قانونِ قصاص و دیت کے ترمیمی بل کی حمایت میں بعض حکومتی عہدے دار کچھ عرصے سے کافی سرگرمِ عمل ہیں۔ ترمیمی بل تمام تر قتلِ غیرت (honour killings) سے متعلق ہے۔ اس کی غرض و غایت معلوم کرنے کے لیے ان چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ برعظیم پاک و ہند کی تقسیم اس بنا پر ہوئی تھی کہ مسلمان اور ہندو دو جداگانہ قومیں ہیں۔ اسی وجہ سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے سال ۱۹۴۹ء میں ایک ہی دن اپنے اپنے ملکوں کے لیے جو قرارداد مقاصد (Objectives Resolution) منظور کی اس کی رو سے بھارت ایک لادینی (secular) ملک بن گیا‘ جب کہ ملک عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت ساری دنیا میں روشناس ہوا۔ اس میں‘ لادینی یا سیکولر نظام کے برعکس‘ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ ذاتِ الٰہی کو تسلیم کیا گیا اور قرآن و سنت آئین کی بنیاد قرار پائے۔ یہ پہلے دیباچے میں اور بعد میں آرٹیکل ۷- اے کی صورت میں آئین کا لازمی حصہ بن گیا۔
ایک اہم تاریخی مقدمہ ظہیرالدین کیس میں سپریم کورٹ نے ۱۹۹۳ء میں یہ معرکہ آرا فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لا ہے۔ اس لیے بنیادی حقوق کو بھی اس کا پابند ہونا پڑے گا۔ اس حتمی فیصلے کے بعد اب کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے خودساختہ قوانین کو اس ملک پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
آئین کی اسلامی دفعات کی موجودگی اور سپریم کورٹ کے ظہیرالدین کیس کے مفصل فیصلے کے بعد یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو مقتدرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے لیے قانون سازی کے حدود مقرر ہیں۔ وہ تمام اسلامی احکام جو سلبی (preventive) یا ایجابی (directive) ہیں ان میں پارلیمنٹ‘ ریاست‘ سوسائٹی بلکہ پوری اُمت کو بھی کسی قسم کی ترمیم‘ تنسیخ یا اضافے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا وہ قرآن کے غیرمبہم الفاظ میں ظلم کا مرتکب ہوگا۔
ان احکامات اور حدود (قوانینِ شرعیہ) اور آئین کی روشنی میں ہم موجودہ قانون قصاص و دیت اور ترمیمی بل کا جائزہ لیں گے۔ اس دیانت دارانہ اور تحقیقی جائزے میں اگر یہ ترامیم قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنت رسالت مآبؐ کے تابع ہیں تو بسروچشم قبول ہیں‘ ورنہ انھیں مسترد کرنا ہوگا۔
ترمیمی بل میں دفعہ ۳۰۰ تعزیراتِ پاکستان میں وضاحت (explanation) کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’قتلِ عمد‘‘ غیرت کے نام پر یا کاروکاری‘ سیہ کاری وغیرہ یا اسی طرح کے کسی رواج کے تحت یا عزت و ناموس کی ذلت کے انتقام میں‘ یا غیرت کا بدلہ لینے کی خاطر‘یا ان جیسے حالات میں حفظ ماتقدم کے طور پر کیا جائے جو فوری اشتعال کے تحت ہوں یا اشتعال کے بغیر ہوں‘ ایسے تمام قتل ’’قتلِ عمد‘‘ کی تعریف میں آئیں گے جس کی سزا موت ہے۔
مسئلہ زیربحث یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترمیم جو بذریعہ ’’وضاحت‘‘ اضافہ کرکے دفعہ ۳۰۰ میں کی گئی ہے‘ کیا یہ قرآن و سنت کے مطابق جائز اور درست ہے؟
کسی انسان کا قتلِ ناحق اسلام میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اور فساد پھیلانے کا باعث ہے۔ (مائدہ۵:۳۲)۔ اس فرمان الٰہی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی انسان کی جان لینا فساد فی الارض کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لیے قاتل اور مفسد دونوں کی زندگیوں کو تحفظ سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے تاکہ سوسائٹی میں دوسرے انسانوں کی زندگی محفوظ رہے اور انسان امن و سکون کی زندگی بسر کرسکے۔
زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام کے قانون جرم و سزا میں بھی عدل و مساوات کا قانون کارفرما ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قانونِ قصاص و دیت میں اسی اصول مساوات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اصول مساوات پر قائم رہیں (البقرہ۲:۱۹۴)۔قرآن میں نہ صرف مسلمان بلکہ کسی انسان کو بھی قتلِ ناحق سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے: کسی نفس کے قتل کا ارتکاب نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ (الانعام ۶:۱۵۱)
ان قرآنی احکامات کے سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا بدکاری (زنا) کی حالت میں دیکھ کر شوہر‘ باپ یا بھائی‘ مرد یا عورت یا دونوں کو غیرت میں فوری اشتعال یا بغیر اشتعال کے قتل کر دے یا خاندانی‘ جایداد کے تنازع یا ذاتی دشمنی کی وجہ سے اپنے مخالف اور اپنی بیوی‘ بیٹی یا بہن کو جان سے مار دے اور اسے قتلِ غیرت کا مقدمہ بنا دیا جائے تو اس بارے میں قرآن و سنت ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں؟
قتلِ غیرت میں وجۂ قتل زنا ہوتی ہے۔ بدکاری کی سزا نہ صرف قرآن بلکہ تمام صحف سماوی میں نہایت سنگین ہے۔ اسلام میں غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سزاے موت بذریعہ سنگساری مقرر ہے۔ مگر اس کے لیے طریق کار (procedure) بھی انتہائی محتاط ہے۔ حد کی اس سزا کے لیے مدعی کو چار چشم دید گواہ عدالت میں پیش کرنا ہوں گے ورنہ اسے قانون قذف کے تحت ۸۰ کوڑے مارے جائیں گے۔
قتلِ غیرت کے سلسلے میں حدیث سعدؓ بڑی اہم حدیث ہے: ’’اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیرمرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لوں تو کیا مجھے بھی چار گواہ لانے ہوں گے؟‘‘ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ یہ سن کر جنابِ سعدؓ نے کہا: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے‘ میں تو اس وقت ہی اسے جان سے مار دوں گا‘‘۔ اس پر حضوؐر فرمانے لگے: ’’سنو تمھارا یہ سردار کیا کہہ رہا ہے‘‘۔صحابہ نے عرض کیا: ’’حضوؐر یہ شخص بہت غیرت مند ہے‘‘۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’یقینا وہ غیور ہے لیکن میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے‘‘۔
اس حدیث سے علما اور فقہا نے دو مطالب اخذ کیے ہیں۔ علما کا ایک طبقہ جس کے پیش رو حافظ ابن قیم ہیں جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے نامور شاگرد اور اصولِ قانون کے ماہرین میں بلند مقام رکھتے ہیں‘ وہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگرنبی کریمؐ ،سعدؓکے قتل کو ناپسند فرماتے تو اسے غیور اور غیرت کو اپنی طرف اور حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہ فرماتے اور صاف طور پر ارشاد فرما دیتے: ’’اگر تو نے اسے قتل کیا تو تجھے بھی قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ اس لیے وہ قتلِ غیرت کو ناجائز نہیں سمجھتے ہیں۔
اسی اصول کی بناپر اکثر مسلما ن ملک جن میں مصر‘ شام‘ لبنان‘ تیونس‘ مراکش کی عدالتیں ناجائز ہم بستری (unlawful bed) کی صورت میں قتلِ سزا میں تخفیف کر دیتی ہیں‘ جب کہ اردن اور ترکی پینل کوڈ میں اگر شوہر اپنی بیوی یا محرمات میں کسی کو بدکاری کی حالت میں دیکھ لے تو وہ قصاص کی سزاے موت سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ ترکی کے لیے یورپی یونین میں داخلے کے لیے یہ بھی ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ہمارے جمہور علما کی رائے میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر موقع واردات پر خود بدکاری کی سزا دے۔ اسے اسلامی قانون کے مطابق یا تو عدالت میں چار گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر اگر وہ شوہر یا بیوی ہوں تو قانون لعان کے تحت عدالت انھیں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دے گی۔ اس لیے دفعہ ۳۰۰ تعزیرات میں قتلِ غیرت کو قتلِ عمد جس کی سزا موت ہے‘ قرار دینے کی ترمیم قرآن اور ارشاد نبوتؐ کے مطابق درست ہے۔ چونکہ یہ وضاحت خود دفعہ ۳۰۰ کے اندر موجود ہے‘ اس لیے یہ ترمیم بلاضرورت ہے۔
دفعہ ۳۰۰ کی اس اضافی ترمیم کو بنیاد بنا کر تعزیراتِ پاکستان میں قصاص و دیت سے متعلق موجودہ دفعات ۳۰۲‘ ۳۰۶‘ ۳۰۷‘ ۳۰۸‘ ۳۱۰ اور ۳۱۱ میں اضافہ شدہ قتل کو جو قتلِ غیرت ہے ‘ناقابلِ معافی اور ناقابلِ راضی نامہ قرار دیا گیا ہے جو قطعاً ناجائز اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ ان ترامیم سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین یا تو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقف ہیں‘ یا پھر انھیں احکام الٰہی کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کیونکہ ان ترامیم سے انھوں نے مقتول کے وارثوں کو‘ قاتل کو معاف کر دینے یا اس صلح یا راضی نامہ کرنے کا قرآنی حق ختم کر دیا ہے۔ قرآن حکیم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں جہاں اہلِ ایمان سے خطاب کرتے ہوئے قتلِ عمد پر قصاص کے ذریعے سزاے موت کا حکم دیا ہے وہیں اس جرم کی سزا میں معافی اور راضی نامے کی رعایت بھی دی گئی ہے اور اسے حق تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔ قصاص اور درگزر کا اختیار مقتول کے وارثوں کا حق ہے۔ وہ چاہیں تو قصاص کے ذریعے قاتل کو عدالت سے سزاے موت دلانے کا پورا اختیار رکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو اسے معاف کر دینے کا حق بھی انھیں حاصل ہے اور اس کو ریاست‘ حکومت یا قانون اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔
یہ آیت کریمہ اتنی واضح ہے کہ اس کے لیے کسی شرح و تفسیر کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کے تمام شارحین‘ مفسرین خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے کیوں نہ ہو‘ شروع سے لے کر آج تک اس حق کو اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ حق العباد‘ یعنی بندوں کا حق بھی قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ جدید مفسرین میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب شہید‘ نومسلم بین الاقوامی اسکالر علامہ محمد اسد‘ مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس آیت کا یہی ترجمہ اور تفسیر بیان کی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے صاف طور پر تفہیم القرآن میں کہا ہے: ’’اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے‘‘ (ج۱‘ ص ۱۳۸)۔ سید قطب شہیدؒ اپنی معروف تفسیر فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے قتل کے اہم ترین معاملے میں دیت کی گنجایش رکھ کر مسلمانوں پر تخفیف اور رحمت فرمائی ہے‘‘۔ مولانا امین احسن اصلاحی بھی یہی بات کہتے ہیں: ’’اس آیت سے قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل گیا ہے‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۳۳)
ترمیمی بل کے مرتبین نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قانون قصاص و دیت کے سلسلے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو دین و آئین اور اسلامی قانون کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ موجودہ دفعہ ۳۳۸-ایف کو بھی انھوں نے اپنی ترمیم کا نشانہ بنایا ہے جس کی رو سے عدالتوں کو قصاص و دیت سے متعلق تمام دفعات کو قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کر کے ان کی تعبیر اور تشریح کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس دفعہ ۳۳۸-ایف کو انھوں نے سرے سے منسوخ کرکے اس کو تعزیراتِ پاکستان سے خارج کر دیا ہے۔ یہ کارنامہ اس لیے سرانجام دیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی موجودگی میں عدالتیں قرآن و سنت کے جائز قانون کو ناجائز اور قابلِ راضی نامہ جرم کو ناقابلِ راضی نہیں بناسکتیں۔ شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اگر تعزیرات کی قرآن و سنت کی رہنمائی حاصل کرنے کی یہ دفعہ منسوخ بھی کر دی جائے تو آئین کا آرٹیکل ۲ بہرحال موجود ہے جس کی رو سے پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اس لیے مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ سب اسلام کے قانون کے پابند ہیں۔ آرٹیکل ۲ -اے حکومت کو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن و سنت پر عمل کرانے کا پابند کرتا ہے۔ پھر آرٹیکل ۲۲۷ سے بچ نکلنے کی کیا صورت ہوگی جس کی رو سے تمام غیر اسلامی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق کیا جائے گا اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے قانون قصاص و دیت میں ترمیمات کا بل آئین کے اسلامی آرٹیکلز اور تعزیرات کے اسلامی دفعات کے خلاف اقدامِ قتل سے کچھ کم نہیں۔
یہاں ہم اپنے ایک اہم کیس کا حوالہ دیں گے جو ہماری ریویو پٹیشن (reivew petition) پر خلیل الزماں کیس میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں نہایت دُوررس فیصلہ سال ۱۹۹۹ء میں صادر کیا ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے تعزیراتِ پاکستان میں قانون قصاص و دیت سے متعلقہ دفعہ ۳۰۶ -سی کے بارے میں واضح طور پر یہ قرار دیا ہے کہ اگر والد اپنے بیٹے یا بیٹی‘ پوتا پوتی وہ خواہ کتنی ہی نیچے تک چلے جائیں‘ قتل کا مرتکب ہو تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دفعہ اسلام کے قانون کے مطابق ہے۔ اس کے لیے فاضل جج صاحبان نے مستند کتابوں کے حوالے بھی دیے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عمرؓ کا فیصلہ بھی اس کے جواز میں موجود ہے۔
معلوم نہیں ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں۔ یہ ان محرکات کے انسداد اور ان عوامل کی جڑ کاٹنے کے لیے قانون سازی نہیں کرتے جو فواحش‘ بدکاری اور قتل کا باعث ہیں۔ اس کے بجاے یہ اس درخت کو کاٹنے پر آمادہ ہیں جس کی شاخوں پر یہ خود بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عقلِ نارسا کو حکمت الٰہی کے تابع کر دیں اور ان غیراسلامی ترامیم سے دست بردار ہوکر دین و دنیا میں سرخرو ہوں۔