محمد اسماعیل قریشی


جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۰ء میں اعلان کیا تھا کہ قانون توہینِ رسالتؐ کا غلط استعمال ہو رہا ہے‘ اس لیے اس کے ضابطہ ٔ کار (procedural law) کو تبدیل کرنا ہوگا۔ راقم نے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی جانب سے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ طریقۂ کار میں تبدیلی‘ اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کی ناروا کوشش ہے جو قومی اشتعال کا باعث ہوگی اور اس کے پس پردہ امریکا اور یورپ کی متعصب ذہنیت کارفرما ہے۔

پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران‘ جنرل موصوف بیرون ملک دورے پر تھے‘ وہاں انھیں اس بگڑتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس لیے انھوں نے واپسی پر ایئرپورٹ ہی سے قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومت کے چند اہل کاروں کی طرف سے صرف ایک تجویز تھی جو نادانستہ طور پر پیش ہوگئی۔ قوم اگر اسے ناپسند کرتی ہے تو ہم قانون توہینِ رسالتؐ کے طریق کار میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کیسے کرسکتے ہیں؟ اس لیے یہ تجویز فوری طور پر واپس لے لی گئی۔

امریکا اور یورپ یہ جانتے تھے کہ جنرل مشرف نے یہ بات مصلحتاً کہہ دی ہے لیکن اس بات کو بھی وہ برداشت نہ کر سکے۔ امریکا کی نیوکون (نئی قدامت پسند عیسائی) گورنمنٹ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس بیورو کے حوالے سے ۲۰۰۳ء کی انٹرنیشنل رپورٹ تیار کی ہے‘ (جو ۲۰۰۴ء میں منظرعام پر آئی)۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ کا سختی سے محاسبہ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی آزادی اور حقوق انسانی سلب ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں‘ خاص طور پر قادیانی/احمدی گروہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی زندگی اور جان و مال محفوظ نہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قانون کے سال ۱۹۹۱ء میں نافذ ہونے کے بعد سے اب تک ہائی کورٹ‘ فیڈرل شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ سے کسی شخص کو بھی سزاے موت نہیں دی گئی اور نہ کوئی سزایاب ہی ہوا ہے۔ ۱۵ کروڑ آبادی کے اس ملک میں ۶۷ مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان کی نظر میں یہ بھی تشویش ناک صورت حال ہے۔

جوں ہی یہ رپورٹ جنرل مشرف کے نوٹس میں آئی یا لائی گئی‘ ان کو ہمہ مقتدر صدر امریکا جارج ڈبلیو بش کی دست راست کنڈو لیزا رایس کی وہ وارننگ یاد آگئی کہ اگر پاکستان نے امریکی حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیاتو گاجر کی مدارات ختم کر کے چھڑی کے زور سے اسے راہ راست پر لایا جائے گا۔ چونکہ ہمارے صدر بڑے ہی امن پسند اور صلح جو جنرل ہیں‘ اس لیے انھوں نے نہایت پھرتی سے یوٹرن لیا اور الٹی زقند لگائی۔ ایسی زقند وہ کنڈولیزا کے پیش رو کولن پاول کی ایک کال پر‘ بش کی خوش نودی کے لیے مسلم ملک افغانستان کے خلاف ان کے اعلانِ صلیبی جنگ (کروسیڈ) پر بھی لگا چکے ہیں۔ اس مرتبہ یوٹرن لیتے ہوئے جنرل موصوف نے ضابطہ ٔ کار سے بھی آگے بڑھ کے خود قانون توہینِ رسالتؐ پر نظرثانی کا اعلان داغ دیا (مئی ۲۰۰۴ئ) ۔ اس اعلان میں حدود قوانین کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ یہ قوانین بھی انسانی ذہن کی تخلیق ہیں‘ یعنی سرقہ‘ ڈکیتی/حرابہ‘ بدکاری‘ قذف کے جرائم کی قرآن و سنت میں مقررہ سزائیں ماڈرن اجتہاد کی روشنی میں معاذ اللہ وضعی یا انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ اس پر مسلمان عوام‘ ان کے قائدین اور دینی رہنما تڑپ اٹھے اور حکومت کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔ دوسری طرف سے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھی میدان میں اتر گئی۔ سیکولر دستے پہلے ہی سے ان کی مدد کے لیے موجود تھے‘ مگر مصلحتِ وقت کے پیشِ نظر طے پایا کہ تمام اسلامی قوانین پر نظرثانی کی جائے جس کی رو سے کاروکاری یا قتلِ غیرت (honour killing) کو ’’قتلِ عمد‘‘ میں شامل کیا گیا۔ یہ ترمیم پرائیویٹ بل کے  طور پر پیش کی گئی تھی۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ میں کسی قسم کی کوئی ترمیم شامل نہ تھی۔

یہاں اس بات کا ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی چینل نے ۱۳ مئی ۲۰۰۴ء کو توہینِ رسالتؐ کے سلسلے میں ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا تھا جس میں راقم‘ وزیرمذہبی امور جناب اعجاز الحق اور مشمولہ سرکار پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی مسز فوزیہ وہاب کے علاوہ محبوب صدا ڈائرکٹر کرسچین اسٹڈیز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں یہ امور زیربحث تھے کہ کیا حکومت‘ امریکا کے دبائو میں توہینِ رسالتؐ کا قانون ختم کرنا چاہتی ہے؟ کیا طریقۂ کار میں تبدیلی سے قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ کیا سزاے موت ختم کرنے سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی؟

امریکی دبائو کے بارے میں ہمارا موقف بالکل واضح تھا کہ یہ امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی تائید میں امریکن ہیومن رائٹس بیورو کی رپورٹ کا دستاویزی ثبوت پیش کیا گیا لیکن وزیرمذہبی امور اور مسز فوزیہ وہاب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکا کے زیراثر ایسا کوئی کام نہیں کرتا۔ جناب محبوب صدا اور مسز فوزیہ وہاب کی رائے تھی کہ اس قانون کو ختم کر دینا چاہیے اور یہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے ایک متبادل تجویز یہ پیش کی کہ توہینِ رسالتؐ کی کم از کم سزا سات سال ہونا چاہیے۔ جب موصوفہ سے پوچھا گیا کہ تنسیخ یا ترمیم کے مطالبے کا کیا جواز ہے جس پر انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات میں عفو اور درگزر کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایذا دینے والوں کو معاف کر دیا تھا۔ مزید دریافت پر کہ کیا آپ قرآن سے یا ریاست مدینہ میں قیام کے بعد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا عمل بتلا سکتی ہیں کہ جب آپؐ نے توہین رسالتؐ کے ملزموں کو معاف فرما دیا ہو؟ اس پر موصوفہ نے تسلیم کیا کہ اس سلسلے میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ فی الوقت اس کا جواب دے سکیں۔

کرسچین کمیونٹی کے نمایندے جناب محبوب صدا کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ خود بائیبل میں پیغمبروں کی توہین کی سزا‘ سزاے موت ہے۔ کہنے لگے: بائیبل کا قانون کہیں لاگو نہیں۔ جب بتلایا گیا کہ برطانیہ‘ یورپ اور امریکا میں جو اپنے آپ کو سیکولر ہونے کے دعوے دار ہیں‘ وہاں بھی سزاے موت موقوف ہونے کے بعد توہینِ مسیحؑ کی سزا عمرقید کردی گئی ہے تو کہا گیا کہ ہمارا یورپ‘ برطانیہ اور امریکا سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم تو یہاں کی بات کرتے ہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکا میں کوئی فیصلے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کا کوئی علم نہیں۔ لیکن انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں ابھی تک کسی ایک شخص کو بھی توہینِ رسالتؐ پر سزا نہیں دی گئی۔

وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے برملا اعتراف کیا کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا‘  سزاے موت ہے۔ پارلیمنٹ کو توہینِ رسالتؐ کی سزا میں ترمیم یا تنسیخ کا کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے‘ لیکن چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ اصل قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر طریقۂ کار (procedural law) میں تبدیلی کی جائے۔ کیسی تبدیلی؟ کے جواب میں بتلایا کہ اگر کسی نے توہینِ رسالتؐ کا مقدمہ درج کرایا اور تفتیش یا انکوائری میں مقدمہ غلط ثابت ہو یا عدالت سے ملزم بری ہو جائے تو مقدمہ درج  کرانے والے کو سزاے موت دی جائے گی۔

ایک مسلمان کی نفسیات تو یہ ہے کہ وہ توہینِ رسالتؐ کو بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے مرتکب کو موقع پر ہی جان سے مار دینا چاہتا ہے۔ وہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم کو عدالت میں صفائی کا حق بھی نہیں دینا چاہتا جیسا کہ ہمارے مقدمہ توہینِ رسالتؐ میں وفاقی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی نے فیڈرل کورٹ کے سامنے اپنا ذاتی اور حکومت پاکستان کا موقف بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی یہی موقف تھا کہ ملزم گستاخِ رسولؐ کو موقع پر ہی اس کی نیت‘ ارادے اور قصد جانے بغیر ہی جان سے مار دینا چاہیے‘ جب کہ ہمارا واضح موقف شروع ہی سے فیڈرل شریعت کورٹ‘ ہائی کورٹ‘ سپریم کورٹ اور پریس کانفرنس میں یہی چلا آ رہا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملزم کو پوری طرح اپنی صفائی پیش کرنے کا حق قرآن‘ قانون اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ نیت اور ارادے کے بغیر توہینِ رسالتؐ یا حدود میں سزا نہیں دی جاسکتی۔

اب رہ گیا یہ اہم سوال کہ کیا توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم سے اس قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ کاروکاری/ قتلِ غیرت کے پرائیویٹ بل میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں یا اس کے طریقۂ کار میں ترمیم کا کہیں ذکر موجود نہیں۔ لیکن سرکار کے وزیر انچارج نے کاروکاری اور قتلِ غیرت (honour killing) جیسے گھنائونے جرائم کو نمایاں کرکے توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم کو کمال ہوشیاری سے قصاص اور دیت کے بل میں خلط ملط کر دیا اور ترمیم کی غرض و غایت کے بیان میں بھی اسے نظرانداز کردیا گیا۔ قصاص ودیت کے ترمیمی بل پر سرکار دربار کے حاشیہ نشینوں کے سوا ملک کی اپوزیشن‘ ایم ایم اے‘ اے آرڈی اور پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ ملک کے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ان غیراسلامی ترمیمات کو یکسر مسترد کر دیا۔

این جی اوز تک نے بھی غیرپارلیمانی اور دھونس کا طریقہ اختیار (بل ڈوز) کرنے پر اس اہم قومی بل کو متنازع قرار دیا۔ اس لیے یہ بل اور خاص طور پر توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار کا ترمیمی بل قانون بن جانے کے بعد بھی قلب و ذہن کے لیے ناقابلِ قبول رہے گا۔

پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۵۶ کی رو سے پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو قابلِ دست اندازی پولیس جرائم‘ قتل‘ توہینِ رسالتؐ اور دیگر سنگین جرائم میں اطلاع دینے یا رپورٹ کرنے پر مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا اختیار حاصل تھاجس سے مدعی کو یک گونہ اطمینان ہوجاتا کہ ملزم کے خلاف قانون حرکت میں آگیا ہے۔ اس طریقۂ کار میں ملزم پولیس کی تحویل میں آجانے سے قاتلانہ حملے یا وارداتِ قتل سے بھی محفوظ ہو جاتا تھا۔ علاقے یا ملک سے اس کے فرار ہونے کے راستے بند ہوجاتے کیوں کہ جرائم کے انسداد اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے تھانے اور چوکیاں شہر کے اندر  قریب قریب اور دیہاتوں اور قریہ قریہ میں ہمہ وقت موجود ہیں‘ یا ان کے افسر گشت کرتے ہوئے فریادیوں کو مل جاتے ہیں۔

دفعہ ۸-۱۵۶ ضابطہ ء فوجداری میں اضافی ترمیم کے ذریعے توہینِ رسالتؐ کے جرم سی-۲۹۵تعزیرات کی تفتیش کا اختیار صرف پولیس کے اعلیٰ افسر ایس پی کو دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایس پی کو اپنے ہیڈ کوارٹر آفس سے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے تھانوں کے اندر لاکر تو بٹھایا نہیں جا سکتا۔ ایس پی صاحبان تو صدرمملکت‘ گورنر‘ قطار اندر قطار وزیروں‘ مشیروں اورافسرانِ سرکار کے جان و مال کے تحفظ کے لیے شب و روز مصروفِ کار ہوتے ہیںکیوں کہ

انھی کے دم قدم سے اس ملک کی بقا اور استحکام وابستہ ہے۔ مزیدبرآں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کی روک تھام بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ایسے ہمہ مصروف اعلیٰ پولیس افسروں کو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے خلاف رپورٹ کی تفتیش اور انکوائری کی مہلت کہاں؟ ان حالات میں توہینِ رسالتؐ کا مدعی‘ جس کے دل میں رسول اکرمؐ کی عزت اور حرمت اس کی جان ومال‘ ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر ہوتی ہے‘ ایس پی صاحبان کی تلاش کے سلسلے میں ان کے دفتروں کے چکر لگانے کے لیے صبرایوب کہاں سے لائے گا۔

تاریخ کے واقعات کا تسلسل ہمیں بتلاتا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کا قانون موجود نہ ہو تو پھر جس کسی مسلمان کے سامنے اس گھنائونے جرم کا ارتکاب ہوگا‘ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مجرم کو موقع واردات پر ہی سزا دے گا۔ توہینِ رسالتؐ کا قانون ہونے کے باوجود ایسے سرفروش لوگوں کی بھی کمی نہیں جو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے مقدمات میں تاخیر بھی برداشت نہیں کرتے۔ چنانچہ لاہور کی جیل کے اندر ہمارے ہی مقدمہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم یوسف کذاب کے متعلق ایک قیدی کو معلوم ہوا کہ گستاخ رسولؐ قیدی کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد یورپ کی ایجنسیاں پاکستان سے باہر اپنے ملک میں لے جانے کے لیے منتظر ہیں تو اس قیدی نے اسے جیل کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اقرارِ جرم بھی کرلیا۔ اس گستاخِ رسولؐ کو مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی۔

چند ماہ قبل لبنان کی ایک گلوکارہ نے حضوؐر اکرم کے خلاف توہین آمیز گانے گائے تو اس کے شوہر نے اس کا گلا کاٹ دیا۔ نیوزویک کے ماہ نومبر۲۰۰۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ہالینڈ کے ایک بدقماش فلم ساز تھیووان گوخھ نے قرآنِ ناطق صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات وحی کی ایک نیم برہنہ اداکارہ کے ذریعے تضحیک اور بے حرمتی کرائی تو ایک مراکشی نوجوان نے اس کا کام تمام کر دیا۔

ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں قانون توہینِ رسالتؐ کے ضابطہ ٔ کار میں ترمیم کے ذریعے اسے غیرمؤثر بنانے کی کوشش ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ اس سے مسلمانوں کے برانگیختہ جذبات کا طوفانی بند (flood gate)کھل جائے گا جسے بند کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے ایسی مجوزہ ترمیم کو روبہ عمل لانا‘ کسی بھی لحاظ سے حکومت کا دانش مندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

ایک تحقیقی جائزہ

قانونِ قصاص و دیت کے ترمیمی بل کی حمایت میں بعض حکومتی عہدے دار کچھ عرصے سے کافی سرگرمِ عمل ہیں۔ ترمیمی بل تمام تر قتلِ غیرت (honour killings) سے متعلق ہے۔ اس کی غرض و غایت معلوم کرنے کے لیے ان چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ برعظیم پاک و ہند کی تقسیم اس بنا پر ہوئی تھی کہ مسلمان اور ہندو دو جداگانہ قومیں ہیں۔ اسی وجہ سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے سال ۱۹۴۹ء میں ایک ہی دن اپنے اپنے ملکوں کے لیے جو قرارداد مقاصد (Objectives Resolution) منظور کی اس کی رو سے بھارت ایک لادینی (secular) ملک بن گیا‘ جب کہ ملک عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت ساری دنیا میں روشناس ہوا۔ اس میں‘ لادینی یا سیکولر نظام کے برعکس‘ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ ذاتِ الٰہی کو تسلیم کیا گیا اور قرآن و سنت آئین کی بنیاد قرار پائے۔ یہ پہلے دیباچے میں اور بعد میں آرٹیکل ۷- اے کی صورت میں آئین کا لازمی حصہ بن گیا۔

ایک اہم تاریخی مقدمہ ظہیرالدین کیس میں سپریم کورٹ نے ۱۹۹۳ء میں یہ معرکہ آرا فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لا ہے۔ اس لیے بنیادی حقوق کو بھی اس کا پابند ہونا پڑے گا۔ اس حتمی فیصلے کے بعد اب کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے خودساختہ قوانین کو اس ملک پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

آئین کی اسلامی دفعات کی موجودگی اور سپریم کورٹ کے ظہیرالدین کیس کے مفصل فیصلے کے بعد یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو مقتدرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے لیے قانون سازی کے حدود مقرر ہیں۔ وہ تمام اسلامی احکام جو سلبی (preventive) یا ایجابی (directive) ہیں ان میں پارلیمنٹ‘ ریاست‘ سوسائٹی بلکہ پوری اُمت کو بھی کسی قسم کی ترمیم‘ تنسیخ یا اضافے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا وہ قرآن کے غیرمبہم الفاظ میں ظلم کا مرتکب ہوگا۔

ان احکامات اور حدود (قوانینِ شرعیہ) اور آئین کی روشنی میں ہم موجودہ قانون قصاص و دیت اور ترمیمی بل کا جائزہ لیں گے۔ اس دیانت دارانہ اور تحقیقی جائزے میں اگر یہ ترامیم قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنت رسالت مآبؐ کے تابع ہیں تو بسروچشم قبول ہیں‘ ورنہ انھیں مسترد کرنا ہوگا۔

ترمیمی بل میں دفعہ ۳۰۰ تعزیراتِ پاکستان میں وضاحت (explanation) کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’قتلِ عمد‘‘ غیرت کے نام پر یا کاروکاری‘ سیہ کاری وغیرہ یا اسی طرح کے کسی رواج کے تحت یا عزت و ناموس کی ذلت کے انتقام میں‘ یا غیرت کا بدلہ لینے کی خاطر‘یا ان جیسے حالات میں حفظ ماتقدم کے طور پر کیا جائے جو فوری اشتعال کے تحت ہوں یا اشتعال کے بغیر ہوں‘ ایسے تمام قتل ’’قتلِ عمد‘‘ کی تعریف میں آئیں گے جس کی سزا موت ہے۔

مسئلہ زیربحث یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترمیم جو بذریعہ ’’وضاحت‘‘ اضافہ کرکے دفعہ ۳۰۰ میں کی گئی ہے‘ کیا یہ قرآن و سنت کے مطابق جائز اور درست ہے؟

کسی انسان کا قتلِ ناحق اسلام میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اور فساد پھیلانے کا باعث ہے۔ (مائدہ۵:۳۲)۔ اس فرمان الٰہی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی انسان کی جان لینا فساد فی الارض کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لیے قاتل اور مفسد دونوں کی زندگیوں کو تحفظ سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے تاکہ سوسائٹی میں دوسرے انسانوں کی زندگی محفوظ رہے اور انسان امن و سکون کی زندگی بسر کرسکے۔

زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام کے قانون جرم و سزا میں بھی عدل و مساوات کا قانون کارفرما ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قانونِ قصاص و دیت میں اسی اصول مساوات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اصول مساوات پر قائم رہیں (البقرہ۲:۱۹۴)۔قرآن میں نہ صرف مسلمان بلکہ کسی انسان کو بھی قتلِ ناحق سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے: کسی نفس کے قتل کا ارتکاب نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ (الانعام ۶:۱۵۱)

ان قرآنی احکامات کے سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا بدکاری (زنا) کی حالت میں دیکھ کر شوہر‘ باپ یا بھائی‘ مرد یا عورت یا دونوں کو غیرت میں فوری اشتعال یا بغیر اشتعال کے قتل کر دے یا خاندانی‘ جایداد کے تنازع یا ذاتی دشمنی کی وجہ سے اپنے مخالف اور اپنی بیوی‘ بیٹی یا بہن کو جان سے مار دے اور اسے قتلِ غیرت کا مقدمہ بنا دیا جائے تو اس بارے میں قرآن و سنت ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں؟

قتلِ غیرت میں وجۂ قتل زنا ہوتی ہے۔ بدکاری کی سزا نہ صرف قرآن بلکہ تمام صحف سماوی میں نہایت سنگین ہے۔ اسلام میں غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سزاے موت بذریعہ سنگساری مقرر ہے۔ مگر اس کے لیے طریق کار (procedure) بھی انتہائی محتاط ہے۔ حد کی اس سزا کے لیے مدعی کو چار چشم دید گواہ عدالت میں پیش کرنا ہوں گے ورنہ اسے قانون قذف کے تحت ۸۰ کوڑے مارے جائیں گے۔

قتلِ غیرت کے سلسلے میں حدیث سعدؓ بڑی اہم حدیث ہے: ’’اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیرمرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لوں تو کیا مجھے بھی چار گواہ لانے ہوں گے؟‘‘ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ یہ سن کر جنابِ سعدؓ نے کہا: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے‘ میں تو اس وقت ہی اسے جان سے مار دوں گا‘‘۔ اس پر حضوؐر فرمانے لگے: ’’سنو تمھارا یہ سردار کیا کہہ رہا ہے‘‘۔صحابہ نے عرض کیا: ’’حضوؐر یہ شخص بہت غیرت مند ہے‘‘۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’یقینا وہ غیور ہے لیکن میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے‘‘۔

اس حدیث سے علما اور فقہا نے دو مطالب اخذ کیے ہیں۔ علما کا ایک طبقہ جس کے پیش رو حافظ ابن قیم ہیں جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے نامور شاگرد اور اصولِ قانون کے ماہرین میں بلند مقام رکھتے ہیں‘ وہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگرنبی کریمؐ ،سعدؓکے قتل کو ناپسند فرماتے تو اسے غیور اور غیرت کو اپنی طرف اور حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہ فرماتے اور صاف طور پر ارشاد فرما دیتے: ’’اگر تو نے اسے قتل کیا تو تجھے بھی قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ اس لیے وہ قتلِ غیرت کو ناجائز نہیں سمجھتے ہیں۔

اسی اصول کی بناپر اکثر مسلما ن ملک جن میں مصر‘ شام‘ لبنان‘ تیونس‘ مراکش کی عدالتیں ناجائز ہم بستری (unlawful bed) کی صورت میں قتلِ سزا میں تخفیف کر دیتی ہیں‘ جب کہ اردن اور ترکی پینل کوڈ میں اگر شوہر اپنی بیوی یا محرمات میں کسی کو بدکاری کی حالت میں دیکھ لے تو وہ قصاص کی سزاے موت سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ ترکی کے لیے یورپی یونین میں داخلے کے لیے یہ بھی ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ہمارے جمہور علما کی رائے میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر موقع واردات پر خود بدکاری کی سزا دے۔ اسے اسلامی قانون کے مطابق یا تو عدالت میں چار گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر اگر وہ شوہر یا بیوی ہوں تو قانون لعان کے تحت      عدالت انھیں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دے گی۔ اس لیے دفعہ ۳۰۰ تعزیرات میں قتلِ غیرت کو قتلِ عمد جس کی سزا موت ہے‘ قرار دینے کی ترمیم قرآن اور ارشاد نبوتؐ کے مطابق درست ہے۔ چونکہ یہ وضاحت خود دفعہ ۳۰۰ کے اندر موجود ہے‘ اس لیے یہ ترمیم بلاضرورت ہے۔

دفعہ ۳۰۰ کی اس اضافی ترمیم کو بنیاد بنا کر تعزیراتِ پاکستان میں قصاص و دیت سے متعلق موجودہ دفعات ۳۰۲‘ ۳۰۶‘ ۳۰۷‘ ۳۰۸‘ ۳۱۰ اور ۳۱۱ میں اضافہ شدہ قتل کو جو قتلِ غیرت ہے ‘ناقابلِ معافی اور ناقابلِ راضی نامہ قرار دیا گیا ہے جو قطعاً ناجائز اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ ان ترامیم سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین یا تو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقف ہیں‘ یا پھر انھیں احکام الٰہی کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کیونکہ ان ترامیم سے انھوں نے مقتول کے وارثوں کو‘ قاتل کو معاف کر دینے یا اس صلح یا راضی نامہ کرنے کا قرآنی حق ختم کر دیا ہے۔ قرآن حکیم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں جہاں اہلِ ایمان سے خطاب کرتے ہوئے قتلِ عمد پر قصاص کے ذریعے سزاے موت کا حکم دیا ہے وہیں اس جرم کی سزا میں معافی اور  راضی نامے کی رعایت بھی دی گئی ہے اور اسے حق تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔ قصاص اور درگزر کا اختیار مقتول کے وارثوں کا حق ہے۔ وہ چاہیں تو قصاص کے ذریعے قاتل کو عدالت سے سزاے موت دلانے کا پورا اختیار رکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو اسے معاف کر دینے کا حق بھی انھیں حاصل ہے اور اس کو ریاست‘ حکومت یا قانون اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔

یہ آیت کریمہ اتنی واضح ہے کہ اس کے لیے کسی شرح و تفسیر کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کے تمام شارحین‘ مفسرین خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے کیوں نہ ہو‘ شروع سے لے کر آج تک اس حق کو اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ حق العباد‘ یعنی بندوں کا حق بھی قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ جدید مفسرین میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب شہید‘ نومسلم بین الاقوامی اسکالر علامہ محمد اسد‘ مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس آیت کا یہی ترجمہ اور تفسیر بیان کی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے صاف طور پر تفہیم القرآن میں کہا ہے: ’’اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے‘‘ (ج۱‘ ص ۱۳۸)۔ سید قطب شہیدؒ اپنی معروف تفسیر فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے قتل کے اہم ترین معاملے میں دیت کی گنجایش رکھ کر مسلمانوں پر تخفیف اور رحمت فرمائی ہے‘‘۔ مولانا امین احسن اصلاحی بھی یہی بات کہتے ہیں: ’’اس آیت سے قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل گیا ہے‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۳۳)

ترمیمی بل کے مرتبین نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قانون قصاص و دیت کے سلسلے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو دین و آئین اور اسلامی قانون کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ موجودہ دفعہ ۳۳۸-ایف کو بھی انھوں نے اپنی ترمیم کا نشانہ بنایا ہے جس کی رو سے عدالتوں کو قصاص و دیت سے متعلق تمام دفعات کو قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کر کے ان کی تعبیر اور تشریح کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس دفعہ ۳۳۸-ایف کو انھوں نے سرے سے منسوخ کرکے اس کو تعزیراتِ پاکستان سے خارج کر دیا ہے۔ یہ کارنامہ اس لیے سرانجام دیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی موجودگی میں عدالتیں قرآن و سنت کے جائز قانون کو ناجائز اور قابلِ راضی نامہ جرم کو ناقابلِ راضی نہیں بناسکتیں۔ شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اگر تعزیرات کی قرآن و سنت کی رہنمائی حاصل کرنے کی یہ دفعہ منسوخ بھی کر دی جائے تو آئین کا آرٹیکل ۲ بہرحال موجود ہے جس کی رو سے پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اس لیے مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ سب اسلام کے قانون کے پابند ہیں۔ آرٹیکل ۲ -اے حکومت کو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن و سنت پر عمل کرانے کا پابند کرتا ہے۔ پھر آرٹیکل ۲۲۷ سے بچ نکلنے کی کیا صورت ہوگی جس کی رو سے تمام غیر اسلامی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق کیا جائے گا اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے قانون قصاص و دیت میں ترمیمات کا بل آئین کے اسلامی آرٹیکلز اور تعزیرات کے اسلامی دفعات کے خلاف اقدامِ قتل سے کچھ کم نہیں۔

یہاں ہم اپنے ایک اہم کیس کا حوالہ دیں گے جو ہماری ریویو پٹیشن (reivew petition) پر خلیل الزماں کیس میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں نہایت دُوررس فیصلہ سال ۱۹۹۹ء میں صادر کیا ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے تعزیراتِ پاکستان میں قانون قصاص و دیت سے متعلقہ دفعہ ۳۰۶ -سی کے بارے میں واضح طور پر یہ قرار دیا ہے کہ اگر والد اپنے بیٹے یا بیٹی‘ پوتا پوتی وہ خواہ کتنی ہی نیچے تک چلے جائیں‘ قتل کا مرتکب ہو تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دفعہ اسلام کے قانون کے مطابق ہے۔ اس کے لیے فاضل جج صاحبان نے مستند کتابوں کے حوالے بھی دیے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عمرؓ کا فیصلہ بھی اس کے جواز میں موجود ہے۔

معلوم نہیں ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں۔ یہ ان محرکات کے انسداد اور ان عوامل کی جڑ کاٹنے کے لیے قانون سازی نہیں کرتے جو فواحش‘ بدکاری اور قتل کا باعث ہیں۔ اس کے بجاے یہ اس درخت کو کاٹنے پر آمادہ ہیں جس کی شاخوں پر یہ خود بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عقلِ نارسا کو حکمت الٰہی کے تابع کر دیں اور ان غیراسلامی ترامیم سے دست بردار ہوکر دین و دنیا میں سرخرو ہوں۔

زندگی کی وہ ساعتیں جو سید مودودیؒ کی صحبت ِ گرامی میں گزری ہیں‘ ایسی متاع گراں بہا ہے‘ جس کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں جنھوں نے سیدیؒ سے براہ راست اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ذاتی واقعات بیان کرنے سے قبل مختصراً ان حالات کا ذکر مناسب ہو گا جن کا مولانا کی ہمہ گیر عبقری شخصیت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رہا ہے۔

مولانا کی اشتراکیت‘ نام نہاد جمہوریت اور شخصی یا گروہی آمریت کے خلاف جہدِ مسلسل‘ قیدوبند کی اعصاب شکن صعوبتیں‘ پھر حرفِ حق بلند کرنے کی پاداش میں دارورسن کی آزمایشوں سے گزرتے ہوئے پامردی اور استقامت کا بے پناہ مظاہرہ‘ وقت کی طاغوتی طاقتوںکے خلاف    ایمان و یقین کی قوت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انھیں پسپائی پر مجبور کرنا زندگی کے ایسے    ناقابلِ فراموش کارنامے ہیں‘ جن کی بدولت اسلام کی تاریخ کے وہ باب پھر سے درخشاں اور تابناک ہو گئے جب اکابرین امت نے اپنے اپنے دور کے تند و تیز بلا خیز طوفان کا رخ موڑ دیا‘ اور ملت کو   ان کی ہلاکت آفرینیوں سے بچا لیا۔

امام احمد بن حنبلؒ کے دور کا فتنۂ خلق قرآن‘ امام ابن تیمیہؒ کے دور کا فتنۂ تاتار‘ امام غزالیؒ کے دور میں لادینی فلسفے کی یلغار‘ مجدد الف ثانی  ؒ کے دور میں اکبر کے نام نہاد دین الٰہی کی گم راہیاں‘ شاہ ولی ؒ اللہ کے دور میں اسلام کے خلاف شورشیں‘ جیسی فتنہ سامانیوں کے خلاف یہی وہ برگزیدہ ہستیاں تھیں جنھوں نے اپنی فراست ایمانی‘ حکمت و دانائی اور تبحرِ علمی سے وہی اسلوب اور وہی پیرایۂ اظہار اور وہی زبان استعمال کی جو اس دور کے فہم و ادراک کے لیے موزوں اور مناسب تھی۔ ان نابغۂ روزگار شخصیتوں کا طّرئہ امتیاز رہا ہے کہ فرماں روا کے جبر و استبداد اور قہرمانی قوت سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس وادی ٔ پرخار کو کامیابی اور فیروز مندی کے ساتھ عبور کر گئے۔

مولانا مودودیؒ نے بھی یہی دشوار گزار‘ کٹھن اور صبر آزما راستہ اپنے لیے اختیار کیا۔   یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد مولانا نے ان تمام علوم جن کا تعلق آئین و قانون‘ سائنس و فلسفہ‘ مذہب و معیشت‘ معاشیات و معاشرت‘ سیاست اور عمرانیات سے تھا اور ساتھ ہی ان تمام عالمی تحریکوں کا جو اشتراکیت‘ فسطائیت اور بے لگام سرمایہ دارانہ جمہوریت کی صورت میں دنیا پر مسلط ہو رہی  تھیں‘ عالمانہ بصیرت کے ساتھ مطالعہ کیا۔ پھر ساینٹی فک انداز میں ان کا تجزیہ کر کے ان سب کو  قرآن و سنت کے معیار حق پر پرکھا اور ان تمام خرابیوں کو جو ان تحریکوں کی پیداوار تھیں‘ انھیں اسلام میں در آنے سے اپنی پوری قوت کے ساتھ روک دیا۔ ورنہ یہ خرابیاں امت کے لیے بڑی تباہی کا باعث ہوتیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں سوشلزم کا فتنہ نہایت برق رفتاری کے ساتھ اٹھا اور اٹھارھویں صدی کی لائی ہوئی ظلم پر مبنی سرمایہ دارانہ معیشت کی تباہ کاریوں کے خلاف عالمی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوا۔ کارل مارکس اور اینجلز کے افکار اور لینن و اسٹالن کے عملی اقدام سے یہ سیل بے پناہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا تھا۔ سب سے پہلے وہ دین و مذہب کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے درپے تھا‘ کیونکہ پیروانِ مذہب اس نوزائیدہ اشتراکی مذہب کی راہ میں حائل تھے۔ روس کی ملحقہ مسلم ریاستوں کو زیر و زبر کرنے کے بعد سوشلزم کا یہ سیلاب ہندستان کے اندر داخل ہو گیا۔ اگرچہ اس وقت برطانوی سامراج نے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن‘ زبان و ثقافت اور اقدار حیات کو بڑی حد تک اپنے کلچر میں تحلیل کر کے اپنی استعماری گرفت کو مضبوط کر لیا تھا لیکن اشتراکیت کے مقابلے میں اس کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ یہ فتنہ مسلمانوں پر ۱۸۵۷ء والی ابتلا سے بڑھ کر تباہ کن اور ہلاکت خیز تھا۔ اکابرین دیوبند‘ فرنگی سامراج کے خلاف برسرپیکار تھے۔ اسی دور میں سرسید کی تحریکِ علی گڑھ تہذیب ِ فرنگ کو مسلمانوں کی ترقی کے لیے ضروری خیال کرتی تھی۔ اس لیے ان دونوں کا منہج اور طریق کار ایک دوسرے سے مختلف تھا‘ لیکن دونوں کے پیش نظر مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھی۔ اس وقت سوشلسٹ اپنی کمین گاہوں کے اندر مذہب کی جڑیں کاٹنے کا تخریبی کام کر رہے تھے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کے ہم عصر سیاست دانوں کے دور میں سوشلزم کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ مولانا آزاد اور ان کے ہمرہانِ سیاست نے اس اشتتراکی چیلنج کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اپنی  تفسیر ترجمان القرآن میں مولانا آزاد نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے کہ ’’سوشلزم ایک نیا تجربہ ہے اور اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے اس تجربے کو زمانے کی کسوٹی پر آزمائے‘‘، اسے یکسر نظرانداز کر دیا۔ اصل میں اس وقت مولانا آزاد کی تمام توجہ اپنے اخبارات الہلال اور البلاغ میں پیش کردہ پیغام سے منقطع ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف مجتمع ہو گئی تھی۔ اس کے لیے انھوں نے نیشنلزم کی ہندستانی قوم پرستانہ تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسی راستے پر چل نکلے۔

ٰاشتراکی ترقی پسندی‘ الحاد اور لادینی کے اس پرآشوب دور میں ایک مردِ خود آگاہ و حق اندیش اٹھا‘ جس نے برعظیم ہند میں سب سے پہلے اشتراکیت کی تباہ کاریوں‘ یورپ کی لادین سیاست اور وطن پرستانہ قومیت کے خطرناک نتائج و عواقب سے ملت اسلامیہ کو بروقت خبردار کیا‘ اور ساتھ ہی  اپنے کلام اور پیغام کی ضربِ کلیمانہ سے برطانوی ملوکانہ اقتدار پر پے درپے حملے کرتا رہا۔ یہ  شخصیت تھی داناے راز علامہ محمد اقبالؒ کی‘ جس کی ذات میں مشرقی اور مغربی علوم کے دھارے آ کر دریاے بے کراں بن گئے تھے۔ اقبالؒ نے کارزارِ سیاست میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کو ملت کے لیے معتبر اور اپنا ہم عنان سمجھا‘ کیونکہ قائداعظمؒ‘ علامہ اقبالؒ ہی کے الہ آباد میں ۱۹۳۰ء کے مسلم قومیت پر مبنی خطبۂ صدارت کے پیغام کو لے کر آگے بڑھتے چلے گئے‘ جو پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔

سید مودودیؒ، علامہ اقبال ؒ کی جداگانہ مسلم قومیت کے بنیادی نظریہ خلافتِ الہٰیہ اور اس سے بڑھ کر نیابتِ الٰہی کے عظیم مشن کے رازدانوں میں تھے۔ علامہ کی مردم شناس نظر اور ان کی اسلامی بصیرت نے اسلام کی ایک ابھرتی ہوئی قوت کو سید مودودیؒ کی صورت میں پہچان لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور آنے کی دعوت دی‘ تاکہ وہ اپنے اس مشن کو ان کے حوالے کردیں۔

علامہ اقبال کے ہم راز عزیز دوست سید نذیر نیازی مرحوم نے کرنل اقبال کی موجودگی میں بتلایا تھا کہ علامہ اقبال‘ مولانا مودودی سے ملنے کے لیے کس قدر منتظر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس شخص میں وہ خداداد صلاحیتیں موجود ہیں جو ان مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہیں۔ انھیں یقین تھا کہ یہ شخص سیکولر نظام کی پیدا کی ہوئی فتنہ انگیز تحریکوں کا جرأت رندانہ اور فراست مومنانہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے منزل مراد کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہے جو نظریہ پاکستان کے حقیقی معمار علامہ اقبالؒ کے سید مودودیؒ کے نام اس دستاویزی ثبوت کے باوجود ان پر اس الزام تراشی سے باز نہیں آتے کہ مولانا مودودیؒ قیامِ پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔ حالانکہ قائداعظم ؒ کے سیکرٹری اور ملک کے چوٹی کے قانون دان جناب شریف الدین پیرزادہ نے انھیں پاکستان کے مخلص بانیوں میں شمار کیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجنز میں مولانا مودودیؒ کو بیسویں صدی میں اسلام کی نشات ثانیہ کا قائد اور پاکستان کے Founding Fathers کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔

اب میں صرف ان حالات اور واقعات کا ذکر کروں گا جن کا تعلق آئین و قانون اور شرعی قوانین کے حوالے سے ہے‘ جو ہم نے خود مولانا کی زبان صدق و صفا سے سنے ہیں۔ اگر تمام واقعات قلم بند کروں تو ایک پوری کتاب تیا ر ہو جائے گی۔

مولانا کی عصری مجالس (نماز عصر کے بعد کی نشستوں) کے علاوہ خاص نشستیں بھی ہوتیں‘ جن کے لیے ہم خود حاضر ہوتے یا جب کبھی مولانا یاد فرماتے۔ ان نشستوں میںاکثر: حاجی غیاث محمد سابق اٹارنی جنرل‘ میاں شیر عالم سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار‘ درویش محمد عاربی اور راجا محمد صفدر اور کبھی کبھی اے کے بروہی مرحوم‘ چودھری نذیر احمد خان سابق اٹارنی جنرل‘ جناب خالد اسحق‘   جناب راجا افرا سیاب خان سابق جج سپریم کورٹ موجود ہوتے۔

ایک خصوصی نشست میں دستور سازی پر گفتگو ہو رہی تھی۔اس نشست میں مولانا مودودیؒ نے جو تفصیلات بتائیں‘ ان کے ایک پہلو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:

پاکستان بنا تو اسلام کے لیے ہے‘ لیکن انگریزوں کے غلامی کے اثرات‘ سوشلسٹ اور لادینی عناصر کی بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے اسلام کے خلاف محاذ بن چکا ہے۔ اسلام کی بات کرنا ملائیت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا جاتاہے۔ قانون دان حضرات کی اکثریت کا بھی خیال تھا کہ اس دور میں اسلامی قانون کا نفاذ ممکن نہیں۔ حکمران طبقہ تو اپنے انگریز آقائوں کی طرح مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ خیال کرتا تھا۔ سب سے بڑا اعتراض جس کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرتے‘ یہ تھا کہ خود علما حضرات مذہب کے بارے میں متفق نہیں تو پھر یہاں اسلامی دستور کی تشکیل اور اسلامی قانون سازی کس طرح ہو سکتی ہے۔ جسٹس منیر صاحب اس طبقے کے قائد تھے۔ یہ گروہ اس قسم کے اعتراضات اٹھا کر حکومت کے ایک خاص طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتا تھا۔ ان حالات میں مجھے اور میرے رفقاے کار کو نہایت جانفشانی کے ساتھ کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ اسلامی دستور کے بنیادی نکات تیار کرکے علما کو پیش کیے گئے‘ کیونکہ ان میں کوئی اختلافی بات نہیں تھی اس لیے تمام مکاتب فکر کے علما نے اسلامی دستور کے بارے میں متفقہ قرارداد منظور کر لی۔ اس پر حکومت میں ہمارے مخالفین بہت گھبرائے‘ ان کے سازشی ذہن نے جوڑ توڑ کا کاروبار شروع کیا۔ چند علما جو اس قرارداد کی منظوری میں شامل تھے انھیں یہ باور کرایا گیا کہ اس مہم کی کامیابی کا سارا کریڈٹ تو مودودی اور ان کی جماعت اسلامی لے جائے گی۔ اس بات کی مجھے بھی خبر ہو گئی اور ان سے گفتگو کے بعد اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ اصل غرض اور مقصود تو اسلام کے لیے بنیادی کام ہے۔ اگر میرا اور میری جماعت کا نام اس راستے میں رکاوٹ ہے تو آپ ہمیں سب سے آخر میں رکھ دیں۔ اس کے بعد ان علما کے لیے قرارداد سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں رہی۔ طے پایا کہ اس سلسلے میں مجلس عمل کا اجلاس طلب کیا جائے جہاں عملی اقدامات کے بارے میں لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ لیکن مجلس عمل کا یہ اجلاس ہمیں بلائے بغیر ہی طلب کر کے ملتوی کر دیا گیا۔ مگر دوسری طرف خواجہ ناظم الدین مرحوم نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ بطور وزیراعظم اور قائد اسمبلی‘ اسلامی دستور سازی کے سلسلے میں مثبت اقدام کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ عناصر جو اسلام کو اپنی من مانی کارروائیوں کی راہ میں مزاحم سمجھتے تھے‘ ہمارے ان ارادوں سے بے خبر نہ تھے۔ چنانچہ ملک غلام محمد‘ بیوروکریسی کے اہل کار‘ عدلیہ کے سربراہ جسٹس محمد منیر اور چودھری ظفراللہ خان بیرونی طاقتوں کی ساز باز سے نفاذ اسلامی نظام کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں: خواجہ ناظم الدین وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیے گئے‘ دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی‘ پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا‘ دینی عناصر کی سرکوبی کی گئی۔ میرے وجود کو حکومت اور اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مجھے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ پمفلٹ قادیانی مسئلہلکھنے کے جرم میں سزاے موت سنائی گئی‘ مگر قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ مجھے سزاے موت دینے والے خود ہی بے بسی کی حالت میں دنیا سے چل بسے۔

مسئلہ قادیانیت کے بارے میں دریافت کرنے پر بتلایا :دلائل کا جواب دینے کے لیے ’’دلائل موجود نہ ہوں تو پھر طاقت کے زور پر حق کو دبانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے‘‘۔ گفتگو ختم کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس ناپاک سازش کے باوجود الحمدللہ میرے اور جماعت کے عزائم اور حوصلے بلند رہے ۔ ہم اپنے کام میں لگے رہے۔ حکومت وقت اور اس کے کارندے ہمارے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہے‘‘۔

  • سال ۱۹۶۴ء کا ایک آئینی مقدمـہ: ۱۹۶۴ء میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے مولانا مودودیؒ کی وہ رٹ خارج کر دی جس میں جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دینے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف مولانا مودودی‘ ان کے صاحبزادے سید عمر فاروق مودودی وغیرہ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی۔ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی پر پابندی کو ناجائز قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں مولانا مودودیؒ کی اپیل کی پیروی کے لیے جو پینل بنا اس کے سربراہ اے کے بروہی تھے۔ ان کے ہمراہ جسٹس (ر) شبیر احمد‘ میاں محمود علی قصوری‘ ایس ایم ظفر سینئر ایڈوکیٹس تھے۔ ان کی معاونت کے لیے بیرسٹر مس رابعہ قاری‘ یہ خاکسار‘ بیرسٹر اخترالدین‘ چودھری اسماعیل اور دیگر وکلا موجود تھے۔ گورنمنٹ کی جانب سے منظور قادر‘ سید نسیم حسن شاہ اور دیگر نامور وکلا پیش ہوئے۔ مولوی تمیزالدین خاں کے بعد پاکستان کی عدلیہ کا ایک اہم اور دور رس نتائج کا حامل مقدمہ تھا‘ جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق‘ حکومت کے بے رحم اور جارحانہ قوانین‘ قانون کی معقولیت اور جوڈیشنل ریویو جیسے آئینی اور قانونی نکات زیر بحث آئے۔

بروہی صاحب اپیل کی سماعت کے بعد روزانہ ہر جج کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق نمبر (مارکس) دیتے۔ ۱۰۰فی صد مارکس انھوں نے کسی کو نہیں دیے‘ البتہ یہ فل مارکس انھوں نے صرف ایک شخص کو دیے جو جج یا وکیل نہیں بلکہ مدعی تھا‘ اور وہ مولانا مودودی تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ مولانا مودودیؒ نے کیس کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اپنے نوٹس بروہی صاحب کو پہنچا دیے تھے۔ اس اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے مولانا مودودیؒ کے حق میں صادر کیا۔ اے کے بروہی صاحب سے واقف حضرات جانتے ہیں‘ کہ یہ وہی مسٹر اے کے بروہی ہیں جو دین کو پرائیویٹ معاملہ سمجھتے تھے اور جنھوں نے چیلنج دیا تھا کہ اگر کوئی شخص قرآن سے اسلامی آئین کا ثبوت دے تو وہ اسے ۵۰ ہزار روپے انعام دیں گے۔ مولانا کے مقدمات کی پیروی کرنے اور ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے اور ان سے ملاقاتوں کے بعد انھی بروہی صاحب میں ایسا ذہنی انقلاب آیا کہ وہ مولانا کے ہم نوا ہو گئے اور اسلامی آئین اور قانون کے داعی اور شارح بن گئے۔

  • سال ۱۹۷۴ء  میں مولانا کا استقبال: سال ۱۹۷۴ء میں جناب منظور قادر کی وفات کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا میں صدر اور جہانگیر جھوجہ سیکرٹری جنرل تھے۔ اس دوران مولانا مودودیؒ جب پہلی مرتبہ امریکہ سے جہاں وہ بغرض علاج اپنے صاحبزادے احمد فاروق کے پاس گئے ہوئے تھے‘ واپس آئے تو ہم دونوں نے شہریان لاہور کی جانب سے ان کا استقبال کیا۔ دینی اور سیاسی جماعتوں کے عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ لاہور کا سارا شہر رشید پارک کے وسیع میدان میں امڈ آیا ہے۔ میں نے مولانا کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا: ’’مولانا نے اس سرزمینِ بے آئین کو اسلامی آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے جو بنیادیں فراہم کی ہیں‘ ان پر ملک عزیز کی بقا اور استحکام کا انحصار ہے‘‘۔ اس کے جواب میں مولانا نے نہایت مشفقانہ انداز میں مسلمانوں کو ملک عزیز میں اسلامی نظام حیات کے لیے کوششیں تیز کرنے کی تلقین کی۔

امریکہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا نے بتلایا :’’وہاں اسلام کے لیے فضا تیار ہو رہی ہے مگر وہاں جو مسلمان سرکاری یا پرائیویٹ امریکن فرموں میں ملازم ہیں ان کو ٹوپی اور داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں۔ علماے ازہر سے فتویٰ لیا گیا تو انھوں نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا یہودی اپنی مذہبی ٹوپی پہن سکتے ہیں‘ سکھ ڈاڑھی رکھ سکتے ہیں‘ لیکن صرف مسلمانوں کے لیے یہ امتیازی قانون کیوں؟ اصل بات یہ ہے کہ امریکی حکومت کو اسلامی تشخص کی ہر نشانی سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

  • ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کا قیام: جناب اے کے بروہی سے میرے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جب بھی وہ لاہور آتے ان سے ملاقات رہتی۔ سال ۱۹۷۶ء میں جب وہ یورپ کے دورے سے واپسی پر مجھ سے ملے تو کہنے لگے: ’’مولانا مودودی کے لٹریچر سے یورپ کے دانش ور طبقے  (Intellectual class) میںاسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’بروہی صاحب‘ مولانا اور ان کی تربیت یافتہ جماعت اور خصوصاً نوجوانوں کے ذریعے اسلام کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اور دنیا میں پھیلے ہوئے اسلامی اسکالروں اور دانشورانِ قانون کا     ایک پلیٹ فارم بن جائے تو یہ بھی ہمہ گیر اسلامی آرڈر (Islamic Order) کی جانب ایک اہم پیش رفت ہوگی‘‘۔

بروہی صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ کافی عرصہ غور و خوض کے بعد میںنے مولانا مودودیؒ سے اس بارے میں رہنمائی کی درخواست کی۔ مولانا نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بلاتامل اس عصری مجلس میں جس میں چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب بھی موجود تھے‘ اس کے چارٹر کے لیے اغراض و مقاصد تحریر کرائے۔ اس تنظیم کا نام میں نے  ورلڈ ایسوسی ایشن آف اسلامک جیورسٹس تجویز کیا تھا۔ مولانا مودودی نے اسلامک (Islamic) کے بجاے مسلم کا لفظ پسند کیا۔ مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے عربی میں اس کا نعم البدل بتلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اپنے نفس گرم سے اس تنظیم کے ڈھانچے میں روح پھونک دی۔

اس وقت کے نامور علما سے جو قدیم اور جدید علوم کے ماہر تھے اس کا تعارف کرایا۔ یہاں میں صرف چند ممتاز شخصیتوں کا ذکر کروں گا جو اس تنظیم کے اعزازی اور اساسی اراکین میں شامل ہیں۔ اعزازی اراکین:  ۱- عبداللہ بن عبدالعزیز‘ پریذیڈنٹ سپریم کونسل آف جسٹس سعودی عرب‘ ۲- ڈاکٹر معروف دوالیبی‘ ۳- ممتاز اسکالر محمد قطب مصر‘ ۴- شیخ عبداللہ ابراہیم‘ ڈپٹی لیڈر رابطہ عالم اسلامی۔

اساسی اراکین: ۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ (فرانس)‘ ۲- ڈاکٹر محمد اسد (اسپین)‘ ۳- ڈاکٹر اسماعیل راجی فاروقی (امریکہ)‘ ۴- ڈاکٹر محمد کاشانی (ایران)‘ ۵- ڈاکٹر ادریس علوی (مراکش)‘ ۶- ڈاکٹر عبدالقادر (ڈپٹی چیف جسٹس ترکی)‘ ۷- مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (بھارت)‘ ۸ -جناب حمودالرحمن (چیف جسٹس پاکستان)‘ ۹- شیخ غیاث محمد (اٹارنی جنرل پاکستان)‘ ۱۰- جناب اے کے بروہی‘ بیرون پاکستان کے سکالرز‘ مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے اور اسلامی قانون اور جیورس پروڈنس کے بارے میں اپنی آرا سے بھی مستفید کرتے رہے۔ جب اس تنظیم کی تشکیل مکمل ہو گئی اور مختلف شعبوں نے مختلف ممالک میں کام کرنا شروع کیا‘ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ‘ ریاض سعودی عرب نے مجھے اپنے ایڈوائزری بورڈ کا رکن منتخب کر لیا تو میں نے مولانا سے اس عالمی تنظیم کا سرپرست اعلیٰ بننے کی درخواست کی۔ پہلے تو وہ پس و پیش کرتے رہے‘ بالآخر اپنے مکتوب کے ذریعے اس کے لیے رضامند ہو گئے۔ مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:

محترمی و مکرمی‘ السلام علیکم‘

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ یہ آپ کی عنایت ہے کہ آپ مجھے اس عظیم تنظیم کا سرپرست بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ مقام تو کسی جلیل القدر قانون دان کو عطا کرنا چاہیے‘ تاہم اگر آپ کے رفقا بھی اس خیال ہی کی تائید کرتے ہیں تو میں اسے بخوشی منظور کر لوں گا۔

خاکسار   

۲۴ مئی ۱۹۷۹ئ                                                                    ابوالاعلیٰ

تمام اراکین جن میں اے کے بروہی‘ شیخ غیاث محمد‘ چودھری نذیر احمد خان‘ بی زیڈ کیکاوس شامل تھے‘ انھوں نے مولانا کو متفقہ طور پر اپنی رائے سے مطلع کیا اور اسے تنظیم کے لیے باعث افتخار قرار دیا۔ مولانا کے دست راست جناب عاصم نعمانی نے میرے اور میرے رفقا کی ملاقاتوں کا ذکر اپنی یادگار کتاب گفتار اور افکار میں کیا ہے اور اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’آپ حضرات کی غیر حاضری میں آپ کی تنظیم کا ذکر آ گیا تو مولانا نے آپ کے کام کو سراہا اور تحسین فرمائی‘‘۔ یہ مولانا کی عظمت کی دلیل ہے۔

اس سے قبل مولانا نے اس تنظیم کے لیے اپنی خرابیِ صحت کے باوجود ۱۶ مئی ۱۹۷۸ء کو ایک مبسوط پیغام ارسال فرمایا جس کا خلیل حامدی صاحب نے عربی میں ترجمہ بھی کر دیا۔ اس پیغام کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

قانون کو جو شخص بھی جانتا اور سمجھتا ہو وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ کوئی قانون بھی بجاے خود ایک مستقل علم اور مجموعہ احکام نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک نظامِ فکر‘ ایک تصورِ حیات‘ ایک نظامِ اقدار‘ ایک معیار خیر و شر اور ایک تصور اخلاق کارفرما ہوتا ہے‘ جس کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔

مولانا کے مکمل پیغام کے ہر لفظ میں ایک جہانِ معنی پنہاں ہے۔ قانون کی اس سے بہتر ترجمانی جیورس پروڈنس کے ماہرین بھی نہیں کر سکے۔ میرے نام مولانا کے اور مکتوبات گرامی کی طرح یہ دونوں مکتوبات بھی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے۔ ۳۱ اگست ۱۹۷۸ء کو مسلم جیورٹس ایسوسی ایشن نے مولانا کے اعزاز میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔ خرابیِ صحت کے باوجود مولانا نے اس میں شرکت فرمائی۔ جس میں میاں طفیل محمد‘ جناب قاضی حسین احمد‘ مولانا نعیم صدیقی‘ محمد اسلم سلیمی اور پاکستان نیشنل الائنس کے وزراے کرام‘ چودھری نذیر احمد خان‘ میاں شیر عالم‘ جناب عامر رضا خان ایڈووکیٹ جنرل پنجاب‘ چودھری ایم عارف (جو بعد میں سپریم کورٹ کے سینئر جج رہے ہیں) اور دینی جماعتوں کے عمائدین نے شرکت کی۔ مولانا نے اپنے حیات آفریں خطاب میں وکلا کے اتحاد اور اسلامی قانون کی حکمرانی کے لیے جرأت مندانہ کوششوں کو قابلِ ستایش قرار دیا اور دعا فرمائی کہ اللہ آپ حضرات کو اس نیک کام میں زیادہ محنت اور غور و خوض کی توفیق دے اور آپ جس عظیم مقصد کے لیے کوشاں ہیں اس میںکامیابی عطا فرمائے۔

m  ۱۹۷۸ء اور ۱۹۷۹ء کے دوران ملا قاتیں:  ۱۹۷۸ء اور ۷۹ء میں جو ملاقاتیں ہوئیں‘ ان میں شیخ غیاث مرحوم‘ میاں شیرعالم‘ درویش عاربی‘ راجا صفدر مرحوم‘ خالد ایم اسحاق اور ڈاکٹر ظفر علی راجا بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ گفتگو کا موضوع: علما کا اتحاد‘ آئین‘ مسلم جیورٹس ایسوسی ایشن اور کام کی ترجیحات ہوتیں۔

مولاناکی صحت کے بارے میں ہم سب نہایت فکرمند تھے۔ عرض کیا: ’’اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ شب و روز کی سعی و کاوش‘ جیل کی بے پناہ صعوبتیں برداشت کرنے اور مسلسل تحقیقی کام کو جاری رکھنے کے نتیجے میں ان کے اثرات اور ثمرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ ثمرات سے ساری ملت فیضیاب ہو رہی ہے‘ جب کہ اعصاب شکن اثرات سے آپ کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ اس لیے زیادہ تر وقت آرام کے لیے وقف کیجیے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’کوشش بھی کر کے دیکھ لی ہے‘ کامیابی نہیں ہوئی۔ کم بخت کام کی لت کچھ ایسی پڑ گئی ہے بغیر کام کے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیوں کی تکلیف بڑھتی جا رہی ہے غالباً اب وہ مجھ سے انتقام لے رہی ہیں‘‘۔

خرابی صحت کے دوران ترکی اور ایران کے وفود نے مولانا سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی اہم باتیں ہمیں بتلاتے رہے۔ فرمایا : ’’اقبال کے افکار اور جماعت اسلامی کی فکری تحریک نے ایران اور ترکی میں اسلام کی طرف مراجعت میں اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ پھر مولانا نے ترکی میں خلافت کے زوال اور ایران میں شہنشائیت کے خاتمے کے تاریخی عوامل کی تفصیل کے ساتھ نشان دہی فرمائی۔

الوداعی ملاقات

۲۴ مئی ۱۹۷۹ء کو مولانا کی اقامت گاہ پر حاضر ہوا‘ جسے میں نے ’بیت الامت‘ کا نام دیا تھا۔ دوبارہ امریکہ علاج کی غرض سے جانے کے بارے میں بتلایا کہ: ’’دل تو نہیں چاہتا کہ اتنے لمبے سفر کی صعوبت برداشت کروں‘ لیکن بچوں کے اصرار پر اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو رضامندی کا اظہار کیا ہے‘ ۲۶ مئی لاہور سے روانگی کا پروگرام ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’پروگرام کو عام نہ کیا جائے کیونکہ نقاہت کی وجہ سے سب سے مل نہ سکوں گا‘‘۔ ۲۶ مئی کو بنچ اور بار کی ایک خاص میٹنگ کی وجہ سے ایرپورٹ پر بروقت نہیں پہنچ سکا۔ جب پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولانا جہاز میں سوار ہو چکے ہیں۔ مولانا کے صاحبزادے سے جو اس وقت وہاں موجود تھے کہا کہ مولانا کو میرا سلام پہنچا دیں۔ کہنے لگے اس وقت کسی کو جہاز پر جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن پی آئی اے کی محنت کش یونین پیاسی کے ایک  عہدہ دار نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ مولانا کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے از راہ شفقت جہاز پر اُوپر بلالیا۔ دیکھ کر فرمایا: ’’آخر آپ آ ہی گئے‘‘۔ عرض کیا: ’’بفیلو تک بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ضرور آئیے‘‘۔ رخصت ہوتے ہوئے میں نے سعدیؒ کا یہ شعر ادنیٰ تصرف کے ساتھ پڑھا:

دیدئہ سعدی و دل ہمراہ تست

تا نہ پنداری کہ تنہا می روی

سعدی کا دل اور نظر تمھارے ساتھ ہے تاکہ تو یہ خیال نہ کرے کہ تو تنہا جا  رہا ہے۔

مولانا نے بے ساختہ فرمایا: ’’بھئی‘ میں نے کبھی اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کیا‘ بلکہ ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ سب کی محبت میرے ساتھ ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’مولانا‘ آپ کی شخصیت فرقہ پرستی اور گروہی سیاست سے بہت بلند ہے۔ روانگی سے قبل قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیتے جائیے‘ اختلافات ختم نہیں تو کم ضرور ہوں گے‘‘۔ چنانچہ مولانا نے امریکہ جاتے ہوئے راولپنڈی سے ایک حیات آفریں پیغام دیا‘ جو ملک کے سارے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔ بفیلو پہنچنے کے بعد طبیعت کا حال معلوم ہوتا رہا۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ مولانا رحلت کرگئے۔ یوں محسوس ہوا کہ گردش لیل و نہار کچھ دیر کے لیے رک گئی ہے پھر لسان الغیب کی صدا آئی     ؎

ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما

وہ دل جو عشق کی بدولت زندہ ہوگیا‘ کبھی موت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ ہماری ہمیشگی صحیفہ عالم پر قائم ہوچکی ہے۔

وقت کے ریگ رواں پرمولانا کے نقش قدم انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ دنیا میں جہاں جہاں اسلام ایک زندہ قوت بن کر ابھر رہا ہے‘ اس میں مولانا کے جذبے اور عمل کی روح کارفرما ہے۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر دنیا میں اسلامائزیشن اور سود سے پاک معاشرے کے لیے   عدل و قانون کے میدان میں جو گراں قدر خدمات‘ مولانا کی سرپرستی میں قائم ہونے والی مسلم  ماہرین قانون کی عالمی تنظیم نے جسٹس ملک غلام علی مرحوم‘ مولاناگوہررحمن مرحوم اور جناب پروفیسر خورشید احمد کی معاونت سے سرانجام دی ہیں‘ وہ سب مولانا کے فیضان نظر کا نتیجہ ہیں۔