نومبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

پاکستانی جمہوریت کا المیہ!

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۰۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شخصی اقتدار‘ فوجی مداخلت و حکمرانی اور عوامی نمایندوں کا نفاق و بے وفائی

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی میں سرکاری جماعت کے ارکان اسمبلی نے حزب اختلاف کی پرزور اور شدید مزاحمت اور ہمہ جہتی مخالفت کے باوجود جس سرعت‘ دھاندلی اور منہ زوری سے صدر کے لیے دو عہدوں کے بل کو منظور کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد نے یہ بل منظور کرکے دستور اور جمہوریت کے سینے میں چھرا گھونپا ہے‘ خود اپنے اوپر اور پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا ووٹ دیا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے پانچ سالہ دورحکمرانی کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان سب پر مستزاد‘ اپنے زعم میں جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے ایک دستور سے متصادم فاسد قانون (bad law)کا سہارا لے کر دستور کی خلاف ورزی‘ سترھویں ترمیم کے قانونی تقاضوں اور خود اپنے ۲۵ دسمبر۲۰۰۳ء کے قومی عہدوپیمان (national commitment) سے نکلنے اور بدعہدی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔یہ  عوام کے نمایندوں کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔

اس اقدام اور اس کے پس منظر اور پیش منظر پر جتنا بھی غور کیا جائے اسے ملک و ملت کے لیے اندوہناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوج کو کیوں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان پر اور ان کے پارلیمانی حواریوں پر آتی ہے کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک کی وہ فوج جسے کبھی صد فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اب اتنی متنازع بنادی گئی ہے کہ ہر سطح پرہدف تنقید بنی رہی ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے اور اسے مستقل سیاسی کردار کا حامل قرار دینے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اس کردار کا ہر سطح پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر احتساب ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے محض اپنے اقتدار کی خاطر وردی کو ہدف بنوایا ہے۔ ان کی اس ہوس کی قیمت فوج کا پورا ادارہ اور قوم کی نگاہوں میں اس کے مقام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کے ایک سینیررفیق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے ان کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وہ اپنے عہد کو جو اب ہمارے دستور کا حصہ ہے پورا کریں اور فوج کو اس بدنامی سے بچالیں جو بصورت دیگر ناگزیر ہوگی۔ ان کا مشورہ ایک عقل مند دوست کا مشورہ ہے جس پر جنرل صاحب کو سنجیدگی سے غور اور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے:

لیکن ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جس سے صرف ایک باوردی صدر ہی نبٹ سکتا ہے‘ یہ کوئی نہیں بتاتا… میں نہیں سمجھتا کہ صدر کو پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوئی خواہش ہے۔ یہ امکان کہ کچھ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے جن کے پُرتشدد ہونے کا خاصا امکان ہے‘ ایک پریشان کن خیال ہے۔ اس بدنظمی کا الزام لامحالہ جنرل کی وردی سے دیرپا محبت پر لگے گا جو بہت پریشان کن ہوگا۔ کیا ہوگا اگر وردی نے بھی کوئی مدد بہم نہ پہنچائی؟ نہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ وردی اور تمغوں سے آراستہ صدر ایک اچھا تصور ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عوام کے وہ نمایندے جو پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور دستور کے مطابق ملک کا نظام زندگی چلانے کے لیے منتخب ہوئے تھے--- اور مسلم لیگ (ق) کا انتخابی منشور پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط ومستحکم اور مؤثر کرنے کے دعووں پر مشتمل تھا--- ان کی ایک تعداد دستور کے خلاف ایسا قانون منظور کرتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت فوج کا باوردی سربراہ اور سروس آف پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بھی ہوسکتا ہے اور ملک کا صدر بھی جو خالص سیاسی عہدہ ہے‘ جب کہ خود فوج کے ریٹائرڈ سوچنے سمجھنے والے افراد صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک کھیل نہ کھیلیں‘ اور دستور کے تحت انھیں جو غیرمعمولی مواقع دیے گئے ہیں ان پر قناعت کر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

صدر کے دو عہدوں پر قابض رہنے کے سلسلے میں خود صدر اور ان کے ’’نورتن‘‘ گذشتہ چند مہینوں سے ڈرامے کے مختلف ایکٹ وقتاً فوقتاً اسٹیج کرتے رہے ہیں‘ اور اب دو عہدوں کے قانون کی شکل میں ابہام (suspense) کو ختم کر کے آخری ایکٹ کی طرف پیش رفت کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ لیکن یہی وہ فیصلہ کن وقت ہے جب ایک بار پھر اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر غور کر لیا جائے تاکہ اب بھی ملک کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام ہو سکے ورنہ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور مخصوص سیاسی گروہوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ملک جس بحران اور خلفشار کی طرف جا رہا ہے‘ وہ کسی کے لیے بھی خیر کا پیغام نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل خود جنرل پرویز مشرف اور اس سے بھی زیادہ فوج کے لیے بحیثیت ایک دفاعی ادارے کے‘ بڑے ہی مہلک مضمرات کا حامل ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عقل کے ناخن لیے جائیں اور ملک اور فوج کو اس بحران سے بچا لیا جائے۔

باطل اورفاسد قانون

’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اگرچہ اسے پارلیمنٹ اکثریت سے منظور کرلے تب بھی یہ صرف ایک آمرانہ‘ استبدادی اور من مانی پر مبنی (arbitrary) قانون ہی نہ ہوگا بلکہ دستور کی اصطلاح میں‘ ایک اصلاً باطل اور فاسد قانون (void ab initio) ہوگاجس کی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔

سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لی جائے۔ بلاشبہہ ملک کی پارلیمنٹ اصل قانون ساز ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ بھی کوئی باطل اور فاسد قانون بنانے کی مجاز نہیں۔ اسلامی اصول فقہ کی رو سے چونکہ قرآن و سنت قانون کا اصل منبع ہیں اس لیے کوئی قانون ساز ادارہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ اگرخدانخواستہ کسی پارلیمنٹ کی صد فی صد اکثریت بھی شراب اور زنا کو قانون کے ذریعے جائز کرنے کا اعلان کر دے تو وہ قانون فاسد اور باطل ہی ہوگا۔ اسی طرح جن ممالک میں تحریری دستور ہے ان میں مقننہ پابند ہوتی ہے کہ دستور کے خلاف یا اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر وہ کوئی ایسا قانون بنا دیتی تو وہ سندجواز سے محروم رہتا ہے۔

جدید اصول قانون (jurisprudence)میں ایک بڑا بنیادی اضافہ( contribution) دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرمنی کے ذمہ دار افراد کے مقدمے میں‘ جسے نیورمبرگ ٹرائل کہا جاتا ہے‘ ہوا۔ اس کے فیصلوں کو عالم گیر قبولیت حاصل ہے اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ کچھ اقدار اور اصول فطری انصاف اور عالم گیر صداقتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کاارتکاب کیا جاتا ہے‘ تومحض یہ بات اس کے لیے جوازفراہم نہیں کرسکتی کہ حکم مجاز ادارے نے دیا تھا یا یہ کہ ایسا اقدام کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ یعنی قانون کے تحت کیا گیا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر جرمن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اُن قوانین کو باطل قرار دیا گیا جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اور نازی جرمنی کے چیف جسٹس آرنسٹ یاننگ کو بطور ملزم اس عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ اس کا یہ دفاع کچھ بھی کام نہ آیا کہ اس نے ان قوانین کو نافذ کرنے کے احکام دیے تھے جن کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ نیورمبرگ کی عالمی عدالت کا فیصلہ تھا کہ ایسے اقدام جو بظاہر ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہوں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں لیکن اگر ایسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنیادی طور پر اخلاقی اور انسانی جمہوری قدروں سے بالاتر یا متصادم ہوں توانھیں جائز قانون اور جائز اقدام تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے قوانین اپنی پیدایش کے وقت سے ہی باطل اور فاسد ہیں اور ان کو عدالت نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

جدید اصول قانون کے اس کلیے کی روشنی میں آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اگر ’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے گزر کر صدر کی منظوری (assent ) حاصل کر بھی لیتا ہے تب بھی اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ وہ ایک باطل اور فاسد قانون (void piece of legislation) ہوگا جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجوہ مختصراً یہ ہیں:

۱-            دستور ملک کا بالاتر قانون ہے اور کوئی قانون دستور سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ ہر قانون سازی کو دستور کی کسوٹی پر پر کھا جاتا ہے اور جو قانون اس کے برعکس ہو‘ وہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور کسی حیثیت سے بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھیے دستور کیا کہتا ہے:

(i) دفعہ ۴۱ کی رو سے کوئی شخص جو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو‘ وہ صدر نہیں ہوسکتا۔ اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳ میں کر دیا گیا ہے جس کی رو سے:

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسواے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا۔

دستور کی دفعہ ۲۶۰ میں سروس آف پاکستان کی تعریف کر دی گئی ہے جس میں ’’فوج کی ملازمت‘‘ اپنی ہر شکل میں موجود ہے۔

اسی طرح دفعہ ۶۳ کی شق (ک) کی رو سے سروس آف پاکستان سے ریٹائر ہونے والا کوئی شخص بھی اہل نہیں ہو سکتا جب تک ملازمت سے فراغت پر دو سال نہ گزر جائیں۔

شق (د) میں قانون کے ذریعے جس عہدے کو مستثنیٰ کیے جانے کا ذکر ہے وہ دفعہ ۲۶۰ کو   بے اثر (over-rule) نہیں کرسکتا۔

(ii) دستور کی دفعہ ۲۴۴ کے تحت مسلح افواج کے تمام ارکان کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ یہ حلف اٹھائیں کہ: ’’میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوںمیں مشغول نہیں کروں گا‘‘۔

اس عہد کو محض قانون کے ذریعے نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔

(iii) سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے دفعہ ۴۱ میں جو شرط عائد کی گئی تھی وہ دستوری ترمیم کا مقصد اور ہدف تھی ‘یعنی یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو (d) (i) ۶۳ سے جو استثنا دیا گیا ہے وہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو ختم ہوجائے گا۔ اب دستوری ترمیم کے اس دستوری تقاضے سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے کہ قانون سازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ترمیم کے بارے کوئی ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی جو اصل ترمیم کے مقصد کے منافی اور اس کو کالعدم (undo) کرنے والی ہے۔

دو عہدوں کا قانون اگر تسلیم کر لیا جائے تو وہ سترھویں ترمیم کے مقصد کو کالعدم کرتا ہے‘ اس کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ یہ سادہ قانون کے ذریعے دستور میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل اور فاسد ہے۔

(iv) یہ قانون دستور کے پورے ڈھانچے (structure) کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جس تقسیمِ کار پر دستور مبنی ہے اس میں صدر کا فیڈریشن کی علامت ہونا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ سول اور فوجی نظام کا الگ الگ ہونا‘ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں قوت کا ایسا ارتکاز نہ ہونا جو باقی اداروں کو غیرمؤثر کر دے‘شامل ہیں۔ یہ ’’قانون‘‘ ان تمام پہلوئوں سے دستور کے نظام کار سے متصادم ہے اور فردواحد کو دستوریا قانون سے بالا کرنے کی کوشش ہے جو جمہوریت کی ضد اور پارلیمانی نظام حکومت کی نفی ہے۔

(v) دفعہ ۴۲ کے تحت صدر کے حلف نامے میں ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ:

میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام اور اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔

حلف کی اس شق اور دو عہدوں کے قانون میں چونکہ تصادم ہے‘ اس لیے کہ یہاں مفاد کا ٹکرائو (conflict of interest) آرہا ہے۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف ہی کو ایک اعتبار سے دستور کے متعدد احکامات سے استثنا دے رہا ہے۔ اس لیے وہ خود اس کی منظوری نہیں دے سکتے۔  اگر وہ اس قانون کو منظوری دیتے ہیں تو اپنے ذاتی مفاد کو بالاتر رکھتے ہیں اور حلف کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اپنے کو صدارت کے عہدے کے لیے نااہل بنا لیتے ہیں۔

(vi)  یہ تو دستوری اور قانونی بحث تھی لیکن صدارت کے لیے سب سے اہم چیز ایک شخص کی صداقت‘ عہد کی پاسداری‘ دھوکادہی سے پاک ہونا اور امانت و دیانت ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ میں بھی دو شقیں ایسی ہیں جو اس پہلو سے اہم ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ شخص صدر نہیں بن سکتا جو:

(و) سمجھ دار‘ اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو‘ اور ایمان دار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزایافتہ ہو۔

بدترین بدعھدی

سترھویں دستوری ترمیم کے سلسلے میں اصل جوہری شق ہی یہ تھی کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک چھوڑدے گا۔ سینیٹر ایس ایم ظفر جو اس معاہدے کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اپنی کتاب Dialogue on the Political Chess Board میں اس کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز اس آیت ربانی سے کرتے ہیں:

وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا (النحل ۱۶: ۹۱)

اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو۔

کتاب کا انتساب مشہور صحابی رسولؐ حضرت ابوجندلؓ کے نام کرتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نمایاں کرتے ہیں:

ابوجندل صبر کرو‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی کا سامان کرے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور انھیں اپنا عہدوپیمان دے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے پھر نہیں سکتے۔

قرآن و سنت کی اس تذکیر کے ساتھ وہ بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے صدر کو بتایا کہ ایم ایم اے نے صدر کے انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے بجاے انھیں دستور کے تحت منتخب صدر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ بشرطیکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اس صورت میں وہ آپ سے دو میں سے ایک عہدہ چھوڑنے کے لیے کوئی حتمی تاریخ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ (ص ۱۵۸)

اسی کے نتیجے میں صدر نے ایک عہدہ چھوڑنے کی شرط تسلیم کی جو معاہدے کا اصل نکتہ تھی۔

اب یہ بات طے ہوگئی کہ اس صورت میں صدر حتمی طور پر ایک قطعی تاریخ کا عندیہ دیں گے…پھر جو تاریخ بتائی جائے گی اس کا اطلاق نااہلیت کی دفعہ‘ یعنی دستور کی دفعہ ۶۳ (د) کے ذریعے ہوگا۔ (ص ۱۶۱)

دیکھیے بالکل واضح ہے کہ اصل ایشو کیا تھا۔ اور دستور کی دفعہ (d) (i) ۶۳ کو سترھویں ترمیم میں لانے کا مقصد چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فراغت تھی۔ جب دستوری ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا تو استثنا کا سہارا لیے جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:

چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ اس مسلمہ اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے دونوں عہدے ایک شخص نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عارضی مدت کے لیے سول حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مگر انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر بھی لچک کا اظہار کیا ہے۔ (ص ۱۸۵)

اس کے نتیجے میں طے ہوا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء تک چھوڑ دیا جائے گا۔ دفعہ ۶۳ (د) ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے نافذ العمل ہوگی جو اس تاریخ کے بعد دو مناصب پر برقرار رہنے کو نااہل قرار دے گی۔

یہ معاہدے کے اسی مرکزی عہدوپیمان (commitment) کا اعلان عام تھا جو صدر نے ٹیلی وژن پر قوم اور پوری دنیا کے سامنے یوں کیا :

I have decided to leave the Army Chief post before Dec 31st, 2004. But it will be upon me to decide about the timing within this period.

میں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ لیکن اس مدت کے دوران اس کے وقت کا تعین میں خود کروں گا۔

دفعہ ۶۳ (i) (د) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا ذکر کرنے کا مسئلہ بھی لیاقت بلوچ صاحب نے اٹھایا لیکن ایس ایم ظفر صاحب نے اطمینان دلایا کہ دفعہ ۶۳ اس سلسلے میں کافی ہوگی (ص ۱۹۴)۔

ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب  میں (ص ۲۲۶-۲۲۷) یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں ایم ایم اے نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘ البتہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کر دیا۔

سترھویں ترمیم اس بارے میں امرقاطع ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بری فوج کی سربراہی سے ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک فراغت کے بعد سیاست میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سینیٹ میں ۲۹ دسمبر کو اپنی تقریر میں اس بات کو اس طرح ادا کیا اور اسی کو انھوں نے اپنی کتاب میں ضمیمہ نمبر۹ کی شکل میں اصل معاہدے کے حاصل کے طور پر پیش کیا ہے:

اب میںاپنے حتمی نتیجے تک آئوں گا۔ جناب عالی! وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں اور ہمیں لازماً آگے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے۔ ہم نئے ہزاریے میں ہیں‘ اب یہ وقت ہے کہ ہم سب عہد کریں‘ تمام سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو عہد کرنا چاہیے‘بلکہ درحقیقت مکمل سول سوسائٹی کو‘ بشمول افواجِ پاکستان کے افسران اور تمام فوجیوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آیندہ سول میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ (ص ۲۷۷)

یہ تھا اصل مسئلہ اور جنرل پرویز مشرف اور پوری پارلیمنٹ کا عہدوپیمان۔ یہ ایک سیاسی اور عمرانی معاہدہ تھا جسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  جو بھی اسے توڑ رہا ہے‘ یا توڑنے کے لیے سامان فراہم کر رہا ہے وہ دستور کا باغی‘ جمہوریت کا قاتل اور قوم کا مجرم ہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکے گا۔

اس قانون کے فاسد اور خلاف دستور ہونے کے بارے میں تمام ہی آزاد ماہرین قانون یک زبان ہیں کہ یہ دستور کے خلاف اور جمہوریت کی نفی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد پوری قانون دان برادری کے خیالات کی ترجمان ہے:

قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے‘ جو دستور کو پامال کرتا ہے اور جو ریاستی اداروں کو فرد واحد کے خبط (whim)کے تابع کرتا ہے‘ ملک کی دستوری حکومت کو ذاتی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ (ڈان، ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ قانون کتاب قانون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا اور پارلیمنٹ کے لیے خودکشی کا پروانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران پارٹی کی جو بھی سیاسی حیثیت تھی وہ خاک میں مل گئی ہے۔ حکومت حکمرانی کے لیے ہر جواز سے محروم ہوگئی ہے اور جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اپنے اعتبار (credibility ) اور سندجواز (legitimacy )‘ دونوں پر وار کر کے خود ہی انھیں تار تار کر دیا ہے۔

مسئلہ صرف قیادت کے اعتبار اٹھ جانے نہیں‘ پورے نظام امر اور اصحاب امر کی سندجواز کا ہے۔ اور جو قیادت اور جو نظام اعتبار اور جواز دونوں سے محروم ہو وہ کھوٹے سکوں کی مانند ہے اور اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جس ملک کا سربراہ اور حکمران پارٹی ایسے واضح عہدوپیمان کے بعد ان کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہوں‘ ان کے قول و فعل کا دنیا میں کسی کو اعتبار نہیں ہوسکتا۔

ایس ایم ظفر صاحب نے سورۃ النحل کی آیت ۹۱ نقل کی ہے جو عہد کی پاسداری سے متعلق ہے۔ ہم اس کے ساتھ اگلی آیت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور حکمران پارٹی اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور اپنے انجام کی تصویر بھی اسے اس میں صاف نظرآجائے گی:

وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۱-۹۲)

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمھارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمھاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہدوپیمان کے ذریعے سے تم کو آزمایش میں ڈالتا ہے‘ اور ضرور وہ قیامت کے روز تمھارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ (النحل ۱۶: ۹۱-۹۲)

اور عہدومیثاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے کہ اس کی زد خود ایمان تک پر پڑتی ہے:

اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْط بَلْ اَکْثَرَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَo

یہاں تک کہ جب کبھی ان لوگوں نے پکا عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر ایمان سے عاری ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۰۰)

فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۸۲)

اور جواس کے بعد (اپنے عہد سے) پھر جائیں تو یہی فاسق لوگ ہیں۔


اس مسئلے کے قانونی اور اخلاقی پہلو بلاشبہہ بہت اہم اور ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوری سیاست کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بڑے دور رس سیاسی مضمرات بھی ہیں۔

عدم استحکام

جنرل صاحب اور ان کے حواری سیاسی استحکام کی خاطر وردی کی بات کرتے ہیں اور جنرل صاحب نے پانچ سال میں جو نظام قائم کیا ہے اور جسے وہ پایدار جمہوریت (sustainable democracy )قرار دیتے ہیں‘ اس کو بچانے اور آگے بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خود اس کے بارے میں اس قانون کا فتویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال میں انھوں نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے‘ جب کہ اگر ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کا بنایا ہوا گھروندا استحکام سے محروم ہو۔ دراصل جنرل صاحب غیریقینی اور مجرم ضمیری کا شکار ہیں اور یہ قانون ان کے پانچ سالہ دور کے حاصل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو سیاسی نظام انھوں نے قائم کیا وہ متزلزل ہے۔ سیاسی قوت کا مرکز نہ عوام ہیں‘ نہ دستور‘ اور نہ پارلیمنٹ‘ صرف فوج  قوت کا منبع ہے‘ اور انھیں خطرہ ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ محل بندوق کی نالی کے بغیر زمین بوس ہوجائے گا۔ اگر وہ پانچ سال میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والا کوئی نظام قائم نہیں کرسکے تو مزید چار سال میں کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے ایک مداح اسٹیفن کوہن (Stephen Cohen) نے اپنی تازہ ترین کتاب The Idea of Pakistan میں جنرل صاحب اور فوج کی حکمرانی کی ناکامی کا یوں اعتراف کیا ہے:

فوج کے ہر جگہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان قومی سلامتی کی ایک ایسی ریاست رہے گا جس میں ترقی اور جواب دہی کی قیمت پر سلامتی کے مقاصد فیصلہ کن ہوں گے‘ نیز  جواز اور قوتِ متخیلہ کے فقدان کی وجہ سے سمت تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ صدر اور آرمی چیف دونوں کی حیثیت سے پرویز مشرف کی کارکردگی غیراطمینان بخش ہے۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مشرف کی قیادت کے مزید چار برس کسی طرح پاکستان کے مستقبل میں ڈرامائی تبدیلی لاسکیں۔ (بحوالہ Military's Broken Law لا از عرفان حسین‘ ڈان، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پھر بات صرف جنرل صاحب کے بنائے ہوئے نظام کے عدم استحکام ہی کی نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کی تباہی کی ہے۔ جنرل صاحب کے پورے دور حکومت اور خصوصیت سے اس ’’دو عہدوں کے قانون‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور سارے نام نہاد استحکام کی بنیاد فرد واحد کو قرار دے دیا گیا ہے۔ شخصی حکمرانی اور وہ بھی فوجی لبادے میں‘ خرابی کی اصل جڑ ہے۔ ملکوں میں استحکام اداروں کے استحکام سے آتا ہے۔ فرد تو آنی جانی چیز ہے۔ جہاں استحکام کا انحصار محض ایک فرد پر ہو وہ آمریت ہی کو جنم نہیں دیتا بلکہ خود استحکام بھی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے درخت کو جو چیز کسی گھن کی طرح کھا رہی ہے اور جس نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہ یہی شخصی حکمرانی‘ ارتکاز اختیارات اور فردواحد کی ناگزیریت ہے۔ وقت آگیاہے کہ خرابی کی اس اصل جڑ پر ضرب لگائی جائے اور استحکام کے لیے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پایدار ہو۔ یہ صرف اداروں کے استحکام سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جن اداروں کا استحکام ضروری ہے وہ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عدلیہ‘ قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کا مؤثر نظام ہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ذات کی نہیں‘ گو جنرل صاحب اپنی تمام ساکھ اور جواز کھوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا ہدف ان کی ذات نہیں‘ ان کی یہ کوشش ہے کہ شخصی حکمرانی کے نظام کو ملک پر مسلط کر دیں۔

فوجی قیادت کے سیاسی عزائم

اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ شخصی حکمرانی بھی دراصل فوجی حکمرانی (military rule) کی شکل میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں جو مشکلات اور موانع حائل رہے ہیں‘ ان میں سیاسی قوتوں کی کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے ساتھ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم اور سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کا بڑا ہی بنیادی کردار ہے۔ جو بھی فوجی طالع آزما میدان میں آیا ہے اس نے استحکام اور قومی مفاد ہی کا سہارا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں استحکام اور قومی مفاد دونوں ہی پامال ہوئے ہیں۔

آج صورت یہ ہے کہ فوج کی دفاعی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور سیاست‘ انتظامیہ‘ معیشت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے دائروں میںاس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ان دائروں کے لیے نہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور نہ اسے ان میں کوئی مہارت حاصل ہے۔ سول انتظامیہ میں آج ایک ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی چھائے ہوئے ہیں‘ سفارت کاری ہو یا تعلیمی اداروں کی سربراہی--- ہر جگہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج ظفر موج براجمان ہے۔ پبلک سیکٹر کے اہم ترین اداروں کی سربراہی بھی فوجی عملے (personnel )کو سونپی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں بھی فوجی ادارے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی ہیرالڈ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح نوحہ کرتے ہیں کہ:

The corporate interests of the military have expanded so much under General Musharuf that the army is now overwhelming all the major sectors of the state, economy and the society. And it is leading to a situation that can be declared as the colonization of the civil institutions by the military.

جنرل مشرف کے دور میں فوج کے کاروباری مفادات اتنے توسیع پذیر ہوگئے ہیں کہ فوج اب ریاست‘ معیشت اور سوسائٹی کے تمام بڑے شعبوں پر چھائی ہوئی ہے‘ اور ایسی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو سول اداروں پر فوج کا استعماری قبضہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی شعور نہیں کہ فوج کو سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ میں ملوث کر کے وہ کس طرح فوج کو قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت سے محروم کر رہے ہیں‘ اور اسے قوم کے مخالفانہ جذبات کا ہدف بنا رہے ہیں۔ فوج اپنے دفاعی اور پیشہ ورانہ کردار کو بھی کمزور کر رہی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اختلافات اور بے اعتمادی اس رخ پر جارہی ہے جو بے زاری اور نفرت کا روپ دھار سکتی ہے جو ملکی دفاع کے لیے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔

آج وردی کی بحث کا ہدف صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جنرل پرویز مشرف کی شخصی اور باوردی حکمرانی دراصل فوج کے سیاسی کردار کی علامت ہے۔ آج تک سیاسی عناصر بھی اور عدالتیں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کے عارضی کردار کو گوارا کرتے رہے ہیں جس نے اس کے مستقل کردار کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب اصل ہدف فوج کا یہی کردار ہے اور نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس باب کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ فوج صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاسی نظام دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے ہی سے چلایا جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف خود جنرل صاحب اپنی اس تقریر میں کرچکے ہیں کہ خلیفۂ وقت فوجی سالار کو برطرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔

امریکی عزائم کا آلـہ کار

جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوںکے نتیجے میں جن کو ان کے بقول فوجی قیادت کی تائید حاصل ہے‘ ملک امریکا کے عالمی عزائم کا آلہ کار بن گیا ہے۔ امریکا اس وقت عالم اسلام ہی نہیں‘ اسلام اور اس کی احیائی تحریک کو اپنا مدمقابل سمجھ کر ہر طرح سے کمزور کرنے اور کچل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے اس کروسیڈ میں جنرل صاحب کے تعاون نے پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان عوام اور انصاف دوست انسانوں سے کاٹ دیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہم امریکا کے پیادہ سپاہی (foot soldier ) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور پوری دنیا میں ہماری جو تصویر ابھر رہی ہے وہ شرمناک ہے۔ امریکا کی دوستی تو کبھی بھی قابل اعتبارنہ تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن امریکا نوازی اور امریکا کے آگے سپرڈالنے سے‘ ہم اپنے عوام سے دُور اور اپنے دوستوں کی نگاہ میں مخدوش بن گئے ہیں۔ اور امریکا کا یہ حال ہے کہ ہر تابع داری کے بعد وہ  ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے اور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت اور اسرائیل کو مضبوط کرنا اور پاکستان اور مسلمان ممالک کو کمزور رکھنا اس کی پالیسی کا ہدف ہے۔ نیز مسلم ممالک کے نظام تعلیم کو خالص سیکولر رنگ دینے‘ جہاد کے جذبے کو ختم کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے اور اُمت مسلمہ کو اپنے معاشی اور ثقافتی شکنجے میں کسنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

حد یہ ہے کہ امریکی کانگرس نے ایک نہیں کئی کئی قوانین منظور کیے ہیں کہ پاکستان کے رویے کو ہر سہ ماہی چیک کیا جائے کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں وہ کیا کر رہا ہے‘ نیوکلیر عدم پھیلائو کے بارے میں اس کا عمل کیا ہے اور اب تو یہ بھی کہ سیکولر تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی تعلیم کی اصلاح کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے۔ ہر سہ ماہی جائزے کے بعد جس مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بہ اقساط جاری کی جائے گی۔ اکتوبر میں امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا  تشریف لائی تھیںتو ان کا اصل ہدف وزارت تعلیم کو اپنے منصوبے کے لیے مسخر کرنا اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کر کے آغا خان فائونڈیشن کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ جس وقت محترمہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کر رہی تھیں اس وقت ہیلری کلنٹن نیویارک میںآغا خان فائونڈیشن کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھیں۔ اب پاکستانی فوج‘ پاکستانی پولیس‘ پاکستانی انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی قیادت‘ سب کی تربیت کا ٹھیکہ امریکا یا امریکا کے فنڈ پر چلنے والی این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامی احتساب اور پارلیمنٹ کی نگرانی سے بالا بالا شخصی حکومت کا کرشمہ ہے۔

سیکولر اقدار کا فروغ

عوام کے حقیقی معاشی مسائل کو نظرانداز کر کے معیشت کے تمام دروازوں کو عالمی ساہوکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے کھول دیا گیاہے۔ مبادلۂ خارجہ کے ذخائر بڑھائے جارہے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں دن دونی رات چوگنی بڑھوتری ہو رہی ہے‘ اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پانی اور بجلی کی قلت ہے۔ عوام علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

تعلیم کی نج کاری کے نام پر تعلیم کے استحصال کا ایک ایسا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ عام انسان کے لیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ انگریزی میڈیم کا فروغ‘ اے لیول‘ مشنری تعلیمی اداروں کا احیا‘ آغا خان فائونڈیشن کو امتحانات اور بالآخر نصاب تعلیم کا ٹھیکہ وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کو قومی دھارے اور ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اساس سے کاٹ کر مغرب کی تہذیبی غلامی کا آلہ کار بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشنری اداروں کی سرپرستی کے لیے تو یہ بے چینی ہے کہ جن اداروں کو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان کو ان صلیبی اداروں کو واپس دیا جا رہا ہے‘ لیکن اسی زمانے میں مسلمان اداروں جیسے انجمن حمایت الاسلام کے جن تعلیمی اداروںکو قومیایا گیا تھا انھیں ان اسلامی تنظیموں کو واپس دینے یا ان کے کردار کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سارا کام یک طرفہ انداز میں سیکولر اور لبرل قوتوں کے عزائم کو تقویت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے جس کے تحت خود اپنی قوم کو دوسروں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی میں دیا جا رہا ہے اور یہ سب شخصی اور باوردی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔

عوامی تحریک کی ضرورت

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مؤثر عوامی قوت کے ذریعے اس یلغار کا مقابلہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے اہداف بہت واضح اور متعین ہونے چاہییں یعنی:

۱-  ملک کی سیاست کو دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘ اور جو قیادت اپنی حکمرانی کا جواز (legitimacy )کھو چکی ہے اور جس نے ہر عہدوپیمان کو پامال کیا ہے اس سے نجات ضروری ہے۔

۲-  ملک کی فوج کو صرف دفاعی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص کیا جائے اور کسی صورت میں بھی فوج کی سیاسی مداخلت کو گوارا نہ کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی صورت میں بھی سیاست میں فوج کو ملوث نہیں کریں گی اور عدالتیں بھی یکسو ہوجائیں کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کسی بھی شکل میں فوج کی مداخلت کو سندِجواز نہیں دی جائے گی۔

۳-  پاکستان کی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت کی ہر قیمت پر حفاظت ہوگی۔ امریکا سے دوستی صرف اپنی آزادی‘ معاشی خودانحصاری اور دینی‘ تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی مکمل پاسداری کے ساتھ اختیار کی جائے گی اور زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کو لگام دی جائے گی۔ حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی جو پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ بھارت سے دوستی بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل‘ برابری کے اصول اور باوقار سیاسی اور معاشی تعلقات سے مشروط ہوگی۔

۴-  ملک کے معاشی وسائل ملک کے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور ہرشہری کو اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

۵-  ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے جواب دہی اور احتساب کا آزاد‘ مؤثر اور بے لاگ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی کو  مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جاسکے‘ اور عام آدمی عزت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل سے اپنا حق وصول کرنے کے لائق ہوسکے۔

۶-  مغرب اور بھارت کی تہذیبی یلغار کے آگے بند باندھے جائیں اور پاکستان حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی اس منزل کی طرف پیش رفت کر سکے جس کا خواب ملت اسلامیہ پاک و ہند نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دیکھا تھا اور جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کی نفی اور مشترک ثقافت اور مفادات کے بھارتی منصوبے سے قوم کو آگاہ کیا جائے‘ اور اپنی آزادی‘ دینی تشخص‘ معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کی حفاظت کے لیے مؤثر عوامی تحریک برپا کی جائے۔

یہ ہیں وہ اہداف جن کو سامنے رکھ کر عوامی بیداری کی تحریک پورے نظم اور صبروتحمل سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک عوامی قوت کے ذریعے تمام اہداف حاصل نہ ہوجائیں۔ اس عوامی تحریک کو ہر غلط راستے سے بچایا جائے اور کسی طالع آزما کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کوئی مسیحائی کا مقام حاصل کرلے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان خطرات کے پورے ادراک کے ساتھ جن سے ماضی میں عوامی تحریکات زک اٹھا چکی ہیں‘ شخصی حکمرانی سے نجات اور عوامی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کی اس تحریک کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے اصل انجام تک پہنچایا جائے۔ وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ!

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)


دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جوانجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتاہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش کی طرح اس پر سرہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اور فی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔   سید مودودیؒ