فلسفۂ ارتقا کا تیسرا اصول یہ پیش کیا گیا ہے کہ زندگی کا ارتقا تنازع(struggle) ہی کے بل پر ہوتا ہے۔ یہ اصول بھی دراصل حیوانی زندگی سے اخذ کیا گیا تھا۔ لیکن آگے چل کر اسے انسانی زندگی پر بھی پھیلا دیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تمدنی ارتقا کا فلسفہ جس دور میں مدون ہوا‘ اس دور میں انسان عملاً حیوانات کی سطح پر گرچکا تھا۔ وہ اپنی حقیقی امتیازی حیثیت‘ یعنی اپنی اخلاقیت اور ذمہ داری کو بھول گیا تھا اور اپنے اوپر کسی اقتداربالادست کی موجودگی کا قائل نہیں تھا۔ زندگی بعدالموت کا منکر ہونے کی وجہ سے اس نے لذت اندوزی اور خواہش پرستی کو مقصدِحیات ٹھیرا لیا تھا اور اجتماعیت کے بجاے وہ انفرادیت کی طرف جھک پڑا تھا۔ مختصر یہ کہ اس میں اور ادنیٰ حیوانات میں بجز اس کے کچھ فرق نہیں تھا کہ یہ اپنی خواہشات کی غلامی کرنے میں اپنے عقلی قویٰ کی مدد سے کچھ زیادہ کارہاے نمایاں دکھا رہا تھا۔ اس بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علماے مدنیات نے انسان کو اگر حیوانات کے ساتھ ملا کر اس کا مطالعہ کیا تو وہ کچھ زیادہ غلطی پر نہ تھے۔ ان کی غلطی اگر تھی تو یہ تھی کہ انھوں نے ایک غیرفطری حالت کو فطری حالت قرار دے لیا اور انسان نے جو اجتماعی امراض پیدا کرلیے تھے انھیں علاماتِ صحت سمجھ لیا۔
اس غلط اندیشی سے یہ تصور پیدا ہوا کہ جس طرح ایک بیل ہری ہری گھاس کے لیے دوسرے بیل سے لڑجاتا ہے اسی طرح انسان کو ایک دوسرے سے نوالے چھیننے چاہییں۔ پھر جس طرح چیتوں کی ایک ٹولی جس جنگل میں چاہتی ہے‘ شکار کرتی پھرتی ہے۔ اسی طرح انسانی گروہوں کو بھی بین الاقوامی سیاسی صیادی کرتے پھرنا چاہیے۔ انسان کا گویا فطری منصب ہی یہ قرار پایا کہ وہ بحیثیت ِ فرد افراد سے الجھا رہے اور طبقات اور اقوام کی شکل میں منقسم ہونے کی حیثیت سے دوسرے طبقات اور دوسری اقوام سے متصادم رہے‘ ورنہ وہ ارتقا نہیں کر سکتا‘ بلکہ اس کی بقا تک ممکن نہیں ہے۔
زندگی کا کتنا یک رخا مطالعہ تھا۔ ان لوگوں نے زندگی میں تنازع کے اصول کی کارفرمائی تو دیکھ لی مگر یہ ’’توافق للبقا‘‘ (co-operation for existence)کے اصول کو نہ دیکھ سکے جو سورج سے زیادہ نمایاں تھا۔ توافق للبقا کی اصطلاح سے شاید آپ اُپرا رہے ہوں کہ یہ کیا بلا ہے مگر یہ اتنی عام اور صریح حقیقت ہے کہ کششِ زمین کی طرح محض پیش پا افتادہ ہونے کی وجہ سے کسی کو محسوس نہ ہوئی۔ اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ اس کے بغیر تمدن کی گاڑی ایک انچ بھی نہیں چل سکتی۔ نہ صرف یہ کہ مدنیت کا محل اسی سنگِ اساس پر کھڑا ہے‘ بلکہ کائنات کی توافق کی شاہ راہ پر اپنی منزلِ تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ (توافق للبقا‘ نعیم صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ‘ نومبر‘ دسمبر۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۷)