اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

دعوتی عمل میں رجائیت

اختر حسین عزمی | اپریل ۲۰۰۱ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

وہ کیا چیز ہے جو ایک مریض کو کڑوی کسیلی دوائیں خوشی خوشی پینے پر آمادہ کرتی ہے؟ وہ کون سی طاقت ہے جو ایک کسان کو منوں اناج اپنے ہاتھوں گھر سے اٹھا کر کھیت میں بیج کی صورت دبا دینے پر مجبور کرتی ہے؟ وہ کون سا داعیہ ہے جو ایک طالب علم کو رات کا آرام اوردن کے دل پسند مشاغل ترک کر کے پڑھائی کے خشک اور بیزار کن کام کے لیے مستعد کرتا ہے؟--- مریض کے لیے صحت یابی کی امید‘ کسان کے لیے اچھی فصل کی آس‘ اور طالب علم کے لیے تعلیمی کامیابی کی توقع ہی وہ داعیہ ہے جو ان کے نخلِ تمنّا کو سرسبز و شاداب رکھتا ہے۔ یہ اُمید ہے جو ان کی زندگی کی تاریک راہوں کو قندیل رہبانی کی مانند روشن کرتی ہے۔ امید‘ کاہل انسان کو چست اور چست کو سرگرم عمل بنا دیتی ہے۔ امید انسان میں عمل کا داعیہ ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ مداومت عمل پر بھی اسے اُبھارتی رہتی ہے۔ یہ علمی ترقیات‘ یہ ایجادات و اکتشافات کے ہنگامے‘ یہ آمدورفت کے طاقت ور اور تیز رفتار وسائل اور رسل و رسائل اور ابلاغ کے حیرت انگیز ذرائع‘ یہ عظیم الشان تمدن اور پرشکوہ ادارے‘ امید ہی کے کرشمے اور مظاہر ہیں۔

امید کا وہ تصور جو محض مادی اسباب پر اعتماد کرنے سے پیدا ہوتا ہے‘ زندگی پر اپنے اثرات ضرور مرتب کرتا ہے لیکن بہت محدود ہے‘ جب کہ یقین و اذعان اور عقیدہ و ایمان کی بنیادوں پر استوار تصورِ امید اپنے دامن میں لامحدود امکانات اور اثرات رکھتا ہے۔ اس لیے ایک صاحب ایمان سے زیادہ پرامید شخص دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی عظیم ہستی کے تسلیم کر لینے کا نام ہے جو پوری کائنات کا نظام اس طرح چلا رہی ہے کہ اس کی نظر سے نہ تو کوئی چیز اُوجھل ہے (وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلاَّ یَعْلَمُھَا‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔الانعام ۶:۵۹) ‘اور نہ ہی وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز

 

ہے (وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ ز تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں۔العنکبوت ۲۹:۲۲) ۔وہ ہستی ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دُور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ہر ایک کی پکار کا جواب دیتی ہے جب کوئی اسے پکارتا ہے ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ‘ میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔

جس طرح رب کریم کے فضل و رحمت کا کوئی کنارہ نہیں (وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ ط ‘ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ الاعراف ۷:۱۵۶)‘اسی طرح مومن کی امید بھی بیکراں ہے۔ جب مومن کا جینا اور مرنا اسی کے لیے ہو جاتا ہے تو ہر گھڑی  اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کا تصور اس کے ذہن میں مستحضر رہتا ہے۔

وہ ایک مضبوط ہستی کا دامن تھام لیتا ہے جس کا سہارا مشکل سے مشکل حالات میں بھی ٹوٹنے والا نہیں۔  وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لاَانْفِصَامَ لَھَا ط (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’جو کوئی اللہ پر ایمان لے آیا‘ اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا‘ جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔ چنانچہ بندئہ مومن کو اپنے رب سے ملاقات کی امید مشکل حالات میں بھی نفسانی ترغیب کے برعکس نیک کام پر کاربند رکھتی ہے۔  فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا (الکہف ۱۸:۱۱۰) ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے‘‘۔ رب کریم کی ملاقات سے ناامید لوگ ہی دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہوتے ہیں (یونس ۱۰:۷)۔

امید‘ ایمان و یقین کی کوکھ سے جنم لیتی ہے‘ جب کہ مایوسی کا خمیر تشکیک و بے یقینی سے تیار ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ کے وجود اور اس کے حکیم و عادل ہونے کا پورا یقین نہیں رکھتا ‘اسے نہ لوگوں سے خیر کی امید ہوتی ہے اور نہ خود زندگی سے۔ مایوسی کی سیاہ عینک کے ساتھ دنیا دیکھنے کی وجہ سے اسے ہر چیز میں فساد ہی فساد اور تاریکی نظر آتی ہے۔ اسے روے زمین ایک جنگل اور اس پر بسنے والے انسان درندے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح زندگی اسے ایک ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ گویا جو جتنا زیادہ مایوس ہوگا وہ اتنا ہی بڑا کافر ہوگا۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَلِقَآئِہٖٓ اُولٰئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ (العنکبوت ۲۹: ۲۳) ’’جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں‘‘۔ چونکہ مایوسی کفار کا شیوہ ہے اس لیے مسلمانوں کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتی۔ لیکن حالات یہ ہیں کہ دین و ایمان کی لذت سے بے بہرہ لوگ تو ایک طرف ‘ خود قوم کا وہ طبقہ جو دین و دانش کا محافظ اور زینت محراب و منبر ہے ‘ اصلاح احوال کی امید کی بجائے مایوسی کا پرچارک نظر آتا ہے۔

جس دین کو صنم خانوں سے کعبہ کے پاسبان مل گئے ہوں‘ جس کتابِ انقلاب نے فضیل بن عیاض جیسے خطرناک ڈاکو کی دنیاے دل بدل کر اسے ولی دوراں بنا دیا ہو‘ جس قرآن نے نبیؐ مہربان کے قتل کے ارداے سے نکلنے والے قریش کے سپوت کو اسلام کا فاروق اعظمؓ بنا دیا ہو‘ اسی قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے مایوسی کا کیا جواز ہے؟ کیا اب سینوں میں دلوں نے دھڑکنا بند کر دیا ہے؟ کیا اب فطرتِ انسانی میں خدا نے کوئی تبدیلی کر دی ہے؟ کیا سعادت و رحمت کے باب میں قوانینِ الٰہی میں کوئی ردّ و بدل ہو گیا ہے؟ کیا قرآن کے الفاظ کی تاثیر اب ختم ہو گئی ہے؟ نہیں‘ صرف انسان نے قرآن کی پکار کی طرف سے کانوں کو بند کر لیا ہے!

قرآن کی روشنی میں

ایک بندئہ مومن کے لیے قرآن کے الفاظ جا بجا اور ہر گھڑی امید کا چراغ روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ الزمر  ۳۹:۵۳) کے الفاظ امیدِ مغفرت کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ تنگی حالات اور شدائد و مشکلات میں  اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الم نشرح ۹۴:۶) کا ارشاد اس کے لیے کشایش و فراخی کی نوید بن جاتا ہے۔ معاملات کی پیچیدگی اور حالات کی تاریکیوں میں کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو اللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط (جو لوگ ایمان لاتے ہیں‘ ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔  البقرہ ۲:۲۵۷) کی خوش خبری اس کے لیے روشنی کی قندیل بن جاتی ہے۔ جب انسان اپنی خلوت میں اسے یاد کرے تو وہ  فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (تم مجھے یاد رکھو ‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ البقرہ ۲:۱۵۲) کہہ کر اپنے فرشتوں کی محفل میں اس کی عزت افزائی کا اعلان فرماتا ہے۔ جب مرض لاعلاج ہو جائے تو اس وقت بھی وہ

وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ o (اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ الشعراء ۲۶:۸۰) کے نسخہ رُوحانی کے سہارے امیدِ صحت کے ساتھ مرض کا مقابلہ کرتا ہے۔کسی حادثہ و نقصان پر بھی  اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶) کا اظہار کرنے والوں کے لیے  اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف (البقرہ ۲:۱۵۷) کے الفاظ مژدئہ جانفزا ثابت ہوتے ہیں۔

غیر اسلامی حکومت کے خاتمے اور خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ

مِنْ قَبْلِھِمْ ص  (اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ  وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔

النور ۲۴:۵۵) کی یقین دہانی اس جدوجہد کے لیے انھیں نئے سرے سے سرگرم عمل کر دیتی ہے۔ فسق و فجور کے ماحول میں جب اہل حق گھر جائیں اور معاش و رزق حلال کے دروازوں پر ہر طرف شیطان کے حواری قابض ہوں تو وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o  وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ  ط (جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ الطلاق ۶۵:۲-۳) کا فرمان کمزوروں کے لیے پیغام مسرت بن جاتا ہے۔ جب دین کے سپاہی اس کی راہ میں جدوجہد کو کٹھن سمجھ کر گھبرانے لگیں تو  وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ العنکبوت ۲۹:۶۹) کا اعلان ان کی راہیں ہموار کرنے کی نوید بن جاتا ہے۔ جب راہِ حق کے مصائب و شواہد انھیں خوف زدہ و عم زدہ کریں تو لاتخافوا ولاتحزنوا کی خوش خبری ان کے دل کی ڈھارس بن جاتی ہے۔جب اقامت دین کی جدوجہد میں اپنوں کی بے وفائیاں اور غیروں کی سازشوں کی کامیابیاں اہل حق کو بددل اور کم ہمت کرنے لگیں تو وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَخْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت ان کے زخمی دل پر مرہم کا پھاہا ثابت ہوتی ہے۔ دنیا میں کفر و باطل کے غلبے کی صورت میں بھی ان الباطل کان زھوقا (بنی اسرائیل ۱۷:۸) کا ارشاد زوالِ باطل کی امید اور استیلاے حق کی نوید بن جاتا ہے۔

دشمنانِ حق کی کثرت و طاقت اور داعیان حق کی قلت تعداد دیکھ کر جب دل ھول کھانے لگیں تو کبھی کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط (بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ البقرہ ۲:۲۴۹) کا فرمان الٰہی چھوٹی جماعتوں کے لیے راہِ حق میں

ثابت قدمی کا ذریعہ بن جاتا ہے‘ تو کبھی  فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o (اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔ المائدہ ۵:۵۶) کا تشفی آمیز ارشاد طمانیت قلوب اور تقویت اذھان کا باعث بن جاتا ہے۔ مخالفین حق کی ریشہ دوانیوں میں وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ الصف ۶۱:۸) کا یقین افروز خطاب ایمان و استقامت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ جب ظلم و کفر کے غلبے میں دنیاوی اسباب اور سہارے منقطع ہو جائیں تو بھی نظروں سے اوجھل خدائی فوجیں اپنے بندوں کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا (التوبہ ۹:۴۰) ’’اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تمھیں نظر نہ آتے تھے‘‘۔ اس کی فوجوں کے لشکری کبھی غارِ ثور کے مکڑے کی صورت دشمنانِ حق کے لیے تلاش رسولؐ کی کوشش ناکام بنا دیتے ہیں‘ اور کبھی بحرِقلزم میں عصاے کلیمی کی ایک ضرب ایک قوم کے لیے راہِ نجات کھول دیتی ہے اور دوسری ضرب لشکر فرعون کی غرقابی کا سامان کر دیتی ہے۔ جیل کی کوٹھڑی میں محبوس شخص کو فرمانرواے مملکت بنانا‘ اور نمرودی بادشاہت کو مچھر کے ذریعے ذلت آمیز موت کا شکار کر دینا‘ ان لشکروں کے لیے معمولی سا کرشمہ ہے۔  وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلاَّ ھُوَ ط  (المدثر۷۴:۳۱) ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا‘‘۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے قرآنی تعلیمات کے بعد ہمارے لیے رسول ؐاللہ کی حیات طیبہ ہی بہترین اسوہ ہے اور اس اسوئہ کامل سے رہنمائی کے لیے آدمی کا اللہ کی رحمت کے بارے میں پُرامید ہونا ضروری ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرِ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا  o (الاحزاب ۳۳:۲۱) ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔

سیرتؐ کی روشنی میں

حضورؐ کی زندگی میں امید کا پہلو ہر جگہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ مکی دورِ دعوت میں طنز و طعن‘ تضحیک و استہزا سے شروع ہونے والی مخالفت کی نوبت ظلم و تشدد اور معاشرتی مقاطعے تک پہنچی لیکن ان کٹھن حالات میں بھی حضورؐ حق کی کامیابی اور غلبے کا امید افزا پیغام سناتے رہے بلکہ حضورؐ اور صحابہؓ کے راستے کی سختیاں جتنی بڑھتی گئیں آپؐ کے چراغ امید کی لَو بھی اتنی ہی بڑھتی چلی گئی۔

حضرت خبابؓ بن ارت جنھیں لوہے کی سلاخوں سے داغا جاتا تھا‘ حضورؐ سے ناقابل برداشت اذیتوں کی شکایت کرتے ہیں اور کفار کے لیے بددعا کی درخواست کرتے ہیں۔ آپؐ حضرت خبابؓ کو صبرواستقامت کی تلقین فرماتے ہیں اور مستقبل کی کامیابی کی امید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اے خبابؓ ابھی سے گھبرا گئے ‘تم سے پہلے علم برداران حق کو آروں سے دولخت کر دیا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا گوشت نوچا گیا۔ اور پھر یقین سے لبریز آواز میں فرمایا: ’’خدا کی قسم! یہ دین ضرور غالب ہو کررہے گا اور ایک تنہا سفر کرنے والا صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا ۔(ریاض الصالحین)

غور کیجیے جس ملک کی بدامنی کی نقشہ کشی اللہ نے  وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ ط (ان کے گردوپیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں۔ العنکبوت ۲۹:۶۷) کے الفاظ میں کی ہو‘ اور جہاں مسلمانوںکی کمزوری کی حالت کو تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ (تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں اُچک نہ لے جائیں۔ الانفال ۸:۲۶) کے پیرایے میں بیان کیا ہو وہاں ان یقین افروز ارشادات کے پیچھے پس پردہ کیا چیز بول رہی ہے؟

کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ سے حضورؐ نے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کے لیے چابی مانگی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ بظاہر مایوس کن حالات میں بھی آپ ؐنے امید افزا اعلان فرمایا: ’’ایک دن یہ چابی ہمارے پاس ہوگی اور ہم جسے چاہیں گے اسے تفویض کریں گے‘‘ ۔

وادی طائف میں لہولہان رسولؐ سے جب حضرت زیدؓ نے عرض کیا کہ آپؐ ان کے لیے بددعا کریں تو غم و خزن میں ڈوبی آواز میں بھی ایک پیغام امید تھا۔ فرمایا: میں ان کے لیے کیوں بددعا کروں۔ اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور خداے واحد کی پرستار ہوں گی۔  (محسن انسانیتؐ ‘نعیم صدیقی‘ جولائی ۱۹۸۹ء‘ ص ۱۹۶)

اس وقت آپ ؐکی بے بسی کا کیا عالم ہوگا جب آپ ؐاپنا آبائی شہر اور گھرانہ چھوڑ کر صرف ایک رفیق خاص کے ہمراہ سفر ہجرت پر رواں تھے۔مگر سراقہ بن جعشم نے جب امان طلب کی تو نہ صرف اسے امان نامہ لکھوا دیا بلکہ یہ مژدہ بھی سنایا: ’’اے سراقہ تمھاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب کسریٰ ایران کے کنگن تمھارے ہاتھوں کی زینت ہوں گے‘‘۔

جب عرب کے تمام قبائل و احزاب مدینہ پر حملہ آور ہونے والے تھے تو دفاع مدینہ کے لیے خندق کی کھدائی کے دوران ایک بڑا پتھر رکاوٹ بن گیا۔ صحابہؓ کی خواہش پر آپؐ نے دست مبارک سے جب اس چٹان پر کدال چلائی تو اس سے چنگاریاں نکلیں۔آپؐ نے فرمایا: ’’یمن کی کنجیاں میرے حوالے کر دی گئیں‘‘۔ دوسری ضرب پر شعلہ بلند ہوا تو فرمایا: ’’ملک شام کے محلات مجھے دکھائے گئے‘‘۔ تیسری ضرب پر فرمایا: ’’کسریٰ ایران کے محلات میرے لیے کھول دیے گئے‘‘۔ (احمد‘ نسائی)

حضورؐ کی پوری زندگی کے اقوال و اعمال بشروا ولا تنفروا کی تفسیر ہیں۔ آپؐ نے جہاں اپنے دَور کے لوگوں کی عظمت و فضیلت کے بیان کے ذریعے ان کو امید کی کرن دکھائی وہاں آپؐ نے بعد کے ادوار کے لوگوں کو بھی اپنی محبوبیت کے امیدافروز اشارے دیے۔

حضورؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے میرے محبوب ترین لوگ وہ ہوں گے جومیرے بعد پیدا ہوں گے اور آرزو کریں گے کہ اپنے اہل و عیال کے بدلے میں مجھے دیکھ لیں‘‘۔ (مسلم)

ہر دَور کے لوگوں کو پُرامید رکھنے کا یہ کیا خوب انداز ہے کہ فرمایا:--- ’’میری اُمت کی مثال بارش کی مانند ہے۔یہ نہیں جانا جاتا کہ اس کا اوّل بہتر ہے یا آخر۔ وہ اُمت کیسے ہلاک ہو جس کے اوّل میں‘ مَیں ہوں‘ مہدی اس کے وسط میں‘ اور مسیح  ؑاس کے آخر میں ۔ (مشکوٰۃ)

حضرت ابوجمعہؓ صحابی رسولؐ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول ؐاللہ کے ساتھ ہم نے کھانا کھایا۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح ہمارے ساتھ تھے۔ انھوں نے سوال کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہم سے بڑھ کر بھی کوئی بہتر ہو سکتا ہے کیونکہ ہم اسلام لائے اور آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کیا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ وہ لوگ جو تمھارے بعد پیدا ہوں گے‘ مجھ پر ایمان لائیں گے‘ جب کہ انھوں نے مجھے دیکھا نہ ہوگا (احمد‘ دارمی)۔ اسی طرح فرمایا: میری اُمت کے بگاڑ کے وقت ایک سنت کو زندہ کرنے کا اجر سو شہیدوںکے برابر ہوگا۔ (بیہقی)

ان احادیث کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آخری ادوار میں اگر شروفساد زیادہ ہوگا‘ تو اس دَور میں نیکی اختیار کرنے والوں کا رتبہ بھی اللہ کی نظر میں کتنا بلند ہوگا۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ قرب قیامت کے بارے میں حضورؐ کی بیان کردہ علامتوں کو‘ جو ان خرابیوں سے چوکنا اور خبردار رہنے کے لیے بیان کی گئی تھیں‘ احادیث کے یک رخے مطالعے کی بنا پر ان باتوں کو مایوسی کا جواز بنا لیا گیا‘ جب کہ اس دَور میں دعوت و اصلاح کے کام کی عظمت‘ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظر میں ہے‘ اس کی طرف سے صرفِ نظر کر لیا گیا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’اسلام کا آغاز اجنبیت میں ہوا۔ عنقریب یہ اجنبی ہو جائے گا۔ پس خوش خبری ہے اجنبی بن جانے والوں کے لیے’’۔ (مسلم)

مایوسی و بددلی کا خاتمہ اسلامی قیادت کے لیے ایک چیلنج اور اُمت میں رجائیت کا احیا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن اس تاریکی میں روشنی کا سماں تو وہی پیدا کر سکتا ہے جس کا سینہ امید کے نور سے منور ہو۔ بجھا ہوا دل دوسروں کے چہروں پر کیسے روشنی بکھیر سکتا ہے: دل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں۔

دلوں کو یہ روشنی اور تازگی اس کلام الٰہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جس کی نظر میں انسانوں کی

اصلاح و ہدایت  اور اللہ کی تائید و نصرت سے مایوسی جتنا بڑا گناہ ہے اس کی سنگینی کا احساس شاید ہمارے اہل علم کے ہاں بھی کم ہی پایا جاتا ہے۔ رحمت الٰہی سے مایوسی اہل ہدایت کی نہیں گمراہ لوگوں کی روش ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جب بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت دی گئی تو آپ ؑ نے فرمایا:  وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (الحجر ۱۵: ۵۵-۵۶) ’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں‘‘۔

حضرت یعقوب ؑ کے دل سے یوسف ؑ سے فرزند کی جدائی کا داغ ابھی محو نہ ہوا تھا کہ برادرانِ یوسف ؑ نے شاہِ مصر کی طرف سے دوسرے بیٹے بن یامین کی گرفتاری کی اندوہ ناک خبر سنائی۔ بڑھاپے میں غموں سے نڈھال اس بندئہ خدا نے امید کا دامن تھامے‘ اپنے بیٹوں کو شاہِ مصر کی طرف دوبارہ ان الفاظ کے ساتھ روانہ کیا:  یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (یوسف ۱۲:۸۷) ’’میرے بچو‘ جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔

جو شخص اللہ کی مدد و نصرت سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے وہ گویا قدرت الٰہی کے مقابلے میں دوسرے اسبابِ دنیا کو زیادہ طاقت ور سمجھتا ہے۔ ایسے آدمی کو خدا ان الفاظ میں چیلنج کرتا ہے--- مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ ھَلْ یُذْھِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ o (الحج ۲۲:۱۵)’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا ‘ اسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے‘ پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو ردّ کر سکتی ہے جو اسے ناگوار ہے‘‘۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آیت مذکورہ کی تشریح میں فرماتے ہیں:

یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بنائو بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں‘ اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے‘ حتیٰ کہ اگر آسمان کو پھاڑ کر تھگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر الٰہی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے‘ جو اس کو ناگوار ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ص ۲۱۰)

پُرامید اور حوصلہ مند انسان قلت وسائل کے باوجود نصرت الٰہی کے بھروسے پر دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں پامردی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جب کہ مایوس اور بے حوصلہ اقوام وسائل کی فراوانی کے باوجود پیٹھ دکھاتی ہیں۔ امید اور حوصلہ مندی کی ایک مثال جنگ اُحد کے موقع پر مسلمانوں کی ہے کہ حالات کی سنگینی اور دہشت انھیں دشمن سے خوف زدہ کرنے کے بجائے ان کے ایمان کو مزید جلا بخشنے کا سامان بن جاتی ہے: الَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ق (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳) ’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا‘‘۔

جنگ احزاب میں کہ جب پورا عرب متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا‘ ان سنگین حالات میں نصرت الٰہی کے امیدوار مومنوں کی روش کیا تھی:  وَلَمَّا  رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا  وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا  زَادَھُمْ اِلاَّ ٓ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۲۲) ’’اور سچے مومنوں نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ اسی چیز کا اللہ اور رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا ‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سچی تھی۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔

اس کے برعکس نصرت الٰہی سے مایوسی اور بددل قوم کی مثال اللہ نے سورہ المائدہ میں بیان کی ہے کہ جب حضرت موسیٰ  ؑنے اپنی قوم کو ارضِ مقدس میں داخل ہونے کا حکم فرمایا‘ تو اسباب ظاہری سے مرعوب قوم نے ’’قوم جبارین‘‘ کی موجودگی میں ارضِ مقدس میں داخلے سے صاف انکار کر دیا۔ ممکن ہے کوئی سمجھے کہ شاید قوم موسیٰ اتنی ہی کمزور اور دنیاوی وسائل سے تہی دامن ہو‘ لیکن ایسی بات بھی نہیں۔ حضرت موسیٰ  ؑحکم دینے سے پہلے انھیں مایوسی سے نکالنے کے لیے‘ ان کے جذبے کو ان الفاظ کے ساتھ اُبھارتے ہیں:  یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ  م         وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا ق وَّاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ o (المائدہ ۵:۲۰) ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تم پر کی ہے۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے‘ تمھیں فرمانروا بنایا‘ اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا گیا‘‘--- یعنی ان کی مایوسی اور مرعوبیت دُور کرنے کے لیے ان کی تین فضیلتیں بیان فرمائیں: ۱- روحانی و نظریاتی برتری ‘ ۲- سیاسی برتری ‘ ۳- معاشی و معاشرتی و دیگر فوائد‘بادلوں کا سایہ‘ من و سلویٰ کے نزول کے ذریعے غم و روزگار سے نجات اور دیگر انعامات۔ ان تین فضیلتوں کے احساس کو اُجاگر کرنے کے بعد حضرت موسیٰ نے فرمایا تھا:  یٰقَوْمِ ادْخُلُوا  الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِ کُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَo (المائدہ ۵:۲۱) ’’اے برادرانِ قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے‘‘۔

اس حکم کے ساتھ بھی تاکید کے لیے دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں: ۱- انھیں فتح و نصرت کا یقین دلایا گیا ‘ ۲- پیٹھ دکھانے کی صورت میں سخت تنبیہ فرمائی ۔ ان تمام ترغیبات و ترہیبات کے باوجود ان کا جواب تھا:  قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ق وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْھَا  ج فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنَّا  دٰخِلُوْنَ (المائدہ ۵:۲۲) ’’انھوں نے کہا کہ اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں‘ ہم وہاں ہرگز نہ داخل ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں‘‘--- مزید یہ کہ قوم کے دو صاحب عزم افراد نے بھی انھیں حوصلہ دیا کہ:  فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ج وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (المائدہ ۵:۲۲) ’’جب تم داخل ہو جائو گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ لیکن ان معزز افراد کی نصیحت بھی کسی کام نہ آئی۔ انھوں نے نہایت ڈھٹائی سے پیغمبر وقت کو دوبارہ جواب دیا:  قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَo (المائدہ ۵:۲۴) ’’انھوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمھارا رب دونوں جائو اورلڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘--- اور پھر نتیجتاً اللہ نے انھیں ۴۰ سال تک صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔  فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً  ج۔ فِی الْاَرْضِ ط  (المائدہ ۵:۲۶) ’’اچھا تو وہ ملک ۴۰ سال تک ان پر حرام ہے۔ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے‘‘۔

ایک داعی کے اندر مایوسی بالعموم دو راستوں سے داخل ہوتی ہے‘ ایک فسق و فجور کی کثرت کے مظاہر‘ اور دوسرے عدل الٰہی پر عدم یقین۔ فسق و فجور میں لتھڑے لاکھوں افراد کو دیکھ کر ایک داعی گھبراتا ہے کہ ان کی اصلاح کیسے ہوگی؟ حالانکہ اللہ کے ہاں ہماری جواب دہی ’کوشش‘ کے بارے میں ہوگی‘ نتائج کی نہیں۔ جب انسان نتائج کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتا ہے تو مایوسی کا دروازہ کھل جاتا ہے کیونکہ ہدایت دینا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام صرف انذار اور تذکیر ہے۔  فَذَکِرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ ۸۸:۲۱-۲۲) ’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو‘ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو‘کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ پھر ہر شخص پر اصلاح کی ذمہ داری بھی اس کے نفس کی وسعت و استطاعت کے مطابق ہے۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّوُسْعَھَا ط (البقرہ ۲:۲۸۶) ’’اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔ اس اعتبار سے ایک فرد کی اصلاح کوبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ داعی کی کوشش سے صرف ایک نوجوان کی اصلاح ہی سے معاشرہ نہ صرف ایک چور‘ ڈاکو‘ قاتل یا غیر ذمہ دار شہری کے اضافے سے بچ جاتا ہے بلکہ ہزاروں انسان اس کے شر سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اسی نوجوان کو اگر خدمت انسانیت میں لگا دیا گیا تووہ ہزاروں انسانوں کے لیے شجر سایہ دار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’خدا کی قسم! تیرے ذریعے ایک شخص کا ہدایت پا جانا تیرے لیے سرخ اونٹوں (کے صدقے) سے بہتر ہے ۔(بخاری)

دلوں کا ہدایت کے لیے کھلنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ اصلاح اللہ کے حکم سے ہوتی ہے‘ دل اس کی توفیق سے کھلتے ہیں‘ بات اللہ کی مدد سے اثرپذیر ہوتی ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’بے شک بنی آدم کے دل اللہ رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہیں اور وہ انھیں جیسے چاہے پھیرتا رہتا ہے۔ (مسلم)

عدالت الٰہی کے بارے میں رحمت و مغفرت کا تصور برحق ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ وہاں سارے ہی چھوٹ جائیں گے گویا کہ سب کا نتیجہ برابر ہوگا یا جب نجات کے لیے چند عبادات اور اذکار ہی کافی ہیں تو انسان کیوں اپنی جان کوجوکھوں میں ڈالے‘ یہ خیال بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد سے بددلی اور مایوسی کا سبب بنتا ہے۔ حالانکہ عدالت الٰہی کے بارے میں ایسا مایوس کن تصور کفار کا تو ہو سکتا ہے کسی مسلمان کا نہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِo (الممتحنہ ۶۰:۱۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ ان لوگوں کو دوست نہ بنائو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے‘ جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں‘‘۔

اللہ نے اس سوچ کے بارے میں خود لوگوں سے سوال کیا ہے:  اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ  o مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَo (القلم ۶۸:۳۵-۳۶) ’’کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے‘ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘۔ یعنی نافرمان کس طرح اہل ایمان کے برابر ہو سکتے ہیں۔  اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا ط لاَ یَسْتَوٗنَ o (السجدہ ۳۲:۱۸) ’’بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے؟‘‘۔ چند مذہبی مناسک و مراسم کی پابندی جہاد کے عظیم کام کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَاللّٰہِ ط (التوبہ ۹:۱۹) ’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے والوں کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں انفاق و جہاد میں بھی پہل کرنے والے اور بعد والے بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ م بَعْدُ وَقٰتَلُوْا  ط (الحدید ۵۷:۱۰) ’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے‘‘۔

مختصر یہ کہ زندگی کے معمولات میں اگر امید ہم رکاب ہو تو مشکل اور بھاری کام بھی سہل اور آسان ہو جاتے ہیں لیکن مایوسی کی صورت میں آسان ترین کام مشکل اور قریب الحصول مقاصد بھی ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس لیے اسلامی قیادت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن مراحل میں امید کی شمع فروزاں رکھے اور پورے یقین‘ جرات اور احساس ذمہ داری کے ساتھ جدوجہد کی دعوت دے‘ کہ یہی اسوئہ رسول ہے اور یہی اہل عزیمت کا راستہ ہے    ؎

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ