اللہ کی بندگی کی روح یہ ہے کہ ہم صرف اسی کے محتاج اور فقیر بن جائیں۔ محتاجی اور فقر کے سوا انسانی زندگی کی کوئی اور تعبیرممکن نہیں ہے۔ جتنا محتاج‘ جتنا فقیر‘ جتنا بے بس‘ جتنا لاچار اور بے کس انسان ہے‘ اتنی شاید ہی کوئی دوسری مخلوق ہو۔
ایک بچے کے آنکھ کھولتے ہی اگر دو انسان اس کی خبرگیری کے لیے‘ اللہ تعالیٰ نے متعین نہ کر دیے ہوں‘ تو انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدم قدم پر‘ لمحے لمحے پر‘ ہر جگہ انسان‘ کائنات کی قوتوں کے آگے‘ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اگر زلزلہ آجائے‘ آتش فشاں پھٹ جائے‘ سیلاب آجائے‘ آندھی اور طوفان آجائے‘ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جسم کے اندر اگر ایک خلیے کا مزاج بگڑ جائے تو کینسر کا مرض موت کا پروانہ لے کر آجاتا ہے‘ اورکوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ معمولی زکام بھی ہوجائے تو اس کی دوا ابھی تک انسان کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنے نزلے‘ زکام کا علاج نہیں کر سکتا ہے۔ اگردل دھڑکنا بند ہو جائے تو وہ اس کی دھڑکن دوبارہ واپس نہیں لاسکتا۔ انسانی زندگی کو وہ اگر لوٹانا بھی چاہے تو نہیں لوٹا سکتا۔ اُس کا اِس پر بس نہیں چلتا۔
گویا ہر طرف انسان کی حاجت مندی‘ محتاجی اور فقیری ہے جو اس کی زندگی میں رچی بسی ہے۔ اسی محتاجی اور فقیری کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے غالب اور نمایاں پہلو اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔ اس وجہ سے جس سے بھی نقصان پہنچتا ہے اور جس سے بھی فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ وہ اس سے نسبت اور تعلق قائم کرلیتا ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہی پہلو غالب نظر آئے گا۔ کہیں وہ کسی غیرمعمولی طاقت اور قوت کے خوف‘ ڈر اور ہیبت سے اس کے آگے جھک جاتا ہے‘ ماتھا ٹیک دیتا ہے اور اس کو خدائی کا درجہ دے کر بندگی کرتا ہے اور پناہ مانگتا ہے۔ وہ اپنی حاجات ‘ ضروریات‘ امیدوں اور تمنائوں کے برآنے کے لیے ہر ایسی ہستی اور قوت کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ہے‘ اُس کے در پہ جھک جاتا ہے‘ سجدے میں گرجاتا ہے‘ گڑگڑاتا اور دعائیں مانگتا ہے جس سے اسے حاجت روائی‘ مشکل کشائی‘ مرادوں کے برآنے اور دعائوں کی قبولیت اور امن و تحفظ کی امید و توقع ہوتی ہے۔ اس سب کے پیچھے بنیادی سوچ یہی ہوتی ہے۔ پوجا و پرستش اور عبادت و بندگی‘ اور محتاجی وفقر‘ اور مذاہب و ادیان کی تشکیل میں بھی یہی فلسفہ و فکر کارفرما ہے۔
اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر‘ حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف ایک ذات سے‘ یعنی اللہ سے ہو۔ انسان صرف اُسی کی بندگی کرے نہ کہ کسی اور کی۔ زمین کے زلزلے سے گھبرا کر وہ زمین کی بندگی نہ کرے‘ نہ سورج‘ چاند‘ ستاروں کی پرستش کرے‘ نہ ہوائوں اور بارش کی اور نہ اپنی یا اپنے جیسے کسی انسان کی پوجا کرے‘ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اللہ ہی سے مل سکتا ہے اور سارے اختیارات صرف اُسی کے پاس ہیں۔ ہر چیز اس کے خزانے میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے‘ نہ کچھ دینے کے لیے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔ زندگی و موت‘ نفع و نقصان اور خیروشر‘ سب اس کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہے۔جس نے اس بات کو سمجھ لیا اوراس پر یقین کر لیا‘ اور پھر اس پر اپنی زندگی کی تعمیرکی‘ صرف اُسی کی بندگی مکمل ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دعا کے انداز میں اپنے ساتھ تعلق رکھنے کی تعلیم دی اور اس تعلیم کو بار بار دہرانے کی بھی ہدایت کی اور حکم دیا کہ یوں کہو: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ دراصل یہی بندگی کی روح اور بندگی کی معراج ہے۔
سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلدُّعَائُ ھُوَ العِبَادَۃُ ،’’مانگنا ہی تو بندگی ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اَلدُّعَائُ مُخُّ العِبَادَۃِ،یعنی مانگنا عبادت کا مغز‘ اس کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ لہٰذا جو اللہ کا نام لے‘ اس کا جھنڈا اٹھائے اور طلب کی نسبت اللہ کے علاوہ دوسروں سے بھی رکھے تووہ توحید کے راستے میں نقص‘ کمزوری اور ضعف کا شکار ہے۔ توحید کے مطابق اللہ کی بندگی کامل اس کی ہے جو خوف اور طمع کی نسبت صرف اللہ سے رکھے۔ ڈرے تو صرف اُسی سے ڈرے‘ اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔
یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۱۶:۳۲)
اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔
گویا وہ خوف اور ڈر سے‘ لالچ اور طمع سے اور امید و حاجت روی سے اگر مانگتے ہیں یا پکارتے ہیں تو صرف اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے وہ سارے انعامات ہیں جو نہ انسان نے دیکھے‘ نہ سنے اور نہ وہ تصور کرسکتا ہے۔ اسلام میں بندگی ومحتاجی اور فقر کی یہی روح اور حقیقت ہے۔
اللہ کی بندگی کی روح یہی ہے کہ ہم اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘ اسی کے در پر بھکاری بن کر جائیں‘ اسی سے مانگیں‘ اور یہ سمجھیں کہ جو کچھ مل سکتا ہے صرف اُسی سے مل سکتا ہے‘ اور اگر کوئی چھین سکتا ہے تو صرف وہی چھین سکتا ہے۔
ایک طویل حدیث قدسی میں جو حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم سب بھوکے ہو‘ بھوکے رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں۔ تم سب بے لباس رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کپڑا پہنائوں۔ تم سب گمراہ رہو گے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ تم دن رات گناہ کرتے ہو‘ اور مجھ سے معافی مانگتے ہو تو میں معاف کر دیتا ہوں۔پھر فرمایا کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو۔
گویا محتاجی صرف دنیا کی چیزوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ محتاجی ہر چیزکے لیے ہے۔ زندگی کیسے بسر کریں؟ سیاست کیسے ہو؟ معیشت کیسی ہو؟ یہ بھی محتاجی میں شامل ہے۔ یہ سمجھنا کہ یہ رہنمائی کہیں اور سے مل سکتی ہے‘ یہ بھی خلافِ توحید ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ: تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلائوں گا‘ مجھ سے کپڑا مانگو میں تمھیں پہنائوں گا‘ مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کر دوں گا۔
پھر فرمایا:اس سے میری کوئی غرض نہیں ہے۔ ’’سارے انسان‘ تمھارے پہلے ‘ اور بعد میں آنے والے جِن اور مخلوق سب مل کر انتہائی متقی ہوجائیں تو میری خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اگر سب کے سب مل کربدترین نافرمان ہوجائیں‘ تب بھی میری خدائی میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘ اور سب کے سب کسی میدان میں جمع ہو کے جو مانگنا ہے وہ مانگ لیں‘ جو دل میں آئے مانگ لیں‘ اور میں وہ سب دے دوں تو میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی کہ سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے (تو اس کے سرے پر جو پانی لگا رہ جاتا ہے‘ اس کے برابر) اے میرے بندو! تم مجھ کو چھوڑ کر کس کے پاس جاتے ہو! (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الاستغفار والتوبہ)
وہ ہمیں بلاتا ہے‘ پکارتا ہے۔ غرض تو ہماری ہے‘ محتاج توہم ہیں وہ توغنی ہے‘ ہم فقیر ہیں۔ اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے تو وہ ہم کو ایسے پکارتا ہے اوربار بار پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے مانگو‘ نعوذ باللہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پروا نہ ہو۔ ہم رات سے صبح‘ صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے‘ اس سے مانگنا ہے۔ مگر وہ ہے کہ جو بار بار پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘تاکہ میں تم کو معاف کر دوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ہے‘ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘ غصہ کرتا ہے جو اس سے سوال نہیں کرتا اور مانگتا نہیں ہے۔ بندگی‘ محتاجی اور فقر یہی توہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے‘وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوق ہیں‘ اور مخلوق ہونے کے ناطے ہم اپنے ارادے سے اس کے در پر جائیں‘ اسی کے بھکاری بن کر جائیں اور اسی سے مانگیں۔
اگر آپ غورکریں تو مانگنے میں‘ ایک تو مانگنے والا ہے جو ہم ہیں‘ اور ایک وہ ہے جس سے مانگا جائے۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم فقیر ہیں‘ محتاج ہیں‘ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے‘ نہ اپنی آنکھ پر‘ نہ اپنے کان پر اور نہ اپنے جسم پر۔ ہمارا اختیار تو جسم کے اندر ایک چھوٹے سے خلیے پر بھی نہیں۔ اگر اس میں فساد پیدا ہو جائے تو ہم چند دن میں گل سڑ کر مرجاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں ہے۔ اس قدر لاچار اور بے بس ہیں ہم۔ مگر آدمی اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتا ہے۔
دوسری طرف ایک وہ ہے کہ جس سے مانگا جائے‘ یعنی اللہ رب العزت۔ اس کا حال یہ ہے کہ ہماری کسی نیکی سے‘ دعا سے اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن ہم جو مانگیں‘ وہ ہم کو دے دیتا ہے اور اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہ خود پکارتا ہے کہ آئو مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘ کھانا مانگو‘ کھانا کھلائوں گا‘ پانی مانگو پانی دوں گا‘ شفا مانگو شفا دوں گا ۔ یہی رب سے وہ حقیقی تعلق ہے جس کو توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیم ؑ نے یوں ادا کیا کہ تمام جھوٹے معبود میرے دشمن ہیں‘ سواے ایک رب العالمین کے:
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِo وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِo وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیِنِo وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِo (الشعرائ۲۶: ۷۷-۸۲)
میرے تو یہ سب دشمن ہیں‘ بجز ایک رب العالمین کے‘ جس نے مجھے پیدا کیا‘ پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔
مانگنے والا اور جس سے مانگا جائے‘ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مانگا جائے؟ آدمی کیا مانگتا ہے‘ وہ جس کی طلب دل کے اندر ہوتی ہے۔ پیاسا پانی مانگتا ہے‘ بھوکا کھانا مانگتا ہے‘ بے لباس کپڑا مانگتا ہے‘ تو گویا جس کی واقعی حاجت ہوتی ہے‘ واقعی طلب ہوتی ہے‘ اسی کے لیے آدمی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ چھوٹا سا کام درپیش ہو تو آدمی ایم این اے وغیرہ کے گھر کے دس چکر لگاتا ہے کہ کسی طرح میرا کام ہوجائے۔ اگر کہیں اس سے اُوپر تعلق پیدا ہوجائے‘ وزیراعظم کے ہاں جانے کا موقع مل جائے‘ تو آدمی بے چین ہو کے دوڑا دوڑا جا کے کام کروائے گا۔
پس جس چیز کی طلب ہوتی ہے ‘ حرص ہوتی ہے‘ اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے اور انسان اس کے لیے پکار اٹھتا ہے۔ اگر دل میں طلب‘ حرص و لالچ نہ ہو‘ کوئی پیاس اور بھوک نہ ہو‘ کوئی تڑپ اور بے قراری نہ ہو‘ تو اس کیفیت میں مانگنے پر ملنا مشکل ہے‘ اور دعا کا قبول ہونا بھی مشکل ہے۔
دعائوں کے ذریعے اللہ سے اور صرف اللہ سے خوف اور لالچ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق بندگی اور عبادت کی روح ہے۔
دعاکا ایک اور پیرایہ یہ ہے کہ دعا تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہے۔ ہم منطق چھانٹیں‘ دلائل دیں‘ بڑی لمبی چوڑی تقریر بھی کریں مگر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے چار الفاظ میں جو تعلیم دی گئی ہے‘ وہ ہم نہیں سمیٹ سکیں گے۔جو کچھ ] اور جیسا[ ہم کو ہونا چاہیے‘ اس کو دعا بنا کر‘ طلب اور خواہش کی طرح ہماری زبان پر جاری کر دیا گیا ہے۔ گویا جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اس کی طلب‘ اس کا لالچ‘اس کی حرص بھی دل کے اندر ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دل میں اگر اس چیز کی پیاس نہ ہو‘ یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کو کیا چاہیے یا کیا مانگنا ہے؟ تو پھر اس کی قبولیت بھی مشکل ہے۔ لہٰذا دعا کرنا یا مانگنا صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ کے آگے گڑگڑایا جائے اور التجا کی جائے‘ بلکہ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اور جیسا بننا چاہ رہے ہیں‘ اس کے حصول اور ویسا بننے کی کوشش بھی لازم آجاتی ہے۔ یہی تزکیہ و تربیت کا وہ عمل ہے جو دعا کے مانگنے کے ساتھ فطری انداز میں جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق ہی نہیں جوڑتی‘ بلکہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کو کیسا بننا چاہیے‘ کیسا ہونا چاہیے اور دل میں خواہش‘ لالچ‘ تڑپ اور طلب کس چیز کی ہونی چاہیے۔
دعائیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ آپؐ کی دعا ہے۔ ایسے ایسے الفاظ میں‘ایسے ایسے مضامین کی‘ ایسے خوب صورت اور مؤثر پیراے میں دعائوں کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دل بے اختیار ہوجاتاہے ‘روح وجد میں آجاتی ہے اور بندہ اپنے رب ہی کا بن کے رہ جاتا ہے۔ اگر ہم ان دعائوں کو دیکھیں‘ ان کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم کو کیا مانگنا چاہیے‘ اور کیسا بننا چاہیے اور اللہ سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے۔
دعا اللہ کو یاد کرنے کی بھی ایک بڑی عمدہ‘ نادر اور نفیس صورت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: ’’اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ‘‘۔ تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ لیکن جب ہم اس سے دعا مانگتے ہیں تو ہم صرف اس کو یاد ہی نہیں کرتے‘ بلکہ ہم اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ اس سے بات چیت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو اللہ سے بات چیت کرنے کا موقع مل جائے تو یہ بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی سعادت ہے۔ صبح و شام انسان کو حاجات پیش آتی ہیں‘ ضروریات آن پڑتی ہیں‘ اگر آدمی صبح و شام‘ رات دن‘ ہر موقع پر اللہ سے مانگتا رہے تو پھر یہ کیفیت ہوتی ہے: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ(ٰاٰل عمرٰن۳:۱۹۱)، ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت ہماری بھی بن سکتی ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کے بڑے محبوب نبی اور رسول تھے اور اس کی راہ میں انھوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ ساڑھے نوسو سال تک رات دن‘ کھلے چھپے اپنی قوم کو پکارا‘ مگر سواے انکار اور مایوسی کے‘کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ان کی قوم نے مان کر نہ دیا اور ایک نہ سنی بلکہ انھیں جھٹلا دیا۔ اس حالت میں ان کی زبان سے ایک دعا نکلی جوبہت مختصر سی دعا ہے:
اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ o (القمر۵۴:۱۰)
میں مغلوب ہوچکا‘ اب تو ان سے انتقام لے۔
یہ تین الفاظ کی دعا ہے‘ لیکن اس کی پشت پر ساڑھے نو سو سال رات دن کی محنت تھی۔ اس دعا نے زمین و آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح قبول ہوئی :
فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍط وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o (القمر ۵۴:۱۱-۱۲)
تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا‘ اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا۔
بظاہریہ چھوٹی سی دعا تھی۔ لیکن ایک ایسے بندے کے دل و زبان سے نکلی تھی جو رات دن اسی مغلوبیت کے میدان سے گزر رہا تھا۔
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص ۲۸:۲۴)
پروردگار!جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اُس کا محتاج ہوں۔
اس پکار کے نتیجے میں ان کے لیے بھی راستے کھل گئے‘ پناہ بھی ملی‘ مغفرت بھی ملی‘ دشمن بھی تباہ و برباد ہوا اور مقامِ عبرت بن گیا‘ نیز غلبہ بھی ملا‘ سب کچھ ان کے حصے میں آیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دعائوں کی تعلیم دی ہے‘ ان دعائوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلق کا جس سے سب کچھ مل سکتا ہے‘ ایک ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔
یہ دعا‘ عرفات کے میدان کی دعا ہے۔ لیکن کسی وقت بھی مانگی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی بندہ رات کی تنہائی میں بھی مانگ سکتا ہے اور دن میں بھی :
اِلٰھِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فَقِیْرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭
میرے معبود‘ تیرا بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا فقیر تیرے در پر ہے‘ تیرا مسکین تیرے در پر ہے‘ تیرا سائل تیرے در پر ہے‘ تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا مہمان تیرے در پر ہے‘ اے رب العالمین!
اس دعا میں بندگی‘ عجز وانکسار اور خدا سے استعانت و مدد کی کتنی دل کش تصویر پیش کی گئی۔ بندہ پکارتا ہے: اے اللہ، تیرا بندہ تیرے دروازے پر حاضر ہے‘ تیرے در پر بھکاری بن کر کھڑا ہے۔ تیرا محتاج و فقیرہے‘ مسکین و بے بس ہے۔ اے اللہ‘ تیرا بندہ اسی لیے تیرے در پر کھڑا ہے اور تیرا مہمان ہے کہ تونے بلایا ہے۔ بن بلائے بھی نہیں آیا ہے‘ بلایا ہوا آیا ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں‘ کمزور اور ضعیف‘ فقیر اور محتاج‘ تیرے در پر سوالی بن کر کھڑا ہوں‘اور تیرے سوا کون ہے جس کے در پر ہم اپنی جھولی پھیلا سکیں۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَـرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ لَایَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ئٌ مِّنْ اَمْرِیْ، اَنَا الْبَآئِسُ الْفَقِیْرُ، الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِیْ اِلَیْکَ، اَسْئَلُکَ مَسْئَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ ابْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ، وَاَدْعُوْکَ دُعَائَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ، دُعَائَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْئُوْلِیْنَ وَیَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ (کنزالاعمال‘ طبرانی‘ عن ابن عباسؓ، عبدابن جعفرؓ)
میرے اللہ‘ تو میری بات کو سن رہا ہے‘ اور تو میرا مقام اور حالت دیکھ رہا ہے اور میرے چھپے اور کھلے سب کو جانتا ہے‘ تجھ سے میری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ میں مصیبت زدہ ہوں‘ محتاج ہوں‘ فریادی ہوں‘ پناہ کا طلب گار ہوں‘ ڈرنے والا‘ ہراساں ہوں‘ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں‘ اعتراف کرتا ہوں میں تجھ سے مانگتا ہوں‘ جیسے بے کس مانگتا ہے اور میں تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہ گار اور ذلیل و خوار گڑگڑاتا ہے‘ اور میں تجھ کو پکارتا ہوں جیسے خوف زدہ‘ آفت رسیدہ پکارتا ہے‘ ایسے شخص کی پکار جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے سامنے بہہ رہے ہیں‘ جس کا تن بدن تیرے آگے بچھا ہوا ہے اور جو اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہاہے‘ اے اللہ! تو ایسا نہ کر کہ تجھ سے مانگوں اور پھر بھی محروم رہوں‘ تو میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا بن جا‘ اے ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے‘ اے سب دینے والوں سے بہتر۔
دیکھیے‘ ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور بندگی کی تڑپ جھلک رہی ہے۔ پوری زندگی کے گناہوں کا بھی اعتراف ہے‘ اپنی کیفیت بھی ہے‘ جسم بھی جھکا ہوا ہے‘ ناک بھی زمین پہ رکھی ہوئی ہے‘ پیشانی بھی زمین پہ ٹکی ہے‘ آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں اور اس حالت میں گڑگڑا رہے ہیں‘ سارے گناہوں کا گنہگار کی طرح اعتراف ہے۔ یہی وہ چیزہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق قائم کرا دیتی ہے۔
اس دعا کے اندر خوف اور محبت کے چشمے‘ دل کے اندر پھوٹتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ایک تصور یہ ہے کہ اس نے پیدا کر دیا اور اس کے بعد لاتعلق ہوگیا‘ اب اس کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں سمجھیے کہ جیسے شاہجہان نے تاج محل بنایا‘ مر گیا اور ختم ہوگیا۔ ایک دوسرا تصور خدا یہ ہے کہ ہماری زندگی رات دن اس کی مٹھی میں ہے۔ جو سانس آتا ہے اسی کے حکم سے آتا ہے اور جو سانس جاتا ہے وہی لے جاتا ہے‘ اور جو لقمہ منہ میں آتا ہے‘ وہی لا کر ڈالتا ہے اور جو پانی کا گھونٹ پیتے ہیں اُسی کا دیا ہوا پیتے ہیں۔ دعا ایک ایسے ہی زندہ و جاویدہستی اور جیتے جاگتے خدا سے بندے کا براہ راست تعلق جوڑ دیتی ہے۔
اللہ سے محبت اور حلاوتِ ایمان ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر ایک کی طلب‘ خواہش اور آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ کی محبت پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس محبت کی دعائیں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں اور یہ دعائیں جن الفاظ میں اور جس اسلوب میں ہیں‘ آدمی ان کو سن کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا ہے۔ ایک مختصر دعا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ (مشکوٰۃ‘ترمذی‘کتاب الدعوات‘ ۵؍۱۸۴)، یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے اور اس عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت کا باعث ہے۔ یااللہ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان‘ میرے مال اور میرے اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز بنا دے۔
اَللّٰھُمَّ اَجْعَلْ حُبَّک اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْعَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال‘ عن ابی بن مالکؒ)
اے اللہ‘ اپنی محبت میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنا دے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوںکے ڈر سے زیادہ کر دے۔ اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں‘ اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے‘ میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُحِبُّکَ بِقَلْبِیْ کُلِّہٖ وَاُرْضِیْکَ بِجَھْدِیْ کُلِّہٖ
اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں اپنے سارے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں اور اپنی پوری کوشش تجھے راضی کرنے میںلگا دوں۔
کیسا والہانہ انداز محبت ہے! بندہ دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تمنا کر رہا ہے کہ مجھے ایسا بنا دے کہ پورے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں‘ دل کے اندر کوئی خانہ خالی نہ رہے اور تجھ سے ٹوٹ کے بے پناہ محبت کروں‘ نیز میری جدوجہد اور ساری کوشش اسی لیے ہو کہ تجھ کو راضی کر لوں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اَخْشَاکَ کَاَنِّیْ اَرَاکَ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَسْعِدْنِیْ بِتَقْوَاکَ
اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈروں گویا میں تجھے تیرے ساتھ ملاقات کے وقت دیکھ رہا ہوں اور مجھے اپنے تقویٰ سے سعادت بخش۔
دیکھیے کہ اس چھوٹی سی دعا کے اندر وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جو ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ کن چیزوں کی پیاس ہو‘ کن چیزوں کی طلب ہو‘کیا چیزیں مانگیں‘ کیسا بننا چاہیے۔ یہ صرف دعائیں نہیں ہیں‘ بلکہ بڑی قیمتی تعلیمات ہیںجو ان دعائوں کے اندر سمیٹ کے بیان کر دی گئی ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)
میرے رب‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرماں برداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔
یہ ایک بڑی خوب صورت اور بڑی جامع دعا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز بڑی ترتیب سے آئی ہے ‘اور ایک ایک چیز دین کی بہت ہی قیمتی بنیادوں میں سے ہے۔ ذَکَّار اور شَکَّار ‘ یہ فَعَّالٌ کے ہم وزن عربی زبان کے الفاظ ہیںجن کا مفہوم ہوتا ہے بہت زیادہ یا کثرت کے ساتھ کرنے والا۔ ذَکَّارًا، یعنی مجھے ایسا کر دے کہ بہت زیادہ تجھے یاد کرنے والا بنوں۔ لَکَ شَکَّارًا، اور تیرا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنوں۔ ان دونوں کا آپس میں باہمی تعلق بھی ہے۔ اس لیے کہ جو آدمی شکر کرے گا وہی اللہ کو یاد کرے گا۔ جب آدمی کثرت کے ساتھ شکر کرے گا تو وہ خدا کی ایک ایک نعمت کے لیے شکر ادا کرے گا۔ وہ اپنے ایک ایک عضو کے لیے شکر ادا کرے گا‘ زبان کے لیے‘ آنکھ کے لیے‘ کان کے لیے‘ اس دل کے لیے جو دھڑکتا ہے‘ حتیٰ کہ ہرآنے جانے والی سانس کے لیے جو اس کے حکم سے آتی اور جاتی ہے۔ غرض زمین و آسمان کی بے شمار نعمتوں کے لیے وہ ہر دم شکرگزار ہوگا۔ اس طرح کون سا لمحہ ہوگا جو اللہ کے ذکر سے خالی رہ جائے گا۔
جہاں شکر کا ذکر ہے وہاں خوف کا بھی ذکر ہے۔خوف کا بھی ذکر کسی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ہمیں جو اتنی نعمتیں ملی ہیں‘ یہ کہیں چھن نہ جائیں۔ اگر ہم اتنے نااہل و ناکارہ ہوئے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ بچہ باپ سے کس لیے ڈرتا ہے؟ نفرت کی وجہ سے یا ڈنڈے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ محبت کی وجہ سے ڈرتا ہے کہ اگر یہ محبت مجھ سے چھن گئی تو کیا ہوگا؟
یہاں مِطْوَاعًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطیع نہیں کہا گیا۔ مطیع کے معنی ہیں حکم ماننے والا‘ جب کہ مِطْوَاعًا کے معنی ہیں جو اپنی مرضی سے اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو یاد کرے‘ اللہ کا شکر کرے‘ اسے اللہ کا خوف لاحق ہو‘ اس کے بعد جہاں اسے رب کو راضی کرنے کا موقع مل جائے تو اس طرح نہیں کہ ڈیوٹی سمجھ کے انجام دے یا جیسے کوئی بوجھ اتار دیا‘ بلکہ جو اپنی مرضی سے‘ اپنی خواہش سے‘ اپنی طلب سے اللہ کی اطاعت کرے۔ پھر فرمایا: لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا ،’’تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘‘۔
اب آخری بات آپ دیکھیے: اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُنِیْبًا۔، ’’اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔ اُردو میں ایک لفظ آہ ہے۔ آپ کہتے ہیں آہ کرنا۔ تو اَوَّاہَ کا لفظ بھی عربی زبان میں آہ سے نکلا ہے۔ آہ کا لفظ بھی عربی زبان کا ہے۔ اَوَّاہَ کے معنی ہیں جو بہت ہائے ہائے کرنے والا ہو‘ بہت آہ آہ کرنے والا ہو‘ گناہوں پر رونے والا ہو۔ لہٰذا فرمایا گیا: اَوَّاھًا مُنِیْبًا، ’’میں ہائے ہائے کرکے‘ ہمیشہ تیرے ہی در پہ لوٹ آئوں۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں‘ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ جو آدمی رات دن مانگے اور سوچ سمجھ کر مانگے تو پھر ویسا ہی بنتا بھی جائے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ کچھ نہ کچھ تو اپنے آپ کو ویسا ہی بنائے جیسا کہ اس دعا کے اندر بیان ہوا ہے۔
دعا کا ایک اہم موضوع توبہ‘ یعنی اللہ کی طرف پلٹنا اور استغفار بھی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں‘ اورمعافی مانگتے ہیں‘ پھر گناہ کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ لیکن پھر دنیا ہمیں گھیرلیتی ہے‘ ہم بہک جاتے اور پھسل جاتے ہیں۔ نگاہ بھی پھسلتی ہے‘ ہاتھ بھی غلط کاری میں ملوث ہوجاتے ہیں‘ حرام بھی کما لیتے ہیں اور جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ گویا گناہوں سے مفر نہیں ہے۔ گناہوں سے مفر اس لیے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔ اسے گناہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہو‘ اور جو آزاد ہوگا‘ جسے اختیار حاصل ہوگا ‘وہ گناہ ضرور کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے‘ اس نے استغفار کے لیے دعوت دی ہے‘ وہ تو پکارتا ہے:
یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّیط
وہ تمھیں بلا رہا ہے تاکہ تمھارے قصورمعاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ (ابراھیم ۱۴:۱۰)
انبیا علیہم السلام کو اسی لیے بھیجا گیا کہ لوگوں کے لیے گناہوں کی بخشش کا دروازہ کھل جائے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس لوگوں کو رب کی بندگی کی دعوت دی تو یہ بھی فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ، یعنی میں نے تو قوم سے یہی کہا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ وہ بخشنے والا ہے۔
ایک شخص مسجد نبویؐ میں آیا اور کہنے لگا: ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ۔ وہ اپنے گناہوں کے سبب رو رہا تھا‘ دھاڑ رہا تھا‘ چیخ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا‘ بیٹھ جائو اور یہ کہو: اَللّٰھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذَنُوْبِیْ وَرَحَمَتَکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ اَمْرِیْ، ’’اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے بہت زیادہ وسیع ہے اور اپنے معاملے میں بہت زیادہ امیدوار ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے اس شخص کے لیے دعاے مغفرت بھی کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُدْ، یعنی ایک دفعہ اور کہو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جائو تمھارے گناہ بخش دیے گئے۔
آپؐ نے سیدالاستغفار کی بھی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ یہ سارے استغفاروں کا سردار ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص استغفار کو صبح و شام پڑھے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھ کر اس پر پورا یقین رکھے‘ اگر اُس کا اُسی دن شام سے پہلے یا اُسی رات صبح سے پہلے انتقال ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ (بخاری‘ کتاب الدعوات)
اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ اور جتنی مجھ میں استطاعت ہے میں تیرے عہدوپیمان (اقرارِ اطاعت) پر قائم ہوں‘ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اس کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ جن نعمتوں سے تو نے مجھے نوازا ہے‘ ان کا اعتراف کرتا ہوں۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو مجھے بخش دے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا۔
امام ابن قیمؒ اپنی کتاب کتاب الاذکار میں ‘ جو ذکر پر بہت ہی جامع کتاب ہے لکھتے ہیں کہ ایک بدو آیا۔ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور اللہ تعالیٰ سے دعا شروع کی کہ ’’اے اللہ! تو نے استغفار کا جو وعدہ کیا ہے‘ اور تیرا جو کرم ہے‘ اس کے بعد بھی میں گناہوں پر اصرار کرتا رہوں تو یہ میرا کمینہ پن ہے‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ نے استغفار کا دروازہ کھول دیا ہو اور اس کے بعد بھی بندہ اگر اپنے گناہوں پر اصرار کرے تو وہ بہت کمینہ بندہ ہے ۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے‘ عجیب بات ہے‘ تُو تو مجھ سے بے نیاز ہے‘ اس کے باوجود تو بار بار نعمتیں دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتاہے‘ اور میں تیرا محتاج ہوں اور میں تجھ سے بھاگ بھاگ کے گناہ کرتا رہتا ہوں۔ اَدْخِلْ عَظِیْمَ جَرْمِیْ اَدْخِلْ عَظِیْمَ عَفْوِکَ، اے اللہ تُومیرے عظیم جرائم کو اس سے زیادہ عظیم عفو کے اندر داخل کردے۔
یہ استغفار ہیں۔ ان کی حضورؐ نے تعلیم دی ہے۔ محبت مانگنے کی تعلیم دی ہے‘ بلکہ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر چیز کو اُسی سے مانگنے کی تعلیم دی ہے۔
دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصرجملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔
یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَعْبُدُوْانَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔
اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضوؐر کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَافَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ - (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)
اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے ‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔
دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰)‘ مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا۔ مزید فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادِتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (۴۰: ۶۰) ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حدیث کی ہر کتاب میں دعا کا ایک باب ہوتا ہے۔دعائوں کی بے شمار کتابیں ملتی ہیں۔ چھوٹے بڑے بہت سے مجموعے دیکھنے میں آتے ہیں۔ امام نووی کی کتاب الاذکار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ملتا ہے‘ عربی زبان میں بھی دستیاب ہے۔ حصن حصین کے نام سے دعا کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں سات منازل کے اندر اذکار اور دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی بآسانی دستیاب ہے۔ اسی طرح امام نسائی کی کتاب ہے جس میں رات دن کی ساری دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ بھی بازار میں ملتا ہے اور عربی میں بھی موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے مجموعے تو بے شمار ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مناجات مقبولبہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ اس میں بیش تر مسنون دعائیں اور ان کا ترجمہ بھی بہت اچھا ہے۔ شیخ حسن البنا کی ماثورات مسنون اذکار اور دعائوں کا بہت عمدہ مجموعہ ہے۔ ابن تیمیہؒ کی الکلمۃ الطیّبمیں بھی عمدہ دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک مختصر‘ مگر عمدہ مجموعۂ دعا ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں اور مشکٰوۃ میں بھی دعائوں کا الگ باب ہے۔ اگر شوق اور طلب ہو تو ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ان گزارشات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بغیر اللہ سے مانگے‘ اللہ کا محتاج بنے‘ اللہ کے دربار میں فقیر بنے کچھ بھی حصے میں نہیں آئے گا۔ اسی کے نتیجے میں خدا کا قرب حاصل ہوگا‘ حاجات پوری ہوں گی‘ خدا کی رضا اور خوشنودی‘ جنت کا حصول ممکن ہوگا۔ دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا اور آخرت میں بھی۔ نیز زمین پر غلبے اور خلافت کا وعدہ بھی اسی تعلق کے نتیجے میں پورا ہوگا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور