سورئہ یوسف کا قرآنِ حکیم میں ایک منفرد مقام ہے۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سارے کا سارا ایک ہی جگہ اور ایک ہی ساتھ بیان کردیا گیا ہے، جب کہ کتاب اللہ میں دوسرے قصص کا اسلوب اور انداز یہ ہے کہ موضوع سخن کے لحاظ سے جہاں ضروری ہو وہاں اتنا ہی بیان کردیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے قصۂ یوسف دیگر قصص قرآنی سے ممتاز اور نمایاں ہے اور اسے ’احسن القصص‘ قرار دیا گیا ہے۔
سورئہ یوسف کی افادیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں ایک مومن کے لیے امید، حوصلہ اور کامیابی کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فرد کی کس کس طرح سے مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر رہتا ہے خواہ بظاہر اسے کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ بندہ تو کوشش کی حد تک مکلف ہے، معاملات کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو انسان مایوس نہیں ہوتا، کسی ذہنی اُلجھن کا شکار نہیں ہوتا، اور اپنے فرض کی ادایگی کے لیے مستعد رہتا ہے۔ اسی طرح اُمت مسلمہ اور تحریکِ اسلامی کو آج جن مصائب کا سامنا ہے اور جس آزمایش سے وہ دوچار ہے، سورئہ یوسف کے مطالعے سے یہ اُمید اور حوصلہ ملتا ہے کہ بالآخر حق غالب آکر رہتا ہے بظاہر حالات کتنے ہی غیرموافق اور کیسے ہی مصائب کا سامنے ہو۔ اہلِ ایمان کے خلاف کیسے ہی حربے آزمائے جائیں اور تدابیر کی جائیں بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے۔ گویا اس دورِ فتن میں اس سورہ کا مطالعہ اہلِ ایمان کے لیے تزکیہ و تربیت، ہمت و حوصلے کا ساماں اور دلوں کے لیے ایک ولولۂ تازہ ہے۔
عربی زبان کے بلندپایہ ادیب اور مفسرِ قرآن سید قطب شہیدؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں اس قصے کی علمی، ادبی اور فنی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ جس طرح قرآن حکیم میں لایا گیا ہے وہ اسلام کے منہجِ قصہ گوئی کی ایک حسین، عمدہ اور خوب صورت مثال ہے۔ اس میں انسانی فطرت، نفسیات، جذبات، نظریات، حرکات اور تاثرات کی عکاسی کی گئی ہے، اور یہ اسلام کے طرزِ تعلیم و تربیت، نیز اسلامی دعوت و تحریک کے مقاصد کو بھی خوب بیان کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں قصص لانے کا انداز عموماً ایک سا ہی ہے لیکن حضرت یوسف ؑ کے قصے کا اپنے طرزِ ادایگی کے لحاظ سے اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے ایک مخصوص انداز ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس قصے کے بعض اہم پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دل چسپی لیتے ہیں جن میں کچھ چاشنی حسن و عشق کی ہو لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس قصے کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پوری سرگزشت ہر پہلو سے حضرت یوسف ؑ کے اعلیٰ کردار و صفات کا ایک مرقع ہے۔ جو مواقع خاص آزمایش کے آئے ہیں ان میں حضرت یوسف ؑ نے اپنی اعلیٰ فطرت کے جو جوہر نمایاں کیے ہیں وہ ا یسے شان دار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر ان کی تقلید کا جذبہ اُبھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے.... (تدبر قرآن، ج۳، ص ۴۳۱)
اس سورت کی ضرورت و اہمیت اور شانِ نزول پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ ’’اس سورے کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی، جب کہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں، یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں بعض کفارِ مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپؐ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا؟ چونکہ اہلِ عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایاجاتا تھا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سناگیا تھا، اس لیے انھیں توقع تھی کہ آپؐ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے بعد میں کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انھیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپؐ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ مزیدبرآں اس قصے کو قریش کے اُس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادرانِ یوسف ؑ کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن، دیباچہ، سورئہ یوسف)
اس سورت میں باپ کی محبت، بھائیوں کا سوتیلاپن، سگے بھائیوں کا آپس کا پیار، گمراہ انسانوں کی ظالمانہ فطرت، ان کی سازشیں اور چالیں، آزاد خیال اور اُونچے طبقے کی خواتین کی علیحدہ معاشرتی اقدار اور ان کا اخلاقی دیوالیہ پن، اس طبقے کے مردوں کے دہرے کردار اور پھر انسانی شرمندگیاں و ندامتیں، معافیاں، جدائیاں، ملاپ اور انسانی فطرت کے مختلف پہلوئوں پر ہر زاویے سے خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسانی جذبۂ جنس اور اس کی حدود کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قصہ اسلامی ادب کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا انداز فنی ہے۔ اس میں حیرت کا اظہار (creation of suspense) بھی پایا جاتا ہے اور انسانی فطرت کی عکاسی بھی موجود ہے۔ غرض یہ اسلامی ادب کی حدود تحفظات واقعیت، صداقت اور صحت مند مواد کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو احسن القصص کا نام دیا ہے۔
سورئہ یوسف کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے بہت سے اسباق اور نصائح اخذ ہوتے ہیں۔ یہاں چند پہلوئوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کی خصوصی نگرانی اور تربیت فرماتے ہیں۔ اسی لیے ان پر وحی کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ پیغمبرانہ مشن، زندگی کی تگ و دو، کٹھن حالات اور مصائب و آلام میں ان کو ہمت و حوصلہ، استقامت و استقلال اور ایمان و یقین کی دولت عطا کی جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے اسوہ میں ہمیں بارہا ایسے مواقع نظر آتے ہیں۔حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے انھیں اندھے کنویں میں پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں (یوسف ۱۲:۱۵)۔ اسی طرح عزیزِ مصر کی بیوی نے جب انھیں رِجھانے کی کوشش کی تو اللہ نے ان کی مدد کی۔ بظاہر انھیں جیل میں قید کیا گیا لیکن یہی جیل ان کے لیے عظمت و سربلندی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائی یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر اپنے والد یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے یوسف ؑکو بھیڑیے کے کھا جانے کا ڈراما رچایا تو بوڑھے باپ پیغمبر یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہمت و حوصلہ عطا فرمایا اور انھوں نے کہا میں اس پر صبر کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں گا (۱۲:۱۷-۱۸)۔ اسی طرح جب حضرت یوسف ؑ مصر سے اپنے والد یعقوب ؑ کے لیے اپنی قمیص روانہ کرتے ہیں، تو یہ ایک نشانی تھی کہ یوسف ؑ زندہ ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کنعان میں ان کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں۔پھر جب خوش خبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف ؑ کا قمیص حضرت یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک ان کی بینائی لوٹ آئی۔ ایک عام انسان کے لیے بھی اس میں رہنمائی ہے کہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور آزمایشوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر وہ اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے پیش نظر جدوجہد کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ کر رہتا ہے۔
بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کٹھن، غیرمعمولی اور آزمایش کے حالات میں مبتلا کر کے انسان کی تعلیم و تربیت اور آیندہ کی قسمت تعمیر کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی یوسف ؑ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس آیت قرآنی کا بھی یہی مفہوم ہے:
اس طرح ہم نے یوسف ؑ کے لیے اس سرزمین (مصر) میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ (۱۲:۲۰)
کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاًفوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے۔ یہ پاکستان کے فاٹا اور قبائلی علاقوں جیسے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف ؑسے جو کام لینا تھا، اس کی تعلیم و تربیت کے لیے انھیں ریگستان سے نکال کر مصر جیسے تہذیب یافتہ ملک میں پہنچایا۔ اس تجربے اور بصیرت کے حصول کے لیے قسمت یوسف ؑ کو سلطنتِ مصر کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے گھر لے آئی۔ اس شخص نے یوسف ؑ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنی جاگیر یا ریاست کا انتظام ان کے حوالے کر دیا۔ اس طرح ایک چھوٹی سی ریاست کے ذریعے انھیں وہ انتظامی اور سیاسی تجربہ حاصل ہوگیا جو آیندہ ایک بڑی ریاست کے امور سنبھالنے کے لیے ضروری تھا۔
اس سورت میں آزاد خیال طبقے کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے اور اس زمانے میں مصر کے اُونچے طبقے کی خواتین کی معاشرتی و اخلاقی حالت کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے:
جب [زلیخا کے] شوہر نے دیکھا کہ یوسف ؑکا قمیص پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو اس نے [یوسف ؑ کی پاک دامنی ثابت ہوتے اور زلیخا کے جرم کو دیکھ کر] کہا: یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمھاری چالیں۔ یوسف ؑ اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی۔ (۱۲: ۲۷-۲۹)
اس وقت کی زنانِ مصر کی ایک تکیہ دار مجلس کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے:
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو (دیوانہ) کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے‘‘۔ اس [زلیخا] نے جو اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو ان کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت، جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسف ؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اُٹھیں ’’حاشاللہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے‘‘۔ (۱۲:۳۰-۳۱)
یہ اس وقت کے مصر کی اُونچے طبقے کی عورتوں کی اخلاقی اور معاشرتی حالت تھی کہ ایک پُررونق مجلس امرا و اولیا مصری خواتین کی سجائی گئی اور اس میں زلیخا نے اپنے خوب صورت محبوب کو دکھایا اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ تم بتائو میں ایسے حسین نوجوانوں پر مروں نہ تو کیا کروں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آزاد منش، عیاش، آوارہ مزاج اور جنسی ہوس کے شکار لوگوں کا رویہ اور بے باکی، ہر دور میں ایک ہی رہی ہے۔ یہ کوئی نئی چیز، روشن خیالی، نرمی اور نئی تہذیب نہیں ہے بلکہ پرانی اور گھسی پٹی تاریک خیالی، تنزل، بدتہذیبی اور جاہلیت اور دقیانوسیت ہی ہے۔
اس سورت میں متقی، پرہیزگار اور نیک لوگوں کے ایمان کی وہ کیفیت بھی بیان کی گئی ہے جو آزمایش کے مرحلے میں ان کی ہوتی ہے کہ ان کا خدا پر ایمان اور اپنے اُوپر ضبطِ کمال کا ہوتا ہے۔ ان پر بڑے سے بڑا حربہ ناکام ہوتا ہے۔ وہ نازک لمحات میں بڑے سے بڑے لالچ و ترغیب میں نہیں پھنستے۔ ایسے موقع پر بھی وہ خدا سے مدد، توفیق اور دعا کرتے ہیں۔ ان کا خدا پر یقین پختہ ہوتا ہے اور ان کے دل و دماغ پر خدا کا احساس ہر وقت طاری ہوتا ہے، اور زبان پر خدا کا ذکر جاری ہوتا ہے یہاں تک کہ گناہِ کبیرہ سے بچنے کے لیے بڑی سے بڑی تکلیف قید تک کو قبول کرلیتے ہیں۔ ذیل کی آیات میں ایمان اور آزمایش کی کش مکش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
عزیز کی بیوی نے (اپنی محفل کی سہیلیوں سے) کہا: دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے رِجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔ یوسف ؑنے کہا: اے میرے رب، مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں، اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جائوں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا۔ (۱۲: ۳۲-۳۴)
’’اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجاے خود کچھ کم قابلِ تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارتِ فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے ، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجاے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اُٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتاہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں___ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیرمعمولی صفات جو اَب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمایش کے دَور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انھیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۹۸-۳۹۹)
’’دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوطی بخش دی گئی جس کے مقابلے میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہوکر رہ گئیں، نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الٰہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۳۹۹)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملے میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ ’جمہوریت‘ کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیراپنی غیرقانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک قانون بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُس سے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔
قیدخانے میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دو قیدی اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے کے لیے آپ ؑ کے پاس آتے ہیں۔ موقع کا فائدہ اُٹھا کر اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام اپنی دعوتِ توحید ان کے سامنے نہایت ہی دانائی، حکمت، مؤثر اور مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں، آپ ؑنے فرمایا:
اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم سے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (۱۲: ۳۹-۴۰)
بقول سید مودودی: یہ تقریر اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمت دعوت کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں: ’’حضرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت ِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتائوں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمھیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ اُن کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغِ حق کی دُھن سمائی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوب صورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رُخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جسے دعوت کی دُھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دُھن لگی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کردیتاہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اورجھگڑالوپن سے انھیں اُلٹا متنفر کرکے چھوڑتا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑچھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اُس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہلِ حق کا راستہ اہلِ باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اُتر گئی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کرسکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقائوں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجائو، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑگھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں۔ ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی اَن داتائی وخداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے اِن میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے توفرماں روائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو‘‘۔(ایضاً، ص۴۰۳-۴۰۴)
ان دنوں شاہِ مصر کو ایک خواب نظر آیا۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ اب وہ قیدی جو ایک عرصے تک یوسف ؑکے ساتھ جیل میں رہا تھا اور اس وقت وہ مقرب شاہی میں داخل تھا، اسے یاد آیا کہ یوسف ؑہمیں خوابوں کی تعبیر بتاتے تھے اور وہ صحیح نکلتی تھی۔ وہ بادشاہ سے اجازت لے کر قیدخانے میں گیا اور یوسف ؑ کو بادشاہ کا خواب بتایا۔ یوسف ؑ نے اس کی تعبیر بتا دی جو صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر شاہِ مصر نے یوسف ؑ کو مقرب شاہی بنانے کے لیے جیل سے بلایا، تو یوسف ؑ نے کہلا بھیجا کہ پہلے اس الزام کی تحقیق کرلیجیے جو میرے کردار پر لگایا گیا تھا۔ بادشاہ نے محفل کی تمام عورتوں کو بلوایا۔ ان سب نے گواہی دی کہ یوسف ؑ میں ہم نے کوئی اخلاقی کمزوری نہیں دیکھی۔ یہاں تک کہ زلیخا بھی بول اُٹھی کہ دراصل میری نیت میں ہی فتور آگیا تھا۔ یوسف ؑ بے شک ایک پاک دامن شخص ہے۔ یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی ثابت ہونے کے بعد شاہِ مصر نے تمام اقتدار سلطنت یوسف ؑ کے سپرد کر دیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:’’ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انھوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظامِ تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حضرت یوسف ؑ نے اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضِ جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیا بھیجے جاتے ہیں۔ انھوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے۔
اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظامِ کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راست باز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راست باز تھے تو کیا ایک راست باز انسان کا یہی کام ہے کہ قیدخانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ’’بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘، اور بار بار اہلِ مصر پر بھی واضح کردے کہ تمھارے ان بہت سے متفرق خودساختہ خدائوں میں سے ایک یہ شاہِ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ’’فرماں روائی کا اقتدار خداے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے‘‘، مگر جب عملی آزمایش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہِ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ’’فرماں روائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں‘‘ تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورِ انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اُتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انھیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علَم برداروں کی بلندی دیکھ کر انھیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انھیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مردِ مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱۲-۴۱۳)
اس سے معلوم ہوا کہ اقتدار، سیاست اور حکومت ایمان والوں کے لیے کوئی شجرممنوعہ نہیں ہے۔ معاشرے کی اصلاحِ احوال، امن و امان، خدمتِ خلق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فلاحِ عامہ کے لیے نیک سیرت اور باکردار لوگ اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر حضرت یوسف ؑ، حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت کامیابی سے اسلامی ریاستیں چلائی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ یہ سلطنت و حکومت اور اقتدار و اختیار دو دھاری تلوار کا نام ہے۔ یہ قوت نہایت ہی احتیاط، ذہانت، قابلیت، دانش مندی، تقویٰ اور خدا کی توفیق چاہتی ہے۔ یہ انسانی فلاح و کامرانی کا زینہ بھی ہے اور خسران و ناکامی کا گڑھا بھی۔ اسی لیے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے کام کرتے رہے۔
اس قصے میں تدبیر اور توکل کا سبق بھی موجود ہے۔ انسان کو اپنے کام نہایت ہی سوچ بچار، تدبیر، احتیاط، منصوبہ بندی اور تمام حالات کا جائزہ لے کر شروع کرنے چاہییں اور اللہ پر بھروسا و توکل کرکے نتیجہ اس اعلیٰ ذات پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اللہ کی مشیت اور مرضی سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے۔ جیساکہ حضرت یعقوب ؑنے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مصر میں داخلے کے وقت احتیاطاً مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی ہدایت کی مگر ان کی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔
’’تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب ؑ کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو، یہ دراصل علمِ حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالمِ اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربے کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرأت نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہدوپیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھِر جانے کا موجب ہو۔ مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے۔
یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقتِ نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کون سی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱۸-۴۱۹)
سورۂ یوسف میں ملکی قانون (Law of Land) کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین کا لفظ استعمال کیا ہے:
اس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلا.ّ یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔(یوسف ۱۲:۷۶)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کی وسعت بیان کی ہے کہ دین مذہبی عبادت کے ساتھ قانون، عدالت، سیاست، معیشت، معاشرت اور انسانی تمدن تک حاوی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، دین ہیں اسی طرح ملکی قانون، شریعت، عدالتی امور، ملکی نظم و نسق اور انتظامی امور بھی دین میں شامل ہیں۔ پس انبیاؑ کی دعوت محض چند مذہبی رسومات، پوجاپاٹ اور عقائد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی کے تمام شعبوں سیاسیات، معاشیات، عمرانیات ، قانون و عدالت اور مکمل تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
سورئہ یوسف میں حضرت یوسف ؑ کی ایک دعا کا تذکرہ بھی ہے۔ اپنے خواب کی تعبیر سچ ہونے پر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی:
اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ (۱۲:۱۰۱)
یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دل کش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہلِ خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سر نگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خداپرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجاے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم وستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انھوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انھوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بُرے پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی، یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمتِ الٰہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قیدخانے میں سڑنے کے بجاے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تویہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوںتو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونۂ سیرت۔ (ایضاً، ص ۴۳۳-۴۳۴)
’’اس قصے سے قرآنِ حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اُس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، بلکہ بسااوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ مگر فی الواقع انھوں نے یوسف ؑ کو اُس بامِ عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انھوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف ؑ کے بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بجاے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انھیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیزمصر کی بیوی یوسف ؑ کو قیدخانے بھجواکر اپنے نزدیک تو اُن سے انتقام لے رہی تھی، مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تختِ سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرماں رواے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجاے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ یہ محض دوچار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی۔ بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر میں سے اس کے اُٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے، اور اُن لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنھوں نے اسے گرانا چاہا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس، خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں اُلٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
اس حقیقت ِ حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں اُن حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانونِ الٰہی میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا۔ اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقینا رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔
دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انھیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اِس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انھیں اس سے غیرمعمولی تسکین حاصل ہوگی، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے،بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔
مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مردِ مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بناکر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اُس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جس کی میعادِ سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اُٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں۔ (ایضاً، ص۳۸۰- ۳۸۱)