۱۹۴۱ء میں‘ قائد اول مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کی دعوت پر ہندستان میں اقامت دین کی جو تحریک برپا ہوئی تھی ‘وہ تقسیم ہند کے بعد ہندستان‘ پاکستان اور پھر بنگلہ دیش اور سری لنکا میں آزاد تحریکوں اور تنظیموں کی شکل میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ تحریکیں اور تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں کے مخصوص حالات و مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ دین کی ہمہ جہت خدمت اور اس کی اشاعت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اللہ رب العالمین کا شکر و احسان ہے کہ احیاے اسلام اور اُس کے ایک جامع نظامِ زندگی ہونے کی جو صدا بلند کی گئی تھی‘ وہ اب کتنے ہی دلوں کی پکار بن کر سارے زمانے میں گونج رہی ہے۔ اب یہ فکر دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل رہی ہے۔ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات‘ بالخصوص نوجوان نسلیں اپنے سیرت و کردار کو سنوارتی ہوئی اس کی طرف جذبۂ جاں نثاری کے ساتھ پروانہ وار لپک رہی ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے‘ یہ خطہ ء زمین حاصل ہی اسلام کے نام پر کیا گیا ہے۔ لہٰذا فطری طور پر یہ توقع ہوتی ہے کہ اس ملک کے قائدین و ذمہ داران‘ ملت سے کیا گیا اپنا عہد اور وعدہ (comitment) پورا کریں گے تاکہ دنیا‘ اسلام کا ایک زندہ نمونہ دیکھ سکے اور پاکستان کی حیثیت ایک عطر بار و سایہ دار شجر کی ہوجائے کہ اس کے سائے میں لمحہ بھر کے لیے ٹھیرنے والا مسافر راحت و سکون محسوس کرے اور جب ہوائیں چلیں تو اس کی روح پرور خوشبو مشرق و مغرب کو معطرکرسکے۔
بیش ترمسلم ممالک کی طرح پاکستان کا بھی ایک اہم مسئلہ حقیقی روح کے ساتھ جمہوریت کے قیام میں حائل دشواریاں ہیں۔ یہ مرحلہ سر ہوجائے تو اسلامی زندگی کی تشکیل کی تدابیر کرنا بھی آسان تر ہوسکے گا۔ خوشی ہے کہ ہندستان اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان تجربات کو پیش نظر رکھ کر پاکستان میں بھی اسلامی جمہوری فضا تیار ہوگی اور یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور انسان جنگ و جدال‘ قتل وخون اور ظلم و ستم کے ماحول سے محفوظ رہ کر‘ امن و امان اور راحت و سکون کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔
ہندستان‘ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ‘ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جماعت اسلامی ہند شروع ہی سے دونوں ملکوں کے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت یا احساس دلاتی رہی ہے۔ آج بھی ہم ان تمام کوششوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل کو پُرامن طریقے پر حل کرنے کے سلسلے میں کی جارہی ہیں۔ ہمارا احساس ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کا منصفانہ اور پایدار حل ہندوپاک اور کشمیر کے عوام کی خوش حالی اور مسرت و سکون کا ضامن بن سکتا ہے۔
m اُمت مسلمہ کے لیے چیلنج: اس اہم اجتماع کے پلیٹ فارم سے ایک طرف اُمت اسلامیہ کو یہ پُرسوز آگاہی دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’فنڈامنٹلسٹ اسلام‘ اور ’لبرل اسلام‘ کا نعرہ لگا کر باطل قوتیں اسلامی صفوں کو منتشر و پراگندا کرنے کی جو عیارانہ چال چل رہی ہیں‘ اُسے حکمت و دانائی اور شعور و ہوش مندی کے ساتھ مات دینا ضروری ہے‘ تاکہ فلاحِ انسانیت کا جو عظیم اور مقدس پروگرام ملت کے پاس ہے اس کے فیض سے دنیا کو آشنا کیا جا سکے۔
دنیا میں کشت و خون کا بازار گرم کرنے اور ملکوں میں تباہی و بربادی کا کھیل کھیلنے والی طاقتوں ہی نے‘ دنیاے اسلام کے قلب سے فلسطین کو نیست و نابود کرنے کی سازش رچائی اور ایک اسلامی مملکت کا خاتمہ کر کے‘ اس کی لاش پر اسرائیل کے قیام کے ذریعے‘ خود ہی سفاکانہ دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ وہی طاقتیں آج دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد کی علم بردار بنی ہوئی ہیں‘ اور افغانستان و عراق کو تباہ و برباد کر کے ہنوز بموں کی بارش کرتی ہوئی‘ وہاں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مصروف کار ہیں۔ یہ طاقتیں دوسرے ملکوں میں مداخلت کا راستہ ترک کر دیں تو دنیا میں جمہوری فضا کی بحالی میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ ورنہ متاثرہ ملکوں کے مظلوم عوام کا اضطراب‘ دنیا کے لیے بہت سے نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ بڑی طاقتوں کو اب اس نقطۂ نظر پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے نام نہاد سیکولر فکر کے مطابق مسلم ملکوں کی قسمتیں بدل سکتی ہیں اور اپنی پسند کے نظام کو وہاں تھوپ سکتی ہیں۔ بوسنیا‘ چیچنیا‘فلسطین‘ افغانستان اور عراق کے عوام کی عظیم جدوجہد اس بات کی غماز ہے کہ مسلم ممالک اب اپنی حریت اور تشخص کا کسی قیمت پر بھی سودا نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے استعماری قوتوں کا اپنے جارحانہ عزائم کو فوری ترک کر دینا ہی دنیا میں امن و آشتی کا ضامن بن سکتا ہے۔
ان طاقتوں کو یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اب دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں مختلف فکرومذاہب کے لوگ نہ بستے ہوں۔ لہٰذا اس کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ ہر جگہ صرف یہی نہیں کہ عام انسانی حقوق کا تحفظ ہو‘ بلکہ تمام ملتوں کی قومی شناخت کے تحفظ کی تدابیر بھی کی جانی چاہییں۔
m دھشت گردی اور امن عالم: دہشت گردی ہی کے نام پر بعض ممالک میں مسلم اقلیت کو ہراساں اور خوف زدہ کر کے انھیں شدید اذیتوں کا شکار بنانے کا سلسلہ جاری ہے‘ جو قابلِ توجہ ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلم گروہ کی کچھ شکایات ہیں یا مایوسی و نامرادی کا احساس (frustration)ہے تو اس کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کیے بغیر‘ اس پر یلغار اور اُسے بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی‘ عدل و انصاف اور جمہوری روح کے منافی ہے۔ یہ صورت حال بھی ختم ہونی چاہیے۔
اس موقع پر میں اہلِ پاکستان کو بھی متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کا رویہ اپنے یہاں کی اقلیتوں کے ساتھ عدل و قسط اور اخوت و محبت پر مبنی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسا ہو کہ انھیں آپ سے کوئی حقیقی شکایت نہ رہے۔ ان پر اسلام کا دین رحمت ہونا مسلسل واضح ہوتا رہے اور وہ آپ کے خیراُمت ہونے کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ ان شاء اللہ ملکی اور عالمی سطح پر اس کے بہت خوش گوار نتائج مرتب ہوں گے۔
اس موقع پرمیں اقوام متحدہ کو بھی متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بڑی طاقتیں دنیا میں کتنے ہی غیرقانونی‘ غیراخلاقی اور انسانیت کش اقدامات کرتی رہتی ہیں--- لیکن اقوام متحدہ بروقت اقدام کر کے اپنا فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے جس سے نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے‘ بلکہ فساد اور بگاڑ میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس عالمی ادارے پر چند بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ختم ہو اور اس میں دنیا کے تمام ملکوں کی آواز کو یکساں احترام کا مقام ملے‘ نیز یہ ادارہ حقیقی معنوں میں اقوام عالم کے حقوق کا پاسدار اور ان کے تشخص کا محافظ بن جائے ‘ اور ایسا نہ ہو کہ جب دورحاضر کی واحد سوپرپاور اور اس کے حواریین عراق کی طرح کسی بھی ملک پر ناجائز‘ غلط اور ظالمانہ طریقے پر حملہ آور ہوں اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کی ناپاک سازش کریں‘ تو اقوامِ متحدہ ان کو روکنے کی کوئی عملی تدبیر نہ کرسکے اور کچھ عرصے بعد صرف یہ کہہ کر کہ یہ کارروائی غیرقانونی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف تھی‘ خود کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ سمجھ لے۔
یہاں میں اسلامی رفاقت کے حوالے سے اپنے بھائیوں اور بہنوں اور نئی نسل کو بہ طور خاص متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانانِ عالم کا عسکری گھیرائو کرنے کے ساتھ ہی فکری‘ تہذیبی اور ثقافتی غلامی کی زنجیروں میں انھیں جکڑنے کی بڑی دل فریب اور پُرکشش چالیں بھی چلی جارہی ہیں‘ تاکہ طائوس و رباب کی دلفریبیوں میں گم ہوکر ہم اپنی شناخت کھو دینے کے المیے سے دوچارہوجائیں۔
قرآن کے دلنشیں پیغام سے گہری وابستگی‘ اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ پیروی اور اپنے اسلامی ورثے سے استفادے کی ہمہ گیر و مربوط کوشش ہی اس یلغار سے ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح سے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمِ مواخات اور قرآن کریم کے ارشاد اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کی پیروی بھی ہمیں باہمی انتشار سے محفوظ کرکے بنیانِ مرصوص بنا دے تو ہمارے کتنے ہی مسائل ان شاء اللہ اپنے آپ ختم ہوجائیں گے ؎
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
ملکی مسائل کے حوالے سے ہندستان میں بنیادی حقوق کے تحفظ‘ سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے حصول ‘ انسانی اخوت اور اخلاقی قدروں کے فروغ‘ امن عامہ کے قیام‘ جمہوری اقدار کی بقا اور مذہبی‘لسانی و تہذیبی اکائیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے سعی و جہد ہمارا اولیں ہدف رہا ہے۔ جماعت اسلامی ہر سطح پر ظلم واستحصال اور تشدد پر مبنی طرزِحیات پر تنقید کرتی رہتی ہے اور اقدار پر مبنی سیاست کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتی رہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت نے حالیہ پارلیمانی انتخاب اور بعض اسمبلیوں کے الیکشن میں اپنی قوت کا حتی الامکان استعمال کیا جس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ جلد ہی چند مزید اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں جن میں مثبت اور تعمیری رول ادا کرنے کے لیے وابستگان تحریک متحرک و کوشاں ہیں۔
جماعت اسلامی ہند اپنے ۶ ہزار ارکان‘ لاکھوں کارکنان و وابستگان کی ذہنی و فکری‘ علمی و عملی اور دینی و اخلاقی ہمہ جہت تربیت پر بھرپور توجہ کے ساتھ ‘مسلمانوں میں بھی فکروعمل کی ایسی تبدیلی کی کوششیں کرتی ہے جس سے وہ اقامت دین کا اپنا منصبی فریضہ انجام دینے کے قابل ہوجائیں۔
عالمی مسائل کے ضمن میں ہم تمام ملکوں کی آزادی‘ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ افراد اور تہذیبی اکائیوں کے عقیدے‘ ضمیروکلچر کی آزادی‘ امن و امان‘ عدل و انصاف‘ اخلاق و شرافت‘ وحدتِ انسانیت اور انسانی حقوق کی پاسداری کی پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اٹھنے والے عالمی مسائل‘ مثلاًفلسطین‘ بنگلہ دیش‘ خلیجی جنگ‘ کویت پر عراقی جارحیت‘ بوسنیا‘ چیچنیا‘ اور افغانستان پر روسی فوج کشی اور اب افغانستان و عراق پر امریکا اور اس کے حواریین کا حملہ اور کشمیر کی صورت حال پر جماعت نے حسب ضرورت احتجاج بھی کیا ہے۔ متعلقہ لوگوں کو توجہ بھی دلائی ہے اور موقع بہ موقع ضروری اظہار خیال بھی کرتی رہی ہے۔
خدمت خلق کے میدان میں جماعت اسلامی مریضوں‘معذوروں اور حاجت مندوں کو سہارا دینے اور مصیبت زدہ لوگوں اور مظلوموں کو بلالحاظ مذہب و ملت امداد پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس وقت گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی خدمت کا جو کام جاری ہے‘ اس پر اب تک ۱۵ کروڑ روپے سے زاید وسائل صرف کیے جا چکے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لیے ہزارہا مکانات اور متعدد کالونیاں بناکر دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ساڑھے پانچ سو غریب غیرمسلم بھائیوں کو بھی مکانات تعمیر کر کے دیے گئے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا انتہائی شکرواحسان ہے کہ دعوت کے میدان میں خدمت کی بڑی سعادت بھی جماعت اسلامی ہند کو حاصل ہوئی ہے۔ تمام ممکن ذرائع سے اسلام کی دعوت برادرانِ وطن تک پہنچانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ ملک کی تقریباً تمام زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ‘ احادیث مبارکہ اور سیرت رسولؐ پر کتب کی اشاعت مسلسل جاری ہے۔ اردو‘ ہندی‘ انگریزی‘ بنگلہ‘ آسامی‘ اڑیہ‘ پنجابی‘ گجراتی‘ مراٹھی‘ تمل‘ تیلگو‘کنڑ‘ملیالم‘منی پوری‘ کوکنی وغیرہ زبانوں میں وسیع پیمانے پر اسلامی لٹریچر اب وجود میں آچکا ہے جس سے ایک طرف مسلمان بھی استفادہ کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ لٹریچر‘ نیز ملک کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں شائع ہونے والے ہمارے اخبارات و رسائل غیرمسلم بھائیوں کی اسلام کے سلسلے میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور کرنے کا ذریعہ اور ان تک پیامِ حق کو پہنچانے کا وسیلہ بھی بن رہے ہیں۔
خدا سے دعا ہے کہ ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں‘ وہ اپنے دین کی اقامت و سربلندی کے لیے جدوجہد کی ہمیں توفیق عطا کرتا رہے‘ آخری سانس تک اندھیروں میں چراغ جلانے کی سعادت سے سرفراز فرماتا رہے اور ہماری کوششوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ