۲۹‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پہلی عالمی القدس کانفرنس منعقد ہوئی۔ قبلۂ اوّل کے لیے مسلمانان عالم کا یکساں و متحدہ موقف اُجاگر کرنے کے لیے اس کانفرنس کی اہمیت غیر معمولی تھی۔اسلامی تحریکیں ہی نہیں‘ دیگر عناصر بھی بڑی تعداد میں اس میں شریک تھے۔ متعدد عیسائی رہنما بھی القدس کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے اس میں شریک رہے۔ ’’القدس کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا‘ تو اس میں بھی قوس قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔ شیعہ ‘سنی‘ نیشنلسٹ‘ مسیحی سب بیک آواز القدس کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس عالمی کانفرنس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر سے شریک قائدین و نمایندگان کو ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر ہونے کا موقع ملا۔
ایسی ہی ایک غیر رسمی مجلس میں سوڈان سے آئے ہوئے تین اہم رہنما یکجا تھے:۱- شیخ یاسین عمر الامام‘ ڈاکٹر حسن ترابی کے دست راست ہیں اور ساری عمر اسلامی تحریک کے لیے جدوجہد میں گزار دی ‘۲- ڈاکٹر احمد محمد عبدالرحمن‘ سوڈانی صدر عمر حسن البشیر کے سیاسی امور کے ذمہ دار ہیں‘ اور ۳-مہدی ابراہیم حکمران پارٹی کے خارجہ امور کے نگران ہیں۔تینوں کو باہم شیروشکر دیکھ کر راقم الحروف نے کہا کہ جتنی خوشی پوری کانفرنس کی کارروائی دیکھ کر ہوئی‘ اتنی ہی خوشی صرف اس ایک منظر کو دیکھ کر ہو رہی ہے کہ آپ تینوں اکٹھے ہیں۔ سب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’ہمارے اختلافات بھی ہمیں جدا نہیں کرتے!‘‘ اور پھر اس رواداری کے کئی واقعات سنائے۔
بدقسمتی سے سوڈان کی تازہ صورت حال نے ایک بار پھر تشویش بلکہ کرب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹ء کو قاضی حسین احمد کی زیر قیادت جماعت اسلامی کا تین رکنی وفد خرطوم ہی میں تھا۔ اس موقع پر ۱۰ روز کے مسلسل مذاکرات کے بعد پارٹی کی شوریٰ نے ایک جامع صلح نامہ اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس میں صدر عمر البشیر اور ڈاکٹر حسن ترابی کے درمیان تمام اختلافات کا احاطہ کیا گیا تھا‘ ان کی وجوہات کا ذکر تھا‘ ان کا فوری حل بھی تجویز کیا گیا تھا اور ان کا دوررس علاج بھی تحریر کیا گیا تھا۔
سوڈانی رہنمائوں نے ایک دوسرے کو بھی مبارک باد دی‘جماعت کے وفد سے بھی اظہار سپاس و تہنیت کیا اور سب نے کھلتے چہروں سے امید ظاہر کی کہ اب دھیرے دھیرے تمام حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس صلح نامے کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر عمرالبشیر کے درمیان رو در رو ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ شکوے بھی ہوئے‘ اور یہی امید قوی تر ہوئی کہ جن اختلافات کی بنیاد پر تحریک دو دھڑوں میں منقسم ہو گئی ہے ان کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔
ان اختلافات میں سب سے بنیادی امر تحریک‘ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کا تعین تھا۔ تفصیل میں جائے بغیر‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر حسن ترابی کے خیال میں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں حتمی اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہونے چاہییں‘ جب کہ صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کی رائے میں سوڈان کے حالات اور درپیش خطرات کی روشنی میں صدارتی نظام کو مستحکم ہونا چاہیے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ اور پارٹی سے بھی رہنمائی لے‘ لیکن عوام چونکہ صدر کی بیعت کرتے ہیں‘ اس لیے اس قبائلی ماحول میں صدر ہی کو
قول فیصل کا اختیار ملنا چاہیے۔ ان دونوں آرا میں توافق ممکن تھا‘ لیکن اختلافات کو ہوا دے کر اسے خلیج میں بدل دینے والوں کی کوششیں بدقسمتی سے کامیاب ہو گئیں۔ صلح نامہ معدوم ہو گیا‘ ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے ساتھیوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنی الگ پارٹی پاپولر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ حکمران پارٹی کا نام ’’نیشنل کانفرنس‘‘ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مصر‘ لیبیا اور کئی دوسرے ممالک میں موجود اپوزیشن لیڈروں نے واپسی کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ تمام قابل ذکر اپوزیشن رہنما جن میں سابق صدر نمیری‘ میرغنی‘ اور سابق وزیراعظم صادق المہدی بھی شامل ہیں‘ اب تک خرطوم واپس آچکے ہیں۔ حکومت سے صلح بلکہ حکومت میں شرکت کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔
سب سے بدنما صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وسط فروری ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرے بھی ہوئے اور متعدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ترابی صاحب پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ صلح و مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور وہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں‘ جب کہ ترابی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر صدر اُن سابق اپوزیشن لیڈروں سے صلح کی بات کر سکتے ہیں جنھوں نے انھی علیحدگی پسندوں اور مختلف بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر سوڈان پر متعدد فوجی حملے کروائے‘ تو ہم بھی جنوبی عناصر سے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ خود حکومت نے بھی ان عناصر کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے ہیں۔
وجوہات کا تجزیہ جس طور بھی کیا جائے‘ عملی نتائج بدقسمتی سے یہی سامنے ہیں کہ کل تک ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ وہ قائدین کہ جن سے پوری اُمت کی امیدیں وابستہ تھیں‘ ان کے درمیان اس وقت تلخی اوراختلافات عروج پر ہیں‘ تنائو شدید ہے اور واپسی کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خطرہ سوڈان کی انقلابی حکومت کو ہے‘ اور سب سے زیادہ خوشی سوڈان کے بدخواہوں کو۔ مختلف مواقع پر صدر عمر البشیر کی حکومت گرانے کے لیے عالمی قوتوں نے‘ پڑوسی عرب ممالک کے ذریعے سرتوڑ کوششیں کیں اور براہِ راست بھی ہلے بولے گئے۔ ’’الشفا‘‘ نامی دواساز فیکٹری پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا‘ اکائونٹ منجمد کر دیے گئے‘ سوڈان ایئرلائن پر پابندی لگا دی گئی۔ خود صدر عمربشیر بتا رہے تھے کہ امریکہ نے سوڈانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ۴۰۰ ملین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔
ان تمام کارروائیوں کے باوجود بھی یہ امریکی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ چار چار ممالک کی طرف سے مشترکہ فوجی حملے پسپا ہوئے۔ پڑوسی عرب ممالک خود مجبور ہوئے کہ سوڈان سے تعلقات بحال کریں۔ ’’الشفا‘‘ تباہ کر دیے جانے پر کئی ’’الشفا‘‘ بنانے کی پیش کش ہوئیں۔ سوڈان خوراک و ادویات سازی میں خود کفیل ہوگیا۔ پٹرول کا ایسا ذخیرہ دریافت ہوا کہ آیندہ برس سے سوڈان تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ہم جب وہاں گئے تو پٹرول لینے کے لیے پرمٹ جاری ہوا تھا اور رات رات بھر طویل قطاروں میں لگنا پڑتا تھا۔ زمین صرف غذائی سونا ہی نہیں اصل سونا اُگلنے لگی۔ سونے کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ ٹن سے بڑھ گئی۔ جنوبی سوڈان کی لڑائی میں تمام وسائل جھونکے جانے کے باوجود سوڈان مستحکم سے مستحکم ہوتا گیا اور آخرکار پڑوسی و امریکی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک سوڈانی حکومت کو اندر سے کمزور نہیں کیا جاتا‘ اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔
اس خدشے اور اس تجزیے سے دونوں متنازعہ بھائی بھی اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دُوری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تمام تر امیدیں خود سوڈانی حکومت اور ڈاکٹر حسن ترابی صاحب کی پارٹی میں موجود ان عناصر پر موقوف ہیں جو اب بھی باہم یک جا و یک جان ہیں۔سب تجزیہ نگار اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ عوام تقسیم نہیں ہوئے اور وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ دونوں رہنما حسب سابق مل جائیں۔ اس طرح کا عوامی دبائو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے زیادہ تسلی کی بات یہ ہے کہ خود صدر عمرالبشیر‘ ان کے وزرا اور ان کی پارٹی کی قیادت‘ سب کے سب اسلام سے گہری محبت رکھنے والے اور اسلامی اصلاحات کا سفرمکمل کرنے کے شدید حامی ہیں۔ان میں متعدد افراد براہِ راست ترابی صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی پہلی و آخری محبت ہے اور ان کے ہوتے ہوئے سوڈان کی اسلامی شناخت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔ خطرہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جن شیاطین نے ترابی و بشیر کو باہم جدا کر کے سوڈان کو ایک بحران کا شکار کیا ہے‘ اور اس بحران میں مزید تندی پیدا کر رہے ہیں‘ وہ لکڑیوں کا گٹھا کھول کر ایک ایک کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ آیئے ہم سب اپنے سوڈانی بھائیوں کے اتحاد و یک جہتی کے لیے دست دعا بلند کریں۔
سوڈان سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا یہ ہے کہ اخوان المسلمون کی بنیادی تنظیم جو اس سے پہلے حکومت سے باہر تھی‘ اب باقاعدہ حکومت میں شامل ہو گئی ہے‘ اور اس کے ایک نوجوان رہنما ڈاکٹر عصام البشیر کابینہ میں لے لیے گئے ہیں۔ یہ تمام عناصر سوڈان کی اسلامی شناخت کے ضامن اور وحدت کی امید کو مضبوط تر کرنے والے ہیں۔
محمد ایوب منیر
عظیم اسلامی ملک انڈونیشیا ایک بار پھر بحران کے اندر گھر گیا ہے۔ جنرل سہارتوکے بعد برھان الدین یوسف حبیبی کو صدرِمملکت بنایا گیا لیکن اسلام پرستوں سے ان کی راہ و رسم اور طیارہ سازی کی صنعت میں غیر معمولی خود کفالت ان کے لیے موردِالزام بن گئی۔ ۱۶ ماہ قبل نہضۃ العلما کے عبدالرحمن واحد نے اقتدار سنبھالا تو گولکرپارٹی‘ جمہوری پارٹی اور متحدہ ترقیاتی پارٹی (پی پی پی) نے واحد کو نجات دہندہ قرار دیا تھا لیکن فسادات عروج پر پہنچے ہیں تو صدر سے استعفا کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورت میں جمہوری پارٹی کی سربراہ اور موجودہ نائب صدر سُکارنو کی بیٹی میگاوتی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ میگاوتی کے ’’راسخ العقیدہ اور روشن خیال‘‘ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُس کی جماعت (پی ڈی پی آئی) کے ۷۰ فی صد عہدے دار چینی النسل ہیں یا مسیحی ہیں‘ اور اس کے مندروں میں جا کر پھول چڑھانے کے کئی واقعات عالمی پریس میں شائع ہو چکے ہیں۔
وسائل سے مالا مال انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کوعلیحدہ کروانے میں استعماری قوتوں کی کامیابی نے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف کر دیا ہے کہ ۹۰ فی صد مسلم اکثریت کے ملک کو ۹‘ ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت کے زیرنگیں کیا جا سکتا ہے۔ ۵ فی صد چینی النسل ملیشیائی آبادی‘ تمام تر معیشت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔اکبر تاجنگ‘ میگاوتی‘ امین رئیس اور جنرل اندرپارتو نوسُتارتو تن تنہا ملک کو خلفشار سے نکالنے‘ اقتصادی بحران ختم کرنے‘ اور ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عبدالرحمن واحد کو معزول ‘ برخواست یا مستعفی کرایا گیا تو جو فرد برسرِاقتدار آئے گا وہ عیسائی موثر گروہوں کا نمایندہ ہوگا ‘یا اُن کے رحم و کرم پر ہوگا۔ پاکستان کے اندر کوئی غیر مسلم دستوری طور پر صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ مسلح افواج کا سربراہ اور چیف جسٹس نہیں بن سکتا لیکن انڈونیشیا کا دستور ایسی کوئی شق نہیں رکھتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
آچے‘ ایرپان جایا‘ ریائو اور مدورا صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ جزائر ملاکا میں مسلمان اور عیسائی‘ ایک دوسرے کے خلاف مسلح ہو کر صف آرا ہیں۔ سہارتو کے دورِ حکومت میں بھی اور اُس کے بعد گذشتہ تین برسوں میں ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت نے کلیدی مناصب تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ چار اہم ترین وزارتیں ان کے پاس ہیں۔
وزارت صنعت و تجارت لوھوت بنسار پنجایتن کے پاس ہے۔ مذہباً پروٹسٹنٹ اور ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں۔ سنگاپور میں انڈونیشیا کے سفیر رہے ہیں۔ لوھوت کا وعدہ تھا کہ ۸۰ ارب امریکی ڈالر کا سرمایہ جو صنعت کار انڈونیشیا سے نکال لے گئے ہیں‘ میں یہ واپس لائوں گا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی‘ تاہم روپے کی قیمت اور بھی گر گئی۔ لوھوت کے سابق حکمران خاندان سے بھی خوش گوار مراسم رہے ہیں‘ نیز اقتصادی شہ رگ کی مالک چینی آبادی کے سربرآوردہ لوگوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔
بنگاران سراگی‘ وزیر زراعت اور مذہباً پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔ وہ بوگور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں زرعی اقتصادیات کے استاد رہے اور ان کی کئی تخلیقات منظرعام پر آچکی ہیں۔ انڈونیشیا کے ۱۲ کروڑ مسلمان کسانوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہ آسکی‘ تاہم وزارتِ زراعت میں تعلیم یافتہ عیسائی اہم عہدوں پر ضرور متعین ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر توانائی و معدنیات پرنومویس گیانترو کیتھولک عیسائی ہیں۔ ان کا تعلق جاوا سے ہے اور جاوا کے رہنے والے مسلک کی مجموعی سیاست پر اثرانداز رہتے ہیں۔ وہ جکارتا کی اتماجایا کیتھولک یونی ورسٹی سے طویل عرصہ متعلق رہے اور بعدازاں عالمی بنک کے مشیر بن گئے۔ وہ تیل تلاش اور برآمد کرنے والی کمپنیوں کے بھی انچارج رہے جن کے اثاثے اربوں ڈالر ہیں۔ ان کی امریکی سفیر رابرٹ ایس گیلبا رڈ سے قریبی دوستی ہے۔ مذہب بھی ایک ہے اور امن عالم قائم کرنے کا طریقہ بھی ایک! علاوہ ازیں انڈونیشیا بنک تعمیر نو ایجنسی (IBRA) کے سربراہ ایڈون گروگان بھی عیسائی ہیں۔
اس موقع پر تھیو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ تھیوسیافی مسلکًا پروٹسٹنٹ ہیں۔ وہ مکاسار کے رہنے والے ہیں۔ مسلم مسیحی فسادات بھڑکانے میں انھیں ’’یدطولیٰ‘‘ حاصل ہے‘ اور اُن کا یہ جملہ تو مشہور ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ انڈونیشیا کی تقسیم ہو جائے بجائے یہ کہ یہاں کوئی مسلمان حکومت کرے‘‘۔ تھیو‘ میگاوتی کے معتمد خاص اور اُن کی جمہوری پارٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ میگا اُن پر اس قدر اعتماد کرتی ہیں کہ وہ انھیں کئی بار پارٹی کا سربراہ بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اقتدار ملنے کی صورت میں اصل فیصلے اور وزارتوں کی تقسیم تھیو ہی نے کرنا ہے۔ تھیو‘ فی الوقت میگاوتی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ صدر واحد نے میگاوتی کو جن شورش زدہ علاقوں کا انچارج بنایا‘ تھیو کے مشورے پر میگا نے وہاں خاموشی اختیار کیے رکھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہنگامے اور فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ میگا اپنے مسیحی عہدے داروں اور مشیروں پر خاص اعتماد کرتی ہیں۔ یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ انڈونیشیا کی سراغ رساں ایجنسی (BAKIN)کے نائب سربراہ جنرل یوس منکو اور سربراہ لیفٹیننٹ جنرل آری جیفرے کمات ہیں‘ نیزفوج کے اسٹرے ٹیجک سراغ رسانی شعبے کے سربراہ میجر جنرل شیوم بنگ ہیں۔ اتنے اہم عہدوں پر عیسائیوں کا تعینات ہونا‘ حسن اتفاق بہرحال نہیں ہے! اب ‘جب کہ عبدالرحمن واحد پر ۳۶ کروڑ ڈالر‘ قومی ادارے (بلوگ) کے ذریعے غصب کرنے کا الزام ہے اور ۱۶ ماہ قبل کے قریبی حلیف امین رئیس (اب قومی مجلس MPR کے سربراہ)‘ اسپیکر اسمبلی اکبر تاجنگ اور نائب صدر میگاوتی‘ صدر واحد سے کھلم کھلا علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں‘ عیسائی گروہوں نے اپنی کوششیں ایک مرتبہ پھر تیز کر دی ہیں۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل (مارچ ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق عیسائیوں کی تکنیک یہ رہی ہے کہ اسلامی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ نہضۃ العلما اور محمدیہ دو بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ ان کے درمیان تفریق پیداکرنے اور خلیج وسیع کرنے میں اِسی گروہ کا اہم کردار ہے۔ نہضۃ کے سربراہ عبدالرحمن واحد ہیں اور چار کروڑ پیروکاروں کے دعوے دار ہیں‘ جب کہ امین رئیس‘ محمدیہ کے سربراہ رہے ہیں۔ جن علاقوں میں فسادات برپا ہوئے یا آج کل جاری ہیں‘وہاں مسلم علما‘ اساتذہ اور قائدین کو اوّلین طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ چاہے مشرقی جاوا ہو یا آچے یا مدورا۔ مشرقی تیمور کی طرز پر عیسائیوں نے مختلف صوبوں میں تربیت یافتہ کمانڈوز اور نیم فوجی افراد کے دستے منظم کر لیے ہیں۔ ملاکا میں ریڈ آرمی آف بینی ڈورو ہے‘ سلاویسی میں بلیک بیٹ آرمی ہے ‘ اور مورچے بند ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
انڈونیشیا میں مقیم عیسائیوں کا متحرک ترین محاذ میڈیا ہے اور انڈونیشیا کے حوالے سے تازہ ترین اور
گرم گرم خبریں بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا کو بدنام کیا جاتا ہے اور غیر ملکی اداروں مثلاً عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
ان حالات کا تقاضا ہے کہ اُمت کا درد رکھنے والے فہیم عناصر انڈونیشیا کو کسی مزید بحران کی زد میں آنے سے روکیں۔ سرکاری‘ غیر سرکاری اور انفرادی طور پر ایسے سیمی نار منعقد کیے جائیں جن میں حالات کا صحیح تجزیہ ہو اور انڈونیشیا کو عیسائیت کی گود میں جانے سے بچایا جا سکے۔ اسرائیل کے قیام‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ اور مشرقی یورپ میں مسلم کشی کے بعد انڈونیشیا کے بحرانوں پر خاموشی اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی!