نومبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

اجتماع عام کا پیغام

قاضی حسین احمد | نومبر ۲۰۰۴ | اجتماع عام

Responsive image Responsive image

یہ اجتماع اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے منعقد ہوا ہے۔ ہمیں یہ اجتماع پاکستان کے قلب لاہور میں مینارپاکستان پر منعقد کرنا تھا جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی‘ جس کے سامنے مسلمانوں کی عظمت کی نشانی بادشاہی مسجد ہے‘ جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال کا مزار ہے۔ لاہور کو مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کے لیے مرکز بنایا تھا۔ اس شہر لاہور کے باشندے ملک بھر سے آنے والوں کی میزبانی کے لیے بے چین و بے قرار تھے‘ لیکن حکومت نے آخری دنوں میں ہمیں اجتماع عام منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہم چاہتے تو اس کے باوجود بھی اجتماع کر سکتے تھے لیکن ہم نے تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا‘ حالانکہ حکومت نے یہی نقشہ بنایا تھا کہ ہم تصادم کے راستے پر چل پڑیں۔ اس طرح ہم نے حکومت کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور فیصلہ کیا کہ اُس صوبے میں جہاں متحدہ مجلس عمل نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اور جس نے جہاد افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں یہ اجتماع منعقد کریں۔

اجتماع عام کا مرکزی موضوع وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام کتابوں میں اور قرآن پاک میں بھی ہمارا نام مسلم رکھا ہے جو اللہ کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جو شریعت نافذ کی وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں اور جدوجہد سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ ہمارے لیے مکمل اور غالب دین چھوڑا گیا ہے۔ اس دین کے ہم امین ہیں۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس دین کے نفاذ کے لیے کیا کوشش کی اور کیا قربانیاں دیں۔

ہمیں شہادت حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ اُمت کا فریضہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کی علم بردار بن کر اٹھے۔ یہ اُمت دہشت گرد اُمت نہیں ہے‘ یہ عدل و انصاف اور امن و امان کی ضامن اُمت ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ آج (جمعہ یکم اکتوبر) کو سیالکوٹ کی ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا ہے اور ۲۰ سے زائد مسلمان شہید ہوگئے ہیں۔ یہ اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے۔

آج فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور شیشان میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم ہے۔ ہمیں دشمنانِ اسلام کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ لوگوں کو خیر کی طرف بلانا اور عدل و انصاف کا قیام ہم پر فرض ہے۔ یہ کام اکیلے نہیں متحد ہوکر کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی‘ اخوان المسلمون‘ علماے کرام‘ دینی جماعتیں اور تبلیغی جماعتیں اس فریضے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنائی ہے۔

جماعت اسلامی خالصتاً اور کلیتاً وہی دعوت لے کر اٹھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ہم اس میں نہ کسی کمی بیشی کے مجاز ہیں نہ ہم نے اس میں کوئی کمی بیشی کی ہے۔ ہمارا     اول و آخر حوالہ قرآن و سنت ہے۔ہم لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلاتے ہیں۔ دنیا کے مسلمان کسی ایک لیڈر پر نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر متحد ہوسکتے ہیںاور متحد ہیں۔ یہ اجتماع عام اُمت مسلمہ کا اجتماع ہے۔ دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کا گلدستہ بن گیا ہے۔ ہماری حقیقی زندگی اسلام ہے اور اسلام ایک ہی ہے‘ کوئی لبرل اور ماڈریٹ اسلام نہیں۔

رب العالمین کی طرف سے رحمت للعالمینؐ جو پیغام لے کر آئے ہیں ہم اُس کے داعی ہیں۔ اس پیغام کو بالآخر غالب آنا ہے۔ حق قوت اور روشنی عطا کرتا ہے‘ ہم پوری دنیا کو ایک بستی سمجھتے ہیں۔ ہمارے رسولؐ پوری عالمِ انسانیت کے لیے آئے تھے۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہم سب میں عزت دار وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ عورتوں کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ وہ اللہ کے راستے پر چلیں اور حق و عدل کی علم بردار بنیں۔

جنرل مشرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے ماڈریٹ اسلام اور لبرل اسلام جیسی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام نے منکرات کو حرام قرار دیا ہے اور عریانی و فحاشی کا سختی سے مخالف ہے۔ اسلام میں فوجی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ جنرل مشرف‘ اتاترک اور صدربش جیسے لوگ اسے تبدیل نہیں کرسکتے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صدمسلم اکثریت والا کشمیرجب بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بھی دہشت گردی ہے۔ اس طرح فلسطین میں یہودیوں کو بسایا گیا اور کہا گیا کہ یہ اسرائیل ہے‘ اسے تسلیم کر لو اور جو تسلیم نہیں کرے گا وہ دہشت گرد ہے۔ شیشان‘ عراق‘ افغانستان میں ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔ یہ استعماری طاقتیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں اور ہمیں ہی دہشت گرد قرار دے رہی ہیں۔

میں یہ بات بھی واضح کرناچاہتا ہوں کہ ہم پوری انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر امریکا اسلام سے کوئی مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو ہم سے مکالمہ کرے۔ جنرل مشرف اسلام اور عالمِ اسلام کے نمایندے نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ملک کے جمہوری و آئینی اداروں پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے۔ ہم سول معاملات میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کو سیکولر بنایا جا رہا ہے‘ دینی مدارس میں مداخلت کی جا رہی ہے‘ پاک فوج کو امریکا کا کرائے کا پٹھو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے تصادم کے بجاے مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے ۱۷ویں آئینی ترمیم پر معاہدہ کیا جس کے مطابق قومی سلامتی کونسل کو آئین سے نکالا گیا اور صدر جنرل مشرف نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک وردی اتارنے کا وعدہ کیا‘ لیکن اب ہمارے ساتھ دھوکا دہی کی جا رہی ہے‘ جب کہ مجلس عمل نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ جنرل مشرف فریب دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے ۱۴ کروڑ عوام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ۳۱دسمبر کے بعد جنرل مشرف کو ایک دن کے لیے بھی صدر نہیں مانیں گے۔ ہم انھیں دستور کی خلاف ورزیوں کا مرتکب اور دستور کو نظرانداز کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والا قرار دیں گے۔ ملک کو بچانے کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

موجودہ حکمران امریکا کو خوش کرنے کے لیے وزیرستان اور وانا کے عوام پر بمباری کرارہے ہیں‘ یہ سب کچھ فوج کے مورال کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھارت‘ اسرائیل اور امریکا سب کی سازش شامل ہے۔ قبائلی علاقوں میں کوئی القاعدہ نہیں‘ وہ مقامی لوگ ہیں جنھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ آپریشن ملک کے آزادی پسند عوام کے خلاف ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ امریکا کی دہشت گردی میں اس کا اتحادی بننا ہے۔ اسلام دہشت گرد نہیں ہے۔ قرآن کریم نے تو ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا ہے۔ ہم نے ایٹم بم بنایا ہے لیکن یہ کسی مظلوم و معصوم پر گرانے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تاریخ تو امریکا کی ہے جس نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے تھے۔

امریکا ہمارے پُرامن ایٹمی پروگرام کو بند کرا رہا ہے۔ وہ کشمیر میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد کا درجہ دلا کر اس خطے میں بھارت کی اس طرح بالادستی چاہتا ہے جس طرح عرب ممالک میں اسرائیل کو بالادست بنا رہا ہے‘ اور اب ہمارا حکمران اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ہم فلسطین کی ایک انچ زمین پر بھی اسرائیل کے قبضے کو قبول نہیں کرتے اور نہ کشمیر کا سودا کرنے کی ہی کسی کو اجازت دیں گے۔

جنرل پرویز مشرف جو آمرانہ اقدامات کر رہے ہیں‘ ان کے خاتمے کا وقت قریب آگیا ہے۔ میں اے آر ڈی والوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اگر وہ ۱۷ویں ترمیم کے خلاف ہیں تو دستورمیں تبدیلی آئینی طریقے سے ہی ہوگی‘ تاہم قرارداد مقاصد‘ قادیانیوں کے خلاف دفعات‘ اسلامی اور حدود سے متعلق دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے پر سب متفق ہیں ‘ اور جن پر اتفاق نہیں ہے انھیں افہام و تفہیم سے آئینی طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ ہم ۱۷ویں ترمیم پر کوئی معذرت نہیں کرتے۔ ہم نے اس کے ذریعے ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا اور صدر کو وردی اتارنے کی ڈیڈ لائن طے کرائی۔ یہ ہماری کامیابی ہے۔ اے آر ڈی‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور پونم سے ہم کہتے ہیں کہ اگر یہاں انصاف اور دستور کے مطابق حکومت چلانا ہے تو مل کر فیصلہ کرلیں کہ فوجی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ ہم تو فیصلہ کرچکے ہیں کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد جنرل مشرف کو وردی میں صدر نہیں رہنے دیں گے۔