صحیح بخاری جس طرح کتبِ حدیث میں اَصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ شمار ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ بجاطور پر اَدق الکتب بعد کتاب اللہ بھی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی بے شمار شروح میں سے زیادہ مشہور اورممتاز دو شروح ہوئیں ۔ ایک حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانیؒ (م:۵۸۲ھ) کی فتح الباری اور دوسری علامہ بدرالدین محموداحمد العینیؒ (م: ۸۵۵ھ) کی عمدۃ القاری ہے۔ حال ہی میں علامہ مولانا معین الدین خٹکؒ کی معین القاری شرح صحیح البخاری شائع ہوئی ہے۔ یہ مولانا خٹک مرحوم کی تقاریر کیسٹوں سے اتار کر ان کے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد عارف نائب شیخ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کی زیرنگرانی اور ان کی کاوش سے مرتب کی گئی ہے۔
یہ صحیح بخاری کی مکمل شرح ہے۔ اس میں حدیث کا مکمل متن اور سلیس اُردو ترجمہ ہے‘ اور یہ ذکر بھی کہ صحیح بخاریمیں ایک حدیث کتنی جگہ آئی ہے۔ صحیح بخاریکی مشکلات کا حل اور ترجمۃ الباب کے تحت ذکر کردہ احادیث سے ترجمۃ الباب کا ربط پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ترجمۃ الباب کے مباحث و مضامین‘ مستنبط مسائل اور آیات و احادیث کی جامع اورمفصل تشریح‘رُواۃ (حدیث) کے حالات‘ قدیم اور جدید فرق باطلہ اور ان کے فلسفوں اور نظریات پر سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ نئے اِزموں: سیکولرزم‘ سوشلزم‘ کمیونزم اور نئے فرقوں: قادیانیوں‘ منکرین حدیث اور ان کے مختلف گروہوں: پرویزیوں اور چکڑالولیوں کا عالمانہ مگر عام فہم تعارف وغیرہ۔
اردو اور عربی میں صحیح بخاری کی بہت سی شروح ملتی ہیں۔لیکن معین القاری‘ صحیح بخاری کی ایسی شرح ہے جسے عصرِحاضر میں دستیاب جملہ شروح میں وہی مقام حاصل ہے جو قرآن پاک کی تفاسیرمیں تفہیم القرآن کو حاصل ہے۔
معین القاری کا اندازِ بیان محض علمی اور تحقیقی ہے‘ مناظرانہ نہیں ہے۔ فقہی اختلافات بیان کرتے ہوئے ‘اپنے زمانے کے مکاتب فکر میں سے کسی پر طعن و تشنیع نہیں کی گئی۔ اس لیے تمام مدارس و مکاتب فکر کے علما و طلبہ اورعامۃ المسلمین بلاتردّد اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
ابتدا میں حضرت مولانا معین الدین خٹکؒ اور ان کے استاذ حضرت مولانا فخرالدینؒ کے سوانح اور مقدمے کے ساتھ بدء الوحی کی احادیث کی تشریح دی گئی ہے۔ مقدمے میں حدیث کی تعریفات اوّلیہ اور حجیتِ حدیث (از مولانا محمدعارف)‘ منکرین حدیث کے اعتراضات کا تجزیہ (از مولانا معین الدین خٹکؒ)‘ حدیث کا معیار‘ روایت و درایت‘ حدیث کی اصطلاحات‘ حدیث معنعن‘ حدیث منقطع‘ حدیث معضل‘ حدیث معلق‘ اصح الکتب کے بعد کتاب اللہ کی توضیح‘ مسالک اربعہ میں فرق اور صحاح ستہ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ گویا اس شرح کی حیثیت انسائی کلوپیڈیا کی ہے۔ یہ نہ صرف دینی اور اسلامی تحریک کے وابستگان‘ بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے‘ بلکہ دینی مدارس کے اساتذہ‘ صحیح بخاری کے پڑھانے والے شیوخ اورپڑھنے والے طلبہ کے لیے بھی ایک قیمتی تحفہ اور زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (مولانا عبدالمالک)
متلاشی ذہنوں اور مضطرب دلوں کے لیے خالد بیگ کے کالم‘ اب کتابی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔ وہ یہ کالم First Thing Firstکے عنوان سے دسمبر ۱۹۹۵ء سے Impact لندن میں لکھ رہے ہیں۔ اس کالم میں عصرحاضر سے متعلق اسلامی موضوعات کا ایک وسیع دائرہ زیربحث آتا ہے۔ بہت سے شائقین کے لیے امپیکٹ کا یہ وہ کالم ہے جس کا وہ بے چینی سے انتظار کرتے اور رسالے میں سب سے پہلے اسے پڑھتے ہیں۔
آج اسلامی معاشرے اپنی شناخت اور سند کی تلاش میں ہیں اور مسلمان اپنی انفرادی زندگیوں میں گمبھیر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں‘ یہ کالم اسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ خالد بیگ کی حقیقی مہارت ان کی اس صلاحیت میں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے موجودہ حالات پر اسلام کے ابتدائی مآخذ سے رہنمائی اخذ کر کے مختصر تبصرے کرتے ہیں۔ فصاحت‘ بے ساختگی اور اختصار کے ساتھ وہ بڑی خوب صورتی سے مسائل کو اسلامی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔ بیرونی اثرات کی پیدا کردہ الجھنوں کو صاف کرتے اور اپنے پڑھنے والوں کو بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے بیدار اور متحرک کرتے ہیں۔
خالد بیگ کو درست بات جامعیت سے کہنے کا ملکہ حاصل ہے۔ دوسرے مصنف جو بات کئی درجن صفحات میں کہہ پاتے ہیں‘ وہ انھیں دو تین صفحات میں خوب صورتی سے کہہ دیتے ہیں۔ ان کا غیرجانب دارانہ انداز‘ ٹھہرا ہوا سنجیدہ لب و لہجہ‘ سوچ بچار کی بنیاد پر متوازن آرا اور بصیرت افروز تبصرے‘ یقینا اس کتاب کو قاری کے لیے ایک جذب کرنے والا اور مالا مال کرنے والا تجربہ بنا دیتے ہیں۔ ان کالموں کے چند عنوانات : قرآن‘ رسولؐ سے محبت‘ عبادات‘ اسلام ہی حل ہے‘ انتخاب آپ کو کرنا ہے‘ ذاتی اصلاح‘ عورت اور خاندان‘ تعلیم‘ اتحاد‘ بہائو کی مزاحمت‘ تاریخ‘ ایک نظر وغیرہ‘ کل ۸۱ کالم ہیں جن میں سے ۲۰ ذاتی اصلاح کے موضوع پر ہیں۔
مصنف کے بقول یہ کالم لکھنے میں انھوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا منظورنعمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مفتی تقی عثمانی اور بعض دوسرے علما کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ بعض کالم تو اردو سے براہ راست تلخیص کیے گئے ہیں۔
یہ کالم بہت مقبول ہوئے ہیں۔ اسپینی‘ ملائی‘ فرانسیسی‘ بوسنی اور اردو زبان میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں بھی انھیں مفید پایا گیا ہے۔(مسلم سجاد)
جس لمحے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کراسلام کی دعوت پیش کی‘ اسلام پر اعتراضات کاسلسلہ اسی وقت سے شروع ہوگیا۔ اعتراضات گوناگوں تھے حتیٰ کہ قرآن پاک اور رسولؐ اللہ کی ذات گرامی بھی اعتراضات کا ہدف بنی۔ حقائق اسلام میں مصنف نے ہر طرح کے اعتراضات کے مختصر شافی جواب دیے ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرے میں رہنے والوں کو تو بہت کم ان اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن غیرمسلم معاشروں کے مسلمانوں کو ان اعتراضات سے روزمرہ واسطہ پیش آتا ہے۔
کیا قرآن واقعی اللہ کا پیغام ہے؟ رسول کریمؐ کی ازواج کی تعداد‘ حضرت زینبؓ سے نکاح ‘ حضرت عائشہؓ کی عمر ‘حج میں قربانی دولت کا ضیاع ہے‘ پردہ بے جا پابندی ہے اور بھارت کے خصوصی پس منظر میں گوشت خوری پر اعتراضات اور حیوانات کے حقوق جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ یقینا یہ ایک مفید اور ضروری کتاب ہے۔ مصنف نے ابتدا ہی میں لکھ دیا ہے کہ اعتراضات کا سبب اسلام سے ناواقفیت‘ مسلمانوں کی بے عملی اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ تدارک کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اسلام کا سچا نمونہ بنیں‘ غیرمسلموں سے ربط بڑھائیں اور اعتراضات کا جواب دیں۔ (م - س)
رمضان المبارک کے ۳۰ دنوں کے لیے‘ یہ روزانہ کا ایک دستور العمل ہے۔ دراصل یہ نگہت ہاشمی کے لیکچر ہیں جو رمضان کی مختصر تربیتی کلاسوںمیں دیے گئے۔ ان کی افادیت و مقبولیت اور فوائد و ثمرات کے پیشِ نظر ان لیکچروں کی طلب بڑھی‘ اور فوٹوکاپیاں مہیاکرنا مشکل ہوگیا‘ تو اب انھیں مرتب کرکے شائع کر دیا گیا ہے۔ ہر روز کے لیے قرآن کی ایک آیت (یا قرآن کے بارے میں ایک مختصر حدیث)‘ ایک دعا‘ وضو‘ نماز میں خضوع و خشوع اور اخلاق و انفاق کے لیے ہدایت--- آخر میں ’’آج کیا کریں‘‘ کے تحت ۲‘۳ کام کرنے کا عزم--- ہر عنوان کے تحت واضح نکات۔
رمضان میں ان ۳۰ اسباق کا اجتماعی مطالعہ‘ نیز گھروں میں بچوں کے ساتھ مل کر پڑھنا‘ ان ہدایات کی عملی صورتوں کا راستہ نکالنا‘ دعا یاد کرنا وغیرہ باعثِ افادیت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف طویل عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور انھوں نے بطور پرنسپل‘ ڈائرکٹر تعلیمات اور صدر نشین تعلیمی بورڈ ایبٹ آباد بھی خدمات انجام دی ہیں۔ تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بخاری صاحب نے قرطاس و قلم سے بھی اپنا رشتہ بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ یہ بظاہر تو اخباری کالم ہیں اور فرمایش پر یا اشاعتی تقاضوں کی تعمیل میں لکھے گئے‘ لیکن درحقیقت یہ غوروفکر کی دعوت سے لبریز سندیسے ہیں۔
مصنف نے تاریخ‘ دانش‘ حرکت پذیری اور عبرت آموزی کو پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا ہے۔ ان میں سیاسیاتِ وطن سے لے کر سیاسیاتِ عالم تک کے رنگ ہیں۔ بخاری صاحب نے تواریخ و ادبیات کی پرپیچ وادیوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے ہاں ہمیں حب الوطنی کی ایک متوازن لہر ملتی ہے۔
اگر مناسب پیراگراف بناتے ہوئے‘ ہرمضمون کے آخر میں تاریخ اشاعت بھی درج کردی جاتی تو مضمون کا پس منظر جاننا آسان ہو جاتا۔ بہرحال یہ چھوٹے چھوٹے مضامین عمدہ اسلوب میں اور دل کش انداز سے کسی اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے اور عمل پر ابھارتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
دیباچہ نگار ڈاکٹر احمد یوسف نے کتاب کو خاکوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ بلاشبہہ بعض شخصیات کا ذکر اس حسن و خوبی سے کیا گیا ہے (خصوصاً کتاب کے آخری حصے میں) انھیں خوب صورت خاکوں میں شمار کیا جاسکتا ہے‘ لیکن زیادہ تر ایک ایک‘ دو دو صفحاتی شخصی تعارف ہیں۔ بعض تو بالکل ہی مختصر بلکہ سرسری‘ نصف صفحہ یا اس سے بھی کم‘ (ایک صاحب کا ذکر فقط پانچ سطروں میں ہے۔ اس کتاب کو شخصیات کا تذکرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایک لحاظ سے یہ کتاب ’’یاد نگاری‘‘ کا نمونہ ہے۔ مصنف نے جن بزرگوں‘ اساتذہ‘ دوستوں‘ عزیزوں یا ہم کاروں سے کسی مرحلے پر اکتساب و استفادہ کیا‘ ان سے متاثر ہوئے (یا کچھ زیادہ تاثر نہیں بھی لیا) تو بلاکسی ترتیب کے اور بیش تر صورتوں میں کسی تمہید کے بغیر‘ ان کے بارے میں جو بات ذہن میں آئی‘ لکھتے چلے گئے۔ تواریخ (ولادت یا وفات) وغیرہ سے یہ تذکرہ ’’پاک‘‘ ہے۔ کسی شخص کا ذکر اچانک شروع ہوتا ہے اور ختم بھی اچانک ہوتا ہے۔
مصنف نے مجموعی طور پر افراد و اشخاص کی خوبیوں اور نیکیوں کا ذکر کیا ہے۔ انداز و اسلوب بے تکلفانہ اور کہیں بے باکانہ ہے۔ یہ بے باکی بعض اوقات نشترزنی کی حد تک جاپہنچتی ہے اور بعدازاں مصنف اپنی غلطی پر نادم ہوتے ہیں۔
ان خاکوں یا شخصی تذکروں سے سب سے اچھی‘ مفصل اور سچی تصویر خود مصنف کی اپنی بنتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ محمود عالم صاحب کی اپنی یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کتاب کو خود مصنف ہی مرتب کرتے تو کیا حرج تھا؟ (ر - ہ )
سفرنامہ اب محض رودادِ سفر نہیں رہا‘ بلکہ سفرنگاروں نے جغرافیے کے ساتھ تاریخ اور مختلف معاشروں کے ماحول اور ان کی نفسیات کا ذکر شامل کر کے‘ سفرنامے کو ایک دل چسپ صنفِ ادب بنا دیا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ صغیرقمر نے عمیق مشاہدات کو ایک بے ساختہ اسلوب میں پیش کر کے رودادِ سفرکو سفرنامے کا روپ دیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے سردار اعجاز افضل خان‘ پروفیسر نذیراحمد شال اور صغیرقمر پر مشتمل ایک سہ رکنی وفد نے پانچ ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دورے میں پاکستانیوں اور کشمیریوں سے خطاب کیا‘ ملاقاتیں کیں اور بعض مقامی دانش وروں اوربااثر افراد سے مل کر ان پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت واضح کی۔ یوں یہ کتاب ایک بڑے مقصد کے لیے کیے گئے جرمنی‘ ناروے اور اسپین کے اسفار کی روداد پر مشتمل ہے۔ یہ مقصد ہی اُسے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتا ہے۔ (پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور سویڈن بھی گئے تھے۔ پھر ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کم از کم سویڈن کا ذکر تو ناروے کے ساتھ ہی مناسب تھا)۔
صغیر قمر‘ زیرِسیاحت ممالک کے ماحول و معاشرت کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ ان ممالک کی تاریخ پر بھی نظرڈالتے ہیں۔ اس لیے ہر منظر پورے پسِ منظر کے ساتھ مجسم ہوکرسامنے آجاتا ہے۔ اسپین کے احوال میں مصنف کے اپنے مشاہدات کم ہیں اور تاریخی احوال نگاری زیادہ ۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
ہماری جامعات میں تحقیقی جریدوں کی روایت بہت مضبوط نہیں ہے۔ ماضی بعید میں جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے ایک رسالہ جریدہ کے نام سے جاری کیا تھا‘ ۱۷سال کے بعد ڈاکٹر معین الدین عقیل کے دورِ نظامت میں دوبارہ جاری ہوا۔ اب خالد جامعی اسے مرتب کر رہے ہیں۔ زیرتبصرہ شمارہ ۲۷ ’’چہ دلاور است‘‘ کے عنوان سے مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ کے پُرلطف‘ دل چسپ اور انکشافات سے پُر بیانات پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل اسی طرح کے ’’قدیم لسانیات و کتبات نمبر‘‘، ’’ادبیات نمبر‘‘اور ’’فلسفہ لغت نمبر‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ ایک خاص شمارہ واحدمسلمان اور پاکستانی ماہرِآثار قدیمہ و تاریخ مولانا ابوالجلال ندوی کے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔
زیرتبصرہ سرقہ نمبر اردو کے کسی عام قاری کی آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ماہنامہ مہرنیم روز نے اس سلسلے کا آغاز کیا کہ ہر ماہ کسی ایک سرقے کا انکشاف کرے۔ یہ تاریخی سلسلہ‘ علم و ادب کے صنم خانے میں تکبیر بن کر گونجتا رہا۔ اس سلسلے میں لکھنے والوں میں دو نام نمایاں ہیں: سید حسن مثنیٰ ندوی اور سید ابوالخیر کشفی۔ تمام مضامین میں تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے سرقہ ثابت کیا گیا ہے۔ بہت سے اہم نام ہیں۔ ابوالکلام آزاد‘ عصمت چغتائی‘ مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر میر ولی الدین۔ نیاز فتح پوری نے ہیولاک ایلس کی پوری کتاب ترجمہ کر کے بہ عنوان: ترغیبات جنسی اپنے نام سے شائع کردی۔ نیاز فتح پوری کا‘ اُردو ادب میں بڑا نام ہے‘ مگر دوسروں کی چیزیں اپنے نام سے شائع کرنا انھیں خاصا مرغوب رہا۔ مرتب نے لکھا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے سرقوں کی اقسام کو اس شمارے میں شامل نہیں کیا گیا‘ مثلاً دوسرے محققین کے مسودات چوری کر کے اپنے نام سے شائع کرا لینا‘ دوسرے محققین کی عسرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اونے پونے داموں پر مسودات خرید لینا‘ مختلف ناشرین اور اداروں کے پاس طباعت کے لیے آنے والے مسودوں کا مطالعہ کر کے اُسی موضوع پر اصل کتاب کی طباعت سے پہلے‘ ایک نئی کتاب شائع کرالینا‘ طلبا و طالبات کی تحقیق اپنے نام سے شائع کرالینا‘ اس کے علاوہ سرقے کے جدید ترین طریقے وغیرہ۔ جریدہ کے خصوصی نمبروں نے جامعہ کے اس شعبے کو پاکستان کی علمی دنیا میں اہم مقام دلوا دیا ہے۔ یہ شعبہ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے میدانوں میں بھی نمایاں ہے اور مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ محققین ‘ اساتذہ اور اہل علم ۵۰ فی صد رعایت پر یہ شمارہ حاصل کرسکتے ہیں۔(م - س)
’’رنگ چمن کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے جناب مدیر نے بڑی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ ہمارے علمی زوال اور تعلیمی پستی پر اظہار رنج و افسوس کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم کی بے مقصدیت اور ابتری کے مہلک اثرات اور نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاقی شکست و ریخت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ: کیا یہ وقت نہیں کہ ہمارے ادبا اور شعرا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اپنی قوم کے نوجوانوں کو بے مقصدیت اور بے راہ روی بلکہ کج روی کی تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ سرانجام دیں؟ یہ سوال ایک طرح کی دعوتِ فکر ہے اور اقدام کے لیے ایک نہایت مثبت اور مناسب تجویز بھی۔
سیارہ کے اس سالنامے میں‘ جو کئی مہینوں کے طویل وقفوں کے بعد منظرعام پر آیا ہے‘ ایسی معیاری تخلیقات شامل ہیں جو اس ادبی مجلے کی پہچان ہیں۔ حمدونعت‘ نظمیں‘ مقالات‘ رفتگان کا تذکرہ‘ غزلیں‘ خاکے‘ افسانے اور کتابوں پر تبصرے اور خصوصی مطالعے (مقالات‘ سارے کے سارے شعرا پر ہیں)۔ رئیس احمد نعمانی کا ’’سلام بہ حضور خیرالانامؐ،، اُمت کے حالات پر اچھا تبصرہ ہے۔ بعض تحریریں قندِمکررکے طور پر شامل کی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ شمارہ ہمیں اپنے دور کے اچھے لکھنے والوں سے اور معاصر ادبی رجحانات سے روشناس کراتا ہے۔(ر-ہ)