اپریل ۲۰۰۱

فہرست مضامین

اسکارف بمقابلہ بندوق مروہ کواکچی سے ایک انٹرویو

منٰی حمادیہ | اپریل ۲۰۰۱ | عالم نسواں

Responsive image Responsive image

سوال : جب آپ ترکی کی پارلیمنٹ میں حجاب کے ساتھ پہلی دفعہ داخل ہوئیں تو آپ کیا سوچ رہی تھیں؟

جواب: ترک جمہوریت کی ۷۶ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ دو عورتیں جو حجاب لیتی تھیں ترک پارلیمنٹ میں منتخب کی گئیں۔ نسرین اونال ایسی دوسری ممبر پارلیمنٹ تھیںلیکن انھیں اسکارف اُتارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سب سے پہلی ہونے کی وجہ سے بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ گو کہ میں اُن۷۰ فی صد ترک خواتین کی نمایندگی کر رہی تھی جو اسکارف پہنتی ہیں لیکن ملک میں ایک اقلیتی اشرافیہ ایک طویل عرصے سے حکومت کر رہا ہے ۔جو لوگ اِس طبقے سے متعلق ہیں وہ کھلے ذہن کے مہذب جمہوری نہیں کہ اُن لوگوں کا احترام کر سکیں جو اُن کی طرح کپڑے نہیں پہنتے اور اُن کی طرح سوچتے نہیں۔ مجھے اُن کی جانب سے مخالفت کی توقع تھی لیکن مجھے اِس کا تصور بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی تہذیب دشمن اور ظالمانہ ہوگی۔

س : کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے عورت ہونے نے بھی سیکولرسٹوں کے برتائو کو متاثر کیا؟

ج :  میرا احساس ہے کہ مجھ سے امتیازی سلوک صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا بلکہ اس بنیاد پر بھی کیا گیا کہ میں ایک عورت ہوں۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ یہ نام نہاد‘ سیکولر‘ جمہوری خواتین اپنی ایک ساتھی خاتون کی مخالفت کر رہی تھیں اور اُسے نیچا دکھا رہی تھیں۔ ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہی کچھ ہے جو امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے دوران ہوا تھا۔ ترک عورتیں جو حجاب میں رہنا چاہتی ہیں اور ساتھ ہی کام بھی کرنا چاہتی ہیں ترکی کے کالے لوگ ہیں‘ گو کہ ہم اکثریت ہیں۔

س : آپ کے خیال میں ترک سیکولرسٹوں کے فیصلے کن باتوں سے متاثر ہوتے ہیں؟

ج : کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی تو نام نہاد سیکولر روایت جسے اتاترک کے دَور میں اختیار کیا گیا لیکن بعد میں تبدیل ہو گئی۔ اِس نے دوسرے معنی اختیار کر لیے۔ مذہب کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق اِس کا ہدف بن گئے۔ ترکی میں مذہب ریاست میں مداخلت نہیں کر سکتا لیکن ریاست کو مکمل حق ہے کہ وہ زندگی کے ہر گوشے میں مذہب کے معاملے میں مداخلت کرے‘ یہ بھی بتائے کہ اپنے بچوں کو قرآن کیسے پڑھائیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ سال پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس کے تحت ۱۲ سال کے بچوں کو گھر کے اندر یا باہر قرآن پڑھنا منع کر دیا گیا۔ اِس کا اطلاق ۱۲ سے ۱۵ سال تک کی عمر کے بچوں پر ہوتا تھا۔ آپ اپنے بچوں کو صرف گرمیوں کی تعطیلات میں قرآن پڑھا سکتے ہیں۔ ہفتے میں تین دفعہ‘ لیکن ہر دفعہ تین گھنٹے سے زائد نہیں۔

قانون سازوں کا مقصد یہ ہے کہ حفظ کے اسکول ختم کر دیے جائیں اور بچوں کو اوائلِ عمر میںاِس علم کے حصول سے روک دیا جائے۔ یہ قانون زور اور طاقت سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ مغربی طور طریقے اختیار کرنے کے نام پر ہو رہاہے۔

دوسری وجہ بعض لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میںیہ ہول ہے کہ ہم ایران یا سعودی عرب کی طرح ہو جائیں گے۔ یہ اِس وجہ سے ہے کہ ہمارا معاشرہ دو انتہائوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ یہ کسی کھلی جگہ آمنے سامنے نہیں بیٹھ سکتے۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ترکی میں ایک کرپٹ سسٹم ہے جسے آپ deep state کہہ سکتے ہیں۔ میں نام لے کر نہیں بتا سکتی کہ یہ deep state   کن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ کچھ سرکاری افسران اور ممبرانِ پارلیمنٹ‘ سیکرٹیری اور فوجی جنرل اور اندازاً پانچ بزنس مین جو ترکی کی تمام نیوزایجنسیوں کے مالک ہیں ‘ پر مشتمل ہے۔ یہ چھوٹا سا اشرافیہ گروپ جب فیصلہ کرتا ہے کہ ان کے کرپٹ سسٹم کو خطرہ درپیش ہے جس میں ٹیکس دینے والوں کی رقم اُن کی جیبوں میں بآسانی منتقل ہوتی ہے تو وہ مزاحمت کرتے ہیں۔

جو بھی اسلام اور قدامت پسندی یا حجاب کے خلاف نکلتا ہے ہمیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ غبن  کرنے والے ‘جھوٹی برآمدی اسکیمیںچلانے والے‘ حکومت کو دھوکا دینے والے اور لوگوں کی رقومات لے کر امریکہ یا سوئٹرزرلینڈچلے جانے والے لوگ ہیں۔ اگر کوئی افسر چاہتا ہے کہ افسرانِ بالا کی نظر میں سنجیدہ سمجھا جائے‘ اسے ترقی دی جائے تو وہ اسلام سے لڑتا ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے۔ ایک ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے مجھے ہدف بنایا گیا اور اِس گروپ کی طرف سے بہ جبر روکا گیا۔ کیونکہ حجاب نفاست کی علامت ہے اس لیے یہ خطرہ ہے۔

س :  امریکہ میں آپ کا کیسا استقبال کیا گیا؟

ج :  میں اب اپنی نمایندگی نہیں کرتی۔ میں ترکی کی مظلوم قدامت پسند خواتین کی آواز ہوں جو ۲۵ سال سے موجود ہیں اور اُن سے اس لیے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے کہ وہ حجاب پہننا چاہتی ہیں۔ انھیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کیریئر اور مذہب میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ میں اُن کی آواز کو ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے جہاں تک لے جا سکوں لے جانا چاہتی ہوں۔

س : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سیکولرسٹوں اور اسلام پسندوںکے درمیان کوئی صلح یا سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟

ج :  اس سوال کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ ہم تو بالکل رضامند ہیں کہ کسی فورم پر ساتھ بیٹھیں جہاں مسئلہ طے کرنے کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی ہو۔

س : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ وہ ایسا چاہتے ہیں؟

ج : برائے مہربانی یہ سوال اُن سے پوچھیے۔

ہم تو مظلوم فریق ہیں۔ کئی برسوں سے ہمیں ٹھوکریں لگائی جا رہی ہیں یہ اُن کی روایت کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہے‘ کہ کیا وہ صلح چاہتے ہیں اور بیٹھ کر بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بہتر اور پرامن ترکی کے لیے ہم اپنے مسائل حل کر لیں؟ ہم عثمانیوں کے وارث ہیں کہ جو صدیوں تک امن سے رہے۔

میں نے اکثر یہ دلیل سنی ہے کہ جب آپ عام جگہوں پر حجاب پہنیں تو آپ غیر جانب دار نہیں رہتیں‘ لیکن جب آپ حجاب نہ پہنیں اور اسلام سے نفرت کریں اور اُن لوگوں پر لعنت کریں جو اسکارف پہننا چاہتی ہیں تو کیا آپ غیر جانب دار ہیں---؟ یہ خط آپ کہاں کھینچیں گے؟ جو انسانی حقوق بین الاقوامی معاہدوں میں لکھے گئے ہیں جن کی ترکی نے توثیق کی ہے‘ اُن کا اطلاق آخر کب ہوگا؟

س : جو کچھ آپ کر رہی ہیں وہ کرنے کے لیے کیا چیز جذبہ اور قوت دیتی ہے؟

ج : حق کے لیے کام کرنا۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے اپنے خیالات دوسروں پر نہیں ٹھونسے‘ میں نے لوگوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا اور نہ لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ میری ہی طرح سوچیں۔ میں کبھی بھی بنک فراڈ میں ملوث نہیں ہوئی۔ میں نے کبھی ایسا کام نہیںکیا جو میرے مذہب کی نظر میں غلط ہو یا ترک دستور کی نظر میں غلط ہو۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جو حق کے لیے اٹھتا ہے وہ تکلیف اٹھاتا ہے۔ میں حق کے لیے لڑنے والی ہوں‘ ہماری سچائیاں آفاقی ہیں۔ (ترجمہ: مسلم سجاد- ماہنامہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مارچ ۲۰۰۱ء)