غربت‘ جہالت اور بیماری کی تثلیث نے پوری دنیا میں مسیحی اداروں کے کام کو آسان بنایا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں یورپی ممالک اور امریکا کے سفارت خانے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا جو بھی شہری کلیسا کی معرفت ترکی جانے کی درخواست دیتا ہے اُسے تمام سہولیات اور سفری دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ترکی کا جو شہری مغربی ممالک جانا چاہتا ہے اور وہ ترکی میں کام کرنے والی مسیحی تنظیموں کی معرفت درخواست کرتا ہے‘ فوراً اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ ترکی کے طالب ِ علم اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہیں‘ انھیں مفت باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ مسیحی تبلیغی اداروں کا ہدف آیندہ دس برسوں میں ۵۰ لاکھ ترک باشندوں کو عیسائی بنانا ہے تاکہ ترکی میں ایک بااثر جدید مسیحی اقلیت کی تشکیل کی جا سکے۔
اگست ۱۹۹۹ء میں جب ترکی کا علاقہ مرمرہ زبردست زلزلوں کا نشانہ بنا تو عیسائی تبلیغی اداروں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کو غذا اور طبی امداد کے ذریعے عیسائی بنالینے میں کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے گھر بالکل مسمار ہوگئے تھے۔ زلزلوں سے سب سے متاثر شہر اسکاریہ تھا۔ وہاں کے مسلمان اہلِ علم نے بتایا ہے کہ ویٹی کن کے ماتحت خیراتی اداروں کے کارکن صرف اس شرط پر متاثرین کی مدد کرتے تھے کہ پہلے وہ عیسائیت قبول کریں۔ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کو بھاری رقوم سے نوازا جاتا۔ اسکاریا یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کنعان تونج نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: مسیحی ادارے‘ مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سی آئی اے کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔ ان کا اوّلین مقصد بیداری اور ترک قومیت کا تشخص ختم کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کافی مال خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ امداد دیتے وقت لوگوں سے کہتے ہیں‘ دیکھو‘ تمھاری حکومت نے تمھاری مدد نہیں کی‘ ہم نے مدد کی ہے۔ یہ متاثرین کو مال بھی دیتے ہیں اور ان میں انجیل بھی تقسیم کرتے ہیں۔ متاثرین کی نفسیاتی و مالی حالت سے فائدہ اٹھا کر انھیں گرجوں میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مسیحی مبلغ بظاہر ’’مسیحی مقدس مقامات‘‘ کی زیارت کے بہانے ترکی میں آتے ہیں مگر ان کا اصل مقصد ترکی کے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانا ہے۔ صرف گذشتہ تین برسوں میں ترکی میں انجیل کے ۸۰ لاکھ نسخے تقسیم کیے گئے۔ مختلف محلوں اور بازاروں میں گھر خرید کر یا کرائے پر لے کر وہاں چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے جاتے ہیں۔
ترک پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق عیسائی مبلغ جن اداروں کے پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں‘ ان میں آرمینیائی تحقیقی مرکز‘ اتحاد کلیسا ہاے یورپ‘ اتحاد کلیسا ہاے آرتھوڈکس اور اتحاد کلیسا ہاے عالمی شامل ہیں۔ یہ مبلغ ترکی میں نسلی اور علاقائی تفریق پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پورے ترکی میں عیسائی لٹریچر کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ترکی زبان کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں استنبول‘ انقرہ اور ازمیر میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے بھی عیسائیت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
جنوب مشرقی اناضول کا علاقہ مسیحی سرگرمیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس علاقے میں مسیحی مبلغ یازیدیت اور کلدانیت کے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ کردی زبان سے پابندی اٹھا لیے جانے کے بعد مسیحی مبلغ وسیع پیمانے پر کردی زبان میں کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ کردی زبان میں لاکھوں کتابیں‘ انجیلیں اور کیسٹیںتقسیم کی جاچکی ہیں۔ نہایت شان دار‘ عمدہ کاغذ اور طباعت کی لاکھوں کی تعداد میں انجیل کُردی زبان میں تیار کرکے مفت دی جاچکی ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے والے کُردوں کو یورپ میں بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یورپ جانے کے متمنی ان کُردوں کی صلاحیتوں سے وہاں استفادہ کیا جاتا ہے۔ نوجوان کُردوں کو عیسائیت پر لیکچر دیے جاتے ہیں۔
ترک انٹیلی جنس کے مطابق جنوب مشرقی اناضول میں کئی شہریوں نے مال کی خاطر اسلام ترک کر کے عیسائیت قبول کرلی ہے۔ دریاے فرات کے قرب بپتسمہ پانے والے ان افراد کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر جو تصاویر لی گئیں وہ ترک انٹیلی جنس کے ہاتھ آئی ہیں۔ ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے ساتھ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے اعلیٰ افسر کھڑے ہیں جن کے چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے ہیں۔ بپتسمہ کے بعد‘ نو عیسائیوں میں سے جو لوگ یورپی ممالک جانا چاہیں‘ مغربی سفارت کار انھیں ویزے فراہم کرتے ہیں اور تمام سفری سہولیات کا مفت اہتمام کرتے ہیں۔
افسوس کہ جس ترکی نے اپنے دورِ عروج میں پوری دنیا میں اپنی عظمت کا پرچم لہرایا اور جن عثمانی ترک خلفا کی ہیبت سے یورپی حکمران لرزہ براندام رہتے تھے ‘ آج اُسی ترک قوم کو یوں کھلم کھلا عیسائی بنایا جا رہا ہے!