مسلم ممالک پر امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصاب تبدیل کریں جو امریکا اور مغرب کے خلاف نفرت‘ دہشت گردی اور تشدد میں فروغ کا سبب ہیں۔ اس مطالبے کے تسلسل میں قاہرہ میں یکم تا ۳جون ۲۰۰۴ء ایک کانفرنس منعقد ہوئی‘ موضوع تھا: ’’تعلیم سب کے لیے--- مستقبل کے لیے عرب نقطۂ نظر‘‘۔ اس کانفرنس میں عرب ممالک کے ۱۲وزراے تعلیم و تربیت شریک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمایندوں نے بھی شرکت کی۔ کئی غیر عرب ممالک کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں قاہرہ میں متعین امریکی سفیر ڈیویڈ وولش کی آمد بہت معنی خیز تھی۔ امریکی سفارت خانے نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں گہری دل چسپی لی۔ یہ دل چسپی درحقیقت عرب ممالک کے داخلی امور کی نگرانی اور مسلسل دبائو کا اظہار ہے۔
یاد رہے کہ مصر پہلے ہی تعلیمی نصاب میں کافی تبدیلیاں لاچکا ہے۔ ’’اخلاقیات‘‘ کا نیا مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ مصری وزیرتعلیم ڈاکٹر حسین کامل بہاء الدین کے بقول اس مضمون کا مقصد ہے: ’’دوسروں کو قبول کرنا‘ نیز ترقی کی اقدار‘ اخلاقِ حمیدہ‘ تعاون‘ صداقت اور لوگوں کے ساتھ رحم و حسنِ سلوک پر آمادہ کرنا‘‘۔ کانفرنس کے اختتام پر ’’اعلانِ قاہرہ‘‘ جاری ہوا۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اور امریکا کے زیرنگرانی اس قسم کی کانفرنسیں اب ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ئ‘ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء میں منعقد ہوں گی‘ جن میں یہ دیکھا جائے گا کہ تعلیم و تربیت کے نصابوں میں امریکا کے حسبِ منشا کس قدر تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔ اس عنوان سے ایک کانفرنس امریکی ریاست جارجیا میں پہلے ہی منعقد ہوچکی ہے۔مغرب کو خوش کرنے کے لیے‘ اپنے نصاب ہاے تعلیم میں تغیروتبدل کر کے نام نہاد مسلمان حکمران خدا کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں۔
۱- قاہرہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس نہیں ہے جس میں دنیاے عرب اور عالمِ اسلام کے نصاب ہاے تعلیم کو مغربی نقطۂ نظر کے مطابق ڈھالنے اور صہیونیوں کے ناپاک منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے راستہ ہموار کیا گیا ہو‘بلکہ گذشتہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے اس قسم کی کانفرنسیں اور اجلاس خفیہ و علانیہ‘ سرکاری و غیرسرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے مباحثوں کا بھی اہتمام ہوا ہے جن کا مقصد اسرائیل سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا رہا ہے۔ امریکی اور یورپی دارالحکومتوں میں ایسی کئی کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں جن میں مسلم ممالک کے بڑے بڑے ذمہ دار شریک ہوئے اور وہاں سے ملنے والی ہدایات کو اپنے اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
۲- کئی عرب ممالک کی وزارتِ تعلیم نے صہیونیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کی خاطر نصابِ تعلیم سے وہ تمام امور حذف کر دیے ہیں جن سے یہودیوں کی مجرمانہ تاریخ کا اظہار ہوتا ہے‘ نیز نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور تاریخی مواد بھی خارج کر دیا گیا ہے جس سے یہودیوں کی عیاری‘ مکاری‘ غداری اور منافقت سے آگہی ہوسکتی ہے۔ اسلامی فتوحات اور دین اسلام کے فروغ کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کیا گیا ہے۔
۳- ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد دینی تعلیم کو ختم کروانے کے لیے ایک بھرپور مغربی صہیونی مہم کا آغاز ہوا۔ اب وسیع پیمانے پر دینی تعلیم کو ’’ممنوع‘‘ قرار دینے کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ’’تعلیمی ترقی‘‘ کے نام سے ہونے لگا ہے تاکہ آیندہ نسلوں کی تربیت‘ دینی اخلاق و اقدار کے مطابق نہ ہونے پائے۔
۴- اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیم اور دینی اداروں کے خلاف یہ حملہ قدیم استعماری صلیبی حملوں ہی کا تسلسل ہے اور یہ حملہ اپنے اہداف و مقاصد میں ان سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ قدیم استعمار نے اسلامی تعلیم کو محدود کر کے اسلامی ممالک میں ایسے اسکول قائم کیے تھے جن کا مقصد طلبہ کو مسیحی بنانا اور مغرب زدہ کرنا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کی نگرانی مشنری مسیحی اور سامراجی ایجنٹوں نے کی۔ یہ ادارے اب تک اپنے مذموم مشن میں مصروف ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران استعمار کے قائم کردہ اداروں کی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کس قدر کوشاں ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کے ایک معروف مسیحی کالج کو جسے بھٹو دور میں قومیالیا گیا تھا‘ اب ازسرنو غیرملکی عیسائیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس کا سربراہ امریکی عیسائی ہے۔ اب اس کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ بھی مل چکا ہے۔
۵- واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی صہیونیت اسلامی تعلیم کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگاتار پس پردہ کام کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ تحقیق و مطالعہ ہے جسے ’’گروپ ۱۹‘‘ نے‘ جس میں امریکی ماہرین و سیاست کار شامل ہیں--- امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سپرد کیا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کا عنوان ہے: ’’اسلامی دہشت گردی کے نفسیاتی پہلو‘‘۔ اس مطالعے میں عرب و مسلم ممالک کو اپنے نصاب ہاے تعلیم اور نشریات و اطلاعات کے پروگراموں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی نصابوں کو ابتدائی مرحلوں سے تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
۶- بلاشبہہ اس مسلسل حملے کے نتیجے میں کئی اہداف پورے ہو چکے ہیں‘ درسی مواد تبدیل ہوا‘ کئی اسلامی ادارے بند ہوئے‘ بہت سے مسلم ممالک میں دینی تعلیم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یہ سارے مقاصد سامراج نے مسلم ممالک پر مسلط کردہ اپنے اُن گماشتوں کے ذریعے حاصل کیے جنھیں کہیں فوجی انقلاب کے ذریعے یا مادی مفادات کے پیشِ نظر سامنے لایا گیا۔
ان مغربی منصوبوں پر عمل درآمد کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور ایک طرح کا ارتداد کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ایک متحد و زندہ اُمت کا ثبوت پیش کریں‘ ورنہ مغرب کے گماشتے سامراجی مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پوری اُمت کے مستقبل کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔