کیے جاتے ہیں اور اسکرین پر لوگوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا جاتا ہے‘ اگر کوئی شخص چوری کرتا نظر آئے تو اس کے خلاف شہادت بمنزلہ عینی شہادت کے ہونی چاہیے۔

جدید دَور میں سراغ رساں تربیت یافتہ کتوں سے بھی مدد لی جاتی ہے جو مقام واردات پر پائے جانے والے ملزم کے کپڑے‘ جوتے یا کسی دوسری استعمال شدہ چیز کو سونگھ کر اصل مجرم تک پہنچ کر اس کی نشاندہی کر دیتے ہیں‘ اسے بھی مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ دیگر شواہد کے ساتھ یہ قرائن مل کر اثباتِ جرم کا قطعی اور یقینی ذریعہ بن جاتے ہیں۔

قتل میں قرائنی شہادت: فقہا نے قتل کے معاملے میں قرائن کا لحاظ کیا ہے‘ مثلاً کوئی شخص خالی مکان سے اس حال میں باہر نکلا کہ اس کے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی اور وہ گھبرایا ہوا تھا اور اسی وقت گھر میں ایک شخص ذبح شدہ پڑا دیکھا گیا تو اس میں شبے کی کوئی گنجایش نہیں کہ قاتل وہی شخص ہے (جو مکان سے نکلا ہے)۔ اس صورت میں محض وہمی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کہ ممکن ہے شخص مذبوح نے خودکشی کر لی ہو (مجلہ الاحکام العدلیۃ ‘ ص ۳۵۳)۔

موجودہ دور میں قتل کی سراغ رسانی کے لیے جدید آلات و ذرائع سے بھی کام لیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے مجرم کی نشان دہی بآسانی ہو جاتی ہے‘ مثلاً پوسٹ مارٹم کے ذریعے موت کا سبب دریافت کیا جا سکتا ہے کہ میّت کی موت طبعی ہے یاحادثاتی؟ نیز اس کی موت زہر کھانے کی وجہ سے ہوئی ہے یا تشدد و اذّیت سے‘ البتہ صحیح اور درست رپورٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہر‘ متدین اور قابل اعتماد سرجن میّت کے پوسٹ مارٹم میں شریک ہوں۔ لیبارٹری میں میّت کے خون کے تجزیے سے بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ بالوں‘ ہاتھوں اور پائوں کے نشانات کے تجزیے اور موازنے سے بھی ماہرین مجرم تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ آلۂ قتل دستیاب ہونے کی صورت میں اس پر پائے جانے والے انگلیوں کے نشانات سے بھی ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے۔اگر قتل کے دوران کسی نے تصویر اُتار دی تو قاتل کی نشان دہی کے لیے یہ بھی واضح ثبوت ہے‘ بشرطیکہ دیگر ذرائع سے اس کی تائید ہوتی ہو اور تصویر بنانے میں جعل سازی کا اندیشہ نہ ہو‘ اسی طرح قاتل اور مقتول کے درمیان وقوعِ قتل سے پہلے کسی قسم کا جھگڑا ہوا ہو اور ان آوازوں کو جن میں مقتول کی چیخ پکار شامل ہوبذریعہ ٹیپ ریکارڈر ٹیپ کر لیا گیا ہو اور آواز کے ماہرین تصدیق کریں تو ان کی رائے کو بطورِ شہادت تسلیم کیا جانا چاہیے۔

خلاصۂ بحث:  ۱- گذشتہ تفصیل سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جرائم کی تفتیش میں محض گواہوں پر انحصار کافی نہیں ہے۔ تمدّنی ترقی نے قرائن کا دائرہ بڑا وسیع کر دیا ہے۔ جرائم کی تفتیش‘ حقوق کے تحفّظ اور انسدادِ ظلم کے لیے ان کی شہادت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور ان کو نظرانداز کرنا کسی صورت میں شریعت کا منشا نہیں بلکہ اس کے مقاصد کو نقصان پہنچانا ہے۔

۲- اگرچہ قرآن حکیم اور احادیث نبویہ میں سچی گواہی دینے کی ہدایت اور تاکید کی گئی ہے اور گواہی چھپانے سے منع کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۸۲-۲۸۳)‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں تقویٰ و دیانت کا وہ معیارباقی نہیں رہا جو عہدِ نبوت یا قرونِ اولیٰ میں پایا جاتا تھا۔ موجودہ حالات میں سچی گواہی اس لیے بھی مشکل ہو چکی ہے کہ گواہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوتے ہیں‘ انھیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تحفّظ فراہم نہیں ہوتا اور بعض اوقات سچی گواہی کے صلے میں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اس لیے گواہی دینے سے عموماً احتراز کیا جاتا ہے‘ ان حالات میں جب کہ سچی گواہی مفقود ہو یا اس کے راستے میں مختلف رکاوٹیں حائل ہوں تو زیادہ تر اعتماد قرائن ہی پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے بھی قرائن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

۳- عہد نبویؐ میں زنا کی سزا صرف مجرم کے اقرار پر لگائی گئی نہ کہ گواہوں کی شہادت پر۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ جرمِ زنا کے اثبات کے لیے چار عینی شہادتوں کا فراہم ہونا بہت ہی دشوار ہے‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گواہی میں ذرا سے اشتباہ کی بنا پر وہ خود حدِّقذف کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔ ان حالات میں قرائن پر اعتماد مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ محض قرائن پر حدِّزنا جاری نہیں کی جا سکتی۔ البتہ تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔

۴- جرائم کے ثبوت میں عینی شہادتیں فراہم نہ ہونے کی صورت میں اگر قرائن کو نظرانداز کر دیا جائے تو محض اقرار پر اکتفا کرنا پڑے گا اور جرائم کی تفتیش سے متعلق افراد اور ادارے اعتراف کروانے کے لیے جبر و تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور یہ صورت حال عدل و انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ پیدا کرے گی۔ اسی بنا پر حنابلہ میں سے علامہ ابن قیم اور احناف میں سے ابن غرس نے قرائن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور حدود میں بھی ان کی شہادت کا اعتبار کیا ہے۔ جدید تمدّنی زندگی میں جرائم کی تفتیش میں ان کی اہمیت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے‘ اس لیے ہمیں اپنے نظامِ شہادت میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں عصرِحاضرکے تمدّنی نظام کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کا بخوبی ساتھ دے سکتا ہے‘ اس لیے ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ اور قانونِ اسلامی کی تدوین میں جدید دَور کے تقاضوں اور معاشرتی تبدیلیوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا اور شریعت کے مقاصد و اہداف اور اس کے علل و حکم پربھی توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔

ان معروضات کی حیثیت محض ایک رائے کی ہے نہ کہ فتویٰ کی۔ امید ہے اہل تحقیق اسلامی نظامِ شہادت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنائیں گے تاکہ کسی متفقہ موقف تک پہنچنے کے لیے ان کی آرا سے استفادہ کیا جا سکے۔


حواشی

۱- ابن قدامہ‘ المغنی‘ مصر‘ مطبعہ المنار‘ ۱۳۴۸ھ‘ ج ۱۰‘ص ۱۸۹۔

۲- کتاب الاختیار (ترجمہ سلامت علی خاں) لاہور‘ خیبر پبلشرز‘ ص ۶۳۔