سوال : انسان بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر شوہر طبیعتاً کم گو شخصیت کا مالک ہے اور بیوی ’’زبان دراز‘‘ ہے یا اگر شوہر زبان دراز ہے اور بیوی صابرہ و شاکرہ‘ دونوں صورتوں میں ازدواجی زندگی کی حقیقی برکات حاصل نہیں ہوتیں۔
ان بشری کمزوریوں کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ ان کے مواخذے کی کیا صورت ہوگی؟ ان خامیوں اور کمزوریوں کو دُور کرنے اور ازدواجی تعلّقات کو خوش گوار بنانے کے لیے شرعی حیثیت سے کیا
لائحہ عمل اختیار کیاجانا چاہیے؟
جواب : شوہر طبعاً کم گو واقع ہوا ہو‘ اور بیوی زبان کے معاملے میں غیر محتاط ہو‘ یا بیوی صابرہ و شاکرہ اور کم گو ہو اور شوہر غصہ ور‘ تنک مزاج اور زبان دراز ہو‘ جب بھی اس قسم کا تضاد شخصیتوں اور مزاجوں میں پایا جائے گا‘ ناخوش گواری کا امکان تو رہے گا‘ گو ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ نے اس کا ’’شرعی حل‘‘ پوچھا ہے۔ بلاشبہ اسلامی شریعت میں زندگی کے تمام معاملات ومسائل کے لیے رہنما اصول و ہدایات موجود ہیں اور معاملات معاشرتی ہوں یا نفسیاتی‘ شریعت کے اصول و ہدایات کی روشنی میں ہی انھیں حل کیا جا سکتا ہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ انسان (جنس کی قید سے آزاد ہو کر) جہاں ایک کمزور اور کم علم مخلوق ہے وہاں اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴) ایسے ہی انسان کی بولنے اور communicate کرنے کی صفت کے حوالے سے فرمایا: خَلَقَ الْاِنْسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۳-۴) ’’اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ چنانچہ قرآن انسان کو باربار متوجہ کرتا ہے کہ وہ زبان کے استعمال کے معاملے میں غیر معمولی ذمّہ داری اور احتیاط سے کام
لے مثلاً قول معروف کے بارے میں فرمایا: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَا اَذًی ط
(البقرہ ۲:۲۶۳) ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو‘‘۔ گویا میٹھی اور نرم بات کرنا ایسی خیرات اور فیاضی سے بدرجہا بہتر ہے جس میں طعن تشنیع‘ نوک جھونک‘ طنز و استہزا کا دخل ہو اور دوسرے کو اذیت پہنچے۔ سورہ النساء میں اس بات کو یوں فرمایا گیا: ’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو (۴:۸)۔ والدین کے حوالے سے یہ ہدایت دی گئی کہ ان کے ساتھ قول کریم یعنی انتہائی احترام‘ محبت اور احسان مندی کے ساتھ بات کی جائے اور کبھی اُف تک نہ کہا جائے (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳)۔ امہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ جب بات کریں تو اس میں کوئی لگاوٹ نہ ہو بلکہ سیدھی سادی اور مختصر بات ہو (الاحزاب ۳۳:۳۲) ۔گویا اس طرح تمام اہل ایمان خواتین کو بھی ہدایت کر دی گئی کہ وہ کس طرح دوسروں سے مخاطب ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگوئی اور زبان درازی کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور ایک حدیث میں‘جو ابوداؤد میں منقول ہے‘ اس بنا پر رشتہ ازدواج کے منقطع کرنے تک کی اجازت دی ہے (یاد رہے کہ طلاق کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرنے والی چیز کہا گیا ہے)۔ ایک حدیث میں زبان درازی کے حوالے سے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا گیا ہے جو انتہائی عبادت گزار تھی اور رات رات بھر اللہ کی عبادت کرتی تھی‘ دن میں روزہ رکھتی تھی لیکن اس کی زبان سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ تھے۔ فرمایا گیا کہ اس خامی کی بنا پر اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو شخص دو چیزوں کی ضمانت دے اس کے لیے جنت مقدر کر دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک چیز زبان کی حفاظت بتائی گئی۔ دراصل ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کے حوالے سے بعض بنیادی مفروضے ایسے قائم کر لیے گئے ہیں جن کی اسلامی اخلاق میں کوئی گنجایش نہیں ہے ‘مثلاً یہ خیال کہ اگر شوہر اپنا رعب اور دبدبہ اپنے غصّے اور بلند اور گرج دار آواز میں بولنے کے ذریعے قائم نہیں کرے گا تو بیوی سے دب جائے گا۔ یا بیوی اگر شوہر کو دھمکی دے کر بات نہیں کرے گی تو شوہر اسے اپنی باندی بنا لے گا۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون‘ رحمت‘ برکت اور حفاظت کا باعث ہیں۔ یہاں اختیارات کی رسّہ کشی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تعاون‘ اور معروف کی بنیاد پر ایک پُرسکون خاندان اور معاشرے کی تشکیل ہے۔
ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہ کر نقص نکالنا ‘ الزام دینا اور ہر وقت برائی ڈھونڈنا ایک منفی طرز عمل ہے۔ اسلام بھلائی‘ معروف اور اچھائی کے فروغ کے لیے صرف نظر کرنے‘ وسعت قلب کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کا تعلّق لباس اور جسم کا بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح لباس جسم کو زینت‘ تحفّظ اور آسودگی دینے کے ساتھ عریانیت کو چھپاتا ہے اور شخصیت کے اظہار کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے‘ ایسے ہی شوہر اور بیوی کا تعلّق بھی ایک دوسرے کی خامیوں کوچھپاتے ہوئے اصلاح کے عمل کا نام ہے۔ اس میں صبروتحمل اور حکمت کا استعمال ہر قدم پر کرنا پڑتا ہے اور الفاظ سے زیادہ ان کے معانی پر غور کرتے ہوئے اصلاح حال کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ آپ نے سوال کے دوسرے حصے میں دریافت فرمایا ہے کہ اس بشری کمزوری پر کس طرح قابو پایا جائے اور جو شخص زبان درازی کا مرتکب ہو رہا ہو اس کا مواخذہ کیسے کیا جائے؟
دین نام ہی نصیحت کا ہے ‘یعنی خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش (الدین نصیحۃ … حدیث صحیح)۔ اس لیے مواخذہ اور گرفت کی جگہ محبت‘ افہام و تفہیم اور تعلیم کے ذریعے اس قسم کی بشری کمزوری کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک مومن یا مومنہ کو بھلے انداز میں بات سمجھائی جائے تو خراب سے خراب عادت کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ابھی دو دن قبل میں نے کسی قریبی عزیز سے دوران گفتگو یہ بات کہی کہ عصر کی نماز اگر تاخیر سے پڑھی جائے تو اسے حدیث میں منافق کی نماز کہا گیا ہے۔ وہ صاحب فوراً اٹھے اور غسل خانے کی طرف جانے لگے۔ میں نے پوچھا: خیریت؟ جواب ملا: میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے منافق کہیں۔ مجھے یقین ہے ایک پُرخلوص مشورہ طعنہ‘طنز‘ یاکسی پر گرفت کرنے کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ موثر ہوتا ہے۔ ہاں‘ یہ کام کرنے میں حکمت کے ساتھ صبر شرط ہے۔ وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی رہنما تعلیم یعنی حق کی وصیت اور یاد دہانی ‘ ایک مرتبہ نہیں باربار مختلف پیرایے میں خلوص و محبت کے ساتھ کی جائے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ دلوں کو تبدیل فرما دیتے ہیں۔ تمام انسانوں کے قلب و ذہن اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہیں اور وہ اپنے بندے کی خلوص نیت سے کی گئی ہر دعا اور کوشش میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
س : ایک چیز فی الحال موجود نہیںکیااُس کی بیع (خرید و فروخت) جائز ہے ]مثلاً دسمبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہونے والا ماہنامہ ترجمان القرآن کا شمارہ فی الحال اس دنیا پر اپنا وجود نہیں رکھتا تو کیا سالانہ زرخریداری ادا کر کے اس کی بیع جائز ہے؟
ترجمان القرآن کی فی شمارہ قیمت ۲۰ روپے ہے جو کہ ۱۲ شماروں کی ۲۴۰ روپے بنتی ہے لیکن سالانہ خریدار کے لیے ۲۰۰ روپے ہے۔ ۴۰ روپے بچت سود کی مد میں نہیں آتی کہ آپ نے پہلے رقم لی اور اس کو کاروبار میں لگایا بعد میں اپنی مصنوعہ (مطبوعہ) چیز کو کم قیمت پر پہلے ادایگی کرنے والے کو دے دیا؟
ج : بیع کی ایک صورت یہ ہے کہ چیز نقد ہو اور اس کے عوض میں رقم اُدھار ہو‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ رقم نقد ہو اور چیز اُدھار ہو۔
اخبارات و رسائل کے معاملے میں دونوں صورتیں رائج ہیں اور دونوں جائز ہیں۔ فریقین باہمی رضامندی سے ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر رسالے یا اخبار کی رقم کسی نے وصول کی ہو لیکن رسالہ کسی وجہ سے تیار نہ ہوسکا ہو‘یا خریدار تک نہ پہنچا ہو‘ یارسالہ بند ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں وصول کردہ قیمت واپس کرنا ہوگی۔ یہ ساری باتیں طے شدہ ہوتی ہیں اور رسالہ اپنے اوصاف کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے‘ فریقین میں تنازع کا موجب نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے لیے بیع سلم کی صورتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے (بیع سلم میں رقم پہلے ہوتی ہے اور چیز بعد میں مقررہ مہینہ یا تاریخ پر ادا کرنے کا وعدہ ہوتا ہے)۔ اور اس کے جواز میں کسی شک و شبے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
ایک شخص جب پیشگی رقم وصول کرنے کی صورت میں رعایت کرے تو یہ سود کے ذیل میں نہیں آتا۔ نیز رسالے کی خریداری ایک لحاظ سے بیع و شرا ہے لیکن حقیقت میں ایک مشن کو پھیلانے کے لیے باہمی تعاون ہے۔ بیع و شرا بھی ہے لیکن درحقیقت ایک آدمی مال خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں خود بھی علم حاصل کرے اور دوسروں کی تعلیم کا انتظام بھی ہو۔ (مولانا عبدالمالک)